محترم جناب زاہد مغل: عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کا مسئلہ(۴)۔ محمد دین جوہر
محترم جناب پروفیسر زاہد مغل کے ارشاداتِ گرامی میرے نزدیک ازحد اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ان کو زیر بحث لانا ضروری ہے۔ میں نے اپنے جوابِ سابق میں عرض کیا تھا کہ عقل پر ان کے ارشادات کا جواب دینے کے بعد ان کے دیگر فرمودات کا جواب عرض کروں گا۔ گزارش ہے کہ کلامی روایت کے حوالے سے ان کے جزئی موقف بھی غلط ہیں اور کلی مواقف بھی درست نہیں۔ جبکہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کی ساری باتیں ٹھیک ہوں اور ہم خواہ مخواہ کی علمی کھکھیڑ سے بچ جائیں کیونکہ مجھ جیسے مزدور پیشہ لوگوں کی یہ حیثیت نہیں کہ وہ پروفیسروں کے منہ لگیں۔ لیکن پروفیسری کی پاسداری میں وہ کوئی نئی بات بھی ٹھیک سامنے نہیں لا رہے اور پرانی ٹھیک باتیں بھی خراب کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ بڑی ہی بدنصیبی کی بات ہے۔ ممدوح محترم عقیدہ، علم اور ان دونوں کے روبرو عقل انسانی کے مقام و حیثیت سے بالکل واقف نہیں۔ آنجناب مجھ فقیر کو نہ صرف علم الکلام کے مخالفین و معاندین میں شمار فرماتے ہیں بلکہ مجھ پر کسی ایسے موہوم علمی پراجیکٹ کی ”بنیاد رکھنے“ کا الزام بھی دھرتے ہیں جس کا مقصد ”اسلامی علم کلام کی بیخ کنی کرنا ہے“۔ خود اپنے بارے میں ان کا خیالِ عالی اور عملِ مقدس یہ ہے کہ آنجناب علم الکلام اور وحدت الوجود کے نمائندے ہیں۔ میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت جملہ مسلمانوں سے عافیت کا معاملہ فرمائیں۔
یہ بدیہات میں سے ہے کہ انسان خود بھی ایک وجود ہے اور وجود نے اس کو چاروں طرف سے اور اندر باہر سے گھیر رکھا ہے، اور انسان حاملِ شعور وجود ہے۔ شعور و وجود کی غیریت بھی بدیہی اور واقعی ہے اور انسان کی خلقی طلب یا اقتضائے فطرت شعور و وجود کی فرجامی یکتائی اور منتہائی عینیت ہے۔ یہ کوئی علمی پوزیشن نہیں ہے بلکہ یہ وہ پوزیشن ہے جس میں انسان ”ہے“، اور یہی پوزیشن انسان کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ انسان کی یہ وجودی پوزیشن ایک گھاؤ ہے جو مندمل نہیں ہو پاتا، انسان اسی گھاؤ میں جیتا مرتا ہے، اور انسان کے سارے تجربے اور سارے علم اسی گھاؤ سے برآمد ہوتے ہیں، اور boomerang کی طرح اسی میں آن گرتے ہیں۔ انسانی وسائل سے یہ مسئلے کوئی امکانِ اندمال بھی نہیں رکھتے۔ ان کا اندمال صرف وحی ہے جو حبل اللہ کے طور پر اس گھاؤ میں، اس کھائی میں لٹکائی گئی ہے۔ حبل اللہ سے چپک جانا ہی انسان کی نجات اور رستگاری ہے۔ علم الکلام کا بنیادی ترین مسئلہ وجود ہے اور دوسرا یہ کہ علم کیا ہے اور عقیدے سے اس کی نسبتیں عقلی طور پر کیونکر متعین کی جا سکتی ہیں؟ عین اسی مسئلے کو الٹایا جائے تو یہ کہ وجود کی بابت حصولِ ”علم“ میں وحی اور عقل کی کیا حیثیت ہے؟ آپ علم کی گفتگو کا جدھر سے بھی آغاز کریں وہ فوراً ہی عقل کی حیثیت پر مرتکز ہو جاتی ہے۔ اسی باعث میں نے عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کے حوالے سے کچھ عرض کیا تھا تاکہ جدید علوم میں کھڑے ہونے کی کوئی جگہ تو بن سکے۔ میرا موقف صرف یہ ہے کہ جدید علوم جو عصر حاضر اور جدید دنیا کے بنیاد گزار ہیں ان میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ اگر ہم جدید علوم کو دیانت داری سے انگیج کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ثقہ بنیادوں پر جدید علوم کے ہم منصب کوئی جگہ بنانا پڑے گی۔ جدید علوم میں یہ جگہ روایتی علم الکلام کے اعادے یا نام نہاد ”احیا“ سے نہیں بنائی جا سکتی۔ پروفیسر صاحب کو یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے اور ہمارے درمیان ما بہ النزاع یہی امر ہے۔
