خطرہ واحد کہانی کا: چیمامندا نگوزی ادیچی (ترجمہ: اسد فاطمی)
نائجیرین لکھاری چیمامندا ادیچی ہمارے اپنے اور دوسروں کے بارے میں سوچنے کے انداز پر لگے بندھے ٹھپوں کے اثرات کے بارے میں لکھتی ہیں:
میں ایک قصہ گو ہوں۔ اور میں آپ کو اس بارے میں کچھ ذاتی سی کہانیاں سنانا چاہوں گی جسے میں ’’واحد کہانی کا خطرہ‘‘ کہتی ہوں۔ میں مشرقی نائجیریا کے ایک یونیورسٹی کیمپس میں پروان چڑھی۔ میری اماں بتاتی ہیں کہ میں نے دو سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا تھا، البتہ میرا اپنا خیال ہے کہ چار سال حقیقت کے قریب تر ہے۔ سو میں ایک پوتڑوں کی قاری ہوں، اور مجھے پڑھنے کو جو کچھ ملا وہ برطانوی اور امریکی بچوں کی کتابیں تھیں۔
میں پوتڑوں کی لکھاری بھی ہوں، اور جب میں نے سات سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا، پنسل سے لکھی با تصاویر کہانیاں جنہیں میری اماں بچاری کو میرے آگے پڑھ کے سنانا ہوتا تھا، میں نے بالکل ویسی ہی کہانیاں لکھنی شروع کیں جیسی کہ میں پڑھ رہی تھی: میرے تمام کردار سفید فام اور نیلی آنکھوں والے تھے، جو برف میں کھیلتے تھے، جو سیب کھاتے تھے، جو موسم کے بارے میں بہت باتیں کرتے تھے کہ کیسی سہانی دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ اب، اس حقیقت کے باوجود کہ میں نائجیریا میں رہتی ہوں۔ میں کبھی نائجیریا سے باہر نہیں گئی تھی۔ ہمارے ہاں برف نہیں پڑتی، ہم آم کھاتے ہیں، اور ہم موسم کے بارے میں باتیں نہیں کرتے کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔۔۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے، میرے خیال سے، کہ ہم ایک کہانی کے آگے کس قدر اثر پذیر اور بے بس ہوتے ہیں، خاص طور پر اپنے بچپنے میں۔ چونکہ میں نے جو کچھ پڑھا سب وہ کتابیں تھیں جن کے کردار بدیسی تھے، میں نے یہ مان لیا تھا کہ کتابیں اپنی فطرت میں ایسی چیز ہوتی ہیں جن میں بدیسیوں کا ذکر ہوتا ہے اور وہ ایسی چیزوں کے بارے میں ہوتی ہیں جن کو میں ذاتی طور پر پہچان نہ سکتی ہوں۔ پھر، جب افریقی کتابیں میرے ہاتھ لگیں تو بات بدل گئی۔ وہ بہت زیادہ تعداد میں دستیاب بھی نہیں تھیں، اور وہ بدیسی کتابوں کی طرح آسانی سے ملتی بھی نہیں تھیں۔
لیکن چینؤا اچیبے (Chinua Achebe) اور کامارا لائے (Camara Laye) جیسے لکھاریوں کی بدولت، میں ادب کے بارے میں اپنے تصور کے بارے میں ایک ذہنی پلٹاوے سے گزری۔ مجھ پر یہ کھلا کہ مجھ جیسے لوگوں، چاکلیٹ جیسی رنگت والی لڑکیوں، جن کے بالوں میں پونی نہیں بندھتی، کا بھی ادب میں وجود ممکن ہے۔ میں نے ان چیزوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا جو میری دیکھی بھالی تھیں۔
