ٹیکنالوجی کیا ہے؟ رچرڈ لی ہُوا (مترجمین: یاسر شہزاد اور عبدالحنان)

 In ترجمہ
نوٹ:    2009ء میں بلیک ویل پبلی کیشنز کے زیر اہتمام   ’’ معاون  برائے  فلسفہ ٹیکنالوجی ‘‘    (A    Companion    to       the    Philosophy    of    Technology) شائع ہوئی۔ اس کتاب میں درج ذیل سات (7)   موضوعات کے تحت اٹھانوے(98)  مضامین  شامل ہیں : تاریخ ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور فلسفہ ، ٹیکنالوجی اور ماحولیات ، ٹیکنالوجی اور سیاست ، ٹیکنالوجی اور اخلاقیات ، ٹیکنالوجی اور مستقبل ۔اس کتاب کے پہلے حصے میں  بزنس سکول ،  نارتھمبیا یونیورسٹی لندن   میں واقع  چائنا بزنس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر  سینٹر کے ڈائریکٹر رچرڈ لی ہیوا (Richard    Li-Hua)نے  تعریفاتِ ٹیکنالوجی (Definitions    of    Technology) کو موضوع  بنایا  جس کو قارئین جائزہ اور اردو دان طبقے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے ۔

علم الانسانیات کے تنوع کے کارن ٹیکنالوجی کی تعریف متعین کرنے کی کاوش  چیلنج کی صورت اختیار کر لیتی  ہے ۔اس بات کا امکان ہے کہ متنوع سیاق و سباق کی بدولت  لوگوں کے ہاں ٹیکنالوجی کی تعبیرات بھی مختلف ہوں ۔ اس بات پر مجھے ہاتھی اور اندھے آدمی سے متعلق چینی کہاوت یاد آتی ہے ۔

میگانز (2002) اپنی کتاب بعنوان(Technology    Management:    Developing    and    Implementing    Effective    Licensing    Programs)  کے پیش لفظ میں اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک شاندار، حیرت انگیز اور داؤ پیچ  کی حامل   ہمہ وقت متغیر زنبیل  ہے  جو  انسانوں کو اس قابل  بناتی ہے کہ وہ خوب سے خوب تراورمطمئن   زندگی بسر کریں (تاہم تسکین و خوشی کو حاصل کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہو سکتے تھے) ۔ سائنس دان کے نزدیک ، ٹیکنالوجی کسی  تحقیق  کا آخری نتیجے (قابل استعمال شے) ہے ۔  انجیئنر کے نزدیک، ٹیکنالوجی ایک اوزار یا  عمل ہے جس کو بہتر مصنوعات کی تعمیر یا تکنیکی مسائل کو حل کرنے کی غرض سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔  وکیل (اٹارنی) کے نزدیک ، ٹیکنالوجی ایک  لائق دفاع اور تحفظ کے قابل  ذہنی کاوش کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک جائداد (intellectual      property) ہے ۔ کاروباری بندے کے نزدیک ، ٹیکنالوجی شاید وہ  اثاثہ ہے جو کہ اہم ترین ہے لیکن اس کی تفہیم بہت تھوڑی ہے ۔ ٹیکنالوجی کو مختلف حریفوں کے خلاف ایک مسابقتی فائدے کی صورت میں دیکھا جاتا ہے  ۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں  ٹیکنالوجی سے مراد ریاستی قوت ہوتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کو  معاشی اہداف  ، دولت کی پیدائش و گردش  اور امارت کی غرض سے حکمت عملی کے (اہم) اوزار کی حیثیت سے تصور کیا جا تا ہے ۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کو ایک اہم پرزہ سمجھا جاتا ہے جس کی بدولت بہت زیادہ منافع حاصل ہو ۔ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک میں ٹیکنالوجی کا مفید و  کارآمد استعمال  غالباً اہم ترین مسئلہ ہے ، اوربلاشبہ ، آنے والے برسوں میں اس کی اہمیت بڑھ  جائے گی ۔

