فیضِ کتابی کی پراگندہ خیالی کا لفظی ظہور۔ کہانی کار: محمد اعزاز الحق کشمیر والے، راحیل احمد (ترتیب: سردار عماد رازق)

 In افسانہ
ذیل میں مرقوم کہانی [کہانی۔۔۔۔؟] بے سر و پا، مبنی بر ہذیان اور سراسر بے ڈھنگی ہے۔ لکھنا دردِ سر سہی لیکن پڑھنا دردِ دل ہے۔  میں—بطور اس کا پہلا [تاحال آخری بھی] قاری—یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر آپ تناظر کی ساختیات، متعلقات، مبادیات اور انسلاکات  سے تاحال بے خبر ہیں اور اس بے خبری پہ قانع ہیں تو یہ کہانی پڑھنے سے گریز کیجیے۔  مبادا یہ آپ کے ذہن کے زنگ لگے کواڑ کھولتے کھولتے انہیں اکھاڑ ہی نہ پھینکے اور حاصل” لاحاصل“! کہانی کا مرکزی — اور واحد ہونے کی حیثیت سے دائیں، بائیں، اوپر ، تلے بھی — کردار فرنود ہے۔ یہاں یہ وضاحت از حد ضروری ہے کہ یوں تو اس فرنود کا ’عالم‘ سے کوئی ربط نہیں ؛ لیکن اگر کوئی من چلا یہ لاحقہ لگانے کا شائق ہو تو :عاشقاں را پرسش نیست! کہانی تناظر کی بازیافت کی سعی ہے جس میں فرنود تناظر کی تلاش میں گھاٹ گھاٹ کا پینا پیتا جاتا اور اپنی تشنگی بڑھاتا جاتا ہے۔ آخرش یہ توضیح کرتا چلوں کہ یہاں الفاظ، تعبیرات، اصطلاحات، حتیٰ کہ کنایہ جات بھی اپنے روزمرہ کے تحت مستعمل نہیں بلکہ یہاں انہیں  خصوصی الٹائی  پیراہن پہنایا  گیا ہے۔   مزید آپ کو کہانی پڑھ کر معلوم ہو ہی جائے گی، میں آپ اور کہانی کاروں [اعزاز اور راحیل] کے درمیان مزید حائل نہیں ہوتا۔عماد۔

” احمد  اور احتشام میں  کون سی بات ہوئی ہو گی۔“ فرنود کچھ نہ سمجھنے کے اندازمیں خود کلامی کرتا ہے۔”احمد  نے احتشام سے بات کی ہو گی یا احتشام نے احمد سے“ اس کا ذہن  ماقبل سوال کو بھولتا ہوا ایک نیا سوال داغتا ہے۔ ”یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں نے کوئی آپسی بات نہ کی ہو بلکہ کسی تیسرے کی بات نقل  کی ہو۔“ سوچوں کا گرداب رفتار میں تیز اور حلقے میں تنگ ہو رہا ہے۔فرنود رہتی عمر اس مسئلے بارے علمی و تحقیقی مقالے لکھنے کی ٹھانتا ہے۔پہلے مقالے کا عنوان: ”احمد اور احتشام کی ان کہی جو بنی  میرے کباب کی ہڈی “  ۔  ذہنی سلسلہ کلام جاری رہتا ہے:”ہاں بالکل ۔ یہ تینوں ممکنات ہیں۔“” ’ہاں‘ اور ’بالکل‘ دونوں مل کر ایسا صوتی تاثر پیدا کرتے ہیں جیسے دماغ اندر ہی اندر پھرکیاں لے رہا ہو۔۔۔ بھلا یہ اثبات کا کونسا طریقہ ہے۔۔۔بھئی یا تو ’ہاں‘ کہو یا بولو ’بالکل‘۔۔۔دونوں کو جمع کر کے کونسا تیر چلانے کا منصوبہ ہے؟ “یہ سوچتے ہی  تیر چلنے کی آواز فرنود کے ذہن میں گونجتی ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس آواز کو لفظی جامہ کیسے پہنایا جاسکتا ہے! زوں زمم زاں۔۔۔۔ ساتھ ہی یہ سوچ اسے آ گھیرتی ہے   کہ اسے یہ حق کس نے دیا  کہ وہ آواز کو الفاظ میں قید کرے۔ ۔۔ یہ سوچ اسے سنپولیے کی طرح کھٹکتی ہے اور  جواب تلاشنے کی کوشش اسے یہاں وہاں  فکری ہچکولے دیتی ہے۔۔۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ یہ بالکل فضول بات ہے کہ شے کو لفظوں کا قیدی کیا جاسکتا ہے۔۔لفظ تو ہروقت پیداہوتے رہتے ہیں، چیزوں کو گھیرتے ہیں ؛ جبکہ چیزیں ٹھوس ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی: وہ اس نتیجہ پہ پہنچتا ہے کہ سب الفاظ بکواس ہیں، چیزیں ہی اصل ہیں۔۔۔۔اس سوچ کے ساتھ وہ  یکدم سہم  جاتا ہے کہ یہ تو مادیت پرستی ہے اور جدیدیت کا پائے چوبیں اسے گرفت میں لینے کو ہے۔۔اب  وہ  بیک وقت دو خیالی  سفینوں کا واحد ناخدا ہوتا ہے۔اب اسے کبھی ایک فکر پٹختی ہے تو گاہے دوسری پچھاڑتی ہے۔۔۔۔اس کا ذہن  کھٹکنے والے سنپولیے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ  کیا وجہ ہے کہ سنپولیا چھوٹا سا ہوتا ہے پھر بھی کھٹکنے لگتا ہے اور بھینس عقل سے بھی بڑی ہے پھر بھی کھٹک کر نہیں دیتی۔۔۔۔” بھلا زبان سے چھٹکارا کیونکر پایا جاسکتا ہے؛ زبان نے ہی تو چیزوں کو وجود دیا ہے۔“ سوچ دوبارہ الفاظ کی معنویت کا طواف شروع کرتی ہے۔ اگلا سوال وہ یہ سوچتا ہے کہ زبان پہلے ہے یا چیزیں پہلے ہیں۔۔۔۔ ” کہیں یہ بھی مغالطہ ہی تو نہیں کہ خود سے اشیاء کو ترتیب دے کر انکی ترجیح اور اولیت کا فیصلہ کیا جائے ؟“ خیال گنجلک ہوتا جاتا ہے۔ ۔”سنپولیے اور عقل سے بڑی  بھینس ۔ “ ذہن پھر پلٹتا ہے۔۔۔۔ وہ سخت ندامت اور خجالت محسوس کرتا ہے جب  وہ  محلے کے بزرگوں سے اس بات پہ مار کھاتاہے کہ بھوری بھینس کو بھورا کٹا ہی د ینا چاہییے۔۔۔ اسے کیا حق ہے کہ کالے کٹے کو جنم دے۔۔۔ اگلے ہی لمحے  اسے سہارا ملتا ہے:  ندامت اور خجالت کیا ہیں؟ محض انسانی پیدا کردہ اوہام۔۔۔وہ سینہ چوڑا کر کے چلنے لگتا ہے اور پھٹے گریبان سے اسکی پسلیاں مزید باہر جھانکنے لگتی ہیں مگر اسے انکی پروا نہیں۔   وہ تو اس تحقیق میں ہے کہ بھوری سے کالی کا سفر کیسے کیونکر اور کتنے وقت میں طے ہوتا ہے۔”کہیں یہ  بھی مغالطہ۔۔۔“ ”مغالطہ!“ اس کا ذہن اس لفظ پہ ٹھہرتا ہے۔ وہ مغالطے کی حرکیات پہ غور کرتا ہے کہ مغالطہ چیزوں کو غلط سمجھنے کا نام ہے یا غلطی کرنے کا؟پھر وہ لفظ”حرکیات“ سے سوچتا ہے کہ ہر خاص لفظ کے آخر میں ”یات“ کیوں آتا ہے؟سماجیات اخلاقیات فرنودیات اقبالیات ساختیات جدلیات حیاتیات مالیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا اگلا مقالہ ”یات“  کی حرکیات سے ہوگا جس کے لیے ایک صاحبِ طرح مقالہ نگار اسکی مدد کریں گے۔اس مسئلے کووہ آملے کے مربے اور قیمہ مٹر کھاکر حل کرتے ہیں۔  ۔پھر وہ سوچتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ”یات“ سے اس کے  ذہن میں اول تو سماجیات و اخلاقیات آئیں اور پھر فرنودیات  و اخلاقیات۔ وہ دو دو کے سیٹ بنا کر انکے باہمی تعلق پر غور کرنے لگتا ہے:سیٹ نمبر 1۔ سماجیات، اخلاقیات سیٹ نمبر 2۔ فرنودیات، اقبالیات سیٹ نمبر 3 سماجیات، اقبالیات سیٹ نمبر 4۔ اخلاقیات، فرنودیات وغیرہ وغیرہ۔ یکایک اسے خیال آتا ہے کہ صاحبِ طرح مقالہ نگار بھی تو آخر ایک نئی سیٹ تھیوری پر کام کر رہے ہیں۔
بھینس کے قضیے بارے بے پرواہی سے سوچنا اسے جو  خوشی اور سکون  دیتا ہے وہ غور کرتا ہے اس میں بڑی معنویت ہے، اسے کھولنا چاہیے۔  لیکن اصل بےپرواہی کیلیے اسے معاشرے سے نکلناہوگا ۔وہ نکل جاتا ہے لیکن جاتے جاتے احمد جاوید صاحب  کی کتاب لیتاجاتا ہے تاکہ مجذوب بن کر نظم ”مجذوب کا رجز“  کا مصداق بن سکے۔۔۔۔۔”مگر مصداق ہی بننا ہے تو کسی نامعقول دانشور کا کیوں نہ بنا جائے۔ آخر کو اخلاقیات و سماجیات کے تقاضے بھی تو پورے کرنے ہی ہیں۔۔“ یہ سوچتے ہی وہ احمد جاوید صاحب کی کتاب پھینکتا ہے اور کارل مارکس کی تصنیف پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اوپر سرورق پر خوش خط میں ابلیس کا وہ شعر لکھ دیتا ہے جسے بھلے وقتوں میں اقبال نے نظم کر لیا تھا یوں سیٹ کے چاروں عناصر [سماج۔۔فرنود کو ٹھکرا دینے والااخلاق۔۔۔فرنود  کا خود ساختہ فرنود: جو کچھ کہ میرے زمانہ میں ہے اور یہ جو کچھ کہ اس زمانے میں مَیں ہوں۔۔بہر حال یہ ٹیڑھا سوال ہےاقبال: اپنے شعر کی بدولت]  پورے ہو جاتے ہیں۔
ذہن دوبارہ  صاحب طرح مقالہ نگار کے سیٹوں اور فرنود کے سیٹوں میں استعماری جمالیاتی تعلق تلاش کرتا ہے۔ اسے تحقیقاً  پتا چلتا ہے کہ  استعماری جمالیاتی تعلق کو کھولنے کیلیے استعماری دلّا بننا شرط ہے۔۔وہ فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ۔۔سیٹوں کے پورے ہونے پہ یہ فارمولا سامنے آتا ہے کہ چیزیں کو الٹا کرکے رکھنے سے دانت صاف کرنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔لیکن وہ پریشان ہوجاتا ہے کہ بھلا صرف دانت کی صفائی سے ہی چھٹکارا کیوں ملے؟ساری چیزیں الٹی ہو گئیں اور مسئلہ بس ایک حل ہوا !۔ ۔۔۔۔۔  مگر یہ اطمینان بہر حال اسے بیک آن میسر ہوتا ہے کہ آخر ایک مسئلہ تو حل ہوا اور مسئلہ بھی ایسا جو وجودی اہمیت رکھتا ہے۔۔۔لیکن جتنی جلدی اطمینان میسر آتا ہے اتنی ہی سرعت سے لوٹ بھی جاتا ہے۔اب وہ دیوانہ وار چیزیں سیدھی کرنا شروع کردیتا ہے۔لیکن چیزوں کویہ منظور نہیں!فرنود  کیا کرے؟ بھلا شاخیں اور پتے زمین پر اور تنا اوپر کی طرف بھلا لگتا ہے؟ وہ بھی صرف دانت صفائی کی قیمت پر! ۔۔۔یہ سوچتے ہی ایک خوف کی لہر اسکے اندر دوڑ جاتی ہے۔ ایسا خوف جو نیا ہے لیکن اپنا پتا بھی جانتا ہے اور علت بھی۔ چیزیں اب کبھی سیدھی نہ ہونگی!اگلے ہی لمحےکچھ چیزیں سیدھی ہوجاتی ہیں اور کچھ ادھ سیدھی ۔باقی ہنوز الٹی۔۔۔”لیکن چیزیں ہی الٹی ہوئی ہیں زمین نہیں۔