فسطائیت۔ ایک تعارف: طارق عباس
حالیہ تاریخ میں چار فاشسٹ ریاستوں کا وجود رہا ہے : اٹلی، جرمنی، سپین، اور فرانس
اٹلی میں فسطائیت کا دور 1921 سے 1945 تک رہا۔ اس دوران میں اطالوی لیڈر مسولینی تھا۔
جرمنی میں فسطائیت 1933 سے 1945 تک رہی، اس دوران میں ان کا لیڈر ایڈولف ہٹلر تھا۔
سپین میں فسطائیت کا دور سب سے طویل تھا جو کہ 1936 سے 1975 تک قائم رہا۔ ان کا لیڈر فرانسسکو فرانکو تھا۔
پرتگال میں بھی 1939 تا 1974 فاشسٹ حکومت قائم رہی۔ اور ان کا لیڈر انتونیو سالازار تھا۔
بہت سے دوسرے ممالک میں بھی فسطائیت کا کسی نہ کسی درجے میں وجود رہا ہے جس کی سب سے واضح مثال جنگِ عظیم دوم کے دوران سامراجی جاپان تھا، 1945 سے 1955 کے دوران ارجنٹائن تھا، اور ماضی قریب میں بھارتی جنتا پارٹی( بی جے پی) تھی۔ 1990 کی دہائی میں بی جے پی ایک فاشسٹ حکومت تھی اور بعد ازاں 1998 سے 2004 تک بھی اسی فاشسٹ حکومت کا راج رہا۔ موجودہ بھارتی حکومت بی جے پی کے بارے میں بھی عمومی رائے یہی ہے کہ یہ بھی ایک فاشسٹ پارٹی ہے، اور یہ کہ 2014 کے بعد سے آج تک بھارتی ریاست ایک فاشسٹ ریاست ہے۔
فسطائیت کا ایک جزو جو بھارت میں بہت وضوح کے ساتھ دیکھنے میں آیا وہ ایک خاص قسم کی زبان کا استعمال تھا اور جو’بھارتی ‘،’ہندو‘، اور’انڈین‘؛ ان تینوں مختلف الفاظ کو ہمیشہ ہم معنی قرار دیتا تھا۔
فسطائیت کے بنیادی تصورات
تمام فسطائی نظاموں اور گروہوں میں علامتیت (symbolism)ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ لفظ fascism لاطینی لفظ FASCES سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے’ایک کلہاڑی، جو کہ سلاخوں کے ایک گُچھےمیں سے باہر نکل رہی ہے۔‘
یہ اصطلاح دورِ حاضر کے فسطائی نظریے کے ساتھ بہت واضح حد تک متعلق ہو گئی جب مسولینی نے جنگِ عظیم اول کے دوران اور اس کے بعد پارلیمنٹری گروپ (مجلسِ قانون ساز) قائم کیا۔
تمام فسطائی قوتیں اپنی الگ الگ علامتیں رکھتی ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ مشہور نازی سواستیکا ہے۔
اسی طرح اوسولڈ موزلے کے مقلد کالی قمیض پہنتے تھے۔ اوسولڈ موزلے 1930 میں برطانوی فاشسٹ یونین کا سربراہ تھا۔
اسی طرح بھارتی جنتا پارٹی اور دوسری ہندو احیائی تنظیمیں واضح طور پر زعفرانی رنگ کا لباس اور ترشول کا استعمال کرتے پیں، جو کہ ہندو تاریخ میں مسلسل مستعمل رہا ہے۔
فسطائیت کا دوسرا بنیادی نظریہ اساسی اتحاد ہے۔ فسطائی نظریہ اور عقیدہ بہت وثوق کے ساتھ ایک الگ تھلک قوم کا تصور رکھتا ہے۔
فسطائی نظریے کے مطابق قوم کسی جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگوں کا نام نہیں ہے بلکہ دنیا کی بہت سی نسلوں میں سے ایک مخصوص نسل کا نام ہے۔ فسطائی نظریے کے تحت دوسری اقوام کسی صورت بھی اُن کے برابر نہیں ہیں بلکہ وہ اُن کی بقا کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہیں ۔ اسی وجہ سے فسطائی نظریہ رکھنے والی ہر قوم طبعاً جنگجو ہوتی ہے، اور اسے اپنی بقا کیلئے کثیر تعداد میں فوج درکار ہوتی ہے۔
فسطائی نظریہ کے تحت قوم کی پیدائشِ نو اس امر پر منحصر ہوتی ہے کہ اُس کا تعلق ایک مخصوص نسل سے ہے۔ اور اس کی بقا کیلئے نسل کا خالص رہنا بہت ضروری ہے۔
نازی جرمنی کے ہاں فسطائی تصور کی بنیاد نسلی درجہ بندی پر تھی۔ اس درجہ بندی کے مطابق دنیا کی تمام نسلیں ایک دوسرے سے جوہری طور پر مختلف تھیں، نسلی امتیاز کی شناخت رنگ،چہرے کے مخصوص خدو خال اور کُچھ دوسرے فرق ملحوظ رکھتی تھیں ۔ اس نظریے کے تحت ثقافتی امتیاز بھی حیاتیاتی فرق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ نازی نظریے کے مطابق تمام نسلیں ایک مخصوص درجہ بندی کے تحت وجود رکھتی ہیں جن میں سب سے برتر نسل آریائی تھی جو کہ سفید فام لوگ تھے۔اضافی خوبیاں ان کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔اس آریائی نسل کے علاوہ باقی تمام نسلیں جیسے افریقی، ایشیائی، اور یہودی؛ یہ تمام کمتر نسلیں تھیں۔ نازیوں کے مطابق کسی بھی قوم کا حصہ ہونے کیلئے فیصلہ کُن اور واحد شرط ایک مخصوص نسل سے ہونا تھا۔ اور اس نسل کا تولیدی اعتبار سے خاص یا خالص ہونا تبھی ممکن تھا جب آریائی نسل کے لوگوں کا دوسری کمتر نسل کے ساتھ رشتۂ ازدواج غیر قانونی اور ناممکن بنا دیا جائے۔ ہٹلر کے مطابق آریائی نسل کی اصالتِ خون کو تباہ کرنے میں یہودیوں کا کلیدی کردار تھا۔