لفظ ’’ ٹیکنالوجی ‘‘   عام طور پر  مختلف تصورات(images)   پر محیط ہوتا ہے اور بیشتر اوقات  ’’اعلیٰ ٹیکنالوجی ‘‘   پر مبنی صنعتوں کو بیان کرتا ہے ۔ اس  بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو اعلیٰ   ٹیکنالوجی کی حامل صنعتوں  یعنی کمپیوٹر، کامل موصلیت (superconductivity)، کمپیوٹر چِپ (chip)، جینیاتی انجیئنرنگ  ، روبوٹکس ، مقناطیسی ریل کار،  وغیرہ وغیرہ تک محدود کر دینے   کے معنی ہیں کہ صرف اسی شے پر بہت زیادہ توجہ دی جائے جو صحافت (میڈیا) کے نزدیک  لائقِ خبر ہے (گینور ، 1996)۔ تاہم ٹیکنالوجی کو سائنس ، انجیئنرنگ اور ریاضیات تک محدود کر دینے  کی بدولت   دوسری معاون ٹیکنالوجیز   نظرانداز ہو جاتی ہیں ۔ درحقیقت  ٹیکنالوجی،  مشینوں  ، افعال  (پروسث) اور ایجادات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ روایتی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ٹیکنالوجی کا دارومدار   شاید ہارڈویئر /طبیعی  اشیاء (Hardware) پر زیادہ ہو ؛ تاہم فی زمانہ  ،ٹیکنالوجی  سافٹ  ویئر /غیر مادی اشیاء (software)  پر بھی مشتمل ہوتی ہے ۔ ٹیکنالوجی کے بیشمار مظاہر ہیں؛ کچھ بہت ہی سادہ ، جب کہ دوسرے نہایت ہی پیچیدہ ۔

ٹیکنالوجی کیا ہے؟

اس لفظ ’’ٹیکنالوجی ‘‘  سے درست مراد کیا ہے ؟ ڈین اور لیماسٹر (Dean      and      LeMaster) کے نزدیک ،ٹیکنالوجی سے مراد   ’’پیداواری پروسث  اور پیداوار کے ڈیزائن  کی  ماہیت اور کارکردگی  سے متعلقہ  اوصاف کے بارے میں مستند  و مخصوص معلومات ‘‘   ہیں    (1995، ص 19)۔جب کہ کنٹریکٹر اور سگافی نجاد (Contractor      and      Sagafi-Nejad)  ٹیکنالوجی کو  ’’معلومات ، حقوق اور خدمات  کے ایک مجموعے/گچھے‘‘ کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں (1981)۔ ماسکوس (Maskus)ٹیکنالوجی کی تعریف کرتا ہے کہ  ’’زیرِ استعمال منتخب  اشیائے صرف کو جمع کرنے یا عمل سے گزارنےکی بابت ایک خاص ذریعے  کی بدولت  مخصوص پیداواری نتائج کو حاصل کرنے کے واسطے درکار  لازمی  معلومات ‘‘ سے عبارت ہے(2004ء ،ص 9)۔ تاہم ماسکوس محض ٹھوس/مجسم  (embodied)اور غیرٹھوس/ جسمانیت سے خالی   (disembodied) ٹیکنالوجی کے مابین تفریق کرتا ہے ، جب کہ کیڈیا اور بھاگٹ (Kedia      and      Bhagat)پروسث ، پیداوار اورانسان تینوں  پر مبنی ٹھوس   ٹیکنالوجی (process-, product-, and      person-embodied)کی تین اقسام کے تحت تفصیلی درجہ بندی تجویز کرتے ہیں(1988ء)  ۔

