انگوٹھی۔ کہانی کار: فیصل علی حیدر
میرا گاؤں یعنی جلال پور جدید، ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہپور اور تحصیل ساہیوال کے بالکل وسط میں مشرقی جانب واقع، ایک بے ڈھنگی چوکور تھی جو چاروں اطراف سے سر سبز کھیتوں میں گھری ہوئی تھی۔گاؤں کے چاروں کونوں سے کھیتوں کو چیرتی ہوئی سڑکیں نہ صرف گاؤں میں آنے والے کو خوش آمدید کہتی تھیں بلکہ بڑے بڑے شہروں کو جانے والوں کو بھی الوداع کرتی تھیں۔ گاؤں کے اندر پیچ دار اور تنگ و تاریک گلیاں تھیں جہاں گلیوں سے بھی زیادہ پیچ دار اور تنگ و تاریک لوگوں کا بسیرا تھا۔
میں آج سے تقریباً اکیس سال پہلے اِسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔اِسی گاؤں میں پچپن سال کے بزرگوں کے زیر سایہ میرے بچپن کے دن گزرے۔میں نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں سے تقریباً آدھا کلومیٹر دور واقع ایک گورنمنٹ سکول سے حاصل کی۔سکول میں تین خستہ حال کمرے تھے جن کو شدید سردیوں اور برسات کی بارشوں میں ہی استعمال میں لایا جاتا تھا سو معمول میں ہم سب سکول کے میدان میں لگے ببول کے درختوں کے نیچے ٹاٹ بچھا کر پڑھتے تھے۔سکول کی چار دیواری نہ ہونے کے برابر تھی۔سکول کے بالکل سامنے علمبردار چوک کے اُس پار چچا فتح محمد کا کھوکھا تھا جہاں سے ہم اسمبلی سے پہلے اور تفریح کے وقت چیزیں خریدا کرتے تھے۔
شاید یہ دوسری جماعت کا واقعہ ہے کہ اُس دن جب میں سکول پہنچا تو ابھی اسمبلی میں تھوڑا وقت باقی تھا۔میں نے چچا فتح محمد کے کھوکھے کا رخ کیا تو میں نے کھوکھے کے ساتھ ملحقہ ڈسپنسری کی دیوار پر ایک انعامی اسکیم کا اشتہار چسپاں دیکھا۔انعامات کی فہرست میں سائیکل، وی سی آر، گیند بلا، انگوٹھی، ریڈیو سیٹ،گڑیا اور متعدد چیزیں شامل تھیں۔میری نظریں اس اشتہار پہ بنی ہوئی انگوٹھی پہ جم گئیں۔اس طرز کی انگوٹھیاں میں نے پہلے بھی متعدد بزرگ ہاتھوں میں دیکھ رکھی تھیں مگر نہ جانے کیوں انہیں کسی دوا کی طرح بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا تھا چنانچہ میں نے ارادہ کر لیا کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے،میں اس انگوٹھی کو پا کر ہی دم لوں گا۔
” چچا پھتہ! یہ انعامی پڑیا کتنے کی ہے؟ “ ہم چچا فتح محمد کو پیار سے چچا پھتہ پکارتے تھے البتہ پہلے کس نے پیار میں ایسی غلطی کی، کچھ معلوم نہ تھا مگر اب یہ نام زبان زدِ عام تھا۔
” دو روپے کی۔۔۔ “ چچا جی بھی بندہ تاک کر قیمت اوپر نیچے کر لیتے تھے۔خیر میں نے اپنی جیب سے وہی دو روپے نکالے جن پر چچا جی کی نظریں جمی تھیں اور انکے ہاتھ پر تقریباً مارنے والے انداز میں رکھتے ہوئے کہا کہ اچھا ایک پڑیا دے دیں۔
چچا جی نے ڈبے سے جب ایک پڑیا نکال کر میرے ہاتھ میں تھمائی تو سب سے پہلے میں نے اس کو کسی مقدس صحیفے کی طرح بوسہ دیا اور پھر جتنی بھی سورتیں قاری صاحب نے مار مار یاد کروا دی تھیں،اس پڑیا پر پڑھ کر پھونک دیں۔اب میں آہستہ آہستہ پڑیا کا کاغذ پھاڑتے ہوئے دل ہی دل میں خدا سے دعا کرنے لگا کہ آج ہی انگوٹھی نکل آئے مگر شومئی قسمت کہ وہاں پرچی پر ”ٹرائی آگین“ کے سوا کچھ نہیں لکھا تھا۔میں اس ترکیب کو لکھا دے کر جتنا مایوس ہوا،چچا جی اتنے ہی خوش تھے کہ چلو جی مچھلی دوبارہ جال میں پھنس گئی۔