ULTRA NATIONALISM
غیرمعمولی قوم پرستی فسطائیت کا دوسرا بنیادی تصورہے۔ اس تصور کے مطابق چونکہ اقوام نسلی بنیادوں پر وجود رکھتی ہیں لہذاٰ وہ زمینی حدود میں محدود نہیں رہ سکتیں۔ ہٹلر کے مطابق جرمن قوم ، نورڈک(ناروی) اور برطانوی آریائی نسل سے تھی ۔ ہٹلر کا آسٹریا اورچیکوسلواکیا پر حملہ کر کے اُسے جرمن کالونی(نوآبادیات ) بنانا بھی اسی تصور کے تحت تھا کیونکہ ان دونوں ممالک میں جرمن نسل کے لوگ کثیر تعداد میں آباد تھے جنہیں وہ آریائی چھتری تلے اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ بالفاظ دیگر، فسطائی نظریے کے مطابق ریاستی حد بندیاں بے معنی ہیں۔ آریائی لوگ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں وہ آریائی قوم کا حصہ ہیں اور دنیا کی باقی اقوام کے بارے میں بھی نازی یہی نظریہ رکھتے تھے۔ ہٹلر کو یقین تھا کہ اُس وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت، برطانیہ اُس کے”آریائی مقصد “ میں اُس کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔اور بالآخر آریائی قوم دوبارہ سے اکٹھی ہو جائے گی
GLORIFICATION OF THE PAST
فسطائی نظریہ موجودہ دنیا کو تباہ شدہ تصور کرتا ہے اور ایک ہی جغرافیائی خطے میں بہت سی دوسری اقوام کی بیک وقت موجودگی آریائی نسل کا تقدس ناپاک کر رہی ہوتی ہےاور نتیجتاً کمتر نسل سے متعلق لوگ آریائی نسل کی پیورٹی کو لاحق مستقل خطرہ ہیں۔ فسطائیوں کے مطابق ماضی بعید میں آریائی لوگ دیہی علاقے میں اپنی خالص ترین حالت میں موجود تھے جہاں انہیں کمتر نسلوں اور جدیدیت سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔اور بعد میں کمتر اقوام سے میل جول نے ان کی پاکیزگی کو آلودہ کر دیا۔
اطالوی اور جرمنی فسطائیت کا تقابل
نازی جرمنی کا ایسے زرعی اور دلکش ماضی کا تصور اسے اطالوی فسطائی نظریے سے بہت حد تک ممتاز کر دیتا ہے۔ کیونکہ مسولینی اٹلی کو اپنے وقت کی جدید ترین ریاست بنانے کا خواہاں تھا اور دنیا بھر میں اسے صنعت کا مرکز بنانا چاہتا تھا۔ ان دونوں اور دیگر تمام فسطائی نظریات کے مابین مشترک قدر یہ ہے کہ ان کی اجتماعی پاکیزگی کو مسلسل خطرہ لاحق رہتا ہے ، چنانچہ اسی وجہ سے یہ اقوام جنگ کیلئے ہر وقت آمادہ رہتی ہیں۔ اس کا مطلب نہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی سرحدی حدود کا دفاع کریں گے بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے علاقوں کو عسکری بل بوتے پر فتح کر کے محکوم بھی بنائیں گے۔بالخصوص نازی جرمنی نے از سرِ نو اسلحہ بندی کی وسیع مہم چلائی۔ اس مہم میں عوام نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسلحہ سازی کی اس مہم کے نتیجے میں جرمنی Great Depression (کساد بازاری )سے بازیاب ہوا۔ اور قومی اعتماد میں بحالی آئی جو کہ جنگِ عظیم کے خاتمے پر بری طرح مسخ ہو چکا تھا۔
عسکریت پر مبنی اس صنعت کاری نے جرمنی کے پرائیویٹ سیکٹر کو بہت فائدہ پہنچایا اور اس نے اسلحہ اور دیگر صنعتی سامان تیار کر کے وقیع منافع کمایا۔ تاہم چونکہ دوسرے ممالک بھی اسلحہ سازی میں ترقی کر رہے تھے، لہذٰا نازی جرمنی کو مسلسل اپنا اسلحہ جدید سے جدید تر حالت میں رکھنا ممکن بنانا تھا۔جنگ کی اس ہمہ گیر سطح پرمسلسل تیاری کا مطلب یہ بھی تھا کہ نازی جرمنی کے تمام مرد اس کی فوج کا حصہ سمجھے جاتےتھے۔ تمام مردوں کیلئے فوجی تربیت بھی لازم تھی۔
مرد و زن کے فرائض
