روشن خیالی کیا ہے ؟ کے سوال کا ایک جواب: موسیٰ ابن میندل

 In ترجمہ
نوٹ: 1996ء میں جیمس شمت کی ادارت میں ’’ روشن خیالی کیا ہے؟ اٹھارویں صدی کے جوابات اور بیسویں صدی کے  سوالات‘‘ کے عنوان سے  شائع ہونے والی کتاب میں ’’ روشن خیالی‘‘ کےموضوع  پر لکھے جانے والے تمام تر اہم مضامین کو اکٹھا کیا گیا ۔ ابتدائی جرمن مضامین کا ازسرنو انگریزی  ترجمہ ہوا نیز حواشی لکھے گئے ۔ زیرِ نظر اردو ترجمہ اسی کتاب سے  مستعار ہے۔ مذکورہ مضمون اور اس کے لکھاری کی اہمیت اس سبب سے بھی ہے کہ یہودیت کو چھوڑ کر دائرہ ِ اسلام کو اختیار کرنے والی   مصنفہ   محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے  کہ سرسید احمد خان کے افکار کا مطالعہ  موسیٰ ابن میندل  کی اصلاح پسند یہودیت کے ساتھ باہمی تقابل کی صورت میں کرنا چاہیے ۔ یاد رہے کہ مذکورہ مضمون پہلی دفعہ ’’ برلنش موناشرفت ‘‘ میں  1784ء کو شائع ہوا ۔ ہماری ناقص معلومات کی حد تک زیرِ نظر تحریر  موسی ٰ ابن میندل کے اس مضمون کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔

تعارف (از انگریزی مترجم،   جیمز شمت):                   موسیٰ ابن میندل  (1729 – 1786) برلن میں تحریک تنویریت کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھا ۔ 1729ء میں ڈیساؤ گھیٹو   کے شہر میں جنم ہوا   اور1743ء میں برلن آیا۔ اور گاڈفریڈ  ویلہم  لائبنز(Gottfriend   Wilhelm   Leibniz) اور  کرسٹیان وولف (Christian   Wolff) کی تحریرات کے مطالعہ کا بیڑا اٹھایا ۔ اور پھر  اعلیٰ درجہ کی   کئی تحریرات کو شائع کیا  اور لیسنگ (Lessing)کا عمر بھر کے لیے رفیق بنا ۔ اور اپنی زندگی کے آخری دنوں میں  تنازع برائے عقیدہ ہمہ اوست (Pantheism   Controversy) کے دوران  جیکوبی  (Jacobi) کا مخالف تھا ۔ زیرِ نظر مضمون  کو دسمبر 1783ء میں محسن  کے لیکچر کی بدولت جنم لینے والے سلسلہ  مباحث  کے  اختتام کے لگ بھگ     بدھ وار سوسائٹی (Wednesday   Society) کے سامنے  سولہ مئی 1784ء  کو   ایک  لیکچر میں  پڑھا گیا ۔  مذکورہ مضمون اس بحث میں حصہ لینے والوں میں سے ایک تھا جن کو ’’ برلنش  موناشرفت ‘‘ (Berlinische Monatsschrift)  نامی مجلے میں شائع ہونا تھا ۔ اس کو ایک ایسی کاوش سمجھا جا سکتا ہے جو ان مباحث کے دوران جنم لینے والے اہم مسائل کا خلاصہ کرتی ہے ۔

*****

روشن خیالی ، تمدن  (کلچر)  اور تعلیم کے الفاظ ، ہماری  زبان میں  نووارد ہیں[1]۔ فی الوقت  یہ  صرف ادبی مباحث  (لٹریری ڈسکورس) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ عوام الناس شاذ ہی ان کی تفہیم رکھتے ہے ۔ کیا یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ الفاظ ہمارے لیے بھی جدید ہیں ؟ میں اس پر یقین نہیں رکھتا ۔ کوئی کسی مخصوص قوم کی بابت یہ کہنے کے باوجود کہ ’’ نیکی ‘‘ یا ’’ توہم ‘‘ کے لیے ان کے ہاں مخصوص الفاظ موجود نہیں ، بالکل جائز طور پر ان دونوں الفاظ   کے کسی پیمانے  کو اس قوم سے منسوب کر  سکتا ہے ۔

لسانی استعمال کو جو بظاہر ایسے مترادفات کے مابین ایک تفریق کو جنم دیتا دکھائی دیتا ہے، ہنوز اپنی حدود کو قائم کرنے کا وقت نہیں ملا ہے ۔ تعلیم ، تمدن   اورروشن خیالی ، سماجی حیات ، صنعت و حرفت  کے اثرات اور اپنی سماجی صورت احوال کو بہتر بنانے کی انسانی کاوشوں میں در آنے والی تبدیلیاں ہیں ۔

