کرونا تحریری مذاکرہ۔ مبصر: عاصم بخشی

 In تاثرات

[کرونا وائرس کی وبا  پچھلے کئی مہینوں سے  پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے اثرات کی ہمہ گیری کے سبب  ہماری ویب سائٹ جائزہ نے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے ایک تحریری مذاکرے کا اہتمام کیا جائے۔ ایک سوالنامہ مختلف اہلِ علم کو بھیجا گیا جو اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔     ہمیں   کئی اہلِ علم کے جوابات موصول ہو چکے ہیں ۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی جناب عاصم بخشی کا یہ جواب ہے جو ان کے شکریے کے ساتھ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر]

۱۔ سیاسی/معاشی نظام اب تک جس ڈھرے پر چل رہا تھا کیا مابعد کرونا بھی اسی طرح چلتا نظر آتا ہے یا آپ کوئی شدید (ریڈیکل) تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں سیاسی و معاشی نظام کے کسی   ایسے مخصوص خاکے کو فرض کرنا لازمی ہے جسے  پوری دنیا میں ایک عمومی حیثیت سے رائج مانا جا سکے۔ بالفرض اگر ہم اسے اپنی تمام متنوع صورتوں  میں آزاد منڈی کی معیشت اور اس کے گرد قائم کردہ سیاسی نظام  مان لیں تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاشی نظام  کس حد تک مضبوط ہے اور کون سے عوامل اس کی یہ ٹھوس اساس قائم رکھنے  میں شامل ہیں۔میری رائے میں اس قسم کی پائیداری جانچنے کے لیے خالص تجریدی   خاکہ کشی  کے ذریعے قیاس آرائی کی بجائے  نسیم نکولس طالب کا نسبتاً تازہ ماڈل استعمال کیا جا سکتا ہے۔ طالب  کا تناظر  گو مقولیاتی اعتبار سے ’شے‘ کی بات کرتا ہے لیکن اس ’شے‘ کا دائرہ ’نظام‘، ’ڈھانچوں‘ اور ’ساخت‘  تک  پھیلا ہوا ہے ۔مختصراً،  یہ ماڈل    موضوعات کو تین اقسام یعنی ناپائیدار، پائیدار اور  مضبوط میں تقسیم کرتا ہے۔ ناپائیدار  اتنا نازک  ہے جو بھک سے اڑ جائے اور پارے کی طرح سیماب صفت ہو ۔مضبوط اس کے الٹ ، جس میں نازکی نام کو بھی نہیں ۔ ان دونوں کے برعکس پائیدار وہ ہے  جو سیمابی کیفیت کا کسی قدر مادہ اپنے اندر رکھتا ہے لیکن  توڑ پھوڑ  کے امکانات کی بجائےاس سے  فائدہ اٹھاتا ہے۔طالب کا کہنا ہے کہ ناپائیدار آسودگی کا متلاشی رہتا ہے، پائیدار ناآسودگی یا بکھراؤ سے  مزید  فائدہ اٹھاتا ہے اور مضبوط کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ اس تناظر میں رائج سرمایہ دارانہ معیشت ایک ایسی  یکتا ناپائیداری کی جانب جھکی نظر آتی ہے جہاں اگر نہایت بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی  نہ پھیلے تو   توازن کی جانب لوٹنا قرینِ قیاس ہے۔چاہے ہم اسے ایک بگاڑ مانیں یا مسخ شدہ صورت، معیشت کا یہ ماحولیاتی نظام بہرحال اب ایک نیم انسانی فطرت ہے  جو فی نفسہٖ اپنی بقا کی ضامن ہے جب تک کوئی قیامت خیز  تبدیلی رونما نہ ہو۔بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلی تاحال افسانوی امکانات ہی رکھتی نظر آتی ہے۔

۲۔کرونا کے خلاف جنگ اصلاً سیاسی بنیادوں پر لڑی جا رہی ہے اور لامحالہ اس کے اثرات بھی سیاسی ہوں گے۔ اس جنگ میں کمزورسیاسی ڈھانچوں (خصوصاً تھرڈ ورلڈ) کے مستقبل کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ؟