تو وہ امریکی اور برطانوی کتابیں مجھے محبوب تھیں۔ وہ میرے تخیل میں تلاطم پیدا کرتیں۔ انہوں نے مجھ پر نئی دنیاؤں کے در وا کیے۔ لیکن اس کا ان چاہا سا نتیجہ یہ بھی تھا کہ مجھے یہ پتہ نہیں چلا کہ میرے جیسے لوگ بھی ادب میں موجود ہو سکتے ہیں۔ سو افریقی لکھاریوں کو دریافت کرنا میرے لیے کچھ ایسا تھا: اس نے مجھے اس واحد تاثر یا اکلوتی کہانی سے بچا لیا جو کتابیں سناتی ہیں۔
میں ایک روایتی، متوسط طبقہ کے نائجیرین گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرا باپ ایک پروفیسر تھا۔ میری ماں ایک ادارے میں منتظم تھی۔ سو جیسا کہ رواج تھا، ہمیں گھریلو معاونت میسر تھی، جو کہ اکثر ساتھ کے دیہی علاقوں سے فراہم ہوتی تھی۔ اس لیے، جب میں آٹھ سال کی ہوئی، ہمارے گھر ایک نیا گھریلو لڑکا ملازم ہوا۔ اس کا نام فائید تھا۔ میری ماں نے اس کے بارے میں جو واحد بات بتائی تھی وہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ میری ماں اس کے گھر والوں کو شکرقندیاں اور چاول، اور پرانے کپڑے بھجوایا کرتی تھی۔ اور جب میں اپنا رات کا کھانا بچا دیتی تھی، میری ماں کہا کرتی، ’’کھانا پورا کھاؤ! تمہیں پتہ نہیں؟ فائید کے گھر والوں جیسے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ سو مجھے فائید کے خاندان پر بے پناہ ترس آتا تھا۔
پھر ایک ہفتے کے دن، ہم اس کے گاؤں گئے، اور اس کی ماں نے ہمیں خوبصورت نقش و نگار والی رنگی ہوئی بید کی ٹوکری دکھائی جو اس کے بھائی نے بَٹی تھی۔ میں دنگ رہ گئی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کے گھر والوں میں کوئی سچ میں ایسی کوئی شے بنا سکتا ہو گا۔ میں نے ان کے بارے میں یہی کچھ سن رکھا تھا کہ وہ بہت غریب ہیں، اس لیے میرے لیے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ انہیں سوائے غریب لوگوں کے اور کچھ تصور کر سکوں۔ غربت ان کی واحد کہانی تھی۔
سالوں بعد، میں نے اس بارے میں سوچا جب میں نے یونیورسٹی میں پڑھنے، امریکہ جانے کے لیے نائجیریا چھوڑا۔ میں 19 سال کی تھی۔ میری امریکی ہم کمرہ کو مجھے دیکھ کے دھچکا سا لگا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے اتنی اچھی انگریزی بولنا کہاں سے سیکھ لیا، اور وہ یہ جان کر کچھ متعجب سی ہوئی تھی کہ انگریزی نائجیریا کی سرکاری زبان ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ اگر میں اسے ’’قبائلی موسیقی‘‘ جیسی کوئی چیز سنوا سکتی ہوں، اور بالآخر وہ یہ جان کر بہت مایوس ہوئی کہ میرے پاس ماریہ کیری کی ہی کیسٹ نکلی۔ اس کا خیال تھا کہ مجھے جدید چولھا استعمال کرنا نہیں آتا ہو گا۔
جو بات میرے من میں اٹک گئی تھی وہ یہ تھی کہ اسے مجھے ملنے سے پہلے ہی میرے بارے میں افسوس سا ہوا تھا۔ اس کی میرے لیے طے شدہ جگہ، بحیثیت افریقی کے، ایک طرح سے مربیّانہ تھی، اسے رحم اور ترس کہیں تو بہتر ہو گا۔ میری ہم کمرہ ساتھی کے پاس افریقہ کے بارے میں ایک ہی تاثر، یعنی واحد کہانی تھی: وہ تھی تباہی کی۔ اس واحد کہانی میں، افریقیوں کا کسی بھی طرح اس کے جیسا ہونا ممکن نہیں تھا، رحم سے پیچیدہ تر کوئی احساس اس کے پاس نہیں تھا، مساوی انسانوں کے طور پر کسی ربط کا کوئی امکان تک نہیں تھا۔
