رشید ملک: احوال و آثار: ڈاکٹر محمد اطہر مسعود
نوٹ: مذکورہ مضمون معروف محقق اور موسیقی شناس جناب رشید ملک (1924ء تا 2007ء ) پر لکھی جانے والی پہلی مبسوط تحریر ہے جو پہلی دفعہ ’’مقالات مسعود: برصغیر کی موسیقی پر تعارفی اور تحقیقی مقالات‘‘ (جلد اول) کے ذریعے منظر عام پر آئی ۔ ہم جناب ڈاکٹر محمد اطہر مسعود صاحب کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اس مضمون کی آن لائن اشاعت کے لیے اجازت مرحمت فرمائی ۔
برصغیر کی موسیقی پر عملی اور نظری دونوں حوالوں سے قابل ِ قدر تحقیقی کام بہت کم ہوا ہے ۔ بادی النظر میں اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔ اول یہ کہ موسیقی کے میدان میں بجا طور پر ہمیشہ عمل کو علم پر ترجیح دی جاتی ہے اور عالمِ بے عمل کی رائے عموماً مستند نہیں سمجھی جاتی ۔ دوم ، موسیقی سے وابستہ بالخصوص پیشہ ور حضرات بالعموم کم خواندہ یا بیشتر صورتوں میں ناخواندہ ہی ہوتے تھے ۔ عملی موسیقی کے بیشتر پہلوؤں پر حاوی اور صاحب الرائے ہونے کے باوجود ہمارے اکثر بڑے فنکار موسیقی پر لکھنا تو درکنار، اس موضوع پر سنسکرت ، فارسی یا بعد ازاں اردو، انگریزی یا دیگر علاقائی زبانوں میں لکھی گئی کتب کو پڑھنے سے بھی معذور تھے ۔ سوم یہ تلخ حقیقت کہ باقاعدہ سائنسی اور منطقی بنیادوں پر استوار علمِ موسیقی کو محض تفریح ِ طبع کا وسیلہ سمجھا جاتا رہا ہے اور چند استثنائی صورتوں کے علاوہ اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق یا تالیف ِ کتب کی ضرورت کو مناسب اہمیت ہی نہیں دی گئی ۔ تقسیمِ برصغیر سے پہلے اٹھارویں صدی میں فارسی زبان میں لکھی گئی نغمات ِ آصفی / اصول النغمات الآصفیہ اور بیسویں صدی میں بھات کھنڈے (1860ء تا 1936ء ) کی تالیف کردہ کتب کے علاوہ کم ہی کتب میں موسیقی کے کسی پہلو پر تحقیق کو سنجیدگی سے موضوع بنایا گیا ہے ۔
برصغیر میں انگریزوں کی آمد پر بالعموم اور 1857ء میں براہِ راست تاجِ برطانیہ کی عملداری میں آنے کے بعد بالخصوص مقامی آبادی کو جہاں جدید سائنسی علوم سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ، وہیں مختلف شعبہ ہائے علم و ادب میں تحقیق و تنقید کے بھی نئے در وا ہوئے ۔ چند صدیاں پیشتر جس طرح مسلمان نوواردوں نے برصغیر کی مقامی موسیقی میں دلچسپی لی تھی ، اسی طرح انگریزوں نے بھی اپنے زاویۂ نظرسے اسے دیکھا، پرکھا اور اس پر رائے زنی کی ۔ سر ولیم جونز (1746ء تا 1794ء )، کیپٹن ولرڈ اور چند دیگر اصحاب کی تالیفات اس حوالے سے اولین تحریروں میں شمار ہوتی ہیں ۔ بھات کھنڈے (1860ء تا 1936ء )اور اُن کے رفقاء مثلاً ٹھاکر نواب علی خان اور چھمن صاحب وغیرہ کی مساعی سے تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ آگے بڑھا اور پہلی آل انڈیا میوزک کانفرنس (بڑودہ 1916ء ) کے بعد اس میں خاصی تیزی آئی ۔ متحدہ ہندوستان میں فارسی زبان کا چلن تو تقریباً ختم ہو چکا تھا، لہٰذا یورپی مؤلفین نے انگریزی اور مقامی مؤلفین نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں موسیقی پر تحقیقی ، تنقیدی اور سوانحی حوالوں سے کتب تالیف کیں ۔ ان مؤلفین میں پنڈت وشنو نرائن بھات کھنڈے ، ٹھاکر نواب علی خان ، ایم آر گوتم اور سانیال وغیرہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں ۔
تقسیمِ برصغیر کے بعد ہندوستان میں تو موسیقی پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری رہا لیکن پاکستان میں بوجوہ صور تحال برعکس رہی ۔ 1950ء کی دہائی میں شاہد احمد دہلوی (1906ء تا 1967ء ) ، قاضی ظہور الحق (1909ءتا1989ء ) ، فیروز نظامی (1910ء تا 1975ء )اور چند دیگر اصحاب کے اِکا دُکا مضامین مختلف رسائل میں ضرور شائع ہوتے رہے لیکن ان کی نوعیت بیشتر تاثراتی ، سوانحی یاآموزشی تھی ، تحقیقی نہیں ۔ رشید ملک (1924ء تا 2007ء ) کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پہلی بار فن ِ موسیقی پر ٹھوس علمی اور تحقیقی انداز میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا اور بلاشبہ اسے جس معیار تک لے گئے ، وہ انھی کا خاصہ ہے ۔ مجلّہ فنون کے ابتدائی شماروں میں شائع ہونے والی آپ کی اوّلین تحریروں سے لے کر حینِ حیات میں شایع ہونے والی آخری کتاب ’’عہد وسطیٰ کا ہندوستان‘‘ (لاہور 2003ء ) آپ کی علمیت ، وسعتِ مطالعہ ، منطقی استدلال ، زبان و بیان پر قدرت ، جدید اندازِ تحقیق سے گہری واقفیت اور اسے اپنی تحریروں میں برتنے کی مہارت کا عمدہ ثبوت ہیں ۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اُن کے مطبوعہ اور غیرمطبوعہ آثار کے تفصیلی تعارف سے پہلے ایک نظر اُن کے احوال ِ زندگی پر ڈالنا مناسب ہو گا ۔ تاہم یہاں یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ موصوف کے حالاتِ زندگی اس سے پہلے کسی جگہ مذکور نہیں ۔ اکثر جینوئن بڑے آدمیوں کی طرح ملک صاحب بھی اپنی ذات کے بارے میں خود گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ لہٰذا دوران گفتگو برسبیل ِ تذکرہ اگر کوئی حوالہ ، واقعہ یا کوئی معلومات نوکِ زبان پر آ جائے تو اس سے گریز مشکل ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے انتہائی قریبی احباب کو بھی اُن کی ذاتی زندگی کے بارے میں بڑی محدود معلومات میسر ہیں ۔
