دنیا کی کَل علم سے چلتی ہے یا عمل سے ؟ مولانا الطاف حسین حالی

 In تاثرات
نوٹ: زیرِ نظر مضمون ’’کلیات نثرِ حالی‘‘ (مرتبہ ، مولوی اسمعیل میرٹھی ، ص 197-202) سے لیا گیا ہے۔

 

یہاں علم سے ہماری مراد مجرد علم ہے جو عمل سے بالکل خالی ہو ۔ اور عمل سے مراد محض عمل ہے جس میں علم کو کچھ دخل نہ ہو ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی کَل علم سے چلتی ہے یا عمل سے؟

اگر ہم کو یہ بات دریافت کرنی ہو کہ چراغ کی بتی کا استعمال آکسیجن سے قائم رہتا ہے یا ہائیڈروجن سے ، یا دونوں سے ، تو ہم کو چاہیے کہ ایک دفعہ بتی کو محض آکسیجن میں اور دوسری دفعہ محض ہائیڈروجن میں رکھ کر دیکھیں ۔ اگر دونوں میں بجھ جائے تو سمجھنا چاہیے کہ ہوا کے دونوں جزوں کو اُس کے اشتعال میں دخل ہے ۔ اور اگر ہائیڈروجن میں بجھ جائے تو آکسیجن میں نہ بجھے تو یہ جاننا چاہیے کہ اس کے اشتعال کا باعث محض آکسیجن ہے ، نہ ہائیڈروجن ۔

اسی طرح اگر ہم یہ دیکھنا چاہیں کہ دنیا کی کَل علم سے چلتی ہے یا عمل سے ؟ تو ہم کو چاہیے کہ اول ایک ایسا ملک فرض کریں جس میں اہل علم و اہل نظر کے سوا کوئی کام کرنے والا اور ہاتھ پاؤں ہلانے والا نہ ہو اور پھر دیکھیں کہ وہ ملک کتنے دن آباد رہتا ہے ۔ پھر ایک دوسرا ملک فرض کریں جس میں ان پڑھ محنتی مزدوروں کے سوا اہل علم کا نام و نشان نہ ہو اورپھر دیکھیں کہ وہ ملک آباد رہتا ہے یا نہیں ۔

ہم اول ایک ایسا خطہ فرض کرتے ہیں جس کے باشندے جھڑاں (تمام) عالم ، فلسفی ، ریاضی داں ، مصنف ، اوریٹر (Orator)، شاعر اور بڑے فاضل ہیں مگر اُن میں کوئی خدا کا بندہ ایسا نظر نہیں آتا جو اُن واجب التعظیم اپاہجوں کے کھانے ، پہننے ، اوڑھنے ، رہنے سہنے اور لکھنے پڑھنے وغیرہ کا سامان مہیا کرے ۔ اول تو کسی ملک میں بغیر کارکن جماعتوں کے ایسی آبادی کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہے ؛ لیکن اگر بفرض محال کسی خطے میں ایسی ناشدنی کولونی (آبادی) چند روز کے لیے آباد ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ ممکن ہے کہ بعض کو مطالعے کے ذوق و شوق میں ایک آدھ روز بھوک پیاس نہ لگے ۔ بعض کو کسی مشکل مسئلے کے حل ہو جانے کی خوشی میں ایک دو وقت کھانے کی کچھ پروا نہ رہے یا بعض کو کسی مضمون کی دھن میں کچھ دیر تک خوردونوش کا خیال نہ آئے ، مگر بہت جلد وہ آپ کو ایک ایسی مخلوق پائیں گے جو بھوکی ہے مگر کوئی اُس کا رزاق نہیں ، ننگی ہے مگر کوئی اُس کاستار نہیں ، حاجت مند ہے مگر کوئی اُس کا قاضی الحاجات نہیں ۔ اب یا تو انہیں خود اپنے اعلیٰ اور اشرف ہاتھوں سے وہ تمام حقیر اور ذلیل کام انجام دینے پڑیں گے جو عوام کالانعام (اُجڈ عوام) کو کرنے چاہییں اور یا فوراً اُس ملک سے ہجرت کرکے کسی ایسے خطے میں جا کر رہنا پڑے گا جہاں اُن کے لیے فرماں بردار بندے یا بندہ پرور خدا موجود ہو ۔ دونوں حالتوں میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ’’دنیا کی کَل محض علم سے نہیں چل سکتی‘‘۔

