ملزم جناح کی بریت: بلال حسن بھٹی
”ملزم جناح حاضر ہو“ عماد بزدار صاحب کی حال ہی میں شائع ہونے والی پہلی تصنیف ہے۔ یہ کتاب شائع ہونے سے پہلے ہی نہ شائع ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر خوب ”شہرت“ سمیٹ چکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ان الزامات کا جواب ہے جو جناح صاحب کی شخصیت پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف ادوار میں لگائے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جناح صاحب انگریزوں کے ایجنٹ تھے، وہ سور کا گوشت کھاتے تھے، شراب پیتے تھے یا اسی طرح کے دیگر تیسرے درجے کے الزامات جن کو سچ سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس سے پہلے کتاب کے سرورق اور ابتدائی تین مضامین پر کافی بحث ہو چکی ہے۔ جیسے عامر ککزئی صاحب نے سرورق کو ”کروڑوں پشتونوں اور بلوچوں کو غدار قرار دینا“ سمجھا۔ جبکہ ایک اور جگہ کبیر علی صاحب نے اس پر جو تبصرہ کیا وہ زیادہ دلچسپ ہے۔ ان کے نزدیک ”اتنا واضح اور عریاں سرورق؛ اور اتنا سیدھا اور سپاٹ عنوان غالباً سوشل میڈیا کی برکات ہیں۔ یہ بالکل یوٹیوب ویڈیوز کے تھمب نیل کی طرح ہے یعنی اس نئی قسم کے قاری کے لیے مصنف کو ہر بات بالکل کھول کر اور صحافیانہ انداز سے کہنا ہو گی۔ کسی خوبصورتی یا کرافٹ کی کوئی گنجائش نہیں“۔ ہر مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اگر نہ بھی چاہے تو ناشر کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ کتاب کی مشہوری کے لیے فلیپ پر چند مشہور لوگوں سے دو چار لائنیں لکھوا لی جائیں۔ یہ بھی اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ کتاب پر چار لکیریں ارزاں کرنے والے بڑے سے بڑے ادیب نے کتاب کو سرے سے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک جس چیز کی اہمیت ہوتی ہے وہ ہے کتاب کے اندر موجود مواد، یعنی مواد کیسا ہے، یا مصنف کس حد تک اپنےموضوع سے انصاف کر پایا ہے۔
کتاب پڑھتے ہوئے کسی حد تک اس کا پہلا تاثر بالکل وہی پڑتا ہے جو کبیر علی صاحب نے بیان کیا۔ اگر آپ نے پچھلے تین چار سالوں میں گاندھی بمقابلہ جناح، جناح بمقابلہ آزاد اور ولی خان غدار ہے جیسے موضوعات کے تحت ہونے والے فیس بکی مباحثوں کو پڑھا ہے تو اس کتاب کا ابتدائی تاثر بالکل ویسا ہی ہے۔ جس میں طرفین اپنی پسندیدہ شخصیات کو بڑا ثابت کرنے کے لیے وہی روایتی دلائل دیتے ہیں جو ان کی پسندیدہ شخصیات کے حق میں ہوتے ہیں۔ جبکہ مخالفین کے خلاف وہی فرسودہ دلائل دیے جاتے ہیں جو ناپسندیدہ شخصیات کو ایک ناکام سیاستدان اور ایک کم عقل انسان بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً اس کتاب میں آپ کا سامنا ایسے آزاد سے ہو گا جو ”ایک نمبر کا جھوٹا“، ”ناکام سیاستدان“، ”منافق“ اور ”کانگرسی شو بوائے“ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، جس نے اپنی آپ بیتی میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں لکھا۔ گاندھی کو آپ ایک ”ڈکٹیٹر“، ”ہڈدھڑم“، ”مکار“، ”احمق“ اور نظریاتی طور پر بالکل پست شخص کے طور پر دیکھیں گے۔ جبکہ ولی خان کی کتاب میں بیان کیے گئے حقائق ”جھوٹ کا پلندہ“ نظر آتے ہیں۔ رہے جناح تو وہ 1915 سے ہندوستان کے مشہور سیاستدان ہیں اور انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان حاصل کر کے اپنے کردار کی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔ کہیں کہیں مصنف آزاد، ولی خان اور گاندھی کے بارے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تلخی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسے انہیں آزاد ”نسیان کے مریض“ نظر آتے ہیں یا ولی خان کی کتاب میں لکھی غلط باتیں ”گھٹیا الزامات“ محسوس ہوتی ہیں۔
