وصولی (کہانی کار: راحیل احمد)
عامر روز دفتر جاتا ہے۔ڈریس پینٹ اور شرٹ مع ٹائی کے۔ایک جیسے کپڑے، ایک جیسے چہرے۔ وہ یہ سوچتا ہے اور سڑک کنارے دفتری گاڑی کا انتظار کرتا ہے۔ ’’ایک جیسے کپڑے ایک جیسے چہرے‘‘، یہ بات وہ روز سوچتا ہے جب وہ گاڑی کا انتظار کرتا ہے۔لیکن صرف سوچتا ہی ہے۔کبھی زبان پہ نہیں لاتا۔وہ یہ بات بھی سوچتا ہے کہ وہ بس سوچتا ہی کیوں ہے کبھی اس سوچے کو کہتا کیوں نہیں۔ یہ آخری بات البتہ وہ ہر چوتھے پانچویں روز ہی سوچتا ہے کہ وہ سوچتا ہی کیوں ہے کہتا کیوں نہیں!دفتری گاڑی مقررہ وقت پہ روز آتی ہے۔ڈرائیور ہیلو سر کہہ کر دروازہ کھولتا ہے۔تین چار لوگ پہلے سے بیٹھے اونگھ رہے ہوتے ہیں ۔اگلے موڑ پہ ایک اور ملازم بیٹھتا ہے۔وہ بھی سلام کر کے بیٹھ جاتا ہے۔عامر کبھی کبھار یہ سوچ کر اندر ہی اندر پھڑک اٹھتا ہے کہ ایک دن جب وہ سب سوچی ہوئی باتیں کہہ دے گا تو وہ کیسا معرکہ والا دن ہو گا۔ ’معرکہ والا دن‘ اسکی اپنی ایجاد کردہ اصطلاح ہے جسکے معانی اس پہ مکمل واضح نہیں ہیں۔جس پہ اس نے کبھی دھیان نہیں دیا۔زیادہ سے زیادہ یہ کہ کبھی جب یہ معرکہ لڑوں گا تو ہی واضح ہونگے۔البتہ وہ اس اصطلاح کو بہت عزیز جانتاہے۔چند میل پہ گاڑی رکتی ہے ایک اور بندہ بیٹھتاہے۔یہ آدمی کبھی بھی ایک مخصوص نشست پہ نہیں بیٹھتا۔یہ بات عامر کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔عامر اِس دن کا اندراج کرتا ہے۔اس آدمی کی تمام نامعقول حرکتیں روز درج ہوتی ہیں۔مثلا نامعقول قابلِ اندراج حرکت نمبرایک:- ’اپنی کل والی نشست پہ نہیں بیٹھا‘، حرکت نمبر دو:- ’جان بوجھ کر کھڑکی کی جانب بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کرے گا۔جوتے خراب کرے گا‘، حرکت نمبرتین:- ’منہ سے سلام کہہ دیا بس کافی ہے۔لیکن نہیں!اس آدمی کو سب سے ہاتھ بھی ملانا ہے۔اس چکر میں یہ دو آمنے سامنے والی نشستوں کے درمیان کھڑے ہو کر پیچھے والی سواریوں سے ہاتھ ملاتا ہے اور بال بھی خراب کرتا ہے۔بیلٹ کو ٹھیک سے باندھتا بھی نہیں ہے۔ آگے پیچھے ہاتھ ملانے کے چکر میں کسی کے منہ سے تشریف مل جائے تو اسے پرواہ نہیں!‘۔ یہ باتیں ایک آدھ فرق کیساتھ ہر روز درج ہوتی جاتی ہیں۔ کبھی ہفتے دس دن بعد ان میں نامعقول حرکت نمبر چار اور پانچ کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔مثلاً نامعقول قابلِ اندراج حرکت نمبر چار:- ’آج پھر وہی بیہودہ خوشبو لگا آیا ہے‘۔ عامر کو اس عجیب و غریب خوشبو سے عجیب و غریب قسم کا احساس ہوتا ہے ۔جیسے وہ کھلی جگہ بیٹھا ہے اور اچانک ایک شیشہ اس پہ اتر آیا ہے؛ جسکی لمبائی چوڑائی اسکے مناسب حال ہے۔وہ جدھر کو جاتا ہے یہ چوکور ڈبہ ساتھ چلتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ عامر شیشے کے چوکور ڈبے کے اندر چلتا پھرتا ہے۔بیٹھے بیٹھے اچانک حبس کا احساس ۔دماغ کو قید کا احساس ہوتا ہے۔ ’کتنی بار کہہ چکا ہوں۔اثر ہی نہیں!‘۔ نامعقول قابلِ اندراج حرکت نمبر پانچ:- ’آج کیسے پھر مسکرا مسکرا کر دیکھ رہا ہے‘۔ کم بخت کو دوسروں کا احساس ہی نہیں۔اسے معلوم ہی نہیں کہ جب یہ ہنستا ہے تو اسکا منہ کتنا زیادہ کھلتا ہے اور اسکے گال اندر سے نظر آتے ہیں۔جیسے لال لال گوشت کی بوٹی جِسے تیل سے لتھیڑا گیا ہو!عامر اسے چوڑی ہنسی والا اور لال بوٹی والا کے نام سے جانتا ہے۔جبکہ کھاتہ رجسٹر پہ اسکا نام ’’لال بوٹی‘‘ درج ہے۔یہ باتیں روز درج ہوتی ہیں۔عامر کو دبی دبی خوشی بھی ہوتی ہے جو دبی دبی مسکراہٹ کی صورت کبھی واضح بھی ہو جاتی ہے۔لیکن وہ مہارت سے چھپا جاتا ہے۔ ’معرکہ والا دن‘ آنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے۔لیکن عامر ناامید نہیں ہے۔اِس نے باقاعدہ دفتر کھول رکھا ہے جس میں کھاتوں کے انبار لگے ہیں۔رشیدہ کا کھاتا۔ابا کا کھاتا ۔لال بوٹی کا کھاتہ۔بلال صاحب کا کھاتہ: بلال صاحب گنجا اور گول شکل کا داڑھی مونچھوں کے بغیر آدمی ہے اور گول ہی عینک لگاتا ہے۔بلال صاحب دفتر سے کبھی کبھی کئی کئی رِم غائب کر جاتاہے۔عامر ایسی کوئی بات بھولتا نہیں ہے باقاعدہ اندراج کرتا ہے۔رشیدہ کے کھاتہ رجسٹر کا نام ’’رشیدہ کھاتہ ‘‘ ہے۔ دراصل رشیدہ ہی کھاتے دفتر کے قیام کا محرک بنی تھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر عامر نے پوری ایک دیوار گیر الماری ’’دیوارِرشیدہ ‘‘ کے نام سے بنا رکھی ہے۔۔۔رشیدہ کے نام چون رجسٹر بھر چکے ہیں۔ ’ابھی بہت جگہ باقی ہے‘ اکثر وہ پاس لیٹی رشیدہ کو دیکھ کرسوچتا ہے اور دبا دبا جوش دبی دبی مسکراہٹ لاتا ہے۔یہ مسکراہٹ دراصل چور مسکراہٹ ہے۔جو اصلی والی زہریلی مسکراہٹ کو دبانےکے کام آتی ہے۔اس سے سب زہر اندر رہتا ہے اور راز فاش نہیں ہوتے۔عامر ایک سچا عاشق ہے۔اگرچہ اِس نے کبھی اُسے بتایا نہیں حلانکہ وہ لڑکی اس سے ایک ڈیسک آگے بیٹھتی تھی، لیکن وہ اِس بات پہ کامل یقین رکھتا ہے کہ وہ سچا عاشق ہے۔اسکول کے زمانے کا عشق بھی اس میں دبا دبا جوش دلاتا تھاسرشار کرتا تھا۔لیکن چونکہ تب وہ ’’اندراج ‘‘ نہیں کرتا تھا اس لیے اسے زیادہ باتیں یاد نہیں رہیں۔یعنی یہ بات بھول چکاہے کہ اُس نے اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا کر اُسے بادام والی چاکلیٹ لا کر دی تھی۔وہ جانتا تھا کہ وہ سکول سب سے پہلے آتی ہے اس لیے وہ بھی سب سے پہلے پہنچ گیا اور چاکلیٹ اسے دی۔ ’’یہ لو ‘‘ دس دس کے چار نوٹ تھے۔ ’’نہیں نہیں ‘‘ اُس نے مشکل سے کہا تھا۔ ’’کیوں؟ ‘‘ عامر کا حلق خشک ہونے لگا۔کیا کہے۔کیسے کہے! ’’اچھا دے دو ‘‘ اور کسی روز عامر کی اماں نے اسے رشیدہ کی تصویر دکھائی تھی تو اس نے اماں کو بھی نہیں بتایا تھا۔چونکہ رشیدہ رجسٹر خانے۔کھاتہ دفتر۔اندراجی دفتر وغیرہ وغیرہ کا اصل محرک تھی اس لیے سب سے پہلے اسی کا رجسٹر پُر ہوتا ہے۔ایک رجسٹر میں دو سو صفحات ہیں اور ہر سطر کو دو جملے بھرتے ہیں۔