”نظریہ سازش، کرونا اور کسنجر“-چند گزارشات ۔ تحریر: طلعت اسلام
حال ہی میں ”جائزہ“ میں شائع ہونے والا محمد دین جوہر صاحب کا مضمون بعنوان ”نظریہ سازش، کرونا اور کسنجر“ نظر سے گزرا۔ انہی کی وساطت سے ہنری کسنجر کا مضمون دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
جوہر صاحب نے خالص فلسفیانہ اور دقیق علمی اسلوب بروئے کار لاتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ کرونا سے پیدا ہونے والی عالمی صورتحال کو توہم پرستی، نظریہ سازش یا مغرب کی غلامانہ نقالی وغیرہ جیسے عدسوں سے سمجھنے کی کوشش کرنا بے سود ہے بلکہ اس انتہائی پیچیدہ صورتحال کا درست تجزیہ نظری اور عقلی علوم کی روشنی میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ فاضل مصنف کے اس مقدمے سے کوئی صاحب علم انکار نہیں کر سکتا البتہ بعد ازاں انہوں نے ہنری کسنجر کے آرٹیکل پر جو تبصرہ کیا ہے اس پر چند گزارشات حاضر ہیں۔
ان کے مضمون سے یوں لگتا ہے کہ وائرس کو تو وہ سازش یا منصوبہ نہیں سمجھ رہے البتہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر لاک ڈاؤن پالیسی کو وہ عالمی ریاست (شاید امریکہ یا تمام مغرب ؟) کے طویل المیعاد ”مستقبل کی تعمیر“ کے منصوبے کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ میں بصد احترام ان سے اختلاف کی جسارت کروں گی۔ میرے خیال میں لاک ڈاؤن کا سب سے زیادہ نقصان خود سرمایہ دارانہ نظام اور اس اصول پر بننے والی گلوبل اکانومی کو ہوا ہے۔ بلکہ لاک ڈاؤن ، سماجی فاصلے، نقل و حمل پر پابندیاں- یہ تمام پالیسیاں لبرل اقدار کو گویا جڑ سے اکھاڑے دے رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مغرب کا سرمایہ دار ایک ہی ماہ میں کس بری طرح بلبلا اٹھا ہے۔ امریکہ اور پورے مغرب میں سڑکوں پر احتجاج ہو رہا ہے اور اس سب کے پیچھے کنزرویٹو اور سرمایہ دار لابی ہے۔ لاک ڈاؤن پالیسی پر سائنس اور سرمایہ دار ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ گذشتہ کئی دہائیوں کے تجربات اور ریسرچ کی بنیاد پر سائنس نے ہی یہ پالیسی دی ہے۔ سائنسدان کا بنیادی گول پہلے قدم پر وائرس کو پھیلنے سے روکنا اور دوسرے قدم پر اس کا علاج/ویکسین دریافت کرنا ہے۔ اس کو اس سے کچھ خاص سروکار نہیں کہ اس پالیسی سے دیگر کیا کیا مسائل پیدا ہو رہے ہیں؛ یہ ان کا کام ہے جن کی یہ ذمہ داری ہے۔ امریکہ میں ڈاکٹر فاچی سائنس کا اور ٹرمپ سرمایہ داروں کا نمائندہ ہے۔ آپ ان دونوں کے درمیان پہلے دن سے ہی قدرے کھچاؤ دیکھ سکتے تھے لیکن اب تو خلیج گہری اور واضح ہو گئی ہے۔
دوسرا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ کسنجر کے مضمون سے انہوں نے عسکری طاقت کے استعمال کی نصیحت (اور وہ بھی اس شدومد سے) کیسے اخذ کی؟ مجھے تو کسنجر کے مضمون سے یہ محسوس ہوا کہ وہ ہر دو/چار اطراف کی عالمی طاقتوں کو عسکری ضبط (Constraint) کا مشورہ دے رہا ہے۔
کسنجر کے مضمون کو پڑھ کر آپ جان سکتے ہیں کہ اس وائرس نے نیو ورلڈ آرڈر کے منصوبہ ساز بانیوں اور معماروں کا آرام و چین کس بری طرح سے لوٹ لیا ہے۔ گلوبل اکانومی اور ورلڈ آرڈر کے سارے نظریاتی ستون اس وقت ڈگمگا رہے ہیں۔ میں صرف ستون لکھتی ہوں ان کا ڈگمگانا آپ خود نوٹ کر لیں:
