ایک عالمِ دین کے پانچ سوالات [2]۔ محمد دین جوہر

 In تنقید

تیسرا سوال: عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فکری مباحث پر ایک درک دیا ہے۔ ہمارے خیال میں آپ سے ہمارے ملک پاکستان کے مذہبی احوال کے پیشِ نظر بغیر مذہبی اختلافات کو پردہ بنائے استفادہ کرنا چاہیے (مگر شاید ہم غلط بھی سمجھے ہوں)۔ آپ کی بعض مذہبی جھلک لی ہوئی تحریروں یا سیاسی تحریروں میں جو شدت/کھردرا پن ہوتا ہے اس سے بہت سے کسی نا کسی حد تک مختلف سیاسی یا مذہبی مسالک سے جڑے یا منسلک ذہنوں کو چوٹ پہنچتی ہے (ہم یہاں پر باقاعدہ کارکن یا لیڈروں کی بات ہر گز نہیں کر رہے)۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنے موقف پر جزم اور اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ، آپ اپنی تحریر میں اتنی وسعت دیں کہ سب آپ سے استفادہ کر پائیں؟ ہم خدا معاف رکھے موقف کے دو ٹوک اور اس کے مکمل اظہار میں مصلحت اختیار کرنے کی عرض ہر گز نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں بعض بظاہر روایتی مگر بباطن مذہبی جدیدیوں کی طبیعت ہے۔ مگر تھوڑی سی وسعت کی درخواست بہر حال ضرور ہے۔

جواب: علم، فرقہ وارانہ نہیں ہو سکتا اور میرا مقصود کبھی فرقہ وارانہ نہیں رہا۔ میں ضرور کوشش کروں گا کہ آپ کے ارشادات گرامی کی پاسداری کر سکوں۔

چوتھا سوال: آپ کے سیاسی موقف کی ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی، آپ نیشنل ازم کے بھی مخالف ہیں۔ استعمار کے علمی و عملی ناقد ہیں۔ مگر سیاسی نظریات میں بظاہر استعماری مواقف پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ جدید ریاست کی ’’حقیقت‘‘ ہمیں آپ کی تحاریر سے ہی معلوم ہوئی ہے۔ مگر آپ پاکستان، جو کہ ایک جدید ریاست ہے، کے ریاستی پالیسیوں کی مکمل خود سپردگی لیے ہوئے تائیدی مواقف پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ کیونکر دو قومی نظریے کے قائل ہیں جب کہ آپ دو قومی نظریہ میں لفظ قوم کی مراد سے ہم سے زیادہ واقف ہیں۔ اور اس کے مذہبی تڑکے لگائے جانے کو بھی آپ جانتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ نظریہ پاکستان ایک مذہبی سیاسی نظریہ ہے جس میں ہند کے مسلمانوں کی حیات پنہاں تھی اور ہے۔ علما کیوں اس کے پیدا کرنے اور سمجھنے سے قاصر رہ گئے اور غیر علما نے ایک تہذیبی نظریے کو پیدا کیا اور اس کو سمجھا اور اختیار کیا۔ اسی ضمن میں ہماری گزارش ہے کہ ہمیں جدید ریاست میں بطور مسلم کس لائحہ عمل کے تحت کام کرنے اور رہنے کی ضرورت ہے؟ اس پر بھی ضرور کچھ ارشاد فرمائیں۔

جواب: گزارش ہے کہ آپ کا یہ سوال ہی اصل سوال ہے اور ہمارے تہذیبی بحران کی جڑ ہے۔ برصغیر میں ہمارے موجودہ احوال و حالات کی تفہیم کے لیے صرف دو مباحث کو دیکھ لینا کافی ہو سکتا ہے:  (۱) درست عقیدے کی بحث؛ اور (۲) درست سیاسی عمل کی بحث۔ اصل تباہی یہیں ہوئی ہے کیونکہ ہمارے ہاں بحثِ عظیم درست عقیدے کے سوال پر ہوئی اور نئے توحیدی نظریات سامنے آئے جو بہت جلد ایک سیاسی عمل میں کھپ گئے۔ بنیادی طور پر یہی دو سوالات بالآخر ہمارے موجودہ لاینحل تہذیبی بحران کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ آپ کا سوال اس مسئلے کا بہت اچھا خلاصہ بھی ہے۔ اس مسئلے کا فکری حل پیش کرنا تو اہلِ علم کا کام ہے، میں نے اس مسئلے پر گفتگو کے امکان کو بساط بھر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

