علم الکلام، تجدد اور جدیدیت۔ محمد دین جوہر
ملتِ اسلامیہ کے موجودہ احوال و حالات کو علمی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے یہ ناگزیر ہوتا ہے کہ علمائے کرام کی حیثیت اور خدماتِ علمی بھی زیربحث آئیں، اور اس سے علمی گفتگو کی پیچیدگی میں ایک اخلاقی ذمہ داری اور مذہبی حساسیت بھی، جس کی نوعیت بالعموم فرقہ وارانہ ہوتی ہے، داخل ہو جاتی ہے۔ علمی گفتگو کے تقاضے، اخلاقی ذمہ داری اور حساسیت کو بیک وقت نبھانا عموماً بہت مشکل ہوتا ہے اور ایسی کسی کوشش کا آغاز ہی نہیں ہو پاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کا احترام اور محبت اگر علمائے کرام کے احترام اور محبت میں ظاہر نہ ہو تو بے معنی ہے، اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ علمائے کرام کی بے ادبی بالآخر دین کی بے ادبی پر منتج ہوتی ہے۔ یہ امر بھی مشاہدے میں ہے کہ علمائے کرام کے احترام اور تقدس کی وجہ سے گفتگو سے احتراز برتا جاتا ہے۔ یہ بہت قیمتی بات ہے کیونکہ احترام اور تقدس ہم پر علما کا حق ہے اور اکثر اوقات گفتگو کا مقصد ہی اس احترام اور تقدس کو پامال کرنا ہوتا ہے جو یقیناً قابل مذمت ہے۔ ہمارے معاشرے میں احترامِ آدمیت کے شدید بحران کی وجہ سے علمائے کرام کے احترام کا مسئلہ مزید پیچیدگی اختیار کر لیتا ہے۔ علی الاطلاق ہر انسان کی طرح علمائے کرام بھی احترام کے حق دار ہیں، لیکن یہاں ایک عمومی حق کی بجائے اعزاز کو احترام کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے اعزاز کی بنیاد پر احترام کچھ امتیازات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ امتیازات غیرمتعین ہیں اور بیان شدہ نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں وی آئی پی کلچر ہمارے معاشرے میں احترامِ آدمیت کے بحران کی بہت افسوسناک مثال ہے کہ انسان کو احترام کسی اعزاز اور امتیاز کی وجہ سے تو حاصل ہو سکتا ہے لیکن صرف انسان ہونے کی حیثیت سے وہ اس کا حق دار نہیں ہے۔ زیرِ بحث مسئلے کا ایک اور اہم پہلو یہ سوال ہے کہ ”مذہبی عالم“ کون ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ علمائے کرام کے احترام کی بنیاد جس امتیاز پر رکھی جا رہی ہے وہ تقویٰ نہیں ہے بلکہ ایک اکتسابی ملکہ ہے اور ”مذہبی علم“ اس کے حاصلات میں سے ہے۔ اس طرح مذہبی عالم کی ذمہ داری اور اس کے کام کی مشکلات بہت بڑھ جاتی ہیں کیونکہ اس سے مراد صرف دینی تعلیمات کا اعادہ اور تکرار نہیں ہے۔ اساسِ ہدایت استدلال نہیں ہے جبکہ علم کی اساس ہی استدلال ہے، اور یہ امر مذہبی عالم کے کارِ منصبی میں شامل ہو جاتا ہے کہ وہ علم فی نفسہٖ سے مستزاد یہ بھی بتائے کہ وہ مذہبی کیونکر ہے یا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا علم جس کی بنیاد استدلال پر ہو، اس میں ”دوسرے“ کو خارج نہیں کیا جا سکتا، اور علمائے کرام اپنی سطح علم پر کسی ”دوسرے“ کو قبول کرنے میں متامل ہوتے ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت میں جو چیز سب سے زیادہ دباؤ کا شکار ہوئی ہے وہ زمرۂ علم مذہبی ہی ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں مختلف فرقوں کے مذہبی علم کے حاملین نے ایک دوسرے سے جو برتاؤ کیا ہے اس سے احترامِ علما کے ساتھ ساتھ احترام آدمیت کے بحران میں بھی شدت آ گئی ہے۔ جدید دنیا میں فیصلہ کن عامل جدید علم ہے جس نے مذہبی علم کے اپنے دائرے میں ہی اس کے لیے ایسے بڑے چیلنج پیدا کر دیے ہیں جن کا وہ سامنا نہیں کر سکا ہے، اور مذہبی علم کی شکست سے اس کے حاملین کی سماجی حیثیت پر بھی براہ راست اثر مرتب ہوا ہے۔ ایک عام معاشرتی مسئلہ بھی اس حوالے سے قابلِ غور ہے کہ ہمارے علمائے کرام دین کی حمایت میں کی جانے والی نظری اور فکری گفتگو کو بھی شک اور اکثر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس طرح معاشرے میں علم دشمن رجحانات کو تقویت ملتی ہے، اور دین کے مؤید نظری اور فکری علوم کی گنجائش ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یعنی عین وہی زمرہ جو ان کے احترام کی اساس ہے وہ بالواسطہ اسی کے خلاف ایک پوزیشن لے لیتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ سیاسی علمائے کرام کا ہے جس پر گفتگو کے آداب و اسالیب غیرمتعین چلے آتے ہیں اور یہ زمرۂ علم ابھی اضطراب کا شکار ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ اصل مسائل نہیں ہیں۔ اصل مسائل میری رائے میں دو ہیں۔ اول مسئلہ علمائے کرام کو خاتم العلم تسلیم کر کے ایک تعبیری یا علمی اصول کے طور پر گفتگو میں شامل کرنا ہے۔ علمی ثقاہت کے جواز کو روایت یا دلیل سے شخصیت پر منتقل کرنے سے ہماری ہر علمی روایت نسیاً منسیاً ہو گئی ہے اور علم دشمن کلچر کی جڑیں معاشرے میں بالعموم بہت گہری ہو گئی ہیں۔ دوسرا مسئلہ علمی دیانت کا ہے جو علمی سوال اٹھانے کے لیے درکار حریتِ ذہنی سے براہ راست متعلق ہے۔ جس طرح بعض اوقات رات کے اندھیرے میں آدمی اچانک سے غائب ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے، اور اس عمل کے ہوتے ہوئے ایک عادلانہ معاشرہ قابل تصور اور اس کا قیام ممکن نہیں رہتا، اسی طرح ہمارے زوال اور شکست کے اندھیروں میں بہت سے سوال گم ہو گئے یا غائب کر دیے گئے اور جس کی بڑی ذمہ داری ہمارے علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ غائب سوالوں missing questions کے ہوتے ہوئے معقولی علمی روایت اور تہذیب کا قیام کسی صورت ممکن نہیں ہو سکتا۔ میں نے ذاتی طور پر اس پیچیدگی کا حل یہ نکالا ہے کہ علمائے کرام کے احترام کو مقدم رکھتے ہوئے دینی تعلیمات پر ان کے ارشادات اور تحریروں سے استفادہ کیا جائے اور مذہبی مواقف کے برعکس ان کے علمی مواقف کو بے لاگ نقد کا موضوع بنایا جائے۔ ملتِ اسلامیہ کے زوال، تہذیبی آشوب اور مستقل بحران کا بڑا سبب چونکہ مسلم ذہن کی نارسائی ہے، اور ذہن کی کوئی گفتگو علم کو موضوع بنائے بغیر ممکن نہیں اور علم کی کوئی گفتگو اہل علم اور مذہبی علما کے ذکر کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی، اس لیے یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ علمائے کرام کے فکری محاضرات کو بھی زیربحث لایا جائے، اور دمِ تحریر احترام علما کے ساتھ ساتھ احترام آدمیت کی پاسداری کی جائے کیونکہ یہ مکارم الاخلاق کی ایک غیرمنفک قدر ہے۔
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں علامہ معین الدین اجمیریؒ کا مختصر رسالہ ”العلم و المعلوم“ اس کی اشاعتِ نو کی وجہ سے دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اسے دارالبرکۃ للنشر و الطباعۃ نے شائع کیا ہے اور اس کا مقدمہ استاذ العلما محترم عبدالواحد حنفی قادری عطاری نے تحریر کیا ہے جبکہ حواشی جناب محمد انس رضا قادری نے چڑھائے ہیں۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ رسالہ قدیم کلامی منہج پر علم و معلوم کے مسئلے پر لکھا گیا ہے اور جس میں صفاتِ باری پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ پرانے طرزِ استدلال پر رہتے ہوئے اس رسالے میں علم اور معلوم کی تعریف کی گئی ہے۔ اس رسالے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اجمیریؒ روایتی علم الکلام پر منتہیانہ دستگاہ رکھتے تھے اور اس کے اسلوبِ استدلال سے بخوبی واقف تھے۔ اس رسالے میں ان کی دیگر تصنیفات کی فہرست بھی دی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اجمیریؒ نے روایتی علم الکلام کے تمام پہلوؤں پر کلام فرمایا ہے۔ لیکن اس فہرست کو دیکھ کر دل غم سے بھر گیا کہ اتنے قریب کے بزرگوں کا کام بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس رسالے کا ایک اور حیرت انگیز اور حد درجہ قابل تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ اسے ایک بریلوی اشاعتی ادارے نے شائع کیا ہے، جبکہ علامہ اجمیریؒ جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے اور رسالے میں اس کا ذکر کسی خلش کے بغیر کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ سنہ ۱۹۳۶ء میں لکھا گیا اور اس کی پہلی اشاعت سنہ ۱۹۶۷ء میں ہوئی۔ نئی اشاعت کے لیے لکھے گئے اور اس رسالے میں شامل مقدمے کی کوئی علمی حیثیت تو نہیں ہے لیکن اس کی ثقافتی سطح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حواشی بہتر اور معلوماتی ہیں، لیکن تھوڑی کوشش سے انہیں علمی بنایا جا سکتا تھا۔ اس رسالے میں علم الکلام کے ایک موضوع پر مختلف مواقف اور ان کے دلائل کو یکجا کر دیا گیا ہے۔
