چین کی کہانی۔ تحریر: عامر منیر

 In تاثرات

ہمالیہ کے اِس طرف ہم تاریخ برصغیر میں یہ پڑھ کر دانتوں میں انگلیاں داب لیتے ہیں کہ مغلیہ خاندان نے برصغیر پر سوا تین سو  (325) سال تک حکومت کی۔ جبکہ مغلیہ دور سے پہلے مسلمانوں کی حکومت کی تین صدیاں پانچ خاندانوں مملوک، خلجی، تغلق، سادات اور لودھی ادوار پر مشتمل رہی تھیں۔ اُدھر عظیم ہمالیائی دیوار کے پار، سطح مرتفع تبت سے پَرے سلطنت وسطیٰ (مڈل کنگڈم) میں بسنے والے چینی ہیں جن کی تاریخ 2070 قبل مسیح سے 220 عیسوی تک لگ بھگ تئیس(23) صدیاں پانچ خاندانوں کی حکومت میں نپٹ جاتی ہے اور ان میں پہلا تحریری ریکارڈ رکھنے والے ژو خاندان کی حکومت کا دورانیہ لگ بھگ سات سو نوے (790) برس پر محیط ہے، یعنی برصغیر پر مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت کے کل دورانیہ سے بھی زیادہ ۔۔۔ چین کے سوا دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جسے ماضی قدیم کی کسی سلطنت کا براہ راست تسلسل قرار دیا جا سکے، اس سے کہیں زیادہ بڑی اور خوشحال سلطنتیں جن کی شان و شوکت سے صدیاں مرعوب رہی ہیں، بالآخر ٹکڑوں میں بٹ کر ورق پارینہ ہو گئیں اور دوبارہ کبھی تاریخ کے اوراق پر نہ ابھریں۔ لیکن چین کی تاریخ میں طوائف الملوکی اور ٹکڑوں میں تقسیم کا ہر دور عارضی اور مختصر رہا ہے اور بالآخر کسی نہ کسی خاندان کی حکومت تلے کئی صدیوں تک دوبارہ اکٹھے رہنے پر منتج ہوا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بحرالکاہل کے لامتناہی پانیوں، عظیم ہمالیائی دیوار اور گوبی اور تکلامکان کی مہیب صحرائی وسعتوں کی سہ طرفہ حدبندی میں محصور، دریائے یانگ زی کے کناروں سے لپٹی، اس کے تباہ کن سیلابوں کی تاخت و تاراج سہتی چینی تہذیب کے لئے ایک مرکزی حکومت کے دامن سے خوفزدہ بچے کی مانند لپٹ رہنا ہی بقا کا ضامن تھا ۔۔۔ چین کی تاریخ کا ایک اور نمایاں پہلو اس کی آبادی ہے، ایک محتاط تخمینے کے مطابق عیسوی سن کے آغاز پر دنیا کی آبادی لگ بھگ بیس کروڑ انسانوں پر مشتمل تھی اور اس کا تقریباً ایک تہائی، یعنی ساڑھے چھ کروڑ انسان تب بھی چین میں آباد تھے۔ قحط، خانہ جنگیوں اور قدرتی آفات کے سبب وقتاً فوقتاً چین کی آبادی میں ڈرامائی کمی واقع ہوتی رہی ہے اور ایسا دور بھی گزرا ہے جب یہ آبادی گھٹ کر محض ساڑھے تین کروڑ رہ گئی لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں جب پہلی مرتبہ زمین پر انسانی آبادی ایک ارب کی تعداد کو پہنچی، اس وقت بھی اس کا ایک تہائی یعنی لگ بھگ تینتیس کروڑ نفوس چین میں آباد تھے۔ ایک مضبوط مرکزی نظام کا تسلسل اور اتنے زیادہ افراد کے باہم تفاعل پر مشتمل ایک پیچیدہ تہذیبی میکانزم چینی تاریخ کو ایک ایسی انفرادیت بخشتے ہیں جس کی مثال کسی دوسری تہذیب، سلطنت اور جدید ریاست کی تاریخ میں ملنا ممکن نہیں۔

باعث تحریر آنکہ – آج کل چین کی تاریخ پر مشتمل بی بی سی کی ایک ڈاکومنٹری ’’دا سٹوری آف چائنا‘‘ دیکھی جا رہی ہے۔ میزبان چینی تاریخ کا خاصا جوشیلا پرستارمعلوم ہوتا ہے اور اس کے مختلف مظاہر کو جدید مغربی تعبیرات کا جامہ پہنانے کا شوقین بھی، لیکن مجموعی طور پر اچھی ڈاکومنٹری ہے اور چینی تاریخ سے ابتدائی تعارف کے لئے کارآمد۔

چھ اقساط پر مشتمل ’’دا سٹوری آف چائنا‘‘  دیکھنا سٹار ٹریک اور وائکنگز جیسی مشہور و معروف ٹی وی سیریلز دیکھنے سے کم پرلطف نہیں تھا۔ چینی تاریخ اور ثقافت کی انوکھی جہات اور ان کے ہزاروں سالہ تسلسل سے ایک منظم اور مربوط انداز میں شناسائی پراثر اور خیال انگیز تو ہے ہی، یورپ کی استعماری قوتوں کے ہاتھوں بالعموم اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں بالخصوص ہزیمت خوردہ اور تباہ حال چین سے برصغیر کا ناظر براہ راست ایک ذاتی اور قلبی نوعیت کا تعلق پیدا کر سکتا ہے۔ اس ڈاکومنٹری کے توسط سے ماضی قریب کی چینی تاریخ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں اور شرانگیزیوں کے بارے میں معلوم جستہ جستہ حقائق کو پہلی مرتبہ ایک مکمل اور مربوط تناظر میں جمع کرنے کا موقع ملا۔ چین میں یورپی اثر و رسوخ کے نفوذ کا ابتدائی دور بڑی حد تک برصغیر میں یورپی دراندازی کے ابتدائی دور جیسا ہے، شہنشاہ کی خوشنودی کے لئے کوشاں مختلف یورپی طاقتوں کے سفیر، عیسائیت کی تبلیغ کے لئے پرجوش مشنری اور کاروباری مہمات میں سرگرداں تاجر، ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے بظاہر بے ضرر اور ملنسار لوگ جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ان سے مقامی لوگوں اور باشندوں کو کسی قسم کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

 زیرِنظر سطور  ،  تلخیص نہیں بلکہ تاثرات  پہ مشتمل ہے، ایک ہندی ذہن کی چینی تاریخ کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش ۔ ورنہ ڈاکومنٹری میں تو استعماری قوتوں کی چیرہ دستیوں کا تذکرہ بڑے مختصر انداز میں کیا گیا ہے اور ان کی تعمیر کردہ عالیشان یورپی طرز تعمیر کی حامل عمارتوں کو با اہتمام دکھایا گیا اور چینی فکر پر ’’مغربی اثرات‘‘ کو فخریہ بیان کیا گیا ہے۔چینی تاریخ سے میرا ابتدائی تعارف تھا اور یہ تحریر چینی تاریخ اور موجودہ چین کے متعلق معلوم جستہ جستہ حقائق کو ایک منظم تاریخی فریم ورک میں مربوط کر کے دیکھنے کی ایک کوشش ہے اور واضح طور پر اس میں جھول بھی ہیں اور گہرائی کی کمی بھی ۔۔۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی جواب کے غلط ہونے کا اچھا خاصا امکان ہے۔

