مولانا فضل الرحمٰن اور ہمارا تہذیبی بحران- محمد دین جوہر
معاشروں اور تہذیبوں میں طاقت اور علم کا بحران بیک آن ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ کسی معاشرے اور تہذیب میں سیاسی طاقت مائل بہ عروج ہو اور علم مائل بہ زوال، یا کوئی معاشرہ علم میں ترقی کر رہا ہو اور سیاسی طاقت میں تنزلی کا شکار ہو۔ سیاسی طاقت اور اس کا پشتیبان تہذیبی علم بیک وقت ابھرتے اور ڈوبتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت کا زوال و انہدام اور علمی انتشار ہم قدم ہیں، اور یہ صورت حال گزشتہ تین سو سال سے مستقل اور متصل چلی آتی ہے۔ ہمارے سیاسی علوم و نظریات دیگر سائنسی اور سماجی علوم سے کہیں زیادہ ابتری کا شکار ہیں، اور خطرناک بھی کیونکہ اکثر یہی علوم و نظریات سیاسی عمل کو سامنے لاتے ہیں، اور حاضر و موجود سیاسی عمل کو سمجھنے کی بنیاد بنتے ہیں۔ سیاسی عمل اور علوم و نظریات کا انتشار قیامِ پاکستان سے قبل کی دہائی میں نقطۂ عروج کو پہنچا تھا، اور موجودہ حالات عین اسی بحران کے ایک اہم موڑ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ محض تاریخی اتفاق نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں سب سے فعال سیاسی سرگرمی مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں سامنے آ رہی ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دو قومی نظریے کی مخالفت کی اساس مذہبی رہی ہے اور اس کے خلاف رد عمل کی بنیاد لسانی قومیت۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ نائن الیون کے بعد ظاہر ہونے والا پاکستان کا سیاسی بحران برصغیر میں ہمارے تہذیبی بحران کی ایک نئی اور خطرناک شکل میں واپسی ہے۔ سنہ ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والا طاقت کا علاقائی نظام نائن الیون کے بعد ایک ریڈیکل تبدیلی سے گزر رہا ہے، اور یہ تبدیلیاں پاکستان کے داخلی حالات پر براہ راست اثرانداز ہو رہی ہیں۔ طاقت کے عالمی اور علاقائی نظام میں تبدیلیاں سیاسی نظریات اور بیانیوں پر بھی براہ راست اثرانداز ہوئی ہیں۔ پاکستان کے اندر سیاسی توتکار اور بیانیوں کا خلفشار بھی عروج پر ہے، لیکن بنیادی اہمیت سیاسی عمل اور ایسٹبلشمنٹ کی مابینی مساوات کو دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طاقت کی داخلی حرکیات میں سول ملٹری توازن ایک اہم جز کے طور پر داخل ہے، لیکن یہ ہمارے تہذیبی بحران کے کل کو ظاہر نہیں کرتا۔ موجودہ سیاسی صورت حال کو سول ملٹری کشمکش، کرپشن، پارٹی پولٹکس، فرمانروائی، اظہار خیال کی آزادی وغیرہ کے تناظروں میں زیربحث لانا معمول ہے، لیکن یہ اس بحران کی علامات تو ہیں اسباب نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی بحران کو بڑے تہذیبی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔
سنہ ۱۹۴۷ء سے قبل مسلم معاشرے میں سیاسی نظریات اور سیاسی عمل ایک ہی سوال پر مرتکز ہو گئے کہ پاکستان بننا چاہیے یا نہیں؟ یہ سوال اتنا بڑا تھا کہ مابعد مسلم سیاسی تصورات میں اس کو قطب نما کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس سوال نے برصغیر میں دین کی تعبیرات کو بھی اساسی سطح پر متاثر کیا ہے۔ دو قومی نظریے کی صورت میں اس مسئلے کے حل سے نہ صرف برصغیر تقسیم ہوا، بلکہ یہ نظریہ مسلم معاشرے کی گہری تقسیم کا باعث بھی بنا۔ دو قومی نظریہ، مذہبی تعبیرات سے پیدا ہونے والے دیگر بے معنی سیاسی نظریات سے مختلف تھا کیونکہ یہ مسلم معاشرے کی مذہبی شناخت کی تاریخی حقیقت کو بنیاد بنا کر حصول اقتدار کے تاریخی مسئلے سے نبرد آزما تھا، اور اسی باعث نتیجہ خیز بھی تھا۔ پاکستان بننے کے بعد، مسلم معاشرے میں پہلے سے موجود دو قومی نظریے کی شدید مخالفت کے ساتھ ایک نیا سیاسی عنصر بھی داخل ہو گیا، اور وہ پاکستان کے اندر لسانی اور علاقائی گروہوں کا دو قومی نظریے کے خلاف ردعمل تھا۔ اس طرح دو قومی نظریے کی مخالفت اور اس کے خلاف ردعمل پاکستان کے سیاسی عمل کا بھی حصہ بن گئے۔ اس صورت حال کو غدار اور وفادار کے محدود اور بےسود آلاتی تناظر میں بالکل بھی نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایسی قوتیں اپنے سیاسی موقف اور سیاسی عمل میں پاکستان کے اندر اپنے بیانیے کے ساتھ ایک مستقل اور واضح موجودگی رکھتی ہیں۔ اس ردعمل کا آغاز عوامی لیگ اور کچھ دیگر سیاسی گروہوں سے ہوا، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد اس ردعمل کے مظاہر سامنے آنا بند ہو گئے، اور وہ پاکستانی سیاسی منظرنامے سے واقف احباب سے اوجھل نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دو قومی نظریے کی مخالفت کی اساس مذہبی رہی ہے اور اس کے خلاف رد عمل کی بنیاد لسانی قومیت۔ موجودہ صورت حال میں یہ دونوں دھارے یک جان ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دو قومی نظریے کی مخالفت اور اس کے خلاف مابعد ردعمل کی وجہ سے پاکستان کی پولٹی (polity) میں ایسی مقتدر قوتیں ہمیشہ موجود رہی ہیں جو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ایک مختلف سیاسی ورلڈ ویو رکھتی ہیں۔ قومی منظرنامے پر ظاہر ہونے والی موجودہ تقسیم اور اس میں شدت اصلاً قیام پاکستان سے قبل مسلم معاشرے کی نصفی تقسیم کا عکس جدید ہے۔ اپنے تہذیبی مضمرات میں یہ ابھی مبہم ہے لیکن سیاسی نتائج و عواقب میں یہ انتہائی خطرناک ہے۔
بھارت میں دو قومی نظریے کے مخالف مسلمانوں کا واحد ملجا اب صرف مودی جی کے چرنوں میں ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
نائن الیون کے بعد سے، دو قومی نظریے اور برصغیری مسلم معاشرے میں اس کی مخالفت اور اس پر ردعمل کے حوالے سے صورت حال بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اگرچہ enlightened-moderation کے ذریعے اس تہذیبی گرہ کو کھولنے کی کوشش کا مختصر وقفہ بھی آیا لیکن بنیادی حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہی وہ وقت ہے جب بھارت میں ہندوتوا کا عروج شروع ہوتا ہے۔ ہندوتوا سے قبل برصغیر میں ایسی تہذیبی اور سیاسی لوکال ہمیشہ باقی رہی جہاں مسلمان دو قومی نظریے کی مخالفت سے اپنی سیاسی شناخت کا غازہ حاصل کرتے تھے۔ ہندوتوا کا نظریہ، دو قومی نظریے کے حامی اور مخالف مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ وہ فرد، معاشرے اور قوم کے حوالے سے مسلم مذہبی شناخت کو بھارتی جغرافیے کی تحدیدات سے مشروط کرنے پر بضد ہے، جس کا واضح مطلب دین سے دستبرداری ہے۔ ہندوتوا کے عروج نے دو قومی نظریے اور پاکستان مخالف مسلمانوں کے پاؤں تلے کوئی زمین باقی نہیں رہنے دی۔ ان مسلمانوں نے اپنی سیاسی شناخت کو ہمیشہ مذہبی شناخت پر مقدم رکھا۔ ہندوتوا نے ان کی سیاسی شناخت کو جو سیکولرزم کے ساتھ بامعنی تھی بالکل ہی ردی کر دیا۔ اس مخمصے میں اب ان کے لیے اپنی مذہبی شناخت کی طرف واپسی کا بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہا، اور سیاسی شناخت سے جو اسلام برآمد ہو رہا ہے وہ جمیعت علمائے ہند کی موجودہ پالیسی سے بالکل واضح ہے۔ بھارت میں دو قومی نظریے کے مخالف مسلمانوں کا واحد ملجا اب صرف مودی جی کے چرنوں میں ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس مخالفت کے انجام کا لازمی اثر پاکستان میں بیانیے کے احوال پر بھی مرتب ہوا۔ اندیشہ یہ ہے کہ سابقہ کمیونسٹوں کی طرح دو قومی نظریے کے مخالف مسلمانوں کا آخری سہارا اب امریکہ ہی ہو گا۔ لیکن مغرب کے ٹرمپ زدہ بیانیوں میں ایسے مسلمانوں کی رسد، طلب سے کہیں زیادہ ہے۔ برصغیر میں دو قومی نظریے کے مخالف مسلمان اب تہذیب کے نئے پناہ گزیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمن تبدیل شدہ تہذیبی صورت حال میں بعینہٖ وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل مولانا ابوالکلام آزاد نے ادا کیا تھا۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی اور ریاستی قوتوں کے حوالے سے ایک پیج کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ پیج دو قومی نظریے کا ہی ہے۔ بھارت میں سیاسی طاقت کی تہذیبی تشکیل ہندوتوا پر منتقل ہو چکی ہے، اور یہ کوئی اتفاق نہیں کہ پاکستان میں بھی مقتدر قوتوں نے دو قومی نظریے یا اس کی نئی تعبیر کے ساتھ اپنی وابستگی کو نمایاں کیا ہے۔ پورے برصغیر میں اب ایسی کوئی تہذیبی لوکال باقی نہیں رہی جہاں دو قومی نظریے کی مخالفت یا اس سے ابہامی وابستگی سیاسی عمل کی بنیاد بن سکے۔ یعنی اب برصغیر میں نظریاتی no man’s-land کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ برصغیر کے مسلم معاشرے میں نظریاتی برزخ میں مقیم گروہوں کی کثرت چلی آتی ہے، اور طاقت کے عالمی اور علاقائی رجحان سے بھارت اور پاکستان میں ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ اس امر کے ادراک نے پاکستان میں کچھ سیاسی قوتوں کے غضب کو مہمیز کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اسی تہذیبی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے ایک ایسے سیاسی عمل کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو بے وقت کی راگنی ہے۔
دو قومی نظریے پر جو بھی تنقید کی جائے لیکن یہ تاریخ میں ازحد نتیجہ خیز رہا ہے۔ اس کے علاوہ برصغیر کے مسلم معاشرے میں مذہبی سیاسی نظریات کی بڑی فروانی رہی ہے اور ان کا شجرہ نسب تحریک مجاہدین کے الہامی نظریۂ خلافت سے شروع ہو کر متحدہ قومیت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تمام تر نظریات برزخی ہیں، یعنی نہ یہ تاریخ سے مخاطب ہیں، اور نہ معاد سے متعلق ہیں، نہ یہ انسانی شعور کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں اور نہ کسی بامعنی سیاسی عمل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ ان کی اساس میں دین کی کوئی اجتماعی یا سیاسی قدر بھی موجود نہیں، اور نہ یہ کوئی ایسے سیاسی نظریات سامنے لاتے ہیں جو ہماری تہذیبی تقدیر اور دینی ورلڈ ویو سے جائز نسبتیں رکھتے ہوں۔ اپنی برزخی وجودیات کے باعث یہ تمام تر نظریات نہ صرف نابودی (nihilistic) ہیں، بلکہ انسان دشمن اور مسلم معاشرے کے لیے ہلاکت کا باعث ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے سیاسی عمل سے ان تمامتر نابودی نظریات کو منطقی انجام تک پہنچانے والے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تبدیل شدہ تہذیبی صورت حال میں بعینہٖ وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل مولانا ابوالکلام آزاد نے ادا کیا تھا۔
امید یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا سیاسی عمل مکمل طور پر بے ثمر رہے گا، اور اندیشہ یہ ہے کہ اس سیاسی عمل سے فتنے اور جبر کے راستے کھل سکتے ہیں۔