مینار زمین میں گڑ رہے ہیں اور درختوں نے پھل دینے سے انکار کردیا ہے درخت خوراک کہاں سے لے؟“ وہ بڑبڑایا۔۔۔چیزوں کی اسی الٹ پلٹ میں اسے خیال آتا ہے کہ بھوری اور کالی کا مسئلہ جس نے اسے اس وجودی خلا تک پہنچایا ہے اور نوساختیاتی تناظر اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے اب تک ویسے کا ویسا ہی ہے اور یہی سوچتے سوچتے اسے اپنے پھٹے گریبان کا خیال آتا ہے۔ ”میں تو مجذوب کا رجز پڑھے بغیر ہی مجذوب ہوں“  بس یہ سوچتے ہی مسرت کی مابعدالطبیعاتی رو اسے اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے اور وہ دیوانہ وار ہنسنے لگتا ہے۔۔مگر پھر یہی خیال اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ حال اور مستقبل کے نئے رشتوں پر غور کرے اور مکرر سوچے کہ کیا یہ ممکن بھی ہے کہ حال میں رہتے ہوئے مستبقل کے متعلق ایسی حتمیت سے دعوی کیا جا سکے جیسا کہ اس نے چیزوں کے متعلق کیا ہے؟ حال مستقبل یا مستقبل حال؟ حال کا حال اور مستقبل کا مستقبل۔۔۔۔چیزوں کی الٹ پھیر ایک تفتیشی بحران کا سبب بھی تو ہے۔۔۔۔اب اسے وہیں وہ قابل کوّا دِکھتا ہے جو جانتا ہے جرم کیسے چھپایا جاتا ہے۔ وہ فرنود  سے کہتا ہے کیا غم اگر چیزیں الٹی ہوگئیں اور مینار زمین میں گڑ گئے اور تنے اوپر اٹھ گئے۔ تم الٹا چلنا شروع کردو مسئلے کاحل فقط یہی ہے؛ اور خبردار جنگل سے مت نکلنا۔ مجذوبی اختیار کیے رکھو اور استعماری دلالی سے بچ کررہنا۔۔۔
ذہن دوبارہ حال کے حال اور مستقبل کے حال کی طرف پلٹتا ہے۔۔۔۔”حال کا حال کیسے سوچا جاسکتا ہے؟مستقبل کا حال موجودہ حال میں کیسے معلوم کیا جاسکتا ہے؟اگر میں مستقبل ہوں تو کیا ہوا،اسکے ساتھ ہی حال بھی تو ہوں ناں! جیسے یک گونہ نسبت موجودہ حال سے ہونی چاہیے: یہی موہوم اور مبہم نسبت ۔“ اسے اچانک احساس ہوتا ہے حال کچھ نہیں ہوتا؛ جس لمحے حال کا احساس کیاجاتا ہے وہی لمحہ اسکے ہاتھ سے نکل جانے کاہوتا ہے۔وقت کاظلم فرنود کو غصہ دلادیتا ہے۔سخت غصہ!!!
اب ذہن ہر دو اطراف پیٹ رہا تھا۔۔۔۔ کوے کی نصیحت یاد کر کے پیٹا فرنود نے اپنا سر اور چلایا ”ہائے افسوس میں کوے سے بھی گر گیا اور حال میں رہتے ہوئے مستقبل میں غلطاں ہوا“۔۔۔پس فرنود  نادم ہوا اور بجائے منجمد زندگی کے رواں دواں موت کا طالب ہوا مگر ندا آئی:”تو زندہ رہے گا اور کہتا پھرے گا میں ڈیڑھ دانشور ہوں۔۔  میرے ہاں فلاں حرکت کی اجازت نہیں اور میں شعور کی جس سطح۔۔۔۔الخ ۔۔ گویا سراپا نامعقولیت بنے گا۔۔اور یہی تیری سزا ہو گی۔“پس فرنود کو  فرنود کے خیالات نے کھڑے کھڑے بیک وقت زمین میں گاڑ اور پنکھے سے لٹکا دیا۔۔۔
پھر لوٹتا ہے ذہن اس کا وقت کے ظلم کی طرف۔۔۔غصہ میں اس نے بکنا شروع کیا اور دیوانہ وار لوگوں کے پیچھے دوڑتا پھرا۔۔۔۔ پہنچا بالاخر ندی پر تو شکل اپنی دیکھ کر ڈرا کہ دانت نوکیلے تھے، زبان لمبی ہو چکی تھی اور کف ہر طرف اڑ رہا تھا۔ فرنود نے فرنود کو ہی پہچاننے سے انکار کر دیا اور منہ دھونے کے لئے ہاتھ تالاب میں ڈالا تو ہتھیلیاں غائب تھیں اور پنجے تیز دھار تھے۔۔اسے اس  کا  غصہ لے ڈوبا !!!
نامعقولیت تک پہنچ جانے کی پیشن گوئی اسے پھر سے کاٹنے کو دوڑتی ہے۔۔۔۔لیکن اب کے وہ ہمت کر کے  نئے عزم سے اُٹھا اور اُسی لمحے اسے احساس ہوا کہ یہی،عین یہی وقت پہلے بھی مجھ پہ زمانہ ہوا، بیت چُکا ہے۔عین یہی وقت تھا،  عین یہی احساس تھا۔۔۔ پھر اسے اس نادر اور غیرمعمولی کیفیت کی سائنسی توجیہہ یاد آئی جو نفسیات سے متعلق تھی اور  جسے اس نے حادثاتی طور پہ سن لیا تھا۔جیسے ہی اسے توجیہہ یاد آئی سارا جمال مرگیا اور مشینیں اور لیباٹریاں نظروں میں گھوم گئیں۔۔۔ وہ سائنس اور سائنس دانوں کوگالیاں دینے لگا۔اسے خود پہ غصہ آیا کہ مجذوبی میں بھی آلاتی تصویریں اسے پکڑے ہوئے ہیں۔ اسے خوف لاحق ہوا کہ مجذوبی بھی ٹھوسیت اور غیرجمالیت سے چھٹکارا نہ دلا سکی ۔سارا عزم جو کسی ارادے کا اس میں پیدا ہوا تھا  وہ  مر گیا !  مرگیا! مرگیا ! مرگیا!دوبارہ غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسے اپنا عزم یاد آیا۔۔ ساتھ ہی یاد آیا موٹیویشنل اسپیکر کہا کرتے ہیں کہ آپ کروڑوں جرثوموں میں سے ایک ہیں جو سب پہ سبقت لے گیا۔ یہی بات پھر مغلظات کا سبب بنی اور سب پرندے اڑ گئے!