٭٭٭٭٭

 جس طرح مورخ تعجب سے انگلی دانتوں میں دبا کر پوچھتے ہیں کہ مغل حکمرانوں کو اپنا بحری بیڑہ تیار کرنے کا خیال کیوں نہ آیا، اسی طرح چِنگ خاندان کے بارے میں بھی حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے چین کا اپنا بحری بیڑہ کیوں نہ تشکیل دیا حالانکہ یورپیوں کی آمد سے لگ بھگ تین صدیاں قبل ایک چینی امیرالبحر کی بحری مہمات کے قصے چین کی لوک کہانیوں اور اساطیر کا حصہ چلے رہے تھے۔ اس ضمن میں قرین قیاس مفروضہ یہ ہے کہ جزیرہ نما اناطولیہ پر بالعموم اور استنبول پر بالخصوص دولت عثمانیہ کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد سے اہل یورپ کے لئے بیشتر پرانے تجارتی راستے عملاً بند ہو چکے تھے اور ایشیا کے ساتھ ان کی تجارت دولت عثمانیہ کی خوشنودی پر منحصر  تھی۔ یہ صورتحال اہل یورپ کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں تھی اور اس کے تدارک اور ازالے کی فکر ان بحری مہم جوئیوں اور تکنیکی بہتریوں کا باعث بنی جن کے بطن سے پرتگال، نیدرلینڈ، ہسپانیہ اور برطانیہ جیسی عالمی سطح کی بحری قوتوں نے جنم لیا۔ ادھر دہلی میں پاؤں پسارے مغل حکمرانوں اور بیجنگ میں داد عیش دیتے چِنگ حکمرانوں کو ایسی کوئی فکر اور کوئی مجبوری لاحق نہ تھی، بلکہ شاید وہ یہ بھی سمجھتے ہوں کہ ان کی لاکھوں مربع میل اور کروڑوں نفوس پر محیط سلطنتوں کے لئے کوئی خطرہ ہزاروں کشتیوں میں سوار ہو کر بھی نہیں آسکتا، لفظ ’’خطرہ ‘‘   ان کے تصور میں چنگیزخان اور تیمور لنگ کے لشکروں جیسے کسی لشکر کی نقشہ کشی کرتا ہو گا، یا کسی بڑے قبیلے یا مقامی حکمران کی بغاوت کا، ہزاروں میل دور سے سمندری لہروں کے تھپیڑے کھاتے، ہواؤں اور طوفانوں کے رحم و کرم پر ڈولتے چلے آتے بحری جہازوں کے ساتھ ’’خطرے ‘‘  کا تصور قائم کرنا شاید ان کے ذہنی چوکھٹے میں کسی حد تک مضحکہ خیز بھی ہو۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں اور سیاسی ریشہ دوانیوں کا مرکز، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، برصغیر پاک و ہند کا علاقہ تھا۔ اٹھارہویں صدی تک چینی مصنوعات ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں کا ایک معمولی سا حصہ تھیں۔ چین ایسٹ انڈیا کمپنی کی توجہ کا مرکز تب بنا جب برطانیہ میں چائے نے بحیثیت ایک عوامی مشروب مقبولیت حاصل کر لی اور چائے کی مانگ دن بدن بڑھنے لگی۔ چینی حکومت نے غیرملکی تجارتی سرگرمیوں کو نہایت سخت ضابطوں میں جکڑ رکھا تھا اور صرف حکومت کے متعین کردہ میکانزم کے توسط ہی چائے کی خریداری ممکن تھی، اس پر مستزاد یہ کہ یورپ میں ایسی کوئی خاص مصنوعات پیدا نہ ہوتی تھیں جن کی چینی مارکیٹ میں طلب ہو، اس وجہ سے یورپی تاجروں کو نقد چاندی کی شکل میں ادائیگی کرنا پڑتی تھی اور یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس میں کامیابی اور منافع صرف نقد چاندی کی رسد پر منحصر تھا، بھلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے گودام انواع اقسام کی مصنوعات سے بھرے پڑے ہوں، چائے کی خریداری کے لئے انہیں نقد درکار ہوتا تھا اور یہ اچھا خاصا درد سر تھا۔ اس صورتحال میں تبدیلی تب آئی جب چین میں افیم کی مانگ بطور نشہ بڑھنے لگی۔ افیم، بطور ایک دوا، ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں کا نہایت معمولی حصہ تھی جو چینی حکیموں کی طلب پوری کرنے کے لئے سالانہ چند صندوق کی مقدار میں برصغیر، خطہ بنگال سے برآمد کی جاتی تھی۔ اس کی طلب بطور نشہ تب پیدا ہوئی جب اسے تمباکو میں ملا کر سگار نما پائپوں کے ذریعے پیا جانے لگا، یہ نشہ پہلے طبقہ امراء اور پھر عام لوگوں میں پھیلتا چلا گیا۔ افیم کی شکل میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک ایسی پراڈکٹ میسر آ گئی جسے چین کو برآمد کرکے اس کے بدلے چائے خریدی جا سکتی تھی اور نقد چاندی کی فراہمی کے جھنجھٹ اور چین کے ساتھ تجارت میں مجموعی طور پر خسارے سے بچنا ممکن تھا۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستانی افیم کی درآمد چند صندوقوں سے بڑھ کر سالانہ دو ہزار صندوقوں تک جا پہنچی اور چینی شہروں کی سڑکوں پر افیمی نشے میں دھت پڑے دکھائی دینے لگے تو چینی حکومت نے افیم کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ لیکن یہ پابندی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بد ارادوں، افیم اور چائے کی تجارت سے بے حساب دولت اکٹھی کر چکنے والے چینی تاجروں کی ہوس اور دولت کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے خواہاں بددیانت چینی افسروں کے لالچ کے آگے کارگر ثابت نہ ہوئی اور افیم کی غیرقانونی تجارت نہ صرف جاری رہی بلکہ دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ اس کہانی میں ہمارے یہاں آج کل پائی جانے والی اس ذہنیت کے لئے بھی سبق ہے جن کا خیال ہے کہ کرپشن سے ملک و قوم کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، بدعنوانی کے نقصانات چینیوں سے پوچھیے جنہیں افیم کی غیرقانونی تجارت میں ملوث بدعنوان حکومتی اہلکاروں کے سبب ’’ذلت کی ایک صدی‘‘ سے گزرنا پڑا۔