تاریخ پیدائش 1924ء بتلاتے تھے جو سرکاری ریکارڈ میں بھی درج ہے ۔ آپ کے والد ملک غلام حسین متحدہ ہندوستان کے محکمہ ریلوے میں ملازم رہے تھے جنھیں پہلی جنگِ عظیم (1914ء تا 1918ء ) میں خدمات انجام دینے کے صلے میں ریاست بیکانیر میں زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی ۔ چنانچہ رشید ملک صاحب کی ابتدائی تعلیم سری گنگا نگر نامی قصبہ میں ہوئی جہاں سے میٹرک کرنے کے بعد جالندھر آ گئے اور یہاں سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے اکنامکس کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لے لیا ۔ کچھ عرصہ دیال سنگھ کالج ، لاہور میں جزوقتی لیکچرار اور پھر دارالحکومت کراچی میں اکنامک ریسرچ کے نو تاسیس ادارے میں چند ماہ بطور ’ اکنامک انویسٹی گیٹر‘ کام کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیا اور 1949ء میں پولیس سروس آف پاکستان کے پہلے بیچ میں بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ASP) منتخب ہوئے ۔ راولپنڈی ، سرگودھا اور ساہیوال میں بطور ASP اور مظفر گڑھ میں بطور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (SP) خدمات انجام دیں ۔ اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے کچھ عرصہ بعد پولیس سروس سے استعفیٰ دیا اور بظاہر اکاؤنٹینسی کی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے لیکن وہاں جا کر اس شعبے میں جی نہ لگا اور 1960ءکی دہائی کے آغاز میں پاکستان واپس آ گئے ۔ تاہم اپنے قیام انگلستان کے دوران وہاں کی لائبریریوں سے خوب استفادہ کیا اور بالخصوص برصغیر کی موسیقی پر کتب و مخطوطات کا مطالعہ اور مواد کی جمع آوری کرتے رہے ۔ وطن واپسی کے بعد تقریباً اگلے پچیس تیس برس متعدد نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں مثلاً پاکستان سٹیل ملز (کراچی) ، خرم کیمیکلز (راولپنڈی ) اور پاک عرب فرٹیلائزر فیکٹری (ملتان) وغیرہ میں مختلف انتظامی عہدوں پر فائز رہے لیکن تصنیف و تالیف سے رابطہ برقرار رہا ۔ 1964ء میں مجلّہ فنون میں اپنی پہلی تحریر کی اشاعت پر جناب احمد ندیم قاسمی (1916ء تا 2006ء ) سے استوار ہونے والا تعلق گہری دوستی میں بدلا جو موصوف کی وفات تک جاری رہا ۔ چنانچہ فنون کے علاوہ دیگر ادبی و تحقیقی مجلات میں ان کی تحریریں شاذ ہی شائع ہوئیں ۔ آپ نے 20 فروری 2007ء کو لاہور میں وفات پائی اور گلبرگ کے قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ حکومت ِ پاکستان نے آپ کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے 2007ء میں آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (بعد از مرگ) سے نوازا۔
بطور سرکاری افسر آپ کے ساتھی افسران میں مختار مسعود (پ 1926ء) ، شیخ منظور الہٰی (م 2008) ، الطاف گوہر (1923ء تا 2000ء ) ، سید مصطفیٰ زیدی (1929ء تا 1970ء) ، مسعود محمود (م 1996ء) ، سید منیر حسین اور عاشق مزاری کے نام اہم ہیں جب کہ علمی و ادبی احباب میں احمد ندیم قاسمی (1916ء 2006ء) کے علاوہ علی عباس جلالپوری (1914ء تا 1997ء) ، محمد خالد اختر (1920ء تا2002ء )، اختر حسین جعفری (ٍ1932ء تا 1992ء) ، سید محمد کاظم (م 2014ء) اور مسعود اشعر وغیرہ شامل ہیں ۔
تحقیق و تالیف
رشید ملک صاحب کی فہرست ِ تالیفات بڑی متنوع ہے ۔ بطور محقق ان کی بنیادی وجہ شہرت موسیقی سہی لیکن دیگر علوم سے اُن کی دلچسپی بھی کچھ کم نہیں تھی ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے علم و ادب میں بلند پایہ کتب تالیف کیں ۔
امیر خسرو کا علمِ موسیقی
مجلّہ فنون کے ابتدائی شماروں میں شائع ہونے والے مضامین سے ملک صاحب بطور محقق دو حوالوں سے نمایاں ہوئے : اول موسیقی پر لکھنے والے دیگر مؤلفین کی جانب سے کیے گیے سرقے اور اسقام کی بے نقابی اور دوم امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) کے حوالے سے اختلافی نکتہ نظر! یہ شہرت تادم مرگ ان کی شخصیت کا حصہ رہی ۔ ا ن مضامین نے جہاں اُن کے سینئرز اور ہم عصر لکھنے والوں میں سے متعدد کی علمی حیثیت کا بھانڈا پھوڑا ، وہیں موسیقی کے میدان میں حضرت امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) کی بطور نایک، موجد اور برصغیر کی موسیقی کے ’’محسن اور مجدد‘‘ حیثیت کو بھی علمی انداز میں چیلنج کیا ۔ ’’بت شکنی‘‘ کی یہ کوشش جہاں ہندوپاکستان کے علمی و ثقافتی حلقوں میں ملک صاحب کی شہرت کا سبب بنی وہاں ٹھوس علمی دلائل ، بنیادی مآخذ کے حوالہ جات اور منطقی استدلال پر مبنی کے تحقیقی مقالات کو بہ نظر استحسان دیکھے جانے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے میدان میں امیر خسرو (1253ء تا 1325ء ) کو Patron Saint کے مقام پر فائز دیکھنے والوں کی طرف سے طعن و تشنیع اور اختلافات کے دفتر بھی کھل گیے ۔ احباب و اعداء کی طرف سے امیر خسرو کا دفاع کرتے ہوئے ردعمل میں لکھے گئے مقالات اور مدیرانِ اخبارات و جرائد کے نام خطوط میں پیش کردہ دلائل کے مسکت جواب تلاش کر کے ملک صاحب نے اپنے مقالات کا پہلا مجموعہ بہ عنوان امیر خسرو کا علمِ موسیقی اور دوسرے مقالات ریفرنس ری پرنٹس (لاہور) سے 1975ء میں شائع کیا ۔ اِن دنوں جب امیر خسرو کا سات سو سالہ جشن ولادت سرکاری طور پر منانے کی تیاریاں عروج پر تھیں ، ایک ایسی کتاب کی اشاعت نےجس میں موصوف کی بطور موسیقار حیثیت کو بہ دلائل چیلنج کیا گیا ہو ، علمی ، ادبی اور ثقافتی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا ۔ سات مضامین پر مشتمل اس کتاب کے پیش لفظ میں مؤلف نے بجا طور پر اعتراف کیا کہ
