ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا (از محترمہ عائشہ شیخ)

 In یاد نگاری

آج 15 فروری سنہ 2022ء ہے ۔ سو ،  غالب کو اس سرائے فانی سے کوچ کیے 153 سال ہو گئے ۔

رشید احمد صدیقی نے اگر یہ کہا کہ  ’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بلا تکلف یہ تین نام لوں گا ، غالب ، اردو اور تاج محل ‘‘ ، تو درست ہی کہا کہ غالب اردو ادب میں بلا شرکتِ غیرے ایک روایت کا درجہ رکھتے ہیں۔  انہوں نے اردو شاعری کی سرزمین کو نئے امکانات سے ہمکنار کیا ۔ اردو غزل  کے دامن کو نت نئی تراکیب و تشبیہات ، اچھوتے  استعارات و کنایات،  سحر انگیز تلمیحات ، جدت بیان اور ندرت خیال سے اس قدر بھر دیا کہ پھر اسے کبھی تنگ دامانی کا شکوہ نہ رہا ۔

          غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج 

          شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

گویا غالب کے قصرِ شاعری کی بنیاد جدت طرازی پر تھی۔  پھر ان پر بیدل ،ناسخ اور میر کے رنگ،  بلکہ بسا اوقات ان ہی کی شاعری کو اپنانے کا الزام کیوں ؟ایک قطرے پر گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے ، یہ قطرے اور سیپ سے بہتر کون جانتا ہے!  غالب جن پر اردو شاعری کو ہمیشہ ناز رہے گا ، خود اپنی فارسی شاعری پر ناز کرتے تھے ،

        فارسی بیں تا بہ بینی نقشہائے رنگارنگ

         بگذر از مجموعہ اردوکہ بیرنگ من است

گو کہ انھوں نے اردو زبان میں شاعری کی مشق سخن کا آغاز کلام بیدل کو سامنے رکھ کر کیا۔ لیکن اس اتباع سے نہ تو کبھی انکار کیا،  نہ گریز پا ہوئے۔  بلکہ اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا ۔

        مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالب

        عصائے خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا 

یا  یوں کہتے ہیں،

        اسد! ہر جا سخن نے طرزِ باغ تازہ ڈالی ہے

        مجھے رنگِ بہار ایجادیُِ بیدل پسند آیا

حتی کہ ان کے بعض اشعار،  تو ہو بہو بیدل کے اشعار کا اردو ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔

     بیدل :       خلق بعدم دودِ دل و داغ جگر برد

                   خاک ہمہ صرف گل و سنبل شدہ باشد

    غالب :       سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

                   خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں  

  گو کہ غالب نے بیدل کی فکر اور تغزل کو اپنانے کی ازحد کوشش کی  لیکن کامیابی ممکن نہ ہو سکی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے مزاج اور اندازِ فکر میں بے پایاں امتیاز تھا۔ اپنی ناکامی کا اعتراف بھی وہ جابجا کرتے ہیں۔

                ہم چناں آں محیطِ بے ساحل

                 قلزمِ فیض میرزا بیدل

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اگر مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر غالب پر بیدل کے اشعار  کی چوری کا الزام لگایا،  تو  بلا تحقیق اس کا اتباع کر لیا جائے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ وہ الزام ، جوغالب پر ان کی زندگی میں نہیں لگایا گیا،  جب کہ بیدل کے فارسی کلام کو پڑھنے اور سمجھنے والے عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور خود غالب بیدل کے اشعار پر مشق سخن کو اپنے لیے قابل فخر گردانتے تھے ، ان کی وفات کے برسوں بعد ایک ایسا شاعر لگائے  جو اپنی متلون مزاجی کے باعث اردو ادب میں محض ’’غالب شکن‘‘ کے نام سے ہی زندہ رہ پایا؟ یہ بات قابل غور ہے کہ آغاز میں جب لکھنؤ  میں مرزا یاس کی کچھ وقعت تھی ، تو انھوں نے غالب کی زمین میں  بھی غزلیں کہیں۔

غالب اور مومن دونوں نے ناسخ کا تتبع کرنے کی کوشش بھی کی  لیکن جلد ہی غالب نے اپنے آپ کو میر کے رنگ میں رنگا ہوا پایا۔ میر کے رنگ میں لکھی جانے والی غزلیں سادگی و پر کاری اور بے خودی و ہشیاری کا عجیب مظہر ہیں۔ میر کے بعد اگر کسی کو ’’رعایت لفظی کا شہنشاہ‘‘  کہا جا سکتا ہے،  تو وہ غالب ہی ہیں۔ میر کے انداز کو جس مہارت سے غالب نے اپنایا اور بعدازاں، اپنا ایک جداگانہ رنگ برنگ چمنستانِ شعروسخن آباد کیا ۔ اس کی مثال اردو شاعری کی روایت میں ملنا مشکل ہے۔

انہی وجوہات کی بنا پر،  ان کے پہلے دور میں،  اردو زبان پر فارسی رنگ غالب دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری زبان و بیان کی لطافت، شعریت اور حسنِ ادا سے تہی معلوم ہوتی ہے۔ آمد کی بجائے،  آورد کی تخلیق،  پیچیدہ فارسی تراکیب، اور دقیق اسلوب ِ بیان نے غالب پر بجا  طور پر مشکل پسندی کا الزام عائد کروا دیا ۔

          یک الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز

         چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

وہ خود کون سا اس مشکل پسندی سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں !

       آگہی دامِ شنیدن جس قدر بچھائیے

         مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ  تقریر کا

رفتہ رفتہ طبیعت پر عشق و سرمستی کا رنگ غالب آتا چلا گیا ۔ تشبیہات و استعارات  لطیف ہوتے چلے گئے۔ اسلوب میں لطافتِ معانی کا جہانِ دیگر نمودار ہوتا چلا گیا۔ مضمون آفرینی اور معنی آفرینی نے انھیں’’ فلسفی شاعر‘‘  کی صف میں لا کھڑا کیا ۔

شاعری کی کیا خوب تعریف بیان کی ، ’’بھائی ! شاعری معنی آفرینی ہے ،قافیہ پیمائی نہیں‘‘  ۔

        کاو کاو سخت جانی ، ہائے تنہائی نہ پوچھ

        صبح کرنا شام کا ، لانا ہے جوئے شیر کا

رفتہ رفتہ ظرافت اور بذلہ سنجی کا رنگ بھی نمایاں ہوتا چلا گیا لیکن اس میں بھی ایک خاص متانت اور سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔ ان کا انبساط،  خندہ زیر لب تو بن جاتا ہے لیکن سوختگی کی حدود سے کوسوں دور رہتا ہے۔ بسا اوقات یہ مزاح المیہ میں طربیہ رنگ کی صورت نمودار ہوتا ہے اور کبھی طنز کے نشتروں  سے سجا ۔

          جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو؟

             اک تماشہ ہوا، گلہ نہ ہوا

بالآخر سیپ سے گوہر نمودار ہوا اور اردو ادب کو وہ شاعر نصیب ہوا جس کی ادائے خاص ، تغزل ، شیریں بیانی ، لطافتِ اسلوب ، نت نئی تراکیب، اچھوتے صنائع وبدائع، قرینِ ادراک کنایات و استعارات ، سحر آفریں تلمیحات و محاکات اور ایجاز و اختصار جیسی خوبیوں نے شاعری کے آسمان کو روشن کر دیا۔ ان کی شاعری میں عاشق زار کی قلبی واردات کی روداد بھی ہے اور روح کی بالیدگی کا سامان بھی ، فکر کی گہرائی بھی ہے اور اس فکر کا تجزیہ بھی ، ایک ایسے غریب شہر کا نوحہ بھی کہ جس کی باتیں کہے جانے کے لائق ہیں،  بن کہے رہ نہیں سکتیں اور اہل شہر سماعت سے محروم !

پھر بھی ایک عالم ہے کہ جو ان کا غزل خواں ہے ۔ غالب پر انگشت نمائی کرنے والے وقت کی دھول میں گرد ہو گئے ۔ لیکن غالب،  اردو ادب کے وہ خورشید جہاں تاب تھے جس کی روشنی روز افزوں بڑھتی رہی۔

           پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی

            روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

اگر یوں کہا جائے کہ غالب کے قصر شاعری کی بنیاد جدت طرازی پر تھی ، تو مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ شاید ان کا تخیل اور فکر  ہی اس قدر بلند پرواز تھی کہ انھیں نئے الفاظ ،نئی تراکیب ،نئی بندشیں، نئی تشبیہات، استعارات و کنایات کو وضع کرنا پڑا۔ ان کی ندرت خیال نے تنگنائے غزل میں وسعت پیدا کی ۔

                بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل

               کچھ اور چا ہیے  وسعت مرے بیاں کیلیے

شاید وہ پیش پا افتادہ روش پر چلنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ، اس لیے بالآخر ایک جداگانہ روش سے اردو غزل کو ہمکنار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے نئے اور اچھوتے الفاظ کی صنعت گری کے جو گنج ہائے گراں مایہ اردو ادب کو عطا کیے وہ انہیں اردو ادب میں زندہ رکھنے کو بہت ہیں ۔ اردو ادب کا کوئی ناقد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ غالب نے اردو زبان کی ترویج میں ایک مجتہد کا کردار ادا کیا ۔

        دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے

        پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

       پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب      

  عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے

Recommended Posts
Comments

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search