ابوبکر کی خود کلامی

 In تاثرات

الا یا ایھا الابجد ! زندگی سادہ و معصوم ہے، ایسی معصوم کہ عیار معلوم ہو۔ نوعمروں کی طرح خود مست، تنہا کھیلتے رہنے کی عادی۔ آپ ہی پہلے کسی اوٹ میں جا چھپے، خود ہی باہر نکلے اور یاد کرے؛ بھلا خود کو میں نے کہاں چھپایا؟؟ پھر خود ہی خود کو ڈھونڈنے لگے۔ گمان کہتا ہے اس کھلاڑی کو سدا سب یاد رہتا ہے؛ حالت کہتی ہے، نہیں، بیشتر یہ کم سن واقعتاً خود کو کہیں رکھ کے بھول جاتا ہے اور دراصل یہی اسے زیبا ہے۔ اس نوخیر پر تہمت دانائی ناحق۔ اہل علم ان چمکتے گالوں پر روشنائی سے مونچھیں بنا کر مطمئن ہو رہتے ہیں، ہورہیں، لونڈا کبھی مکتب کو نہ آنے کا۔ سو اہل حال اسے دیکھ کر محض دیکھے جانے کے قائل ہیں۔ معصوم کا اکرام یہ ہے کہ اسے اسکے حال میں دیکھا جائے۔ یہی ان دنوں میرا مشرب ہے، اپنے بازیچہ شب و روز کے اک طرف آپ تماشائی بنا بیٹھا ہوں، اس آج اور کل کے کھیل دیکھتا جاتا ہوں، اگرچہ نہ ماضی و حال کا کچھ سراغ نہ ہی مستقبل کا کوئی سرا، مگر بچوں کے کھیل کی سمجھ آئے بھی تو کیونکر۔ کبھی خود پر بھروسہ کیے رکھتا تھا، اب اپنے آپ پر مصر رہتا ہوں، اس بچے کی طرح، جو بھول جانے کے خوف سے سبق زیر لب بڑبڑاتا جائے، یونہی اپنی یکتائی کی دہرائی میں غرق ہوں۔ بیٹھے بیٹھے اکثر ما اعظم شانی کہہ اٹھتا ہوں اور پھر فوراً آپ ہی تصدیق بجالاتا ہوں۔ باقیوں کو خبط عظمت کا مرض ہوتا تھا مجھ میں ضبط عظمت کی اچھائی آ نکلی ہے۔ حضرت ابوبکر اب آپ پر اور کیا کیا کہیے، آپ سے بہتر کون جانے۔

مگر اس پرحالی میں بھی اوروں کی اصلاح سے باز نہیں آتا۔ ملنے ملانے والوں سے بھی محض اپنی باتیں کرتا ہوں، سنا تھا عقلمندوں کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ مارے حیرت کے ایک صاحب پوچھ بیٹھے؛ بتایا پیشگی سالانہ تنخواہوں کی طرح میں نے عمر بھر کی کامرانیاں یکمشت نکلوا لی ہیں۔ آدھ پون صدی بعد کے نام کا سود ابھی سے کھاتا ہوں اب اگر ادائیگی نہ بھی کرپایا تو میری قبر پر کچھ بھی رکھ کر یا استاد کہہ دینا۔ جب یہی سوال خود سے دہرایا تو خیال آیا؛ اپنے یاروں دوستوں میں سے آدھے تو علی الاعلان پاگل ہو گئے، جو باقی بچے سو انہوں  نے رسماً نکاح کرلیے۔ تم کہ دونوں طرح نجات نہ پا سکے، اس ایجاد کردہ تکبر کی خود لذتی سے بھی ہاتھ اٹھا لو تو کیا کرو گے؟ اسی ہاتھ سے سر لال کرو گے یا یہی ہاتھ پیلا ہو جانے دو گے۔ جھرجھری سی آ گئی، ذہن  اور بھی خالی ہو گیا، تب کہیں دل کو تصفیہ نصیب ہوا۔ زندگی منشور سے غزل ہوتی ہوتی جیسے سراپا آزاد نظم بن گئی ہو، مصرع مصرع جسکا اپنے آپ میں مرحب ہو، اس جنگ خیبر میں ابوبکر کا کیا کام۔  بیٹھے بیٹھے دیکھتا رہتا ہوں۔ ذرے ذرے میں میدان دکھائی دیتا ہے۔ ہر اک شے ہر نظر ٹھہر جاتی ہے۔ ہاں مگر آئینہ دیکھنے کی لذت گم ہوئے زمانہ ہوا۔ ایسے تذکروں میں اپنی صورت پڑھنے بیٹھتا ہوں جو اب تک کبھی لکھے ہی نہ گئے۔ چہرہ سامنے نہ رہا مگر اپنا منظر اک پل کو بھی غائب نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو صاف نظر آنے لگتا ہے، کلام کی پہاڑیوں کے اس طرف اک لشکر سکوت حملے کو تیار کھڑا ہے۔ اپنی ندا پر ایمان لائے چپ چاپ ہورہتا ہوں۔ سکون کی تڑپ خود متضاد اور لاعلاج مرض ہی سہی، یہ بھی نہ ہو تو کس تڑپ سکون آئے۔ زندگی آئینے میں عکس سی اک شے ہے جسے چھونے کی شدید خواہش اسے سرے سے توڑ دیتی ہے۔ بیٹھ رہو، دیکھتے رہو اور کچھ نہ کہو۔

خودکلامی کیسی دو دھاری تلوار ہے، ادھر عکس کی گردن اڑتی ہے یہاں اپنا حلق کٹنے لگتا ہے۔ باطن کو نکلتی ہر راہ ہماری جنت اور جہنم دونوں کو جاتی ہے۔ ہر وہ شے جو معرفت ہے عین وہی شے خودکشی بھی ہے۔ جو چراغ  بھی من میں جلتا ہے اسکا اندھیرا بھی من میں ہی بھرتا ہے۔ پس بچو، تازہ کلام سے، نئے قدم سے اور نوخرید کردہ چراغوں سے۔ سو چپ رہو، بیٹھے رہو ، جو کچھ دکھائی دے وہی دیکھو۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search