’’اس مجموعے میں بیشتر مضامین تنقید کا پہلو لیے ہوئے ہیں ۔ ان کا محرک میرے ہم عصروں کے وہ مضامین تھے جن سے مجھے اختلاف تھا ۔ اِن مضامین کو دیکھے بغیر، قاری کے لیے اس مجموعے میں شامل مضامین کا سیاق و سباق دریافت کرنا ذرا مشکل ہے ۔ لیکن اس دِقت کو آسانی سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان مضامین کو محض ان کے افادی پہلوؤں کی وجہ سے اس مجموعے میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس میں دل آزاری کا کوئی پہلو نہیں ہے ۔ صحت مند اختلاف ذہنی تنومندی کی علامت ہے اور حرکت کا منبع ۔ ‘‘ [رشید ملک: 2000 ، ص12] ثقہ علمی روایات کے تتبع میں ملک صاحب نے اپنے مضامین کی مجلہ فنون اور بعد ازاں کتابی صورب میں اشاعت کے بعد امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کے رد میں آنے والی تحریروں کی جانچ پرکھ کا سلسلہ برقرار رکھا ۔ نیز اس موضوع پر مزید منابع سے اسناد و شواہد جمع کرتے رہے تاآنکہ 2000ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن فکشن ہاؤس (اہور) سے شائع ہوا جس میں یہ تمام مقالات بالخصوص مرکزی مقالہ بعنوان ’’ موسیقی اور امیر خسرو‘‘ متعدد اضافات کے ساتھ ازسرنو ترتیب دیے گیے تھے ۔ زیرِ نظر کتاب کے حوالے سے خاص طور پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ طبع ثانی کے بعد بھی اس موضوع پر مواد کی جمع آوری کا سلسلہ جاری رہا اور وفات سے قبل ملک صاحب اس کتاب کے اگلے ایڈیشن کے لیے تاریخ کے موضوع پر ہندوستان سے منگوائی ہوئی کتب اور امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) کی شعری و نثری تصانیف سے کچھ دیگر مواد ترتیب دے رہے تھے ۔
انڈالوجی
بیسویں صدی کے ربع اول میں ادبی تاریخ نویسی کے موضوع پر کتب کے حوالے سے دو شخصیات نے بڑی شہرت حاصل کی ۔ مولانا شبلی نعمانی (1857ء تا 1914ء) کی شعر العجم کےبالاستعیاب مطالعے کے بعد اس میں موجود اسقام و ابہام کو ان کے جونیئر ہم عصر حافظ محمود شیرانی (1880ء تا 1946ء) نے نمایاں کرتے ہوئے تنقید شعرالعجم لکھی جسے ادبی دنیا میں بڑی شہرت ملی ۔ یہ کتاب اور جواب الکتاب فارسی شاعری کے حوالے سے تھے تاہم اس صدی کے ربع آخر میں بزرگ ادیب احمد ندیم قاسمی کی اپنے ایک معاصر نقاد کے ساتھ ادبی چشمک جاری رہی جس میں مؤخر الذکر کی کتاب اردو شاعری کا مزاج خصوصیت سے زیرِ بحث رہی ۔ اس ضمن میں دونوں اصحاب کے حواریوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں اور جوابی حملوں نے معاصر ادبی تاریخ کے کئی اہم واقعات کو جنم دیا ۔ اوراق اور فنون کے صفحات علمی اور شخصی مباحث کے لیے حاضر تھے، سو یار لوگوں نے دوستیاں نبھانے میں کوئی کسر کم ہی چھوڑی ہو گی ۔ اس حوالے سے ایک دوسرے کی ذات پر رکیک الزامات بھی عائد کیے گیے جن کی تفصیل اس وقت ہمارا موضوع نہیں ۔ مجلّہ فنون سے دیرینہ وابستگی کی بنا پر جناب احمد ندیم قاسمی سے ملک صاحب کی بڑی گہری دوستی تھی ۔ لہٰذا مخالفین کی طرف سے ذاتی حملوں کا جواب علمی انداز میں دینے کی ذمہ داری ملک صاحب نے اٹھائی اور اردو شاعری کا مزاج کی سطر بہ سطر سقم جوئی شروع کی ۔ 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والے یہ مطالعات فنون کے صفحات پر بیس برس سے کچھ زائد عرصہ تک شائع ہوتے رہے ۔ انڈالوجی، مطبوعہ فکشن ہاؤس (لاہور 2002ء) انہی مضامین کی بہ اندازِ دگر پیشکش ہے ۔ کتاب کے مندرجات پر مؤلف نے اپنے دیباچے میں روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
’’اس کتاب میں شامل مضامین کسی نئی تحقیق کے مدعی نہیں ہیں ۔ ان کا انحصار محض ثانوی ماخذ پر ہے اور ان کی اشاعت کا مقصد انڈالوجی کے چند شعبوں کا تعارف ہے ۔ یہ مقالات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے مدعی بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کا مقصد صرف قاری کو ان جہات سے متعارف کروانا ہے جو ان شعبوں پر تحقیق اختیار کر رہی ہے ۔ اور پھر تحقیق میں کوئی نتیجہ بھی حتمی نہیں ہوتا ۔‘‘[رشید ملک: 2000 ، ص 7 ]
تالیف کے فن کو ملک صاحب بخوبی سمجھتے تھے ۔ اردو شاعری کا مزاج کے رَد میں لکھے گئے مضامین کو ذاتیات، طنزیہ اندازِ نگارش ، نقص برآری اور بے مقصد نکتہ چینی کے عناصر سے پاک کرنے کے بعد ملک صاحب نے اس مواد کو تحقیقی مقالات کی صورت میں ترتیب دیا ۔ انڈالوجی کا حصہ بننے والے ان پانچ مقالات کے عناوین یہ ہیں: ’ وید بحیثیت تاریخی ماخذ‘، ’اساطیر‘ ، ’آریا اور آریائیت ‘ ، ’راگنی کے تصور کا ارتقاء‘، اور ’بھگتی‘۔ مقالات سے پہلے تقریباً ساٹھ صفحات پر مشتمل ’تعارف‘ اور پھر ’ملحق تعارف‘ بھی دیا گیا ہے جو اپنی جگہ ایک الگ تحقیقی مقالہ ہے جسے مؤلف نے علمی انکسار کے باعث مقالہ نہیں کہا ۔