میں وہاں سے افسردہ لوٹ آیا۔اسمبلی کا وقت ہوا چاہتا تھا۔میرا دماغ اسمبلی کے دوران بھی کہیں اور غائب تھا۔ اُس دن زندگی کسی شمع کی صورت کی بجائے انگوٹھی کی صورت اختیار کئے ہوئے تھی کہ جیسے کسی جن نے اُسے انگوٹھی میں قید کر دیا تھا۔اسمبلی ختم ہوتے ہی میں نے اپنے لنگوٹیے یار ‘قیلے’ جس کا اصل نام عقیل تھا،کو پکڑا اور پوچھا: ” یار تجھے پتا ہے کہ چچا پھتہ انعامی پڑیاں لایا ہے؟ “
” اچھا! “
” ہاں یار صرف دو روپے کی ایک۔۔۔سائیکل،وی سی آر،گیند بلا،انگوٹھی،ریڈیو سیٹ،گڑیا اور بہت کچھ۔۔۔ “ میں نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
” چل پھر تفریح کے وقت دیکھتے ہیں۔ ابھی استاد شفیع ہماری طرف ہی آ رہے ہیں۔۔۔چپ کر جاؤ۔ “ چنانچہ اس خواہش کا حتمی فیصلہ تفریح کے وقت تک ملتوی ہو گیا یا پھر شاید کسی نامعلوم وقت تک۔۔۔
اِدھر تفریح کی گھنٹی بجنے کی دیر تھی کہ ہم دونوں نے جزدان سمیٹ کر رکھے اور چچا جی کے کھوکھے کی طرف چل دیے۔
” تو کیا چاہتا ہے کہ تیرا کیا نکلے؟ “ میں نے راستے میں اُس سے پوچھا۔
” یار!۔۔۔ریڈیو سیٹ “ اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
” اچھا یار۔ میں نے صبح ہی انعامی پڑیا کھولی مگر ٹرائی آگین نکل آیا۔۔۔ “ وہ اس پر مسکرایا مگر میں اپنے وسیع تر مفاد میں اس کی مسکراہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے پھر سے گویا ہوا: ”یار اب تو انعامی پڑیا خرید۔۔۔ اگر ریڈیو سیٹ نکلا تو تیرا اور اگر انگوٹھی نکلی تو میری۔۔۔ میں پیسے تجھے گھر جا کر دے دوں گا اگر میری انگوٹھی نکلی۔ “
” اور اگر پھر سے ‘ٹرائی آگین’ نکلا تو؟ “ اس نے مایوسی سے پوچھا۔
” اللہ بہتر کرے گا یار۔۔۔۔تو خرید تو سہی۔ “ میں نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
” اچھا یار۔ “ اس نے آخر کار ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
ہم چچا پھتے کے کھوکھے پر پہنچے تو بہت رش تھا مگر جیسے تیسے ہم نے جگہ بنا ہی لی۔ عقیل نے چچا جی سے ایک انعامی پڑیا طلب کی اور اِدھر میں دوسرے بچوں کو دیکھنے لگا کہ کہیں کسی کی انعامی پڑیا سے انگوٹھی نہ نکل آئی ہو۔میں دوبارہ عقیل کی طرف متوجہ ہوا تو وہ آسمان کی طرف منہ کر کے ہاتھ سے پڑیا کا کاغذ پھاڑ رہا تھا۔پڑیا سے جو پرچی نکلی تھی اس نے اُسے کھول کر پڑھا تو قسمت کی دیوی مجھ پر مہربان ٹھہری یعنی انگوٹھی نکل ہی آئی۔عقیل مایوس ضرور ہوا مگر میں نے اسے تھوڑا حوصلہ دیا اور اِدھر چچا جی نے کھوکھے کے کسی کونے سے وہ انگوٹھی ڈھونڈ کر عقیل کو تھما دی اور عقیل نے مجھے۔۔۔
انگوٹھی میرے ہاتھ میں تھی۔ وہ کوئی جادوئی انگوٹھی تھی کہ میرے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کس چیز سے بنی ہے البتہ وہ سونے کی انگوٹھی کی طرح لگتی تھی۔ آخر کار میں نے اس انگوٹھی کو پہننے کی کوشش کی تو اس کا حلقہ تھوڑا سا تنگ تھا۔ عقیل نے تھوڑا سا زور لگایا تو وہ میری انگشتِ شہادت میں بمشکل آ ہی گئی۔ میں پوری تفریح میں یا اس کو دیکھتا رہا یا عقیل کو حوصلہ دیتا رہا۔ اب مجھے گھر جانے کی بہت جلدی تھی تا کہ جا کر امی جان کو دکھاؤں مگر ابھی چھٹی میں بڑا وقت پڑا تھا۔
میں نے تفریح کے بعد کے دو گھنٹے مشکل سے گزارے اور چھٹی ہوتے ہی میں نے آدھے کلومیٹر کا فاصلہ پانچ منٹوں میں طے کیا۔ بالآخر میں گھر پہنچا تو انگوٹھی امی کو دیکھاتے ہوئے فرطِ جذبات میں بولا: ”دیکھیں امی یہ بالکل آپ کی انگوٹھی کی طرح ہے نا؟ “
” یہ کیا!!! ۔۔۔ یہ پلاسٹک کی انگوٹھی تمہیں کس نے پہنا دی؟ “ امی نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