نازی فسطائی نظریے کے تحت مرد و زن کے فرائض میں واضح فرق تھا۔ مردوں کے ذمہ جنگ کیلئے مسلسل تیار رہنا اور قوم کی خدمت اور بقاءکے نظریے کے تحت جنگ کیلئے اپنی دستیابی یقینی بنانا تھا جبکہ عورتوں کے ذمہ گھر کو سنبھالنا اور قوم کی خدمت کیلئے نئی نسل کو جنم دینا تھا۔ 1930 کی دہائی میں جرمنی میں عورتوں کو باقاعدہ تربیتی کیمپس میں ایک اچھی نازی ماں اور ایک اچھی نازی بیوی بننے کی تربیت دی جاتی تھی، لیکن جنگ کے دوران عورتوں کی ذمہ داری میں تبدیلی آ جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ زیادہ سے زیادہ مرد جنگی سرحدوں پر لڑنے کیلئے بھیج دئے جاتے تھے لہذاٰ عورتیں اسلحہ اور دیگر سامان تیار کرنے کی فیکٹریوں میں کام کر کے جنگ میں اپنا حصہ ڈالتی تھیں۔
نازی جرمنی کا مذکورہ طرزِ حیات anti-rationalism (عقلیت دشمنی ) کی معروف مثال گردانا جاتا ہے۔ وہ یوں کہ نازی جرمنی اپنی خالص ترین حالت اور عظمتِ رفتہ کو یوں بیان کرتے تھے کہ اُن کی آریائی نسل دیہی علاقے میں خالص حالت میں رہا کرتی تھی اور خالص رہنے کیلئے جنگ کیلئے مسلسل تیار رہنا اور نقل و حرکت کے نتیجے میں اپنی نسل کو دوسری کم تر نسلوں سے’آلودہ‘ کرنا، یہ دونوں عوامل نقصان دہ تھے۔دوسرے فسطائی نظریات کی طرح نازی بھی جدیدیت کو آلودہ اور کمزور کر دینے والا خیال کرتے تھے۔ اسی طرح نظریۂ جمہوریت کو بھی جدیدیت کا پرتو سمجھتے تھے۔فسطائی عوام جمہوریت کو مسلسل اور ختم نہ ہونے والے سمجھوتوں اور معاہدوں کا منبع خیال کرتے تھے۔
1930 کی دہائی (جوعالمگیر مالی بحران کا دور تھا) نے نازی جرمنی کو جمہوریت کے تباہ کُن ہونے کے (اُن کے اپنے خیال کے مطابق) بہت سے ثبوت مہیا کئے۔ اس دہائی میں بے روزگاری 60 لاکھ تک پہنچ چُکی تھی جو کہ جرمن آبادی کا دس فیصد تھا۔کسان بری طرح قرضوں میں گھرے ہوئے تھے، کاروبار تباہ ہو رہے تھے اور پارلیمانی حکومت کا چلنا نا ممکن العمل ہو چُکا تھا کیونکہ بہت سی سیاسی پارٹیاں نہایت قلیل تعداد میں پارلیمنٹ میں بیک وقت موجود تھیں۔اور کسی بھی پارٹی کے پاس اکثریت نہ ہونے کے باعث وہ کبھی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتے تھے۔لہذاٰ نازی فسطائی نظریے کے مطابق ہر طرح کی ناکامی کا ذمہ دار نظریۂ جمہوریت تھا۔
مزید برآں، نازی ہر طرح کی عقلیت پرستی، جس میں سائنسی طریقۂ کار بھی شامل تھا، کو بے جان اور مردہ خیال کرتے تھے۔اور اس میں سائنس، ٹیکنالوجی، اور ہر طرح کی عقلیات مضمر تھیں۔ اس تناظر میں نازی نظریہ ہمہ گیر نوعیت کا anti-rationalist (عقلیت دشمنی پر مبنی ) تھا۔ کیونکہ ان کی معیشت بہت حد تک اُس وقت کی صنعتی ترقی پر منحصر تھی۔علاوہ ازیں نازی جرمنی کا ہر وقت جنگ کیلئے تیار اور متحرک رہنا بھی اُن کے نظریات سے متصادم تھا۔
ہولوکاسٹ
نسل کُشی کا اصول فسطائی تصورِ حیات کا خاصہ ہے، اگرچہ اس کو علمی جامہ پہنانے کی سرِ عام کوشش صرف نازی جرمنی نے کی تھی۔
یہودیوں کی نسل کشی کی نازی حکمتِ عملی ”ہولوکاسٹ “ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ لیکن ہٹلر نے،جو کہ نسل کُشی کی پالیسی کا اکلوتا لکھاری تھا، اسے Final Solution کا نام دیا۔ جرمن میں اسے (die Endlösung) کہا جاتا ہے۔ہٹلر کا یہ تصور جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا کہ یہودی آریائوں کی برتر نسل کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔ اور یہ کہ یہودی ایک عالمی سازش میں ملوث تھے جنہوں نے Bolshevism (روسی تصور اشتراکیت ) کے ساتھ مل کر آریائی نسل کو کمزور کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔یکم ستمبر 1939 کو جب نازی جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تب ہٹلر نے یہ منادی کرا دی کہ پولینڈ میں موجود تمام یہودیوں کو قتل کر دیا جائے۔بالخصوص ہٹلر نے یہودی بستیوں کو تباہ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔
The Final Solution
لیکن Final Solution صرف پولینڈ میں یہودیوں کے قتلِ عام تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ ایک جامع منصوبہ تھا جس کے تحت یورپ میں موجود ایک ایک یہودی کو چُن چُن کر مارنا تھا۔اور پھر یہی طریقۂ کار دوسری اقوام کے ساتھ کرنا تھا۔ یہ منصوبہ نہایت پُرکار حکمتِ عملی کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ اور یہ انسانی تاریخ میں mass murder (بڑے پیمانے پر قتل و غارت )کا سب سے بڑا فعل ہے۔محتاط اندازے کے مطابق پورے یورپ میں تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کوقتل کیا گیا۔