اس وقت مولانا فضل الرحمن تین طرح کی سیاسی قوتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ نمائندگی بے یقینی سے عبارت ہے۔ (۱) پاکستان اور تصور پاکستان سے بددل قوتیں، یعنی رد عمل کا شکار قوتیں؛ (۲) پاکستان اور تصور پاکستان کو بہ جبر و اکراہ قبول کرنے والی قوتیں؛ (۳) پاکستان اور تصور پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کرنے والی قوتیں۔ غداری اور وفاداری کے تناظر میں اس صورت حال کو زیربحث لانا میری رائے میں ازحد نادانی کی بات ہے کیونکہ یہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ برصغیر میں دو قومی نظریے اور اس کے مخالف سیاسی نظریات کے حوالے سے ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے۔ دو قومی نظریہ برصغیر میں مسلم طاقت کا ایک واضح تصور رکھتا ہے، جبکہ اس کے مخالف نظریات نہ صرف مسلم طاقت کا کوئی واضح یا غیر واضح تصور نہیں رکھتے بلکہ وہ مسلم طاقت کی محض موجودگی ہی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس پہلو سے مذہبی سیاسی تصورات اپنی دو سو سالہ تاریخ رکھتے ہیں، اور تاریخ کے ہر کانٹے کے لمحے میں ان نظریات سے فروع ہونے والا سیاسی عمل مسلم معاشرے پر ایک ضربِ کاری کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن گزشتہ تاریخ میں ان نظریات کے مؤثر ہونے میں ایک فیصلہ کن عامل مسلم طاقت کا نہ ہونا تھا۔ موجودہ صورت حال اسی تاریخ کی تکرار ہے، لیکن پاکستان میں ایک طاقتور مقتدرہ کی موجودگی میں ان نظریات کی ثمرآوری کا امکان بہت کم ہے، اور یہی بیک وقت امید اور اندیشے کا پہلو ہے۔ امید یہ کہ مولانا فضل الرحمٰن کا سیاسی عمل مکمل طور پر بے ثمر رہے گا، اور اندیشہ یہ کہ اس سیاسی عمل سے فتنے اور جبر کے راستے کھل سکتے ہیں۔
حضرت مولانا کے آزادی مارچ میں بھان متی کی پٹاری واحد اثاث البیت ہے جس سے نظریاتی خلفشار اور قہرمانی کے سوا کچھ باہر نہیں آ سکتا۔ اسی باعث مولانا فضل الرحمٰن کے موجودہ سیاسی عمل کا کوئی وحدانی نظریاتی بیانیہ نہیں ہے۔ ہراول کے رہنماؤں کا بیانیہ transactional اور instrumental ہے اور اس کا براہ راست ہدف موجودہ حکومت ہے۔ دوسرے درجے میں آزادی مارچ کے حامی صحافیوں، دانشوروں اور لبرلسٹوں کا بیانیہ ہے جس میں براہ راست فوج نشانے پر ہے۔ مجھے ملک سے باہر یورپ اور امریکہ کے ”اعلیٰ علمی حلقوں“ میں فروغ یافتہ پاکستان اور فوج دشمن بیانیے میں بہت زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے حامی صحافیوں اور دانشوروں میں چلنے والے فوج دشمن بیانیے اور غیرملکی فوج دشمن بیانیے میں مماثلتیں محض توارد نہیں ہیں، بلکہ ارادی بھی ہیں اور فطری بھی۔ گزارش ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں سول بالا دستی سے بڑی سیاسی قدر کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن سول بالا دستی اور فوج دشمنی کو ایک ہی بیانیہ بنا دینا سیاسی نابلوغت سے زیادہ کچھ نہیں۔ سول بالا دستی کے لیے تہذیبی سطح کے ایسے بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے تحت قومی طاقت کے تمام پہلوؤں کی تالیف ممکن ہو سکے۔ یہ اس وقت موضوع نہیں، لیکن مولانا فضل الرحمٰن جس بے سرو پا سیاسی عمل کو سامنے لا رہے ہیں، اور جس طرح کے تماش بین اور متنوع بیانیے اس کو کمک فراہم کر رہے ہیں، اس کے قومی اور تہذیبی امکانات لہو رنگ بھی ہیں، اور موہوم بھی۔ حضرت مولانا ہمارے اہم ترین قومی رہنماؤں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے جملہ قومی رہنماؤں کو درست فیصلوں کی توفیق ارزاں فرمائے جو اس معاشرے اور قوم کے لیے خیر کا باعث ہوں۔
interesting -comparison- of -pre- partition- and- current- politics, and- in -the- end -he- summed- up -a -very- common -confusion- in- a -single- line. سول بالا دستی اور فوج دشمنی کو ایک ہی بیانیہ بنا دینا سیاسی نابلوغت سے زیادہ کچھ نہیں۔