میں نے عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کی تقسیم اسی بنا پر کی تھی کہ جدید علوم کو انگیج کرنے کی کوئی جگہ بنائی جا سکے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے پہلے یہ فرمایا کہ ”ہمارے نزدیک عقلِ محض اور عقلِ تسلیم کا فرق ایک جعلی فرق ہے اور اسے بنیاد بنا کر بلا وجہ اور ناسمجھی میں اسلامی علم کلام کی پوری تاریخ کی بیخ کنی کا پراجیکٹ کھڑا کیا جا رہا ہے“۔ اول تو اس میں انہوں نے علمی دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ ایک آدھ مضمون کو پراجیکٹ قرار نہیں دیا جا سکتا، اور میں نے کسی پراجیکٹ کی کوئی تفصیلات بھی شائع نہیں کی ہیں اور اگر کوئی پراجیکٹ ہوتا تو میں ضرور ان کو مطلع کرتا اور پسند فرمود کی سند ان سے لے لیتا۔ اب یہ فیصلہ میں ناظرین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ فرمائیں کہ کیا پروفیسر صاحب کا متن بدگمانی اور بہتان کا محتمل ہے یا نہیں؟ پھر یہ کہ تاریخی حالات اور انسان کی علمی پیشرفت نے جس چیز کا خاتمہ بالخیر ویسے ہی کر دیا ہو، جیسے کہ علم الکلام کا ہوا ہے تو کوئی احمق ہی اس کو ختم کرنے کا منصوبہ بنائے گا۔ انفس و آفاق میں پراجیکٹ تو تحریک تنویر کا ہی چل رہا ہے اور میری گزارش ہے کہ پروفیسر صاحب اس سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا کریں اور اگر وہ اپنی خوش فہمی کے مطابق مسلمانوں کو اس کے سامنے کھڑے ہونے کے وسائل بہم پہنچا دیں تو ملتِ اسلامیہ پر احسان عظیم ہو گا۔
کلاسیکل علم الکلام کے بارے میں جسے اب وہ ”اسلامی“ علم کلام کا نام دیتے ہیں میری پوزیشن بہت واضح اور دوٹوک ہے، اور وہ اس سے واقف ہیں لیکن وہ اس کو خاطر میں نہیں لانا چاہتے۔ میں یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ مجھ پر ”اسلامی علم کلام کی بیخ کنی“ کا سنگین الزام علمی دیانت کی پاسداری ہے یا خلاف ورزی؟ وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ کوئی علم الکلام ”غیر اسلامی“ بھی ہے اور میں صرف ”اسلامی“ علم الکلام کے خلاف صف بندی کر رہا ہوں۔ ان کی طرف سے علم کلام کو ”اسلامی“ کا سابقہ لگا کر پیش کرنے کا مقصد دراصل میرے خلاف ایک مذہبی مقدمہ تشکیل دینا ہے جس کی طرف میں اپنے سابقہ مضمون میں بھی اشارہ کر چکا ہوں۔ ان کو یقین ہے کہ اس معرکے میں دفاعِ ”اسلامی“ کی سالاری ان کے پاس ہو گی۔ پروفیسر صاحب علم الکلام کو جس طرح نئے سرے سے متعارف کرا رہے ہیں میں اسے مسلمانوں کے لیے بدنصیبی خیال کرتا ہوں۔ یہاں واضح رہنا چاہیے کہ میں کلاسیکل علم الکلام کی بات نہیں کر رہا ہوں جو ایک عظیم علمی کاوش تھی، بلکہ اس کے تعارفِ جدید کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ آنجناب عقل تسلیم اور عقل محض کی تقسیم کو جعلی فرما چکے ہیں۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر عقل ہی جعلی چیز کا نام ہے تو اس کی تفریق بھی جعلی ہو گی اور اگر عقل جعلی نہیں ہے تو اس کی تفریق کیونکر جعلی ہو گئی؟ صحیح اور غلط یقیناً ہو سکتی ہے۔ میری پیش کردہ تقسیم یا صحیح ہے یا غلط ہے، جعلی نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے جعلی ہونے کی دلیل سامنے نہیں لا سکے۔ انہوں نے کئی اور گل کھلائے ہیں جو میں آگے عرض کروں گا۔ وہ ”اسلامی“ علم کلام کے خود مقرر کردہ نمائندے کے طور پر کم از کم اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ امام عالی مقام غزالی علیہ الرحمۃ اُس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو عالم کے قدیم ہونے کا قائل ہے۔ جدید فزکس بھی کائنات کے آغاز کے بارے میں ایک پوزیشن لے چکی ہے تو حادث اور قدیم کی بحث پھر سے اور وہ بھی پست ترین سطح پر اٹھانے کا کیا علمی جواز ہو سکتا ہے؟ مجھے ان کے احیائے علم الکلام کے منصوبے میں نہ تو کوئی عقل کارفرما دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اس میں خیر کا کوئی پہلو شامل ہے۔
پروفیسر صاحب کو یقیناً اندازہ ہو گیا تھا کہ عقل کے حوالے سے انہوں نے کوئی نادرست بات ارشاد فرما دی ہے۔ اس لیے اپنے اگلے ارشاد میں وہ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے اس سے بھی بڑی غلطی کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ”۵۔ آخری بات عقل تسلیم و محض کے فرق پر کہنا چاہوں گا جس کی طرف پہلے بھی آپ کی ایک پوسٹ پر اشارہ کیا تھا لیکن شاید آپ وہ دیکھ نہ سکے۔ یہ صرف ایک اصطلاحی جھگڑا ہے جسے میں بے معنی سمجھتا ہوں کیونکہ عقل محض و تسلیم کے مابین جس اصول پر فرق کیا جاتا ہے وہ مبہم اصول ہے، جس اصول پر ایک عقل کو تسلیم کہا جاتا ہے عقل محض بھی اسی اصول پر عقل تسلیم ہے، بس فرق اتنا ہے کہ دونوں کے تسلیم شدہ حقائق مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ فرق روا رکھنا کم از کم علمی اعتبار سے غیر ضروری ہے، تاہم عملی زندگی میں کسی خلط مبحث سے بچنے کے لیے اگر کوئی اصطلاحات ایجاد کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی جھگڑا نہیں لیکن اسے بڑھا چڑھا کر علمی تصورات کے طور پر بیان کرنا محل نزاع ہے۔“ اس ارشاد میں انہوں نے مندرجہ ذیل باتیں کہی ہیں: (۱) ان کے نزدیک یہ صرف ایک اصطلاحی جھگڑا ہے جسے وہ بے معنی سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ”ان کی“ سادگی پر مرنا چاہے تو یہ ایک سنہری موقع ہے۔ اصطلاح کسی خاص دلالتِ معنوی کے لیے ارادتاً مقرر شدہ لفظ ہوتا ہے۔ علمی بحث اصلاً معنی کی جنگ ہی ہے اور اصطلاح اس کا پہلا مورچہ ہوتا ہے۔ ہر گروہ اپنے معتقدات (belief systems) کا دفاع اصطلاحات ہی کے ذریعے سے کرتا ہے۔ اگر وہ اصطلاحات ہی کو بے معنی سمجھتے ہیں تو پھر ”علمی“ گفتگو کا شوق نہ جانے کیوں پال رکھا ہے؟ (۲) پھر وہ فرماتے ہیں کہ عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کا فرق مبہم ہے لیکن اس کے اصولِ فارق کو وہ صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہ فرق مبہم کیوں ہے؟ وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کوئی تصور بیک وقت مبہم اور واضح ہو سکتا ہے۔ شاید میرے ذمہ یہاں صرف آمین کہنا ہے۔ (۳) وہ فرماتے ہیں کہ عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کے تسلیم شدہ حقائق مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ فرق روا رکھنا کم از کم علمی اعتبار سے غیر ضروری ہے۔ اب یہاں ایک اسلوبِ تسلیم ہے اور دوسرا نوعیتِ حقائق ہے۔ پروفیسر صاحب پھر سے مماثلت کو لیتے ہیں اور نوعیت حقائق کے فرق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی یہ بات درست ہے کہ ان دونوں میں تسلیم شدہ حقائق مختلف ہیں کیونکہ ان دونوں کے حاملین دو بالکل مختلف اور آزاد فاعل ہیں، یعنی ایک مسلمان ہے اور ایک کافر ہے۔ اگر مسلمان اور کافر میں تسلیم شدہ حقائق کے مختلف ہونے کو وہ بے معنی فرما رہے ہیں تو انہیں واضح طور پر بتانا چاہیے کہ پھر وہ نام نہاد ”اسلامی“ علم کلام سے کیا کام لینا چاہتے ہیں جو کلام کے بنیادی ترین مسئلے کو ہی غلط قرار دے رہا ہے؟ یہاں وہ اس فرق کے ادراک اور اس کے علمی مضمرات سے بھی ناواقف ہیں۔ میں نے فرق نوعیتِ حقائق کی بنیاد پر کیا تھا اسلوبِ تسلیم پر نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کافر و مسلمان دونوں روٹی کھاتے ہیں، اور فرق حلال و حرام کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ چونکہ دونوں روٹی کھاتے ہیں اس لیے حلال و حرام کا فرق غیر اہم ہے۔ (۴) میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پروفیسر صاحب مماثلتوں کے بہت شوقین ہیں، اور عقلِ تسلیم اور عقلِ محض چونکہ کچھ حقائق کو تسلیم کرتی ہیں اس لیے یہ فرق ان کے نزدیک جعلی ہو گیا۔ لیکن اس عمل تسلیم یا عدم تسلیم میں جو چیز ظاہر ہو رہی ہے وہ انسانی autonomy ہی کا بنیادی سوال ہے۔ یعنی کافر و مسلمان میں اس کا معنی radically مختلف ہے اور یہی فرق عقلِ تسلیم اور عقلِ محض میں بھی قائم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اہم پہلو ان کے نزدیک جعلی اور غیر اہم ہیں تو ایسی بیکار کی علمی مصروفیت سے ورد وظیفہ کہیں بہتر ہے۔
ہمارے درمیان وجہ نزاع کا میں بار بار حوالہ اس لیے دیتا ہوں کہ وہ اپنی پوزیشن کو بار بار بدل رہے ہیں تاکہ آموختہ اور کلامی پہاڑے سنانے کا کام جاری رکھ سکیں۔ ہماری بحث ۱۴/ جون کو میری پوسٹ پر پروفیسر صاحب کے اس کمنٹ سے شروع ہوئی تھی کہ: ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے میں شرعاً کیا غلطی ہے؟“ اور آنجناب اس کو مثال سے یوں مؤید فرماتے ہیں: ”مثلاً یہ کہنا کہ ”چونکہ مادی کائنات کے حقائق و مشاہدات (مثلاً بگ بینگ) ثابت کرتے ہیں کہ کائنات حادث ہے اور حادث کے لیے محدث ہوتا ہے، پس کائنات کا بھی ایک محدث ہے“، اس میں کیا خرابی ہے؟“ اب گفتگو کا اصول یہ ہے کہ وہ اٹھائے گئے بنیادی سوال پر ہوتی ہے، مثال پر نہیں ہوتی۔ اور یہ سوال ایک عالم کا سوال نہیں ہے بلکہ ایک ایسے آدمی کا سوال ہے جو علم الکلام، فلسفہ اور دین سے بے خبر ہے، اور مثال اس بے خبری کو مؤکد کر رہی ہے۔ میں اس کی دلیل عرض کرتا ہوں۔ عقیدے پر استشہاد کا مسئلہ بنیادی طور پر کلامی اور فلسفیانہ ہے، اور اس کا شریعت یعنی فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عقیدےکی بحث کلیات کی بحث ہے جبکہ فقہ کی بحث جزیات سے متعلق ہے۔ فتویٰ کی نوبت تب آئے گی جب علمی بحث مکمل ہو کر کچھ قضایا میں فیصل ہو جائے۔ بحث شروع ہونے سے قبل ہی یہ سوال کرنا کہ ”شرعاً کیا غلطی ہے؟“ ایک غیرعلمی سوال ہے اور ایک عالم کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہو سکتا کیونکہ ابھی بحث نتیجہ طلب ہے۔ شریعت اور فقہ کے روبرو تو میں بحث کو حرام سمجھتا ہوں، اور میری پوزیشن آمنا و صدقنا کی ہے۔ شریعت کا حکم ہے کہ نماز پڑھو۔ اب اس کے سامنے میں ہر طرح کی علمی اور نظری بحث کو شرعاً ناجائز اور حرام سمجھتا ہوں کیونکہ حکم امتثال امر کے لیے ہے کسی نظری بحث کا قضیہ نہیں ہے۔ بحث تو صرف اصول میں ہو سکتی ہے اور اس میں دلیل بنیادِ بحث ہوتی ہے اور اس میں تقلید کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، کیونکہ یہ بحث فقہ کے دائرے سے باہر شعور و وجود کی ماہیت پر واقع ہوتی ہے اور براہِ راست یہ کسی عمل سے متعلق نہیں ہوتی۔ پروفیسر صاحب معقول کو جس طرح منقول بنا کر سامنے لاتے ہیں وہ بے علمی کی بات ہے اور نہایت افسوسناک ہے، اور پروفیسر صاحب کی طرح کلامی اور شرعی دوائر میں خلط کا مرتکب ہونا اہل علم کو زیبا نہیں۔ اور جو آدمی بگ بینگ کو ”مشاہدات“ میں شمار کرتا ہو اس کو عالم صرف پاکستان میں کہا جا سکتا ہے۔
میں تو پیش کی گئی تحریروں کی بنیاد پر اپنا موقف تحریر ہی میں عرض کرتا ہوں۔ ناظرین خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ بحث ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ پروفیسر صاحب نے اپنا موقف تبدیل کر لیا اور فرمایا کہ زیرِ بحث موضوع ”حوادثات سے اس کے بنانے والے کے استدلال میں عقلاً کیا خرابی ہے/ حوادثات سے خالق کائنات کا اثبات معقول و ممکن ہے یا نہیں؟“ ہے۔ یاد رہے کہ بحث چودہ جون کو میری پوسٹ پر ان کے اس کمنٹ سے شروع ہوئی تھی کہ ”مادی امور کے تجربات سے استشہاد کر کے عقیدے کو ثابت کرنے میں شرعاً کیا غلطی ہے؟“ یہ دونوں سوالات خود ان کے اٹھائے ہوئے ہیں، اور باہم بالکل مختلف ہیں۔ اب وہ فرما رہے ہیں کہ زیربحث سوال دوسرا ہے، پہلا نہیں ہے۔ میں یہ فیصلہ ناظرین پر چھوڑتا ہوں کہ تحریری شواہد کے باوجود سرعام وہ جس غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں کیا وہ اخلاقی طور پر درست ہے؟ اول سوال کا لبِ لباب یہ ہے کہ کیا سائنسی علوم کے مادی تجربات سے عقیدے پر استشہاد ممکن ہے؟ یعنی جو استشہاد سرتاسر مادی ہے کیا اسے خبر غیب پر بھی لایا جا سکتا ہے یا نہیں جو عقیدے کا محتویٰ ہے؟ یہی وہ سوال تھا جس پر ہماری بحث شروع ہوئی تھی لیکن اب وہ اس سوال پر بحث نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس میں آموختہ کارآمد نہیں رہا اور کلامی پہاڑا اس میں کھپ نہیں سکتا۔ میں نے ان کے اول قضیے/سوال کا مطلب فزکس کی رو سے عرض کیا تو وہ یہ فرماتے ہوئے بھاگ نکلے کہ میرا یہ مطلب نہیں ہے حالانکہ انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ ان کا کیا مطلب ہے اور میرا بیان کردہ مطلب کیوں غلط ہے؟ اب موقف کی سرِ عام تبدیلی سے انہوں نے دوسرا سوال تشکیل دیا ہے اور وہ بھی علم الکلام سے ان کی مکمل لاعلمی کا شاہکار ہے۔ اور اس کی دلیل میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ یہ کہ ’حوادث (ج: حادث؛ نوٹ: پروفیسر صاحب ’حوادثات‘ کہتے ہیں جو محل نظر ہے) سے خالقِ کائنات کا اثبات معقول و ممکن ہے یا نہیں؟‘ کلامی سوال ہی نہیں ہے، بلکہ ایک کلامی بحث ہے جس کا عنوان ہے: ”کیا موجودات حادث ہیں یا قدیم؟“ علم الکلام کا سوال یہ ہے: ”کیا موجودات سے خالقِ موجودات کا اثبات ممکن ہے یا نہیں؟