یہ سب ابتدائی تاثر ہے جو ہرگز آخری تاثر نہیں ہے۔ ”ملزم جناح حاضر“ ہو چار سو صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصے کا عنوان متحدہ ہندوستان کا حامی جناح، دوسرے حصے کا عنوان مسلمانوں کے قائد اعظم، تیسرے حصے کا عنوان گاندھی کی شخصیت اور چوتھے حصے کا عنوان ولی خان کے الزامات کا جواب ہے۔ کتاب کا تقریبا تین چوتھائی حصہ قائد اعظم کی شخصیت، گاندھی کی شخصیت، تقسیم ہندوستان کی تاریخ اور بہت سے اہم مغربی اور ہندو شخصیات کی لکھی کتابوں کے حوالہ جات پر مشتمل ہے البتہ آخری حصے میں کسی حد تک مصنف کی اپنی آرا نظر آتی ہیں۔ تقریباً 46 کتابوں اور 349 حوالہ جات میں سے مصنف نے اپنے موقف کی حمایت کے لیے بہت کم پاکستانی حوالہ جات یا کتابوں سے مدد لی ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں 1915 سے لے کر 1936 تک متحدہ ہندوستان کے حامی قائد اعظم کی شخصیت کے گوناگوں پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر دکھایا گیا کہ کس طرح گاندھی کے ہندوستان آنے سے پہلے جناح متحدہ ہندوستان میں ایک طاقت ور آواز بن چکے تھے۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ”جناح اتحاد سے تقسیم تک“ میں لکھا ہے کہ ” جب گاندھی افریقہ سے ہندوستان آئے تو اس وقت جناح ایک کل ہند سطح کے لیڈر بن چکے تھے“۔ متحدہ ہندوستان کے لیے جدوجہد کرنے والے جناح کے نظریات کو میجر آمر بائی کی جناح سے بات چیت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میجر آرمز بائی گور نے اپنی سوانح عمری ” دی سٹوری آف مائی لائف“ میں متحدہ ہندوستان پر قائد اعظم کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو یوں لکھا ہے۔
میجر آرمزبائی: کیا آپ حقیقی ہندوستانی قوم پرست ہیں؟
جناح: جی
میجر آرمز بائی: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سیاسی میدان میں ہندو مسلم کی تفریق سے بالاتر ہو کر کام کرنا چاہیں گے۔
جناح: جی ہاں وہ دن میری زندگی کا خوشگوار ترین دن ہو گا جب مذہبی تخصیص سیاسی میدان میں ختم ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ اس باب میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح جناح صاحب تن تنہا رولٹ ایکٹ، سول نافرمانی کی تحریک اور گول میز کانفرنس میں ایک مدبر اور راست گو سیاستدان بن کر ابھرے۔ جنہوں نے اپنے اصولی موقف اور مسمم ارادے کے ساتھ نہ صرف ہندوؤں بلکہ کانگرسی مسلمانوں اور انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ دوسری طرف گاندھی کی سول نافرمانی تحریک اور ترکِ موالات تحریک میں مذہب کے استعمال سے مسلمانوں کو ہونے والے نقصانات پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ بات اپنے اندر کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ ترکی میں خلیفہ کا اقتدار قائم کرنے کے لیے ہندوستان میں عجیب و غریب شورش برپا کی گئی جبکہ مصر کے سنیوں اور فارس کے شیعوں نے کسی موقع پر بھی اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