1. Science is the ultimate power and solution to all problems.
2. Global open economy with no restrictions whatsoever.
3. Ultimate personal liberty (no govt control whatsoever)
آپ اس تناظر میں کسنجر کا مضمون دوبارہ پڑھیں۔ اس کو فکر یہ ہو رہی ہے کہ:
1۔ سائنس مسائل کو فوری حل نہیں کر پائی۔ اس میدان میں ہم اپنی گذشتہ کامیابیوں پر مطمئن (complacent) ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ ہمیں بہت زیادہ اس فیلڈ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ناکامی کی کوئی آپشن/ گنجائش اب باقی نہیں ہے۔
2. دیگر ممالک مثلا چین جاپان روس وغیرہ (نام لیے بغیر) گذشتہ یعنی 2008 کی معاشی کساد بازاری سے سیکھے ہوئے سبق کی روشنی میں اب Economic restrictions لگائیں گے اور یہ ہمارے گلوبل سرمایہ دارانہ نظام کی گویا موت ہو گی۔ اس لیے فوری طور پر اپنی سیاسی اور بین الاقوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں اس اقدام سے روکا جائے یہ ڈراوا دے کر کہ اس نظام کی تباہی میں آپ سب کی بھی تباہی ہے۔
3۔ شخصی آزادی کے جس ماڈل اور لبرل اقدار پر یہ نظام کھڑا ہے اور جس کی وجہ سے جمہوری حکومتیں وجود میں آئیں لاک ڈاؤن سے ان پر شدید زد پڑی ہے۔ بلکہ شاید یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ گذشتہ کیمونسٹ حکومتیں، جہاں شخصی آزادی اتنی طاقتور نہیں تھی، کلاسیفائیڈ انفارمیشن کے استعمال کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں زیادہ کامیاب رہیں مثلا جاپان اور چین وغیرہ۔ تو اب یہ جمہوری حکومتیں اور اقدار اپنا جواز legitimacy کھو رہی ہیں۔
یاد رہے کہ مغرب خصوصا نارتھ امریکہ میں لبرل اور کنزرویٹو کی اصطلاحات اپنا خاص معاشی اور سیاسی مفہوم رکھتی ہیں۔ پاکستان میں یہی اصطلاحات عام طور پر مذہبی حوالے سے استعمال ہوتی ہیں جبکہ مغرب میں ان کا مذہبی حوالہ قدرے پس منظر میں جا چکا ہے۔ امریکہ کی مقامی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہاں گذشتہ کئی دہائیوں سے لبرل اور کنزرویٹو سیاسی نظریے کے مابین ایک حسین توازن قائم ہے۔ ابتدا میں اگرچہ ترازو کے پلڑے کا ہلکا سا جھکاؤ کنزرویٹو کی طرف رہا مگر موجودہ دہائی میں پہلے باراک اوباما کی صدارت حاصل کرنے میں کامیابی اور پھر الہان عمر اور الیگزینڈریا اوکاسو کورٹیز جیسی انتہائی لبرل نظریے کی حامی اور نہایت سرگرم خواتین کی کانگریس میں شمولیت اس پلڑے کے دوسری طرف جھکنے کی واضح علامات ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ وائرس نے ان دونوں نظریات کو شدید جھٹکا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف امریکہ کا لبرل، سائنس کا اندھا مقلد لاک ڈاؤن کا پُر زور حامی ہے وہاں کنزرویٹو سرمایہ دار معاشی بندش سے سخت نالاں ہے۔ پہلے ماحولیاتی آلودگی اور اب اس وائرس کے مسئلے پر لبرل اور کنزرویٹو کی خلیج مزید گہری ہو رہی ہے۔ کسنجر جیسے امریکہ کے مائی باپ ریاست کے ان اندرونی تضادات اور کشمکش سے بھی بجا طور پر سخت پریشان ہیں۔