جوں جوں آرٹ اور صنعت و حرفت کے ذریعے  افراد کی سماجی صورت احوال  اور   قسمتِ انسان[2]کے مابین مطابقت پیدا کی جاتی ہے ،  اس قدر ہی لوگ   زیادہ  تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔

تعلیم ، تمدن  اور روشن خیالی پر مشتمل ہوتی ہے ۔ دکھائی دیتا ہے کہ تمدن  ، سماجی معاملات کی جانب زیادہ رجحان  رکھتاہے : (معروضی  اعتبارسے  )،    اچھائی و نفاست   نیز آرٹ اور سماجی    اطوار کی جانب ؛ (موضوعی اعتبار سے )آرٹ میں    سہولت ، جانفشانی  اور ہنرمندی  نیز سماجی اطوار میں   ترغیبات ، تنظیم اور عادات  کی جانب ۔ جن قوموں  میں ان معاملات اور تقدیرِ انسان   کے مابین  جس قدر مطابقت ہوتی ہے ، اتنے ہی وہ زیادہ متمدن کہلائیں گے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ  زمین کا جو ٹکڑا جتنا زیادہ زیرِ کاشت  ہوتا ہے  ، اسی قدر انسانی محنت کے ذریعے اسے اس حالت میں لایا جاتا ہے جہاں وہ انسانوں کے لیے مفید اجناس پیدا کرتا ہے ۔ اس کے برعکس  روشن خیالی ،  نظری معاملات سے متعلق دکھائی دیتی ہے : (معروضی اعتبار سے ) عقلی دانش  اور (موضوعی اعتبار سے )  ، انسانی تقدیر کو متاثر کرنے اور ان کی اہمیت کے پیش نظر انسانی حیات سے متعلق معاملات پر عقلی غوروفکر کی سہولت سے متعلقہ امور[3]۔

 میں یہ مفروضہ پیش کرتا ہوں کہ  زمانے میں  ہماری تمام تر جدوجہد اور کاوشوں    کے لیے انسانی تقدیر کو  بطور  پیمانہ اور مقصود لیا جائے کہ اگر ہم اپنے راستہ سے بھٹکنا نہیں چاہتے تو یہی وہ نقطہ ہے جس پر ہمیں نظریں جمائی رکھنی چاہئیں  ۔

ایک زبان،  علوم کے ذریعے  روشن خیال  قرار پاتی ہے  اور سماجی ملاپ ، شاعری اور اسالیب ِ اظہار  کے ذریعےمتمدن بنتی ہے   ۔ وہ زبان ، اول الذکر کے ذریعے     نظری اور موخر الذکر کے ذریعے عملی استعمالات کی خاطر  پہلے کی نسبت زیادہ خوگر ہو جاتی ہے ۔  دونوں (استعمالات ) باہم مل کر اس کو ایک علمی زبان بنا دیتے ہیں ۔

مصنوعی تمدن   کو  ’   مانجھا  ہوا ‘ ( قلعی شدہ تمدن)  کہتے ہیں  ۔اس قوم کا اقبال بلند ہو جس کی  ’’ قلعی‘‘   ، تمدن  اور روشن خیالی کا نتیجہ ہے  نیز جس کی ظاہری چمک دمک  اور نفاست کی بنیادیں ، داخلی اور کھری صداقت پر قائم ہیں !

روشن خیالی ، تمدن  سے اسی طرح وابستہ ہے جیسے عمل سے نظریہ  ، اخلاقیات سے دانش   اور تخلیق سے تنقید ۔ معروضی اعتبار سے، وہ  ایک دوسرے سے  بے حد قریب ہوتے ہیں اگرچہ موضوعی اعتبار سے  ، ان کو عموماً   ایک دوسرے سے جدا کیا جاتا ہے ۔

کوئی کہہ سکتا ہے  کہ جرمنی کے  جنوب مشرقی  علاقے ’’نورنبرگ‘‘ (Nürnberger)  میں بسنے والے  نسبتاً زیادہ مہذب ہیں  اور  برلن کے باسی نسبتاً  زیادہ روشن خیال  ہیں ؛ فرانسیسی   نسبتاً زیادہ مہذب ہیں اورانگریز نسبتاً زیادہ روشن خیال ہیں ؛ چینی نسبتاً زیادہ مہذب اور کم روشن خیال  ہیں ۔ یونانی   مہذب اور روشن خیال دونوں  ہیں ۔ وہ ایک پڑھی لکھی قوم ہے اور  ان کی زبان بھی ایک علمی زبان ہے ۔ مجموعی طور پر ، افراد کی زبان اپنے گہرائی اور گیرائی دونوں اعتبار سے ،   ان کی تعلیم ، تمدن  اورروشن خیالی کی بہترین عکاس ہوتی ہے ۔