جب تک لیڈر کے پاس کوئی بڑا مقصد نہ ہو وہ کبھی اگلی صف تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیڈر کو کسی عظیم مقصد کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کرنا چاہیے، جیسے جیسے یہ مقصد اعلی تر ہوتا جائے گا، لیڈر کا قد بڑھتا جائے گا۔ لیکن محض مقصد ہی کافی نہیں ہے، اسے عملی طور پر اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا، اسے نتائج دینا ہوں گے۔ اسے ایسے ذرائع استعمال نہیں کرنے چاہئیں کہ اس کے مقصد پر حرف آئے اور وہ اعلی کی بجائے پست گردانا جائے۔ قائد اعظم ایک قدآور رہنما تھے۔ کتاب کا دوسرا حصہ 146 صفحات پر مشتمل ہے اور کتاب کا طویل ترین حصہ ہے۔ اس میں 1937 سے لے کر 1947 تک کے اہم ترین واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور قائد اعظم کی اس جدوجہد کو سامنے لایا گیا ہے جو انہوں نے متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹنے کے بعد صرف مسلمانوں کے حقوق کی خاطر کی تھی۔ جس جدوجہد نے انہیں مضبوط اعصاب کا مالک اور قدآور رہنما ثابت کیا، اور مسلمانوں کا قائد اعظم بنایا۔ 1937 کی کانگرسی وزارتوں نے مسلمانوں پر یہ عیاں کر دیا تھا کہ اگر وہ آزادی کے بعد بھی متحدہ ہندوستان میں رہیں گے تو طاقتور ہندو ان کا برے طریقے سے استحصال کریں گے۔ ان تمام مشکلات اور ہندوؤں کی مکاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد اعظم نے اپنی جدوجہد متحدہ ہندوستان سے ہٹا کر مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے پر مرکوز کر دی۔ اس باب میں کانگرسی وزارتوں کے دوران ہندوؤں کا رویہ، کیبنٹ مشن پلان میں انگریزوں اور ہندوؤں کا گٹھ جوڑ، لارڈ ویول کی آرا، قرار داد پاکستان پر ہندووں کا رویہ، دو قومی نظریہ اور مولانا آزاد کے تضادات کو بیان کیا گیا ہے۔
دنیا کے بڑے رہنماؤں کی اکثریت انا پرست ہوتی ہے۔ان میں سے کچھ منکسر المزاجی کا برتاؤ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جس قسم کی قوتوں سے کسی لیڈر کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں انا پرستی کے قریب درجے کی خود اعتمادی پائی جاتی ہو۔ وہ اپنے نصب العین کو مکمل گہرائی کے ساتھ سمجھتا اور مانتا ہو کیونکہ اگر ایک لیڈر کو اپنے مقصد کا خود فہم اور یقین نہیں ہو گا تو کسی دوسرے کو کس طرح منوا سکے گا؟ تو اسی خود اعتمادی اور انا پرستی نے محمد علی جناح کو ایسی شخصیت بنایا تھا جنہوں نے اُس عہد کے نہ صرف ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے مسلمانوں کا مقدمہ لڑا بلکہ اپنے مخالف مسلمان سیاستدانوں کو بھی اپنی خوداعتمادی اور اپنے مقصد کی سچائی کے ذریعے ہرایا۔ کتاب کا تیسرا حصہ گاندھی کی شخصیت پر لکھا گیا ہے۔ جس میں گاندھی کے عدم تشدد کی بدلتی تعریفیں اور عدم تشدد کے اندر چھپے متشددانہ رویے کو عیاں کیا گیا ہے۔ نیز گاندھی کے نظریات اور خاص کر چرخہ کات کر معیشت چلانے جیسے معاشی نظریات کی مضحکہ خیزی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حصے میں صرف ان حوالہ جات کی مدد لی گئی ہے جن میں گاندھی پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ چوتھے حصے میں ولی خان کے ان الزامات کو رد کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب facts are fact میں جناح پر لگائے تھے۔ اس حصے میں ڈاکٹر مبارک علی کے اس دعوی کا رد بھی کیا گیا ہے جس کا اظہار انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ جس کے مطابق ظفر علی خان نے قرار داد پاکستان کو انگریزوں کے کہنے پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی یہ بات بھی ولی خان کی کتاب سے لی گئی ہے جس میں ولی خان نے ادھورے خط کا حوالہ دیکر حقائق کو اپنی مرضی سے توڑ موڑ کر پیش کیا تھا۔