ٹیکنالوجی اُن   فطری قوانین اور مظاہر  کی انسانی تفہیم کے ذخیرے کی نمائندگی کرتی ہے ، جو قدیم زمانوں سے مخصوص افعال سرانجام دینے  کے واسطے   انسانی ضروریات و  خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اشیاء کو جنم دیتے ہیں (کراٹسو، 1990ء) ۔ بالفاظِ دگر ، ٹیکنالوجی کا مقصد ہی انسان کے واسطے کارآمد اشیاء کو بنانا ہے ۔ مائیلز (Miles) ٹیکنالوجی کی تعریف کچھ یوں کرتا ہے کہ ان ذرائع کو کہتے ہیں جن کی بدولت فطری کائنات سے متعلق انسانی تفہیم کاعملی مسائل کے حل  پر اطلاق کرتے ہیں ۔ ٹیکنالوجی   (درحقیقت )  دو قسم کی چیزوں کا مجموعہ ہے  : طبیعی اشیاءیعنی   ’’ہارڈویئر ‘‘ (عمارات، پلانٹ یعنی مشینری  اور سازوسامان  )  اور غیرمادی اشیاءیعنی  ’’ سافٹ ویئر ‘‘ (مہارتیں، علم ، تجربہ مع مناسب تنظیمی اور شعبہ جاتی ترتیب)۔

تجارت اور پیداوار پر اقوام متحدہ کی کانفرنس (UN      Conference      on      Trade      and      Development – UNCTAD) نے ٹیکنالوجی کی درج ذیل تعریف فراہم کی ہے :

’’ٹیکنالوجی کی خریدوفروخت  اشیائے صرف کی حیثیت سے ہوتی ہے جس میں مشینری اور پیداواری سسٹمز  ،  انسانی محنت بالعموم  مہارت کی حامل افرادی قوت ، انتظامیہ اور اختصاصی ماہرین شامل ہوتے ہیں ۔ تکنیکی اور کمرشل  دونوں قسم کے اوصاف کی حامل معلومات پر بھی مشتمل ہے خواہ آسانی سے دستیاب ہو  یا پھر اس پر حقوقِ ملکیت اور شرائط و پابندیوں کا اطلاق ہوتا ہو ‘‘۔

   تاہم اس مقدمہ کے  مطابق ، ٹیکنالوجی کو صرف ایک پیداواری عنصر نہیں سمجھا جا سکتا  ، اور نہ ہی ٹیکنالوجی ،  سماجی اعتبار سے غیرجانب دار ہے   (مناس ، 1990) ۔ یہ بات قدرے آسان معلوم ہوتی ہے کہ ’ٹیکنالوجی ‘‘ کی تفہیم کی غرض سے تصورِ ’ٹیکنالوجی‘‘ کو ایک دوسرے میں باہم گتھے چار عناصر پر مشتمل سمجھا جائے یعنی  تکنیک ، علم (knowledge)( جس کو بالعموم  ’ٹیکنالوجی‘‘ سمجھا جاتا ہے )، پیداوار کا انتظام و انصرام، اور پیداوار (پراڈکٹ) ۔ تاہم (دھیان رہے کہ )  اگر متعلقہ پیداوار (پراڈکٹ) کے انتظام و انصرام  کی بدولت   بامعنی پیداوار(پراڈکٹ )   کے پیدا نہ ہونے کی صورت میں علم کے کچھ معنی نہیں ہے ۔ چنانچہ ، ٹیکنالوجی کے لازم ہے کہ اس کا  اطلاق و نفاذ  ہو، کسوٹی سے گزرے اور اپنے وجود کو قائم رکھے ۔ اور یہی وہ شے ہے جس کے واسطے انسانی وسائل اور مہارتوں کے مناسب درجات کو(بطور اِن پُٹ)  بروئے کار لانے کا تقاضا جنم لیتا ہے۔ تاہم اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ  یہی   (اِن پُٹ)  وہ شے ہے جو مختلف  معاشروں (متفرق ماحول )   کے مابین ٹیکنالوجی کی منتقلی / ادلا بدلی کے ضمن میں پائی جانے والی دشواری کی جڑ ہے ۔ بلاشبہ ، جدید زاویہ نگاہ  ٹیکنالوجی اور علم کے باہم  ربط و اتصال  پر زور دیتا ہے ، اور نشان دہی کرتا ہے کہ علم کے بغیر ٹیکنالوجی کی ادلا بدلی کا حصول  ممکن نہیں ہے کیونکہ علم ہی وہ شے ہے جو ایک کلیت کی حیثیت سے ٹیکنالوجی پر نگاہ رکھتا ہے (لی ہیوا، 2004)؛  بعض لوگ ’ ٹیکنالوجی ‘ اور ’ مہارت  ‘ (Know-how)  کو بطور مترادف استعمال کرتے ہیں ۔ علم اور ٹیکنالوجی کا چولی دامن کا ساتھ ہے  کیونکہ   ٹیکنالوجی  کی نری موجودگی ، عملی اعتبار سے  اس کے کامیاب نفاذ  کی لازمی شرط نہیں ہے ۔ بیشتر واقعات میں بالخصوص پیچیدہ ٹیکنالوجی کے  ضمن  میں عالمی پیمانے پر ٹیکنالوجی کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے حوالے سے علم کی ضرورت پڑتی ہے،   خاص طور پرمضمراتی  علم  (tacit      knowledge) کے باب میں   ۔