مزید ، انسانی تقدیر کو  دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اول،  انسانی  تقدیر بطور انسان  اور دوم،  انسانی تقدیر بطور شہری  ۔

تمدن  کی رُو سے  ، یہ دونوں (تقدیریں )  بیک وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں ؛ تمام تر عملی کمال  کی اہمیت  صرف  سماجی حیات کے ساتھ اس   کے رابطہ کی بدولت ہے ۔ چنانچہ فرد  کو معاشرے کا ایک رکن سمجھتے ہوئے ہی انسانی تقدیر   کے ساتھ مطابقت پیدا کرنی چاہیے ۔ انسان بطور فرد  ، تمدن کا محتاج نہیں ہوتا تاہم اس کو روشن خیالی کی حاجت ہوتی ہے ۔

سماجی زندگی میں  رتبہ اور پیشہ  ہر فرد کے فرائض  اور حقوق کو متعین کرتے ہیں ، اور انہی  کے حسبِ حال   مختلف صلاحیتوں اور مہارتوں ، مختلف رجحانات ، افتاد ہائے  ِ طبع  ، سماجی رسوم و رواج  نیز  ایک  منفرد تمدن  اور قلعی (مانجھے)  کی ضرورت ہوتی ہے ۔  تمام علاقوں میں جس قدر افراد اور ان کے  پیشوں کے مابین  مطابقت وجود میں آتی ہے   یعنی افراد کی انسانی تقدیروں  کے ساتھ بطور افرادِ معاشرہ ، اتنا ہی قوم زیادہ  تہذیب یافتہ ہوتی ہے ۔

ہر فرد کو اپنے رتبہ اور پیشہ کے مطابق  ، مختلف نظری معارف اور ان کو حاصل کرنے کی خاطر متفرق مہارتوں یعنی  روشن خیالی کے منفرد درجہ  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فرد کو بطور انسان درکار  روشن خیالی ،   رتبہ کی تمیز کے بغیر آفاقی ہوتی ہے ؛ انسان بطور شہری کومطلوب  روشن خیالی    ، رتبہ اور پیشہ کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔  انسانی تقدیر   ایسی کاوشوں کے مقصد اور پیمائش کی حیثیت سے ہمیشہ برقرار رہتی ہے ۔

پس  قومی روشن خیالی ،    چار چیزوں سے  تناسب کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے : مقدارِ علم ،  روشن خیالی کی اہمیت  یعنی   فرد اورشہری کی تقدیر کے ساتھ اس کی نسبت ،  تمام ریاست میں روشن خیالی کی تقسیم، اور افراد کے  پیشوں کے ساتھ اس کی ہم آہنگی  ۔  پس ، قومی روشن خیالی  کا درجہ  کم از کم چہار گانہ تعلق کی بدولت متعین ہوتا ہے ، جس کے ارکان      جزوی اعتبار سے  سادہ تر   ذیلی نسبتوں  پر مشتمل ہوتے ہیں ۔

انفرادی اور شہری روشن خیالی مابین آویزش ہو سکتی ہے  ۔ مخصوص صداقتیں  جو  انسان کے لیے بطور فرد  مفید ہیں  ،  بعض اوقات افراد کی شہری حیثیت  کے لیے مضر ہو سکتی ہیں ۔یہاں  یہ ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ   فرد  کی لابدی یا  عارضی تقدیروں کے مابین اور شہری  کی لابدی یا عارضی تقدیروں کے مابین آویزش ۔

فرد کی لابدی تقدیر کی عدم موجودگی میں ، فرد جانور کی سطح   سے نیچے گر جاتا ہے؛ عارضی تقدیر کے بغیر ، فرد  مخلوق کی حیثیت سے  زیادہ دیر تک معتبر  اور عزت کے لائق   نہیں  رہتا[4]۔ شہری کی حیثیت سے فرد  کی لابدی تقدیر کی عدم موجودگی میں قانون  ِ ریاست   اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے  جبکہ   عارضی تقدیر کے بغیر ، فرد بعض تعلقات  کے ضمن میں  اپنی شخصیت کو برقرار نہیں رکھ پاتا۔

اس امر کی معترف ریاست بدقسمت ہے  کہ اس کے  نزدیک   فرد اور شہری کی لابدی تقدیروں کے مابین  ہم آہنگی  نہیں ہے اورقانون ِ ریاست کو خطرے میں ڈالے بغیر  فرد کو مطلوب لازمی  روشن خیالی  کی نشرواشاعت ممکن نہیں ۔   اس مقام پر فلسفہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے  ۔ یہاں ہو سکتا ہے کہ ضرورت کی بنیاد پر قانون سازی ہو  یا  پھر کچھ ایسی پابندیاں وضع کی جائیں  جن کے ذریعے انسانیت کو بزور قوت راہ راست پر رکھا جائے ۔