اس کتاب کا موضوع جناح پر لگائے گئے وہ الزامات ہیں جن کا ذکر ولی خان کی کتاب ”حقائق حقاق ہیں“ اور مولانا آزاد کی کتاب ”آزادی ہند“ میں ملتا ہے جبکہ کچھ الزمات وہ ہیں جن کی بازگشت سوشل میڈیا پر سننے کو ملتی ہے۔ ان تمام الزامات کے جوابات مختلف کتابوں میں دیے گئے ہیں اور یہ کتابیں صرف مسلمانوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔ تو جب خود بھارت میں بی جی پے کے لیڈر جسونت سنگھ، ایچ ایم سیروائی، ایس کے مجمدار، اجیت جاوید اور گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی جیسے ہندووں نے اپنی کتابوں میں جناح کی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کیا اور اس پر انگریزوں کے ایجنٹ ہونے جیسے لگائے گئے دیگر الزامات کو یکسر رد کر دیا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کی کیا ضرورت یا اہمیت ہے؟ جس کے جواب میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کتاب نے ان تمام الزامات کے جوابات کو جو بیسیوں کتابوں میں موجود ہیں، ایک جگہ پیش کر کے تاریخ کے طالب علموں پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس سے انہیں قائد اعظم کی شخصیت اور ہندوستان کی تقسیم پر اٹھائے جانے والے عمومی سوالات اور الزامات کے جواب اور اُن کا پس منظر ہندو اور انگریز مصنفین کے نقطہ نظر کے ذریعے سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب پاکستان میں قائد اعظم کے حق میں لکھی جانے والی کتابوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور مواد کے حساب سے تاریخ کے طالب علموں کے لیے بہت اہم ریفرنس بک کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے اور اسے ملک کی تقریبا تمام لائبریریوں کے لیے لازم قرار دے دینا چاہیے۔ اس کو پڑھ کر آنے والی نسل مطالعہ پاکستان کے بہت سے موضوعات کو مزید گہرائی میں جا کر سمجھ سکے گی۔ باقی خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب میں ایک پروف خواں کا نام دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کتاب کی پروف خوانی کروائی گئی ہے لیکن اگلے ایڈیشن میں مصنف کتاب کی پروف خوانی اور ایڈیٹنگ اگر کسی ماہر سے کروا لے تو بہت اچھا رہے گا کیونکہ کتاب میں ایڈیٹنگ کی کافی اغلاط موجود ہیں۔ مثلاً بہت جگہوں پر یا تو تراجم میں اسقام ہیں یا کچھ انگریزی پیراگراف تو موجود ہیں لیکن ان کا اردو ترجمہ کرتے وقت پورا پورا جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ جہاں مصنف نے تحقیق میں اتنی عرق ریزی کی ہے تاکہ اس موضوع پر ایک جامع دستاویز ہمارے سامنے لاسکے، اگر اگلے ایڈیشن میں ایڈیٹنگ اور ظاہری حسن پر بھی توجہ کر لے تو کمال ہو جائے۔ پھر کئی حوالہ جات کو بھی دہرایا گیا ہے جس سے قاری اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے گو ایک ریفرنسز سے بھرا تھیسز لکھتے ہوئے یہ مسائل لکھنے والے کو ہمیشہ درپیش ہوتے ہیں۔
بلاشبہ زبان و بیان اور ترتیب میں چھوٹے چھوٹے نقائص ہیں جو اگلے ایڈیشن میں تصحیح کے متقاضی ہیں کیونکہ کتاب نہایت اہم دستاویر اور تحقیقی ماخذ کے لیے مستقل حیثیت رکھے گی