گوشۂ حافظ محمد ایوب دہلویؒ (مدیر: عاصم رضا)

 In یاد نگاری
نوٹ: آج مولانا محمد ایوب دہلوی کی برسی ہے ۔ دعا ہے کہ خدا ان کی قبر کو منور فرمائے اور درجات بلند کرے ۔ آمین ثم آمین

انیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے ہی ایک خاص موضوع کا ذکر جابجا ملتا ہے یعنی علم الکلام کی بازیافت اور تشکیل ِ نو ۔ ایک جانب شبلی نعمانی علم الکلام سے متعلق باقاعدہ کتاب تصنیف کرتے ہیں جب کہ دوسری جانب سرسید احمد خان کی بابت کہا جاتا ہےکہ وہ ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے ۔ بعد ازاں، علامہ محمد اقبال کے حوالے سے یہ بات بارہا سامنے آتی ہے کہ وہ ایک کلامی مفکر تھے نیز ایک نئے علم الکلام کی تشکیل کرنا چاہتے تھے ۔ بعینہ ، جدید تعلیمی حلقوں کی جانب سے اشاعرہ اور معتزلہ کے ضمن میں خوب گرما گرمی ملتی ہے ۔ خیر، ہم اس بحث میں نہیں الجھتے کہ علم الکلام کے حوالے سے اردو اور انگریزی میں کیا کچھ دستیاب ہے اور اس کا معیار کیا ہے۔ مختصراً ، مقامی سطح پر ہونے والے مباحثوں سے کم از کم مجھے خاصی بے اطمینانی ہے ۔

ذرا دیر کے لیے کچھ سوالات سامنے رکھتے ہیں تاکہ علم الکلام سے متعلق مباحث کو سادہ انداز میں لائق تفہیم بنایا جائے ۔ مثال کے طور پر، نئے علم الکلام کی ضرورت کیوں درپیش ہے؟ یا ہو سکتی ہے؟ اس بحث میں شامل فریقین کون کون سے ہیں اور کیا ہمارے پاس ان کے باہمی روابط ، اشتراکات و اختلافات کے ذیل میں بنیادی ضروری تفہیم موجود ہے؟ کیا اشاعرہ و معتزلہ کو مکمل طور سے آزما لیا گیا ہے؟ اس ساری بحث میں ماتریدیہ کلامی روایت کس حد تک مددگار ہو سکتی ہے؟ کہیں ہم فقہ و کلام کے باہمی روابط کے ذیل میں کسی کوتاہ فہمی کا شکار تو نہیں ہیں؟

ابراہیمی مذاہب اور یونانی فلسفہ کے باہمی روابط کی صورت میں علم الکلام کا اولین ظہور ہوا ۔ جبکہ یونانیوں کے ہاں فلسفے کی پیدائش کو یونانی علم الکلام کہا جا سکتا ہے جس کی بنیادیں یونانی اصنام پرستی میں موجود تھیں ۔ خیر، فارابی کا پیغمبر بادشاہ ہو یا ابن طفیل کا حی ابن یقضان ہو ، تصور خدا و انسان اور وحی و عقل کے باب میں مباحثے اور مناقشات کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے ۔ بعینہ ، اشاعرہ ، معتزلہ اور ماتریدیہ کے عنوان تلے کلامی روایات بھی موجود ہیں جن کے مابین ایک قدر مشترک ہے کہ تصورِ الہ کو پہلے تسلیم اور پھر ثابت کیا جائے ۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق قرآن مجید و توریت و انجیل کا اسلوب یہی ہے ۔

سولہویں صدی کے بعد سے مغربی فکر میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوئی کہ مذہب و فلسفہ کے ساتھ ساتھ یونان کے ملحد مفکرین کے افکار پہ استوار جدید سائنس وجود میں آئی ۔ انھی یونانی فلسفیوں کو استعمال میں لانے کا ایک نتیجہ کلامی دائرے میں کچھ اس طور سے ڈھلا کہ پہلے وجودِ مطلق کو عقلی دلائل سے ثابت کیا جائے اور پھر تسلیم کیا جائے ۔ اور اگر ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم درجے میں اس سے لاتعلقی اختیار کی جائے۔ اور یہاں سے ہی روشن خیالی کا سوتا پھوٹا جس کے تحت مذہبی افکار نے انسان یا انسانیت کو ایک نوع کے بچپنے میں جکڑ رکھا تھا جس سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو چھٹکارا دلوانا فلاح و ترقی کے واسطے ناگزیر ہے ۔ عملی دائرے میں جدید مشین و ٹیکنالوجی جیسے اشیاء متشکل ہوئیں ۔ یوں کلامی دائرے سے ایک نیا روپ سروپ پھوٹا جس میں مذہب ، فلسفہ اور سائنس نامی تین فریق شامل ہیں ۔ جدید سائنس، جدید فلسفہ کو متشکل کرنے کے بعد مذہب کی تشکیل ِ نو کے درپے ہوئی ۔ اور اب معاملہ محض نظری نہیں رہا ، بلکہ نظری و عملی دونوں باہم مدغم ہو گئے ۔ عقل صرف نظری نہیں رہی بلکہ تجربی و تجرباتی جہت کا اضافہ بھی ہو گیا ۔ جدید مشین و جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد نے صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا ۔

