تقریباً جرم، تقریباً فرد جرم۔ تحریر: ش ر، عبدالرحمان قدیر

 In تاثرات

(تقریباً جرم کی ایک فرضی مثال ۔ ش ر)

ساۓ
ابنِ عربی کا ایک قول نظر سے گزرا، گہرائی اور معنویت سے لبریز! کافی دیر سر دھنتا رہا۔۔۔۔ پھر پاکستان میں ڈیموں کی ضرورت پر ایک کالم دیکھا، چند سطریں پڑھیں، ایک بیوروکریٹ دوست نے لکھا تھا لہذا لائک  کر دیا۔ شبنم شکیل کی ایک دل کو چھو لینے والی غزل سنی، پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سماجی ارتقا کے فلسفے پر ایک لیکچر نظر آیا، احتیاطاً وہ بھی تھوڑا سا سن لیا۔ لیکچر کے دوران تھوڑا سا نیچے چیک کیا تو ناہید اختر اپنی مدھر آواز میں گا رہیں تھیں۔ اب اسے کیا کہا جائے کہ میں شروع ہی سے ناہید اختر کی آواز کا مداح رہا ہوں۔

(تقریباً فرد جرم۔ عبدالرحمان قدیر)

پاکستانی فیسبک دانشوروں سے بھری پڑی ہے اور ہر روز کئی کروڑ الفاظ لکھے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری ذہنی ترقی ناپید ہے۔ شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ ہر بندہ بس اپنی unfiltered زندگی کو ہی شیئر کر رہا ہے اور ہر بندہ بغیر کسی چیز کی سمجھ بوجھ ہونے کہ بس ”قلم اٹھانے“ اور اٹھانے پر بضد ہے۔ ہر دانشگر حضرت اور خاتون کی کوشش ہوتی ہے کہ کرکٹ سے ہوتے ہوئے سیاست سے لے کر پیرنٹنگ اشوز سے اؤں ہو کر سائکالوجی سے ایوں ہو کر فلم اور موسیقی کے بھی وڈے ابو یا امی بن جائیں اور کوئی ایس کھڈ نہ رہے جتھے اساں ہتھل نا دتی ہووے۔ حتیٰ کہ کچھ انکلز اور آنٹیز جن کے گوڈوں میں ساہ ست نہیں ہے وہ آج کل ”یوتھ“ کے مسائل پر اکہتر بہتر اکہتر بہتر اکہتر بہتر کرتے رہتے ہیں اور آج کی یوتھ کے مسائل اور سوالوں کے انیس سو اسی والے جواب بتاتے ہوئے انہیں جدت اور ماڈرنٹی کی طرف راغب کرتے نظر آتے ہیں۔ اب ستم کی بات یہ ہے کہ یہ سب لوگ دانش-کلٹ کے ہر فرد کی پوسٹ پر لائیک اور کمنٹ دینا ضروری سمجھتے ہیں یعنی کہ ہر شخص نے ہر شخص کو جا کر کہنا ہے کہ ہائے ہائے کاش آپ میرے والد ہوتے۔۔۔ ہائے ہائے آپ تو ہیں ہی میری والدہ۔۔۔ یا پھر۔۔۔ میں قربااااااااااااان آپی۔۔۔ کیا ہی کمال لکھا ہے، کیا ہی شائستہ بولا ہے۔ ارے احباب۔۔۔ آپ پوچھ رہے تھے میرے گال اتنے چکنے کیوں ہیں تو یہ لیں پھر میری موسچورائزنگ والی ریسیپی۔ اچھا ساتھ تیل لازمی لگانا ہے۔۔۔ یہ تیل بھی مجھ سے ہی پوچھ لیں کہ کونسا لگانا ہے۔۔۔ تو پھر کم چُک کے رکھو۔۔۔ تیل لگا کے! وغیرہ وغیرہ۔ میں اس سارے ٹراما سے موو آن کر چکا ہوں لیکن ٹراما سے موو آن کر بھی جائیں تو یہ چیزیں کبھی کبھی دسمبر کی شاموں میں آ گھیرتی ہیں۔ اب تو دانشگردوں نے ٹراما کا لفظ بھی سیکھ لیا ہے اور دن رات اس نام کا چمتکار کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ لیکن بس کیا کریں۔۔۔ یہ مولوی سالے ہمارے ہاں ادب اور فن کو کہیں پنپنے ہی نہیں دیتے بھینس چور۔

Good     night

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search