اس حساب سے ایک رجسٹر میں آٹھ ہزار کم و بیش جملے سما جاتے ہیں۔وقت جلدی کٹنے والی چیز نہیں ہے۔[وقت=چیز؟!] لیکن عامر اس اعداد و شمار میں اچھا وقت کاٹ لیتا ہے۔ اسی کارن حاضر دماغ ہے اور اچھے کلرک والی خوبی اس میں بھر گئی ہے۔اس نے کبھی کسی کام میں کوئی گڑبڑ نہیں کی۔گو اسکے ساتھی کلرک کبھی کبھار تاریخ وغیرہ کے اندراج میں لڑھک جاتے ہیں۔دفتر کا سویپر جھوم جھوم کر آگے پیچھے لہک لہک کر سوتی دھاگوں سے بٹی رسی سے بنے صفائی کے آلے کو چار مرتبہ داہنے طرف اور تین مرتبہ بائیں طرف ٹائیلوں پہ گِھستا ہے تو عامر کو بہت اچھا لگتا ہے۔وہ اسکی باقاعدگی پہ حیران بھی ہوتا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے یہی سویپر یہاں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ان سالوں میں کبھی کبھی گھسائی میں سویپر غلطی بھی کر جاتا ہے۔ عامر کو بخوبی علم ہے کہ غلطی کسی پریشانی کی وجہ سے ہے ارادی یا آلکسی والی نہیں اوراُس دن اسکے چہرے پہ عامر پریشانی صاف پڑھ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ چھٹی ہونے پہ وہ ضرور اس سے اس پریشانی کی وجہ پوچھے گا جو اسکے چہرے پہ نظر آتی ہے۔لیکن ہمیشہ وہ چھٹی ہونے پہ خاموشی سے اسکے پاس سے گزر جاتا ہے، وجہ نہیں پوچھتا۔ لیکن اپنا اصل کام،جب سے اس نے شروع کیا ہے ،کبھی نہیں بھولا۔وہ ’’سویپر رجسٹر‘‘ میں اندراج ضرور کرتا ہے۔یہاں ایک الجھن ہو سکتی ہے کہ عامر ایک جیسی باتیں ہر روز درج کرتا ہے!عامر دراصل ایک بات کے آگے ’’جمع ایک‘‘ لکھ دیتا ہے۔پھر وہ پورے مہینے کے دنوں کے برابر تعداد سے ضرب دیکر اعداد و شمار حاصل کر لیتا ہے۔یعنی گول چہرے اور گول عینک والا باس بلال صاحب اگر دن میں دو مرتبہ ’اندراجی حرکات‘ کرتا ہے تو تیس سے ضرب دیکر ساٹھ اندراجیاں عامر کے پاس موجود رجسٹر میں درج ہو جاتی ہیں۔گریجویشن کے بعد اسے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی تھی۔کلرک کی نوکری اب بھی اسکے مناسب حال ہے۔رشیدہ اس نوکری پہ بات کرنے کی بہت شائق رہتی ہے، خاص طور پہ جب دونوں کھانا کھارہے ہوں۔ ’’تم کوئی اور نوکری تلاش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ ،’’سرکاری نوکری سے اچھی کوئی نوکری ہے؟‘‘، ’’آگے پڑھائی کر کے تم اوپر جا سکتے ہو‘‘، ’’اب کروں؟اس عمر میں!میرے پاس وقت نہیں‘‘ ،’’ وقت نکالنا پڑے گا‘‘، ’’ اچھا دیکھونگا‘‘ ۔ ’اچھا دیکھونگا‘ کا مطلب اب اس موضوع پہ بات ختم ہو گئی ہے اور اگلے موضوع پر بھی ایسے مختصر مختصر جملے بول کر بات سمیٹی جائے گی۔ ’’مجھے جانا ہے امی کے ہاں ‘‘ ، ’’اچھا۔کب؟ ‘‘ ، ’’آج ‘‘ ، ’’ ٹھیک ہے چلی جانا ‘‘ ، ’’ بھائی کی شادی کی سالگرہ ہے ‘‘ ، ’’میں جلدی نہیں آ سکتا۔مجھے جانا بھی نہیں ‘‘ ، ’’ میں اکیلی نہیں جاؤنگی۔تم جاؤ گے! ‘‘ ، ’’ اچھا تین بجے تیار رہنا آؤنگا ‘‘ ۔