دودھ کہاں سے اترتا ہے؟ کہانی کار: سلمان طارق
میں اپنے الفاظ سے بہت سے تصویریں بننا چاہتا ہوں۔ میری چوری کی گئی کتاب کے پچھلے صفحوں پر کس کا نام لکھا تھا؟ آدھا ادھورا خط میں کیوں بھیج نہ سکا؟ سگریٹ کا کشش لگا کر کرونا میں ڈیوٹی کرنے والا فیکا موت سے کیسے بچا؟ مریض جن کے پھیپھڑے ان کے جسم کے پانی میں ڈوبنے لگتے ہیں مجھ سے کیا کہتے ہیں؟ بجلی کی ننگی تار کو چھونے سے پہلے ریلا نے اپنے باپ سے کیا کہا تھا؟ اور بابل نے انسولین کی آدھی سرنج بھر کر اپنے آپ کو کیوں لگائی؟ مگر آج بات ہوگی عرش کی، اس لیے نہیں کہ سارے زمینی فیصلوں کی عدالت وہاں لگتی ہے بلکہ اس لیے کیونکہ اماں پھاتاں نے دودھ کا منبع اور اس کی کیفیت کے بارے میں ایک بات کہی تھی۔
میں حسب عادت سب سے آخر والی کرسی پر براجمان تھا جو انتہائی دائیں جانب رکھی گئی تھی اور میرے بائیں جانب تین ڈاکٹر دو سال سے دائمی قبض، قومی بیماری خارش اور گھبراہٹ کے مریض دیکھ رہے تھے۔مجھ پر اس پہر تھکاوٹ اور غنودگی کا غلبہ تھا شاید مٹھو کے سموسوں کا اثر ہو لیکن میں مطمئن تھا کیونکہ اس پہر سیریس مریض آنے کی توقع نہیں تھی۔ اچانک ایک اماں جی سب کو چھوڑ کرمیرے قریب سٹول پرآ وارد ہوئیں۔
”ہاں اماں“ (ں کو جتنا لمبا کھینچ سکتا تھا کھینچا تاکہ اماں کو میرے ٹھیٹ پینڈو ہونے پر یقین ہو)
”پتر کتے نے وڈ لیا اے“ (بیٹا، کتے نے کاٹ لیا ہے)
”ڈاکٹر جمال انکی پرچی بنوائیں اور ٹیکہ ویکا لگوائیں“، میں نے جونیئر ڈاکٹر پر رعب ڈالا۔
ڈاکٹر جمال جو کہ نیا ڈاکٹر تھا نے مکمل ہسڑی لینے کے لیے سوال کیا: ”اماں جی کدون وڈیا کتے نے؟“ (اماں جی کب کاٹا کتے نے؟)
”پتر چھے مہینے ہو گئے“ (بیٹا چھے مہینے ہو گئے ہیں)
”کیا؟ کیا؟“
میں نے ہلکی سی آنکھ کھولی اور بند کر لی۔
ڈاکٹر جمال: ”ماں جی کتے وڈے دا ٹیکا چوی کینٹے وچ لگدا اے “ (ماں جی، کتے کے کاٹنے کا ٹیکہ چوبیس گھنٹے میں لگتا ہے)
اماں: ” وے پتر ۔۔۔۔ ٹیکا لا چا “ (بیٹا، ٹیکہ لگا دو)
ڈاکٹر صاحب نے پھر سمجھایا اور فی میل ڈاکٹر نے بھی حسب ضرورت اردو میں ڈانٹ ڈپٹ کی۔
اتنے میں اماں کا میاں جو بڑی دیر سے دروازے کے پاس دو بچے لیے کھڑا تھا آگے بڑھا: ”ڈاکٹر صاحب میں توانوں دسنا واں مسلہ کی اے۔ اصل وچ کتے نے ساڈی گاں نو وڈیا اے“ (ڈاکٹر صاحب، میں آپ کو بتاتا ہوں مسئلہ کیا ہے ۔ اصل میں کتے نے ہماری گائے کو کاٹا ہے) ۔
