نظریۂ سازش، کرونا اور کسنجر – تحریر: محمد دین جوہر

 In تاثرات

[کرونا وائرس کے حوالے سے دنیا بھر میں جو بحثیں ہو رہی ہیں ان میں طبی پہلو حاشیے پر ہے اور سیاسی-معاشی پہلو مرکز میں۔ 03 اپریل کو وال اسٹریٹ جرنل میں ہنری کسنجر کا ایک مضمون [1] شائع ہُوا۔ محض 828 الفاظ پہ مشتمل یہ مضمون مختصر مگر موثر نویسی کی ایک شاندار مثال ہے۔ چھیانوے سالہ کسنجر نیو ورلڈ آرڈر کا بھیدی ہی نہیں بلکہ معمار بھی ہے لہذا اس کا یہ مضمون نہایت غور سے دیکھنا چاہیے۔ عالمی میڈیا میں بہت سے تجزیہ کاروں نے اس مضمون کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے موضوعِ بحث بنایا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس کو سیاسی-معاشی طاقت کی جنگ کے طور پہ اول تو دیکھا ہی نہیں گیا اور اگر کسی نے بات کی بھی تو وہ نظریہء سازش کی عینک سے تھی۔ جناب محمد دین جوہر نے کسنجر کے مضمون کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے ان مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو ہمیں کھلی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے سے روکتے ہیں۔ مدیر]

آفاق بالعموم دو چیزوں کا مجموعہ ہے: تاریخ اور فطرت۔ واقعاتِ تاریخ اور مظاہرِ فطرت کی تفہیم اور تعبیر کے لیے عقلی علوم ایک لازمی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ تاریخی واقعات اور مظاہرِ فطرت نسبتوں کے طویل سلسلے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں، اور صرف حسی اور مشاہداتی نہیں ہوتے۔ واقعات اور مظاہر کے وہ پہلو یا نسبتیں جو غیر حسی ہیں، عقل کی نظری کارفرمائی سے سامنے لائی جاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہر تاریخی واقعہ اور ہر مظہرِ فطرت حسی اور نظری ادراک کے مجموعے سے تفہیم کی شرائط پوری کر سکتا ہے۔ عقلی علوم کی عدم موجودگی میں فطرت کے مظاہر کی تعبیر توہم پرستی اور تاریخی واقعات کی تفہیم نظریۂ سازش کا شکار ہو جاتی ہے۔ توہم پرستی اور نظریۂ سازش انسانی معاشروں میں انفرادی سطح پر ہمیشہ موجود رہتے ہیں، لیکن اگر وہ معاشرے کے لیے ضروری علم کی جگہ لے لیں تو ہلاکت کا درجہ رکھتے ہیں، کیونکہ عقلی علوم کی عدم موجودگی میں عمل کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔

آفاق میں انسانی عمل کے واقعاتی سیاق کو جاننا اور سمجھنا ہماری مذہبی ضرورت ہے، کیونکہ آفاق اب صرف انسانی عمل کا ظرف نہیں رہا بلکہ مشینی اور میکانکی عمل اس پر مکمل طور پہ غالب آ چکا ہے۔ اسی باعث عمل کو صرف نیت اور قدر تک محدود کیے رکھنا اور انہی حوالوں سے اس پر فیصلہ دینا تفہیم کو ناممکن بنا دیتا ہے اور ہماری تہذیبی  پسماندگی کا باعث ہے۔ تاریخ اور فطرت میں انسانی عمل کی نتیجہ خیزی عقلی علوم سے مشروط ہے۔ توہم پرستی اور نظریۂ سازش انسان کو تاریخی اور فطرتی مظاہر کا کھلونا بنا دیتے ہیں، اور وہ اپنے منصبِ انسانیت سے گر جاتا ہے، اور اس کی موت اس کی زندگی کی طرح بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