عامر اندراج کرتا ہے: ’مجھے یہ آدمی پسند نہیں۔جانتی بھی ہے لیکن کسے پرواہ ہے‘۔ رشیدہ بھائی کی شادی کی سالگرہ نظر انداز کرجانا یاد کرتی ہے: ’اس آدمی کا یوں کرنا زہر لگتاہے مجھے۔ہر بار ۔۔۔۔ہر بار اسے یوں ہی میرے بھائیوں کو امی کو ابو کو نظر انداز کرنا اچھا لگتا ہے،اسکے اپنے ماں باپ بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہیں۔لیکن نہیں!وہ ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں!‘
وہ ہاتھ میں پکڑے کپڑے زور سے پٹختی ہے اور کہتی ہے:
’’ سیدھے منہ بات کرنا سکھایا ہی نہیں اسکی ماں نے۔جائے جہنم میں۔اگر وقت پہ نہ آیا تو اکیلی ہی چلی جاؤنگی۔جب بھی کچھ بولتی ہوں گونگا بن جاتاہے۔۔۔ گونگا ۔گونگا گونگا ‘‘ ۔ ’’ منیر کے سکول میٹنگ ہے۔ والدین کو بھی بلایا ہے ‘‘ ، ’’ ہاں چلی جانا ۔تم جانتی ہو مجھے چھٹی نہیں ملے گی ‘‘ ، ’’ ہر بار نہیں ملتی؟ہم دونوں جا رہے ہیں! ‘‘ ، ’’ میں دو ہفتوں میں تین چھٹیاں کر چکا ہوں ‘‘ ، ’’ ہاں اپنے دوست سرفراز کی شادی پہ!!! ‘‘۔ کھانا ختم ہو چکا تھا وہ خاموشی سے اٹھ گیا۔اس خاموشی کے طفیل اسے بڑا دفتر عنایت ہوا تھا۔ دفتر میں بہت سے کھاتے ہیں۔ دروازے کے بالکل سامنے ’’دیوارِ رشیدہ ‘‘ ہے۔ پورے چون رجسٹر رشیدہ کے نام ہیں۔ایک شیلف اسکے سسرال کا بھی ہے۔اس میں آٹھ رجسٹر پُر ہو چکے ہیں۔ایک ’’والد رجسٹر ‘‘ بھی ہے۔یہ بہت کڑوا ہے۔اسے کم ہی کھولنا پڑتا ہے لیکن جب کھلتا ہے باتیں یاد آتی ہیں اور مسلسل آتی ہیں ۔بتدریج آتی ہیں، پے در پے آتی ہیں۔۔۔ اور اکثر کھانے کے دوران آتی ہیں پھر ہر لقمے پہ بتدریج نمک بڑھتا جاتا ہے بڑھتا جاتا ہے۔عامر کا رجسٹر خانے میں اچھا وقت گزرتا ہے۔سرہانے رکھے لیمپ کی پیلی روشنی جب دیوار پہ پڑتی ہے تو یوں مہارت سے بنایا گیا پنسل سکیچ لگتا ہے جِسے نیچے سے اوپر کو کالا رنگ پھیرتے ہوئے بتدریج ہلکا کیا جائے۔اس روشنی پہ نظر پڑتے ہی ذہن تیز ہو جاتا ہے ۔دیوار پہ لفظ بنتے بگڑتے ہیں اور وہ انکو ترتیب لگاتا جاتا ہے اور ’’اندراجیاں‘‘ کرتا جاتا ہے۔روز درجنوں اندراجیاں ہوتی ہیں۔ہر روز وہ رشیدہ کی طرف دبی دبی دراصل کڑوی مسکراہٹ سے دیکھتا ہے اور ہر روز سوچتا ہے کہ اسکا کھاتہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن اس عورت کو پرواہ نہیں ہے!وقت کھاتہ دفتر میں کٹتا رہا ’’ اندراجیاں ‘‘ ہوتی رہیں اور رجسٹر بھرتے رہے۔اس دوران ایک دہائی گزر گئی ہے اور دو ترقیاں بھی لگ گئی ہیں۔عمر اب ساڑھے چار دہائیاں ہے۔ البتہ بال کہیں کہیں سے ہی سفید ہوئے ہیں۔اب عامر کو تھوڑی بے چینی ہونے لگ گئی ہے۔اسے انتظار ہے کہ اب بس ’’ معرکہ والا دن آئے ‘‘ اور وہ اپنا ’’ فرض ‘‘ پورا کرےاور ہلکا ہو۔اب مزید اندراجیاں کرنا تھوڑا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔دفتر رجسٹروں سے اَٹ گیا ہے اور کہیں کہیں ’’ اندراجیاں ‘‘ گڑبڑ بھی ہو جاتی ہیں۔