پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ: محمد اقبال دیوان (تبصرہ: بلال حسن بھٹی)
محمد اقبال دیوان سابقہ بیوروکریٹ ہیں۔ وہ صوبائی سیکریٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے اور سندھ سول سروسز اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سندھ جیل خانہ جات کے آئی جی بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پانچ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے پہلے دو ناول ”جس رات لے اڑی ہوا“ اور ”وہ ورق تھا دل کی کتاب کا“ کے نام سے چھپ چکے ہیں ۔ ان کے افسانے ادبی جرائد میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ زیر نظر ان کی تیسری کتاب ”پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ“ کے نام سے 2015 میں چھپی ہے۔ یہ کتاب دو قدرے طویل افسانوں پر مشتمل ہے کہ جنہیں ناولٹ کہنا غلط نہ ہو گا جب کے آخر میں بھی دو افسانے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ”دیوار گریہ کے آس پاس“ کے نام سے بیت المقدس کی سرزمین کا ایک سفرنامہ 2017 میں تدوین کیا۔ بعض وجوہات کی بنا پر متنازع ہونے کے باوجود اس سفر نامے کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کتاب میں موجود پہلے افسانے کے نام پر ہی کتاب کا نام رکھا گیا ہے۔ ”پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ“ قربت، جھوٹ، محبت، بے بسی اور سوشل میڈیا پر بننے والے رشتوں پر لکھی ایک اداس کر دینے والی داستان ہے۔ یہ فیس بک اور وٹس ایپ پر کی جانے والی محبت کی داستان ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو یہ ان دنوں کی کہانی ہے جب یاہو مسینجر کے چیٹ گروپس میں بحث و مباحثے کے دوران دلوں کے تار جڑ جایا کرتے تھے۔ گو یہ ماہم اور رافع کی محبت کی داستان ہے لیکن اس داستان کو بیان کرنے کا ڈھنگ اسے منفرد بناتا ہے۔ جس میں مرد اور عورت کے درمیان صدیوں سے چلے آنے والے تعلق کو ایکسپلور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان دیکھے شخص کے ساتھ انسان کس طرح اپنا جذباتی تعلق وابستہ کر لیتا ہے یا اس تعلق کو اپنی جان کا روگ بنا لینا بیوقوفی مانا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک بیوقوفی ہو لیکن کسی شخص کے ساتھ وابستگی کے آغاز میں حقیقی لمس اور اس کے اصلی شکل و صورت کو دیکھے بغیر جب بتائے گئے چند لفظوں سے آپ کسی کا پورا سراپا بناؤ تو اس میں کم ترین سطح پر بھی آپ اپنے اس پسندیدہ شخص کو کسی ہیرو یا ہیروئن کے برابر حسین و جمیل سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ملے بغیر آپ اگر بس لفظوں تک بھی کسی جسمانی گوشے کی دریافت میں لگ جائیں تو یہ تعلق کسی حقیقی تعلق سے زیادہ حسین اور مضبوط نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان تعلقات کی سنجیدگی کی نوعیت اس وقت شدید ہو جاتی ہے جب ایک فریق محسوسات اور وابستگی کی ان راہوں پر پہلی دفعہ نکلا ہو۔ ایسے میں جدائی اس نوخیز کی جان کا روگ بن جاتی ہے جو اس کھیل میں اناڑی اور انجان ہوتا ہے۔ ہاں جان کو لگنے والے اس روگ نے کبھی صنفی امتیاز کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ماہم کو بھی رافع سے مسینجر میں بننے والے تعلق اور بس ایک ملاقات نے اس قدر خود سے بیگانہ کر دیا کہ وہ اس کے بولے گئے پندرہ جھوٹوں کو دو شادیاں اور تین بچے پیدا کر کے بھی بھلا نہیں پائی بلکہ اب تو وہ ان کو یاد کر کے ایک الگ قسم کی لذت محسوس کرتی ہے۔
گو ایسی کہانیاں اب مزید بڑھ گئی ہیں۔ سکرینوں کے پیچھے چھپے چہرے بلکہ سکرین پر نظر آنے والے چہرے اندر سے کس قدر مختلف انسان ہوتے ہیں ان کو پہچانا اب تک ممکن نہیں ہوا۔ لیکن ایک بات ہے کہ اس قدر ترقی کے باوجود اب بھی مردوں یا عورتوں کی جانب سے بولے جانے والے جھوٹوں کا نہ تو انداز بدلا ہے اور نہ ہی ان جھوٹوں کے چنگل میں پھنس جانے والے کردار بدلے ہیں۔
”شہر کو سیلاب لے گیا“ چودہ ابواب اور ایک سو چالیس صفحات پر مشتمل ناولٹ ہے۔ ہر باب میں الگ کردار کی کہانی ہے۔ یہ کردار کسی نا کسی سطح پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جو آخر میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اگر ہر باب کو الگ کر کے بھی پڑھا جائے تو یہ مکمل کہانیاں ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے جنوبی پنجاب میں پیدا ہونے والی جنگجو تنظیم اور ان کے ہاتھوں قتل ہونے والے جاگیرداروں کی روداد بیان کی گئی ہے۔ جاگیرداری نظام جنوبی پنجاب میں اکیسیویں صدی میں بھی پایا جاتا ہے۔ جاگیرداروں کی زمین پر کام کرنے والے لوگ اور ان کی جاگیرداری میں آنے والے گاؤں آج بھی ان کی رعایا ہی تصور ہوتی ہے۔ اس ناولٹ کی کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ پنجابی طالبان نے کیسے نیم مذہبی اور نیم پڑھے لکھے لوگوں کو متاثر کیا۔ نائن الیون کے بعد بدلتے حالات اور طالبان کا پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب میں پھیلاؤ پچھلی دہائی میں خوف ہراس اور قتل و غارت کا سب سے بڑا نیٹ ورک تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے تمام تر تفصیلات بتاتے بتاتے آخر میں یکدم بہت برق رفتاری کے ساتھ کہانی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جیسے ناولٹ کے ایک اہم کردار کامریڈ منصور اور اس کی بیٹی کے کردار پر آخر میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ بطور قاری ناولٹ کے آخری باب کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ماسٹر برکت اور نسرین جوئیہ کی عشقیہ داستان کے درمیان میں آنے والے کرداروں کو بیان کرتے ہوئے نہ صرف کہانی الجھ گئی بلکہ لکھاری کے ہاتھ سے پھسلنے لگی تو مصنف نے ماسٹر برکت اور نسیرین کا نکاح کروا کر جلدی سے اس کا اختتام کرنا مناسب سمجھا۔
”رات بھی، نیند بھی، کہانی بھی“ کتاب میں موجود تیسرا افسانہ ہے جو کراچی میں رہنے والے ایک مشہور سرجن قاضی عبدالحکیم قاضی حسین بخش اور لاہور میں رہنے والی ایک کال گرل کرن عرف گڈو کے درمیان گزاری رات کی داستان ہے۔ جس میں پچاس سالہ تجربہ کار سرجن کو بیس اکیس سالہ گڈو اپنے دلائل، معاملہ فہمی اور لبھانے کی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے چاروں شانے چت کر دیتی ہے۔ ”وہ جو مایا تھی“ چوتھا اور آخری افسانہ ہے جو پہلے افسانے کی طرح ایک موبائل فون محبت تھی جو آگے چل کر را، موساد اور طالبان کی مشترکہ سازش بن کر سامنے آتی ہے۔
چاروں کہانیوں میں جو سب سے زیادہ خوبصورت چیز ابھر کر سامنے آتی ہے وہ زبان کا استعمال ہے۔ بعض اوقات قاری کہانی سے اکتا بھی جائے تو زبان کی چاشنی اس کو اپنے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ پرانے گانوں، شعروں اور نظموں کے جابجا استعمال سے نثر میں شاعرانہ آہنگ محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چیزوں کی تفصیل اور منظرکشی جس شاندار انداز سے کی گئی ہو اسے پڑھتے ہوئے ڈائجسٹ رائٹرز کی عجیب و غریب تفصیلات سے اکتاہٹ پیدا ہونے کی وجہ سمجھ آ جاتی ہے۔ چاروں کہانیوں میں ایک بات جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ان میں زیادہ تر واقعات حقیقی ہیں اور اس میں لکھاری نے اپنی نثری خوبی کو استعمال کرتے ہوئے مختلف رنگ بھر کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے بعد فلموں، گانوں، ادیبوں، دنیا کے مشہور پینٹروں، ایکٹرسوں اور بہت سی جگہوں کی تفصیلات جاننے کو مل جاتی ہیں جو لکھاری کے وسیع مطالعے اور معلوماتی ذخیرے کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان کہانیوں کے کرداروں میں کچھ چیزیں بہت زیادہ مشترک ہیں جو بعض اوقات قاری کی دلچسپی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ مثلاً زیادہ تر خواتین کا قد 5.5 سے 5.7 فٹ تک ہے۔ شاید لکھاری کے نزدیک خوبصورت عورتوں کے قد کا معیار دراز قد ہے۔ مردوں کو داشتائیں رکھنے کی عادت ہے جب کہ خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ سو کر وصل کے لمحات میں آنکھیں بند کیے اپنے پرانے عاشقوں کو یاد کرتی رہتی ہیں۔ لڑکیوں کو تنو مند مرد پسند ہیں جیسے ماہم ابراہیم اور سویدا اور گڈو کے کردار ہیں۔ سویدا اور گڈو کو جان ابراہیم پسند ہے تو ماہم ابرہیم کو رافع میں ہسپانوی اداکار انٹونیو بندراس نظر آتا ہے۔ دوسرے افسانے کے اختتام پر ڈاکٹر قاضی ڈاکٹر سویرا کے ساتھ نتھیاگلی جاتا ہے جبکہ تیسرے افسانے میں افسانے کی ہیروئن مایا رہتی ہی نتھیا گلی ہے۔ اور چاروں کہانیوں میں سندھ اور خاص کر کراچی کا ذکر بہت تفصیل سے ملتا ہے۔
چاروں کہانیوں میں اپر کلاس اور اس کے ساتھ ساتھ داشتاؤں کا اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ بیوروکریٹ اور اعلی عہدوں پر فائض لوگوں کا اپنی اپنی مسٹرس رکھنا ایک لازمی چیز محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب میں بہت سی ایسی کہانیوں اور لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو ہمارے اردگرد تو رہتے ہیں لیکن ہم ان کی اصلیت نہیں پہچان پاتے۔ یا جن کی شخصیتوں کی حقیقتیں جاننے تک ہماری رسائی ان کے مرنے کے بعد بھی نہیں ہو پاتی۔ افسر شاہی اور اپر کلاس کی ان کہانیوں میں طاقت اور کمزور کے درمیان فرق اور ان کی نفسیات کو سمجھنے میں جہاں مدد ملتی ہے، وہاں طاقتور کی بے بسی اور بے اختیاری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں دو نہیں چار چار چہروں والے لوگ ہمارے ساتھ اور ہمارے اردگرد موجود رہتے ہیں۔ ان کے لیے آپ ایک ہتھیار ہیں جس کا استعمال وہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت اور کسی بھی طرح کر سکتے ہیں۔