گزارش ہے کہ ہم عصر فکری، معاشی اور سیاسی حالات سے قطع نظر، ہمیں اجتماع کے حوالے سے الوہی ہدایت کے بنیادی مطالبات پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جنہیں مجموعی طور پر نظام عدل و قسط کہا گیا ہے۔ یہ بنیادی ترین مطالبات چار ہیں، دو سیاسی اور دو معاشی: حدود کا نفاذ اور جہاد کی تیاری سیاسی ہیں، سود کا خاتمہ اور زکٰوۃ کا اجرا معاشی ہیں۔ کوئی بھی مسلم معاشرہ یہ مطالبات صرف اسی صورت میں پورے کر سکتا ہے کہ جب وہ سیاسی طاقت کے حصول کو ممکن بنا دے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عدل و قسط اصلاً طاقت ہی کا نظام ہے، اور یہ صرف متن کی درست خواندگی سے قابلِ حصول نہیں ہے۔ اس میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ متن کی درست خواندگی صلاحیتِ شعور کے درست اظہار سے مشروط ہے جبکہ طاقت کا قیام قومی ارادے سے تاریخ میں واقع ہوتا ہے۔ ہمارے اہل علم اپنی خواندگی کا جھنڈا اٹھا کے چل پڑتے ہیں اور تاریخ کو بھی ’سمجھانے‘ کی کوشش کرتے ہیں جبکہ تاریخ ’سمجھنے والی‘ کسی شے کا نام نہیں ہے۔ تاریخ قومی ارادے سے تبدیل ہوتی ہے۔ متن کے ساتھ ساتھ، صورت حال کی فہم بھی ضروری ہے اور اس کا فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے۔

ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ اگر معاشرہ نظام عدل و قسط سے محروم ہو تو ننھا بچہ الف بے بھی ٹھیک سے نہیں سیکھ سکتا، نماز روزہ بھی درست نہیں رہتا، حرف و معنی بھی ٹھٹھر جاتے ہیں، اور آفاق کی نکبتیں انفس کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیتی ہیں۔ مذہبی احکام یقیناً مطلق ہیں لیکن ان کی ہیئت حکمی میں تاریخ ایک طاقتور ترین عامل کے طور پر داخل ہے۔ انفس میں ایمانیات کے قرار پکڑنے میں تاریخ کا پیدا کردہ علم حائل ہوتا ہے، اور آفاق میں شرعی عمل کا اظہار تاریخی عوامل ہی کے لازماً روبرو ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر بحث ان مطلق احکام کی ہیئت حکمی پر واقع ہوئی ہے جس میں نااہلی اور عدم استعداد نے مسئلے کو لاینحل بنا دیا۔ اس حوالے سے دارالحرب کی بحث کو دیکھ لینا کافی ہے۔

مطلق شرعی احکام کا مخاطب مسلمان ہے، تاریخ نہیں ہے، اور جب وہ ان احکام کا فاعل بن کر تاریخ کو دیکھتا اور ان احکام کو براہ راست تاریخ سے متعلق کر دیتا ہے تو یہ ’باقی‘ مسلمانوں پر ایک ججمنٹ بن جاتے ہیں جو ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ کا طریقۂ کار ہے۔ اس میں یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ آفاق، یعنی تاریخ اور نیچر، جو اجتماعی انسانی عمل کا ظرف ہے کسی خالی ظرف کا نام نہیں ہے بلکہ عصر حاضر میں وہ ظرف مکمل طور پر ایسے ہمہ قسم اعمال سے بھر چکا ہے جو جدیدیت کے پیدا کردہ ہیں۔ اس صورت حال کا تجزیہ کرنے اور عمل کا راستہ تلاش کرنے کی بجائے ہم ’اسلامی‘ و ’غیر اسلامی‘ کی بحث لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سوائے ایسے امور کے جو ابوجہل جیسی صراحتی شناخت رکھتے ہیں، ہم سب کچھ ’اسلامی‘ کر چکے ہیں۔ اس کے لیے متحدہ قومیت اور اس پر ہمارے محترم علما کی دادِ سخن دیکھ لینا کافی ہے۔