“ یہ امر کہ ہر موجود حادث ہے علم الکلام کی بحث ہے، یعنی اس میں پہلے عقلی طور پر یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ ہر موجود حادث ہے۔ اس میں بحث یہ ہے کہ عالم شہود میں ہر موجود وجودِ ذاتی نہیں رکھتا بلکہ وجود اس پر عارض ہے، اس لیے وہ حادث ہے، اور یہیں سے بحث قدیم کی طرف پیشرفت کرتی ہے، اور قدیم وہ ذات ہے جو وجودِ ذاتی سے قائم ہے۔ اور پروفیسر صاحب فرما رہے ہیں کہ ’حوادثات‘ سے ……… ۔ گزارش ہے کہ موجود حسی ہے اور حادث معقول ہے، اور کلامی بحث پہلے موجود کو حادث ثابت کرتی ہے۔ قدیم کی بحث سلبی ہے کیونکہ قدیم، موجود کی شرائط پر زیر بحث نہیں ہے۔ قدیم نہ حسی ہے نہ معقول، بلکہ وہ سلبی معقول ہے، یعنی جب یہ ثابت ہو گیا کہ ہر موجود حادث ہے، اور وہ اپنے وجودِ ذاتی سے موجود نہیں ہے، تو یقیناً اس کی ما بہ الموجودیت ایسا وجود ہے جو مستعار ہے، اور جس کا منبع واجب الوجود ہے اور جو قدیم ہے۔ واجب الوجود کی بحث یقیناً عقلی ہے لیکن واجب الوجود بھی ایک دوراہے کا نام ہے، اور کوئی ضروری نہیں کہ واجب الوجود کو عقلاً تسلیم کر لینے کے بعد کوئی مسلمان ہو جائے۔ افلاطون کی مابعد الطبیعات اس وقت تشکیل پاتی ہے جب عقلِ خیالی (speculative reason) واجب الوجود کے زینے سے عالم نامعلوم کی طرف سفر کرتی ہے اور ایک علم الحقائق تشکیل دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ علم الحقائق کی کاوش بالکل فطری ہے اور اقتضائے فطرت ہی کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اپنے محتویٰ میں لغو اور بے بنیاد ہے۔ انسانی عقل کا یہی اقتضا اور فطری طلب ہے جو عقیدے کی بنیاد بنتی ہے۔ واجب الوجود عقل میں سلباً ثابت ہے، ایجاباً ثابت نہیں ہے۔ مسلم عقیدے کا مفاد اس میں یہ ہے کہ عقل کی تحدیدات خود عقلاً قائم ہو جاتی ہیں، اور قبولیت وحی پر عقل کے اعتراضات بالکل باطل قرار پاتے ہیں۔
ہماری بحث میں کانٹے کے اس لمحے میں میری یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ پروفیسر صاحب کو یاد دلاؤں کہ علم الکلام کی کوئی بحث بھی positive اور natruralistic نہیں ہے یعنی علم الکلام کی کوئی بحث بھی scientific نہیں ہے۔ کلامی منطق میں ریاضی اور ہندسہ کی موجودگی سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ علم الکلام کی کوئی بحث positive اور natruralistic ہے۔ سائنسی عقلی اور کلامی عقلی دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ اور یہ امر عقل کی وجودی حیثیت اور اس کی فعلیت کو متعین کیے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا، اور اسے معلوم میں لائے بغیر علم الکلام اور سائنسی علم میں کوئی interface پیدا کرنے کی کوشش ایک بالکل بیکار کی سرگرمی ہے، اور پروفیسر صاحب انہی بیکار کی باتوں میں الجھے ہوئے اور سب کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب فرماتے ہیں: ”اگر ان کا جواب یہ ہے کہ معتزلہ، اشاعرہ و ماتریدیہ سمیت سب کے سب اس معاملے میں وقت ضائع کرتے رہے ہیں اور انہیں کانٹ کی باتیں پڑھ کر معلوم ہو گیا ہے کہ سارا علم کلام غیر متعلق ہے تو ان کے اس دعوے اور سرسید کے دعووں میں کیا فرق ہے؟ وہ اور ان جیسے سب مفکرین بھی حاضر و موجود علمیت سے مرعوب ہو کر یہی کہتے ہیں کہ اسلامی علوم کی تاریخ غیر متعلق ہو چکی ہے۔