سائیں مَرنا اور اِکتارہ (ترتیب: کبیر علی)
(سائیں مَرنا سے متعلق ہر چیز عجب بھید بھری ہے۔ اُس کا نام، اس کا عشق، اس کا اندازِ حیات، اور سب سے بڑھ کر اُس کی موسیقی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُس کی موسیقی فن کے اعلیٰ مدارج تک پہنچتی ہے یا نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اُس میں تاثیر بہت ہے، بھید بھری تاثیر۔ سائیں مرنا کی ’دریافت‘ کے بارے میں حمید نسیم کی آپ بیتی ’ناممکن کی جستجو‘ میں پڑھا تو سائیں کے حوالے سے ایک مضمون ترتیب دینے کا خیال آیا۔ میں نے صرف اتنا کیا ہے کہ حمید نسیم کی آپ بیتی ، افضل پرویز کی ’نوا ہائے راز: پاکستان کے سنگیت ساز‘ اور ثروت حسین کی کلیات سے کچھ چیزیں یہاں نقل کر دی ہیں۔ اب ایک پریشانی باقی تھی کہ سائیں مرنا اور اُس کے اِکتارے کی تصویر تلاشِ بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہو رہی تھی ۔ خوش قسمتی دیکھیے کہ ایک روز قبلہ فہیم شناس کاظمی سندھ کے کسی عجائب گھر سے لوٹے تو وہاں محفوظ سائیں مَرنے کے اِکتارے کی تصویر بھی لیتے آئے۔ تبصروں میں جناب احمد سہیل نےسائیں مَرنا کی تصویر بھی جَڑ دی۔ لیجیے جناب گھر بیٹھے سارا کام ہو گیا)
’’سائیں مرنا کا اصل نام تاج الدین تھا اور وہ 1910ء میں مشرقی پنجاب میں امرتسر کے ایک گاؤں سنیرکلاں میں پیدا ہوئے ۔ نوجوانی میں عشق میں ناکامی نے انہیں موسیقی کی طرف مائل کیا اور وہ اکتارہ بجانے لگے۔ 1946ء میں انہیں آل انڈیا ریڈیو، لاہور پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کا موقع ملا جس کے بعد وہ لاہور منتقل ہوگئے اور بزرگان دین کے مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر اکتارا بجانے لگے۔ عمر کے آخری حصے میں وہ جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کے ایک گاؤں میں آباد ہوگئے تھے۔ وہیں 27 اکتوبر 1961ء کو ان کا انتقال ہوا اور وہیں آسودہء خاک ہوئے۔‘‘ (پاکستان کرانیکل از عقیل عباس جعفری)
اِکتارے کی ساخت اور اس باب میں سائیں مرنا کی اختراعات کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے افضل پرویز کی کتاب ’نوا ہائے ساز: پاکستان کے سنگیت ساز‘ سے مدد لی ہے۔یہ اقتباس دیکھیے:
’’لوک سازوں کی ابتدا بھی لوک سنگیت کے ساتھ ہی ہو گئی ہو گی کیونکہ آواز کو ایک رس اور آہنگ دینے کے لیے قدرتی طور پر ضروری تھا کہ اس کے ساتھ سُر اور تال کی سنگت بھی ہو۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ نیم وحشی انسان نے شکار کے لیے جب تیر اور کمان ایجاد کی تو کمان کی تانت کو کھینچتے اور تیر چلاتے وقت جو آواز نکلتی تھی اس سے ہی اسے تار کا ابتدائی ساز ’’اکتارہ‘‘ بنانے کا خیال آیا ہو گا۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ برصغیر اور مصر و بابل میں ہزاروں سال قبل بھی موسیقی کے ساز باقاعدگی سے برتے جاتے تھے۔ مشہور یونانی فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث نے مصریوں سے موسیقی کا علم حاصل کیا اور ان کے سازوں میں سُروں کے مقامات کا حسابی اندازہ لگا کر ان کے تموجات اور لہروں کی تعداد دریافت اور مقرر کی۔ ان سازوں میں سے پہلا ساز اکتارہ ہی تھا۔ اس نے اِکتارے کے تار پر مختلف لمبائیوں کے تموجات دریافت کیے۔