مجھے یوں کہنا چاہیے کہ میرے امریکہ جانے سے پہلے، میں نے شعوری طور پر خود کو بطور افریقی کبھی نہیں پہچانا تھا۔ لیکن امریکہ میں، جب کبھی افریقہ کی بات ہوتی، لوگوں کا رخ میری طرف ہو جاتا۔ یہ الگ بات کہ میں نے کبھی نمیبیا وغیرہ جیسی جگہوں کے بارے کبھی کچھ نہیں سنا تھا۔ لیکن مجھے اس نئی شناخت کو گلے لگانا پڑا، اور کئی اعتبار سے میں اب خود کو ایک افریقی سمجھتی ہوں۔
سو، امریکہ میں ایک افریقی کے طور پر کچھ سال گزارنے کے بعد، مجھے اپنی ہم کمرہ ساتھی کا اپنے بارے میں ردعمل سمجھ میں آنے لگا۔ اگر میں نائجیریا میں نہ پلی بڑھی ہوتی، اور اگر افریقہ کے بارے میں میرا تمام تر علم مقبول عام تصاویر سے آیا ہوتا، تو میں بھی افریقہ کو خوبصورت مناظر، خوبصورت جانوروں، اور ناقابل فہم لوگوں کی سرزمین سمجھتی جو بے تکی جنگیں لڑ رہے ہیں، غربت اور ایڈز کے ہاتھوں مر رہے ہیں، جو اپنے بارے میں کچھ بولنے سے قاصر ہیں اور ایک مہربان سفید فام غیر ملکی کی مدد کے منتظر بیٹھے ہیں۔ یعنی میں بھی افریقہ کو بالکل اسی طرح سے دیکھتی جیسے بچپن میں میں فائید کے خاندان کو دیکھتی تھی۔۔۔
اس طرح، مجھے سمجھ میں آنے لگا کہ میری ہم کمرہ کو پوری زندگی اس ایک تاثر، واحد کہانی کے مختلف روپ سننے اور دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔۔۔
لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی اضافہ کر دینا چاہیے کہ میں خود بھی اس واحد کہانی کے سوال میں قصوروار ہوں۔ کچھ سال پہلے، میں امریکہ سے میکسیکو گئی۔ اس زمانے میں امریکہ میں سیاسی فضا کافی کشیدہ تھی، اور تارکین وطن کے حوالے سے ایک بحث جاری تھی۔ اور، جیسا کہ امریکہ میں اکثر ہوتا ہے، تارکین وطن کا لفظ امریکہ میں میکسیکن کا ہم معنی بن گیا۔ میکسیکنوں کی ایسی ان گنت کہانیاں تھیں کہ وہ لوگ حفظان صحت کو چکما دیتے ہیں، سرحد سے پار کھسک آتے ہیں، سرحد پہ گرفتار کیے جاتے ہیں، اور اس طرح کی باتیں۔
مجھے میکسیکو کے شہر گؤادالہہارا میں پہلے دن وہ گھومنا پھرنا یاد ہے، لوگوں کو کام پر جاتے ہوئے ، بازاروں میں تُرتیلا روٹیوں کو لپیٹتے، سگریٹ پیتے، ہنستے ہوئے دیکھنا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلا احساس تھوڑے تعجب کا تھا۔ اور پھر میں شرمساری میں غرق ہو گئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں میکسیکنوں کے بارے میں میڈیا کی تصویر کشی میں ایسی ڈوبی ہوئی تھی کہ وہ لوگ میرے لیے واحد تاثر بن گئے تھے، یعنی کمذات تارکین وطن۔ میں نے میکسیکنوں کے بارے میں اس واحد کہانی کو قبول کر لیا تھا اور میں اپنے آپ پر اس سے زیادہ شرمسار نہیں ہو سکتی تھی۔ سو واحد تاثر یا اکلوتی کہانی اس طرح سے پیدا کی جاتی ہے، لوگوں کو ایک چیز کے طور پر دکھاؤ، فقط ایک منظر کے طور پر، بار بار دکھاؤ، اور یوں وہ واحد کہانی میں ڈھل جاتے ہیں۔
