شاعری: محمد منذر رضا (تعارف: سردار عماد رازق)
محمد منذر رضا اردو و فارسی شعری روایت میں گندھا ہوا ایک پختہ کار نوجوان شاعر ہے۔ منذر کے لیے جدید روش کے برعکس شعر گوئی کوئی جز وقتی مشغلہ نہیں جس سے جب چاہا جی بہلا لیا اور طبیعت پہ کچھ گرانی ہوئی تو یہ چولا اتار پھینکا۔ اس کے ہاں شعر گوئی ایک کُل وقتی سرگرمی ہے جو اگر شعر گو کی زندگی کا بنیادی ترین مسئلہ نہ ہو تو وہ شاعر کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ سلیم احمد کے جملے ”عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے“ کو اگر آدمی کی تمام تر تخلیقی صلاحیتوں کو فنِ شعر میں کھپانے کے معنی میں لیا جائے تو منذر رضا بلاشبہ شاعری کے لیے مطلوبہ آدمی ہے۔ منذر نے اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں کے کلاسیکس کا ہوشمندانہ مطالعہ کر رکھا ہے جو اس کے مصرعوں کی بنت اور فکر کے تنوع میں جھلکتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شاعر کا مطالعہ کوئی طاق پہ سجا کر رکھنے کی شے ہے اور نہ ہی اس کے گلے میں لٹکایا جانا والا تمغہ کہ جسے دکھا کر تماشائیوں سے داد وصول کی جائے، شاعر کے مطالعے کا اگر کوئی کارگر مصرف ہے تو وہ اس کے کلام میں مطالعہ سے کیا گیا تخلیقی استفادہ ہے۔ منذر کے ہاں مطالعہ نہ من و عن جھلکتا ہے کہ شعر محض ترسیلِ معلومات کا ذریعہ لگے، اور نہ ایسا نہاں رہتا ہے کہ شاعر کے مضامین پھیکی اور بدمزہ کر دینے والی یک رنگی سے عبارت ہوں۔ تخلیقی استفادہ سے یہ مراد ہے کہ منذر اگر مطالعہ سے کوئی مضمون لے تو اسے جوں کا توں بیان نہیں کر دیتا بلکہ اسے کچھ درجے آگے بڑھاتا ہے اور یوں بات نقل محض کے آموختہ سے بڑھ کر درجۂ تخلیق میں داخل ہوتی ہے۔ امید ہے اس تمہید سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ جملہ علوم و فنون کے ساتھ ساتھ شعرائے ماضی کے کلام سے استفادہ بھی فی نفسہ کوئی مذموم شے نہیں، ہاں اس میں شاعر کی تخلیقی صلاحیت اس سطح پر بروئے کار آنا لازم ہے کہ اظہار مرتبۂ ”بیان“ سے مترفع ہو۔
منذر کی شاعری میں ایک اہم ترین خصوصیت، جو اسے اردو، فارسی اور انگریزی کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مسلسل شعری مشق سے حاصل ہوئی ہے، کرافٹ پر دی جانے والی بے مثال توجہ ہے۔ وہ آج کل کے دیگر نوجوان شعراء کی طرح مصرعہ لکھ کر برجیس و کیوان پر نہیں جا براجتا کہ لو بھئی تخلیق ہو گئی، اب ہمارے قدمین جمیع مخلوقات کے سروں پر ہیں۔ وہ مصرعے کو صحیح معنی میں تراشتا ہے۔ اس تراش خراش میں غزل سمٹ کر فرد رہ جائے تو رہ جائے، وہ اپنے معیارِ تراش کو زود گوئی پر قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ غالباً اس کی وجوہات میں منذر کی طبیعت کی مستغنی المزاجی کا بھی دخل ہے جو اسے مبتذل محافل سے دور اور نتیجتاً ہلکے، فوری تفہیم کے باعث، اور تھوک میں اشعارکی تخلیق سے باز رکھتی ہے۔کرافٹ کی جانب لوٹتے ہوئے عرض ہے کہ کفییت کا بیان شعر کے اولین مصارف میں سے رہا ہے، ’وحشت‘ کی کیفیت پر منذر کا یہ شعر دیکھیے:
رنج ناشناسی کا دہر سے نہیں شکوہ
بے مثال وحشت ہے، بے تلازمہ وحشت
وحشت جدید آدمی کی وجودی کیفیت بن چکی ہے اور ہر صاحبِ احساس اسے جھیلتا ہے۔ وفورِ کیفیت کا لازمی نتیجہ اظہار کی صورت نکلتا ہے؛ چنانچہ بہت سے نو آموز، جو بلاشبہ اس کیفیت سے گزرتے ہوں گے، بھی اس مضمون کو باندھتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کے اشعار میں کیفیت اس بے ڈھنگے پن سے بیان ہوتی ہے کہ بیانِ وحشت سے وحشت ہونے لگے۔ کیفیت کا طاری ہونا بلاشبہ غیر اختیاری اور بیک آن مسلط ہو جانے والا امر ہے لیکن اس کا بیان اختیار اور ٹھہراؤ کا بالترتیب حامل اور متقاضی ہے۔ کیفیت ہر آدمی پر طاری ہوتی ہے لیکن تخلیق کار کا پہلا کام اس کیفیت کو اپنی ذات میں جذب کرنا اور پھر اسے اظہارِ فن کی بہترین ممکنہ جہت اور جمالیاتی ترفع کے ساتھ بیان کرنا ہے۔ مذکورہ شعر میں رنج ناشناسی ایسی چست ترکیب بتاتی ہے کہ شاعر ایک مصرعے کی بات کو دو لفظی ترکیب میں سمیٹ سکتا ہے اور اسی پر قانع نہیں ہو جاتا بلکہ مصرعِ ثانی میں بے تلازمہ وحشت ایسی نادر اور ان مٹ ترکیب لے کر آتا ہے۔ پھر دہر کا لفظ جو معانی دے رہا ہے وہ ’دنیا‘ وغیرہ سے حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کیفیت تاریخ کی زائیدہ ہے اور اس لفظ سے یہ رعائیت باآسانی میسر آتی ہے۔ اس شعر پہ مفصل کلام ہو سکتا ہے جس میں اس کے تلازماتی نظام اور فنی در و بست کا بیان ہو، لیکن اس مختصر تحریر کے سر پہ یہ بار اضافی ہو گا۔ اس مختصر وضاحت کا مقصد آپ کو منذر کی شعری بہشت کا ایک میوہ چکھانا تھا۔
مذکورہ اوصاف کے علاوہ استادانہ تلازمہ کاری بھی منذر کی شاعری کا جزو لاینفک ہے۔ اس کے ہاں نہ صرف مضمون، بلکہ شعر میں برتے گئے الفاظ کی سطح پر بھی تلازماتی نظام کا مکمل اہتمام ملتا ہے۔ تلازماتی نظام کی شکست و ریخت جدید شاعری کے امہات مقاصد میں سے ہے، اور اس کے نمائندے سینہ چوڑا کر کے اپنے ماتھے پہ لگی اس کالک کو فخریہ انداز میں خود سے منسوب کرتے ہیں کہ ’ہاں، یہ ہمارا ہی کیا دھرا ہے اور یہی ہمارا مقصد بھی تھا‘۔ سیاہ کو سفید کہنے کی اس روش عام سے جدا ہو کر روایتی تلازمہ کاری کو اپنا شعار بنانا منذر کے لائق ستائش کارناموں میں سے ایک ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ فن کے ساتھ اسی اخلاص سے منسلک رہ کر بہترین شعر کہتا رہے گا۔
پسِ قندیل ہیں کتنے ہی پرائے سائے
اوج پر جاتا ہے غم شام کے سائے سائے
جا حقیقت کی نہیں دہر کا یہ وہم کدہ
بسکہ آباد رکھے ہیں یہ سرائے، سائے
سحرِ وحشت ہے عجب کوئی چمن پر طاری
فصلِ گل میں اگے پھولوں کے بجائے سائے
کیا ہی جاں کاہ گھٹن شہر کے ماحول میں تھی
چاند کی شہ پہ بھی چھت پر نہیں آئے سائے
یاد کے نام پہ ہے ذہن میں بکھرا کیا کیا
عکس، تمثیلیں، اشارات، کنائے، سائے
ایک لو رہبرِ تصویرگرِ فکر ہوئی
ان خدو خال کے نقشے پہ بنائے، سائے
یہ شفق پھولی ہے اس سمت فلک کے منذر
یا لہو روتے ہیں وحشت کے ستائے سائے؟
…………………………………..