ہولوکاسٹ کے نتیجے میں ایک اور لفظ کی”تخلیق“ ہوئی اور وہ تھا genocide(نسل کشی )۔
یہ درست ہے کہ انسانی تاریخ میں نسل کشی کے بہتیرے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں لیکن ہولوکاسٹ ایک ایسا قتلِ عام تھا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی: اس قتلِ عام کو ہزاروں administrators (منتظمین ) ، فوجی افسران، انجینئرز، ریلوے سٹاف، اور عام شہریوں کےبیک وقت باہمی رابطے نے ممکن بنایا۔ اس طرح کی منصوبہ بندی 1994 میں روانڈا (Rwanda) کے قتل عام میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
گجرات میں 2002 میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے میں بھی ایک ایک مسلمان کو ڈھونڈا گیا تھا اور سرکاری دستاویزات کی مدد سے اُن کی شناخت کی گئی۔
جرمنی میں ہونے والے قتلِ عام (ہولوکاسٹ) کے دوران جرمن عوام کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جرمنی میں موجود concentration camps میں یہودیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا جا رہا ہے۔ جب جنگ کے بعد بہت سے لوگوں کو یہ معلوم پڑا کہ لاکھوں انسانوں کا قتل اُن کی بے خبری میں اُن کے گھروں سے چند قدم کے فاصلےپر ہو رہا تھا تو وہ نہایت خوفزدہ ہو کر رہ گئے تھے۔اس کے برعکس مثالیں بھی موجود ہیں کہ جب دنیا میں لوگوں کو معلوم تھا کہ قتلِ عام ہو رہا ہے تب بھی دنیا نے کچھ نہیں کیا۔اقوامِ متحدہ نے روانڈا کے قتلِ عام کو روکنے کی کوشش کی جسے امریکہ اور فرانس نے (ویٹو کے ذریعے) نا ممکن بنا دیا۔
فسطائیت کے دستیاب نظریات کے مطابق، جو اٹلی کی نیشنل فاشسٹ پارٹی کا manifesto تھا، اُس میں یہ تحریری طور پر موجود ہے کہ ” مسولینی ہمیشہ درست ہوتا ہے“ (Mussolini is always right)۔ نازی تحریک میں شمولیت کے دوران جو عہد لیا جاتا تھا اُس کے ابتدائی الفاظ تھے: ” ہٹلر ہمیشہ درست ہوتا ہے“(The Fuhrer is always right)۔اطالوی اور نازی پارٹیوں کے اس منشور سے مراد یہ ہوتی ہے کہ لیڈر یا لیڈر کے ایما پرجاری کئے گئے کسی بھی پیغام سے عدم اتفاق یا اعتراض غداری کہلائے گا ۔ یہاں ہمارے لئے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ تب کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر بھی اختلاف ممکن نہیں تھا، چاہے وہ معاملہ کتنا ہی ادنیٰ نوعیت کا کیوں نہ ہو۔کیونکہ اس اختلاف کا مطلب یہ تھا کہ لیڈر کی will مکمل نہیں ہے جو کہ فسطائی’عقیدے‘ کے خلاف تھا۔ یہ عقیدہ اس حد تک سخت گیر تھا کہ اگر لیڈر کا حکم بوجوہ ناقابلِ عمل ہے اور اس پر عمل درآمد نا ممکن بھی ہے، تب بھی اُس کو قابلِ عمل نہ بنا پانا بھی غداری قرار پائے گا۔
اس امر سے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے جو جنگِ عظیم دوم میں پیش آیا جب Stalingrad کے معرکے کے اختتامی دنوں میں، جو 1942-43 میں پیش آیا، اس دوران جرمن کمانڈر Friedrich Paulus مسلسل یہ تقاضا کرتا رہا کہ اُسے مزید اسلحہ بھیجا جائے کیونکہ اُس کے فوجی دستے اسلحے کی عدم دستیابی کے باعث بہت مشکل میں گھرے ہوئے تھے۔ہٹلر کے پاس بھیجنے کیلئے مزید supplies (رسد) موجود نہیں تھیں۔ہٹلر نے پاؤلوس کے تقاضے کے جواب میں اُسے کمانڈر سے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی (جنگی مؤرخین کی رائے کے مطابق ہٹلر نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ تب تک کی جرمن تاریخ میں کوئی بھی فیلڈ مارشل جنگ سے زندہ واپس نہیں آیا تھا)۔ اس تقرری کے بعد پاؤلوس سے یہ توقع تھی کہ یا تو وہ مرتے دم تک لڑے گا یا پھر شکست سے قبل خود کشی کر لے گا۔
تاہم اس مرتبہ فیلڈ مارشل نے بجائے خودکشی کرنے کے، ہتھیار ڈال دئے اور اپنی اور اپنے فوجیوں کی جان بچا لی۔ بعد ازاں پاؤلوس ہٹلر اور نازی حکومت کا سرِ عام مخالف بن کر سامنے آیا۔لیکن فسطائی نظریے کے تحت پاؤلوس کا ہتھیار ڈالنا صریح غداری تھی۔اس پہ مستزاد یہ کہ اس امر کا لوگوں کے علم میں آجانا کہ ہٹلر اسلحہ بھیجنے میں ناکام رہا، یہ بھی غداری کے زمرے میں آتا تھا کیونکہ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا تھا کہ Furher کے فیصلے کامل اور معصوم عن الخطا نہیں ہوتے۔
