ہماری بیوے۔ تحریر: سردار عماد رازق
ہوش سنبھالا تو سب کو دادی جان کیلیے لفظ بیوے ہی استعمال کرتے سنا۔ تب تو لگتا تھا شاید اس رشتے کیلیے ہر جگہ یہی لفظ برتا جاتا ہے لیکن جوں جوں عمر بڑھی تو معلوم ہوا کہ محبت کی طرح اسمائے مخاطبت کے بھی اپنے اپنے رنگ ہیں۔ ہمارے منہ پر تو بیوے ایسا چڑھا کہ گویا کبھی نہ اترے گا۔ زبان کچھ الفاظ سے ایسی مانوس ہو جاتی ہے کہ وہ اس کا جزو لاینفک محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اس مانوسیت کے زیر اثر یوں لگتا ہے کہ جب تک زبان رہے گی، وہ الفاظ بھی لامحالہ رہیں گے۔ انسان خوش فہمیوں کی اسارت دل و جان سے قبول کرتا ہے۔اس بے اختیار وجود کے پاس اور راستہ بھی کیا ہے؟ بیچارہ اس لا متناہی کائنات کی جکڑن میں ایسا محصور ہے کہ تبدلِ اسارت کو بھی نعمت جانتا ہے۔ بس اسی لیے یہ بھول جاتا ہے کہ کچھ الفاظ حرفوں کے باہم ربط سے نہیں، کسی کی چلتی سانسوں سے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ اگر وہ سانسیں رزقِ قضا بن جائیں تو یہ الفاظ بھی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ یونہی ۲ مئی ۲۰۲۴ء کو دادی جان کے سلسلۂ تنفس کے اختتام کے ساتھ ساتھ ہمارے محبوب ترین لفظ ”بیوے“ کے استعمال کا بھی آخری دن ٹھہرا ۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بیوے نے اپنی زندگی کے آخری نصف کا بیشتر حصہ شہر میں بسر کیا لیکن طرزِ حیات خالص دیہاتی ہی رہا۔ تعلق داری کا نبھاؤ ہو یا نئے تعلقات بنانا، بیوے ہر دو میں روایتی درجۂ کمال پر تھیں۔کسی یکسر اجنبی جگہ کو آن کی آن میں ’اپنوں‘ سے پُر کر لینا ان کیلیے عام سی بات تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا جہاں کہیں رہنا ہوا وہاں کی خواتین ان کی ملنساری اور خوش اطواری کی گواہیاں دیتی نہیں تھکتی تھیں اور دور دراز منتقل ہو جانے کے باوجود حسبِ موقع ان کے پاس آتی جاتی رہتیں۔ جدید انسان انفرادیت کی جس راہ پر گامزن ہے، اس میں وہ اکثر اپنے لیے بھی وقت نکالنے سے معذور رہتا ہے۔ نئے تعلقات بنانا تو درکنار، موجود تقدیری رشتوں اور تعلقات کو نبھانا بھی اس کیلیے کارے دارد ہے۔ سوچتا ہوں کہ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کے اس ماحول میں سماج کو جوڑنے والے افراد کی دن بدن قلت کب ہم انسانوں کے ربطِ باہمی کے تابوت میں آخری کیل کی صورت اختیار کرےگی۔ بظاہر تو یہ مستقبل قریب، بلکہ انتہائی قریب، کا معاملہ لگتا ہے!