ہمارے ہاں توہم پرستی اور نظریۂ سازش ہر وقت فعال رہتے ہیں، اور انہوں نے ہمارے دماغ کا بھرتہ بنا دیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک اور رجحان اس سے بھی خطرناک ہے، اور وہ دورِ فتن کی احادیثِ مبارکہ اور ایمانیات کو تاریخ پر وارد کرنا ہے۔ کافر اور مسلمان میں ظاہرِ آفاق مشترک ہے، اور وہ تاریخ اور فطرت ہے۔ لیکن تقدیر اور تکوین بھی آفاق ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ تاریخ اور فطرت عقلی علوم کا موضوع ہے، اور ان میں عمل شریعت کے تابع ہے، جبکہ تقدیر اور تکوین ایمانیات کا موضوع ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام نے قیامت تک جن واقعات کی پیش گوئی فرمائی ہے وہ بعینہٖ ظہور میں آئیں گے، اور وہ ارشادات مبارکہ ہمارا جزو ایمان ہیں۔ ان پیش گوئیوں کا تعلق تقدیری اور تکوینی امور سے ہے، اور ان میں ایک زمانی تعمیم ہے۔ تاریخ زمانی تخصیص کا نام ہے اور اس میں رہنمائی کے لیے شریعت موجود ہے۔ تاریخ کو امور تکوین کی روشنی میں دیکھنا انفرادی اور اجتماعی عمل کے راستے مسدود کر دیتا ہے اور شریعت اور عقل سے دستبرداری کی ایک آڑ ہے۔ کسی بھی تاریخی صورت حال کے روبرو ان رویوں کے علاوہ ایک چوتھا رویہ بھی بہت عام ہے اور وہ حالتِ انکار کا ہے۔ حالتِ انکار کی ہیئت عموماً اخلاقی ہوتی ہے جس میں ایمانیات کا خفیف تڑکا بھی بعض اوقات لگا ہوتا ہے۔ آپ اگر کسی بھی وسیع تر تاریخی صورت حال کا تجزیہ کرنا چاہیں تو جواب عموماً مایوسی پھیلانے کے الزام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ الزام حالت انکار کے لیے زرہ کا کام کرتا ہے۔ صورت حال کو دیکھنے کا پانچواں رویہ جدید سماجی اور سائنسی علوم کی متداول تفہیم کے برعکس، مغربی معاشروں کی ریس کا ہے۔ ذہن سے دستبرداری کی حالت میں مغربی عمل کی غلامانہ ریس جدید دنیا کو ہمارے لیے سرے سے قابل تفہیم ہی نہیں رہنے دیتی۔

طاقت اور سرمائے کا موجودہ عالمی نظام صرف تجربے اور مشاہدے سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی ساخت اور فعلیت کی بنیادی ترین نسبتیں حس اور مشاہدے سے بہت آگے کی چیز ہیں، اور مکمل طور پر نظری ہیں اور عقلی علوم اور فکری تجزیے کا موضوع ہیں۔ کرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال کو توہم پرستی، نظریۂ سازش، ایمانی فرجامیات، واعظانہ حالتِ انکار یا غلامانہ ریس سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہاں، ان سے دل کی تسلی مقصود ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ موجودہ کرونائی لمحے کو تازیانہ بنا کر عالمی ریاست تاریخ کو جس سمت میں ہانک رہی ہے، اس کو تجزیے اور عقلی علوم کے ذریعے سمجھنا مشکل نہیں ہے، لیکن یہ شاید ہماری ترجیح نہیں ہے۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

اس میں کچھ شک نہیں کہ موجودہ صورتِ حال تاریخ میں کوئی نظیر نہیں رکھتی اور اس کی تفہیم میں چند در چند مشکلات یقیناً حائل ہیں، لیکن خود ان تفہیمی مشکلات کو بھی عقلی تجزیے کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

حال ہی میں امریکی سیاست کے پیرِ تسمہ پا ہنری کسنجر نے کرونائی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی ممکنہ سیاسی اور سکیورٹی صورت حال پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس موقع پر کسنجرکے بارے میں اقبال احمد کی رائے[2] کو دیکھ لینا محترم قاری کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ کسنجر نے وال اسٹریٹ جرنل میں تین اپریل کو شایع ہونے والے اپنے مختصر مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کرونا ایک وبا سے کہیں بڑھ کر ایک معاشی، سیاسی اور سکیورٹی مسئلہ بن چکا ہے، ایک ایسا مسئلہ جو عالمی نظام ہی کو تہہ و بالا کر دے گا۔ ان کے خیال میں کرونا سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل میں ناکامی دنیا کو چتا میں بدل دے گی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ چتا کیسے بھڑکائی گئی ہے اور کون اس میں بھسم ہونے کو ہے۔ مضمون کی مجموعی فضا وہی ہے جو عموماً اس وقت دیکھنے میں آتی ہے کہ جب لوگ یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ”عید آئے گی تو وہ کیا کریں گے“۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی ریاست کو تاریخ کے کرونائی لمحے کا انتظار تھا۔  