تکنیک ،  محنت (مشینری اور اوزار)، مواد اور اس طریقہ کار پر مشتمل ہوتی ہے جس کی بدولت  محنت کے بل بوتے پر  مذکورہ عناصر کو عمل ِ کارگزاری (working      process) میں صرف کر لیتے ہیں ۔ سماجی  اعتبار سے متحرک (عمل کارگزاری )  اور  باہم متصادم و متناقض(مثلاً  مشینری اور محنت کش ) دونوں چیزیں ہی  نہ صرف ٹیکنالوجی کے  اندر بلکہ اس کے تمام تر ذیلی تصورات میں بھی  خلقی اعتبار سے موجود ہیں۔

علم  تین بنیادی انواع (categories)  یعنی عملی سائنس ، مہارتوں اور وجدان پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ان مقولاتِ علم کے مابین توازن تاریخی اعتبار  سے متغیر رہا ہے ، لیکن ہر دفعہ  ہی ان تینوں کے مابین  ایک مناسب توازن کا موجود رہنا لازم ہے ۔   ٹیکنالوجی بطور کُل  پر ’’ نگاہ  رکھنے کی کلید ‘‘، علم ہی ہے ، جس کو ادنیٰ ترین (Taylorism)سے لیکر  اعلیٰ ترین سماجی مجموعوں  تک(ٹیکنالوجی پر انحصار کی صورت ) میں   دیکھا جا سکتا ہے  (مناس ، 1990ء) ۔ تاہم اس بات کو سمجھنے کی یہ بات مفید ہو سکتی ہے کہ  حال ہی میں انواعِ علم کے مابین تقسیم کچھ یوں ہوئی ہے کہ   ایک کوصریحی علم    (explicit      knowledge) (جس کو  تحریری یا تقریری ضابطوں کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص کو  منتقل کیا جا سکے  ) اور  دوسرے کومضمراتی  (tacit      knowledge)(جس کو تحریر و تقریر کی گرفت میں نہ لایا جا سکے ، بلکہ صرف عملی تجربے کی صورت میں سمجھا جا سکے) ۔

کسی بھی قسم کے مفید نتائج کو حاصل کرنے سے پہلے   تکنیک اور علم دونوں کوایک ترتیب  یا نظم و ضبط میں لیکر آنا لازم ہے ۔ چنانچہ تنظیم (organization) ٹیکنالوجی کا ایک بنیادی عنصر ہے ۔تکنیک اور علم کے عمل کارگزاری (ورکنگ پروسث)کی تنظیم کو ایک پیداوار (پراڈکٹ) کی صورت میں ڈھالنے کی شاید تکنیکی وجوہات ہوں ، لیکن تنظیم کے اصلی انتخاب کا بیشتر دارومدار سماجی و معاشی وجوہات پر ہو گا اور معاشرے کے عمومی  سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرے گا ۔

