دو قومی نظریے نے ہمیں کیا دیا؟۔ محمد دین جوہر

 In تاثرات

[نوٹ: کوئی دنوں کی بات ہے کہ ایک صاحب ناصحانہ آئے اور للکارے کہ ہمیں دو قومی نظریے نے کیا دیا ہے؟ میں ابھی سہمنے کے عمل اور سنبھلنے کی سعی میں تھا کہ جناب نے اپنے علمی ’کھاتے‘ سے ایک حفظ شدہ گوشوارہ ارزانی فرمانا شروع کیا: غربت، بے انصافی، بدامنی، استحصال، جبر، رشوت ستانی، جاگیرداری، دہشت گردی، عسکریت پسندی، بیماری، لاقانونیت، جہالت، مذہبی منافرت، فرقہ واریت، سقوط ڈھاکا، پرائیویٹ تعلیم، پرائیویٹ ہسپتال، پولیس گردی، پسماندگی، استحصال، منی لانڈرنگ اور نہ جانے کیا کیا۔ میں چپکا ہو رہا اور وہ ٹل گئے۔ سوال تو خیر الگ رہا، ان صاحب کا اعتماد اور اس اعتماد کی پستی دیدنی تھی۔ اس واقعے کی مابعد یاد آوری پر چند تاثرات۔]

آدمی اگر سارے کا سارا آنکھ بن جائے تو بھی جمالِ محبوب اس کی سمائی سے زیادہ ہے۔ جمال کی روبروئی ہی آنکھ کا جرمِ نادانی ہے کہ سزا دل کی پیہم ناصبوری ہے۔ اور جلوۂ جمال جس قدر کشکولِ نگاہ میں ہے، وجود کی سہار سے زیادہ ہے۔ جمالِ محبوب جہاں جی کی دھڑکن بھلا دیتا ہے، وہیں ذہن کو اس بھول کی گرد بنا دیتا ہے، اور اظہار کو محض دریوزہ گری۔ لیکن کچھ ایسے بھی جری ہوتے ہیں کہ جلوے کے اظہار کو بچ رہتے ہیں۔ اہلِ سخن اور اہلِ فن جمالِ محبوب کے بھگت ہیں۔ میرؔ ہو کہ سوداؔ، غالبؔ ہو کہ اکبرؔ، اقبالؔ ہو کہ راشدؔ، یہ جمالِ محبوب اور جمالِ تہذیب کے پے بہ پے جلووں کے سوختہ جاں ہیں۔ ان کی سوختہ سامانی کہیں شعر و سخن ہے اور کہیں فکر و فن۔

اہل سخن اور اہلِ فن کے محبوب کا انسان ہونا بھی معلوم ہے، اور ان کے فن و شعر میں وہ جمالِ مجسم ہی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ محبوب چونکہ انسان ہے، اس لیے روٹی کھاتا ہے، پانی پیتا ہے، اور تن پوشی بھی کرتا ہے۔ اسے صحت و بیماری کا سامنا بھی رہتا ہے۔ انسان ہے تو عیب و خطا کا حامل بھی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے اس کو کبھی خارش بھی ہوئی ہو۔ ممکن ہے اس کا کان ناک بہہ نکلا ہو۔ ممکن ہے اس کے تنِ سیمیں پر پیپ بھرا پھوڑا پھوٹ پڑا ہو۔ اس کے بہار اندوختہ بدن کو پیشاب و پاخانہ بھی مستقل عارض ہوتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی چشم غزالاں میل کچیل سے بھر آئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ دشنام کے دلداہ لبِ لعلیں سے قے بھی ابل پڑی ہو۔ لیکن ہمارے اہلِ سخن اپنی قادر الکلامی کے باوجود محبوب کے ان پہلوؤں سے کچھ خاص تعرض نہیں کرتے۔ کیا زکام و قے یا پاخانہ و پیشاب کی نقشہ کشی نہ کر کے وہ ’غیرحقیقت پسندی ‘ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ یہی معاملہ علوم کا بھی ہے کہ ادبی تنقید، شعریات اور آرٹ کے فلسفیانہ مباحث میں اہل علم یہ اعتراض نہیں کرتے کہ محبوب کو زکام ہوا تھا لیکن شاعری میں اس کا ذکر نہیں آیا، اس لیے زیر بحث شاعری غیر حقیقت پسندانہ اور ردی ہے۔ محبوب کوئی سیاسی یا مذہبی شخصیت بھی ہو سکتا ہے، اور اس کے حوالے سے کوئی تصور اور واقعہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن ان پر گفتگو کے اسالیب بھی مقرر ہیں اور وہاں بھی اس طرح کی ”حقیقی“ چیزوں کو کوئی جگہ نہیں ملتی۔