جواب: یقیناًمعاشی طور پر تو تیسری دنیا کے ممالک کو  ایک عظیم دھچکا متوقع ہے، خاص طور وہ سیاسی معیشتیں (مثلاً بھارت اور بنگلہ دیش)  جو اپنے تئیں خود کو ایک مناسب راہ پر ڈال چکی تھیں اس حادثے کے نتیجے میں  کئی قدم پیچھے چلی جائیں گی۔ لیکن کرونا کے خلاف یہ ’جنگی‘ تناظر بذاتِ خود گہرائی میں  جانچے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔وباؤں کی سماجی تاریخ  میں  اس قبیل کے عسکری استعاروں  مثلاً ڈاکٹر صفِ اول کے سپاہی ،  وائرس انسانی جسم پر لشکرکشی کرتا ایک  دشمن اور اس جنگ میں فتح و شکست   پر مشتمل لسانیاتی خاکوں کے ڈانڈے ہیضے  کی وبا اور یوروپی   استعمار    سے جا ملتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں  ہیضے کی وبا نے  ہندوستان پر جاری    فوج کشی  کے سلسلے کو شدید دھچکا پہنچایا۔ وارن ہیسٹنگز کی فوج کے آٹھ سو سپاہی ایک ہی ہفتے میں لقمۂ اجل بنے۔لہٰذا یوروپی ذہن میں وبا ایک استعاراتی دشمن نہیں بلکہ ایک  زندہ سیاسی مسئلے کی صورت تصویر  ہوئی۔بالکل اسی طرح جیسے آج ایک خردبینی جرثومہ  اقوامِ عالم کے لیے ایک زندہ معاشی مسئلہ ہے۔

اس کے برعکس  کمزور اقوام نے تاریخ میں  ہمیشہ ایسی وبائی صورتِ حال میں افتادگان ِ خاک کا کردار ہی نبھایا ہے۔۱۸۶۱ء  میں ہیضے کی دوسری  وبا کے دوران میاں میر چھاؤنی میں تعینات کم و بیش ڈھائی  تین ہزار  سپاہی ’حملے‘ کا نشانہ بنے اور پانچ سو سے زائد  کی موت ہوئی۔اسی سال لکھے جانے والی ایک رپورٹ میں  یوروپی افسروں کو  ’میدانِ جنگ‘ میں اپنا کردار نبھانے پر مبارک باد دی گئی اور وبا کو ۱۸۵۷ء   کے باغیوں اور  فسادیوں  سے تشبیہ دی گئی۔ دوسری طرف ہندوستانی ذہن میں یہ قدرت کی طرف سے لشکر کشی کرتی فوجوں کے لیے ایک سزا تھی۔میری رائے  میں  اس بار بھی نفسیاتی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے  کیوں کہ تیسری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیائی ذہن اپنی طرف نگاہ کرنے  کی بجائے اس بات پر دبا دبا اطمینان ظاہر کرتا  نظرآتا ہے کہ نام نہاد  عظیم طاقتیں بھی اس وبا کے خلاف شدید ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔

۳۔  کرونا کی وجہ سے معاشی اور سیاسی تباہ کاریوں کومغرب میں بہت سے لوگ فطرت کے انتقام (ماحولیاتی آلودگی) کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ کیا مشرق میں کسی بیانئے مثلاً قدرت کا انصاف (مغرب کے نوآبادیاتی مظالم پر قدرت کی پکڑ) کی علمی تشکیل کی جا سکتی ہے ؟

جواب: پچھلے سوال کے جواب میں اس جانب کسی قدر اشارہ ہوا۔ میری رائے میں علمی تشکیل  تو متوقع نہیں بہرحال نفسیاتی  تشکیل یا ایک ذہنی تصویر بننا تو لازمی ہے۔ لیکن مختلف اعتبار سے بے سود ہے کیوں کہ ماحولیاتی آلودگی کے ضمن میں تو  مشرق بشمول مذہبی تحریکیں  تاحال پہلا قدم تک نہیں اٹھا سکیں۔ اس سلسلے میں صرف آبادی کے مسئلے ہی کو لے لیا جائے تو مذہبی ذہن کی الجھنوں کا مطالعہ کرنے کے لیے مفید ہو گا۔ رہے مغرب کے نوآبادیاتی مظالم تو ان پر سب سے پرزور تنقیدی آوازیں  اور علمی تشکیلات  کسی نہ کسی شکل میں مغربی منہجِ علمی کے اندر ہی سے اٹھ رہی ہیں۔ہمارے ہاں اس امر کی شدید ضرور ت ہے کہ کلاسیکی علمی روایت ، مثلاً تفسیرِ قرآنی اور شرحِ حدیث و آثار میں ماحولیاتی اور فطرت دوست تناظر قائم کرنے کے لیے پہلی اینٹ رکھی جائے۔

۴۔کرونا سے نبٹنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں نے  آمرانہ طرزِ حکومت اپنایا، لبرل اقدار اور انسانی حقوق معطل ہو کر رہ گئے۔کیا اس امر سے انسانی حقوق کے آفاقی ہونے پر کوئی زد پڑتی ہے؟

