فلسفہ اور وجود کا سوال (ہائیڈگری افکار کی روشنیائی* میں) تحریر: مکرم محمود

 In تاثرات
* ۔ روشنیائی ایک neologism ہے۔ روشنی اور روشنائی کا مرکب۔ ان دونوں کے معانی اس میں پائے جاتے ہیں۔

وجود کا سوال فلسفے کے اساسی سوالات میں سے ایک ہے۔ ’ وجود کیا ہے‘ کا سوال ’موجود کیا ہے‘ کے سوال سے قطعی مختلف ہے۔ ان دو سوالات میں جہاتِ تعلق و امتیاز کو حاضر باش نہ رکھ سکنا بہت سے فکری مسائل کو جنم دیتا ہے اور خلطِ مبحث کا باعث بنتا ہے۔ ہائیڈگر کے خیال میں جدید فلسفے نے ’ وجود کیا ہے ‘ کے سوال کو تیاگ کر موجودات ہی کو مجالِ بحث اور اسی میں اپنے دائرہ فکر کو محصور قرار دے کر ما بعد الطبیعات کو اپنی حدودِ تفلسف سے دیس نکالا دے ڈالا ہے۔ جب کوئی علم اپنے ام السوال کو ہی پسِ پشت ڈال دے اور اسے در خورِ اعتنا ء نہ سمجھے کہ یہ سوال کوئی ”کارآمد“ نتائج پیدا نہیں کرتا تو گویا اس علم نے اپنے ہونے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اپنا وجہِ جواز اپنے ہاتھوں کھو ڈالا۔ کسی بھی علم کا وجہِ جواز کچھ اساسی سوالات کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے؟ جوابات کی عنقائیت علم کو معدوم نہیں کر ڈالتی مگر سوال ہی اگر ناپید ہو جائے تو علم کو عدم کی کھائی میں اسقاط سے کون بچا سکتا ہے؟ ہائیڈگر نے اپنے ابتدائی دور میں اپنی فکری کدو کاوش کا مقصد وجود کے مرگ گزیدہ سوال کو زندگی بخشنا قرار دیا۔ اس کو وہ ماورائی تفتیش اور اساسی وجودیات قرار دیتا تھا۔

وجود کے سوال کی دھندلاہٹ نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اس سوال کا ترک کر دینا انسان کا گویا تحت الانسانی صورت و ہیئت اختیار کر لینا ہے۔ انسانی فطرت میں تو یہ سوال گویا گندھا ہوا ہے۔ اس سوال سے دستبرداری اپنی فطرت سے دستبرداری ہے۔ ہیومنزم اسی تحت الانسانی مخلوق ہی کی پرستش کا ایک دوسرا عنوان ہے۔ نیٹشے نے وجود کو ایک مطلق خالی تصور قرار دیا۔بھاپ بن کر اڑتی ہوئی حقیقت کی آخری جائے پناہ۔ ہائیڈگر کے نزدیک وجود ایک ایسا تصور ہے جس کا خالی یا بھرا ہونا بے معنی ہے۔ وجود میں ہست و نیست ایک ہو جاتے ہیں کیونکہ وجود ماورائے ہست و نیست ہے۔ وجود کا سوال ایک سوال ہی نہیں بلکہ ایک حال بھی ہے۔

بہرحال ہائیڈگر نے اپنے تئیں اس سوال کے جواب کے حصول کی طرف پیش قدمی کا ایک منہج وضع کرنا چاہا اور کوئی طریقہ کار اس کے سوا نہ پایاکہ موجودات کے ذریعہ ہی وجود تک پہنچا جائے۔اور موجودات میں سے وہ موجود جس کے لیے وجود ایک مسئلہ ہے اور جو وجود کی سوالی اور حالی تڑپ اپنے اندر پاتا ہے وہ انسان (dasein) کے سوا اور کون ہے؟وہ انسان جو دنیا میں بیچ انسانوں اور چیزوں کے موجود ہے۔ اس موجود ِسوالی کی مظہریاتی تفہیم ہی موجود تک رسائی کا در وا کرے گی۔ گویا اس موجودِ خاص کو کھنگالنا وجود ہی کے لیے نہ کہ موجود کو کھنگالنا موجود کے لیے۔وجود موجود نہیں ہے۔ وجود باعثِ موجودیتِ موجودات ہے۔ انسان کی موجودیت ایک میز کی موجودیت نہیں ہے۔ انسان(dasein) کی موجودیت اس کے لیے ایک سوال ہے۔