کسنجر کے مضمون میں اہم بات یہ ہے کہ وہ صرف امریکہ سے مخاطب ہیں۔ گویا کرونا سے ایک مطلوبہ موقع حاصل ہو گیا ہے کہ امریکہ اپنی ترجیحات پر ورلڈ آرڈر کو ازسرنو کیسے منظم کر سکتا ہے۔ کسنجر نے ورلڈ آرڈو کی تنظیم نو میں امریکی تہذیبی اور سیاسی تناظر بعینہٖ رکھنے اور اسے مزید مضبوط بنانے پر بہت زور دیا ہے۔ موجودہ دنیا میں ”ورلڈ آرڈر“ کی کوئی گفتگو چین اور روس کا نام لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی، اور کسنجر نے ان کا نام تک لینا ضروری نہیں سمجھا۔ انہوں نے امریکہ کو تین نصیحتیں کی ہیں۔ ایک یہ کہ طبی سائنس کو، جو مشینی ذہانت سے بروئے کار لائی گئی شماریاتی اور ٹیکنیکل تشخیص کا کرشمہ ہے، نئی فنی بنیادیں فراہم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے جدید طب کی سائنسی اور نظری بنیادوں کی کوئی بات نہیں کی کیونکہ وہ کبھی بھی موجود نہیں رہی ہیں اور ان پر گفتگو کارپوریٹ قوتوں کے لیے تشویشناک ہو سکتی ہے۔ دوم یہ کہ وبا نے انسانوں کی طرح معاشی نظام کو بھی گھائل کیا ہے، اور امریکی قیادت کو مارشل پلان کی طرز پر اس کے اندمال کی نصیحت کی ہے۔ دنیا کی مخدوش آبادیوں میں لازمی ظاہر ہونے والے انتشار اور نراج کے اثرات کو کم کرنا بھی ان کے خیال میں ضروری ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کہ معاشی نظام کے گھاؤ صرف وبا سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ معاشی نظام کی بندش تو ایک سیاسی اور انتظامی فیصلہ ہی تھا اور عالمگیر سطح پر اس کو ممکن بنانے کے وسائل بھی صرف عالمی ریاست ہی کے پاس ہیں۔ بندش سے انسانی معاشروں کو ہونے والے نقصانات جنگ کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

ہنری کسنجر کی تیسری نصیحت بہت اہم، توجہ طلب اور معنی خیز ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ ورلڈ آرڈر لبرل بنیادوں پر کھڑا ہے، اور کرونائی لمحے نے اس کے لیے نئے خطرات اور سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ لبرل اصول نہ صرف عالمی نظام کی بنیاد ہیں بلکہ جدید مغربی ریاستوں کی بنیاد بھی انہی اصولوں پر اٹھائی گئی ہے۔ وہ اس امر پر اصرار کرتے ہیں کہ عالمی نظام کی بنیادوں میں کارفرما ان ”اصولوں“ کا تحفظ ضروری ہے۔ ان اصولوں کا تحفظ وعظ و نصیحت سے نہیں بلکہ مکمل فوجی قوت سے کیا جائے گا اور ان کے خیال میں عسکری قوت کا استعمال ہی مغرب کے لبرل اصولوں کے تحفظ کی واحد ضمانت ہے۔ 

ہنری کسنجر مغربی جمہوریتوں اور عالمی نظام کی بنیادوں کو بیک وقت  ”اصول“ (principles)، ”بنیادی اسطورہ“ (founding               legend)، ایک فلسفیانہ ”تصور“ (concept) اور تنویری ”قدر“ (value) قرار دیتے ہیں۔ وہ چونکہ زور والے ہیں اس لیے ان کی ہفوات بھی علم کے زمرے ہی میں شمار کی جائیں گی۔ ان کی نصیحت یہ ہے کہ ”تنویری اقدار“ کی حفاظت لبرل جمہوریتوں کی اول ذمہ داری ہے، اور اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ اسے صرف عسکری ذرائع اور وسائل سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ پس منظر کرونا کی وبا ہے، اور تیاری مکمل جنگ کی ہے۔ عالمی بندش، اقوام متحدہ کی گماشتہ تنظیموں کے تجزیے اور ہدایت نامے، سائنسی علم کی دیوثی، اور سماجی علوم کی کاسہ لیسی سب اسی جنگ کا ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ چین کے خلاف ایک عالمی کیس بنایا جا رہا ہے اور بھوک اور وبا کے خوف سے کمزور اقوام کی لام بندی بھی بہت شدومد سے جاری ہے۔