بیوے کے معاملاتِ زندگی قابلِ رشک حد تک سادہ تھے۔ مزید رشک کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی قریباً ۸ دہائیوں کی زندگی میں سے وفات سے ماقبل کے ڈیڑھ دو ماہ کے سوا اکثر انھی عادات پر مستقلاً قائم رہیں۔ بوقتِ فجر جاگنا، خود چائے بنا کر پینا، پھر نماز پڑھ کر دیر تک ذکر اذکار اور پھر کچھ دیر کا آرام ۔ دوبارہ جاگ کر سردیاں ہوں تو دھوپ میں جا بیٹھنا اور گرمیاں ہوں تو گھر کے اندر ہی وقت گزاری کیلیے کچھ نا کچھ کرتے رہنا۔ کسی کی سلائی سے عدم اطمیان کے سبب سوئی سے اپنے کپڑے سینے کا معمول وفات سے چند ماہ قبل تک بھی رہا۔ پھر حسبِ منشا کبھی محلے میں آنا جانا ہوتا اور کبھی گھر میں ہی نماز، اذکار اور کھانے ایسی نہایت عمومی مصروفیات کے ساتھ وقت گزار دیتیں۔ بے مقصدیت کے مارے مجھ ایسے لوگ ہزار امکانات کے باوجود کچھ کرنے سے دامن بچاتے ہیں اور معمول کے بیان پر بے معنویت کے رونے روتے ہیں۔ حیرت ہے کہ بیوے ایسے گذشتگان کو اپنے سادہ ترین معمولات کے باوصف سوائے کلمات شکر کے، کچھ کہتے ہوئے نہ سنا۔ سچ ہے کہ سادگی ہی میں سکون ہے اور دقیقہ سنجیوں میں الجھاؤ اور گنجلک پن کے سوا کچھ نہیں۔ اب حال یہ ہے کہ آدمی چار کام کر رہا ہوتا ہے، آٹھ کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوتا ہے اور مزید سولہ کی تشویش اسے کھائے جاتی ہے۔ ایسے میں شکر کا مقام کہاں ہو اور معمول کا علم ہی کسے ہو کہ اس پر قائم رہنے کا سوچا جائے۔
بڑی بوڑھیوں کے عمومی رویوں کے برعکس، بیوے کا ذوقِ تحصیلِ علم بھی دیدنی تھا۔ دیکھ کر قائدہ بھی نہ پڑھ سکتی تھیں لیکن اپنے شوق کے بل پر نماز، کئی سورتیں اور اذکار یاد کر رکھے تھے۔ حفظ کی گئی اکثر چیزیں زندگی کی آخری دو تین دہائیوں کی تھیں جب قوتِ حافظہ رہی سہی سانسوں کی گنتی سے بھی عاجز آ جاتی ہے۔ لیکن سچ ہے کہ انسان کی قوتِ ارادی اس سے برسرِ پیکار ہر قوت سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے بیوے کی صورت میں خود کیا کہ کیسے وہ روز کے دو دو نئے الفاظ سیکھ کر مختصر طویل سورتوں کی سورتیں یاد کر لیا کرتیں۔ ان کے مزاج میں گاؤں کیلیے پیدا ہو جانے والی یک گونہ برگشتگی کے پیچھے جو عوامل کار فرما تھے ان میں بھی تحصیل علم سر فہرست تھا۔ جیسے علمی دروس و محافل شہروں میں میسر تھیں ان کا دور افتادہ دیہات میں بہم ہونا کہاں ممکن ہے! ذوق علم کے ساتھ ساتھ بیوے کو بارگاہِ ایزدی سے ذوقِ اصلاح کا بھی حصۂ وافر عطا ہوا تھا۔ الحمدللہ ، اللہ نے ان کے طفیل سینکڑوں خواتین کو پابندِ صلاۃ، متعدد اذکار کا حافظ اور راہیِ طلبِ خدا بنایا۔ محض صلاۃ تسبیح ہی کی بات کی جائے تو سینکڑوں (اور ان کے توسط سے ہزاروں) خواتین کو انھوں نے یہ نماز اور اس کا اہتمام سکھایا۔ پانی اکثر دم کرتیں اور کبھی کبھارکسی کو بلاواسطہ دم بھی کر دیتیں، البتہ ان عادات میں بتدریج کمی آتی گئی۔ تمام گھر والے چونکہ رات کے کھانے پر ہی اکٹھے ہوتے تو یہ تقریبا روز کا معمول بن گیا کہ کھانے سے پہلے دم کیا گیا پانی پیا جائے۔ اس دوران وہ برابر بتاتی رہتیں کہ اس میں فلاں فلاں اذکار اس اس مقدار میں کیے گئے ہیں اور ان کے یہ یہ فوائد ہیں۔ گھر میں درودِ ابراھیمی، درودِ تنجینا اور آیۂ کریمہ وغیرہ کو مختلف تعداد میں پڑھتے رہنا آئے دن کا معمول تھا۔ گھروں میں نزولِ برکات کے سارے طور بیوے کو معلوم تھے اور وہ ان کا اہتمام باقاعدگی سے کرتی رہتیں۔ لیکن وہ خود گھر کیلیے کتنی بڑی برکت تھیں، اس کا ادراک انھیں بھی نہ تھا اور شاید ہمیں بھی یہ ہونے میں ابھی مزید کچھ وقت لگے گا۔ الاشیاء تعارف باضدادھا!