جواب: میری رائے میں یہ محض ایک ایسا مفروضہ ہے جس پر یقیناً علمی تشکیلات تو کھڑی کی جا سکتی ہیں اور آنےوالے دنوں میں کئی مقالے شائع  بھی ہوں گے لیکن عمومی طور پر یہ دعویٰ کہ لبرل اقدار معطل ہو گئے اور آمرانہ طرزِ حکومت اپنا لیا گیا کچھ خاص مضبوط نہیں ۔کئی یوروپی حکومتوں مثلاً اٹلی اور اسپین وغیرہ میں زیادہ اموات کی وجہ ہی یہ تھی کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ امریکہ  میں تو ان دنوں تمام رکاوٹیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پرہجوم تحریک برپا ہو گئی۔ زیادہ تر ملکوں میں کوئی نئی قانون سازی بھی نہیں ہوئی اور رائج قوانین ہی کا سہارا لیا گیا یا رائے عامہ کو ہموار کرنے پر کافی زور دیا گیا۔ بہرحال نظری مباحث کی حد تک یہ سوال ایک بار پھر اٹھایا جانا چاہیے کہ انسانی حقوق  کی اصل حیثیت آخر ہے کیا۔

۵۔ چین نے کرونا سے نبٹنےکے لیے بڑی موثر حکمت عملی اپنائی لہٰذا بہت سے تجزیہ کار مغرب کے نیو لبرل معاشی ماڈل کے بجائے چینی ماڈل کے بارے میں رطب اللسان ہیں اور بعض تو نیو لبرل ماڈل کے خاتمے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟

جواب: میں اس سلسلے میں پہلے سوال کے جواب کی جانب رجوع کروں گا۔نیولبرل ماڈل  اپنے اندر اس حدتک لچک رکھتا ہے کہ اپنی اساس کو بچانے کی خاطر  یقیناً تبدیلیاں کرے گا جو فی زمانہ  بڑے پیمانے پر  فرد  اور معاشرے کی نگرانی، مواصلاتی نیٹ ورک سے وصول شدہ  ڈیٹا کی مسلسل جانچ پڑتال اور معاشی منڈیوں کی مزید  نگرانی پر مشتمل ہوں گی۔ مزیدبرآں اس کا تعلق اب مزید سختی کے ساتھ شماریاتی احتمال اور متوقع خطرات کی پیش آگاہی کرنے والے نظاموں سے جوڑ دیا جائے گا۔یہ سب کچھ اتنا پیچیدہ اور  عام ذہن کے لیے اس حد تک  مبہم ہے کہ  نیو لبرل ماڈل کو ان تبدیلیوں کے اعلانات  کی قطعی حاجت نہیں۔ فرد  اور معاشرہ جس طرح میڈیا  کی نئی صورتوں سے  جڑ چکا ہے ، اسے معلوم بھی نہیں ہو گا کہ نیولبرل ماڈل  میں ہونے والی یہ تبدیلیاں کس حد تک ہیں اوروہ یہ ماڈل اپنے حریت پسندی اور انفرادیت پسندی کے آدرشوں سے پہلے ہی کس حد تک ہٹ چکا ہے۔

دوسری طرف چینی ماڈل   کی نظریاتی اساس کے ستون ایک شدت پسند حد تک  ہمہ گیر افادیت پسندی  اور اجتماعی   بقا  پر انفرادیت کی قربانی کے ہیں۔ لیکن اس وبا کے تناظر میں یہ سوالیہ نشان بدستور موجود ہے کہ کیا چینی ماڈل واقعتاً  کچھ مختلف   اساسی  نظریات رکھنے کی وجہ سے کامیاب ہوا؟ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وبا کے خلاف کامیابی  کم از کم اساسی نظریات سے مشروط نہیں کیوں کہ ویت نام، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک  بھی اس وبا میں سے کامیاب ابھرے ہیں۔ لہٰذا اس کامیابی کی زیادہ معقول توجیہات معاشی و سیاسی ماڈل میں فرق سے کہیں زیادہ ایک وبا کے لیے انتظامی طور پر تیاری، نتائج پر مسلسل نگاہ رکھنے والی قیادت اور   ماضی قریب میں اسی قسم کے دوسرے وبائی چیلنجوں  سے نبردآزما ہونے کے بعد حکمتِ عملی کی  درستگی ہے۔