واحد کہانی کے بارے میں بات کرنا، طاقت و اقتدار پر بات کیے بغیر ناممکن ہے۔ اِگبو [نائجیریا میں بولی جانے والی ایک زبان] میں ایک لفظ ہے، میں جب بھی دنیا میں اختیار کے ڈھانچے کے بارے میں سوچتی ہوں تو یہ لفظ میرے ذہن میں آتا ہے، وہ ہے ’’نکلی‘‘۔ یہ ایک اسم ہے جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ہے ’’کسی دوسرے سے عظیم تر ہونا‘‘۔ ہماری معاشی اور سیاسی دنیاؤں کی طرح، کہانیاں بھی نکَلی کے اصولوں کے تحت متعین ہوتی ہیں: وہ کس طرح سے سنائی جاتی ہیں، سنانے والا کون ہے، کب سنائی گئی ہیں، کتنی کہانیاں سنائی گئی ہیں، یہ سب طاقت پر منحصر ہے۔
طاقت محض کسی دیگر شخص کی کہانی سنانے کی صلاحیت ہی نہیں، بلکہ اسے اس شخص کی فیصلہ کن کہانی بنانے کا نام ہے۔ فلسطینی شاعر مرید البرغوثی لکھتا ہے کہ اگر آپ کسی گروہ کو محروم کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی کہانی سناؤ اور ’’دوسری والی‘‘ سے شروع کرو۔ کہانی کو برطانویوں کی آمد کی بجائے مقامی امریکیوں کے تیروں سے شروع کرو، تو کہانی اور کی اور نکلے گی۔ کہانی کو افریقی ریاست کے نوآبادیاتی قیام کی بجائے افریقی ریاست کی ناکامی سے شروع کرو تو آپ کو پوری طرح مختلف کہانی ملے گی۔۔۔
جب کچھ سال پہلے، مجھے پتہ چلا کہ ایک کامیاب لکھاری کے لیے ضروری ہے کہ اس کا بچپن ناخوشی میں گزرا ہو، میں سوچنے لگی کہ میں وہ گھناؤنے ظلم کیسے گھڑوں جو میرے ماں باپ نے مجھ پر کیے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میرا بچپن کافی خوش گزرا تھا، کھلکھلاہٹ اور محبت سے بھرپور، ایک بڑے پختہ بندھن میں بندھے گھرانے کے اندر۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے دادا پڑدادا مہاجر کیمپوں میں مرے تھے۔ میرا کزن پولے اس وجہ سے مر گیا تھا کہ اسے حفظان صحت کا مناسب بندوبست نہیں مل سکا تھا۔ اوکولوما، میرا ایک قریبی ترین دوست، ایک طیارہ حادثے میں اس لیے مر گیا تھا کہ آگ بجھانے کے ٹرک میں پانی ہی نہیں تھا۔ میں ایسی فوجی حکومتوں کے زیر نگیں پروان چڑھی تھی جو تعلیم کو کمتر سمجھتی تھیں، اس لیے کئی بار، میرے والدین کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں۔ اور یوں، اپنے بچپنے میں، میں نے جام چٹنی کو ناشتے سے غائب ہوتے بھی دیکھا، پھر مکھن بھی غائب ہوا، پھر روٹی بہت مہنگی ہو گئی، پھر دودھ کمیاب ہو گیا اور اسکی راشننگ شروع ہو گئی۔ اور اس سب سے بڑھ کر، ایک روزمرہ معمول کے سیاسی جبر نے ہماری زندگی پر تسلط جما لیا۔