” کتے نے گائے کو کاٹا؟ ٹیکا اماں نے کیوں لگوانا ہے اور چھ مہینے بعد؟“ میرا ماتھا ٹھنکا ۔
”رکو رکو“ میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا۔
میں نے اماں کے لیے کرسی منگوائی جس پروہ ایک ٹانگ سیٹ پر رکھ کر بیٹھ گئیں گویا پرانی سہیلی کے گھر آئی ہوں ”پتر ساڈی گاں نو باولے کتے نے وڈیا“ (بیٹا، ہماری گائے کو پاگل کتے نے کاٹ لیا)
”فیر؟“ (پھر)
”سانوں پتا نہیں لگا، تے اسی چھے مہینے اوسے گاں دا دودھ پیدے رئے آں“ (ہمیں پتا نہیں لگا اور ہم چھے مہینے سے اسی گائے کا دودھ پی رہے ہیں)
”اماں جی کتے دا کی بنیا؟“ (اماں جی کتے کا کیا بنا؟)
”پتر کتے دا تے نہیں پتا پر گاں مارتی“ (بیٹا کتے کا تو نہیں پتا پر گائے مار دی)
” کینے؟ “ (کس نے)
”ساڈے کو تے مری نہیں، پولس نے فائیر مارے۔ چھ فائیر۔ اس تو پہلاں اوندے منہ وچوں چگ آندی سی، انکھاں بار آگیا سی۔۔۔ پر چنگی سی اللہ آلی پاگل ہو کے سانوں دودھ وی دیتا نال وچھی نو پیایا۔“ (ہم سے تو مری نہیں، پولیس نے چھے فائر مارے۔ اس سے پہلے اس کے منہ سے جھاگ آ رہی تھی، آنکھیں باہر آ گئی تھیں۔ لیکن وہ ٹھیک تھی، اللہ والی نے پاگل ہو کے ہمیں بھی دودھ دیا، بچھڑے کو بھی پلایا)
میں نے فوراً موبائل پر سرچ کیا ”کیا ریبز(rabies) کے جراثیم دودھ میں آتے ہیں“ اور مجھے جواب مل گیا۔ میں نے ماں جی کو تسلی دی کہ ایسا کچھ نہیں۔
اماں بولی ” وے پتربکھو آخدا اے توانوں مار دینا اے“ (بیٹا بکھو کہتا ہے تم لوگوں کو مار دوں گا)
” ماں جی او کیوں؟ “ (ماں جی وہ کیوں؟)
”کیندا اے ”وچھی ویچ دیو تے تسی سارے پینڈ چھڈ دیو“ ۔ دس پتر اساں کتھے جائیے؟ سانوں پینڈ آلے قبول نہیں کردے پے۔ اساں ” سائیں کاواں والی سرکار“ کو دم وی کرایا انوں 2500 رپیے وی دیتے۔ او کیندا اے تواڈی ساریاں دی آکھ وچ کتے دا وال اجے ہے اوہی پاگل کتے دا۔ لے دس۔ ہاہے کیندا اے دو مہینے بعد دم دا اثر ختم ہو جائے گا تسی سارے وی باولے ہو جاؤ گے۔ اس لیے دو ماہ بعد کالا بکرا لے آنا میں وڈا دم کر دیاں گا۔ میں آنی سا ۔۔۔۔ اسی وچھی ویچ دئیے؟ کالا بکرا لے کے جانا اے“ (کہتا ہے بچھڑا بیچ دو اور تم سب لوگ گاؤں چھوڑ دو۔ بتاؤ بیٹا ہم کہاں جائیں؟ ہمیں گاؤں والے قبول نہیں کر رہے۔ ہم نے سائیں کاواں والی سرکار کو دم بھی کروایا، 2500 روپے بھی دیئے۔ انہوں نے کہا کہ تم سب لوگوں کی آنکھ میں کتے کا بال ہے، اسی باولے کتے کا۔ سائیں کہتا ہے دو مہینے بعد دم کا اثر ختم ہو جائے گا اور تم سب پاگل ہو جاؤ گے۔ اس لیے دو مہینے بعد کالا بکرا لانا اور میں بڑا دم کر دوں گا۔ میرا سوال ہے ہم بچھڑا بیچ دیں؟ ورنہ کالا بکرا لے جانا پڑے گا۔)