۶۔ کیا کرونا نے پوسٹ ماڈرن کنڈیشن کو چیلنج کیا ہے؟

جواب: اس سوال کا مختصر جواب  غالباً غلط فہمیوں کو جنم دے گا اس لیے معذرت کے ساتھ کسی قدر  تفصیل  سےذہن میں موجود مفروضوں کو عیاں کر دینا ضروری ہے۔ مابعدالجدیدیت مختلف ذہنی  رجحانات کے  لیے مختلف صورتیں رکھتی ہے اور اس کی ماہیت    کی ٹھوس تعریفات  کے معنی ہی ایک ایسی مستحکم ساخت کی دریافت کے امکانات   کا اعلان ہے جو اگر کر دیا جائے تو مابعدالجدیدیت وہ نہیں رہے گی جو اس کا دعوٰی ہے۔یہ ایک ایسی تناقض کی کیفیت ہے جس میں سے نکلنے کا واحد حل اس  متبادل سوال کے جواب کی کوشش ہے کہ مابعدالجدیدیت کیا نہیں ہے؟

اس سوال کا عمومی جواب اسی طرح دیا گیا ہے کہ یہ جدیدیت نہیں ہے، بالخصوص  ان معنوں میں جہاں جدیدیت کونیاتی بکھراؤ کا شکار سماجی  منظرنامے میں تسلسل سے  کسی  نئی ٹھوس ساخت کی تلاش ہے۔انسانی ذہن نے پہلے پہل بکھراؤ کے اس حادثے  کی تکمیل کا اعلان کیا تو  ایک نفسی حقیقت  کی منظرکشی  ممکن ہوئی جہاں فسوں ربائی  کا عمل مکمل ہو چکا ہے ۔دعویٰ یہ کیا گیا کہ  اب ایسی کوئی آفاقی اساس باقی نہیں جس پر  نوعِ انسانی  انفرادی  اور اجتماعی   تنظیم  کا عمل جاری رکھ سکے۔اس  منظرکشی کے ردّعمل میں ایک متبادل اساس کا خواب دیکھا گیا جس کا نام جدیدیت ہے۔جدیدیت کے عملی منصوبے کے اولین اقدامات میں سے ایک اہم قدم اس منظرکشی میں یہ ناگزیر تبدیلی تھی کہ  بکھراؤ کا یہ مظہر انسانیت کے ساتھ پیش آنے والا کوئی حادثہ نہیں بلکہ  ایسی حریت و آزادی ہے جس پر ماتم کی بجائے خوشی کے شادیانے بجانے چاہیے ہیں۔ تنویری تحریک نے اسی لیے بڑے جوش وخروش سے خدا کی بے دخلی کے ساتھ اس منظر میں انسان کی آمد کا نقارہ بجایا۔اس کے بعد کا طویل دور انسان مرکز آدرش  سے جنم لینے والے عملی مظاہر  کی رونمائی پر مشتمل ہے جسے ترقی اور مثالی ربط کی طرف پیش قدمی کے سفر سے تعبیر کیا گیا۔

                لیکن اس تمام سفر کے دوران  انسانی نفسیات کی تہوں میں وہ خوف موجود تھا جیسے دوستو ئفسکی کی اس  مشہور تنبیہ  کے طور پر یاد رکھا جا سکتا ہے کہ اگر خدا نہیں تو  بکھراؤ کے امکانات لامتناہی ہیں۔اسی خوف کی ترجمانی منہجِ جدیدیت  سے منسلک  اولین سماجی نظریہ سازوں نے  اس اصول پر کی کہ اگر  سماج کی اقداری گرفت  کمزور پڑ جائے تو اخلاقی  ٹوٹ پھوٹ لازمی ہے۔پس لازمی تھا کہ اس اقداری گرفت کو  بزورِ بازو قائم رکھنے کے لیے سزاوجزا کے نئے ادارے اور فرد کو  منظم دائروں میں قید رکھنے کے لیے  مناسب   قوی ڈھانچے وجود میں لائے جائیں۔ ان ڈھانچوں کے قیام کے ساتھ ہی نفسِ انسانی کی تہوں میں موجود اِس خوف کی نج کاری ہوئی اور  فرد پر لازم ہوا کہ وہ  اجتماعیت سے کٹ کر  آپ اپنا سائبان تلاش کرے۔ نفسیاتی خوف کی نج کاری کا یہ عمل ہی مابعدالجدیدیت ہے ۔  یعنی انفرادی طور پر بکھراؤ کے نفسیاتی خوف سے بچنے کے لیے کسی ایسی  چھترچھایا کی  مسلسل تلاش جو بالتعریف موجود ہی نہیں!