اکتارہ پاکستان کا قدیم ترین ساز ہے جو اب تک اسی پرانی صورت میں ہر جگہ رائج ہے ۔ پنجاب میں یہ ساز عام طور پر ’’کنگ‘‘ کہلاتا ہے جسے دیہات کے عوامی فن کار ، عام لوگ اور فقیر سُر کی آس کے طور پر برتتے ہیں۔ یہ ایک گز سے سوا گز تک لمبی، سیدھی اور خراد کی ہوئی قریباً ایک انچ موٹائی کی چھڑی کے ایک سرے پر کھونٹی لگا کر اور دوسرے سرے پر کدو کا تونبا لگا کر بنایا جاتا ہے۔ چھڑی (ڈانڈ) تونبے میں سے گزاری جاتی ہے جو دوسری طرف دو انچ کے قریب باہر نکلی ہوتی ہے۔ تونبے کے اوپر بکری کی خشک اور کمائی ہوئی کھال منڈھ دی جاتی ہے پھر لوہے یا فولاد کا ایک تار تونبے سے باہر نکلے ہوئے چھڑی کے حصے سے باندھ کر یا لپیٹ کر تونبے کے اوپر رکھی ہوئی ٹھیکری یا لکڑی کے آدھ یا پون انچ چوڑے چوکور ٹکڑے کے اوپر سے گزار کر ڈانڈ کے اگلے سرے پر لگی ہوئی کھونٹی کے گرد کَس کر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اس ایک تار کی وجہ سے ہی اسے ’’اِک تارہ‘‘ کہاجاتا ہے۔ سندھی میں اسی کو طنبورہ اور ’’یک تارو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے بجانے والا اپنے گلے کے بنیادی سُر( کھرج) کے مطابق کھونٹی گھما کر تار کو کھینچ تان یا ڈھیلا کر کے سُر کر لیتا ہے اسی سُر سے وہ اوپر کے سُر بھی بہ آسانی ادا کر سکتا ہے۔ اکتارے کا یہ سُر اُس کو گانے میں ’’آس‘‘ اور سہارا دیتا ہے۔ وہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اکتارے کے تار کو چھیڑتا اور اس کے ساتھ ساتھ گاتا رہتا ہے۔ بعض سلجھے ہوئے عوامی فنکار اس ایک تار کی مختلف لمبائیوں کو چھیڑ کر کھرج کے علاوہ دوسرے سُر بھی نکال لیتے ہیں اور اپنی لوک دھن کے ساتھ اس ساز کی سنگت کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض فنکاروں نے اپنی اُپج سے اکتارے میں ایک سے زیادہ تار لگائے ہوئے ہوتے ہیں یا اُس میں رَس، تاثر اور گو نج پیدا کرنے کے لیے باج کے تار کے نیچے طربوں کے تار بھی تانے ہوتے ہیں۔ سندھی ’’یک تارو‘‘ میں تین تار بھی ہوتے ہیں۔ عام خیال ہے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اکتارے میں یہ اضافہ کیا تھا۔
اِدھر پنجاب کے عظیم عوامی فنکار سائیں مرناؔ نے اکتارے کے لیے زیادہ لمبی ڈانڈ، کدو کے تونبے کی بجائے دھات کے بڑے تونبے کے ساتھ منسلک کی اور باج کے تار کے نیچے کئی طربیں لگا کر اسے وچتر وینا کا ہم پلہ بنا دیا اور پھر وچتر وینا ہی کی طرح اسے اس طرح بجاتے کہ ایک ہاتھ سے بلور کے گولے کو تار پر چلاتے جاتے اور دوسرے ہاتھ سے زخمہ (مضراب) لگاتے ہوئے ہر طرح کی دھنیں بجاتے جاتے۔ اِکتارہ ہی دراصل مضراب /زخمے سے بجائے جانے والے تار کے تمام کلاسیکی اور جدید سازوں کا جدِ امجد ہے۔ جو خود اپنی پرانی صورت میں بھی زندہ ہے۔‘‘
اسی کتاب میں آگے چل کر افضل پرویز صاحب نے پاکستان کے ساز نوازوں کا تذکرہ کیا ہے جس میں اکتارہ نوازی کے ضمن میں صرف سائیں مرنا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ آئیے انھی کی زبانی سنتے ہیں:
’’سائیں مرنا ،جس کا اصل نام محمد تاج تھا ، کہنے کو تو اِکتارہ بجاتا تھا لیکن دراصل اس نے اکتارے کی لانبی ڈانڈ کے نیچے ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک سُر منڈل کی طرح تار تان دیے تھے جو طربوں کا کام دیتے تھے۔
وہ لکڑی کے ایک ٹکڑے سے اکتار کی ڈانڈ کے اوپر باج کے تار کو وچتر وینا کی طرح بجاتا اور دوسرے ہاتھ کی پوروں سے طربوں کو جھنجھنا کر عجیب تاثر پیدا کرتا تھا۔ سائیں مرنا زیادہ تر لوک دھنیں ہی بجاتا تھا اور خوب بجاتا تھا۔ کبھی کبھی مستی میں آکر گانے بھی لگتا تھا۔
اس نے ریڈیوپاکستان لاہور سے ان گنت پروگرام کیے لیکن ا س کے نغموں کے ٹیپ، کیسٹ اور لانگ پلے ریکارڈ پاکستان کے ہر سٹیشن سے بجائے جاتے رہے اور اب بھی بے حد مقبول ہیں۔ یہ فقیر منش فنکار فیصل آباد کے کسی گمنام مقام پر رہتا رہا، کسی قہوہ خانے کے پتے سے اس کا ٹھکانہ ملتا تھا اور اُسی پتے پر اسے ریڈیو کنٹریکٹ بھیجے جاتے تھے۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بھائی سائیں دتہ قادری نے ویسا ہی اکتارہ بنوا لیا اور بجانا شروع کر دیا لیکن سائیں مرنا والی بات پیدا نہ ہوئی۔ سائیں مرنا بہت کم گو اور کم آمیز فنکار تھا۔ مرتے دم تک کسی سے نہیں کھلا، بس اس کا اکتارہ ہی اپنی زبان میں اس کے اندر کے دکھ کا اظہار کرتا تھا۔ اس کے باج میں سوز، درد اور گداز تھا اور وہ بے مثال تھا۔‘‘
حمید نسیم اپنی خودنوشت سوانح ’’ناممکن کی جستجو‘‘ میں سائیں مرنا کی دریافت کا واقعہ کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’ایک روز میں اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ سڑک کے اس پار مجھے ایک ملنگ نظر آیا۔ پتلا دُبلا۔ دراز قامت درویش۔ ایک لمبا کرتا پہنے جو اس کے ٹخنوں تک پہنچ رہا تھا۔ نیچے تہمد۔ دھاری داری۔ کانوں میں بڑے بڑے بالے۔ وہ کندھے پر ایک بڑا سا اکتارہ ٹکائے جا رہا تھا۔ میں نے اکتارے والے فقیر تو اپنے بچپن میں بہت دیکھے تھے مگر اس اکتارے کا تونبا ستار سے بڑا تھا۔ بالکل بڑے تانپورے کے تونبے جتنا۔ میرے دل نے کہا یہ تو کوئی فنکار فقیر ہے۔ میں لپک کر سڑک کی دوسری طرف اس فقیر کے پاس جا پہنچا۔ سلام کیا۔ فقیر نے بڑی بھاری مگر منجھی ہوئی آواز میں وعلیکم السلام کہا۔ میں نے بڑے ادب سے پوچھا سائیں جی! یہ ساز آپ بجاتے ہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ میں نے دیکھا تو اکتارے کے بڑے تار کے نیچے تین چار طربوں جیسے تار تھے۔ میں نے کہا پل دو پل مجھے سنائیں گے۔ اس نے کہا ۔ کیوں نہیں۔ کھڑے کھڑے ساز کو بغل میں لیا اور گز کی جگہ لکڑی کا ایک ٹکڑا تار پر پھیرنا اور تار کو مضراب سے چھیڑنا شروع کیا۔ یوں معلوم ہوا سُر ننھی ننھی پریوں کی طرح ناچنے لگے ہیں۔ دھن قائم ہوئی تو سائیں نے ایک آدھ بول گلے سے بھی کہا۔ آواز میں گہری اداسی اور مٹھاس تھی۔ میں نے آنسو بڑی مشکل سے روکے۔ جلدی سے جیب سے سگرٹوں کا پیکٹ نکالا۔ پوچھا سائیں جی سگرٹ پیتے ہو۔ فرمایا۔ پیتا ہوں۔ میں نے سگرٹ پیش کیا انھوں نے اسے ہونٹوں میں دبایا تو میں نے ماچس جلا کر سگرٹ سلگا دی۔ سائیں جی دو ایک کش لے چکے تو میں نے کہا سائیں جی میرے ساتھ ریڈیو سٹیشن چلیں گے؟ انھوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کوشش کروں گا کہ آج آپ کا پروگرام ریڈیو سے ہو جائے۔ فرمایا تو پھر چلتا ہوں۔ میں نے ایک دور سے آتے ہوئے خالی تانگہ والے کو اشارہ کیا۔ اس تانگہ میں سائیں جی کو پیچھے بٹھایا اور خود آگے بیٹھ گیا۔ ریڈیو سٹیشن پر پہنچ کر سائیں جی کو لے کر میوزک سٹوڈیو پہنچا۔اس وقت وہاں استاد فلوسے خاں مرحوم سارنگی سُر کر رہے تھے۔ صادق علی مانڈو کلارنٹ نواز اور ایک طبلہ والا بیٹھے ضلع جگت میں مقابلہ فرما رہے تھے۔ میں نے استادفلوسے خاں سے کہا۔ استاد جی یہ سائیں میرے ساتھ آئے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو دو ایک منٹ کے لیے انھیں سن لیں۔ فلوسے خاں بڑے صاحبِ دل بزرگ تھے۔ پاک دل والے۔ سارنگی کی طربیں پوری سُر ہو جاتیں اور وہ انھیں چھیڑتے اور سُر کی پھوار سچی ہوتی تو آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگتے تھے۔ ان جیسا سچا درویش میں نے اپنی زندگی میں دو ایک بار ہی دیکھا تھا۔ پانچ وقت کا نمازی، بیشتر وقت باوضو رہنے والا ملنگ ، بچے سے زیادہ معصوم۔ استاد نے کہا بسم اللہ سائیں جی۔ بسم اللہ۔ سائیں جی نے بڑے تار کے نیچے والے دو تین تار ملائے اور پھر ایک کافی کی دھن بجانا شروع کی۔ آدھا منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ فلوسے خاں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے ۔ صادق علی مانڈو اورطبلہ نواز کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ کبھی کبھی سائیں آواز بھی لگا دیتے ۔ آواز بہت رسیلی اور عمیق تھی۔ انھوں نے ایک جھالے کے ساتھ دھن ختم کی تو فلوسے خاں نے اٹھ کر ان سائیں جی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور کہا سائیں جی آپ نے دل خوش کر دیا۔ بڑے دنوں بعد ایسا سچا سُر سنا ہے۔ میں نے سائیں جی کوو ہیں بٹھایا اور جلدی سے ڈیوٹی روم جا کر فرید صاحب کو ان کے گھر پر ٹیلی فون کیا۔ فرید صاحب کو بے وقت زحمت دینے کی معافی مانگ کر کہا کہ ایک نادرِ روزگار موسیقار ہاتھ لگ گیا ہے۔ پوچھا مرد ہے یا عورت۔ میں نے کہا کہ ایک ادھیڑ عمر کا فقیر ہے۔ جوگی نما۔ کہنے لگے پھر؟ میں نے کہا آپ کی اجازت ہوتو آج اسے بُک کر لوں۔ کہنے لگے کس کی جگہ؟ میں نے بتایا کہ سازوں کی موسیقی کے دس دس منٹ کے دو چنک ہیں۔ فرمایا تم دل میں مطمئن ہو تو میری اجازت ہے۔ میں نے کہا فیس پورے پروگرام کی اسی روپے۔ بیس منٹ کے چالیس روپے ہوں گے۔ کہا ٹھیک ہے ۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ میوزک سٹوڈیو سے سائیں جی ، خانصاحب فلوسے خاں اور صادق علی مانڈو کو کینٹین لے گیا۔ وہاں ان سب کو چائے پلائی۔ سائیں جی سے ان کا نام پوچھا۔ فرمایا ۔’’مرنا‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا۔ کیا؟ فرمایا۔ باؤ تم ’’سائیں مرنا‘‘ کہہ لو۔ میں نے عرض کیا سائیں جی اس مرنا کے کیا معنی ہیں۔ انھوں نے ایک قصہ سنایا وہ قصہ میں نے پروگرام کی تعارفی اناؤنسمنٹ میں بیان کر دیا(افسوس! حمید صاحب نے یہ قصہ اپنی آپ بیتی میں نہیں لکھا)۔
