ابلیس کا خطاب پاکستانی پارلیمان سے! تحریر: احمد جاوید صاحب

 In تاثرات

ابلیس کا خطاب پاکستانی پارلیمان سے!

”صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان، وزیراعظم اسلام آباد، چئیرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور تمام اراکین پارلیمان! السلام علیکم“!

ابلیس کا خطاب شروع ہونے ہی والا تھا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں اس کی طرف لپکے۔ ایک نے دائیں اور دوسرے نے بائیں کان میں کچھ کہا۔ الفاظ سنائی نہیں دیے۔ انتہائی حساس مائک کی وجہ سے کچھ بھنبھناہٹ اور منمناہٹ سی گیلری میں بیٹھے مہمانوں کو بھی سنائی پڑی۔ ابلیس نے دونوں کے گال تھپتھپائے۔ ڈرو مت! وہ تمھیں ہینڈز اپ نہیں کروائیں گے۔ بہت قریبی تعلق ہے، انھیں الگ سے مخاطب کرنا محض تکلف ہوتا۔

ابلیس نے خطاب کا باضابطہ آغاز کیا۔

”آپ سب کو سوا تین منٹ انتظار کرنا پڑا۔ لیکن ہاں، یہ سوا تین منٹ آپ کے نہیں ہیں، میرے ہیں۔ انسان اور سیارے ہی نہیں، خدا بھی پوری طرح نہ سہی مگر قابلِ اعتبار حد تک جانتا ہے کہ میں اپنی گھڑی خود بناتا ہوں۔ اس وقت جو گھڑی میری جیب میں رکھی ہوئی ہے، یہ پچھلی گھڑیوں سے قدرے بلکہ چندے مختلف ہے۔ یہ میں نے میٹا میٹا میٹا یونیورس کے آخری ستارے پر بنائی تھی، ایک اندھے ساعت ساز سے ضروری کل پرزے اور وقت خرید کر۔ وہاں وقت ہی نہیں وقت بھی بیچا جاتا ہے۔ طرح طرح کے وقت دستیاب ہیں۔ بلیک ہولز خرید کر ورنہ معقول کرائے پہ لے کر شاپنگ مال کھولے گئے ہیں۔ ہر ستارے اور ہر سیارے کا وقت مل جاتا ہے۔ کبھی آئیے تو سہی، جس وقت پر ہاتھ رکھیں گے وہ ہتھیلی سے چپک جائے گا۔ آپ کا ہو جائے گا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کے کفِ دست سے سختی کے ساتھ چپکے ہوئے ’ اوقات ‘ کو زمین کیسے قبول کرے گی!! راستے میں فرشتوں اور سائنس دانوں کی چیک پوسٹیں آئیں گی۔ انھیں کیسے چکمہ دیں گے!! چکمہ دینا تو خیر آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن خبر دار! داہنا ہاتھ بند رکھنا۔“

ایک شور سا اٹھتا ہے۔ ’ کچھ ‘ سمجھ میں نہیں آ رہا، ’ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ‘ ! سپیکر اور وزیراعظم کا چہرہ پیلا یا نیلا پڑ جاتا ہے، صدر اور چئیرمین کے گھٹنے ٹکرا رہے ہیں اور دانت بج رہے ہیں۔ چاروں طرف شور کے باوجود یہ آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ جیسے شیر کا ہانکا کرنے والوں کے گھیرے میں کچھ لکڑ بگھے آ گئے ہیں۔ ابلیس مراقبے میں ہے۔ آنکھیں کھولتا ہے۔ شور مچانے والوں کو دیکھتا ہے۔ اس کے دیکھنے سے وہ بھسم ہو جاتے ہیں۔ اسمبلی کے مہتر راکھ جمع کر کے لے جا رہے ہیں۔ لوگ دھیرے دھیرے پتھرا رہے ہیں۔ ابلیس انھیں بھی دیکھتا ہے۔ سب ایک دوسرے کی پیٹھ کھجانے لگتے ہیں۔ وہ بولنا شروع کر رہا ہے۔

”نہیں نہیں! کوئی نہ ڈرے۔ کوئی نہ مرے۔ میں نے آگ کا نیزہ موت کو لوٹا دیا ہے۔ جیتے رہو! جیتے رہو! تو میں کچھ کہہ رہا تھا۔ کچھ تو کہہ رہا تھا میں! آہ ، کچھ بھی زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتا۔ میرے حافظے میں آگ ٹھونس ٹھونس کر بھری گئی ہے۔ ہر یاد جل جاتی ہے۔ ہر نسیان جل جاتا ہے۔ ہر آواز جل جاتی ہے۔ ہر خاموشی جل جاتی ہے!

مجھے لازماً کہنا چاہیے تھا کہ بس! اگر نہ کہا ہو تو تم بھی بھول جاؤ۔ لیکن بس کہہ کر اب کیا کہوں!! بس کے بعد تو نہ بولنا بھی جائز نہیں۔

چلو، بس تک پہنچنے کی معیاری کوشش کرتے ہیں۔ میری عزت داؤ پر لگ گئی ہے۔ مجھے اپنے خطاب کے پہلے لفظ تک پہنچنا ہو گا۔ کیا تھا وہ! عالی جناب یا صرف جناب؟ نہیں، دونوں نہیں! سامعین کرام یا ناظرین کرام؟ معزز اراکین یا معزز شياطين؟ لاحول ولا قوۃ! یہاں شیاطین کا کیا کام، کیا ضرورت۔ لعنت بھیجو سب پر۔ مجھے اپنے خطاب کے پہلے کلمے تک جانا ہے۔ میں وقت کو بہت احتیاط سے ریوائنڈ کر نے جا رہا ہوں۔ بالکل ساکت بیٹھے رہو۔“

گراری گھومنے کی آواز۔ پل بھر میں تھم بھی گئی۔ وہی منظر ہے۔ راکھ بن جانے والے اراکین بھی اپنی اپنی نشست پر براجمان ہیں۔ اچانک انھی میں سے ایک بولا کہ جنابِ ابلیس! وقت کو کچھ اور پیچھے لے جائیں۔ ہم راکھ ہونے سے پہلے ذرا لمبی مدت تک جی لیں گے۔ پوری پارلیمان نے پر جوش تائید کی۔ ابلیس نے آخری ستارے سے لائی ہوئی گھڑی پیچھے کھڑے گارڈ کو تھما دی۔ فرغل اتارا۔ سپیکر کی میز پر آسن بنا کر بیٹھ گیا۔ آنکھیں بند کرنے لگا تو گھڑی یاد آ گئی۔ گارڈ کو اشارہ کیا کہ گھڑی! اس بچارے نے شیطان کا چہرہ اتنے قریب سے دیکھا تو کھڑے کھڑے گر گیا۔ گرنے سے کوئی اور گھنڈی دب گئی۔ ابلیس چلایا۔ بے وقوف، احمق! یہ کیا کر ڈالا۔ سب کی آنکھ کھلی تو اسی آخری ستارے پر تھے۔ ایک آواز سنائی دی، ”بس “ ! ابلیس نے اپنی آگ دہکانی بند کر دی۔ بولا چلو، ’بس ‘ تک تو پہنچ گئے!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search