ہمارے ہاں دور پار کے یا قریب پاس کے سیاسی قائد کی بات ہو، کسی نئے پرانے مذہبی رہنما کا تذکرہ ہو، اپنی تاریخ کا ذکر ہو، دینی روایت کا حوالہ مقصود ہو، تہذیبی افکار کی بات ہو، تو صاف ظاہر ہے کہ انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی حیثیتوں میں زیر بحث ہوتے ہیں اور افکار و نظریات بھی اپنی شرائطِ گفتگو رکھتے ہیں۔ اور ان سرگرمیوں میں شامل انسانوں کو بھی انہی عوارض و مسائل کا سامنا رہا ہو گا جن سے محبوب گزرتا یا گزر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے سیکولرسٹوں اور متجددین کا یہ مسئلہ ہے کہ جب بھی جمالِ محبوب کا ذکر ہو یا ہم اپنی تاریخ کا ذکر کر بیٹھیں یا کسی تہذیبی تصور سے وفاداری کی بات آ جائے یا دین پہ جان نثاری کا نعرہ بلند ہو جائے تو وہ ناک کان بہنے اور پیشاب پاخانے کا ذکر لے بیٹھتے ہیں۔ ہم نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ ہماری تاریخ عیوب سے پاک ہے۔ ہر تہذیب کی طرح ہماری تہذیب بھی ایک واقعاتی اور انسانی حقیقت تھی، اور یقیناً حسن و قبح کے پہلو رکھتی تھی۔ ہم یہ ضرور عرض کرتے ہیں کہ یہ انسانوں کی تاریخ ہے اور اس کے کردار نہ فرشتے تھے نہ انہوں نے کبھی فرشتے ہونے کا دعویٰ کیا۔ ہم ان کے کمالات کے ساتھ ساتھ محالات و نقائص کو بھی مانتے ہیں۔ لیکن ہمارے لبرل دوست ہیں کہ وہ خارش کا ذکر کرتے نہیں تھکتے یا ہماری تاریخ کی جائے ضرورت میں گھس جاتے ہیں اور وہاں ایسا دھرنا دیتے ہیں کہ باہر ہی نہیں آتے، اور نعرہ زن رہتے ہیں کہ یہاں یہ ہے، یہاں وہ ہے۔ جہاں وہ جا براجتے ہیں، وہاں یہ، وہ کے علاوہ انہیں کچھ مل بھی تو نہیں سکتا۔ مجھے تو بعض اوقات یہ اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو انہیں ”علمی گھٹی“ چرکین نے دی ہے، اور پہلی آواز جو ان کے گوش گزار ہوئی زٹلی کی رہی ہو گی۔ کوئی موضوع ہو، کوئی بات ہو، وہی اندازِ چرکینی ہے، اور عمر بھر کی تعفن پروری ہے۔

فرد کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں، معاشرہ اندوہ گیری میں ہو، اور تاریخ نرغے میں ہو تو نظریہ عشقِ دمشق کی طرح فراموش ہو جاتا ہے۔ لیکن عین یہی وقت ہے کہ قومی عمل نظریے سے مہمیز پائے اور اجل پروردہ تاریخ کے روبرو قیام کی تیاری کرے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search