انڈالوجی ، جس کا ذیلی عنوان ’قدیم ہندوستان کی تاریخ کے چند گوشے‘ رکھا گیا ، مؤلف کے تبحرِ علمی کا عمدہ نمونہ ہے ۔ برصغیر کی تاریخ ، آثارِ قدیمہ، موسیقی ، سوشل انتھروپولوجی اور مذہب جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن زیرِ ترتیب ہے ۔
ایٹم کی کائنات
جدید سائنس بالخصوص ماڈرن فزکس سے اُن کی دلچسپی کی وجہ آواز کے مختلف پہلوؤں پر ہونے والی تحقیقات سے آگاہی کا حصول تھا ۔ انھی متنوع مطالعات کے دوران مہاجلوولیمیرووچ کی کتاب The Atomic Universe بھی اُن کی نظر سے گزری جس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر انھوں نے محض اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اس موضوع پر لکھی گئی دیگر کتب سے متعلقہ مواد جمع کر کے اضافات کی مدد سے ایک مفید کتاب تالیف کرنے کو ترجیح دی ۔
ایٹم کی کائنات پڑھنے کے بعد مؤلف کی موضوع اور زبان و بیان پر گرفت کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا ۔ کتاب کی زبان بول چال کے انتہائی قریب ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی موضوع پڑھایا نہیں جا رہا بلکہ کوئی بات سمجھائی جا رہی ہے ۔ ایٹم کی ساخت ، ایٹمی عمل کی وضاحت، تجربہ گاہوں کی ورکنگ ، نیوکلیائی ردعمل سے لے کر ایٹم بم کی تیاری ، ایٹمی اسلحہ کے استعمال ، ایٹمی حملے کی صورت میں متوقع نقصانات اور بچاؤ کی تدابیر وغیرہ کے متعلق تمام معلومات انتہائی منضبط اور مبسوط انداز میں بیان کی گئی ہیں ۔ بنیادی طور پر انگریزی یا لاطینی زبان میں وضع شدہ سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ بے حد رواں اور سریع الفہم ہے ۔ حیرت ہے کہ اردو زبان میں سائنس کے مختلف مضامین مثلاً فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی وغیرہ کی نصابی کتب تالیف کرتے ہوئے درس و تدریس سے وابستہ ہمارے مؤلفین ایسی کتب اور اندازِ تحریر سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟
کل 267 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا متن صفہ 203 پر ختم ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد دو ضمائم بہ عنوان ’’ عناصر میں ظہورِ ترتیب‘‘ اور ’’چند اہم جدول‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ ضمیمۂ اول کے تحت مؤلف نے Periodic Table میں موجود 103 عناصر کے بارے میں مختلف ضروری معلومات درج کی ہیں ۔ ہر عنصر کی دریافت ، اس کے اہم ترین استعمال ، اس کے کرسٹل سٹرکچر اور دیگر بنیادی معلومات سے عبارت یہ ضمیمہ ایک عام قاری کے لیے انتہائی مفید ہے ۔ ضمیمۂ دوم میں شامل جداول کے عنوانات یوں ہیں: پیمائشوں کی اکائیوں کے نظام، بنیادی طبعی ثابتوں کی عددی قیمتیں ، توانائی اور کمیت کی پیمائشی اکائیوں کے درمیان نسبتیں ، اعشاری نظام ۔ دونوں ضمائم کی موجودگی سے کتاب کی افادیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے ۔
اردو سائنس بورڈ (لاہور) سے 1997ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کا انتساب رشید ملک نے اپنے بیٹے حسین ملک کے نام کیا ہے ۔ تاحال اس کتاب کا دوسر ا ایڈیشن شائع نہیں ہوا ۔
برصغیر میں موسیقی کے فارسی مآخذ
رشید ملک کی علمی کاوشوں کے نمایاں ترین اوصاف ارتکاز اور تسلسل ہیں ۔ ان کی تحریریں اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ لکھنے کے لیے موضوع کا انتخاب انتہائی احتیاط سے کرتےاور پھر اُس پر سوچ بچار کرتے ہوئے بعض اوقات برسوں تک بنیادی اور مستند مآخذ کی تلاش میں مصروف رہتے ۔ برصغیر میں موسیقی کے فارسی مآخذ مطبوعہ ادارہ تحقیقات ِ پاکستان، دانشگاہِ پنجاب ، لاہور (1983ء ) اسی نوعیت کی مساعی کے نتیجے میں جمع شدہ مواد کی کتابی صورت ہے ۔ اس کتاب کی ترتیب میں ان کے شریک ِ کار ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ، جنھوں نے ملک صاحب کے ترتیب شدہ مواد کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کرنے کاکٹھن فریضہ انجام دیا ، ’عرضِ مترجم‘ کے عنوان سے یوں رقم طراز ہیں :
’’کتاب برصغیر میں موسیقی کے فارسی مآخذ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی اور دلچسپ کتاب ہے ۔ اس کی جمع آوری میں دوستِ گرامی جناب رشید ملک نے خاصی کنجکاوی سے کام لیا اور اس طرح موسیقی سے اپنی بے حد وابستگی کا ثبوت بہم پہنچایا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے مطبوعہ مآخذ کے علاوہ بعض قلمی نسخوں کو بھی کھنگالا ہے ، تاہم کتاب کی ضخامت بڑھ جانے کے سبب انھیں بعض چھوٹے چھوٹے اقتباسات سے صرفِ نظر کرنا پڑا ہے۔‘‘[رشید ملک و یزدانی: 1983 ، ص ز]