“ کیا میں پروفیسر صاحب سے پوچھ سکتا ہوں کہ میں نے یہ بات کہاں کہی ہے جو وہ میری طرف منسوب کر رہے ہیں، اور اگر وہ استنباط کر رہے ہیں تو میرا وہ متن کون سا ہے؟ مکالمے میں اس نوعیت کی گفتگو دیانت داری کے قطعی خلاف ہے اور میں اس الزام بازی پر احتجاج کرتا ہوں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمارے اسلاف کا علمی کارنامہ عظیم ہے، اور پروفیسر صاحب نہ صرف وقت ضائع کر رہے ہیں بلکہ اسلاف کی رسوائی کا باعث بھی ہیں۔ وہ مجھ پر ”حاضر و موجود علمیت“ سے مرعوب ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ انہیں استشہاد سے کافی دل لگی ہے اور ہو سکتا ہے میری مرعوبیت پر وہ میرے متن سے استشہاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر کچھ جواب بھی عرض کروں گا۔ میں تو صرف یہی عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ”میرا بچہ دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ ہے“ کوئی علمی قضیہ نہیں ہے جو وہ علم الکلام کے حوالے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ میری مرعوبیت ابھی تک تو صرف الزام ہے کیونکہ میرا موقف تحریر میں موجود ہے اور ان کی رائے اس کے مابعد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو دیانت کی توفیق دے۔ لیکن ان کی حالتِ انکار اس قدر گہری ہے کہ جس ”حاضر و موجود علمیت“ سے ان کی روزی اور پروفیسری وابستہ ہے، اور میرا روزگار بھی اسی سے جڑا ہوا ہے، اور پوری امت مسلمہ اپنا کشکول گدائی لیے اسی علمیت کے سامنے آٹھ پہر چونسٹھ گھڑیاں گڑگڑاتی رہتی ہے، وہ اس کا شمہ بھر ادراک نہیں رکھتے اور حیرت ہے کہ وہ مجھے اس سے مرعوب فرماتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی میں ناظرینِ باتمکین پر چھوڑتا ہوں۔ مزید گزارش ہے کہ کانٹ پڑھ کر مجھے جدید عہد میں علم الکلام کی irrelevance کا پتہ نہیں چلا بلکہ ”ابطالِ گردش زمین“ اور ”تصفیۃ العقائد“ پڑھ کر جدید علوم کے سامنے علم الکلام کی بے بسی کا اندازہ ہوا ہے، اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو پروفیسر صاحب علی گڑھ میں اسلام اور سائنس پر دیے گئے ایک عالم کے لیکچر سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہم عصر دنیا میں ہم اپنے تمام تر تہذیبی مسائل حل کرنے کے لیے عین وہی علمی وسائل بروئے کار لا رہے ہیں جو جدید علمیت کے پیدا کردہ ہیں۔ واقعاتی صورت حال پر میرا یہ موقف دیانت داری پر مبنی ہے اور اگر غلط ہے تو وہ ارشاد فرمائیں۔ محولہ بالا دونوں کتابوں میں بروئے کار لایا جانے والا علم الکلام عین وہی ہے جو معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ کا علم الکلام تھا۔ مجھے صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ روایتی علم الکلام positive, naturalistic and scientific knowledge کے سامنے چشم زدن کے لیے بھی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو پروفیسر صاحب بتائیں کہ کیوں غلط ہے، اور الزامات لگانے سے باز رہیں۔ وہ صرف یہی ارشاد فرما دیں کہ عین اسی علم الکلام کے ذریعے جس کی وہ نمائندگی کر رہے ہیں ان کی جدید معاشیات کیونکر قابلِ تشکیل اور قابلِ دفاع ہے جس کے ذریعے سے وہ روزی کماتے ہیں؟ میں اپنے آئندہ مضمون میں ان کے ۱۹/ جون کے فیس بک پر شائع شدہ ارشادات کا جواب عرض کروں گا۔