متحدہ قومیت اور دارالحرب کی طرح کے دیگر موضوعات پر ہمارے خانگی مباحث کے چار براہ راست نتائج نکلے ہیں: (۱) دینی احکام کو بدلتی ہوئی تاریخ میں، اور فلسفے اور نظریات کی آمیزش کے بغیر، صراحت کے ساتھ سربلند رکھنا ہمارے علمائے سلف کی غیرمعمولی روایت تھی۔ گزشتہ تین سو سال سے یہ روایت بتدریج ختم ہو چکی ہے؛ (۲) جدید تاریخ اور اس میں جدیدیت کے زیراثر ظاہر ہونے والے افکار و اعمال کی تفہیم کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔ یہ تفہیم اس لیے ضروری تھی کہ ہماری تہذیب جس محاصرے میں ہے وہ انہی افکار و اعمال سے عبارت ہے؛ (۳) ہماری مذہبی دانش کا سب سے بڑا کارنامہ کسی موہوم ”اسلامی انقلاب“ اور ”اسلامی نظام“ کی دریافت اور اس کی ایک سیاسی نعرے میں تشکیل ہے۔ یہ مکمل طور پر مغربی دانش کا مذہبی چربہ ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اس عمل سے ترکِ شریعت کے داعیات ’اسلامی‘ رنگ میں ظاہر ہونے لگے۔ ہمارے علما نے جدیدیت کے افکار و اعمال کی علمی تفہیم کو قطعی غیرضروری سمجھا ہے لیکن اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہر طرح کی مغربی چیزوں کو بےدھڑک استعمال کرنے میں کوئی قباحت خیال نہیں کی، مثلاً پارٹی بنانا، تحریک قائم کرنا، انقلاب کا تصور ادھار پر اٹھانا، سسٹم کو اسلامی فرض کر لینا، متحدہ قومیت جیسے نظریات کی علمی تنقیح کے بغیر ان کو مذہبی اساس دینے کی کوشش کرنا وغیرہ وغیرہ؛ (۴) ہماری دینی اقدار کی توسیط کرنے والے علم کی تشکیل و تعمیر کے امکانات کا خاتمہ ہو گیا، اور ایسا علم بھی فراہم نہ ہو سکا جو جدیدیت کے ورلڈ ویو کی تفہیم کو ممکن بنا دیتا۔

آپ نے دو قومی نظریے کے بارے میں میرے موقف پر بھی استفسار فرمایا ہے۔ اس تناظر میں ایک سوال ضروری ہے تاکہ علما کے سیاسی عمل کی ’اسلامیت‘ معلوم ہو سکے، اور وہ یہ ہے: ”کیا مسلمانوں کے بالمقابل مشرکین سے سیاسی اتحاد کرنا شرعاً جائز ہے؟“ اور اس سوال کا جواب ہمارے علما کے پورے سیاسی عمل اور اس کے عنوانی موقف کو منہدم کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ میں یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ کیا مسلمانوں کی حکومت مشرکین یا کفار سے کوئی معاہدہ یا سیاسی معاملات کر سکتی ہے یا نہیں؟ یہ سوال نہیں ہے۔ پھر اگر ان کے سیاسی منشور کو دیکھا جائے تو وہاں تمام شرعی سیاسی مقاصد غائب ہیں، اور فلسفے نظریے وغیرہ حاضر ہیں اور اِن کی سیاسی و تہذیبی سطح نہایت پست ہے کیونکہ وہ تاریخ سے مطلق انکار پر کھڑے ہیں اور اس وقت کے بنیادی ترین سوال کو اڈریس ہی نہیں کر رہے۔ بنیادی سوال اقتدار میں شرکت یا اس کا حصول تھا۔ یہ علما کا سوال ہی نہیں تھا۔ تقسیم کے بعد بھارت کے مسلمانوں کی depoliticization ایک ایسی ہلاکت آفرینی ہے جو علما کے سیاسی موقف (جو اصلاً سیاسی ہے ہی نہیں) کا براہ راست نتیجہ ہے اور علما ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ علما کے موقف کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کی تہذیبی بقا کے تمام وسائل کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا اور ابھی تک یہی صورت حال ہے۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں علما کو اقتدار کا شوق چرایا اور قومی سیاسی عمل مسخ ہو کر رہ گیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کو مسترد کر کے پاکستانی عوام نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس صورت حال میں سب سے بڑا التباس ”علما کا سیاسی عمل کیا ہے؟“ اور ”اسلام کی سیاسی تعلیمات کیا ہیں؟“ کے درمیان تساوی فرض کر لینے سے پیدا ہوا ہے۔ اسلام کی سیاسی تعلیمات ہونے کا یہ مطلب تو بالکل بھی نہیں ہے کہ علما اپنی صلاحیتِ متن خواندگی کو بنیاد بنا کر سیاست شروع کر دیں۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