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس نوعیت کی کتاب ہندوپاکستان میں کبھی مرتب نہیں کی گئی۔ فہرستِ مشمولات پر محض ایک نظر سے مرتب کی وسعتِ مطالعہ اور ژرف نگاہی کی داد دینا پڑتی ہے ۔ ان دنوں جب فوٹو کاپی جیسی سہولت اس قدر عام نہ تھی ، مختلف کتاب خانوں سے لتھو گراف ، نول کشوری ایڈیشنز یا خطی نسخوں کے حصول اور پھر ان سے لیے گیے اقتباسات کو کتابی صورت میں ترتیب دیتے ہوئے مرتب نے جو ذہنی ، جسمانی اور مالی زحمت اٹھائی ہو گی ، اس کا صرف دھندلا سا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے ۔ امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) کے تمام آثار کے علاوہ فوائد الفواد، سیر الاولیا ، واقعات بابری ، تاریخ رشیدی ، آئین ِ اکبری ، تاریخ فرشتہ ، کتابِ نورس ، شاہ جہان نامہ ، مرقع دھلی ، مرآۃ آفتاب نما اور غیاث اللغات وغیرہ وہ چند کتب ہیں جن کے اقتباسات مع ترجمہ اس کتاب میں شامل ہیں۔
تاہم ایسی منفرد، اچھوتی اور اپنی نوعیت کی شاید واحد کتاب میں چند خامیوں کا رہ جانا بعید از ممکنات نہیں ۔ تیس صفحات پر مشتمل ’پیش گفتار‘ از رشید ملک جہاں اپنی جگہ برصغیر کی موسیقی کی تاریخ اور اس کی عہد بہ عہد علمی و فنی ترقی کا عالمانہ جائزہ ہے ، وہیں اس کے حواشی کا کتاب میں شامل ہونے سے رہ جانا انتہائی افسوسناک ہے ۔ عموماً ایسی غلطیاں جلد بندی کے موقع پر ہوا کرتی ہیں جب جلد ساز حضرات چند اوراق یا کوئی مکمل جز وہ کتاب میں شامل کرنا بھول جاتے ہیں ۔ زیرِ نظر کتاب میں مترجم کے حواشی (ص 489 تا 501) تو موجود ہیں لیکن مرتب کی ’پیش گفتار‘ کے حواشی شاملِ کتاب ہونے سے رہ گئے ہیں ۔ بالائے ستم یہ کہ نامکمل ببلوگرافی (ص 502 تا 503) موجود ہے ۔
جرائم اور مجرم
مشعل بکس سے 2000ء میں شایع ہونے والی اس کتاب کا پورا نام جرائم اور مجرم –متضاد نظریات کی روشنی میں ہے ۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ملک صاحب نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز بطور ایک پولیس آفیسر کیا تاہم تقریباً دس برس ملازمت کرنے کے بعد مستعفی ہو گئے تھے ۔ اس دوران پہلے وہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور بعد میں کچھ عرصہ مختلف ضلعوں میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تعینات رہے ۔ اس موقع پر یہ بات دہرانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ محکمہ پولیس میں ان کی گزاری ہوئی یہ ایک دہائی تقسیم ِ برصغیر کے بعد کی پہلی دہائی تھی جب کارکردگی اور ترجیحات کے لحاظ سے اس محکمہ کی صورت حال آج کے بالکل برعکس تھی ۔ کسی دباؤ یا لالچ میں آئے بغیر دیانت اور تندہی سے کام کرنے کی عادت کے باعث خود کو پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ وہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا کرتے تھے ۔ پولیس ٹریننگ سکول ، شاردا (راجشاہی ، سابقہ مشرقی پاکستان ) میں گزارے ہوئے دنوں کا ذکر بھی اکثر کیا کرتے جہاں مسعود محمود (م 1996ء) اپنی سابقہ ملازمت کا کسی نہ کسی طور فائدہ اٹھا کر باقی ساتھیوں سے سینئر ہو گئے تھے ۔ بطور اے ایس پی ماتحت عملے کی طرف سے کی جانے والی تفتیشوں میں غلطیوں کی نشان دہی اور بعد ازاں بطور ایس پی چند ایک بار عدالتوں کا سامنا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کئی یادیں راقم کے ذہن میں محفوظ ہیں تاہم بطور پولیس آفیسر ان کی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ 16 اکتوبر 1951ء کو بطور اے ایس پی راولپنڈی اُس تاریخی جلسے پر آن ڈیوٹی ہونا تھا جس میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان (1895ء تا 1951ء) کی شہادت ہوئی ۔ جرمیات کے موضوع پر اُن کی مذکورہ بالا واحد تصنیف کا آغاز اسی واقعے سے ہوتا ہے جس کے بعد انھوں نے عالمانہ انداز میں جرم کے فلسفہ ، نفسیاتی محرکات و عوامل ، تفتیش اور سزا وغیرہ کے حوالے سے تفصیلی بحث کی ہے ۔
راگ درپن کا تنقیدی جائزہ
فقیر اللہ سیف خان (م 1095ھ/ 1648ء) کی تالیف راگ درپن کے اردو ترجمہ و تعلیقات پر مشتمل یہ کتاب مجلس ترقی ادب (لاہور) سے 1998ء میں شائع ہوئی ۔
راگ درپن کا تنقیدی جائزہ کے مطالعے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاید ہی برصغیر کی موسیقی پر لکھی گئی کسی کتاب کی ایسی مفصل تعلیقات لکھی گئی ہوں ۔ فارسی متن اور اُس کے اردو ترجمے سے پہلے روایتی مقدمے کے بجائے ملک صاحب نے ’’ موسیقی بعہد اورنگزیب‘‘ اور پھر مستند معاصر کتابوں کی مدد سے فقیر اللہ سیف خان کے حالاتِ زندگی پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ فارسی متن اور اس کے اردو ترجمے کے بعد باب وار تعلیقات لکھی ہیں ۔ حسبِ معمول ملک صاحب کی یہ کتاب بھی راگ درپن کے فارسی متن میں چھیڑے گئے نکات کے تفصیلی جائزے اور اس موضوع پر متنوع اور مستند معلومات کا خزانہ ہے ۔ کتاب کے آخر میں ’’ حاصل مطالعہ‘‘ کے عنوان سے تین صفحات پر مشتمل تحریر مؤلف کی تحقیق کا نچوڑ کہی جا سکتی ہے جس میں انھوں نے شبلی نعمانی (1857ء تا 1914ء ) ، ابوالکلام آزاد (1888ء تا 1958ء) اور بیسویں صدی کے دیگر محققین ِ موسیقی مثلاً ڈاکٹر نجمہ پروین احمد کی راگ درپن کے بارے میں آراء سے بہ دلائل اختلاف کرتے ہوئے انھیں باطل قرار دیا ہے ۔ آٹھ نکات پر مبنی اس تجزیے کی بنیاد پر فاضل مؤلف نے برصغیر کی موسیقی پر لکھی گئی فارسی کتب میں راگ درپن کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ کے خیال میں