علم الکلام تاریخ کے ایک اہم مرحلے میں مسلم تہذیبی ذہن کی کارکردگی اور اس کے حاصلات کو ظاہر کرتا ہے جو ایک روایت میں مرتب ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ اور فطری طور پر نہ صرف حد درجہ ٹیکنیکل ہو گئے بلکہ بالکل متحجر بھی ہو گئے۔ علم الکلام نے جن چند بنیادی موضوعات پر علم پیدا کیا ہے اور منطقی طرزِ استدلال، دلائل اور رد دلائل کو جزیات تک میں مرتب کیا ہے، وہ ہر تہذیب کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتے ہیں۔ ان موضوعات میں وحی اور اس کی حیثیت، تصورِ عقل، وحی اور عقل کا باہمی تعلق، علم اور وجود کے بنیادی مواقف شامل تھے۔ علم الکلام کے تقریباً تمام بنیادی مواقف مبحثِ وجود کے ارد گرد تشکیل پائے ہیں، اور اس طرح وجود اور ماہیت وجود علم الکلام میں مرکزی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ علم الکلام میں بنیادی بحث واجب الوجود پر منتہی ہوتی ہے اور جو عقلِ محض کی حد رسائی بھی ہے، تو اس سے آگے کی بحث خبرِ غیب کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں عقلِ تسلیم وجود باری کے ضمن میں صفاتِ باری پر بھی کلام کرتی ہے۔ علم الکلام میں وجود باری اور صفات باری کا موضوع خبرِ غیب کی شرط پر عقلِ تسلیم کے لیے ”خالص عقلی“ ہی رہتا ہے، کیونکہ اس میں عقلی استدلال کرتے ہوئے دلیل اور رد دلیل کا سلسلہ جن تاویلات کو موضوع بناتا ہے وہ الوہی متن کے معنی سے براہ راست متعلق ہوتی ہیں، اور حسی ادراک سے حاصل ہونے والا کوئی لوازمہ اس میں داخل نہیں ہوتا یعنی عقلِ تسلیم خبرِ غیب کو بنیاد بناتے ہوئے امورِ غیب پر اپنا عقلی موقف قائم کرتی ہے اور جن کی حیثیت تسلیم کے بعد زیادہ سے زیادہ عقلی تصریحات کی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں علم الکلام کی کوئی عقلی بحث بھی مادی (positivistic) نہیں ہے یعنی یہ خبرِ غیب کی بنیاد پر ہونے والی بحث کو شہود پر وارد نہیں کرتی اور نہ حس سے حاصل ہونے والے لوازمے پر فیصلہ دے کر اسے غیب پر وارد کرتی ہے۔ کلامی عقلِ تسلیم غیب و شہود کے امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے، اور ان دائروں میں شرائط علم کی رعایت رکھتے ہوئے اپنی فعلیت کو بروئے کار لاتی ہے۔ ہماری روایت میں علم الکلام کا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے عقیدے کی مادے اور حس کی شرائط پر عقلی تشکیل کے خلاف غیرمعمولی مزاحمت کی ہے یا ”جدید معنوں میں“ اس کی عقلی تشکیل ممکن نہیں رہنے دی۔ آج کل کے مباحث میں عقیدے اور فزکس یا جدید سائنس کے جو مباحث اٹھائے جاتے ہیں ان کا لازمی نتیجہ عقیدے کی مادی تشکیل اور اس کا خاتمہ ہے۔ علم الکلام ”عقلِ تسلیم“ کی بنیاد پر عقلی ہے، جدید عقلِ محض کی بنیاد پر کلامی مباحث کو ”عقلی“ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ضروری نکتہ تفصیل طلب ہے کہ ”عقلِ تسلیم“ اور ”عقلِ محض“ ملکۂ عقل کے دو قابلِ لحاظ تصورات ہیں جن میں عقل ایک وجودی تشکیل سے گزر کر اپنے ضروری کارِ علمی کی طرف منعطف ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے ایک تصور عقلی ہے اور دوسرا غیرعقلی، کیونکہ ان میں وجودی پوزیشن کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے، اور دونوں عقلیں اپنی وجودی پوزیشن کو لازماً علم میں داخل کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں ہم ”عقلِ سلیم یا قلبِ سلیم“ کا کوئی ذکر نہیں کر رہے کیونکہ یہ مطلقاً مذہبی تصور ہے جو بہت ہی اعلیٰ اور قیمتی ہے لیکن فی الوقت گفتگو کا موضوع نہیں ہے۔ عقلِ تسلیم اور عقلِ سلیم میں التباس علمی گفتگو سے انکار ہی کی ایک صورت ہے۔
اس امر کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ علم الکلام میں ”عقلِ تسلیم“ جب صفاتِ باری کو زیربحث لاتی ہے تو جدید فلسفیانہ معیارات پر وہ ”عقلِ محض“ کے طور پر کام نہیں کر رہی ہوتی۔ عقل محض کے لیے ’صفاتِ باری‘ کوئی وجود ہی نہیں رکھتیں کیونکہ وہ اس کے لوازمۂ ادراک میں داخل نہیں ہیں۔ عقلِ تسلیم بطور فعال ملکۂ شعور، عقلِ محض سے radically مختلف ہے، اور یہ radical فرق وجودی ہے یعنی بنیاد میں ہے، فعلی، عملی اور رسومیاتی نہیں ہے۔ عقل جب وحی کو ایک جائز، ثقہ اور غیرارتیابی ذریعۂ علم کے طور پر مان لیتی ہے تو وہ ایک نئی تشکیل سے گزر کر خود کو عقلِ تسلیم کے طور پر قائم کرتی ہے، اور عقلِ محض ہونے سے دستبردار ہو خود کو ایک وجودی ترفع سے متصف کرتی ہے جبکہ عقلِ محض ایک مفروضاتی وجودی موقف پر قائم ہو کر خود کو مادے کی سطح تک محدود کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ ”عقلِ محض ہونے سے دستبردار ہونا“ وسائلِ عقل سے دستبردار ہونا نہیں ہے بلکہ عقلی وسائل اور لیاقتوں کی وجودی اور انسانی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔ عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کا یہ فرق عقل کے خِلقی اور داخلی وسائل سے مصرح نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس پر باہر سے وارد ہے اور ارادی ہے۔ یعنی عقل کا خود اپنے بارے میں بنیادی ترین فیصلہ کہ وہ پردھان ہے یا نہیں، عقلی نہیں ہے بلکہ ارادی ہے، اور یہ فیصلہ اس کی پوری وجودیات کو بدل دیتا ہے۔ اہم تر یہ کہ اس فیصلے کے بعد عقلِ تسلیم اور عقلِ محض کا دائرہ کار مختلف نہیں ہو جاتا بلکہ ایک ہی رہتا ہے لیکن ایک رہتے ہوئے کم اور بیش ہو جاتا ہے۔ عقل کا دائرۂ کار وجود و عدم ہے یعنی عقل کی فعلیت ان دو قطبین میں محصور ہے۔ تسلیم کے بعد عقل جائز طور پر اپنے دائرۂ کار کو شہود سے غیب تک توسیع دے سکتی ہے، اور شہود حسی ادراک سے واجب الاذعان ہے جبکہ غیب خبرِ وحی کی بنیاد پر۔ اس طرح عقلِ تسلیم وہبی تصورات (a priori) اور لوازمۂ ادراک کی بنیاد پر کارِ علمی کے ساتھ ساتھ وحی کی تصدیق سے غیب میں بھی عقلی تشکیلات قائم کرنے کے اہل ہو جاتی ہے۔ غیب کی عقلی تشکیلات میں عقلِ تسلیم صرف اور صرف وحی کو بنیاد بناتی ہے جسے وہ بلا شرط اور بلاشک تسلیم کر چکی ہوتی ہے۔ لیکن عقلِ تسلیم وجودِ غیب کی عقلی تشکیلات کو کسی بھی صورت میں naturalize نہیں ہونے دیتی ورنہ اس کا وحی کو ماننا بے معنی ہو جائے گا، اور عقیدہ مادی تشکیل سے گزر کر اپنی ہی نفی پر منتج ہو گا۔ عقلِ تسلیم اپنی غیبی تشکیلاتِ علم کو بھی منطق سے داخلی طور پر ہم آہنگ (consistent) رکھتی ہے۔ علم الکلام یقیناً عقلی ہے لیکن اس کا عقلی ہونا عقلِ محض (pure reason) کی شرائط اور تحدیدات پر قطعی نہیں ہے، لیکن ان سے متضاد بھی ہرگز نہیں ہے۔ عقل تسلیم کی فعلیت اور نتیجہ سازی میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو عقلِ محض کے لیے ’نامانوس‘ ہو، سوائے قبولیتِ خبر غیب کے جو ظاہر ہے کہ ایک وجودی موقف ہے اور عقل محض کے وجودی مفروضات کو رد کر کے عین اسی جگہ پر نصب ہوتا ہے۔ علم الکلام کو مابعدالطبعیاتی علم کہنا بھی قطعاً درست نہیں ہے کیونکہ عقلِ تسلیم وحی کی بنیاد پر غیب کی تشکیلاتِ علم کو مدلل ضرور کرتی ہے، مفصل نہیں کر پاتی اور خود کو متنِ وحی سے چپکائے چلتی ہے اور حسی ادراک کی شرائط پر انہیں ’مفہوم‘ نہیں ہوتے دیتی۔ کلامی عقلِ تسلیم غیب میں نئی اور طبع زاد عقلی اور علمی تشکیلات قائم کرنے کے اہل نہیں ہوتی جو کہ مابعدالطبعیاتی علم کے ساتھ خاص الخاص ہے۔ اس کو ایک ناگزیر اور پرخطر مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اخبار غیب عالم غیب کی ’معلومات‘ ہیں۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت نقطوں (dots) کی طرح ہے جو وجود کے ایک بڑے کینوس پر ثبت ہیں۔ ان نقطوں کا ہونا عقل سے معلوم اور قائم نہیں ہے، بلکہ خبرِ غیب پر ایمان سے معلوم ہے۔ ان نقطوں کو اگر ملا دیا جائے تو ایک خاکہ سا بن سکتا ہے۔ علم الکلام خبر غیب کو بنیاد بناتے ہوئے ان نقطوں کی الگ الگ عقلی تصریح کی سرگرمی ہے، اور ذات یا وجود مطلق سے ان نقطوں کی ایمان سے معلوم نسبتوں کے عقلی تصریحات کی کاوش ہے۔ علم الکلام ان نقطوں کو باہم ملا کر کوئی خاکہ بنانے کی کوشش نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے جو اضافی لوازمہ درکار ہے وہ خبرِ غیب سے حاصل نہیں ہے، اور عقل تسلیم اس کو ’گھڑنے‘ کی مجاز نہیں ہے۔ یہ کام مذہبی مابعدالطبعیات کرتی ہے جس میں عقل کے ساتھ ساتھ متخیلہ بھی خیال کے نام سے شامل ہو جاتی ہے۔ مذہبی مابعدالطبعیات غیب میں ایک پورا خاکہ بنانے کی کوشش ہے جس میں کچھ لوازمہ خبر غیب سے لیا جاتا ہے اور باقی ملکۂ خیال خود ’گھڑ‘ کے اس خاکے میں شامل کر دیتا ہے۔ علم الکلام میں غیب کے حوالے سے عقل کی تابعیت اکہری ہے، یعنی وہ خبرِ غیب کے تابع ہو کر کام کرتی ہے جبکہ مذہبی مابعدالطبعیات میں عقل کی تابعیت دہری ہے یعنی وہ خبرِ غیب اور خیال کے تابع ہو کر کام کرتی ہے۔ علم الکلام جدید ہرمانیوٹکس بھی نہیں ہے جو ہر متن کو عقلِ محض کی شرائط پر ہر الوہی محتویٰ سے خالی کر کے، اسے مکمل naturalize کر کے، فہم کی شرائط پر از سر نو استوار کرتی ہے۔ اس تقدیر پر یہ بات درست ہے کہ عقلِ محض کی بنیاد پر کوئی مابعد الطبعیات ممکن ہی نہیں ہے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے عقلِ تسلیم کی بنیاد پر بھی کوئی مابعدالطبعیات ممکن نہیں ہے اور جو لوگ علم الکلام کو مابعد الطبعیات کہتے ہیں وہ سخت نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلِ تسلیم کو عقلِ محض کی شرائط پر علم کے چھکڑے میں جوتنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اپنا سب کچھ برباد کیے چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو تہذیبی سطح کے تین بڑے علمی مسائل درپیش ہیں: (۱) سائنسی علم جو مکمل طور پر naturalistic ہے یعنی آفاق کو صرف اور صرف حس کی شرط اور سطح پر، یعنی حسی معلوم کو مفہوم بنانے کی کوشش ہے، جس میں وجود کا مسئلہ اول الاوائل میں خارج از بحث ہے؛ (۲) ہرمانیوٹکس جو انسانی شعور کی مکمل naturalization کا عمل ہے، یعنی انسانی شعور کی آفاق کی شرائط پر تشکیل کا طریقۂ کار اور علمی منصوبہ ہے۔ ہرمانیوٹکس مذہبی ذہن کے لیے سائنس اور مابعدالطبعیات سے زیادہ بڑا، زیادہ پیچیدہ اور کہیں بڑھ کر تباہ کن مسئلہ ہے؛ (۳) اور مابعدالطبعیات جو عقلِ تسلیم اور عقلِ محض دونوں کو روند ڈالتی ہے۔ یہاں ان کی تفصیل کا موقع نہیں لیکن عقلِ تسلیم کے بعد عقلِ محض پر بھی ایک دو باتیں ضروری ہیں۔ عقلِ محض کا مطلب ہے ”عقل اپنے آپ میں“ یعنی خود نگر و خود آگاہ و خودمختار و خودمکتفی جو روایت، رسوم، رواج، کلچر، علم، مذہب، اسطور اور جادو وغیرہ سے منفک اور ماورا خود کو اپنے ہی آئینے میں دیکھتی ہو۔ عقلِ محض سے کسی چیز کے تسلیم کا مطالبہ محض لطیفہ ہے کیونکہ عقلِ محض نے خود کو ایک ’غیرحاضر‘ خدا کے ’پیکر‘ پر ڈھالا ہے اور جدید دنیا تخلیق کی ہے۔ یونانیوں کے ہاں عقل کا تصور عقلِ محض کا نہیں ہے، بلکہ عقل تسلیم سے مماثل ہے۔ سرحدِ شہود و ادراک پر یونانی عقل بھی منفعل و منکسر ہے، اور جو افلاطون کے نظریۂ امثال سے ظاہر ہے۔ جدید عہد میں یہ ہوا کہ مسلم عقلِ تسلیم جو وحی کو مانتی تھی خود کو عقلِ محض کے چولے میں دیکھ کر ایسی مبہوت ہوئی کہ پتھر ہی بن گئی، اور اگر یونانی فلسفیانہ عقل بھی جدید عقل محض کو دیکھ لیتی تو اس کا بھی شاید یہی حال ہوتا۔ علم الکلام میں ظاہر ہونے والی عقل تسلیم پر اب دم کیا ہوا پانی چھڑکنے کی ضرورت ہے، کیا خبر کہ پھر سے زندہ ہو جائے۔ چشمۂ باصفا سے پانی تو بھر لائے ہیں، لیکن دَم کے لیے بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔ لیکن ضمناً ایک ضروری بات یہاں کہنا لازم ہے کہ شہود و غیب کی تقسیم کونی اور فطری ہے، اور معقول بھی ہے اور محسوس بھی ہے۔ خبرِ وحی کا اثبات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان غیب کو پہلے سے نہ ’مانتا‘ ہو۔ جدید عقلِ محض کے ہاں خبرِ وحی کا انکار، انکارِ غیب کے مابعد ہے اور ایک طرح سے وجود کے سوال کا ہی انکار ہے۔ جدید عقلِ محض، انکارِ غیب کے بعد the Known اور the Unknown کی ایک غیرکونی اور غیرفطری تقسیم ایک حد فاصل کے ساتھ خود قائم کرتی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”کائنات ہے“ تو یہ اس کے کلیت میں ’معلوم‘ ہونے کا ہی اظہار ہے بھلے یہ اجزا میں معلوم نہ ہو۔ ایک مفروضاتی سرحد کے ساتھ معلوم اور نامعلوم کے قیام کے بعد، عقلِ محض اس غیرفطری اور جعلی حد فاصل کو ’باہر‘ کی طرف دھکیلنے اور علاقۂ معلوم کی توسیع کو ایک heroism کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ اس میں ترتیب یہ ہے کہ نامعلوم کو معلوم بنایا جائے اور پھر معلوم کو مفہوم بنایا جائے۔ جدید عقل محض بھی کسی تصورِ ’نامعلوم‘ کے بغیر کام نہیں کر سکتی لیکن یہ ’نامعلوم‘ کی تعریف ہی یہ کرتی ہے کہ جو معلوم ہو کر مفہوم ہونے کے قابل ہو۔ اس کے نامعلوم سے غیب اور وحی دونوں خارج ہو جاتے ہیں، کیونکہ وحی کے ذریعے سے غیب معلوم تو ہو سکتا ہے لیکن مفہوم کبھی نہیں ہو سکتا۔ علم الکلام کے نزدیک ہر معلوم کا مدرک ہونا ضروری نہیں، کیونکہ علم الکلام کا شہودی معلوم مدرک ہے، اور غیبی معلوم منزَل ہے۔ یہ تو بدیہی ہے کہ ہر مدرَک، معلوم ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ہر معلوم، مفہوم بھی ہو۔ لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ہر مدرک مفہوم ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں مفہوم ہر وہ چیز ہو سکتی ہے جو مدرک ہو یعنی احاطۂ ادراک میں ہو۔ اس طرح یہ لازم آتا ہے کہ مفہوم صرف مادی ہے۔ مفہوم شعور انسانی میں مادے کی موجودیت کا ایک اسلوب ہے۔ علم الکلام میں خبرِ غیب سے ’معلوم‘ کبھی ’مفہوم‘ نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے، اور عقلی کا حصر مفہوم میں کرنا عقلِ محض کا سب سے بڑا غیرعقلی دعویٰ ہے۔ جبکہ علم الکلام کا بنیادی ترین موقف یہ ہے کہ معلوم اور مفہوم دونوں عقلی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ایک نہیں ہیں۔