افیم کی یہ کہانی صرف چین میں اس نشے کے پھیلاؤ اور تباہ کاریوں کی کہانی نہیں، بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوس منافع کے ہاتھوں ہندوستانی زراعت کی تباہی کا قصہ بھی ہے۔ افیم کی پیداوار کا ابتدائی مرکز بنگال کا علاقہ تھا، لیکن چین میں دن بدن بڑھتی طلب کو پورا کرنا بنگال میں پوست کے کاشتکاروں کے لئے ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پوست کی کاشتکاری کے لئے دریائے گنگا کے کناروں کا رخ کیا اور ہندوستان بھر کو اناج فراہم کرنے والے زرخیز علاقوں میں پوست کی کاشتکاری کو فروغ دے کر برصغیر کے صدیوں سے چلے آتے زرعی نظام کو تہس نہس کر دیا، روایتی زرعی منڈیاں برباد ہو گئیں اور ان پر منحصر لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کی افیم فیکٹریوں میں مزدوری پر مجبور ہو گئے۔ خطہ برصغیر نے قحط کے دن بھی دیکھ رکھے ہیں اور افراط کے بھی، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں جس طرح آئے دن کے قحط اور خوراک کی عدم فراہمی کے سبب لوگوں کی اموات یہاں کا معمول بن گئیں، ایسا دور پہلے کبھی نہ گزرا تھا۔ اُدھر چین میں افیم کے عادی افراد کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی اور اس کے پیدا ہونے والی معاشرتی خرابیوں اور تباہ ہونے والے خاندانوں کی اتنی زیادہ کثرت ہو گئی کہ چینی حکومت کے لئے اس نشے کی تباہ کاریوں کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا اور شہنشاہ چین نے اپنی دیانتداری اور علمی ثقاہت کے لئے معروف ایک اعلیٰ عہدیدار کو اس مسئلے سے بزور قوت نپٹنے کا فریضہ سونپا۔ مذکورہ عہدیدار نے شہنشاہ کے حسب حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرپرستی میں کام کرنے والے تاجروں اور چینی ’’ غداروں‘‘ کی ملکیت میں موجود تمام افیم کو مسلح قوت کے بل پر ضبط کر لیا، افیم کی تجارت کرنے والے تمام تاجروں کو چین سے نکال دیا ، ان کی دوبارہ چین میں آمد پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کر دی، اور لگ بھگ بیس ہزار صندوقوں کی تعداد میں افیم کو چونا اور نمک ملا کر ضائع کر دینے کے بعد دریا میں بہا دیا۔ اس دور تک بھی چینیوں کے بیرونی دنیا سے بے خبر اور لاتعلق ہونے کا ایک ثبوت اس خط سے ملتا ہے جو اس اعلیٰ عہدیدار نے ملکہ برطانیہ کے نام لکھا تھا اور افیم کی تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، اس کی تجارت پر پابندی لگانے کی اپیل کے ساتھ نہایت سادہ دلانہ انداز میں پوچھا تھا: ’’ آپ کا ضمیر کسی قوم کو اس طرح برباد کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟‘‘  تاہم افیم کی تجارت میں ملوث برطانوی تاجروں کی ہوس اور اثر و رسوخ ملکہ برطانیہ کے ضمیر سے زیادہ طاقتور اور فیصلہ کن حیثیت کے مالک تھے، رشوتوں اور سیاسی چالبازیوں کے بل پر انہوں نے’’ تباہ شدہ مال تجارت کا ہرجانہ وصول کرنے کے لئے‘‘برطانوی پارلیمنٹ کو چین پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا اور برطانیہ نے سرکاری حیثیت میں چین پر پہلا حملہ کیا جو تاریخ میں ’’پہلی جنگِ افیم‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ برطانیہ کے جدید اسلحے اور بحری قوت کے سامنے چین کی دفاعی استعداد بے اثر ثابت ہوئی، چینیوں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور برطانیہ نے تباہ شدہ افیم کا ہرجانہ وصول کرنے اور افیم کی تجارت کو ازسرنو بحال کر لینے کے ساتھ ساتھ کئی چینی بندرگاہوں اور چینی ساحل کے پاس ایک چھوٹے سے جزیرے پر برطانوی حقوق بھی حاصل کر لئے۔ وہ گمنام جزیرہ آج ہانگ کانگ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہے۔

جنگ افیم میں چین کی شکست “ذلت کی ایک صدی” کا آغاز کہلاتی ہے۔ اس شکست نے چینی ذہن کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا، چین کو دنیا کا مرکز، چینی تہذیب کو دنیا کی سب سے اعلیٰ و ارفع تہذیب اور شہنشاہ چین کو دنیا کا سب سے طاقتور حکمران سمجھنے والے چینیوں کے اپنے اور دنیا کے بارے میں روایتی تصورات تہہ و بالا ہو کر رہ گئے۔ برطانیہ نے گویا قرنوں سے قلعہ بند چینی تہذیب اور سلطنت کے قلعے کی فصیلیں مسمار کر ڈالیں اور یورپی استعمار کے نمائندے چینی وسائل میں سے اپنا حصہ چھیننے کے لئے چاروں طرف سے اس پر جھپٹ پڑے۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ، سویڈن، روس سب نے شکست خوردہ چین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے ’’تجارتی معاہدے‘‘ کر لئے جو چین کی تاریخ میں غیرمنصفانہ معاہدے (unfair      treaties) کے نام سے مشہور ہیں، ان معاہدوں نے استعماری قوتوں کو ایسی تجارتی مراعات فراہم کیں جن میں استعماری قوتوں کا فائدہ ہی فائدہ اور چین کا نقصان ہی نقصان تھا۔ برطانیہ کو دیگر یورپی قوتوں کا چین میں بڑھتا ہوا رسوخ پسند نہ آیا اور اس نے شہنشاہ چین سے مطالبہ کر ڈالا کہ برطانیہ کو تمام چینی بندرگاہوں پر تجارت کی اجازت دی جائے، چین کے اندرونی محصولات سے استثنیٰ دیا جائے اور افیم کی تجارت کو قانونی حیثیت دی جائے (جو ہنوز غیرقانونی تھی، لیکن برطانوی تاجر چینی قانون سے استثنا کا حق استعمال کرتے ہوئے اس کی تجارت کرتے تھے) اس مطالبے کو بزور قوت منوانے کے لئے برطانیہ نے ایک چھوٹا سا بہانہ لے کر دوبارہ سے جنگ چھیڑ دی جو ’’دوسری جنگ افیم‘‘کے نام سے معروف ہے۔ اس دوران ہندوستان میں 1857 ءکی بغاوت برپا ہو گئی اور تاج برطانیہ کو اپنی عسکری قوت کا بیشتر حصہ چین سے ہٹا کر ہندوستان پر مرتکز کرنا پڑا۔ حالات کے اس اچانک موڑ کے سبب دوسری جنگ افیم کی تاریخ پہلی جنگ افیم سے مختلف ہو سکتی تھی اگر اس آڑے وقت میں فرانس برطانیہ کی مدد کو نہ پہنچتا جس نے ایک فرانسیسی مشنری کی سزائے موت کو بہانہ بنا کر برطانیہ کے ساتھ اتحاد کر لیا اور برطانیہ اور فرانس کی متحدہ افواج نے ایک بار پھر چینی افواج کو شکست دے دی۔ ہندوستان کی بغاوت سے نپٹنے کے بعد برطانیہ نے پھر توجہ چین پر مرکوز کر دی اور برطانوی افواج شہنشاہ چین کی افواج کو شکست سے دوچار کرتی ہوئیں اس کے مستقر بیجنگ کے شہر ممنوع تک آ پہنچیں، بالآخر شہنشاہ چین کو مزید غیرمنصفانہ معاہدوں کی توثیق پر مجبور ہونا پڑا جن میں افیم کی تجارت کو قانونی حیثیت دینا بھی شامل تھا۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ استعماری قوتوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لینے کے باوجود شہنشاہ چین کو بیجنگ میں ان کے سفارت خانے کھلنا منظور نہ تھا کیونکہ اس کا مطلب یورپی حکومتوں کی حیثیت کو ’’شہنشاہ چین کے برابر‘‘  تسلیم کر لینا تھا اور شہنشاہ چین کو ہنوز یہ منظور نہ تھا کہ کسی دیگر حکمران کو اپنے برابر سمجھے، چہ جائےکہ خود سے برتر۔ تاہم یہ کھوکھلا گھمنڈ بھی برقرار نہ رہ سکا اور آخر میں شہنشاہ چین کو بیجنگ میں یورپی قوتوں کے سفارتی نمائندوں اور شہر ممنوعہ کی مانند ایک یورپی علاقے کے قیام کی اجازت دینا پڑی جس میں چینیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ فاقوں، استعماری قوتوں کی چیرہ دستیوں اور شکست خوردگی کی ذلت کے مارے چینیوں کے لئے یورپی، امریکی اور روسی تاجروں، سفارتی نمائندوں اور فوجیوں کو گھمنڈ، تکبر اور چینی قوانین سے استثنا کے ساتھ پھرتے دیکھنا اور اپنے ہی وطن کے ایک علاقے میں داخل ہونے کے حق سے محروم کر دیا جانا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ تھا جو اپنے ماضی، تہذیبی ورثے اور چینی سلطنت کی بنیاد میں کارفرما اقدار پر کسی قسم کے فخر و ناز کی گنجائش نہ چھوڑتا تھا جبکہ چینی تہذیب کی ساری عمارت ہی اس فخر اور ناز پر استوار تھی۔ اس صورتحال میں کچھ عجب نہیں کہ عام چینی کا شہنشاہ چین پر اعتماد ختم ہونے لگا اور شہنشاہیت مخالف سوچ نے جنم لیا جو بالآخر چینی شہنشاہیت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