فسطائیت کے نظریاتی مسائل
یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ فسطائی تصورات تضادات سے بھرپور ہیں۔ ان تضادات کی وجہ سے اُن کیلئے ہمیشہ بہت سے مسائل نے جنم لیا۔ یہاں تک کہ کچھ تضادات کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ فسطائیت کی تباہی پر منتج ہوئے۔
جدید ریاستی نظام کی پیچیدگی، لارج سکیل پراجیکٹس (بڑے پیمانے کے منصوبوں ) میں غیر متوقع تکنیکی مشکلات، شدید موسم کے باعث پیدا ہونے والے مسائل؛ اور سب سے بڑھ کر فسطائیت کالیڈر کے کسی بھی حکم کو’مسئلہ‘ یا’پریشانی‘ کہنے اور ماننے سے انکار؛ یہ سب مل کر فسطائیت کی بقا کیلئے چیلنج (چنوتی ) بن گئے۔
1۔ ایک مسئلہ مزید یہ تھا کہ اگر عوام کو یہ علم ہو کہ فلاں حکومتی ادارے کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ ادارہ ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتا ہے تو یہ لیڈر کی کاملیت پر ایک سوال بن کر ابھرتا ہے جو فاشسٹ(فسطائی ) حکومت میں کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتا اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی بھی ادارے کے فرائض بوضوح عوام کو معلوم نہ ہونے دئے جاتے۔ اور دوسرا مضحکہ خیز حل یہ نکالا جاتا کہ بہت سے اداروں کو overlapping (باہم مشترک ) ذمہ داریاں دی جاتیں تاکہ یہ واضح نہ ہو سکے کہ آیا یہ ذمہ داری پولیس کی ہے، فوج کی، یا پھرحکومتی جماعت کی۔حتیٰ کہ وہ لوگ جو ان اداروں میں ملازمت کر رہے ہوتے تھے انہیں بھی وضاحت سے یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ مزید یہ کہ لیڈر عہدیداران کو ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں مسلسل تبادلہ کرتا رہتاتھا۔ اور ساتھ میں ذمہ داریوں کی definitions (حدود و شرائط ) بھی تبدیل کرتا رہتا تھا۔
اس طرح کہ overlapping ذمہ داریاں نہ صرف نازی جرمنی کا حصہ تھیں بلکہ یہ کم و بیش ہر مطلق العنان نظام کا حصہ رہی ہیں مثلاً جوزف اسٹالن کا روس ۔
2۔ فسطائی نظریۂ حیات میں دوسرا مسئلہ یا تضاد یہ تھا کہ اسکے ماننے والے ایک شاندار ، خوبصورت دیہی اور زرعی ماضی کا تصور رکھتے تھے۔اس نظریے میں بنیادی سقم کسی تاریخی ثبوت کی عدم دستیابی تھی۔ مؤرخین کے مطابق ماضی کے ادوار بھی ایسے ہی پریشان کُن تھے جیسا کوئی بھی تاریخ کا دور ہوا کرتا ہے، ان ادوار میں بھی جنگیں ، بیماریاں، قحط، اور سیاسی و سماجی جبر وغیرہ دوسرے ادوارکی طرح موجود تھے۔ ان سب کے باوصف فسطائی تصورِ حیات میں یہ دیومالائی اورخوبصورت ماضی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔اور یہ امر بھی اسی نظریے کا حصہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوبصورتی اور نسلی خالص پن دوسری کم تر درجے کی اقوام سے میل جول اور اُن کی عادات و اطوار سے تباہ ہوا۔
اس نظریے میں موجود واضح تضاد یہ ہے کہ فسطائی معاشرے کو جنگ کیلئے مسلسل تیار رہنا ضروری ہے کیونکہ ہر دوسری قوم اور سماج، فسطائیوں کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔ اور اسی خطرے سے نبرد آزما ہونے اور اس سے نمٹنے کیلئے وسیع و عریض صنعتیں، جہاں جدید ترین ہتھیار اور اسلحہ ڈیزائن اور تیار کیا جائے گا۔ اتنا جدید کہ باقی تمام دنیا کے معاشرے اس کا مقابلہ کرنے کے اہل نہ ہوں۔
یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہی اور زرعی سوسائٹی نہ ہی ایسی صنعتیں کھڑی کر سکتی ہے نہ ہی انہیں چلا سکتی ہے۔ اور ان صنعتوں میں منظم اور تربیت یافتہ کارکنوں کا وجود بھی محال ہے، جو کہ فسطائیت کی بقا کیلئے بنیادی ضرورت ہے۔جدید ترین جنگی آلات مٹی ، لکڑی، اور پتھر سے تو بنائے جانے سے رہے۔مزید یہ کہ جدید صنعت کو تربیت یافتہ سائنس دان، انجینئر، اور مکینک درکار ہیں اور یہ سائنس دان و انجینئرز ان علوم و فنون کے وارث ہوتے ہیں جو rational scientific intellectualism (عقلی و سائنسی تعقل پسندی ) کہلاتا ہے اور جسے فسطائیت یکسر مسترد کرتی ہے۔