یونہی رات ہوگئی اور وہ سوگیا۔  خواب میں دنیا کی تباہی نظر آئی۔ چیزوں کا اُلٹائی تناظر! جی ہاں‘  نوساختیاتی تناظر نہیں۔۔۔ اُلٹائی  تناظر۔۔اس نے دیکھا کہ چیزوں کا الٹائی  تناظر عجیب رنگ دکھا رہا ہے، چارپائی کی اوپر اٹھی ٹانگوں پہ ایک تختہ جڑ دیا گیا ہے اور بیچ میں بن جانے والے خانے کو مستقبل بینی کی مشینوں سے بھر دیا گیا ہے۔۔مغلضات کے سبب  جو پرندے اڑ گئے تھے وہ  پروں سے محروم ہو گئے اور تالاب ندیاں سب الٹے اور سونا چاندی عقیق مونگے کے ڈھیر کی صورت اختیار کر گئے۔۔۔”مستقبل کا حال تو خوشحال ہے، الٹائی تناظر روشن ہے۔۔۔“ فرنود نے سوچا۔۔چارپائی پہ جڑے تختہ پر نصب کردہ مستقبل بینی کی مشینوں پر نظرِ تعمق ڈالتے ہوئے اس نے غور کیا کہ مستقبل بینی کی مشینیں ہی بن سکیں ۔۔مستقبل کاحال یا حال کاحال کبھی  نہ دکھ سکا۔۔۔۔”الٹائی تناظر روشن ہے۔“  فرنود نے سوچا۔۔۔یکایک بجلی اسکے ذہن میں کوندی اور اور اسنے چشمِ تصور سے ’سنا‘ (اجی الٹائی تناظر الٹائی) کہ وہ اسی سونے چاندی ہیرے جواہرات کے ڈھیر کے کنارے ہے اور سر اسکا پچھلی ٹانگوں کے درمیان ہے اور دم اگلی دونوں ٹانگوں کے بیچ، پیٹ زمین پر اور پاؤں ہوا کی طرف ہیں۔۔۔عجیب بات ہے۔۔الٹائی تناظر۔۔۔اسنے سوچا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ میری سوچیں تو انسانوں کی طرح ہیں پھر یکایک اسے دو ٹانگوں والی مخلوق نظر آئی کہ ایک دوسرے پر پیچھے ٹکڑے کے گوشت کے جھپٹتی تھی اور منہ سے الفاظ کے بجائے ہاؤ ہو نکل رہی تھی۔۔دو ٹانگوں والے اسے بھونکتے نظر آ رہے تھے۔۔۔الٹائی تناظر روشن ہے ۔۔فرنود نے سوچا۔
ہیرے جواہرات کو ذہن میں لا کر وہ مچلا۔۔”اب غربت ختم سمجھو۔“ وہ خوشی سے پھڑک اٹھا اور لگا دیکھنے صورت اپنی، آخر وہ اصل جون میں واپس آچکا تھا۔اس نے کیلے کے چھلکے اتارے اور آکاش بیل سے انہیں سی لیا۔۔۔ عقیق بھرے اور  شاہین کوآواز دے کر فرنود اس پہ سوار ہوا۔سواری میں ایک دشواری پیش آئی۔۔ ۔وہی  دشواری صاحب!  پنجوں کے درمیاں بیٹھنا پڑا۔شاہین نے دکھ سے کہا: ” تم نے ہمیشہ دنیا کو خراب کیا ہے اب سیدھا کب کرو گے؟“ آخری جملہ کہنے کی دیر تھی کہ یکایک سب پرندوں کے پرلوٹ آئے اور وہ شاہین کے برابر اڑتے نظر آئے۔سب یک زبان ہوکر کہنے لگے: سیدھا کب کرو گے؟  سیدھا کب کرو گے؟  سیدھا کب کرو گے؟۔۔۔۔ فرنود  ڈرا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کچھ بولے اور بجائے انسانوں کے ایسی آواز نکلے اور پرندے ڈر کے مارے اڑنا بھول جائیں ، کاروبارِ زندگی معطل ہو، درخت آکسیجن دینا بند کر دیں اور پانی پیاس بجھانے کی بدیہی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھے، پس وہ  چپ رہا اور سیدھا کرنے کے مطالبے سے دل ہی دل میں سخت چِڑا۔۔۔ وہ منتظر ہوا کہ پہاڑ اڑ جائیں اور آسمان پھٹے تیل کی تلچھٹ مانند ہو اور زمین لپیٹ دی جائے کہ نہ الٹا رہے اور نہ سیدھا،  ڈیڑھ نیزے کا سورج سب پگھلا کر خاک کر دے۔۔۔خاک، خاک۔۔۔خ، ا، ک۔۔۔کیا خاک کا بھی کوئی تناظر ہے۔۔۔؟ الٹائی تناظر ہو تو خاک محل بن جائے اور محل خاک کا ڈھیر۔۔اب فرنود پچھتایا کہ کیونکر الٹائی تناظر کو روشن سمجھا تھا اور پچھتاوے نے اسے سجھایا کہ نہیں تاریک ہے مگر پرندوں کی تیز آواز میں وہ اڑ گیا اور کہا کہ ”میں خاص امرِ کن سے بنا ہوں اور تم چرند پرند سب میرے تابع ہو “ پس دوبارہ پر تولنے لگا وہ امانت کا بوجھ سنبھالنے کے لئے اور ہو گیا ظالموں میں سے۔۔۔ فرنود کو فرنود کا علم لے ڈوبا!!!