٭٭٭٭٭

انیسویں صدی کے آغاز تک چینی، جاپانی، ہندوستانی، ایرانی، ترک اور عرب سب اپنی اپنی جگہ اپنی ثقافتوں کو انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مظہر سمجھتے اور دیگر تہذیبوں اور ثقافتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور ان کے ’’وحشی پن‘‘ اور “اجڈ پن‘‘  کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے۔ اکیسویں صدی کے آٖغاز تک پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ اپنی تہذیب کو انسانیت کی اوج قرار دینے کا حق مجازاً مغربی تہذیب کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے، مغرب کی ترقی کو دیگر تمام تہذیبوں کے لئے ارتقاء کے سفر کا قطب نما سمجھا جاتا ہے اور دیگر تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے لئے اپنے آپ پر فخر کا حق اس سائنسی، معاشی اور فکری امتیاز کے ساتھ مشروط ہے جو تہذیب مغرب کا خاصہ ہے۔

جنگ ِافیم میں شکست کے بعد یورپی استعمار کے ساتھ مغربی اقدار اور تصورات بھی چین میں داخل ہوئے جنہیں اہل چین عمومی حالات میں اپنے روایتی فکری چوکھٹے کے اندر حقارت کی نظر سے دیکھتے اور شاید کبھی درخور اعتنا نہ جانتے، لیکن ایک ایسی کیفیت میں جب ہزاروں برس سے ان کی زندگیوں کو مقصد اور معنی فراہم کرنے والے تصورات خود اپنی معنویت اور مقصدیت کھو بیٹھے تھے، ان نئے تصورات نے چینی ذہن پر نئے ممکنات کا دروازہ کھولا، نئے رحجانات متعارف کروائے اور ان کے بطن سے چینی شناخت کے کھوئے ہوے وقار کو نئے دور میں ایک  نئے طور پر بحال کرنے کا نیا خواب ابھرنے لگا۔ اس کی ایک انوکھی مثال تائی پنگ بغاوت کے نام سے معروف ایک تحریک ہے، جس کے راہنما ہونگ پر عیسائی مشنریوں کی تعلیمات کا گہرا اثر تھا۔ عیسائی تعلیمات نے روایتی چینی تصورات کے ساتھ مل کر اس کی نفسیات میں کچھ ایسی صورت پیدا کی کہ ہونگ نے عیسائیت تو اختیار نہیں کی لیکن خدا کا چینی بیٹا اور یسوع مسیح کا بھائی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے خواب میں خدا ڈریگن کی تصویر والا روایتی شاہی چوغہ پہنے نمودار ہوا جس نے افسوس کا اظہار کیا کہ کنفیوشس نے چینی قوم کو گمراہ کر رکھا ہے اور اہل چین خدا کے بجائے شیطانوں کی پرستش میں مشغول ہیں، خواب میں خدا نے ہونگ کو ایک تلوار دی اور شیطانوں کا قلع قمع کرنے کا حکم دیا۔ ہونگ نے ’’اس حکم کی تعمیل میں‘‘ ایک فوج اکٹھی کی، ’’تائی پنگ کی آسمانی سلطنت‘‘ کے نام سے ایک نئی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا اور شہنشاہ چین کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہ بغاوت چین کی تاریخ میں خونریز ترین خانہ جنگی کا سبب بنی جس میں لگ بھگ ایک سے تین کروڑ تک چینی ہلاک ہوئے۔ پندرہ برس تک شہنشاہ چین کے لئے خطرہ بنے رہنے کے بعد، پے در پے شکستوں اور بالآخر ہونگ کی موت کے سبب یہ بغاوت ناکامی سے دوچار ہوئی، لیکن اس میں ذلت اور خود شکستگی کے شکار چین کی اپنے لئے ایک نیا فکری چوکھٹا ڈھونڈنے کی بیتاب خواہش کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور ہزاروں برس سے برقرار ایک فکری تسلسل کے نئے افکار اور نئے تصورات کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کو بھی۔

 افیم کی جنگوں میں شکست نے چین میں ’’قدیم ‘‘ اور ’’جدید‘‘کے مابین تفریق کو جنم دیا اور چینی تہذیب کی سمت متعین کرنے کے لئے ’’قدیم ‘‘ اور ’’جدید ‘‘کے درمیان کشمکش شروع ہوئی جس کے دامن سے بالآخر وہ نیا چین ابھرا جسے آج ہم جانتے ہیں۔ ہونگ کی بغاوت قدیم اور جدید کے مابین مصالحت کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ’’باکسر بغاوت‘‘کے نام سے معروف 1899 ءکی بغاوت آتی ہے جسے قدیم فکر کی اپنے دفاع اور چینی تہذیب پر اپنا غلبہ لوٹانے کی آخری کوشش کہا جا سکتا ہے۔ کئی اعتبار سے یہ بغاوت، ہندوستان میں 1857 ءکی بغاوت سے مماثل ہے۔ عیسائی مشنریوں کو حاصل استثنا اور اس کے بل پر عیسائیت کی کھلے عام تبلیغ سے متنفر چینی مارشل آرٹس میں مہارت رکھنے والے مختلف گروہوں نے اکٹھے ہو کر چین کو غیر ملکیوں سے پاک کرنے اور ’’شہنشاہ چین کو استعماری قوتوں کے غلبے سے نجات دلانے‘‘ کے لئے ایک متشدد اور خونریز جدوجہد کا آغاز کیا۔ باکسر بغاوت کے توسط سے مارشل آرٹس چینی قوم پرستانہ جذبات کا ایک جز اور جدید چینی شناخت کا حصہ بن گئے، مارشل آرٹس پر بننے والی چینی فلموں میں اس امر کی واضح جھلک آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم باکسر بغاوت بھی ناکام ہوئی اور اس میں حصہ لینے والے ہزاروں چینیوں کو سرعام پھانسیاں دی گئیں اور ان کے سر قلم کیے گئے ۔

استعماری اثرات کی زد میں آ کر اپنی روایات پر یقین اور اعتماد کھو بیٹھنے والے تقریباً تمام معاشروں کی روایات میں ہمیں آسمانی جواز رکھنے والی اخلاقیات اور زمینی خوشحالی اور امن کے مابین گہرا تعلق ملتا ہے۔ ان اخلاقیات کی پیروی امن، استحکام، اچھی فصلوں، خوشحالی اور بیرونی دشمن کے مقابل آسمانی قوتوں کی حمایت و تائید کی ضامن سمجھی جاتی تھی اور بدامنی، قدرتی آفات، قحط اور دشمنوں سے شکست کو عموماً اپنی اخلاقیات سے روگردانی اور آسمانی قوتوں کی ناراضگی کا نیتجہ سمجھا جاتا تھا۔ (برصغیر کے ناظر کے لئے اس نکتے کی تفہیم کچھ ایسی دشوار نہیں جہاں آج بھی قدرتی آفات، روزمرہ زندگی کی مشکلات اور کافروں کے مقابل ہماری بے بسی کو براہ راست اسلام سے دوری، ایمان کی کمزوری، بددیانتی اور فحاشی وغیرہ سے جوڑا جاتا ہے۔)۔ استعماری قوتوں کا غلبہ ایسے معاشروں میں دشمن کے ہاتھوں مغلوب ہو جانے کی ذلت کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی اور بدامنی جیسے مصائب لے کر آیا تو روایتی فکر نے حسب روایت اس ذلت اور مصائب کا ناتا روایتی اخلاقیات سے دوری کے ساتھ جوڑا اور ان کی طرف پلٹنے کو نجات کی راہ ٹھہرایا۔