نوجوانی سے ہی دمے کا شکار ہونے کے باوجود بیوے نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں مسلسل احتیاط کے ساتھ صحت مندانہ زندگی گزاری۔ ان کی محبوب ترین دعا ”محتاجی سے بچاؤ“ کی ہوا کرتی جو ہر وقت ان کی نوک زباں پر رہتی تھی۔ دوسروں کے ساتھ کی گئی اچھائیوں کے بدلے میں انھیں اس دعا کے سوا کبھی کچھ مانگتے نہ دیکھا۔ خدا نے بھی ان کی دعا کا پاس رکھا اور وہ ڈیڑھ دو ماہ کی شدید علالت کے دوران بھی کسی بڑی محتاجی سے محفوظ رہیں۔ علالت کے اس عرصے میں بیوے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزرا جو ہم لوگ عموماً 24 گھنٹے ساتھ رہنے والوں کے ساتھ نہیں گزار پاتے۔ ممکن ہے اس دوری کا ایک سبب ایسے لوگوں کو پانی اور ہوا ایسی کوئی مستقل موجود شے سمجھ لینا بھی ہو لیکن فرد کی اپنے گرد و پیش سے بڑھتی ہوئی alienation یقیناً اس رویے کا بھی غالب عنصر ہے۔ اس دوران لگاتار یہی دھڑکا لگا رہتا کہ خدا جانے اس ساتھ کے مزید کتنے پل باقی ہیں۔ ہسپتال میں ان کے بیڈ کی پائنتی پر بیٹھے کئی بار سوچا کہ یہ زندگی کتنی مختصر ہے اور اس اختصار میں تمام متعلقین کے ساتھ کماحقہ وقت گزارنا کس قدر ناممکن! کسی اپنے کو آنکھوں کے ہر پل جدا ہوتے ہوئے دیکھنا وادیِ فنا کی سمت دیوانہ وار بھاگنے سے کم نہیں ہے۔ ایسے میں چند لمحوں کی باقی ماندہ رفاقت اپنی معنویت از خود کھو دیتی ہے۔ لیکن بیوے اس حال میں بھی اپنے گرد و پیش سے مکمل تعلق میں تھیں اور مجھ سمیت دیگر تیمار داروں کو وقتاً فوقتاً نصائح بھی کرتی رہیں۔ وفات سے ایک دن قبل ہسپتال میں کسی کی وفات پر فوت شدہ کی لواحقین مستورات نے ذرا بلند آواز میں نوحہ کیا تو بیوے اپنی بیٹیوں کو سختی سے کہنے لگیں کہ خبردار جو میرے بعد کوئی مجھے ایسے پاگلوں کی طرح روئی۔ زندگی سے شکایتوں کے سوال پر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کوئی افسوس نہیں، بہت اچھی گزاری ہے۔ اس ٹھہراؤ میں پیرانہ سالی کا بھی کچھ دخل ہو گا لیکن تعلق باللہ کے بغیر ایسی طمانیت کا کلی حصول ممکن نہیں۔یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ۔ ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔ (الفجر)
خیر، بیوے اب جا چکی ہیں اور اپنے ساتھ ہی اور بھی بہت کچھ لے گئی ہیں۔ باہر کے کھانوں سے پرہیز پر مفصل بیانات، دیر سے آنے پر گاہے نرمی اور گاہے سختی سے تنبیہات، روز صبح الوداع کہتے ہوئے ”دعا پڑھ کر جانا“ کی تکرار، چھوٹوں سے بڑوں اور اپنوں سے غیروں تک سب کیلیے مخصوص پند و نصائح ، ہر مسئلہ سنتے ہی ”او (اللہ) جانے“ کا غیر متزلزل اظہار اور ہم سب کیلیے ہر آن کی جانے والی دعاؤں سمیت بہت کچھ بیوے کے ہمراہ چادرِ خاک اوڑھ چکا ہے کہ:جانا جہاں سے سب کو مسّلم ہے زیر خاک۔۔۔!