اس کے بعد ہم ایک دوسرا ملک فرض کرتے ہیں جس کے تمام باشندے ان پڑھ اور بے علم ہیں مگر محنتی ، جفاکش اور اپنی ضروریات ِ زندگی کے مہیا کرنے میں نہایت سرگرم ہیں ۔ گو انہوں نے زراعت یا تجارت یا صنعت و دستکاری کے اصول کتابوں میں نہیں پڑھے مگر وہ اپنی تمام ضروریات ، جن پر انسان کی زندگی موقوف ہے ، خود مہیا کرتے ہیں ۔ قدرتی خواہشیں اور نیچرل ضرورتیں اُن کو جس طرح سکھاتی گئیں اور متواتر تجربوں سے جس قدر اُن کی سمجھ بوجھ بڑھتی گئی ، وہ اپنے تمام کام برابر سر انجام کرتے رہے ۔ بونا ، جوتنا ، بنج بیوپار (تجارت، لین دین) ، صنعت اور دستکاری ، غرض کہ تمام اہم اور ضروری کام رفتہ رفتہ بقدرِ ضرورت انجام دینے لگے ۔ اب اُن کی کوئی ضرورت بند نہیں رہتی اور کوئی کام اٹکا نہیں رہتا ۔ ایک اناج پیدا کر کے لاتا ہے ، دوسرا پیستا ہے ، تیسرا پکاتا ہے اور تینوں مل کر کھاتے ہیں ۔ ایک کپاس بوتا ہے ، دوسرا اُسے کاتتا ہے ، تیسرا بُنتا ہے ، چوتھا سیتا ہے اور چاروں مل کر پہنتے ہیں ۔ اُن کو چوری یا ڈکیتی کا مطلق خوف نہیں کیوں کہ اُن کے پاس اپنے ہاتھ پاؤں کی محنت کے سوا کوئی دولت نہیں ۔ اُن کو غنیم کے حملے کا کچھ ڈر نہیں کیوں کہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں سے چوکس اور غنیم کے مقابلے کے لیے مستعد اور تیار ہیں ۔ اُن میں کوئی بدکار اور بدچلن نہیں کیوں کہ اُن کو اپنے کام دھندوں میں بدکاری اور بدچلنی کی فرصت نہیں ۔ اُن میں کوئی روگی اور بیمار نہیں کیوں کہ اُن میں کوئی طبیب اور ڈاکٹر نہیں ۔ اُن میں کوئی مذہبی تکرار نہیں کیوں کہ اُن میں کوئی واعظ یا مُلا نہیں ۔ اُن میں کوئی پولیٹیکل (سیاسی) اختلاف نہیں کیوں کہ وہ سب کنزرویٹو ہیں ۔ اُن میں کوئی عدالتی جھگڑا نہیں کیوں کہ اُن میں کوئی وکیل اور بیرسٹر نہیں ۔ اُن میں اس کے سوا کوئی عیب نہیں کہ وہ سویلائزڈ (مہذب و تعلیم یافتہ ) نہیں ، اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا کی کَل عمل سے چلتی ہے نہ علم سے ۔

اب فرض کرو کہ اس ملک کے باشندوں کا میل جول کسی ایسے ملک والوں سے ہو گیا جن کے تمام کام علمی اصولوں پر مبنی ہیں ۔ انہوں نے زراعت ، تجارت، صنعت و دستکاری اور تمام جنگی اور ملکی مہمات میں علم ہی کو اپنا رہبر بنایا ہے ۔ کیا معمار اور کیا بڑھئی ، کیا لوہار اور کیا کمہار ، کیا درزی اور کیا کفش دوز (جوتی بنانے والا) ، غرض کہ تمام پیشہ ور محض علم کی ہدایت سے اپنے تمام کام سرانجام کرتے ہیں ۔

اس قسم کے باعلم و عمل قوم کے میل جول اور لین دین نے اس آباد ملک کے ان پڑھ باشندوں کو سخت نقصان پہنچایا ۔ اُن کی تجارت نے اُن کے اخراجات ِ زندگی حد سے زیادہ بڑھا دیے ، اُن کی صنعت کے مقابلے میں ان کی صنعت ماند ہو گئی ، اُن کی دستکاری نے ان کی دستکاری کو اینڈ (ختم ) کر دیا ۔ مگر ایک مدت تک ان کو اس بات کی مطلق خبر نہ ہوئی کہ ہمارے پیشہ ور کیوں بے کار ہو گئے ؟ ہماری کمائیوں میں کیوں برکت نہ رہی ؟ ہمارے اخراجات روز بروز کیوں بڑھتے جاتے ہیں ؟ اور ہماری آمدنی ہمارے اخراجات کو کیوں مکتفی نہیں ہوتی؟