’’ موسیقی کے علمی نقطہ نظر سے اس کتاب کی افادیت بڑی محدود ہے ۔ یہ تحقیق کے اولین مآخذ کے معیار پر پوری نہیں اترتی ۔ ‘‘ [رشید ملک: 1998 ، ص 568 ]
’’حاصلِ مطالعہ‘‘ کی اختتامی سطور میں بحث سمیٹتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں :
’’علامہ شبلی نعمانی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بشمول یہ کتاب کئی اہل علم کی گمراہی کا باعث بنی ۔ چنانچہ موسیقی کی بیسویں صدی کی تحقیق کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس کتاب کو بطور ثانوی ماخذ استعمال کرتے ہوئے وقت بھی گمراہی کے خطرے کے پیشِ نظر احتیاط کی ضرورت ہے ۔‘‘[رشید ملک: 1998 ، ص 568]
مسائل موسیقی
1964ء سے شروع ہونے والا فنِ موسیقی پر مقالات کا سلسلہ 1975ء میں امیر خسرو کا علم ِ موسیقی اور دوسرے مقالات کی اشاعت کے بعد بھی جاری رہا ۔ ادارۂ ثقافت ِ پاکستان ، اسلام آباد سے 1986ء میں شائع ہونے والی کتاب مسائل موسیقی انھی مقالات پر مبنی ہے ۔ کتاب میں شامل ڈاکٹر خالد سعید بٹ کے تحریر کردہ ’’ناشریہ‘‘ کی ابتدائی سطور خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ انھوں نے لکھا :
’’مسائل ِ موسیقی، رشید ملک کے ان مضامین کا انتخاب ہے جو فنِ موسیقی کے علمی ، تکنیکی اور فنی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان مضامین کی اشاعت کا مقصد فنِ موسیقی کے بارے میں پیدا ہونے والے مباحث اور ان سے جنم لینے والے سوالات پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ حقائق تک رسائی پانا ہے ۔ موسیقی کے جن مسائل کی طرف ان مضامین میں توجہ دی گئی ہے ، ان سے سائنسی اقدار (انداز؟) میں حقائق تک پہنچنے کا رویہ نظر آتا ہے ۔ موسیقی کے شعبہ میں سائنسی اور علمی انداز اختیار کرنا ہماری تاریخی ضرورت ہے ۔ جب تک ہم کلاسیکی موسیقی کے فن اور تکنیک کو سائنسی طریقہ کار (کے مطابق)محفوظ کرنے اور ترقی دینے کی طرف توجہ نہیں دیں گے ، یہ فن تاریخی تسلسل کے حوالے سے موجودہ دور اور مستقبل میں اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ پائے گا ۔‘‘ [رشید ملک:1986 ، ص 6]
ایک تفصیلی مقدمے کے بعد چھ مقالات پر مشتمل یہ کتاب بھی اپنے مندرجات کے اعتبار سے بڑی اہم ہے ۔’’کوتاہی فن‘‘ کے عنوان سے نورنگ ِ موسیقی پر تفصیلی تبصرہ ہو یا تین حصوں پر مشتمل طویل مقالے بہ عنوان ’’اہل تحقیق کی واماندگیاں‘‘جس میں حسن عسکری (1919ء تا 1978ء) ، ممتاز حسن (1907ء تا 1974ء) یا نقی محمد خورجوی (1880 ء تا 1969ء) کی موسیقی پر لکھی ہوئی تحریروں کا محاکمہ ، رشید ملک کا نشترِ قلم اپنا کام کرتے ہوئے متعلقہ موضوع پر ایسی قابلِ قدر اضافی معلومات فراہم کرتا ہے جن کی جمع آوری اور اُس تحریر میں مناسب ترین مقام پر کھپت کسی دیگر مؤلف کے بس کی بات نہیں ۔ ’’مآخذِ موسیقی‘‘ کے عنوان سے تالیف شدہ مقالے میں رشید ملک نے تاریخ و تذکرہ کی ایسی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی کوئی ایک فصل ، باب یا کچھ حصہ موسیقی پر لکھے گئے ہیں ۔ قران السعدین ، غرۃ الکمال ، نہ سپہر ، رسائل الاعجاز ، تاریخ فیروز شاہی ، بحر الفضائل فی منافع الافاضل ، آئین اکبری ، پادشاہ نامہ ، شاہ جہان نامہ ، مرقع دہلی ، مرآۃ الخیال اور تذکرۂ اہل دہلی کے موسیقی سے متعلقہ حصوں کے مجمل تعارف پر مبنی یہ مقالہ دراصل رشید ملک کی اور کتاب برصغیر میں موسیقی کے فارسی مآخذ کا ابتدائی خاکہ ہے ۔ اسی طرح ’’صدائے عام‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مقالے میں جناب ادیب سہیل (پیدائش 1927ء) اور جابر علی سید (1923ء تا 1985ء) کے رشحاتِ قلم کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔
فنِ موسیقی کو آج بھی کم و بیش وہی ’ مسائل‘ درپیش ہیں جو تقریباً پچیس برس قبل زیرِ نظر کتاب مسائل ِ موسیقی کی اشاعت کے وقت موجود تھے ۔ عرصہ ہوا یہ کتاب مارکیٹ میں نایاب ہو چکی ہے ۔ اپنے وقیع مواد کے پیشِ نظر اس کتاب کے اگلے ایڈیشن کی اشاعت موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے ایک نعمت سے کم نہ ہو گی ۔
تراجم
تحقیق و تالیف کے ساتھ ساتھ تراجم بھی ملک صاحب کی علمی زندگی کا اہم حوالہ ہیں ۔ انگریزی زبان پر ان جیسی قدرت راقم کے مشاہدے میں کم ہی آئی ہے ۔ چنانچہ کسی انگریزی متن کو اردوو میں ڈھالتے وقت وہ الفاظ کے موزوں متبادل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ جملے کی ساخت اور تراش پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے ۔ انگریزی سے اردو زبان میں آپ کی ترجمہ شدہ کتب کا ذکر کچھ یوں ہے:
اتحاد جزیرۃ العرب