یہ وہ پس منظر ہے جس میں نئے علم الکلام کا سوال بامعنی بنتا ہے ۔ اور جس کے تحت علم الکلام کی بازیافت اور تشکیلِ نو سے متعلق اہم علمی شخصیات کو سمجھنے کی کوشش ہو سکتی ہے تاکہ ایک نئے تصور عقل و انسان کے ساتھ ساتھ وحی و عقل کے باہمی روابط کو ازسرنو پیش کیا جا سکے جس کی بنیادیں ایک طرف اسلامی مصادر یعنی قرآن و سنت کے اندر محکم انداز میں گڑی ہوں نیز معاصر انسانی ذہن و علوم کے اٹھائے ہوئے سوالات کی فکری و نظری و عملی احتیاج کو بھی پورا کر پائے ۔ بالفاظ دیگر ، ٹیکنالوجی یا پھر جدید فلسفہ و سائنس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نیا تصورِ عقل درکار ہے جس کے تحت وحی و جدید عقل (نظری و تجربی و تجرباتی) کے مابین واقع باہمی نسبتوں کا ازسرنو تعین کیا جائے ۔ سادہ زبان میں تصور و تصدیق کی تشکیلِ نو درکار ہے اور اس کے نتیجے میں تصورِ انسان و کائنات و معاشرہ و علوم سبھی کچھ تبدیل ہو جائے گا ۔

آٹھ نو برس پرانی بات ہے کہ استاد گرامی احمد جاوید صاحب کے توسط سے مولانا محمد ایوب دہلوی سے تعارف میسر ہوا۔ اور پھر مقالات ایوبی و تفسیر ابوبی سے طالب علمانہ اور عقیدت مندانہ تعلق کا آغاز ہوا جو کہ آج تک جاری ہے ۔ بعد ازاں ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صاحب کے توسط سے ”ہمارے مولانا“ کی اپنی آواز میں خطباتِ ایوبی کو سننے کی سعادت بھی ملی ۔ اسی اثناء میں ، میں اپنے ریاضیاتی و کمپیوٹر سائنس کے مطالعے میں بھی مگن رہا جس کے نتیجے میں مشینی عقل کی ایک نئی ممکنہ تشکیل پہ تھوڑا بہت کام کرنے کا موقع ملتا رہا ۔ خدا کی مہربانی کچھ یوں شامل حال رہی کہ میں نے بارہا مولانا محمد ایوب دہلوی کے بعض بنیادی تصورات کو اپنی وضع کردہ ریاضیاتی و مشینی عقل کے تحت بننے والی لفظیات میں ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ میں نے اپنے تئیں مولانا کے ایک قول کو درج ذیل فقرے میں تبدیل کیا اور پھر اس کی روشنی میں ان کے افکار کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ علاوہ ازیں ، میں نے مولانا محمد ایوب دہلوی کے روبرو علامہ محمد اقبال کو اس طور سے کھڑا کرنے کی کوشش بھی کی کہ مرید ہندی اب فلسفی اقبال ہے جس کو مرشد متکلم کی اشد ترین ضرورت ہے ۔

1۔ مولانا فرماتے ہیں کہ وحی کی مخاطب اولین عقل ہے۔ میں نے سمجھا کہ انسان کی مخاطب اولین مشینی عقل ہے ۔ دو تین برس قبل میں نے اپنے استاد ڈاکٹر باسط بلال کوشل کے ایک انگریزی مضمون کی آخری فصل کا اردو ترجمہ بعنوان ”مذہب اور سائنسی فکر کی تشکیلِ جدید“ کے عنوان تلے کیا تھا ۔ وہاں ہمارے مولانا کے بیان کردہ اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کیا تھا ۔

2۔ مولانا کے بقول، یونانیوں نے تصور الہٰ کو جانوروں پر اور فلسفیوں نے انسان پر قیاس کیا اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔ میں نے سمجھا ہے کہ ایک طرف انسان صورتِ خداوندی پہ خلق ہوا ہے تو دوسری طرف ، مشین یا کمپیوٹر مشین صورتِ انسان پر وجود میں آئی ہے ۔ مزید براں، خطباتِ اقبال میں سے تلاش کیا ہے کہ کیسے مولانا کی تنقید کو افکار ِ اقبال پہ نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ علامہ صاحب کے تصورِ خدا سے متعلق میرے استاد ڈاکٹر باسط بلال کوشل کا بھی ایک انگریزی مضمون ہے لیکن وہ شاید ہی کسی گنتی میں آتا ہو ۔ حالانکہ وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مضمون ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر باسط کوشل کا مؤقف ہے کہ علامہ تصور خدا سے متعلق مغربی دلائل کو تبدیل کر دیتے ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس تبدیلی کے ذریعے علامہ ہمارے روایتی متکلمین کے قریب ہو جاتے ہیں نیز انھیں مولانا ایوب دہلوی کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے ۔