لیکن اُس غیر قوم سے جوں جوں میل جول بڑھتا گیا ، اُن کو اِن کی اور اِن کو اُن کی زبان سیکھنے کی ضرورت زیادہ ہوتی گئی ۔ انہوں نے اول اُن کی زبان سیکھی ، پھر رفتہ رفتہ اُن کے علم بھی سیکھنے لگے ۔ جن علموں کے ذریعے سے انہوں نے ہر فن میں ترقی کی تھی ، وہ علم بھی انہوں نے حاصل کیے ، مگر سوائے رَٹ لینے کے کوئی عملی فائدہ اُن کے علموں سے نہ اٹھایا ۔ وہ علم کو عمل کی غرض سے سیکھتے تھے ، انہوں نے علم کو محض علم کے واسطے سیکھا ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ علم آدمی کے لیے بنا ہے مگر یہ بمشکل ابھی یہیں تک پہنچے تھے کہ آدمی علم کے لیے بنا ہے ۔ وہ علم سے خود بھی لذت اور فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے ملک اور قوم کو بھی اُس کے فوائد پہنچاتے تھے ۔ انہوں نے گونگے کی طرح گڑ کھایا اور کسی نے نہ جانا کہ کھٹا ہے یا میٹھا ۔ پوری دنیا کی مختلف زبانیں اس لیے سیکھتے تھے کہ تمام عالم میں پھرتے تھے ، غیر ملکوں کے آدمیوں سے ملتے تھے ، مختلف قوموں کے علوم و فنون سے آگاہی حاصل کرتے تھے اور اُن کو اپنی زبان میں نقل کرتے تھے ۔ انہوں نے بھی اُن کی دیکھا دیکھی غیر ملکوں کی زبانیں اور غیر قوموں کی بولیاں سیکھیں ، مگر نہ اس لیے کہ غیرملکوں میں سفر کریں اور غیرقوموں کے علوم و فنون اپنی زبان میں منتقل کریں ، بلکہ اس لیے کہ طوطے کی طرح کہیں ’’حق اللہ پاک ذات اللہ‘‘ اور کہیں ’’ست گوردت داتا‘‘ بول اٹھیں ۔ وہ لیمپ روشن کرنے کے لیے ، میز لکھنے کے لیے ، کرسی بیٹھنے کے لیے ، گھنٹہ وقت دیکھنے کے لیے اور فرش بچھانے کے لیے خریدتے تھے ۔ انہوں نے اُن کی ریس (نقل ) سے یہ سب چیزیں فراہم تو کیں مگر نہ لیمپ کو جلایا ، نہ میز پر لکھا ، نہ کرسی پر بیٹھے ، نہ گھنٹے میں وقت دیکھا اور نہ فرش کو بچھایا ۔ بلکہ کباڑی کی طرح سارا گھر اسباب سے بھر لیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہو تی چلی گئی ۔ علم کے ذوق و شوق میں انہوں نے ہاتھ پاؤں مارنے بالکل چھوڑ دیے اور علم کا ادب اُن کو دنیا کے ذلیل کاموں میں ہاتھ ڈالنے سے مانع ہوا ۔ اب تاوقتیکہ وہ علم کو عمل کی غرض سے نہ پڑھیں اور اس سے عملی فائدے نہ اٹھائیں ، تب تک ممکن نہیں کہ اُن کی حالت درست ہو ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا کی کَل علم سے نہیں چلتی بلکہ عمل سے چلتی ہے ۔
اس تمثیل سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہم کو علم کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ ہم کو اس وقت علم کی نہایت ضرورت ہے اور ایسی ضرورت ہے جیسے پیاسے کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جس طرح ٹھنڈے پانی کی کلیاں کرنے سے پیاس نہیں بجھتی بلکہ اور زیادہ بھڑکتی ہے ، اسی طرح سطحیوں کی مانند کتابوں کے الفاظ اور علوم کی اصطلاحات یاد کرنے سے اور طوطے کی طرح علمی مسائل اور قواعد ازبر کرنے سے کوئی شخص نہ آپ کو اور نہ ملک کو کوئی اصلی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ ایسے لوگ ملک کے حق میں کہیں مضر ثابت نہ ہوں ۔

جس علم کی ہم کو ضرورت ہے وہ ، وہ علم ہے جو ہماری ساکن اور پژمردہ قوتوں کو متحرک اور شگفتہ اور شاداب کرے ۔ نہ کہ وہ علم جو ہمارے متحرک اور شگفتہ قویٰ کو بھی ساکن اور پژمردہ کر دے ۔ ایسے علم سے بے علمی سو درجے بہتر ہے ۔ بقول شخصے کہ ،
بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی جیے گا

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search