بہ گمان غالب ترجمہ کے میدان میں ملک صاحب کی یہ پہلی کتاب تھی جس پر سال اشاعت 1982ء درج ہے ۔ کتاب کا پورا نام اتحاد جزیرۃ العرب: ابن سعود کی شخصیت اور کارنامے ہے اور اس کے پبلشر کے طور پر بھی رشید ملک صاحب ہی کا نام درج ہے ۔ اس کتاب کے ترجمے اور اشاعت کے بارے میں ملک صاحب کے انتہائی قریبی احباب کو بھی بوجوہ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں ۔ راقم کی صورت حال بھی ایسی ہی تھی ۔ ایک شب تراجم کے حق الزحمت کے حوالے سے عمومی بات چیت ہو رہی تھی کہ مذکورہ بالا کتاب کا ذکر بھی در آیا جس پر انھوں نے راقم کو بتایا کہ کافی عرصہ پہلے انھوں نے آل ِ سعود کی تاریخ پر ایک عرب مصنف محمد المانع کی لکھی ہوئی کتاب کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس پر خاصی معقول یافت ہوئی تھی ۔ راقم نے کتاب دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے فرمایا کہ اگرچہ ترجمے کے علاوہ اس کتاب کی طباعت اور اشاعت بھی انھی کے ذمہ تھی تاہم افسوس کہ ان کے پاس اس کا ایک بھی نسخہ موجود نہیں کیونکہ حسبِ معاہدہ تمام کاپیاں مصنف کو فراہم کر دی تھیں اور گھر میں رکھی ریکارڈ کی کاپی مکان بدلتے ہوئے کہیں کھو گئی ۔ راقم کا تجسس بیدار ہوتا دیکھ کر انھوں نے مزید وضاحت فرمائی کہ یہ کتاب مقامی مارکیٹ میں برئے فروخت بھی نہیں رکھی گئی تھی مگر شاید پرنٹر نے اپنے طور پر کچھ نسخے لائبریریوں وغیرہ میں بھجوائے ہوں ۔ چنانچہ راقم نے اگلے ہی روز غالباً پنجاب پبلک لائبریری یا دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری سے یہ کتاب نکلوا کر انھیں دکھائی تو بہت خوش ہوئے اور بتلایا کہ 1980ء کے قریب المانع فیملی کے کسی فرد نے ، جو بسلسلہ تعلیم یا تجارت لاہور میں مقیم تھا ، اس کتاب کے ترجمے اور طباعت کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا ۔ چنانچہ 5000 کی تعداد میں تیار کروائی جانے والی یہ کتاب پہلے سے طے شدہ شرائط کے تحت اسے پیش کر دی گئی ۔
زیرِ نظر سطور لکھتے ہوئے راقم نے اب کی بار LUMS (لاہور) کی لائبریری سے دوبارہ نکلوا کر دوبارہ ملاحظہ کیا تو دیکھا کہ بیرونی ٹائٹل پر مصنف یا مترجم کسی کا نام درج نہیں ۔ یہ اہتمام صرف اندرونی سرِ ورق پر کیا گیا ہے ۔ ’’تشکر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے ابتدائی دو صفحات سے پتہ چلتا ہے کہ محمد المانع نے اتحاد جزیرۃ العرب نامی یہ کتاب انگریزی میں Arabia Unified کے عنوان سے تحریر کی جو 1980ء میں شائع ہوئی۔ اردو اور عربی زبانوں میں اس کے ترجمے کا خیال انھیں بعد ازاں آیا۔[رشید ملک:1982 ، ص س]
فلیپ پر دی گئی معلومات کے مطابق محمد المانع کے والد کا تجارت کے سلسلے میں ہندوستان کافی آنا جانا رہتا تھا ۔ چنانچہ انھوں نے بیسویں صدی کے ربع اول میں بمبئی کے انگلش میڈیم سکولوں میں تعلیم پائی اور بعد ازاں تقریباً دس برس تک جلالتہ الملک شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دربار سے اردو اورانگریزی کے مترجم کی حیثیت سے منسلک رہے جہاں انھیں شاہِ موصوف کی شخصیت کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ مذکورہ بالا کتاب انھی روزوشب کے دوران پیش آنے والے واقعات اورمصنف کے ذہن پر اپنے ممدوح کی شخصیت کے تاثر کا تفصیلی بیان ہے جسے مترجم نے بڑے رواں اسلوب میں اردو میں منتقل کیا ہے ۔
پنجابی ساگا
پرکاش ٹنڈن (1911ء تا 2004ء ) کی تین جلدوں پر محیط یہ کتاب 1961ء میں لندن اور بعد ازاں 1988ء میں دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ ]رشید ملک :2006، ص 8[ فکشن ہاؤس (لاہور) کے اشاعتی پروگرام کے لیے اس کے اردو ترجمے کی تحریک و تجویز ڈاکٹر مبارک علی نے کی جس کے لیے قرعۂ فال ملک صاحب کے نام پڑا ۔ چنانچہ پہلی دو جلدوں Punjab Century اور Beyond Punjab کے تراجم بالترتیب پنجاب کے سو سال اور بیرون ِ پنجاب کے عنوان سے شائع ہوئے ۔
تیسری جلد Back to Punjab کے ترجمہ کی داستان قدرے مختلف اور دلچسپ ہے ۔ مرحوم نے اس کا ترجمہ پنجاب میں واپسی کے عنوان سے شروع کیا لیکن پہلے تین ابواب کے بعد اسے بوجوہ جاری نہ رکھ سکے ۔ کئی برس تعویق میں پڑے رہنے کے بعد 2004ء میں راقم سے خواہش کی کہ اسے مکمل کروں ۔ چنانچہ چند ماہ بعد چوتھا باب مکمل کر کے انہیں نظرثانی کے لیے پیش کیا تاکہ ان کی تجویز کردہ تبدیلیوں کی روشنی میں اسے جاری رکھ سکوں ۔ لیکن شومی قسمت کہ یہ نامکمل مسودہ ملک صاحب کی وفات تک ان کی توجہ کا منتظر ہی رہا اور بعد ازاں دیگر کتب کے ہمراہ ان کے اہل خانہ کی تحویل میں چلا گیا ۔
Back to Punjab کا ترجمہ شروع کرنے سے قبل راقم نے اس سلسلے کی پہلی دو کتب کو بارِ دگر مع ترجمہ بغور پڑھا تاکہ متن ، موضوع ، مؤلف کے مافی الضمیر اور ترجمے کے انداز سے کماحقہ واقفیت حاصل کر سکوں ۔ چنانچہ اس دوران راقم کو احساس ہوا کہ اس ترجمے کے لیے ملک صاحب ہی موزوں ترین شخص تھے ۔ ایک تجزیے کے مطابق مؤلف اور مترجم کی شخصیات میں متعدد ایسی مشترک باتیں موجود تھیں جن کے باعث مترجم کی جانب سے ایک معیاری ترجمے کی پوری امید کی جا سکتی تھی : اول یہ کہ دونوں کا تعلق سرزمین پنجاب سے تھا اور مادری زبان پنجابی تھی ۔ نیز یہ کہ دونوں کی جائے پیدائش بھی گجرات سے ہے ]1[۔ دوم یہ کہ دونوں اصحاب تقسیم ِ برصغیر سے تقریباً تین دہائیاں پہلےپیدا ہونے والی نسل سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے لڑکپن یا اوائل جوانی تک تعلیم ، سیروسیاحت اور کسی حد تک روزگار کی خاطر متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں قیام اور سفر کر چکنے کے باعث یہاں کے جغرافیے اور رسوم و رواج سے بخوبی واقف تھے ]2[۔ سوم یہ کہ دونوں ہی اکاؤنٹینسی کے پیشے سے دلچسپی رکھتے تھے اور اس کی تعلیم کے لیے کچھ عرصہ انگلستان میں مقیم رہے تھے ۔ ملک صاحب نے تو ،جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکاہے ، یہ تعلیم ادھوری چھوڑ دی لیکن پرکاش ٹنڈن اب سے تقریباً پچاس برس پہلے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ بن کر وطن لوٹے اور بعد ازاں اس شعبے میں ممتاز مقام کے حامل ہوئے ۔