 لیکن استعمار اپنے ساتھ ایک نئی سوچ بھی لے کر آیا تھا، ایسی سوچ جو دنیاوی معاملات خصوصاً سیاسی، سماجی اور معاشی امور کو سماوی عوامل کی روشنی میں نہیں بلکہ دنیاوی عوامل اور دنیاوی مقاصد کے تناظر میں دیکھنے کی قائل تھی۔ یہ سوچ کسی فلسفیانہ، تعلیمی، حکیمانہ سیاق و سباق میں نہیں اتری، بلکہ یورپیوں کے اس گھمنڈ کی صورت میں آئی کہ ان کی ایجادات، سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاسی و سماجی ادارے آسمانی اسباب و عوامل کے توہمات پر استوار نہیں ہیں، اس وجہ سے دیگر تمام تہذیبوں کی روایات پر برتری رکھتے ہیں، تہذیب کا اوج کمال ہیں اور خود یورپی استعمار کا دنیا پر غلبہ اس گھمنڈ کے درست اور جائز ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے سوا دیگر تمام تہذیبی اور ثقافتی روایات کو وحشیانہ اور اجڈ سمجھنے کی عادی روایتی فکر نے جب اس گھمنڈ کو جھٹلانے اور اپنی روایتی اخلاقیات کو تہذیب کا اصل اوج قرار دیتے ہوئے روایتی اخلاقیات کی طرف پلٹنے کی تلقین کی تا کہ اس ذلت اور بدحالی سے نجات پائی جا سکے تو خود کو ایک بہت اہم سوال کا جواب دینے سے قاصر پایا۔ روایتی فکر کے پاس مقامی باشندوں کی ذلت اور بدحالی کی توجیہہ تو موجود تھی، اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر روایتی اخلاقیات کی طرف پلٹنا ہی عظمت رفتہ کی بحالی اور خوشحالی کا ضامن ہے تو ان روایتی اخلاقیات سے ایک سو اسی ڈگری پر کھڑے یورپی ایسے طاقتور اور خوشحال کیوں ہیں۔ اگر خوشحالی اور طاقت روایتی اخلاقیات کی پیروی اور آسمانی طاقتوں کی خوشنودی پر منحصر ہے تو روایتی اخلاقیات کی رو سے کافر، بدکردار، لالچی، ظالم اور خدا کو ناراض کرنے والے تقریباً ہر عمل کے مرتکب یورپی کیونکر ایسے طاقتور اور خوشحال ہیں کہ لگ بھگ ساری دنیا ان کے زیرنگیں ہے؟ خدا کو ماننے والے اور اپنی اخلاقیات کی مکمل اطاعت پر مستعد مقامی اشراف بھی کسی نچلے درجے کے بدکردار، ظالم اور لالچی یورپی اہلکار کے سامنے جھکنے اور اس کی اطاعت بجا لانے پر مجبور کیوں ہیں؟ وہ آسمانی قوت جس کے ہم تابعدار اور پیروکار ہیں، اسے اپنے ماننے والوں کی یہ ذلت کیونکر گوارا ہے؟ ان سوالوں کا کوئی اطمینان بخش جواب روایتی فکر کے پاس نہ تب تھا، نہ آج ہے۔ اس کے مقابل نئی سوچ کا یہ تصور زیادہ مدلل اور منطقی تھا کہ طاقت، خوشحالی اور وقار کا دارومدار کسی آسمانی طاقت کی خوشنودی پر نہیں بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی اور انسانی عقل پر ہے، یہ تصور یورپی استعمار کے غلبے اور مقامی باشندوں کی ذلت اور بدحالی ہر دو کی منطقی اعتبار سے زیادہ بہتر اور قابل قبول توضیح کرتا تھا۔ پس کچھ عجب نہیں کہ عظمت رفتہ کو دوبارہ سے پانے کی خواہش میں بہت سے مقامی اذہان نے نئی سوچ کے آگے سر خم کر دیا، اپنی روایات اور اقدار کو ایسی ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے جیسا کہ ان کے یورپی آقا دیکھتے تھے اور اپنی قوم کو نئی فکر کی نہج پر دوبارہ سے تعمیر کرنے کے خواہاں ہوئے۔ ایک عمومی سطح پر تقریباً تمام نوآبادیوں میں ’’قدیم ‘‘  اور ’’جدید ‘‘  کے مابین کشمکش کو اس اختلاف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنی ذلت اور بدحالی کی کیفیت سے نکلنے اور عظمت رفتہ کو دوبارہ سے پانے کا راستہ کیا ہے؟ اپنی روایتی اخلاقیات کی طرف پلٹنا اور آسمانی قوتوں کی خوشنودی کے لئے مزید مستعد ہونا یا روایت کو خیرباد کہہ کر نئی سوچ، نئی اقدار اور سائنسی طرز فکر کو اپناناَ؟

اس تناظر میں چینی تہذیب کو دیکھیے تو شہنشاہ کی ذات چینی سلطنت ہی نہیں بلکہ تہذیب کا مرکز و منبع بھی تھی۔ شہنشاہ صرف چینی سلطنت کا سربراہ نہیں بلکہ فرزند آسمان تھا، آسمان کی طرف سے تعین کردہ چینی معاشرے کا سرپرست جس کی ذمہ داری تھی کہ آسمان اور زمین کے مابین ہم آہنگی کو قائم رکھے۔ دنیا سے کٹے ہوئے، اپنے آپ میں گم، حکومت اور سماج کے درمیان ایک منظم اور نہایت سخت کنفیوشسی تعلق کی پیروی کرنے والے چینی معاشرے کی فعالیت اور بقا ہمیشہ سے ہی شہنشاہ کی مکمل اطاعت اور نتیجتاً شہنشاہ کی چینی معاشرے کے تمام امور پر محکم گرفت کی محتاج رہی تھی۔ لیکن یہ مکمل اطاعت غیرمشروط نہیں تھی، بلکہ کنفیوشسی اخلاقیات میں متعین کردہ اقدار کی پیروی سے مشروط تھی جنہیں آسمان کی خوشنودی اور خوشحالی کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ شہنشاہ کنفیوشسی اخلاقیات پر عامل ہونے کا پابند تھا اور چینی اپنے شہنشاہ کے احکام پر۔ روایتی طرز فکر میں ایسی ذلت اور بدحالی کو آسمانوں کے بادشاہ سے ناراض ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ آسمانی قوتوں نے شہنشاہ سے ناراض ہو کر حکمرانی کا حق واپس لے لیا ہے، اس لئے کچھ عجب نہیں کہ یورپی غلبے کے بعد روایتی طرز فکر کے پیروکار بھی شہنشاہ سے نالاں ہو گئے اور اپنی ذلت اور رسوائی کو براہ راست شہنشاہ کے اعمال سے جوڑتے تھے، جبکہ نئی سوچ کے پیرو بھی کنفیوشسی اخلاقیات کو چین کی بدحالی کا سبب اور شہنشاہ کے ان اخلاقیات کے مرکز میں متمکن ہونے کے سبب شہنشاہی نظام کے خاتمے کو چینی مسائل کا حل سمجھنے لگے تھے۔

ان نظریاتی عوامل کے علاوہ جن عملی اسباب نے افیم جنگوں میں شکست کے بعد شہنشاہ مخالف جذبات کو فروغ دیا، ان میں ایک مانچو مخالف جذبات کا پیدا ہونا تھا۔ حکمران خاندان کا تعلق ’’مانچو ‘‘   قومیت / برادری سے تھا جو چین کی اقلیتی قومیتوں میں سے ایک ہے جبکہ چینی اکثریت کا تعلق ’’ہان ‘‘   قومیت سے ہے۔ جیسا کہ شکست خوردہ اور اپنے بچے کھچے وقار کو سنبھالنے کی کوشش میں مصروف قوموں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، ہان اکثریت میں یہ تصور فروغ پانے لگا کہ یہ شکستیں مانچو لوگوں کی نااہلی، ناکامی کا نتیجہ ہیں جن کا بوجھ ہان اکثریت کو سہنا پڑ رہا ہے، اس قومیتی تعصب اور otherness      of      the      defeated نے شہنشاہ کے خلاف عوامی سطح پر معاندانہ جذبات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