یہ سب ایک طرف لیکن الٹائی تناظر کے خاتمے کا سوال مسلسل ہورہا تھا جس کا جواب دینا ضروری تھا۔اسنے سرگوشی کی اور جانا کہ آواز انسانی ہے اور الفاظ الٹائی تناظر کاشکار نہیں ہوئے۔ وہ بولا: ”میں بدنصیب ’مجذوب کا رجز‘  پڑھنے اور ’یاتی‘  لفظوں کے سیٹ بنانے کے چکر میں الٹائی  تناظر دریافت کربیٹھا۔۔۔اب کال ہی کال ہے اور حال کا حال کبھی عیاں نہ ہوگا۔ مینار زمین میں گڑتے رہیں گے؛  چارپائی کے الٹے [حالی سیدھے] پائیوں پہ جڑے تختوں کے بیچ بنی مستقبل بینی کی مشینوں کی نحوست الٹائی تناظر کے قائم  رہنے میں قائم رہے گی۔درخت خوراک بھلا  ایسے کیسے لے سکیں گے؟اس نے دکھ سے کہا اور مایوسی سے زمین پہ دیکھا،  ہر طرف بھدی جڑیں تنوں سے جُڑی اوپر کو اٹھی ہیں اور خوراک پانی کی کمی سے سڑ رہی ہیں۔یہ الٹائی تناظر کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ ”ابھی بھوری کے ہاں کالا کٹا پیداہونے کا بھی مسئلہ حل نہیں ہوا“ اس نے بے چینی سے سوچا۔ اسے لگا ابھی پیشاب خطاہو جائے  گا لیکن شاہین کے خیال سے ضبط کیے رہا۔۔۔وہ پچھتایا مگر موقع محل نہ تھا کہ آٹھ آنسو ہی بہا لیتا۔۔  زمین تمام الٹی پڑی تھی اور پہاڑ کھائیاں بن چکے تھے، سمندر کی جگہ لاوا ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور سونے کے ڈھیروں پر سانپ کنڈلی مارے بیٹھ گئے تھے۔۔۔”اب بھلا میں کہاں اتروں کہ دھرتی تمام الٹ گئی اور گھونسلے پرندوں کے تباہ ہوئے، آبادیاں ویران ہو چکیں اور قبروں سے ڈھانچے باہر کو آن گرے اور گریبان میرا اب تک پھٹے کا پھٹا ہے اور پسلیاں میری مردہ ڈھانچوں سے ملتی جلتی معلوم ہو رہی ہیں اور گدھ مجھ پر نظر گاڑنے لگا ہے۔“ ۔۔۔۔  گدھ کو  دیکھ کر وہ چونکا اور بانو آپا کا راجہ گدھ یاد کیا۔اسکی فراست نے بتایا یہی راجہ ہے اہم! بات یہ تھی کہ گدھ سیدھا تھا!
”گدھ سیدھا ہے۔۔گدھ سیدھا ہے۔۔۔“ بس یہیں اس نے اپنے اخلاقی تناظر پر تین حرف بھیجے اور صاف پہچان گیا کہ جو بھی اپنے زور پر مردہ ہڈیوں تک سے اپنی زندگی کشید کرسکے وہی سیدھا ہے ۔۔۔الٹائی تناظر بھی تب تک ہی روشن ہے جب تک دو ٹانگوں والا ہوس میں چار ٹانگوں والے کو مات دے اور پہاڑ کھود کر کھائی بنائے اور ندیاں کھنگال کر جواہرات پیدا کرے۔۔۔یہاں تک کہ کرہِ ارض تباہ و برباد ہو جائے اور مستقبل بینی کی مشینوں کے علاوہ یہاں کچھ بھی باقی نہ رہے۔۔۔فرنود الٹائی تناظر پر پچھتایا کہ یہ تو صاف صاف استعماری دلالی ہے!!!  سب استعماری دلالی ہے جو سماجیات، اخلاقیات وغیرہ کے پردے میں اوندھے منہ پڑی ہے۔۔اب وہ اس پر بھی پچھتایا کہ کیوں انتظار حسین کو پڑھا اور استعماری دلالی سے متعارف ہوا۔۔۔اسے وہ بھینس یاد آئی جو عرصہ ہوا مر گئی اور نالے میں اوندھے منہ پڑی ہے اور سڑاند اسکی ایک گاؤں کو عذابِ جان ہے مگر چوہدری کی مری ہوئی بھی سوا نہ صحیح پونے لاکھ کی تو ہے ہی۔۔۔لیکن کیا اگر وہ زندہ رہتی تو کالا بچہ جنتی۔۔۔۔؟ یہ اتنا اہم سوال تھا کہ سب تناظرات ماند پڑ گئے اور بھینس کے کالے ہوتے ہوئے  بھورا کٹا جننے کا مسئلہ کابوس کی طرح اسے لڑا۔۔ بس یہی مقام تھا جب پرندے چپ ہو گئے اور لاوا ٹھنڈا ہو کر راکھ بن گیا اور ہوا میں معلق درختوں کی جڑوں پر کونپلیں پھوٹیں اور معاملہ تمام سوا نیزے پر موجود سورج کی طرح اسکے سامنے آ گیا۔۔۔اسے پیٹنے والا کالے بھورے سے بے نیاز تھا اور مارنے کا کارن صرف یہ تھا کہ وہ طاقت ور تھا اور کسی کو اسکی بھی اجازت نہ تھی کہ اسکی مری ہوئی سڑیل بھینس پر بھی سوال اٹھا سکے۔۔۔۔فرنود چونک اٹھا، یہی تو استعماریت ہے۔۔۔سب کچھ سیدھا ہو چکا تھا !!! ”استعماریت اور ساختیت اور تانیثیت،یہ کتنا ملتے ہیں آپس میں“اس نے مار کھانے کے دوران خوشی سے سوچا اور اٹھ کر بھاگا کہ ان الفاظ کی تراکیب میں کالی کے ہاں بھورے کٹے کے امکان کا سارا علم چھپا ہوا ہے۔”میں نے پالیا میں نے پالیا میں نے پالیا“ اگرچہ ارشمیدس کادور گزر چکا تھا لیکن یہ دریافت زیادہ بڑی تھی۔۔۔