3۔ یہاں ہم صرف ایک مزید تضاد کا ذکر کریں گے اور وہ purity of descent(نسب کے خالص ہونے) کا نظریہ ہے۔ فسطائیت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہر قوم اپنی خالص حالت میں ہوا کرتی تھی اور جسے interbreeding سے مسلسل خطرہ رہتا تھا۔ خالص پن کا یہ دعویٰ بھی ثابت کرنا قریب قریب ناممکن ہے اور سائنسی بنیاد پر تو اسے مضحکہ خیز بھی کہا جا سکتا ہے۔ مؤرخین اور سائنس دانوں کی تحقیق فسطائی نظریے کو بالکل بھی سہارا فراہم نہیں کرتی۔
بہت سے معروف جرمن اور آسٹرین خاندان ، جیسا کہ بے انتہا دولت مند فلسفی لیوڈوگ وٹگنسٹائن کی فیملی اور اس کا بھائی دونوں یہودی النسل تھے۔ اور لیوڈوگ کا بپتسمہ بھی ایک کیتھولک چرچ میں ہوا تھا کیونکہ اس کی والدہ غالباً ایک کیتھولک تھی۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ نازی لیوڈوگ کو کیا سمجھیں گے؟ یہودی یا پھر کیتھولک عیسائی؟ اس ’مسئلے‘ کا ’حل‘ بھی نازیوں نے ڈھونڈ نکالا او ر وہ یہ تھا کہ ہر شخص کو ایک نسبت عطا کی جانے لگی کہ فلاں شخص ایک چوتھائی یہودی ہے یا ایک تہائی یہودی ہے۔یہ نسبت بندی بظاہر شاید مضحکہ خیز دکھائی دے لیکن اس کے نتائج بہت خوفناک ہوا کرتے تھے کیونکہ جس شخص کو بھی جرمن سرکاری افسر ایک خاص تناسب سے بڑھ کر یہودی قرار دے دیتا تو اسے نسل کُشی کے کیمپ بھیج کر قتل کر دیا جاتا۔
ہندوؤں کے ہاں بھی فسطائی تصور کے بارے میں نرم گوشہ پایا جاتا تھا بالخصوص جب برطانوی استعمار برصغیر پر قابض تھا۔ اگرچہ ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ برطانوی استعمار کا دور برصغیر کا بدترین دور تھا اور پچھلی کئی دہائیوں سے جن برطانوی دستاویزات کو declassify (افشاء ) کیا جارہا ہے اُن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی استعمار کس قدر جابر اور ظالم تھا۔ ان سب کے باوصف اگر جنگِ عظیم دوم میں نازی جرمنی فتح یاب ہو جاتا تو یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے کہ ہم میں سے آج کوئی بھی یہاں موجود نہ ہوتا۔
APPEAL OF FASCISM
فاشسٹ رہنماؤں کو ہمیشہ بے انتہا شہرت حاصل رہی ہے، قطع نظر اس کے کہ اُن کی تحریک کامیاب ہوئی ہو یا ناکام۔ جو احترام ہٹلر اور مسولینی کو حاصل ہوا وہ دیومالائی نوعیت کا تھا۔ تاہم یہ امر غیر واضح ہے کہ فاشسٹ پارٹی بھی ایک عوامی جماعت بن پائی یا نہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی جرمن فلسفی حینا ایرنت (Hannah Arendt) کے مطابق ہٹلر نے نازی پارٹی میں شمولیت کو محدود رکھا ہوا تھا تاکہ وہ پارٹی پر کنٹرول مستحکم رکھ سکے۔1933 میں ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد اُس نے ممبر شپ کو محدود رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ پارٹی کے طے شدہ ممبران 15 لاکھ تھے لیکن بعد ازاں 80 لاکھ لوگوں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اگرچہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی پارٹی میں شمولیت کی وجہ نوکری کے حصول اور ترقی میں آسانی تھی۔ بہر حال نازی پارٹی کی مقبولیت پر یہ امر دال ہے کہ پارٹی میں چھوٹے تاجر، نچلے یا درمیانی طبقے کے لوگ، بڑے بڑے صنعت کار، جاگیر دار، مذہبی راہنما، سبھی شامل تھے۔
مختصراً یہ کہ ہر جماعت اور طبقہ نازی ازم کی جانب رغبت رکھتا تھا۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ان طبقات میں فنکار، شاعر، لکھاری بھی شامل تھے۔ مشہور امریکی شاعر ٹی ایس ایلیٹ نسلی درجہ بندی کا اپنا ایک نظریہ رکھتا تھا۔ نامور امریکی شاعر ایزرا پاونڈ فسطائیت کا کھلے بندوں معترف تھا۔ اس کے علاوہ معروف فلم ساز لینی رائفن سٹال نے اولمپیا کے نام سے دو دستاویزی فلمیں بنائیں جو برلن اولمپکس سے متعلق تھیں۔ ان فلموں کو وسیع بنیادوں پر نشر کیا گیا۔ یہ دونوں دستاویزی فلمیں واضح طور پر فسطائی نظریے اور تصورات کا پرچار کرتی نظر آتی تھیں، اور ان فلموں میں نازی ازم اور ہٹلر کی تعریف و توصیف واضح نظر آتی ہے۔