اماں جی کے سوال میں بچوں کی سی معصومیت تھی۔ میرے سارے ساتھی ڈاکٹر زیر لب ہنس رہے تھے۔ بکھو؟ کتے کا بال؟ باؤلی گائے کا دودھ؟ کاواں والی سرکار کا دم؟
میں نے اماں جی اور ان کے شوہر کو سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں، چھ ماہ دودھ پی لیا ابھی تک کچھ نہیں ہوا تو آگے بھی اللہ سلامت رکھے گا۔
اماں بولی: ”پتر بکھو؟“ (بیٹا بکھو کو کون سمجھائے گا؟)
”اماں جی انوں میرے کول پیج دینا میں انوں دساں گا تسی صحت مند ہو۔ “ (اماں جی اسے میرے پاس بھیج دینا، میں اسے بتا دوں گا کہ آپ صحت مند ہیں)
اماں کی تسلی نہ ہوئی ۔ میں نے اماں جی اور ان کے شوہر کی پرچی بنائی اور نسخہ لکھا جو آج تک شاید کسی ڈاکٹر نے نہیں لکھا ہوگا۔ ”برائے مہربانی ان کو تنگ نہ کریں، یہ باکل صحت مند ہیں اور ان کو ریبیز کی کوئی شکایت نہیں“ اور نیچے مہر بھی لگائی۔
” اماں جی کوئی پڑیا لکھیا ہے توڈا چوں؟“ (اماں جی آپ لوگوں میں کوئی پڑھا لکھا ہے؟)
” ہاں پتر، بیٹا ہے۔ دس پڑیا ، بار کھڑا اے“ (ہاں بیٹا، میرا بیٹا پڑھا لکھا ہے۔ دسویں پاس ہے۔ باہر کھڑا ہے)
” اماں جی بلاؤ اونوں“ (اماں جی اسے بلائیں یہاں)
بیٹا آیا اور باآواز بلند نسخہ پڑھا گیا۔ جاتے جاتے میں نے اماں کی جان کے دشمن بکھو کو ہسپتال بلانے اور اس کی سرزنش کا جھوٹا وعدہ کیا۔ اماں خوش تھی کہ زندگی کا پروانا مل گیا اب وہ گاؤں میں سب کو دکھائے گی کہ وڈے ڈاکٹر نے لکھ دیا ہے کہ سب صحت مند ہیں اور گائے کا بچھڑا بھی۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ جاتے جاتے مجھے کہہ گئی ”مینوں تا پتا سی دودھ پاک ہندا اے عرش توں اُتردا اے“ (مجھے تو پتا تھا کہ دودھ پاک ہوتا ہے اور عرش سے اترتا ہے)
بات آئی گئی ہو گئی۔ اگلے دن ایک نومولود بچے کی ماں بچے کو چیک کروانے آئی تو میں نے اس سے پوچھا ”اس کو دودھ کونسا پلاتی ہو؟“
وہ کھسیانی ہو کر بولی ”گاں دا، اپنا نہیں پلاندی، مسلہ اے میرے دودھ وچ“ (گائے کا۔ اپنا نہیں پلاتی۔ میرے دودھ میں مسئلہ ہے)
میرے منہ سے فر نکلا ”کملیے تینوں نہیں پتا۔ دودھ پاک ہندا اے عرش تو اتردا اے“ ( پگلی ۔ تمہیں نہیں معلوم کہ دودھ پاک ہوتا ہے اور عرش سے اترتا ہے!)