اس نے سوچا: ”اگر ساختیاتی تناظر اختیار کیا جائے۔۔ یہ  تو ساختتیاتی مسئلہ ہے۔ اسکے ساتھ تانیثی تناظر بھی لگا لیا جائے تو کیا حرج ہے؟آخر کو بھینس بھی تو زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور ازل سے بھینسے اسکی مرضی کے خلاف جفتی کرتے آئے ہیں۔“ یہ سوچتے ہی اسے ماتھے پر پسینہ آ گیا کہ دو پایوں کے معاشرے میں ”جفتی“ کرنا کتنا عجیب کام ہے۔۔۔چھپ چھپا کر ، اندھیرے میں۔  یہ نہیں کہ استعماریوں کی طرح کھلم کھلا ہی فطرت کو بروئے کار لائیں۔۔۔نہ نہ۔۔۔پست فطرت پس ماندہ لوگوں کی طرح ہزار قدغنیں لگا دیں گے ۔ اسی لئے تو اسے استعمار پسند تھا کہ وہاں سڑی ہوئی بھینس سے لے کر گلابی میمنا تک جفتی کے لئے دستیاب تھا۔۔۔استعماری دلّا ہونا کوئی عام بات ہے بھلا؟ وہ خود ہی سوچ کر مسکرایا۔۔۔۔بھنور تنگ اور تاریک تر ہو رہا۔۔۔وہ مسئلے سے مسئلہ نکلتا دیکھ، حواس باختہ ہو رہا تھا۔۔۔”یہ ساری خرابی زبان کی پیدا کردہ ہے۔“ وہ  زبان سے نمٹنے کا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ سارے لفظ جو اسے تنگ کرتے رہے ہیں انکے لتّے لے گا اور سکون پاجائے گا۔  ”پا لینے“ کا عمل انتہائی عجیب ہے۔۔۔اور عجیب لفظ تو بالکل پٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔۔جیسے نالائق طالب علم نقادوں کے دو چار اقوال رٹ لے اور پورے پرچے میں برتتا چلا جائے مگر یہ سب پرچے اور اقوال وغیرہ فضول ہیں کیونکہ یہ مل کر کالے کٹے کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔۔۔الٹائی تناظر روشن ہے مگر مسئلہ کا حل تو اس سے ماوراء ہے۔۔۔اس نے سوچا اسے پہلی فرصت میں ن م راشد کی ”ماوراء“ لے لینی چاہیے تاکہ پڑھ پڑھ کر سر دھنے اور دوسروں کا سر دکھائے۔۔۔خصوصاً  وہ مسز سالا مانکا والی نظم تو بڑی شاندار ہے۔۔۔۔۔”تناظر کی تلاش انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔۔کارل مارکس سے اقبال تک اور احمد جاوید سے ن م راشد تک۔۔۔مگر مسئلہ زچہ بچہ تو رہا وہیں کا وہیں۔۔۔ استغفراللہ! یہ میں کیا بک گیا۔۔۔گویا سچ مچ میں نے سماجیات و اقبالیات کو ملا کر نئی بریکٹ بنا لی مگر مابعدالطبیعاتی اور نوساختیاتی، ادراکِ حسّی اور اظہارِ علاماتی، علامتوں کی توڑ پھوڑ اور انکا زوال سب کو ملا کر دیکھنا چاہیے اور لگے ہاتھوں یونگ اور فرائیڈ بھی نظر سے گزار لوں تو کیسا رہے گا؟“ لگا وہ سر کھجانے۔۔۔”زیادہ مطالعہ گمراہی ہے اور گمراہی آگ میں لے جائے گی“ اسے مولوی حکمت کی بات یاد آ گئی اور سوچنے لگا کہ یہ سب بودیلئر اور ژاں پال سارتر وغیرہ بکواس ہے اور البرٹ کامیو، ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ نرے گھاس خورے ہیں۔ وہ ضرور آج ہی جا کر الف با تا والا قاعدہ پڑے گا جو اس نے مولوی حکمت سے حرف بحرف پڑھا تھا اور اس تمام عرصہ میں اسکی پسلیوں میں انکے ناخنوں کے نشان پیوست رہا کرتے تھے۔۔۔۔۔اڈیپس کی الجھن۔۔۔فرائیڈ کی لذت۔۔۔یونگ کی نفسیاتی طوماری۔۔۔سب بکواس ہے۔۔۔کیسے مولوی صاحب اسے حجرہ میں بلا کر گول مول کر دیتے تھے اور انکے ناخن اسکے جسم میں پیوست ہو جاتے تھے۔۔۔اسکی پسلیاں مانو یوں غائب ہو جایا کرتی تھیں کہ نشاۃِ ثانیہ کے ادب سے مابعدالطبیعاتی عناصر بھی کیا غائب ہوئے ہوں گے۔۔۔۔”سب سے نرم مادہ موم کا ہے۔۔۔“؛اسے خیال آیا۔۔۔۔”موم:  جب میں نے بچپن میں چبا لیاتھا۔۔“ اس نے یاد کیا ۔۔۔۔”کیسے چپک گیاتھا دانتوں اور تالو کو۔ ہر سانس کے ساتھ جلی موم کی مہک جاتی تھی اور ہوا تک محسوس نہ ہوتی تھی۔“ اسے متلی ہونے لگی۔۔۔۔۔۔” جب میں سوچتاتھا کہ موم کے گرم قطرے کسی کے چہرے پہ ٹپکائے جائیں اور سوکھنے پہ نرم ہاتھ پھیرا جائے تو کیسی سنسنی دوڑے گی اور کیسا بھیانک چہرہ دِکھے گا ۔۔۔۔۔“ اسکے چہرے پہ سوئیاں چبھنے لگیں۔  ساتھ ہی الٹی آ گئی اور اس نے  دیکھا کہ پس خوردہ کی جگہ الفاظ بکھرے پڑے ہیں۔ گاڑھے گاڑھے الفاظ، زہریلے اور ناقابل ہضم الفاظ:جدیدیت مابعد جدیدیت تانیثیت استعماریت سامراجیت ساختیاتی نو ساختیاتی لبریاتی سیکولریاتی اقبالیاتی شماریاتی ریاضیاتی نوآبادیاتی۔ ریاضی کے فارمولے ہر جگہ تھےالجبرا کی مساواتیں بڑی مقدار میں تھیں۔ وہ حیران ہوا یہ سب کیا ہے؟ پھر خیال آیا یہ سب نقادوں کی کارستانیاں ہیں، الفاظ ٹھونسنے کی مشق تو ظالموں نے سکھا دی لیکن اگلی منزل کا پتا نہ بتایا۔ ”یہ خیالات موم کی نسبت سے آئے ہیں“ اس نے خودکلامی کی”موم اعلیٰ شے ہے، جلتی ہےتو کیسی خوبصورتی سے پگھل کر نقش و نگار بناجاتی ہے! میری خواہش ہمیشہ رہی کہ موم کے نقش اٹھا لوں لیکن موم بتی جو خام ہوتی تھی کبھی جدا کرتی، کبھی نہ کرتی، کبھی آدھا ادھورا کر دیتی اور نقش کی ڈنڈیاں ٹوٹ جاتیں۔ موم اعلیٰ شے ہے۔۔۔ مومیاتی تناظر تلاش کرنا چاہیے۔“اسے اچانک محسوس ہوا اسکی دنیا بدل چکی ہے اور ہر شے ماچس کی تیلیوں سے بنی ہے۔  درخت ماچس کی تیلیوں سے بنے ہیں اور پتے وجودی مجبوری کے کارن ایک سوتر موٹے ہوکر سفید ہوگئے ہیں۔ ”سفیدی تو موت ہے“اسے خوف آیا ”کیسے ہر شے سفید ہو گئی ہے۔ سفیدی کبھی سدا قائم نہیں رہنی چاہیے۔ابھی موسمی اثرات اسے میلا کر دیں گے“ اس نے اطمینان سے سوچا۔”اگر ان تیلیوں کو گنا جائے تو کتنا وقت لگے گا؟“ لامحدودیت کا احساس ہمیشہ خوف پیدا کرتا ہے جسکا گھر معلوم نہیں ہوتا، البتہ اثر جان لیوا ہوتا ہے۔اسکا جی چاہا وہ نکل بھاگے اور خوب چلائے!!!”مگر یہ سب تو محض علامتی باتیں ہیں“۔۔۔  ”علامتی ، ملامتی، سلامتی، خوش قامتی، ۔۔۔۔۔“”یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور نقاد چبائی ہڈیاں چباتے رہیں گے مگر مجھے اس سب سے کیا فرق پڑ جانا ہے۔۔۔میں جس شہ زور عقاب کو ٹانگوں میں دبائے اڑ رہا ہوں اسے کیا تعلق ہے اس سب سے؟ جبلت اور عقل کا کیا تعلق ہے؟ حسیات‘ جمالیات کو کیسے محسوس کریں گی؟ یہ سوالات بھلا میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں کہ میں تو ’موم پسند‘ ہوں۔۔۔میں دیسی دانشوروں کی اور اپنے جیسے استعماری دلالوں کی طرح ہر ہر نظریے  کو اپنی مرضی سے موڑ سکتا ہوں۔ جب میں اپنی مرضی سے سب کر سکتا ہوں تو میں صحافیوں اور موٹیویشنل سپیکروں کے دھوکے میں کیوں آؤں؟ بھلا کون ایسا دانشور ہے جو وجودی تجربہ میں مجھ سے بڑھ جائے؟ میں نے مولوی حکمت یار سے قاعدہ پڑھا ہے اور میری ’نشونما‘ میں انکی ’دستبرد‘ کا بلا واسطہ ہاتھ ہے۔۔۔۔بہترین تناظر تو موم کا ہی ہے۔۔“ فرنود نے سوچا۔۔۔”ہاں تو کون ہے جسے عدم اور نیست کے اس مقام سے گزرنا ہو جس سے مجھے گزرنا پڑا اور کون ہے جو مجھ سے زیادہ شہ زور پرندہ اپنی رانوں میں دبا لے؟  میری افتادِ طبع فرائیڈ اور اسکی لذت سے کہیں ماوراء ہے کیونکہ فرائیڈ نے مولوی حکمت سے نہیں پڑھا اور میری مابعدالطبیعات کولرج وغیرہ سے مہان ہے کہ وہ کبھی تنگ حجروں میں  موم کی طرح نہ پگھلے۔۔۔بہترین تناظر تو موم کا ہی ہے ۔۔۔“
”لیکن تناظر کیوں اہم ہے؟ تناظر کے بغیر چیزوں کو نہیں دیکھاجاسکتا؟اگرچہ مومیاتی تناظر ناک پہ سب سے پہلے کام دکھاتا ہے لیکن ناک اہم نہیں ہے، اہم اسکا مومی ہوجانا ہے۔موم میں ایک قسم کی چکناہٹ جو سڑی سرانڈ کے ساتھ محسوس ہوتی ہے اور چینخنے کا جی چاہتا ہے، وہ اہم ہے۔اہم ناک نہیں ہے، اہم تو تناظر کا سوال ہے ۔۔۔ چاہے مومیاتی تناظر ہو یا ٹھوسیاتی یا پتھریاتی تناظر، تناظر تو تناظر ہے ،انسان کے ساتھ رہے گا ہی رہے گا۔’ کیا تناظر کے بغیر کچھ نہیں ہے؟‘ مجھے اس بات کو توڑنا ہے۔جسکا بہتر طریقہ یہ ہے کہ انکار کر دوں ہر شے کا انکار کر دوں : انکار انکار انکار انکار انکار انکار اور بس انکار۔ہاہاہاہاہا۔انکاری تناظر! ایک ایسا تناظر جو سب تناظروں سے انکاری ہے ۔۔۔لیکن یہ بھی تو تناظر ہے جو اپنی عینک رکھتا ہے جس میں سے انکار ہی انکار دکھتا ہے۔ انکاری تناظر بھی  اہم نہیں ہے ، اہم تناظر کا سوال ہے۔۔۔  کیا مجھے اسکا حل وہاں تلاشنا چاہیے جہاں چیل انڈہ چھوڑتی ہے اور جہاں زاد اسے اٹھا کر قوت بخش دوا بناتی ہے؟“ اس نے شاہین کو جہاں زاد کے گاؤں کا پتا بتایا۔شاہین نے جواب دیا: ”میں بس کوزہ گروں کا عاشق ہوں، کہو تو وہاں لے چلوں؟“کوزہ گری سے اسے دوبارہ موم یاد آ گیا۔۔۔”کیا موم گری اور کوزہ گری یک جسم و دو قالب ہیں۔ ؟ یا مسز سالامانکا کی ٹانگیں مومی تناظر میں گندھی اور حسینوں کی زلفوں پہ حاوی رہی ہیں؟ یہ کیا ماجرا ہے کہ تناظر کے لفظوں نے میری زباں کو موم کی طرح ہی تروڑا مروڑا مگر ذہن میرا کہیں کا نہ چھوڑا کہ اب میں حسن کوزہ گر کا ہی ساتھی بنوں گا؟ ہر ایک شے سے اور ہر تصور سے، باریک نکتوں سے موٹے مقالوں سے میرا ذرا کوئی لینا دینا، تعلق یا ناطہ نہیں ہے۔۔۔میں اس وقت جس چیز پر ہوا کے جس خلا کو ماپنا چاہتا ہوں وہ خود بھی تو اک زاویہِ نظر سے کچھ کم نہیں ہے۔۔۔زماں اور مکاں۔۔۔کیا حقیقت یا پھر محض میرے الٹے والے تناظر کا دھوکا ہیں۔۔۔کہیں ایسا ممکن بھی ہے کہ جو چیز حس قدر الٹی ہے اسی قدر روشن ہے؟ فرائیڈ کی ساری توجہ عموما اسی ایک پرزے پہ مرتکز رہی ہے جو اوندھا معلق رہتا ہے۔۔۔۔مگر کیا فرق پڑتا ہے کہ میں الٹے تناظر کو الٹ دوں اور ساری دنیا کو موم کا بنا دوں۔۔۔جہاں زاد کا دل جیسے چاہے موڑ دوں۔۔۔اسے اپنی بانہوں میں بھر کر حسن کوزہ گر کی اذیت میں بھر بھر اذیت کے لوٹے گراؤں۔۔۔لوٹے۔۔۔یہ کوزوں سے لوٹے بھلا موم کی کونسی صنعت سے بنے ہیں؟ یکایک مجھے لوٹے ہی کیوں یاد آنے لگے ہیں؟ کیا نقادوں کی ساری دانشوری اور دانشوروں کی یہ سب چمچہ گیری اصل میں صرف لوٹا گردی ہے؟ کیا تناظر میں تبدیلی کا کوئی آفاقی اصول ثابت نہیں ہے؟ یہ ساری الفاظ کی بازگشت، یہ موٹے تازے اسلوب اور یہ ’علمی و تحقیقی اپرووچ‘ والا سارا فسانہ ہی سب لوٹا گردی ہے؟مگر میں تو جدیدیت سے بھی گزر کر بہت آگے نکل کر زمان و مکان اور حوادث سے بچ کر کسی ماوراء پر کھڑا ہوں۔۔اب لوٹے تو گاؤں دیہات میں ہیں ورنہ ٹشو پیپر نے پانی کی اور مسلم شاور نے لوٹے کی جگہ لے لی ہے۔۔۔مگر یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے کہ حسن کوزہ گر کے گاؤں میں بھلا ٹشو پیپر اور شاور کہاں ہیں؟ وہاں تو محض کھیت کھلیان مٹی کے ڈھیلے ہیں پانی کے لوٹوں کی کثرت وہاں ہے۔۔۔۔تو کیا بہترین تخلیق بھی لوٹا ہی ہے؟۔۔“”بہترین تخلیق تو موم ہے“اسے خیال آیا۔۔”مومی شاپر ہو یا مومی نقش و نگار،سبھی اعلیٰ ہیں اور دنیائے موم میں اول ہیں۔“”کیا ہو اگر سب تناظر سے بڑھ کر  اصل میں مومی بن جائے“۔۔اسے خوف آیا ”ہر شے موم کی ہوجائے اور سورج سب پگھلا دے، پانی کردے۔“”مگر اصل حقیقت۔۔۔۔اصل حقیقت کیا ہے؟ موم یا تناظر۔۔۔اگر موم بالاخر تناظر کو پگھلا دے تو دنیا میں دانشوری بالاخر ختم ہو جائے گی۔۔۔گویا نوٹوں کو موم کا ہونا چاہئے۔۔۔اور موم کے غلبہ پر بھی تناظر قائم رہے تو گویا تناظر ہی اصل ہے۔۔۔گویا سمجھ نہیں آتا کہ بھینس مر کر بھی بھینس ہی رہے گی یا محض سڑا وجود ہو گی؟  اگر بھینس ہی رہے گی تو بچہ کیوں نہیں جنے گی اور نہیں رہے گی تو اس پر سوال اٹھانے پر مار کیوں پڑے گی۔؟؟؟ “ انہی سوالات نے اسکے ذہن میں ایسا شور پیدا کیا کہ اسے کچھ سجھائی نہ دیا ۔۔۔آخر حل کیا ہے؟ اسکی نظر میں یک دم مسجد کے اوندھے لوٹوں سے ستواں جڑوں پر اگی کونپلوں اور ٹھاٹھے مارتے لاوے سے الٹے پڑے پہاڑوں تک ایک ایک چیز آنے لگی یہاں تک کہ اس نے جھنجھلا کر تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی اور چلایا: ”میں نہیں مانتا“۔۔۔۔۔اور یکایک ایک چراغ سیاہ آگ کا یوں ذہن میں نمودار ہوا کہ رات نے ہر وجود کو ڈھانپ لیا اور علامتیں ساری گھبرا کر اپنے اپنے بلوں میں گھس گئیں، اور یوں وہ حقیقت اس پر آشکار ہوئی کہ آگے جس کے تمام عالم اسے ہیچ معلوم ہوا۔۔۔اسے لگا کہ وہ غرور کے اس مقام پر ہے کہ ابلیس اسکا پانی بھرے ہے۔۔۔”میں انکار کرتا ہوں۔۔۔“، اس نے قہقہہ لگایا۔۔۔”میں مروج اور معلوم سے انکار کرتا ہوں۔ میں علل اور معلول سے انکار کرتا ہوں ۔۔۔میں اسباب اور مسبب سے، عالم اور معلوم سے، عدم اور معدوم سے، وجد سے وجود سے، نقد سے تنقید سے، سوچ اور فکر سے۔۔۔بحران سے، علامات سے، ہستی سے نیستی سے، حیات و ممات سے، دنیا و مافیہا سے، لازم اور ملزوم سے۔۔۔  انکار کرتا ہوں!!!۔۔میں سماجیایات و اقبالیات سے اور فرنودیات و اخلاقیات سے انکار کرتا ہوں۔۔۔ہاں ہاں انکار کرتا ہوں۔۔انکار کرتا ہوں!!!!!

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search

RobertoBolano