جدید فلسفہ دائرہ و دامِ موجودات کا اسیر ہی رہا۔ اس جنم چکر سے مکتی و رستگاری جس کا ذریعہ معرفت ِوجود ہے،بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ طلبِ معرفت ِوجود ہے،اس کے نصیب میں نہ تھی۔ مکتی کی خواہش ہی نہ رہے تو کوئی کیا کرے گا۔اس چاہت کا وجود علامتِ ہستی ہے اور اس کا عدم مظہرِ نیستی۔ اسی مظہرِ نیستی کو فلسفے کی موت کہا جا سکتا ہے۔ موت اور خاتمہ ایک چیز نہیں۔ موت ایک وجودی تصور ہے اور خاتمہ زمانی۔

 ہائیڈگر نے جب احیائے فلسفہ کی کوشش کی اور فلسفے کو اس کی حقیقت و ماہیت کے مطابق برتا تو اس پر کچھ حقائق آشکار ہوئے۔ ان حقائق کی بے حجابی اور فلسفے کی خارجی اور تہذیبی صورتحال نے اسے فلسفے کے خاتمے کے اعلان پر مجبور کر دیا۔ یکے از حقائق یہ ہے کہ عقلی شعور وجود کے سوال کو پیدا تو کر سکتا ہے مگر جواب اپنی رسائی و دسترس سے ماوراء پاتا ہے۔ وجود ”ہے“ اور موجودات سے عظیم تر ہے مگر وجود کیا ہے؟ آگے سلطنتِ نا رسائی کا درِ آہنی ہے لوہے کے قبضوں اور منوں وزنی تالے کے ساتھ۔ اس حقیقت کی عقدہ کشائی شعور کے جوہرِ انفعالی کو مرکزی حیثیت عطا کرتی ہے اور اس کو اس کی فاعلی جہت پر غالب اور ظفریاب کر دیتی ہے۔ اس مقام پر آ کر ہائیڈگر طریقہ معرفتِ وجودunconcealment,      alethia اور revealingکو قرار دیتا ہے جو وجود اساس ہوتی ہے موجود اساس نہیں۔ اس کی ترجمہ کاری کارِ دشوار ہے مگر کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ وجود کی فعال خودنمائی یا اظہارِ ذات موجودِ سوالی کے لیے بطریق کشف و تجلی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفے کے پر جلتے ہیں اور اس کی حدود کا اختتام ہو جاتا ہے اور حدود تصوف و سریت کاآغاز ہو جاتا ہے۔ گویا فلسفے نے اپنے اساسی سوال کی جوابی سکت اپنے اندر مفقود الوجود پانے کے بعد جواب سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ نہ کہ وجود کے سوال ہی سے دستبرداری جو فلسفہ جدید نے فلسفے کے نام پر اپنائی اور جو جعلی فلسفہ کاری کا سبب بنی۔ سوال سے دستبرداری کو فلسفے کی موت کہا جا سکتا ہے اور جواب سے دستبرداری کو فلسفے کا خاتمہ اور تکمیل۔ ہائیڈگر نے The      end      of      philosophy      and      the      task      of      thinkingمیں فلسفے کے خاتمے کو فلسفے کی تکمیل بھی قرار دیا۔ جس علم سے حرکتِ صعودی کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں اس نے حرکتِ نزولی کر ڈالی اورطبیعی سائنس اور ٹیکنالوجی کا خدمت گزار قرار پایا۔ اب عملِ فکر، جس پر ایک زمانے میں فلسفے کی اجارہ داری تھی، جو صرف عقلی شعور کا عمل نہیں ہے بلکہ کل شعور کا عمل ہے اس کے موضوعات ”وجود“ اور”زمان“ سے بلند ہو کر وجود کی جہت سے اظہارِ ذات (alethia)اور موجود کی جہت سے حضور(presence) ہونے چاہییں۔ اسی لیے کہنے والوں نے کہا ہے کہ ہائیڈگر کے نزدیک فکر کا اختتام ”سلوک“ کی ابتداء ہے۔”Heidegger’s      thought      must      be      understood      as      a      way…      Heidegger      has      always      understood      his      thinking      as      going      along      a      way…      into      the      neighborhood      of      Being…”

ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search