جملۂ معترضہ کے طور پر شروع ہونے والی بات بلاوجہ طویل ہو گئی۔ بہرحال اب زیربحث موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ رسالے میں بہت سی مفید باتیں آ گئی ہیں مثلاً یہ کہ علم حقیقتِ واحدہ ہے یعنی یہ اپنی تشکیل میں داخلی تضادات کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ کہ علم حقائق ثابتہ کا محتمل ہے اور یہ حقائق ثابتہ، نفس الامریہ ہیں۔ یعنی علم پر واجب ہے کہ وہ حقیقتِ نفس الامر پر دلالت کرے۔ اسی طرح متن میں حضرت عبدالعلی بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ جواہر ریزے بھی شامل ہیں اور جن سے ان کے غیرمعمولی ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن میری دلچسپی اس رسالے میں ایک دوسری جہت سے ہے۔ یہ رسالہ جیسا کہ میں نے عرض کیا سنہ ۱۹۳۶ء میں لکھا گیا جو دو بڑی عالمی جنگوں کے درمیان کا عرصہ ہے، اور اس زمانے تک جدیدیت علم و معلوم اور شعور و وجود کے روایتاً منتقل ہونے والے سانچوں کو ریزہ ریزہ کر کے ملبے کو فصیلِ شہود سے ’باہر‘ لڑھکا چکی تھی اور ان کی ایک مطلقاً نئی تشکیل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ مزید یہ کہ جدیدیت انسانی شعور اور انسانی آفاق کو مکمل تہہ و بالا کر کے اسے ایک مکمل نئی تقویم پر ڈھال چکی تھی۔ اس سے بھی آگے، جدیدیت مسلم علاقوں پر اپنا تہذیبی تسلط، یعنی علمی، سیاسی اور معاشی تصرف مکمل طور پر قائم کر چکی تھی، اور اس تسلط اور تصرف کی قوت جدید سائنسی اور سماجی علوم سے فراہم ہو رہی تھی۔ پھر یہ کہ اس زمانے میں جدید علوم جامعات کی سطح پر سرکاری سرپرستی میں منظم کیے جا رہے تھے، اور جو زندگی کے ہر شعبے میں غیرمعمولی حد تک نتیجہ خیز تھے، اور خاص طور پر عالم فطرت ایک تحول عظیم سے گزر رہا تھا۔ سرکاری سرپرستی میں فروغ یافتہ جدید تعلیم جدید علوم کے لیے سازگار ثقافتی فضا پیدا کر رہی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آقائے سرسید ہند اسلامی تہذیب کی باقیات کے ملبے کو استعمار کی سرپرستی میں ایک بالکل ہی نئی اور ضدِ دین ”اسلامی“ تہذیب کی نیو میں کھپا چکے تھے۔ زیرِ بحث رسالے میں علم اور معلوم کی بحث کی گئی ہے اور مسئلہ ادراک حصول الاشیا فی الذہن کے ذیل میں زیربحث ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مسلم ذہن کا یہ کیسا عقلی علم ہے، یہ کیسا عقلی معلوم ہے اور یہ کیا حسی ادراک ہے جو اپنے اردگرد فطرت اور تاریخ میں واقع ہونے والے تحولِ عظیم کا بالکل ابتدائی سطح پر ادراک کرنے سے بھی نہ صرف قطعی قاصر ہے بلکہ اس سے مکمل حالتِ انکار میں ہے؟ بیسویں صدی میں بھی کلامی ذہن اعلیٰ ترین علمی سطح پر فعال ہے، یہ اپنے آپ میں مکمل طور پر یکسو ہے، اور اس میں عدم اطمینان کے بھی کوئی آثار ظاہر نہیں اور وہ اپنی مندرس تصنیفی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے؟ پھر یہ کہ آفاق جس وجود کا نام ہے اس میں وجود کی قطعی نئی ہیئتیں داخل ہو چکی ہیں اور علم الکلام جس کے مرکز میں وجود کی بحث قائم ہے اس وجود کا ادراک، نظر اور استدلال میں سامنا کرنے کے بالکل بھی تیار نہیں بلکہ آفاق میں واقع ہونے والا وجودی تحول اس کے لیے موجود ہی نہیں ہے۔ جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ تہذیب کی آمد کے بعد ہمارے مذہبی، عقلی، نظری یا کلامی علوم میں کوئی ہلکا سا نشان بھی ان امور سے تعرض کا نہیں ملتا۔ جو چیز واقع میں ہمیں گھیر چکی ہے وہ ہمارے تہذیبی ذہن میں کسی بھی علمی شرط پر داخل نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی غیرمعمولی صورت حال ہے اور جسے میں مسلم ذہن کی حالتِ انکار قرار دیتا ہوں۔ مغربی تہذیب کے عروج اور استعمار کے عالمگیر پھیلاؤ اور غلبے میں دنیا کا کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہے جس نے اس صورت حال کا ذہن اور ارادے سے کچھ نہ کچھ سامنا نہ کیا ہو۔ مسلم شعور کی مثال بالکل انوکھی ہے، اس لیے اس کو مکمل حالت انکار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
جیسا کہ میں تکرار سے عرض کرتا ہوں کہ مسلم ذہن ایک حالت انکار میں ہے جو اس قدر گہری ہے کہ کوئی تجربہ یا مشاہدہ بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا اور یہ رسالہ بھی اس حالتِ انکار کا دلچسپ نمائندہ ہے۔ اس میں علامہ اجمیریؒ کی جو علمی سطح ظاہر ہوتی ہے وہ غیرمعمولی ہے اور خالص عقلی معیارات پر عہد حاضر کے کسی بھی بڑے ذہن کی ہم پلہ ہے۔ علامہ اجمیریؒ کی طرح، مولانا محمد ایوب دہلویؒ بھی اعلیٰ ترین تقویٰ کے حامل اور ایک غیرمعمولی ذہن کے مالک تھے۔ ان کے بارے میں بھی یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ عقلی معیارات پر وہ عصر حاضر کے بہت بڑے اذہان کے ہم پلہ تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک بڑا ذہن حالتِ انکار میں اگر ایک جائز عقلی اور علمی فعالیت کو محیر العقول سطح پر سامنے لا سکتا ہے تو یہ صلاحیت جدید عہد سے ایک زندہ حالتِ تعلق میں بھی ظاہر ہو سکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ میں اپنے ان بزرگوں کا موازنہ ان بے دماغ اہلِ دانش سے نہیں کر رہا جو اشاعرہ، ماتریدیہ اور معتزلہ کے نزاعی مباحث پر آج بھی کتابیں لکھ رہے ہیں اور جن میں قدیم اور جدید مناہج علم دونوں مفقود الخبر ہیں۔ علم الکلام کے قدیمی مباحث اب مندرس ہیں، اور وہ زندہ مسائل کے طور پر مسلمانوں میں بھی موجود نہیں ہیں کجا یہ کہ خارجِ تہذیب سے کوئی صاحبِ علم ان روزنوں سے ہم پر حملہ آور ہو۔ تہذیب اسلامی کے مطالعات میں یہ موضوعات غیرمعمولی طور پر اہم ہیں، لیکن عصر حاضر میں ان کی کوئی relevance نہیں ہے، اور ان پر گفتگو کرنا اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے کیونکہ قدیم علم الکلام کے جدید فدائین ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکے کہ مثلاً کلاسیکل علم الکلام اور جدید سائنس میں کارفرما عقل کے تصورات میں جوہری فرق کیا ہے؟ قدیم کلامی مباحث سے ایسے استنباطات کرنا بھی جدید تعلیم یافتہ ذہن کے لیے ممکن نہیں ہے جن کو جدید مباحث میں deploy کیا جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج کے زندہ مسائل سے براہ راست تعرض کا کوئی منہجِ علمی دریافت کریں۔
اگر یہ گزارش علمی طور پر قابلِ لحاظ ہے کہ مسلم ذہن ایک بہت ہی گہری حالت انکار میں ہے تو میں فی الحال اس ضروری بحث میں نہیں پڑنا چاہوں گا کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔ مجھے فی الوقت اس میں دلچسپی ہے کہ مسلم ذہن کی تہذیبی حالتِ انکار کے فوری نتائج کیا سامنے آئے۔ لیکن اس سے پہلے حالتِ انکار کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ حالتِ انکار سے مراد شعور انسانی کی ایسی تہذیبی تشکیل ہے جس میں اس کا ادراک حاضر و موجود و مشہود سے مکمل انقطاع یا تعطل کا شکار ہو جائے اور وہ ان تک نظری اور عقلی رسائی کی صلاحیت سے مطلقاً محروم ہو جائے۔ میری ناچیز رائے میں مسلم تہذیبی ذہن مکمل حالتِ انکار میں ہے اور اس کے دو فوری نتائج برآمد ہوئے ہیں: ایک، کلاسیکل علم الکلام کا قدیمی منہج پر تسلسل یا اس کے موقفِ عقل اور نظریۂ علم کو سمجھے بغیر اس کا جدید فروغ، اور دوسرا تجدد۔ جبکہ وہ علوم جو عصر حاضر میں حصولِ طاقت اور سرمائے سے قوموں کی بقا کا ذریعہ ہیں وہ انفرادی سطح پر روزگار کے لیے ازحد دلپسند ہیں، لیکن قومی سطح پر ان کے حالات دگرگوں ہیں۔ ہمارے ملی ذہن کے یہ تین پہلو ہماری حالتِ انکار کو بہت گہرا کر کے اس سے نکلنے کے امکانات کو مسدود کر رہے ہیں اور مسلمان بہت تیزی سے شودرانِ عالم کا مقام حاصل کر رہے ہیں۔
علامہ اجمیریؒ کا رسالہ ”العلم و المعلوم“ کلاسیکل منہج پر علم الکلام میں اعلیٰ ترین علمی سطح پر اشغال اور اس کے تسلسل کی مثال ہے اور ہم عصر مسلم تہذیبی ذہن کی مکمل حالت انکار کو ظاہر کرتا ہے۔ علم و معلوم سائنس اور جدید فلسفے میں آج بھی ایک زندہ علمی مسئلے کے طور پر موجود ہے، لیکن اس رسالے سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ایسا کوئی مسئلہ ہم عصر انسانی ذہن کو بھی درپیش ہے اور اس کے جوابات نے پوری مسلم تہذیب کو روند ڈالا ہے۔ عقل اور اس کا پیدا کردہ علم اگر ہم عصر دنیا سے انکار یا انقطاع میں ہو تو کیا ایسی عقل، عقل اور ایسا علم، علم کہلانے کا روادار ہے؟ اس رسالے سے کچھ دلچسپ چیزوں کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ علامہ اجمیریؒ ایسے علم میں مشغول اور زبردست انہماک رکھتے ہیں جو روایتاً علوم منقولہ کی شرائط پر منتقل ہوا ہے۔ اس corpus of knowledge میں سوال اور جواب مانوس ہیں، اور ان سوالات پر اختیار کردہ منہج علمی پرانے زمانے سے چلی آتی ہے اور اس کے تحت جو جوابات دیے گئے وہ بھی طے شدہ ہیں، اور وہ عموماً مسلم تہذیب کے حق میں فیصل ہوئے ہیں۔ ان سوالات کی بحث میں عقلی دلائل اور رد دلائل بھی مندرس اور متحجر ہیں۔ مسلم ذہن، جس حد تک وہ باقی بچا ہے، ان سوالات و جوابات کے ساتھ comfortable محسوس کرتا ہے اور ان میں ضروری مواقف کے دلائل اور رد دلائل بھی فراہم ہیں اور انہیں اعلیٰ عقلی سطح پر حتمی بھی خیال کر لیا گیا ہے۔ اہم تر یہ کہ ان موضوعات کی دین یا وحی سے نسبتیں محکم ہیں، مضطرب نہیں ہیں۔ ایک خاص تصور عقل کے تحت ان مباحث کا عقلی ہونا بھی طے شدہ ہے۔ علم الکلام کے عقلی اور فلسفیانہ نتائج ایک تہذیبی اور علمی فتح کی یادگار ہیں اور عصر حاضر کی مکمل اور گہری شکست میں nostalgia کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔ مسلم ذہن چونکہ تہذیبی بڑھاپے میں تھا اس لیے کسی نئے علمی adventure سے خوفزدہ تھا، اور جدید دنیا کا اس کی طے کردہ شرائط پر سامنا کرنے کی will سے محروم ہو چکا تھا۔ حاملِ حق ہونا ایک تہذیبی ذمہ داری کی بجائے ایک privilege خیال کر لیا گیا تھا، اور اس privilege سے مناسبت رکھنے والی روایتی ذمہ داریاں چونکہ سہل تھیں اس لیے ان کا اعادہ کافی خیال کر لیا گیا۔ اور حامل حق ہونے کو privilege سمجھنا جدید اور ہم عصر علوم کے روبرو بھی جوں کا توں جاری ہے کیونکہ خفگی یا فتویٰ کے خطرے کے پیش نظر مسلمانوں سے کوئی سوال و جواب نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال اس رسالے کا کئی طرح سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے لیکن دو چیزیں بہت واضح ہیں کہ اس سے وہ حشر ساماں تاریخ غیرحاضر ہے جس میں ہمارے اسلاف کو گھمسان کا علمی رن درپیش تھا اور یہ تاریخ سوالوں کو نیزے کی طرح اچھالتی تھی، اور اس رسالے سے عصر حاضر کی تاریخ بھی اپنی پوری حشرسامانیوں کے ساتھ غیر حاضر ہے جو سوالوں کو بلڈوزروں اور بمبار طیاروں کی طرح روانہ کرتی ہے۔ پورے متن کی تشکیل اس طرح کی گئی ہے کہ اس میں کوئی درز باقی نہ رہے جہاں سے عصر حاضر کا کوئی سوال اندر کود پڑے۔ پورے متن میں missing questions کا کوئی نشان پا بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ متن خود ایک دنیا ہے اور اس سے باہر کوئی دنیا موجود ہی نہیں ہے، اور یہ متن خود میں فعال ذہن کے لیے ایک آشیانہ بن گیا ہے جہاں دھوپ نہیں پڑتی اور ہوا کے تھپیڑوں سے بچاؤ بھی ہے۔ لیکن اس گھونسلے میں انڈے بچے اب صدیوں سے دیکھنے میں نہیں آئے، یہاں زندگی کی کوئی چہچہاہٹ نہیں ہے، اور نہ کسی کو اس کی پروا باقی رہی ہے۔
مسلم ذہن کی گہری حالتِ انکار کا دوسرا بڑا اظہار تجدد میں ہوا ہے، اور میرے خیال میں وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے کلاسیکل علم الکلام کا علیٰ حالہٖ جاری رہنا اگر حسرتناک ہے تو تجدد شرمناک ہے۔ کلاسیکل علم الکلام تو کوئی جدید سوالات take ہی نہیں کرتا اور یہ رجحان سنہ ۱۸۰۰ء کے بعد سے بالکل واضح ہے، کیونکہ وہ عقل کے جس تصور اور فعلیت پر استوار کیا گیا ہے وہ سربمہر ہیں، اور جدید سوالات جن مظاہرِ وجود پر بنائے جاتے ہیں وہ کلامی ادراک میں بار ہی نہیں پاتے۔ کلاسیکل علم الکلام کی جدید عہد میں کارگزاری اگر مسلم ذہن کی خفگی اور انزواگیری کو ظاہر کرتی ہے تو تجدد اس ذہن کی مکمل ترین انفعالیت اور معکوسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ تجددی ذہن ہم عصر دنیا کے فعال علمی ذہن کے ساتھ مل کر عالم شہود، مظاہر وجود اور دنیائے تاریخ پر کوئی سوال اٹھانے کی سکت تو نہیں پاتا، لیکن وہ سارے سوالوں کو مذہب پر پلٹ دیتا ہے۔ کوئی آدھا وصف بھی ایسا نہیں ہے جو تجددی ذہن اور جدید علوم میں کارفرما ذہن میں مشترک ہو۔ جدید سائنسی اور فکری ذہن ایک خودمختار فاعلِ علمی کی حیثیت سے کام کرتا ہے جبکہ تجددی ذہن مکمل مفعولِ علمی ہے، اور خودی (self) کے کسی بھی فاعلی تصور اور تجربے سے مطلقاً محروم ہے۔ فاعلِ علمی کا مسئلہ علمیات (epistemology) ہے جبکہ مفعولِ علمی تعبیریات (hermeneutics) کی چوسنی سے شیرخوار بچے کی طرح چمٹا رہتا ہے۔ مندرس موضوعات پر کلامی سرگرمیاں اور تجدد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور دونوں میں ایک خاصیت مشترک ہے اور وہ ہے عصرِ حاضر کا ایک آزاد اور مکلف فاعلِ علمی کے طور سامنا کرنے سے انکار۔ کلاسیکل علم الکلام میں عقل تسلیم اب محض nostalgic imagination کی حیثیت سے باقی ہے جو عصر حاضر میں خود نگر و انزوا گیر ہے، اور متکلم ایک جائز فاعلِ علمی کے طور پر ظاہر نہیں ہے، جبکہ تجدد کی اساس تعبیریات (ہرمانیوٹکس) ہے، اور اس میں کارفرما عقل، عقلِ تسلیم ہے نہ عقلِ محض۔ اس میں سب سے حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس عقل کو ”عقلِ سلیم“ بھی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ وہ تو کارِ دلیل سے بےخبر اپنے رب کے حضور سراپا تسلیم و رضا ہوتی ہے۔ تجدد میں کارفرما اصولِ علمی فہم عامہ (common sense) ہے جو تاریخی مؤثرات کے محض ایک آلے کے طور پر متن کو ٹڈی دل کی نظر سے دیکھتا ہے۔ تجدد ہرمانیوٹکس کو فہم عامہ/کامن سینس کی بنیاد پر مقصدِ فہم کے لیے کام میں لاتا ہے اور اس عمل میں ایک بالکل نئے اور غیر انسانی ذہن کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن فہم کا مسئلہ معلوم اور نامعلوم کا تعین کیے بغیر زیربحث لانا ممکن نہیں۔ تجدد میں عقل کا کوئی بھی قابل لحاظ تصور کارفرما نہیں ہوتا اور وہ صرف مفعولیتِ علمی کا اظہار ہے اور جس کی شدت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب۔