ان سب کہانیوں نے مجھے وہ کچھ بنایا جو کہ میں اب ہوں۔ لیکن صرف انہی مایوس کن کہانیوں پر اصرار کرنے سے میرا تجربہ بالکل سپاٹ سا لگے گا اور اس سے وہ دوسری کہانیاں نظرانداز ہو جائيں گی جنہوں نے مجھے ڈھالا تھا۔ واحد کہانی مسبوکہ ٹھپے (stereotypes) گھڑتی ہے، اور مسبوکہ ٹھپوں کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ نادرست ہوتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ نامکمل ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایک کہانی کو فقط واحد کہانی بنا کے رکھ دیتے ہیں۔
بلاشبہ، افریقہ ایسا براعظم ہے جو تباہیوں کی آماجگاہ ہے: یہ مہیب اور گھمبیر قسم کی ہوتی ہیں، جیسا کہ کانگو کے لرزہ انگیز ریپ جو بے چین کر دیں، جیسا کہ نائجیریا میں نوکری کی ایک آسامی پر 5000 لوگ درخواست دیتے ہیں۔ لیکن ایسی دوسری کہانیاں بھی ہیں جو کہ تباہی کی کہانیاں نہیں ہیں، یہ بڑی اہم بات ہے، اتنی اہم کہ اس کا تذکرہ ضروری ہے۔
مجھے ہمیشہ سے ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ کسی جگہ یا شخص کے ساتھ آمنا سامنا کرنا اس جگہ یا شخص کی تمام کہانیوں سے آشنائی حاصل کیے بغیر ناممکن ہے۔ واحد کہانی کا نتیجہ یہ ہے: یہ انسانوں کے وقار پر ڈاکا ڈالتی ہے۔ یہ ہماری مساوی انسانیت کی پہچان کو مشکل بنا دیتی ہے۔ یہ اس بات پر زیادہ اصرار کرتی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں چہ جائے کہ ہم ایک دوسرے سے کس قدر مشابہہ ہیں۔
سو اگر میں نے اپنی میکسیکو یاترا سے پہلے امیگریشن کی بحث کو امریکی اور میکسیکن دونوں طرفوں سے سنا سمجھا ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ اگر میری ماں نے مجھے بتایا ہوتا کہ فائید کا خاندان غریب اور محنتی تھا تو کیا ہوتا؟ اگر ہمارے پاس ایک ایسا افریقی ٹیلیویژن چینل ہوتا جو پوری دنیا کو بھانت بھانت کی افریقی کہانیاں نشر کیا کرتا تو کیسا ہوتا؟ یہ وہ چیز ہے جسے نائجیرین لکھاری چینؤا اچیبے ’’کہانیوں کا توازن‘‘ کا نام دیتا ہے۔
اگر میری ہم کمرہ نے میرے نائجیرین ناشر مختار بکری (Muhtar Bakare) کے بارے میں سن رکھا ہوتا تو کیا ہوتا، ایک محترم آدمی جس نے ایک اشاعت خانہ چلانے کے خواب کی خاطر اپنی بینک کی نوکری چھوڑی۔ جبکہ روایتی خیال یہ تھا کہ نائجیرین لوگ ادب نہیں پڑھتے۔ اس نے اس بات سے عدم اتفاق کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جو لوگ پڑھ سکتے ہیں، وہ پڑھیں گے، اگر آپ ادب کو ان کے لیے دستیاب اور قابل رسائی بنا دیں۔۔۔
اب، اگر میری ہم کمرہ میری دوست فومیاوندا کے بارے میں جانتی تو کیسا ہوتا، ایک نڈر خاتون جو لاگوس میں ایک ٹیوی شو کی میزبانی کرتی ہے، اور وہ کہانیاں سنانے کو پرعزم ہے جنہیں ہم بھولنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اگر میری ہم کمرہ کو اس دل کے آپریشن کا پتہ ہوتا جو پچھلے ہفتے لاگوس کے ایک ہسپتال میں کیا گیا تو کیسا ہوتا؟ اگر میری ہم کمرہ کو معاصر نائجیرین موسیقی کے بارے معلوم ہوتا تو؟ وہ باصلاحیت لوگ جو انگریزی اور پیدگن، اور اگبو اور یوروبا اور ایجو زبانوں میں گا رہے ہیں، جےزی سے فیلا اور باب مارلے سے اس کے دادا پڑدادا تک کے اثرات کی باہم آمیزش بناتے ہوئے۔