پیداوار (پراڈکٹ)۔ تکنیک ، علم اور تنظیم کو باہم جوڑنے کا حتمی مقصد  یقینی طور پر پیداوار (پراڈکٹ) کا حصول ہے  ۔ اس مقصد کو شامل کیے بغیر ، باقی تینوں عناصر کو درست طریقے سے سمجھنا،  درحقیقت ایک مشکل   کام ہے ۔ ٹیکنالوجی کے مجموعی تصور میں پیداوار (پراڈکٹ ) کو شامل کرنا ایک فطری (نیچرل) امر دکھائی دیتا ہے ، خاص طور پر اس  وجہ سے کیونکہ پیداوار (پراڈکٹ ) کا انتخاب  اکثر وبیشتر اس  تکنیک ، علم اور تنظیم سے پہلے ہوتا ہے،  جن کی  بدولت پیدوار وجود میں آتی ہے ۔

روزن برگ اور فرشتاک (Rosenberg      and      Frischtak) نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ٹیکنالوجی  کے خصوصی اوصاف دو چیزوں کے ساتھ  گہرے سمبندھ سے عبارت ہیں  یعنی   ان عناصر   کی ماہیت  و نوعیت  جو پیداوار میں (بطور اِن پُٹ) صرف ہوتے ہیں  اور  حاصل کردہ نتائج (آوٹ پٹ) ۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں  تحقیق و ترقی  کے اخراجات  میں سے  کم از کم ساٹھ فیصد  ، ترقی  و بہبود (development) پر صرف ہوتا ہے یعنی مخصوص مصنوعات (پراڈکٹس) یا  پیداواری پروسث  کو ترقی دینےکی لاگت  کے سلسلے میں ۔ ٹیکنالوجی  کی اس طور سے تحلیل کرنا (مختلف عناصر کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا) اور ٹیکنالوجی اور علم کے مابین امتیاز کرنا  اہمیت کا حامل ہے ۔ علم ایک سیال شے ہے جو مجوزہ تجربے، اقدار، سیاق و سباق کے مطابق معلومات  اور ماہرانہ معارف پر مشتمل ہے جو  نت نئے تجربات اور معلومات کو پرکھنے اور پہلے سے موجود ذخیرۂ علم میں ان کو شامل کرنے کی غرض سے ایک فریم ورک (تناظر) مہیا کرتا ہے ۔ یہ  (علم)  صداقت، اعتقادات، تناطرات، تصورات، احکامات ، توقعات ، منہاجیات ،اور مہارت پر مشتمل ہوتا ہے؛ اور مختلف شکلوں میں موجود رہتا ہے جیسے کہ مضمراتی  (tacit)،  صریحی  (explicit)، علامتی ، ٹھوس ، ذہنی(en-brained) اور تمدنی (en-cultured) ۔

صریحی  علم(Explicit      Knowledge) اور مضمراتی علم (Tacit      Knowledge)