3۔ مولانا محمد ایوب دہلوی نے واحد کو جس طور سے بیان فرمایا ، میں نے اس کو اپنے وضع کردہ نظریہ سیٹ و عدد میں کھوجا ۔ (دھیان رہے کہ واحد سے متعلق مولانا کی مختصر بحث تفسیر ایوبی میں اعوذباللہ کے تحت موجود ہے) ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ مولانا اس بحث میں واحد اور احد کے مابین بنیادی تفریق روا رکھتے ہیں اور یہی سب سے اہم ترین نکتہ ہے کیونکہ اس نکتے کی روشنی میں نہ صرف وحدت فی الکثرت اور کثرت فی الوحدت سمیت وحدت ِ ادیان جیسے تصورات و نظریات کی تفہیم میں آسانی ہو جاتی ہے بلکہ عیسوی تصور تثلیث اور اسلامی تصور توحید جیسا کہ سورۃ اخلاص میں بیان ہوا ہے ، کے مابین بنیادی فرق واضح ہو جاتا ہے ۔

استاد گرامی احمد جاوید صاحب کے بقول ، مولانا ہماری روایت کے آخری عظیم متکلم ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں دوبارہ سے اپنی علمی روایت کو تازہ کرنا ہے تو مولانا محمد ایوب دہلوی ہمارے لیے انتہائی قیمتی آدمی ہیں ۔ خیر، اس ساری کھوج پڑتال کے اندر اس خواہش نے زور مارا کہ مولانا کے مطبوعہ کتابچوں اور غیر مطبوعہ خطبات ایوبی کو سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ایک طرح سے یہ کام مجھ پہ قرض کی مانند ہے کہ جس ہستی کے افکار سے مقدور بھر استفادہ کر رہا ہوں اس سے دوسروں کو بھی استفادے کا بھرپور موقع دیا جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ اسی بہانے میں اپنے منتشر خیالات کو بھی یکجا کر سکوں ۔ لیکن اپنی بے بضاعتی کا احساس بھی حد سے سوا تھا کہ کہاں میں اور کہاں اتنا بڑا کام ۔ تاہم سیدی حسن نواز شاہ صاحب اور ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صاحب کا ممنون بھی ہوں کہ انھوں نے بارہا مجھ سے اس کام کو سرانجام دینے کا تقاضا کیا ۔ بعینہ ، محترمی حفیظ الرحمن کا بے حد شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے تفسیر ایوبی ، کتابچہ برائے ختم نبوت اور مسئلہ جبروقدر کو ٹائپ کیا ۔ عزیزم محمد سعد چودھری کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مولانا محمد ایوب دہلوی سے متعلق احمد جاوید صاحب کی گفتگو کو قلمبند کیا۔

خیر، اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ میں نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے جس کے تحت اس سارے کام کو اس طور سے ترتیب دیا ہے کہ

1۔ تاثرات و تبصرات

مولانا محمد ایوب دہلوی (خاکہ از ملا واحدی)

ایک اوکھا، انوکھا دکاندار۔ تحریر: مشتاق احمد یوسفی

عاجزی و انکساری کا منبع: مولانا محمد ایوب دہلویؒ۔ تحریر: نصیر سلیمی

حافظ محمد ایوب دہلویؒ۔ تحریر: ملا واحدی

ایک بڑے آدمی کے بارے میں گفتگو: احمد جاوید صاحب (ترتیب: محمد سعد چودھری)

2۔ تفسیر ایوبی

3۔ ختم نبوت

4۔ مسئلہ جبروقدر

5۔ خطبات ایوبی منعقدہ در حکیم سعید (کُل تیس خطبات)۔ اس سلسلے میں ابتدائی کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور ایک آدھ ہفتے کے اندر جائزہ ویب گاہ کے ذریعے محبان مولانا محمد ایوب دہلوی تک پہنچا دیا جائے گا۔ جب کہ خطبات ِ ایوبی منعقدہ در حکیم سعید کو قلمبند کرنے کا کام جاری ہے اور ایک ایک کر کے شیئر ہوتا رہے گا ان شاء اللہ۔ امید ہے کہ آئندہ چار پانچ مہینوں میں مکمل ہو جائے گا۔ تمام قارئین سے استدعا ہے کہ وہ مولانا محمد ایوب دہلوی سے متعلق اپنے تاثرات اور علمی تبصرے ہمیں فراہم کریں تاکہ ان کو بھی اس گوشے کا حصہ بنایا جا سکے۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search