دوسرا اہم سبب مادرملکہ شی زی کا 1861 ءسے لے کر 1908 ء تک چینی شہنشاہیت کے بیشتر معاملات کا مختار ہونا تھا۔ چینی تاریخ کے سب سے انوکھے، متنازع اور یادگار کرداروں میں سے ایک، مادرملکہ شی زی ابتدائی طور پر شہنشاہ کی منظورنظر کنیزوں میں سے ایک تھی جسے باقاعدہ ملکہ کی حیثیت حاصل نہ تھی، لیکن 1861 ءمیں چینی شہنشاہ کی موت کے بعد جب ولی عہد کی عمر صرف آٹھ برس تھی، اس نے دعویٰ کیا کہ بسترمرگ پر شہنشاہ نے شاہی مہر اور ولی عہد کے بڑے ہونے تک امور مملکت کی نگرانی کا فریضہ اسے سونپ دیا تھا۔ حالانکہ ولی عہد کے امورمملکت سنبھالنے کے قابل ہونے تک امور مملکت کی نگرانی کے لئے ایک آٹھ رکنی کونسل الگ سے موجود تھی، لیکن کنیز شی زی کو سیاسی جوڑتوڑ میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی کہ آٹھ رکنی کونسل کو راستے سے ہٹا کر امور مملکت کی زمام اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیاب رہی۔ بظاہر حکومت ولی عہد اور قانونی طور پر شہنشاہ بیگم کی حیثیت رکھنے والی اس کی والدہ کی تھی، لیکن عملاً تمام طاقت شی زی کے ہاتھ میں تھی جس نے اقتدار پر گرفت مضبوط کر لینے کے بعد شہنشاہ بیگم empress      dowager کا خطاب حاصل کر لیا اور اگلی پانچ دہائیاں چین کے شاہی خاندان اور چینی امورمملکت میں ایک نہایت فعال اور طاقتور کردار ادا کرتے ہوئے گزارے۔  چین کے روایتی پدرسری معاشرے میں ایک عورت کے شاہی خاندان اور امورمملکت پر یوں حاوی ہو جانے کو شہنشاہ اور شاہی خاندان کے کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھا گیا اور اس نے شہنشاہ / شہنشاہی نظام کی نااہلی کے تاثر کو مزید پختہ کیا۔ بہت سے چینی سمجھتے ہیں کہ مادرملکہ شی زی نے شاہی خانوادے اور چینی سلطنت کو بے انتہا نقصان پہنچایا، اسے ایک ایسی عورت کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے شہنشاہ اور چینی سلطنت کو پنپنے نہ دیا اور اس کی محلاتی سازشوں کو ان بنیادی عوامل میں سے ایک سمجھتے ہیں جن کے سبب جنگ افیم کی شکست سے تباہ شدہ شہنشاہیت پسند چین دوبارہ کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے تدبر اور فراست سے شہنشاہی نظام کو مزید پانچ دہائیاں سنبھالے رکھا ورنہ شاید دوسری جنگ افیم میں شکست کے بعد ہی چین سے شہنشاہیت کا خاتمہ ہو جاتا۔

جس زاویے سے بھی دیکھیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ چینی شہنشاہیت اپنے آخری دموں پر تھی، بدلے ہوئے حالات میں، عوامی سطح پر ایک مسلسل بڑھتی ہوئی مخالفت  کے مقابل اس کا تسلسل قائم رہنا ناممکن ہو چکا تھا۔ 1908 میں مادرملکہ شی زی کے انتقال کے بعد شہنشاہی نظام بمشکل تین برس مزید قائم رہ سکا اور 1911 ء میں سَن یات سین نے آخری شہنشاہ کا تختہ الٹ کر چینی سلطنت کی جگہ چینی جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا۔

٭٭٭٭٭

سن یات سین کو جدید چین کا بانی اور بابائے قوم father      of      the      nation) )کہا جاتا ہے، کمیونسٹ پارٹی بھی اسے ’’انقلاب کے پیشرو‘‘    کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے اور اس کا نام چینی آئین کے دیباچے میں شامل ہے۔ سن یات سین ایک مغربی تعلیم یافتہ اصلاحات پسند، جس نے عیسائی بپتسمہ بھی لے رکھا تھا، مانچو مخالف جذبات کا حامل تھا اور انیسویں صدی کے آخری عشرے میں شہنشاہ چین کے خلاف ہونے والی کئی بغاوتوں کا حصہ جو سب کی سب ناکام ہوئیں اور سن یات سین کو بھاگ کر جاپان میں پناہ لینا پڑی۔ اس وقت کا جاپان ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک تھا، 1850 ء کے عشرے میں امریکہ سے شکست کے بعد جاپان نے تیزی سے اصلاحات، سائنسی فکر اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا تھا اور چند ہی دہائیوں میں جاپان مغربی طاقتوں کے ہم پلہ ایک قوت بن چکا تھا اور یورپی قوتوں سے برابری کی سطح پر بات کرنے کا اہل تھا۔ بد قسمتی سے اس طاقت اور قوت نے جاپان کو بھی استعماری راہ پر ڈال دیا تھا اور جاپان مشرق بعید پر اسی طرح حکومت کرنے کا خواہاں تھا جیسے استعماری قوتیں افریقہ اور ایشیا ء پر حکمران تھیں۔ چین میں مانچو مخالف جذبات کو فروغ دینے میں جاپان کا اچھا خاصا ہاتھ تھا،  جو چاہتا تھا کہ ہان اور مانچو قومیتوں کے درمیان اس قدر نفرت پیدا ہو جائے کہ ان کا اکٹھے رہنا ممکن نہ رہے۔جاپان کو امید تھی کہ ایک ایسی صورت میں وہ چین پر حملہ کر کے مانچو قومیت پر مشتمل شمالی چین پر قابض ہو جائے گا اور ہان قومیت کی نفرت سے اکتائے ہوئے مانچو جاپانی قبضے کو طوعاً یا کرہاً قبول کر لیں گے اور جاپانی سلطنت کی حدود کو مین لینڈ چائنا تک پھیلانا ممکن ہو جائے گا۔ مانچو مخالف جذبات کا حامل ہونے کے سبب ہی جاپان نے سن یات سین کو خاصی سپورٹ فراہم کی اور سن یات سین جدت پسندی اور جمہوریت کے قائل کئی گروہوں کو اکٹھا کر کے ’’متحدہ لیگ‘‘    کے نام سے ایک بڑی جماعت قائم کرنے میں کامیاب رہا جس نے شہنشاہ چین کے خلاف مزید کئی بغاوتیں برپا کیں لیکن سب کی سب ناکام رہیں، حتیٰ کہ چینی جمہوریت پسندوں کا سن یات سین کی راہنمائی پر سے اعتماد اٹھنے لگا اور جمہوریت پسندوں میں سن یات سین کا شدید مخالف ایک گروہ پیدا ہو گیا جس کا خیال تھا کہ سن یات سین کی نااہلی کی وجہ سے جمہوریت پسندوں کی جدوجہد ناکام ہو رہی ہے۔ سن یات سین کو کامیابی کا موقع مادر ملکہ شی زی کی موت کے بعد اور خاصے ڈرامائی حالات میں ملا۔  