دن بہ دن علم کی شناخت    تنظیم سازی کے واسطے درکار ایک  ناگزیر وسیلے کی حیثیت سے ہو رہی ہے  جو مارکیٹ میں اضافہ اور مسابقتی فائد ہ  فراہم کرتا ہے  (نوناکا اور تاکوشی ، 1995؛ لیونارڈ-برٹن ، 1995) ۔ خاص طور پر علم ایک ایسے جوہر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کو’’انتظام و انصرام‘‘  (manage)  درکار ہے ، اس لفظ کے ٹھیٹھ لغوی معنی میں ۔ پولانی (Polanyi)   انسانی علم کی بابت کچھ کہنے کا آغاز اس حقیقت  سے کرتا  ہے کہ ہم ’بتانے سے زیادہ جانتے ہیں ‘ (we      know      more      than      we      can      tell)۔ عمومی اعتبار سے دیکھا جائے تو علم  کے دو جزو ہوتے ہیں  یعنی’’صریحی  علم ‘‘ (explicit      knowledge) (جس کو  تحریری یا تقریری ضابطوں کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص کو  منتقل کیا جا سکے  ) اور   ’’مضمراتی علم ‘‘ (tacit      knowledge)(جس کو تحریر و تقریر کی گرفت میں نہ لایا جا سکے ، بلکہ صرف عملی تجربے کی صورت میں سمجھا جا سکے)؛تاہم جس قدر ایک ٹیکنالوجی سافٹ (غیر مادی  ) صورت میں ہوتی ہے،  طبیعی ذرائع  کی  ضرورت کم ہوتی ہے نیزاس قدر ہی   ٹیکنالوجی   میں موجودغیریقینی  علم کا  تناسب زیادہ ہوتا ہے ۔ مضمراتی علم (tacit      knowledge) چونکہ اپنی نہاد میں ضابطوں کی گرفت میں آنے سے انکاری ہوتا ہے لہذا اس کی  ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی / ادلا بدلی  ’’ قریبی  انسانی تعاملات‘‘ کے ذریعے ہوتی ہے (سنگ، 1997)۔ اسی اثناء میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مضمراتی  علم  ہی وہ کلید ہے جس کے ذریعے  سب سے زیادہ مسابقتی فائدہ جنم لیتا ہے ، اور یہی وہ حصہ ہے جس کو ازسرنو تخلیق کرنے میں حریفوں کا دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی مضمراتی  علم کواکثرو بیشتر  جان بوجھ کر بھی  منتقل نہیں کیا جاتا کیونکہ لوگ اس کی اہمیت و معنویت سے آگاہ ہوتے ہیں ۔

نوناکا اور تاکوشی (Nonaka      and      Takeuchi) صریحی   علم اور مضمراتی علم  دونوں  کے مابین چند امتیازات کو بیان کرتے ہیں (تصویر کو ملاحظہ کیجیے۔ نوٹ: اصل انگریزی  کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں متبادل جدول بنائی گئی ہے )۔ عملی تجربے کی بدولت حاصل ہونے والا علم مضمراتی ، طبیعی اور موضوعی  ہوتا ہے ، جبکہ عقلی /ذہنی سرگرمی کےنتیجے میں حاصل ہونے والا علم   صریحی  ، مابعدالطبیعیاتی اور معروضی ہوتا ہے ۔مضمراتی علم  ایک مخصوص اور عملی  پس منظر میں ’’لمحہ موجود ‘‘  (here      and      now) ( یعنی وجدان )کے تحت جنم لیتا ہےجب کہ صریحی  علم ،  ماضی کے واقعات یا ’’وقت و جگہ / زمان و مکان ‘‘ (then      and      there)  (یعنی عقلی  مقولات )کے عناصر سے متعلق ہے ۔مذکورہ جدول دونوں انواع کے اوصاف کو اجاگر کرتا ہے ۔