گزارش ہے کہ جدید تاریخ طاقت اور سرمائے کے ایک عالمگیر سسٹم کا نام ہے جس میں ’اسلامی‘ کوئی شے نہیں ہے۔ طاقت، سرمائے، علم اور کلچر کی تمام تر جدید ساختوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن انہیں مسلمانوں کی زندگی پر مکمل ترین تمکن حاصل ہے۔ مثلاً ریاست خدا کی replacement ہے، سرمائے کی مکمل وجودیات و فعلیات اللہ کے خلاف بغاوت اور اعلان جنگ کی مستدعی ہے، جدید علم ہدایت کی جگہ لینے کا داعیہ رکھتا ہے، جدید کلچر دنیا پرستی کی مکمل ترین تشکیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ان سے باہر کوئی وجود رکھتا ہے، یا اس کا وجود پذیر ہونا ممکن بھی ہے؟ دنیا کے سارے انسانوں کی طرح مسلمانوں کو بھی عین یہی صورت حال درپیش ہے۔ انسانی معاشروں کی بقا ان تاریخی مؤثرات پر مکمل انحصار رکھتی ہے۔ یعنی انسانی معاشروں کی بقا کے لیے اقتدار اولین شرط ہے، اور اقتدار کے حصول کا کوئی شرعی ذریعہ بھی فراہم نہیں ہے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ دو قومی نظریہ اور اس سے فروع پانے والا سیاسی عمل اسی صورت حال کا درست ترین جواب تھا۔ لیکن موجودہ گفتگو کی تحدیدات میں یہی عرض کر سکتا ہوں۔ یہ موضوع تفصیل طلب ہے اور انشاءاللہ اس پر گفتگو کو جاری رکھیں گے۔ 

پانچواں سوال: ہم آپ کو ایک مذہبی آدمی سمجھتے ہیں جس کی زندگی کا محور و مرکز دین اسلام ہی ہے۔ ہمیں اس بارے کچھ بتلائیں کہ ایک مذہبی نوجوان چاہے مدارس دینیہ سے منسلک ہو یا اسکول و کالج وغیرہ سے اس کے لیے عہد جدید میں دین کی خدمت کے لیے کیا متعین طریق ہونا چاہیے؟ ہم آپ کو ہر گز کوئی پیرِ طریقت اور رہبر شریعت نہیں جانتے مگر بطور ایک دانش مند مسلمان اور عمر کے تجربے کے بعد آپ کی رائے اس بارے کیا ہے؟ اگر ہمیں آپ اراة الطریق ہی کرا دیں تو انشا اللہ تعالٰی بہت نفع ہو۔

جواب: یہ تو آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی کہ ”ہم آپ کو ہر گز کوئی پیرِ طریقت اور رہبر شریعت نہیں جانتے“ اور یہ کہ ”ہم آپ کو ایک مذہبی آدمی سمجھتے ہیں“۔ اس پر میں آنجناب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کے استفسار پر عرض ہے کہ اگر ”دین کی خدمت“ کا جوا تھوڑی دیر کے لیے اتار دیا جائے تو زیادہ درست پوزیشن پر کھڑے ہو کر بات ہو سکتی ہے۔ ہم لوگوں نے ”دین کی خدمت“ کی ردیف بھی جدیدیت سے پکڑی ہے، مثلاً انسانیت کی خدمت، قومی خدمت، عوام کی خدمت، تعلیمی خدمت وغیرہ تو لہٰذا دین کی خدمت۔ ہم جو آج کل دین کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں اس سے یہ سلامت بچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہو گا۔ 

بحیثیت مسلمان ضروری ہے کہ نوجوان تین ایسی چیزوں کو لازم پکڑیں جن میں التوا کی کوئی گنجائش نہیں ہے: (۱) روایت کے منتقل کردہ عقیدے پر اپنے ایمانی احوال کی درستی؛ (۲) اپنی مذہبی اور اخلاقی خودی (religious               and               moral               self) کی اسوۂ حسنہ پر تشکیل، یعنی حصولِ تقویٰ کی مسلسل کوشش؛ (۳) دنیا (تاریخ اور فطرت) کو ثقہ نظری علوم کی شرط پر سمجھنے کی کوشش تاکہ دنیا کو ہر رنگ میں پہچاننے کی استعداد بہم ہو سکے۔