                اگر’پوسٹ ماڈرن کنڈیشن‘ یا مابعدالجدید نفسی  حقیقت  کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو  بڑے پیمانے پروقوع پذیر ہونے والے حادثات، وبائیں  یہاں تک کہ انفرادی حادثے بھی  یقیناً اسے چیلنج کرتے ہیں۔ نفسیات میں گندھے بکھراؤ کے طبعی خوف کے جواب میں ایک کونیاتی فسوں، ایک  آفاقی ربط کے امکانات کی جانب واپسی   فطرتِ انسانی کا ایک لازمی عنصر ہے ۔ لیکن  وثوق سے نہیں کہا جا سکتا  کہ اس  کے جواب میں اسی قدیم آفاقی ربط  کا حصول ممکن ہو سکے جو کبھی نوعِ انسانی کے مذہبی نفس کا خاصہ تھا۔ زمانۂ جدید  اور مظہرِ جدیدیت میں فرق بہرحال لازم ہے ۔راقم کو تو یہی نظر آتا ہے کہ  اس وبا کے تناظر میں نوعِ انسانی اجتماعی طور پر  کسی آفاقی ربط  کے سحر میں مبتلا ہونے کی  بجائےشماریاتی ڈھانچوں، احتمالی خاکہ بندیوں اور  ریاضیاتی  منہج سے جنم لینے والے تجزیوں  کے سحر میں مبتلا ہوئی نظر آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ شماریاتی تجزیے پر استوار منہجِ  استدلال  اب اس کلاسیکی  منہج کی جگہ لینے والا ہے جہاں فلسفیانہ  تجزیے اور بلیغ  زبان وبیان  کے ذریعے سماجی  تجزیے  پیش کیے  جاتے ہیں۔ سائنسی  استدلال کی یہ تازہ فسوں کاری  مابعدالجدید  تنقیدی منہج اور اس سے کمک پانے والی دوسری علمیات  کے ساتھ ایک نئی کشمکش پیدا کرے گی جس میں مخالف استدلال کو غیرسائنسی یا  بودا کہہ کر ٹھکرایا جانا آسان ہو گا۔ حالیہ وبا کے دوران اس قسم کی طعنہ زنی  دیکھنے میں آئی جب دراصل مخالف  ترجیح کو غیرسائنسی  گرداننے والی آوازیں خود بھی  اس دعوے کی تہہ میں اترنے کے قابل نہ تھیں جس پر ان کا محکم  اصرار رہا۔ ہم اسے فسوں ربائی کے ردّعمل  میں ظاہر ہونے والا ایک معکوس   مظہر بھی کہہ سکتے ہیں۔

۷۔عوامی آگاہی کے تمام ذرائع (مثلاً صحت کے عالمی ادارے، تھنک ٹینکس، ہمہ قسم ریسرچ انسٹی ٹیوٹس، میڈیا وغیرہ) اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے  زیرِ اثر ہیں۔وباکے بارے میں یہ تمام ذرائع کسی قسم کا تناظر فراہم کرنے  میں ناکام نظر آتے ہیں۔آپ اس صورتِ حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: یہ کہنا کہ اس قسم کا کوئی تناظر فراہم کرنے میں ناکامی ہوئی  قرینِ قیاس نہیں اور بہت سے شواہد اس کے خلاف ہیں۔اس کی بجائے یہ کہنا  زیادہ مناسب ہو گا کہ انفارمیشن  کے بہاؤ میں کسی ایک تناظر اور اس سے متعلقہ تمام عوامل تک رسائی یقیناً مشکل ہے۔ بنیادی وجہ تحقیق میں حددرجہ بڑھوتری اور اشاعت کا مسلسل عمل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حالیہ وبا پھیلنے کے بعد یعنی تقریباً پچھلے چھ ماہ میں پچاس ہزار سے زیادہ سائنسی  مقالات شائع ہو چکے ہیں اور   صحافیانہ مضامین  وغیرہ کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔میری رائے میں اگر کسی ایسے تناظر کو نشان زد کرنا ممکن ہو تو وہ شماریاتی  تجزیہ اور جواب تجزیہ ہے۔ بالفرض اگر تمام شماریاتی خاکوں اور ان کی رُو سے کی جانے والی پیشین گوئیوں کو سامنے رکھا جائے تو ان کی صحت وسقم پر سائنسی و سماجی منہج میں رہتے ہوئے  کلام کرنا ممکن ہے۔مزید برآں ان شماریاتی تجزیوں کی بنیاد پر کی جانے والی سماجی یا قانونی ضابطہ بندی کی مسلسل درستگی بھی ممکن ہے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search