ٹیکنالوجی و علم اور صریحی  و مضمراتی   علم کے مابین موجود امتیازی اوصاف کی وضاحت کے بعد   اس نکتے پر تبصرے کرنے میں زیادہ مدد مل سکتی ہے کہ اس حوالے سے چینی حکمت عملی کیونکر  جزوی اعتبار سےناکام ہوئی کہ  اپنی مارکیٹ سے دستبردار ہو کر ٹیکنالوجی حاصل کی جائے ۔ گزشتہ اٹھائیس برس کی معاشی اصلاحات کی بدولت چین نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اور جدید زمانے میں معاشی ترقی  کے ایک شاندار دورانیے سے لطف اندوز ہوا ہے ، اور آگے بھی ہوتا رہے گا ۔ تاہم اس امر پر بحث جاری ہے کہ غیرملکی برانڈ ز  (اشیاء ) چینی مارکیٹ میں خوب کمائی کرتے ہیں نیز غیرملکی  کمپنیاں مقامی تجارتی اداروں کے مضبوط حریف ہیں ، اور  چین نے موٹر سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والی مرکزی ٹیکنالوجی کو حقیقی معنوں میں کسی حد تک  حاصل نہیں کیا ہے ۔ اس امر سے واقفیت درکار ہے کہ مذکورہ مقدمہ  ایسے سوالات کے موزوں جواب دینے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے ۔ تاہم اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ٹیکنالوجی بطور کُل پر نگاہ رکھنے واسطے علم کلیدی حیثیت کا مالک ہے ، ٹیکنالوجی کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ، انتقالِ علم کے بغیر  واقع نہیں ہوتی ہے ۔ ٹیکنالوجی کی درآمد ، یا ٹیکنالوجی کی منتقلی کے الفاظ میں ، چین نے ’’ہارڈ‘‘  ویئر (ٹھوس اشیاء)  یعنی مشینری ، آلات ، عملیاتی کتابچہ (operational      manual)، تفصیلات  اور خاکوں کو  حاصل کر لیا ہے ، البتہ جس شے کو ’’سافٹ ویئر‘‘ کہتے ہیں  یعنی مضمراتی  علم (tacit      knowledge) بشمول انتظامی مہارت اور تکنیکی دسترس   کو حاصل نہیں کیا ہے ۔

کتابیات

1۔ Contractor, F. J. and Sagafi-Nejad, T. (1981). International Technology Transfer: Major Issues and Policy Response, Journal of International Business Studies, 12 (2): 113 – 35. Available at http://jstor.com

2۔Dean, C. C. and LeMaster, J. (1995). Barriers to International Technology Transfer, Business Forum, 20 (1): 19 – 23, available at: http://search.epnet.com

3۔ Gaynor, G. H. (1996). Management of Technology: Description, Scope and Implication (Columbus, Ohio: McGraw-Hill).

4۔ Karatsu, H. (1990). Right Technology: Transferring Technology that is needed, Intersect, October, pp. 10 – 13.

5۔ Kedia, B. L. and Bhagat, R. S. (1988). Cultural Constraints on Transfer of Technology across Nations: Implications for Research in International and Comparative Management, Journal of Academy of Management Review, 13 (4): 559 – 71. Available at: http://search.epnet.com

6۔ Leonard-Barton, D. (1995). Wellsprings of Knowledge: Building and Sustaining the Resources of Innovation (Cambridge, Mass.: Harvard University Press).

7۔  Li-Hua, R. (2004). Technology and Knowledge Transfer in China (Aldershot/Burlington, Vt.: Ashgate Publishing).

8۔ Maskus, K. E. (2004). Encouraging International Technology Transfer, Issue Paper, no. 7. Available at: http://www.iprsonline.org/unctadictsd/docs/CS_Maskus.pdf

9۔ Megantz, B. (2002). Technology Management: Developing and Implementing Effective Licensing Programs (Hoboken, N. J.: John Wiley)

10۔ Miles, D. (1995). Constructive Change, Managing International Technology Transfer, International Labour Office, Geneva.

11۔ Mnaas, C. (1990). Technology Transfer in the Developing Countries. (London: Macmillan Press).

12۔ Nonaka, I. nd Takeuchi, H. (1995). The Knowledge-creating Company: How Japanese Companies Create the Dynamics of Innovation (New York: Oxford University Press).

13۔ Polanyi, M. (1967). The Tacit Dimension (London: Routledge & Kegan Paul)

14۔ Rosenberg, N. and Frischtak, C. (1985). International Technology Transfer Concept, Measures and Comparisons (New York: Praeger).

15۔ Tsang, E. W. K. (1997). Choce of International Technology Transfer Mode: A Resource-based View, Management International Review, 37 (2): 151.

Recent Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search