خود کلامی راہ کی دیوار ہے ۔ زاہد نبی
خود کلامی راہ کی دیوار ہے
گفتگو جو تجھ سے ہے، بیکار ہے
تو بھی اس شدت سے چاہا کر مجھے
جس قدر شدت تجھے درکار ہے
خاک میں مل کر بنفشی ہوچکا
جس لہو سے سرخیٔ اخبار ہے
عشق میں، میں عین ہوکر شق ہوا
یار یہ دنیا بہت عیار ہے
سب سمجھتا ہوں اشارے آنکھ کے
اب تمہاری گفتگو درکار ہے
کھینچتا ہے کوئی اندر سے مجھے
سامنے تو ریت کی دیوار ہے
جاگتا ہوں میں حفاظت کے لیے
آنکھ میں اک خواب سابیدار ہے
Recommended Posts