اس رات لاہور میں ریڈیو سننے والوں کی آنکھوں میں نیند کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔ رات بھر ریڈیو سٹیشن کے سارے ٹیلی فون بجتے رہے۔ سائیں مرنا اس ایک رات میں عظیم لوک فنکار بن گیا۔ فن کے افق پر ایک فلک تاب ستارہ طلوع ہوا جو برسوں تک پہلے دن کی آب و تاب کے ساتھ جگمگاتا اور دلوں کو روشنی دیتا رہا۔ اگلے دن فرید صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر سائیں مرنا کے پروگرام پر دلی مبارکباد پیش کی اور سٹیشن کی مقبولیت میں گراں قدر اضافہ کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا نیز پہلی اور آخری بار اپنے کمرے میں چائے پلائی۔‘‘
شاعری میں ثروت حسین نے سائیں مرنے کو بہ طور استعارہ استعمال کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ثروت کے لیے سائیں مرنا کا اندازِ زیست بہت کشش رکھتا تھا اور یہ بات کچھ ہے بھی سچ کہ شاعر لوگ جس طرح کے جنون، صحرا نوردی اور آوارگی کو آئیڈیل مانتے ہیں، سائیں مرنا اس آئیڈیل کو جی رہا تھا۔ خیر ثروت حسین کی شاعری میں سائیں مرنا کا تذکرہ دیکھیے۔ سب سے پہلے ایک نظم ، جس میں ثروت نے نام لیے بغیر سائیں مرنا اور اُس کے ساز اِکتارے کا تذکرہ کیا ہے۔
کاندھے پہ دھرے ساز
گلیوں سے گزر جاؤں
کاندھے پہ دھرے ساز
سب لوگ ہمارے
اُس پار سِدھارے
کاندھے پہ دھرے ساز
اُس شوخ نے اب تک
کھولے ہی نہیں دوار
یہ ابر یہ بوچھار
اس خواب میں ہم کو
چلنا ہے لگاتار
کاندھے پہ دھرے ساز
یہ شام سہانی
آنکھوں سے پرانی
مہران کے پانی
تجھ میں نہ اُتر جاؤں
کاندھے پہ دھرے ساز
اب ثروت حسین کی ایک نظم ’’خود کشی کا فرشتہ‘‘ دیکھیے۔ ویسے تو ثروت نے اس عنوان کے ساتھ کئی نظمیں لکھی ہیں ، ہر نظم خود کشی کرنے والے کسی ادیب کےبارے میں ہے ۔ ان لوگوں میں سارا شگفتہ، سعید، شکیب جلالی اور صادق ہدایت شامل ہیں۔ یہاں میں موضوع کی مناسبت سے سارا شگفتہ والی نظم درج کر رہا ہوں ۔
خود کُشی کا فرشتہ
نوحہ ــــ سارا شگفتہ کے واسطے
انجمن کے ماتھے کا سُورج، ایک بدن کے لاکھوں ٹکڑے، ہر ٹکڑے میں اک
سیارہ، سیارے کے دل میں ساراـــــ میں بنجارہ، ہاتھوں میں لے کر انگارا،
مٹی کے سینے میں اُترا، بیج میں سویا پھول میں جاگا
ـــــ بن بیلے میں گونج رہا تھا سائیں مرنا کا اکتارا
ثروت حسین اپنی کئی غزلوں میں بھی سائیں مرنے اور اِکتارے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں ان کی ایک غزل کے کچھ اشعار درج کرتا ہوں۔
غزل
لال لہو فوارہ ہُو
یار نے خنجر مارا ہُو
ہویا میں آوارہ ہُو
کُل عالم بنجارا ہُو
پیر کھڑاؤں تپتی چھاؤں
ہتھ وچ ہُن اکتارا ہُو
شور قدیمی چمٹے دا
بول پیا اِکتارا ہُو
اس مضمون کا اختتام ثروت کی اُس نظم پہ کرتا ہوں جو انھوں نے سائیں مرنا کی یاد میں لکھی تھی۔
جھٹ پٹے
(سائیں مرنا کی یاد میں)
مرنا تیری خامشی، بھید بھرا پاتال
اندر کا احوال، شاعر کا دل جانتا
مرنا تیری انگلیاں، اِکتارے کی گونج
گرتی گھائل کونج، پنکھ پسارے جھیل پر
مرنا تیرے بول، اڑ جائیں پَر کھول
جیسے غول کے غول، پکشی دُور دِشاؤں میں
اک دیوارِ اجل، جلتا بلتا تھل
ڈھونڈ رہا ہر پَل، اپنے موسیقار کو
اِکتارے کی کاٹ، نیندیں کرے اچاٹ
سونے ہیں گھر گھاٹ، گرد گرد ہے چاندنی
مرنا تیرا رنج، میرے دل کے بیچ
آب و گل کے بیچ، جیسے اکیلا ہنج 1
1۔ہنس