 1908 میں مادرِملکہ شی زی قریب المرگ تھی اور شہنشاہ چین اس کی موت کا منتظر تھا تا کہ اپنے اختیارات دوبارہ سنبھال سکے، لیکن اس کے مرنے سے پہلے خود شہنشاہ کی اچانک موت واقع ہو گئی۔ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ مادر ملکہ کے معتمد جرنیل یوآن شیکائی نے شہنشاہ کو زہر دے دیا تھا، ’’نئی فوج‘‘    کے نام سے معروف جنرل شیکائی کی فوج چینی افواج میں سب سے زیادہ طاقتور اور جدید تھی اور اس نے مادرِ ملکہ کو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں بہت مدد فراہم کی تھی جس کی وجہ سے شہنشاہ کے دل میں جنرل شیکائی کے خلاف بہت عناد تھا۔ ممکنہ طور پر جنرل شیکائی کو ڈر تھا کہ مادر ملکہ کی موت کے بعد شہنشاہ اسے غداری کے الزام میں قتل کروا دے گا۔ شہنشاہ کی موت کے اگلے دن مادر ملکہ شی زی کے حکم سے ایک دو سالہ شہزادے کو شہنشاہ بنا دیا گیا اور اس سے اگلے ہی دن مادر ملکہ شی زی کی موت بھی واقع ہو گئی۔ شہنشاہ کی کمسنی اور اسے سہارا فراہم کرنے کے لئے مادر ملکہ شی زی جیسی کسی طاقتور شخصیت کی عدم موجودگی نے طاقت کے ایک بہت بڑے خلا کو جنم دیا اور چینی ایوانوں میں طاقت کے حصول اور دو سالہ شہنشاہ پرغلبہ حاصل کرنے کے لئے کشمکش شروع ہو گئی۔ اس کشمکش میں جنرل شیکائی کے قدم نہ ٹک سکے اور اسے اپنے عہدے اور اقتدار کے ایوانوں میں حاصل اپنی خصوصی حیثیت سے محروم ہو کر بیجنگ چھوڑنا پڑا۔ ننھے شہنشاہ کی برائے نام حکومت میں وزراء اور امراء محلاتی سازشوں میں مصروف تھے، مغربی قوتوں کو پہلے سے بھی زیادہ کھل کھیلنے کے مواقع میسر تھے جبکہ عام چینیوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ عام آدمی کے دل میں بے چینی اور حکومت مخالف جذبات بڑھتے رہے اور آئے دن بغاوتیں اور شورشیں برپا ہونے لگیں جنہیں بیجنگ کے ایوانوں کی تمام تر کمزوری اور خستہ حالی کے باوجود چین کا منظم اور ایک مرکز میں مرتکز سرکاری نظام کسی نہ کسی طور کچلتا رہا۔ حتیٰ کہ 1911ء  میں ووچانگ کے مقام پر خود چینی افواج کے سب سے طاقتور حصے ’’نئی فوج‘‘   کے اندر بغاوت پھوٹ پڑی، جدت پسندوں سے متاثر اور سن یات سین کی ’’متحدہ لیگ‘‘   کے تعاون سے حکومت کا تختہ الٹنے کی خواہش رکھنے والے فوجیوں کی اس بغاوت کو کچلنا شہنشاہیت مرکز سرکاری نظام کے بس سے باہر ثابت ہوا اور یہ پھیلتی ہی چلی گئی۔

سن یات سین ابتدا میں اس بغاوت کا حصہ نہ تھا، لیکن اس نے جلد ہی چین آ کر اس کی کمان سنبھال لی۔ نئی فوج کی بغاوت کو قابو میں لانا ممکن نہ رہا اور نظر آنے لگا کہ جلد یا بدیر باغی بیجنگ تک پہنچ جائیں گے تو شاہی خاندان نے جنرل یوآن شیکائی کو واپس بیجنگ طلب کر لیا۔ اسے دوبارہ سے نئی فوج کی سربراہی سونپ دی گئی کیونکہ نئی فوج کے بہت سے افسر اور سپاہی جنرل شیکائی سے ایک ذاتی نوعیت کی وابستگی رکھتے تھے اور بیجنگ کو امید تھی کہ جنرل شیکائی اپنے ذاتی اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر اس بغاوت کو فرو کرنے اور بیجنگ کے دفاع میں کامیاب رہے گا۔ ادھر سن یات سین کی بغاوت کی کامیابی کا دارومدار بھی نئی فوج کی حربی صلاحیتوں اور مسلح قوت پر تھا، جب سن یات سین کو محسوس ہوا کہ جنرل شیکائی کا ذاتی اثر و رسوخ بغاوت کی بازی شہنشاہ چین کے حق میں پلٹ سکتا ہے تو اس نے جنرل شیکائی کو مذاکرات کی دعوت دی اور جمہوریہ چین کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔ جنرل شیکائی کو اپنی تین سالہ ذلت کے پیش نظر ویسے بھی شاہی خاندان سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ طے پایا کہ جنرل شیکائی شہنشاہ چین کو اپنا عہدہ چھوڑ دینے اور چینی جمہوریہ کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادہ کرے گا جبکہ اس کے بدلے میں اسے نئی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا۔ سن یات سین اور جنرل شیکائی کا اتحاد اپنے ارادوں میں کامیاب رہا۔ سن یات سین نے نئ جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کر دیا جبکہ جنرل شیکائی نے ننھے شہنشاہ کی والدہ کو آمادہ کر لیا کہ ننھے شہنشاہ کی جان بچانے کے لئے ضروری ہے کہ شہنشاہ عہدہ چھوڑنے کا اور نئی جمہوریہ کو چینی سلطنت کا قانونی وارث قرار دینے کا اعلان کر دے۔ شاہی خاندان کی جانوں اور جائیداد کے تحفظ کا وعدہ لینے کے بعد شہنشاہ بیگم نے شہنشاہ کے وکیل کے طور پر شہنشاہیت کے خاتمے کے کاغذات پر دستخط کر دئیے اور یوں چینی شہنشاہیت کا ہزاروں سالہ دور ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ نئی جمہوریہ چین نے لی جس کا صدر ابتدائی طور پر سن یات سین تھا لیکن حسب معاہدہ جنرل شیکائی کے حق میں اس نے عہدہ چھوڑ دیا اور ایک عارضی سینیٹ کی منظوری سے جنرل شیکائی جمہوریہ چین کا صدر بن گیا۔

تاہم جنرل شیکائی کو چینی جمہوریت پسندوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور نہ ہی جمہوریہ کے قیام اور بقا میں کوئی دلچسپی، وہ خود شہنشاہ چین بننے کا خواہشمند تھا اور اس نے سن یات سین کا ساتھ اپنے مطلب کے لئے دیا تھا۔ صدر بننے کے بعد اس نے حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی اور قومی انتخابات کے ذریعے ایک حکومت قائم ہونے کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دئیے جو جمہوریت پسندوں کی جدوجہد کا اگلا مقصد تھا۔ سن یات سین اور جمہوریت پسندوں کو اپنا خواب ناکام ہوتا نظر آیا تو ایک سال بعد ہی انہیں جنرل شیکائی کے خلاف بھی بغاوت برپا کرنا پڑی جو ناکام ہوئی اور ایک مرتبہ پھر سن یات سین کو بھاگ کر جاپان میں پناہ لینا پڑی۔ 1915 ءمیں جنرل شیکائی نے پھر سے چینی شہنشاہیت کی بحالی اور اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔

اس وقت تک چین کے تعلیم یافتہ طبقے اور شہری علاقوں میں شہنشاہیت مخالف جذبات اتنی زیادہ جڑ پکڑ چکے تھے کہ شہنشاہ بننے کے اعلان نے الٹا جنرل شیکائی کو نقصان پہنچایا۔ اس کے قریبی ساتھی اسے چھوڑنے لگے، بہت سے صوبوں نے اس کی حکومت سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا اور فوج میں، جو اس کی طاقت کا منبع تھی، وسیع پیمانے پر اس کے خلاف جذبات پنپنے لگے۔ بطور شہنشاہ اپنے حلف اٹھانے کی تاریخ کو بار بار ملتوی کرنے کے بعد بالآخر اس نے شہنشاہ بننے کا ارادہ ہی منسوخ کر دیا، لیکن جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا اور اس کے بہت سے جرنیل اور بہت سے صوبوں کے حکمران اس کے خلاف ہو چکے تھے۔ شہنشاہ بننے کی ناکام کوشش کے بعد جلد ہی اس کا انتقال ہو گیا اور بیجنگ میں کوئی مرکزی حکومت باقی نہ رہی، شہنشاہی نظام تو پہلے ہی دم توڑ چکا تھا، جمہوری نظام کو اس نے اپنے شہنشاہ بننے کی کوشش میں برباد کر دیا تھا اور اب چین نہ باقاعدہ شہنشاہیت تھا، نہ ہی باقاعدہ جمہوریت ۔ کہنے کو ایک آئین اور سویلین گورنمنٹ موجود تھے، لیکن عملاً طاقت جنرل شیکائی کی فوج کے مختلف جرنیلوں کے درمیان بٹی ہوئی تھی جن میں سے ہر ایک چین کا حکمران بننے کا خواہشمند تھا، ان کی باہم کشمکش نے خونریز خانہ جنگیوں کا روپ دھار لیا جو 1916 ءتا  1928ء  جاری رہیں، یہ زمانہ چینی تاریخ میں وار لارڈز کا زمانہ کہلاتا ہے۔

سن یات سین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جرنیلوں کی باہمی کشمکش چین کی ٹکڑوں میں تقسیم کا سبب بن سکتی ہے۔ اس نے جاپان سے واپسی اختیار کی اور چینی کمنتانگ یا چینی نیشنلسٹ پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل دی اور جرنیلوں کی باہم لڑائیوں کے خاتمے اور چین کو دوبارہ سے متحد کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ بیجنگ میں موجود نام نہاد مرکزی حکومت چین کو اکٹھا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، نہ ہی جمہوری جدوجہد جرنیلوں کی باہم خانہ جنگیوں کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ طاقت صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ سن یات سین نے نانجنگ میں ایک متبادل حکومت کی بنیاد رکھی جس کی بنیادی جمہوری نہیں بلکہ عسکری بنیادوں پر استوار تھیں اور ایک مضبوط اور جدید بنیادوں پر استوار فوج تشکیل دینا چاہی جو چین کو دوبارہ ایک مرکزی حکومت کے گرد اکٹھا کر سکے۔ اس فوج کی تشکیل کے لئے اس نے سوویت روس سے مدد مانگی جہاں کامیاب بالشویکی انقلاب کے بعد کمیونسٹ اپنی پوزیشن مستحکم کر چکے تھے۔ روس نے تعاون کے لئے شرط رکھی کہ سن یات سین چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرے جسے سن یات سین نے قبول کر لیا اور کمنتانگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کا اتحاد وجود میں آ گیا۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی ایک چھوٹی سی پارٹی تھی جس کا چینی سیاست میں کوئی خاص اثرورسوخ نہیں تھا، جبکہ سن یات سین کو اپنی طویل جدوجہد اور چین کے ساتھ اپنی مخلصانہ وابستگی کے سبب چینی عوام میں ایک دیومالائی مقبولیت حاصل تھی اور اس کی سربراہی میں کمنتانگ ایک مقبول سیاسی جماعت تھی۔ روس کی مدد سے سن یات سین نے قومی انقلابی فوج کی بنیاد رکھی، لیکن چینی وحدت کی مہم کا باقاعدہ آغاز دیکھنے سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا۔

سن یات سین کے انتقال کے بعد کمنتانگ اور کمیونسٹ پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی۔ کمنتانگ کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ارکان پارٹی کے منشور اور پالیسیوں کو کمیونسٹ بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے تھے اور اس میں انہیں کمیونسٹ پارٹی اور سوویت یونین کی بھرپور مدد حاصل تھی، جبکہ دائیں بازو کے ارکان سن یات سین کی مغربی جمہوریت کے اصولوں پر استوار پالیسی کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔ اس کشمکش میں سن یات سین کے خاص معتمدین میں سے ایک، چیانگ کائی شیک، انقلابی فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے ایک طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرا جس نے کمنتانگ کے اندر سے بائیں بازو کے عناصر کا مسلح قوت کے بل پر خاتمہ کر دیا اور سن یات سین کے وژن کے مطابق چین کو اکٹھا کرنے کے لئے خانہ جنگی میں مصروف جرنیلوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم میں چیانگ کائی شیک کو پے در پے کامیابیاں حاصل ہوئیں جن سے اس کا امیج ایک چینی ہیرو کے طور پر نمایاں ہونے لگا۔ ان کامیابیوں نے کمیونسٹ پارٹی اور کمنتانگ کے درمیان اختلافات کو بھی مزید بڑھاوا دیا جن کے متحدہ چین کے مستقبل کے لئے عزائم ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد بھی تھے۔ اختلافات کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ چیانگ کائی شیک نے نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد ختم کر دیا بلکہ کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کا قتل عام بھی شروع کر دیا۔ کمیونسٹ پارٹی نے جواباً چیانگ کائی شیک کے مقابل ’’مزدوروں اور کسانوں کی سرخ فوج‘‘کے نام سے اپنی انقلابی فوج تشکیل دی جو مختصراً صرف ’’سرخ فوج‘‘ (Red      Army)کے نام سے معروف ہے۔ اس سرخ فوج کا کمانڈر انچیف کمیونسٹ پارٹی کے اولیں اور معروف اراکین میں سے ایک، ماؤزے تنگ کو بنایا گیا۔

قصہ مختصر ، افیم جنگوں کے براہ راست برصغیر کی تاریخ سے  تعلق کے سبب ان کے بارے میں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا رہا ہے۔ مادرملکہ شی زی کا اقتدار، باکسر بغاوت اور دو سالہ شہنشاہ کی تاجپوشی اپنی ڈرامائی نوعیت کے سبب دلچسپی کے حامل ہیں اور مختلف اردو انگریزی جرائد اور رسالوں میں ان پر لکھے آرٹیکلز نظروں سے گزرتے رہے ہیں۔ ان معلومہ حقائق کو ایک تاریخی تسلسل کے فریم ورک میں منضبط کرنا خاصے لطف کا کام رہا اور ’’چین کی کہانی‘‘  سے ملنے والی انسپائریشن اس سرگرمی میں بھرپور طریقے سے استعمال ہو گئی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 1911 ء میں چینی جمہوریہ کے قیام سے لے کر 1949 ء میں ماؤزے تنگ کی زیرقیادت عوامی جمہوریہ چین کے وجود پذیر ہونے تک کے درمیانی عرصہ کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جدید چینی تاریخ کے بارے میں  بیشتر معلومات کا میرا ماخذ پرانی کتابوں کے ڈھیر سے ملنے والا ستر کی دہائی کا چینی پراپیگنڈا میٹریل رہا ہے جو اس دورانیہ کے بارے میں بوجوہ تفصیلی معلومات فراہم نہیں کرتا۔ تحریر شروع کر لی تھی، اسے ختم کرنے کے لئے وکی پیڈیا کی مدد سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اول، یہ دور کئی اعتبار سے جدید چین کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور آج کے چین میں پائے جانے والے بہت سے رحجانات کی بنیادیں براہ راست اس دور میں پیوست ہیں، اس دور کی تاریخ بیان کرنے کا حق وکی پیڈیا سے جلدی جلدی لی گئی معلومات ادا نہیں کر پائیں گی۔ دوم، تحریر بدمزہ اور گہرائی سے عاری ہوتی جا رہی تھی، امتحان پاس کرنے کے لئے بے دلی سے لکھے گئے کسی مضمون کی طرح پھیکی اور بے جان ۔۔۔ بہتر یہی جانا کہ اس تحریر کا لکھنا موقوف کیا جائے اور چینی تاریخ کے اس دور سے بہتر آگہی پیدا کی جائے۔ باقی تحریر بشرط زندگی پھر کبھی سہی۔

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search