اس میں ایک دو چیزیں وضاحت طلب ہیں۔ جدید عہد میں علم وجود کے تابع نہیں ہے بلکہ وجود علم کے تابع ہے، اور جدید علم، ایجادِ وجود کے ایک پورے سلسلے پر منتہی ہو رہا ہے، یعنی جدید علم بہت تیزی سے ایک نئے سلسلۂ وجود (Order               of               Being) کو سامنے لا رہا ہے۔ جدید علم وجودِ فطرت کے تابع نہیں بلکہ اس پر لگائی ایک جاری نقب ہے تاکہ فطری سلسلۂ وجود کو تاراج (plunder)  کر کے اسے اپنے پیدا کردہ سلسلۂ وجود میں کھپایا جا سکے۔ جدید علم، جدید انسان کے خود ایجاد کردہ غیرمستحکم سلسلۂ وجود کے تابع ہے۔ اس نئے سلسلۂ وجود میں جدید انسان کے لیے سب سے مشکل اپنی انسانیت کو باقی رکھنا ہے کیونکہ وہ خود بھی ایک وجود ہے اور صرف فطری سلسلۂ وجود سے ہم آہنگ تھا۔ جدید سلسلۂ وجود نے انسان پر تسویہ کے غیرفطری مطالبات مسلط کر دیے ہیں۔ اخلاقیات انسان کے انسان رہنے کا اولین مظہر ہے۔ لیکن جدید اخلاقیات نفسی نہیں عملی ہے اور اس کا سرنامہ ’ڈسپلن‘ ہے، اور یہ مشین اور آرگنائزیشن کے شرط پر انسان کو میکانکی بنانے کی پوری تقویم ہے۔ بطور مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی مذہبی اور اخلاقی خودی (selfhood) میں بنیادی امتیازات پیدا کریں، اور اپنی اخلاقی خودی کو اپنی مذہبی خودی کی بنیاد بنائیں۔ ہمیں آگاہ رہنے  کی ضرورت ہے کہ جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں مذہبی اعمال مکمل طور پر میکانکی ہو سکتے ہیں اور مکارم الاخلاق اس کا تریاق ہے۔

دوسری بات بھی ہمارے لیے اتنی ہی اہم ہے کہ  ہمیں جدید دنیا کو اپنے دینی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی حقیقت بکری کے مردہ بچے جیسی ہے، اس کی وقعت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، اور یہ اپنی درپیشی میں آزمائش ہے، اور اپنے مظہر میں ضرورت اور کشش کی تاروں سے بنی ہوئی چمٹ جانے والی مقناطیسی چادر ہے۔ صدر اول سے دوری کی وجہ سے دنیا طاقتور ہو گئی ہے، اور مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ روایتی طور پر تاریخ فعال اور فطرت منفعل تھی۔ جدید علوم اور ان کے پیدا کردہ واقعاتی نظام کی وجہ سے اب یہ دونوں جارحانہ طور پر فعال ہیں، اور جو انسانی شعور و عمل کو اپنے اندر جذب کر لینے کی مکمل استعداد رکھتے ہیں۔ مسلمان سے دنیا میں ایک مسافر کی طرح زندگی گزارنے کا مطالبہ ہے لیکن اب وہ پناہ گزینوں کی طرح جینے پر راضی ہیں۔ دنیا بھر کے ان پناہ گزینوں کو تاریخ اور فطرت کے سیل حوادث میں چٹانِ ہدایت کی طرف لوٹ آنا چاہیے اور ایک نیا سفر آغاز کرنا چاہیے۔ ہمیں ہر لمحہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جدیدیت نے دنیا کو ایک واقعاتی شبستانِ وجود میں بدل دیا ہے: 

[Or               they               are               as               shadows               upon               a               sea               obscure               covered               by               a               billow               above               which               is               a               billow               above               which               are               clouds,               shadows               piled               one               upon               another;               when               he               puts               forth               his               hand,               wellnigh               he               cannot               see               it.               And               to               whomsoever               God               assigns               no               light,               no               light               has               he.                             (A. J. Arberry)]

ختم شد                                                                                                    

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search