فرصتِ مرہمی نہ تھی ، زخم چھلا ، چھلا رہا
صبح سے شام تک وہی کام کا سلسلہ رہا
ذہن میں وحشتیں نہ ہوں، دل تو ہو پر زِ درد و غم
مانا کہ خام تھا جنوں، شوق بھی بے صلہ رہا؟
جوشِ نمو بھی ہے بجا، لمحے بھی ہیں طرب فزا
خدشہ سا دل میں ہے کہ وقت، سم تو نہیں پلا رہا!
کہتے ہیں رات باد بھی، حد سے زیادہ تند تھی
مجھ کو بھی اپنے خون کی، تاب سے کچھ گلہ رہا
ذہن میں تو شروع سے، پیکرِ خوش تراش، تھا
لمحۂ دید، اے خوشا! فکر میں فن ملا رہا!
جامہ دریدگی، جنوں، کیسے ہنر سے میں چھپائے
حرف لباسِ شعر میں، کیسا بجا سلا رہا!
میری ہی نارسائی تھی، لمس ملا نہ باس آئی
اس سے تو کیا گلہ کروں ، وہ سرِ دل، کھلا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فصلِ بہار ہو چکی، پھول کوئی کھلا نہیں
میں ہی خزاں نصیب تھا، تجھ سے کوئی گلہ نہیں
کچھ تو بہ پاسِ دوستی، ضبطِ خوشی کی جہد کر
بار پہ میری ہنس مگر، ایسے تو کھلکھلا نہیں
ہم نے یہ سوچ کر کیا فرضِ نیاز سے گریز
ترک پر کیوں عتاب ہو، کرنے پہ جب صلہ نہیں
سینہ و سر کا فاصلہ ، کرنوں کی روپہ ہے گراں
تف بہ دماغِ ضوفشاں، دل ہی کو جب جلا نہیں
روشنیِ جمال سے، جبکہ کیا نہ فیض یاب
میری غزل سے دور رہ، لفظ میں جھلملا نہیں
سیلیِ ماجرا سے رخ، کون سے دن ہوا نہ لال
ناخنِ یاد سے جگر کون سی شب چھلا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کس اوج پہ جاتا ہے جنوں، کس سے کہوں
آگ پہلے تو نہ تھی خون میں یوں، کس سے کہوں
کس نے دن تیرہ کیے، پڑھ کے اندھیروں کا طلسم
لوگ ہیں سب اسی کے زیرِ فسوں، کس سے کہوں!
بات سنتا ہی نہیں آئینہء ظاہر بیں
اپنے پرتو سے ورائے جو میں ہوں، کس سے کہوں
سنگ سے قلب، چٹانوں کی سماعت پکھلائے
گرم اتنا بھی نہیں سوزِ دروں، کس سے کہوں
کیا خوش انداز تھی یہ کشتہ نگارِ تہذیب!
ہو چکا ہے مری آواز کا خوں، کس سے کہوں!
سر عجب شان سے حرفوں نے اٹھایا دل میں
وائے منذر! کہ مرا سر ہے نگوں، کس سے کہوں