” میں نے خود پہنی ہے۔۔۔۔ انعامی پڑیا سے نکلی ہے۔ “
” یہ اتار دو۔ یہ پلاسٹک کی ہے۔ “
” نہیں نہیں میں نہیں اتاروں گا۔۔۔۔ یہ بالکل سونے کی انگوٹھی کی طرح لگتی ہے۔ “
” نہیں ہے یہ سونے کی! “
” ہاں تو لگتی تو ہے نا۔میں نہیں اتاروں گا۔۔۔ آپ بس مجھے دو روپے دیں۔ میں نے عقیل کا ادھار واپس کرنا ہے۔ “ خیر میں نے رو دھو کر امی جان سے پیسے بٹورے اور عقیل کو اس کا ادھار واپس کیا اور کہا کہ کل ان شاءاللہ اس کا بھی ریڈیو سیٹ نکل آئے گا۔
میں نے انگوٹھی تو امی جان کے سمجھانے بجھانے کے بعد بھی نہ اتاری مگر ایک مسئلہ تھا کہ انگوٹھی کا حلقہ تنگ تھا۔۔۔۔ نہ صرف یہ کہ تنگ تھا بلکہ روز حلقے کے گرد موجود بڑھا ہوا پلاسٹک کسی آلے کی طرح میری انگلی میں اتر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ درد بڑھ رہا تھا مگر اپنے پالے درد کون کسی کو بتاتا ہے۔ بالآخر یہ ہوا کہ وہ اتنا اترا کہ میری انگلی سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ یہ دیکھ کر تو ابو امی کی جان ہی نکل گئی۔ ابو نے پہلے صابن اور پھر لوشن لگا کر وہ انگوٹھی نکالنے کی کوشش کی مگر ایک تو وہ انگلی کے بہت اندر تک اتر گئی تھی اور دوسرا میں اسکے باہر کی طرف کھینچے جانے کی تکلیف سے تلملا اٹھتا تھا سو وہ نہ نکلی۔آخر کار سہ پہر میں ابو جب اپنے دوا خانے سے کوئی خاص قینچی لینے گئے تو میں بھاگ کر اپنے پڑوس میں مکین پھوپھو کے گھر جا گھسا مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ پناہ ملی تو کہاں ملی۔۔۔۔۔۔ پہلے تو سب نے مجھے بہت منانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔آخر کار وہیں پر سب نے میرے ہاتھ پاؤں قابو کیے اور ابو نے نہایت ہنر مندی سے انگوٹھی کو کاٹ کر نکالا اور پھر فورا پٹی باندھ دی لیکن میں بہت رویا اور مسلسل روتا جا رہا تھا۔
” میں اپنے بیٹے کو خود اپنی فیروزے کی انگوٹھی دوں گا۔تم وہ پہن لینا۔۔۔۔ سونا مرد نہیں پہنتے۔ “ ابو نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو کہا۔
خیر میں کچھ دیر تک درد سے یا شاید پھر انگوٹھی کی جدائی میں روتا رہا۔
” اب اپنی انگوٹھی دیں نا؟۔۔۔اور ہاں میری پہلی کٹی ہوئی پلاسٹک کی انگوٹھی بھی دے دیں۔ “ میں نے شام کو موڈ بہتر ہوتے ہی ابو سے مطالبہ کر ڈالا۔
” یہ لو بابا!۔۔۔ “ ابو نے فیروزے کی ایک انگوٹھی مجھے دیتے ہوئے کہا۔ ” اور ہاں وہ پلاسٹک کی انگوٹھی تمہاری پھوپھو نے ڈسٹ بن میں پھینک دی تھی۔ “
” یہ کیا کیا آپ نے! “ میں نے احتجاجاً کہا پھر کچھ لمحے سوچنے کے بعد میں نے فوراً پھوپھو کے گھر کا رخ کیا۔
” پھوپھو! پھوپھو! کہاں ہیں؟ “ میں نے صحن میں کھڑے ہو کر آواز دی۔
” یہاں ہوں۔ “
” اچھا پھوپھو آپ نے کچرا پھینکا تو نہیں؟ “
” نہیں ۔۔۔۔مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ “ میں یہ ” نہیں “ سننے کے بعد کہاں کسی سوال کا جواب دینے لگا تھا۔ ڈسٹ بن کے پاس پہنچ کر میں نے اُسے الٹ دیا اور کھنگالنے لگا یہاں تک کہ کچرا زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً پانچ منٹ میں میں نے اُسے ڈھونڈ لیا ۔
” اب اس کا کیا کرو گے؟ “ پھوپھو جو میری کاروائی کا جائزہ لینے ابھی پہنچی تھیں، نے پوچھا۔
” یادگار کے طور پہ رکھوں گا۔ “ میں نے واپس جاتے ہوئے کہا۔
” یادگار؟ “
” ہاں یادگار! “ میں نے خارجی دروازے کے قریب پہنچتے ہوئے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