تنویری اقدار کے تناظر میں، ہنری کسنجر نے ”شہر بافصیل“ کی تمثیل استعمال کرتے ہوئے نہایت خوفناک امکانات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید ریاست ایک فصیل کردہ شہر کی مانند ہے، شہر پناہ سے باہر کی دنیا دشمن ہے، اور ’راجہ‘ کا بنیادی مقصد فصیل کردہ شہر یعنی جدید ریاست کو اس دشمن دنیا سے محفوظ رکھنا ہے۔ شہر اور شہرپناہ یعنی جدید ریاست کا جواز یہ ہے کہ اس کا ’راجہ‘ اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات یعنی تحفظ، نظم و ضبط، معاشی خوشحالی اور عدل کو یقینی بنائے۔ وبائے کرونا نے اس فصیل کردہ شہر یعنی جدید ریاست کی ازسرنو بحالی کا تقاضا جو بالکل مندرس (anachronistic) ہے ایک بار پھر سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یعنی فصیل شہر سے باہر کے دشمن کو پیچھے دھکیلنے، اسے اپنی جگہ پر رکھنے اور اپنے گھر کو ناقابل تسخیر بنانے کی ضرورت ازسرنو پیدا ہو گئی ہے۔ ہنری کسنجر فرما رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں مغرب اور عالمی ریاست کا بنیادی فریضہ اس مندرس تصور کو عسکری قوت سے فعال بنانا ہے، اور اس ایجنڈے کو بروئے کار لاتے ہوئے طاقت اور جواز میں توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، یعنی فوجی کارروائی میں تنویری اقدار کے جھنڈے کو ہر حال میں سربلند رکھنا ہے تاکہ تہذیب کا التباس باقی رکھا جا سکے۔

کسنجر کے مختصر تجزیے اور نصیحت میں یہ امر مکمل نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ مغرب میں جدید ریاست کے ظہور کے بعد سے شہر پناہ سے باہر کی ’دشمن‘ دنیا نے کبھی اس پر کوئی حملہ نہیں کیا اور نہ اس کے لیے کبھی خطرے کا باعث بنی ہے جبکہ مغرب اور اس کی پیدا کردہ جدید ریاست اس دنیا کو گزشتہ تین سو سال سے تاراج کرتی چلی آتی ہے۔ اب مغرب کی لوٹ مار میں چونکہ چند در چند مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اس لیے مغرب اور عالمی ریاست نے کرونائی لمحے میں دنیا کے معاشی نظام کی بندش سے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا مغرب اور عالمی ریاست کرونائی لمحے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مزعومہ مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو سکے گی یا نہیں۔  کسنجر اس امر پر خاموش ہیں کہ جنگ عظیم دوم تک سرزمین یورپ انسان کے لہو سے جو لالہ زار رہی ہے اور اس میں جو علم لہرایا گیا وہ انہی تنویری اقدار ہی کا تھا۔ ہنری کسنجر کو شاید اس بات کا یقین ہے کہ اب تنویری اقدار کے جھنڈے تلے واقع ہونے والے فوجی اور سکیورٹی عمل سے جو خون بہے گا وہ مغرب کی شہر پناہ سے باہر دشمن سرزمینوں میں ہو گا اس لیے اہل یورپ کو مطمئن ہو کر ان کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔

حواشی (از مدیر)

[1] ہنری کسنجر کے مضمون کا لنک تو ہائپر لنک کر دیا گیا ہے مگر وال اسٹریٹ جرنل کی ویب سائٹ سے اسے مکمل پڑھنے کے لیے اکاؤنٹ درکار ہو گا لہذا جوہر صاحب کے اسی مضمون کے نیچے فیس بک پلگ-ان کے ذریعے ہونے والے تبصروں کے طور پہ کسنجر کا مضمون فراہم کر دیا گیا۔ آپ یہ مضمون نیچے اسکرول کر کے پڑھ سکتے ہیں۔

[2] اقبال احمد معروف پاکستانی ایکٹیوسٹ اور بائیں بازو کے مفکر تھے۔ وہ ویت نام جنگ کے تناظر میں ہنری کسنجر کو جنگی مجرم (war               criminal) سمجھتے تھے اور اس پر انھوں نے کافی کچھ لکھا (document) بھی تھا، انھی بنیادوں پہ وہ امریکی لیگل سسٹم سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور انھوں نے کسنجر کے خلاف قانونی چارہ گوئی بھی کی تھی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال احمد ان آٹھ ملزموں میں شامل تھے جن پر1970ء میں اس بنیاد پر مقدمہ چلایا گیا تھا کہ انھوں نے ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اقبال احمد اس مقدمے کے نتیجے میں گرفتار بھی ہوئے اور جیل میں بھی رہے۔ اس مقدمے میں کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search