اسے حساب رکھنے میں ذرا سی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عامر اب ڈرنے لگا ہے کہ عمر بھر کی ’’ کمائی ‘‘ اب خرچ ہونا چاہتی ہے، ’’ معرکہ والا دن ‘‘ کی صورت وہ ’’ کمائی ‘‘ کے بدلے وصولی چاہتا ہے۔یہ سوچ کر کہ جب مزید ’’ اندراجیوں ‘‘ کی گنجائش نہ رہی اور ’’ معرکہ والا دن ‘‘ بھی نہ آیا تواس حال کیا صورت بنے گی؟یہ سوچ آتے ہی اسکا من وہیں ڈھیر ہو جانے کو چاہتا ہے۔وہ چاہتا ہے گم ہو جائے۔رانوں کے درمیان ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا سکول ماسٹر سر واجد کے ڈنڈے پڑتے دیکھ کر ہوتا تھا کہ اب میری باری ہے اور ابھی پیشاب خطا ہو جائے گا۔اب وہ انتظار کر رہا ہے کہ اب کی بار گول چہرے اور گول عینک والے بغیر داڑھی مونچھوں کے بلال صاحب ویسا رویہ اختیار کریں جیسا انہوں نے پچھلی بار اختیار کیا تھا۔۔۔ خدا کی قسم وہ جھٹکا دیکر اٹھے گا اور کرسی کو داہنے پاؤں کی الٹی ٹھوکر سے ہٹائے گا۔کروفر سے گول چہرے کے پاس جائے گا اور وہ مسکراہٹ جو چور ہے اسے ننگا کر کے اصلی صورت میں چہرے پہ طاری کرے گا اور گھونسا جو اس نے اٹھنے سے بھی قبل کرسی کو داہنے پاؤں کی الٹی ٹھوکر لگانے سے بھی قبل اور چور مسکراہٹ چہرے پہ لانے سے بھی قبل ،گول چہرے کے منہ سے بہنے والے مکروہ الفاظ کے سنتے ہی طاقت سے بنایا تھا گول چہرے کے جبڑے پہ جڑے گا، ایسا جڑے گا …..ایسا جڑے گا کہ عینک دور گرے گی اور جبڑا ،جبڑا نہیں رہے گاپلپلا گوشت بن جائے گا۔لیکن اس سے بھی قبل یعنی گھونسا جڑنے سے بھی قبل وہ ساری گالیاں ایک ایک کر کے منہ کو بھر بھر کے اور جبڑے کس کے ہمت شکن لہجے میں اگلے گا خصوصاً وہ گالیاں جن میں حرف ’’ د ‘‘ کوبنیادی جگہ دی گئی ہو گی۔ عامر گول چہرے سے اچھی طرح واقف ہے کہ وہ اپنا پیشاب خطا کر دے گا۔اس کے گمان میں بھی نہیں ہو گا جو اسکے ساتھ ہو گا۔پہلے اسے حیرانی ہو گی کہ عامر کیسے اپنی نشست سے اٹھا ہے۔پھر وہ لکڑی کی کرسی کو دور گرتا دیکھے گا ابھی دیکھ ہی رہا ہو گا کہ میں اسکے سر پہ پہنچ چکا ہونگا!اُسے ایک ہی گھونسے پہ اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ اس سے زیادہ کا موقع نہیں مل سکے گا۔عملہ اسے قابو کر لے گا اور وہ بے بس ہو جائے گا۔لیکن یہ سب ، گول چہرے کے پچھلی بار کی طرح مخاطب کرنے سے بھی قبل اور دفتر آنے سے بھی قبل یعنی گھر سے نکلنے کے بعد اور گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ ’’معرکہ والا دن‘‘ کی شروعات کر کے پہلی ’’وصولی وصولے‘‘ گا۔ وہ ڈرائیور کو اسکی اوقات یاد دلائے گا۔ جب وہ میرے سر پہ پہنچ کے بریک لگائے گا تو میں ہمیشہ کی طرح اسکا ’ہیلو سر‘ نظر انداز کرونگا۔پھر میں بیٹھنے کے بجائے اسکی ڈرائیونگ نشست کی کھڑکی کی طرف آؤنگا وہ احمقانہ حیرت سے جلدی جلدی شیشہ نیچے کرے گا اور میں کہوں گا ’’بات سنو‘‘، وہ جب تھوڑا سا آگے کو سر لائے گا میں اسکا سر زور سے اس جگہ ٹکراؤنگا جہاں سے شیشہ باہر آتا ہے اور اوپر جا ملتا ہےاسکا چہرہ لہو لہو ہو جائے گا۔