جدید سائنس کا آغاز
امریکی مصنف ٹامس گولڈ سٹائین کی کتاب Dawn of Modern Science: From Arabs to Leonardo da Vinci پچھلے تقریباً ایک ہزار برس کے دوران ہونے والی سائنسی ترقی کا اجمالی جائزہ ہے ۔ جدید سائنس کی تاریخ میں رونما ہونے والی نمایاں تبدیلیوں اور ترویج و ترقی کی یہ داستان بڑے دلچسپ اندازِ بیان کی حامل ہے ۔ تاہم جدید سائنس کے بنیادی تصورات سے گہری واقفیت نہ رکھنے والے شخص کے لیے اس کا ترجمہ یقیناً ایک مشکل کام ہوتا جس سے رشید ملک بخوبی عہدہ برآ ہوئے ہیں ۔ کتاب کا مکمل نام جدید سائنس کا آغاز – انسان کے فکری اور تخلیقی ورثہ کی دلچسپ کہانی ہے ۔ راقم کو ترجمہ شدہ کتب کا اصل متن سے موازنہ کرنے کا موقع ملا ہے جس کی بنیاد پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے انگریزی زبان میں ٹامس گولڈ سٹائین کے رواں اور سہل اندازبیان کو اسی خوبی کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے ۔
مشعل پاکستان اور تخلیقات کے باہمی تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کے دو ایڈیشن بالترتیب 1993ء اور 2000ء میں سامنے آ چکے ہیں ۔ دلچسپ موضوع اور عمدہ زبان و بیان کے باعث یہ کتاب دونوں بار کافی جلدی بِک گئی اور اب اس کے دونوں ایڈیشن کافی عرصے سے مارکیٹ میں دستیاب نہیں ۔
انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق ]3[ اصل کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1980ء میں یہ کتاب شائع ہونے کے بعد ٹامس گولڈ سٹائین نے اسی موضوع پر نسبتاً تفصیل کے ساتھ ایک اور کتاب Dawn of Modern Science: From Ancients Greeks to the Renaissance بھی لکھی جو 1995ء میں شائع ہوئی تھی ۔
عہد وسطیٰ کا ہندوستان
یہ کتاب جواہر لال نہرو یونیورسٹی (نئی دہلی) میں تاریخ کے پروفیسر جناب ہربنس مکھیا (پیدائش 1939ء) کے آٹھ مقالات کے انگریزی سے اردو ترجمے پر مشتمل ہے ۔ مقالات کے عناوین پر محض ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ پنجابی ساگا کی طرح ان مقالات کے ترجمے کے لیے بھی ملک صاحب ہی موزوں ترین شخصیت تھے ۔ راقم کو اس علمی کام کی تکمیل کے دوران اُن کی معاونت کا شرف بھی حاصل رہا ۔ خردنوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موصوف نے کتاب میں ایک سے زائد مقامات پر راقم کی کاوشوں کو سراہا ہے ۔ فکشن ہاؤس (لاہور) کی جانب سے یہ کتاب 2003ء میں شائع ہوئی ۔
حواشی
1۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی ملک صاحب سے دورانِ گفتگو ان کی جائے پیدائش کا ذکر آیا ہو ۔ تاہم دوست مکرم ڈاکٹر منیر سلیچ نے ، جو اپنے علمی و تحقیقی کاموں کے باعث گجرات پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ، برسبیل تذکرہ بتایا کہ ملک صاحب کے اجداد کا تعلق گجرات سے تھا بلکہ ان کی اپنی پیدائش بھی گجرات ہی کی تھی ۔ میری معلومات کے مطابق غالباً پی آئی ڈی سی میں مختصر ملازمت کے دوران ملک صاحب کچھ عرصہ گجرات میں قیام پذیر رہے اور شاید اپنے بیٹے حسین ملک کی پیدائش (1964ء) کے وقت وہیں مقیم تھے ۔
2۔ سرشام شروع ہو کر نصف شب تک جاری رہنے والی اکثر ملاقاتوں میں ملک صاحب تقسیم سے پہلے ہندوستان کے مختلف علاقوں کی سیاحت کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ ایک دفعہ کالج کی چھٹیوں کے دوران ایک ہمسائے دوست کے ہمراہ جالندھر سے بذریعہ ٹرین آگرہ گئے اور تاج محل دیکھا ۔ اسی طرح علی گڑھ اور کئی دیگر شہروں کے سفر بھی تقسیم سے پیشتر کر چکے تھے ۔
3۔ رک : www.amazon.com
مآخذ و کتابیات
– رشید ملک (مترجم ): 1982ء
اتحاد جزیرۃ العرب : ابن سعود کی شخصیت اور کارنامے ، ریفرنس ری پرنٹس ، گلبرگ ، لاہور
– رشید ملک ؛ یزدانی ، ڈاکٹر خواجہ حمید : 1983ء
برصغیر میں موسیقی کے فارسی مآخذ ، ادارۂ تحقیقات پاکستان ، دانشگاہِ پنجاب ، لاہور
– رشید ملک : 1986ء
مسائل موسیقی ، ادارۂ ثقافتِ پاکستان ، اسلام آباد
– رشید ملک (مترجم) : 1996ء
بیرون پنجاب ، فکشن ہاؤس ، لاہور
– رشید ملک : 1997ء
ایٹم کی کائنات ، اردو سائنس بورڈ ، لاہور
– رشید ملک: 1998ء
راگ درپن کا تنقیدی جائزہ مع متن و ترجمہ ، مجلس ترقی ادب ، لاہور
– رشید ملک : 2000ء
امیر خسرو کا علمِ موسیقی (اور دوسرے مقالات) ، فکشن ہاؤس ، لاہور
– رشید ملک: 2002ء
انڈالوجی – قدیم ہندوستان کی تاریخ کے چند گوشے، فکشن ہاؤس ، لاہور
– رشید ملک(مترجم) : 2003ء
عہد وسطیٰ کا ہندوستان ، فکشن ہاؤس ، لاہور
– رشید ملک (مترجم): 2006ء
پنجاب کے سو سال ، فکشن ہاؤس ، لاہور
– رشید ملک (مترجم) : 2000ء
جدید سائنس کا آغاز ، تخلیقات ، لاہور
– رشید ملک : سال ندارد
جرائم اور مجرم – متضاد نظریات کی روشنی میں ، مشعل پاکستان، لاہور