اگر میری ہم کمرہ ساتھی کو اس خاتون وکیل کے بارے میں معلوم ہوتا تو کیسا ہوتا جو نائجیریا میں ایک عدالت میں گئی اور اس مضحک قانون کے آگے سینہ سپر ہوئی جس کے مطابق خواتین کو ان کے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے ان کے شوہروں کی اجازت کا تقاضا کیا جاتا تھا؟ اگر میری ہم کمرہ کو نالیووڈ کے بارے میں کچھ پتہ ہوتا تو کیسا رہتا؟ جو بڑی بڑی تکنیکی ناسازگاریوں کے باوجود فلمیں بنانے والے تخلیقی لوگوں سے بھرا ہوا ہے، ایسی مقبول عام فلمیں جو حقیقت میں اس بات کی مثال ہیں کہ نائجیرین خود اپنی پیداوار کے صارف ہیں۔ اگر میری ہمکمرہ کو میری پرعزم حجام کا معلوم ہوتا تو کیسا ہوتا، جس نے ابھی ابھی اپنی حجامتی توسیعات کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ہے؟ یا ان لاکھوں دوسرے نائجیرین لوگوں کے بارے میں جانکاری ہوتی جو کاروبار شروع کرتے ہیں اور کئی بار ناکام ہوتے ہیں، لیکن اپنے عزم کو نہیں تیاگتے؟
میں جب کبھی اپنے وطن میں ہوتی ہوں تو میرا زیادہ تر نائجیرین لوگوں کے لیے تنگی کا باعث بننے والی کئی چیزوں سے پالا پڑتا ہے: ہمارا ناکارہ انفراسٹرکچر، ہماری ناکام حکومت، لیکن ساتھ ہی ہمارے ناقابل یقین حد تک پراستقلال عوام جو حکومت کی بدولت نہیں بلکہ حکومت کے باوجود زندہ و سلامت ہیں۔ میں ہر موسم گرما میں لاگوس میں تخلیقی نگارش کی ورکشاپ کو سبق دیتی ہوں، اور میرے لیے لوگوں کی وہ تعداد حیران کن ہے جو اس میں داخلے کی درخواست دیتی ہے، کتنے لوگ ہیں جو لکھنے کے لیے پرجوش ہیں، اور کہانیاں سنانے کے لیے۔۔۔
کہانیاں وقعت رکھتی ہیں۔ کہانیوں کا تنوع اہمیت رکھتا ہے۔ کہانیاں لوگوں کو انکے مال و متاع سے محروم کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں، لیکن کہانیاں ہی تقویت دینے اور انسانیانے کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہیں۔ کہانیاں لوگوں کا وقار مجروح کر سکتی ہیں، لیکن کہانیاں ہی پامال ہوئے وقار کو بحال کر سکتی ہیں۔
امریکی لکھاری ایلس واکر نے اپنے جنوبی رشتہ داروں کے بارے میں لکھا تھا جو شمال کی طرف چلے گئے تھے۔ اس نے انہیں اس جنوبی زندگی کے بارے میں، جسے وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے، ایک کتاب سے متعارف کرایا ۔ ’’وہ ارد گرد بیٹھ گئے، خود بخود کتاب پڑھتے ہوئے، مجھے کتاب پڑھتی سنتے ہوئے، اور ایک طرح سے کھوئی ہوئی جنت پھر سے مل گئی‘‘۔ میں اس خیال پر بات ختم کروں گی: کہ جب ہم واحد کہانی کو مسترد کرتے ہیں، جب ہمیں اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ کسی جگہ کے بارے میں کبھی بھی واحد کہانی نہیں ہوتی، ہم ایک طرح سے کھوئی ہوئی جنت کو پا لیتے ہیں۔
ماخذ:FacingHistory.org، TED