فسطائی نظریے میں ایک حیران کُن کشش یہ بھی تھی کہ یہ بدترین دشمنوں کو ایک چھت تلے لے آیا تھا۔ بورژوا طبقہ، جاگیردار طبقہ، بڑے بڑے صنعت کار؛ یہ سب ایک ہی یونین کے ممبران تھے۔ ان سب کا ایک ہی مقصد کیلئے اکٹھا ہونا اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ فاشسٹ رہنماؤں نے ان سب کو ایک شے سے نفرت کرنا سکھائی، اور ایسی نفرت پیدا کی کہ وہ باہمی اختلافات کو بھلا بیٹھے۔
حینا ایرنت، ایڈولف ایشمان اور شر کا عامیانہ پن (banality of evil)
جو امر ہمیشہ سے فہم سے بالاتر معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ فسطائی نظام یا فسطائی ماحول میں ملوث لوگ ہم آپ جیسے بالکل عام لوگ ہوتے ہیں۔ اور یہ ’دریافت‘ کہ یہ لوگ بالکل عام لوگ ہوتے ہیں ، ایسی دریافت جو کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد جرمن concentration camps کی دریافت کے بعد ہوئی، تمام انسانیت کیلئے بیک وقت نہایت تکلیف دہ اور ناقابلِ فہم تھی۔
ان تکلیف دہ انکشافات کو عوام میں جاری کرنے میں کچھ وقت لگا کہ جو لوگ یہودیوں کی نسل کُشی میں ملوث تھے وہ بالکل عام لوگ تھے، اُن میں کوئی نفسیاتی مریض نہیں تھا، کوئی پاگل نہیں تھا، کوئی جنونی نہیں تھا، کوئی زانی اور انسانی خون کا رسیا نہیں تھا،کوئی جنگجو نہیں تھا؛ تمام لوگ عام زندگیاں جینے والے عام انسان تھے۔ دنیا کیلئے یہ امر ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ صدمہ کیسے عوام الناس کی توجہ کا مرکز بنا اور باقاعدہ ایک تحقیقی موضوع کی شکل اختیار کر گیا۔اس مخمصے کو سمجھنے کیلئے ہم جس شخصیت کا مطالعہ کریں گے وہ اڈولف ایشمان (Adolf Eichmann) کی ہے۔ ایشمان کی شخصیت وہ بہت سے اوامر سمجھنے میں معاون ہو سکتی ہے جو کہ فسطائی نظام کا خاصہ ہیں۔
ایشمان ہولوکاسٹ کے بنیادی منتظمین میں سے تھا۔ ابتداً وہ IV B4 نامی ادارے میں بطور ایڈمنسٹریٹر کے ملازم ہوا، جو کہ یہودیوں کے معاملات سے متعلق ایک ادارہ تھا۔ترقی کے زینے طے کر کے وہ SS–Obersturmbannführer کے عہدے پر فائز ہو گیا اور ہولوکاسٹ میں اُس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ یہودیوں کو گرفتار کروا کر اکٹھا کرے گا اور اس امر کی یقین دہانی کرائے گا کہ یہودی concentration camps ، لیبر کیمپس، یا پھر extermination camps منتقل کئے جا چُکے ہوں۔
اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار میں ایشمان کے بارے میں کوئی ایک واقعہ بھی قابلِ ذکر نہیں ہے۔ وہ سکول میں ایک ادنیٰ درجے کا طالب علم تھا۔ آسٹریا میں اُس نے اپنے والد کی کان کنی کی کمپنی میں کام کیا اور بطور آئل سیلز مین اپنے فرائض ادا کئے۔اور بالآخر بہت سے لوگوں کی طرح اُس نے نازی تحریک میں Sicherheitsdienst، سیکیورٹی سروس کے ایک ادارےمیں شمولیت اختیار کی۔ 1941 میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا اور یہودیوں کے متعلق ہٹلر نے یہ پالیسی بنائی کہ تمام یورپ کے یہودیوں کا قلع قمع کر دیا جائے۔
ایشمان کا سینیئر افسر Reinhard Tristan Eugen Heydrich تھا، اس نے تمام انتظامیہ کو برلن کے ایک مقام پر اکٹھا کیا اور وہاں پر exterminationکی پالیسی کو بیان کیا گیا، جسے ہٹلر نے The Final Solution (die Endlösung.) کا نام دیا تھا۔
ایشمان نے اپنا کام نہایت تندہی اور ذمہ داری سے انجام دیا۔ اُس نے ان اوامر کی یقین دہانی کرائی کہ جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں یہودیوں کی شناخت کی جائے،انہیں گرفتار کیا جائے اور پھر concentration camps اور extermination camps منتقل کیا جائے۔ یہودیوں کی گرفتاری بسا اوقات ان کیمپس سے سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتی تھی۔ ان کی منتقلی ریل، مال بردار گاڑی، یا پھر کارٹ ویگن کے ذریعے کی جاتی تھی۔ موسم چاہے کتنا ہی شدید کیوں نہ ہوتا، اس منتقلی کے کام میں کبھی بھی روک دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکی فوج نے ایشمان کو گرفتار کر لیا لیکن وہ حراسست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور جرمنی میں چھپتے چھپاتے ہوئے وقت گزارنے لگا۔بعد ازاں وہ نقلی دستاویزات کی مدد سے ارجنٹائن ہجرت کر گیا۔ یہاں ایک دلچسپ امر (جو شاید غیر متعلق معلوم ہو ) کا ذکر کئے چلیں کہ بہت سے نازی افسران اور سائنس دانوں کو یہ نقلی کاغذات مہیا کرنے میں امریکی اور برطانوی حکومت کی مدد شامل تھی۔ کیونکہ وہ ان سائنسدانوں کی مدد سے اپنا ہتھیاروں کا پروگرام آگے بڑھانا چاہتے تھے اور نازی افسران کی مدد سے اشتراکی تحریک کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ اس لئے کہ وہ جنگ کے بعد یورپ میں اشتراکی تحریک کے نفوز کے بارے میں نہایت فکر مند تھے۔
ارجنٹائن میں ایشمان کو تلاش کیا گیا اور 1961 میں اسرائیلی سیکریٹ سروس موساد (Mossad) نے اُسے گرفتار کر لیا۔ ارجنٹائن کی حکومت نے ایشمان کی حراست پر احتجاج کیا لیکن وہ بے سود رہا اور بالآخر ایشمان کو اسرائیل لے جایا گیا جہاں اُس پر مقدمہ چلایا گیا، اسے سزائے موت سنائی گئی اور یکم جون 1962 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
اس مقدمے نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ بالخصوص یہ مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ ایشمان کو انسانیت کے خلاف جرائم کی بجائے یہودیوں کے خلاف جرائم کی بنا پر سزا دی گئی۔
اس مقدمے کی رواداد کو اپنے زمانے کی معروف فلسفی حینا ایرنت، جو خود ایک یہودی تھی، نے نیو یارکر میگزین کیلئے قلمبند کیا جس میں اُسے کئی مہینے لگے۔بعد ازاں یہ رپورٹ کتابی شکل میں شائع ہوئی جس کا نام تھا Eichmann in Jerusalem
اس کتاب کا ذیلی عنوان ’شر کا عامیانہ پن‘ (banality of evil) ہے، جس سے غالباً حینا کی مراد یہ ہے کہ شیطان نہایت عامیانہ رنگ میں بھی ہمارے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ شر اپنے معمول یا کردار کی شخصیت کو بالکل گہنائے بغیر ہمارے سامنے ایک سادہ یا عام انسان کی شکل میں آ جائے۔حینا نے مقدمے کے دوران جس امر کا بغور مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ ایشمان ایک نہایت عام آدمی تھا، اُس میں کچھ بھی خاص یا غیر معمولی نہیں تھا۔ وہ صرف یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنی نوکری ذمہ داری سے انجام دے رہا ہے۔ اُس سے وکلاء نے پوچھا، ’’ جب تم کیمپس میں جاتے تھے اور جلد بازی میں کھودی ہوئی خندق نما قبروں میں لاشوں کے انبار دیکھتے تھے تو تمہیں کیسا محسوس ہوتا تھا؟ ‘‘ ایشمان نے جواب دیا، ’’ انہیں دیکھنا ہمارے لئے بھی خوشگوار نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘
لیکن جب مقدمہ مزید آگے بڑھا تو حینا نے مشاہدہ کیا کہ ایشمان جس عمل میں کلیدی طور پر ملوث تھا، اُس کا اسے کسی بھی درجے میں فہم یا ادراک نہیں تھا۔ ایک موقعے پر جب اُس سے پوچھا گیا کہ تمہارے خیال میں تم جو کر رہے تھے وہ کیوں کر رہے تھے؟ اس کا ایشمان نے سہ لفظی جواب دیا: ’’ Orders are Orders ‘‘
ایشمان کا یہ جواب دنیا میں بہت وسیع پیمانے پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ایشمان کی شکل میں قابلِ غور نکتہ جو ہمارے دیکھنے میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایشمان اُن لاکھوں لوگوں کی شخصیت کا نمائندہ تھا جو اطالوی اور نازی فسطائیت کا حصہ تھے۔
ایرنت نے وہ متوقع صورتحال واضح کی جس میں ایک طرح سے ہم سب فسطائی نظام کا حصہ بن سکتے ہیں۔فسطائی نظام کا غیر شعوری حصہ بننے کی ایک مثال نومی وولف نے 2007 میں اپنے ایک مضمون Fascist America in 10 easy steps میں دی ہے۔ وولف کے مطابق ایک سیاسی نظام میں دس خصائص کی بنا پر ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ فاشسٹ ہے یا نہیں۔
پسِ نوشت: شر کے عامیانہ پن کے موضوع پر جائزہ پہ محترم عاصم رضا صاحب کی دو عدد عمدہ تحریرات یہاں پڑھی جا سکتی ہیں۔
ماخذات:
- Political Ideologies by Andrew Heywood
- The Oxford Handbook of Political Ideologies