یہ پہلی وصولی کی طرف پہلا عملی قدم ہو گا۔وہ باہر نکلے گا میں اسکی رانوں میں گھٹنا رسید کرونگا۔برباد کر دونگا۔حرامزادہ ہمیشہ سر پہ چڑھ کر بریک لگاتا ہے۔اسے معلوم ہونا چاہیے میں اسکی اس رزیل حرکت سے دل کا مریض ہو گیا ہوں۔میرا مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔جیسے ہی گاڑی مجھے دور سے نظر آنا شرع ہوتی ہے دل کانپنا شروع ہو جاتا ہے ویسی ہی لہر اٹھتی ہے جیسی سر واجد کا ڈنڈا دیکھ کر اٹھتی ہے۔ایک بار جب وہ لڑکے کو پیٹ رہے تھے ۔اسکی ایک بازو کو پکڑ رکھا تھا اور پائپ چوتڑوں پہ لگاتے جاتے تھے، لگاتے جاتے تھے، لگاتے جاتے تھے۔ جیسے جیسے زوں زوں کی تیز آتی تھی ویسے ویسے میرا دل کانپتا تھا ایک ٹھنڈی لہر جو نہ جانے کہاں ابھرتی تھی اورگھوم گھما کر ہتھیلیوں کو ٹھنڈا کر جاتی تھی اور رانوں کے درمیاں سرسراہٹ سی ہوتی تھی اور لگتا تھا پیشاب خطا ہوا کہ ہوا لیکن کبھی ہوا نہیں۔مجھے وہ ڈر ہی نہیں بھولتا جب لڑکے کے چوتڑ ،چوتڑ نہیں رہے تھے لال نیلے اور کہیں کہیں سے پیلے،گائے کے بڑے سائز کے دو تین دن کے باسی پھیپھڑوں کی مانند جو گرمیوں کی دھوپ سے مات کھا گئے ہوں، جیسے ہو گئے تھے اُس لڑکے نے چھٹیوں کا کام نہیں کیا تھا، اسکی سزا زوں زوں کی آواز کرنے والے پائپ سے چوتڑوں کا چوتڑ نہ رہنا ملی تھی۔ایک تو مجھے وہ ڈر ہی نہیں بھولتا اور اوپر سے یہ روز میرے سر پہ پہنچ کے بریک لگاتا ہے اور ایسی مکروہ احمقانہ ہنسی ہنستا ہے جس سے مجھے نفرت ہے۔ ’’ معرکہ والا دن ‘‘ کب آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔عامر اس دن کے انتظار میں پگھلتا جا رہا ہے۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب مزید ’’ اندراجیاں ‘‘ ناممکن کی حد تک مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔سر واجد کی یاد دلاتی زوں زوں کی آواز سے پیدا ہونے والی سرسراہٹ اب اکثر محسوس ہونے لگی ہے جب جب مزید ’’ اندراجیوں ‘‘ کا ناممکن العمل ہونا واضح ہوتا جا رہا ہے، سرسراہٹوں کا دورانیہ زیادہ اور وقفہ کم ہوتا جا رہا ہے۔البتہ اب سرسراہٹ کا گھر معلوم ہو گیا ہے ۔یہ کولہوں کے اوپر پہلے مہرے سے نکلتی ہے۔حسی طورپہ سرسراہٹ اور ذہنی طور پہ فنا ہو جانے ،زمین میں گم ہونے اور ہر شے کا عدم ہو جانے کی خواہش زور مارتی ہے۔ ’’ وہ دن اب تو آئے ہی آئے ‘‘ بے بسی سے بڑبڑانا اسے اچھا نہیں لگتا لیکن وہ بڑبڑاتا ہے، بڑبڑاتا جاتا ہے۔۔۔ اسی ایک جملے کی گردان کرتا جاتا ہے، کرتا جاتا ہے، کرتا جاتا ہے۔اب دفتر بھر گیا ہے ۔سب رجسٹر بھر گئے ہیں ۔رشیدہ نے دوسروں کے چھ رجسٹر ہڑپ کر لیے ہیں۔ ’’پورے ایک سو چھبیس رجسٹر کھا گئی ہے‘‘ اب دیوار پہ سادہ روشنی ہی سادہ روشنی ہے۔ لفظ اگنا بند ہو گئے ہیں۔ وہ رجسٹروں والے دفتر جاتا ہے۔ہر رجسٹر پہ دو ہونٹ نمودار ہوتے ہیں: ’’ وصولی ‘‘ اچانک ہونٹ نمودار ہو کر بولتے ہیں ’’ وصولی ‘‘ ۔رشیدہ کی زبان کی طرح اسکے رجسٹر بھی بولنے میں کم کمبخت نہیں ہیں۔ سرخ لپ اسٹک سمیت نمودار ہوتے ہیں ۔ چبا چبا کر بولتے ہیں ’’وصولی ‘‘۔ کچھ رجسٹر اب بھی خاموش ہی رہتے ہیں، مثلاً والد رجسٹر،یہ کبھی نہیں بولا۔آواز کچھ اس طرح سے آتی ہے کہ واؤ کو آرام سے ادا کر کے ص پہ تیزی آجاتی ہے اور سختی سے اسے ادا کیا جاتا ہے۔آواز ایسے ماحول میں پیدا ہوتی ہے جہاں آدھی رات گزر چکی ہے اور جھینگر خوب بول رہے ہیں۔اچانک آواز آتی ہے : ’’ وصولی ‘‘۔ جیسے کچی نیند میں سوئے آدمی کے کان کے پاس اچانک بولا جائے: ’’وصولی‘‘، ’’وصولی‘‘۔ سسرالی رجسٹر شروع کرتے ہیں:وصولی،وصولی! وصولی ! وصولی۔ساتھ ہی لال بوٹی بھی۔اس میں گول چہرہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔
’’وصولی! وصولی سب وصولی۔ دنیا کیا ہے وصولی ! تم وصولی میں وصولی۔کرو وصولی! کرتے کیوں نہیں؟ ’’ معرکہ والا دن ‘‘ کب آئے گا۔کب آئے گا کب آئے گا کب آئے گا ۔بھرو ، سارے رجسٹر بھر دو۔اب وصولی کرو ۔اب وصولی کرو ! اب وصولی کرو۔کرو نہیں تو ہم تمہیں کھا جائیں گے۔۔ کھا جائیں گے۔۔۔ کھا جائیں گے۔رجسٹر بنا دینگے، رجسٹر بنا دینگے! رجسٹر بنا دینگے۔ عامر یہیں آجائے گا تو بھی‘‘، ’’ ہاہاہاہاہاہا۔مرے ساتھ جگہ ہے‘‘۔ دیوارِ رشیدہ بولتی ہے ’’ دنیا میں جینا اجیرن اورحرام۔عذاب۔کیے رکھا یہاں بھی کرونگی ‘‘، ’’ اوئے عامر ! کرو وصولی۔سب کی جان چھوٹے۔ہمیں یہاں پہلے قید کیا وصولی کے نام پہ۔اور اب تمہارا ’معرکہ والا دن‘ کہیں کھو گیا ہے۔۔۔ کھو گیا ہے۔۔۔ کھو گیا ہے؟ کہاں کھویا ہے؟کہاں گیا ؟آتا کیوں نہیں ؟آتا نہیں تو جاؤ اسے ڈھونڈو جا کر۔ملنا چاہیے۔رشیدہ باجی دیکھو۔اب تم ہی بتاٶ کیسے آئے؟ یہاں دس بائی سترہ کے کمرے میں اتنے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے ۔اچھا ہوا رجسٹروں کی شکل میں ہیں ۔۔۔اصلی بن جائیں تو سانس نکلنا دوبھر ہو جائے‘‘۔ شادی کی سالگرہ والا رشیدہ کا بھائی بولتا ہے۔سب سے تیز آواز رشیدہ کی ہوتی ہے ۔اب جس وقت اور جس جگہ لفظ بنتے بگڑتے تھے اور وہ تیزی سے جملے بنا کر متعلقہ رجسٹر میں ٹھکانے لگاتا تھا وہاں اب عجیب شکلیں بننے لگی ہیں۔ایک رات کچی پکی نیند سویا ہوا عامر وصولیوں کی دہائی سنتا اچانک جاگ اٹھتا ہے۔پانی پیتا ہے اور ایک نظر رشیدہ پہ ڈالتا ہے۔مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔۔ایک غلطی اسکے حواس باختہ ہونے کی وجہ سے سرزد ہو گئی!مسکراہٹ اس بار دبی دبی نہیں چور مسکراہٹ بھی نہیں، اصلی والی زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔عامر نے سکون سے گلاس رکھا اور اٹھ کر رشیدہ کے پیٹ کے اِدھر اُدھر گھٹنوں کے بل ٹانگیں رکھ کر بیٹھ گیا۔ دو یا تین منٹ بیٹھا رہا۔۔ اچانک پیٹنا شروع کر دیا: ’’ وہ دن اب خود ہی آئے گا نا۔میں کیسے لاؤں؟کیسے لاؤں وہ ’’ معرکہ والا دن ‘‘ …………وارڈ میں ایک ہلکی سی ہلچل روز مچتی ہے۔راؤنڈ شروع ہونا ہے۔ڈاکٹر آئیں گے۔سب دیکھیں گے۔ساتھ جونیئر ڈاکٹر ہونگے۔خوبصورت اسٹوڈنٹ لڑکیاں ہونگی، اسٹوڈنٹ لڑکے ہونگے اس سے قبل عملہ لواحقین کو اجڈ لہجے میں باہر جانے کا حکم دیکر باہر نکال چکا ہو گا۔باہر جو کسی کو کُسکنے نہیں دیتے وہ یہاں سب سنیں گے اور چپ چاپ نکل جائیں گے۔تیس تیس سالہ نرسیں بیس سال بڑے چوکیدار کو ’اوئے۔تو۔چل۔آ۔لا۔نکل۔کر‘ جیسے الفاظ کی مدد سے کچھ لانے لیجانے۔پکڑانے۔نکالنے۔پکڑنے۔کرنے کا حکم دینگی۔ڈاکٹر داخل ہونگے اور رشیدہ پوچھے گی ’’ ڈاکٹر صاحب مجھے اچھی طرح سےنہیں بتایا گیا کہ انکو ہوا کیا ہے۔جس سے پوچھو وہ کہتا ہے سینئر ڈاکٹر بتائیں گے‘‘۔ ڈاکٹر اس دوران مریض کے قدموں کے پاس سے فائل اٹھا کر ایک صفحے پہ چند سیکنڈز تک رکتا ہے اور تیزی سے ورق الٹتا ہے۔رشیدہ اسکے لیے عدم کا درجہ رکھتی ہے۔جہاں کہیں کچھ لکھنا ہے وہ لکھتا ہے اور پیچھے دیکھے بغیر چند جملے اردو انگریزی کے ملے جُلے بولتا ہے جسے پیچھے والے فوراً لکھتے جاتے ہیں۔ اور فائل بند کر کے ایک شانِ بے نیازی سے ہاتھ کو یوں تھوڑا سا گھما کر پھینکتا ہے جیسے بچے چنگیر کو دور پھینکتے ہیں۔اب ڈاکٹر نے اپنا کام کر لیا ہے، رشیدہ عدم سے وجود میں آگئی ہے۔۔ ڈاکٹر کہتا ہے حلانکہ اس نے رشیدہ کی کوئی بات نہیں سنی لیکن وہ پھر بھی کہتا ہے۔ ’’ ہاں ہم لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ٹریٹمینٹ جاری ہے۔دوا وقت پہ دیں اور یہ کسی قسم کی الٹی سیدھی حرکت نہ کریں اس کا خاص خیال رکھیں، کوئی امپروومنٹ ہوتی ہے تو آپ کو پتا چل جائے گا ‘‘۔ رشیدہ نہال ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر نے نہ صرف اسکی طرف دیکھا بلکہ بات کا جواب ’’ بھی ‘‘ دیا۔اب رشیدہ ہر آنے جانے والے کو ڈاکٹر کے جملے دہرا کر سناتی ہے۔ سننے والے تسلی میں ہیں۔اور عامر کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔۔۔۔۔۔
اُس رات جب عامر نے کھڑکی سے چھلانگ لگائی تو اس سے قبل اس نے رشیدہ سے چھپا کر ایک لپ اسٹک اڑا لی تھی۔صبح فجر سے بھی پہلے صفائی کے عملہ کی ایک خاتون نے کھڑکی کے پاس سے جھاڑو پھیرا تو اسے لپ اسٹک کا خول ملا۔بری طرح برباد کیا ہوا۔انگلی مار مار کے نکالی ہوئی لپ اسٹک کا خالی کھوکھا۔اس نے حیرانی سے دیکھا اور پھینک دیا۔اسی وقت کھڑکی کے مضبوط ٹاہلی کے کھانچے پہ نظر پڑی۔وہاں بھی نشان تھے۔انگلیوں کے نشان۔پھر ادھر اُدھر دیکھا ۔سب جگہوں پہ نشان ۔عجیب الفاظ لکھے ہوئے:وصولی کھاتے اور لال بوٹی گول بوٹی، بغیر دیوار کےرشیدہ کی رانیں۔ رشیدہ کا نام پڑھ کر اس نے رشیدہ کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ سو رہی تھی اور بیڈ خالی تھا۔سب دروازے اندر سے بند تھے۔