تاہم  ، اگر  فرد کی عارضی تقدیر اور شہری کی لابدی  یا عارضی تقدیر کے مابین  آویزش جنم لیتی ہے  تو قوانین کو اس طور سے قائم کرنا چاہیے کہ اس کے مطابق استثنائی مثالیں وجود میں لائی جائیں  نیز  متصادم واقعات کا فیصلہ کیا جائے ۔

اگر بدقسمتی سے فرد کی لابدی اورعارضی تقدیر کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کیا چکا ہو   ،  اگر مروجہ مذہبی اور اخلاقی عقائد کو ہٹائے بغیر  انسانیت کے لیے مخصوص    دلفریب صداقتوں کی اشاعت نہ ہو پائے  تو روشن خیالی  کی قدر کے علمبر دار  کو ہوشمندی اور دوراندیشی  کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا   نیز اس کے ساتھ گہری قربت  کی حامل صداقت کو ترک کر دینے  کی بجائے   تعصب کو برداشت کرنا ہوگا[5] ۔  بلاشبہ ، یہ اصول  ، منافقت کی  جائے پناہ  بن چکا ہے ، اور ہم پر لازم ہے کہ   صدیوں پر محیط وحشت اور توہم پرستی کا شکریہ ادا  کیا جائے ۔ جب کبھی کسی نے جرم کو روکنے کی کوشش کی تو    اس نے اسی مقدس  پناہ گاہ کا رخ کیا  ۔تاہم انسان دوست  کے لیے  ، روشن خیال ترین زمانوں میں بھی   ایسے افکار کو ملتوی کرنا لازم ہے۔استعمال کو بے جا استعمال سے الگ کرنے والی حد کو تلاش کرنا  دشوار ہے مگر ناممکن نہیں  ۔

ایک عبرانی مصنف لکھتا ہے کہ جو شے اپنے کمال میں  جس قدر معتبر ہو گی ،  اپنے زوال میں اسی قدر رذیل ہو گی[6]  ۔ لکڑی کا ایک جلا ہوا ٹکڑا ، ایک مرجھائے ہوئے پھول   سے زیادہ  بھدا نہیں  ہوتا   جبکہ  وہ  ایک گلتے سڑتے جانور  سے  زیادہ کریہہ  نہیں  ہوتا  جب کہ وہ جانور ، کسی  بوسیدہ انسان کے مثل  کریہہ المنظر  نہیں  ہوتا۔  یہی معاملہ تمدن  اور روشن خیالی  کا  ہے ۔  اپنے جوبن  میں جتنا زیادہ قابل تکریم ، اپنے زوال میں  اتنا ہی  زیادہ  گھناؤنا ۔

روشن خیالی کا بے جا استعمال ، اخلاقی جذبات کو کمزور کر دیتا ہے  نیز قساوتِ قلب  ، اناپرستی ، لا دینیت  اور انتشار کی جانب لے جاتا ہے ۔ تمدن  کا بے جا استعمال   آسائش ،  منافقت ، ضعف ، توہم پرستی اور غلامی کو جنم دیتا ہے ۔

 اصطلاحات کی مذکورہ توضیح کے مطابق  کسی قوم کو دی جانے والی  تعلیم ،چونکہ    تمدن  اور روشن خیالی   پر مشتمل ہوتی ہے لہذا    اس کے بدعنوان ہونے کے امکانات بہت ہی تھوڑے  ہیں  ۔ 

ایک تعلیم یافتہ قوم  ،  بے قابو اجتماعی لذت سے بڑھ کر کسی دوسرے خطرے کو نہیں جانتی ہے  جو  انسانی  بدن کی کامل صحت مندی  کی  مثل  بذات خود   ایک بیماری ہے    یا بیماری لگ جانے کی حالت ہے ۔جو قوم تعلیم کے ذریعے قومی مسرت کی انتہائی بلندی پر پہنچ چکی ہے ، وہ اسی وجہ سے تباہی کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ وہ اس سے زیادہ عروج حاصل نہیں کر سکتی  ۔ تاہم یہ نکتہ ہمیں زیرِ نظر سوال سے بہت دور لے جاتا ہے۔

حواشی

1۔        ابن میندل کی استعمال کردہ تینوں اصطلاحیں مترجم کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں  کیونکہ خود اس کے الفاظ میں ، معاصر قاری ان کو مترادف سمجھ سکتا تھا ۔  تعلیم و تربیت (bildung) خاص طور سے ایک مشکل اصطلاح ہے جس کے  متبادل درج ذیل ہیں:   ’’ کلچر ‘‘ (culture)، ’’ بڑھوتری ‘‘ (development)، ’’ تشکیل ‘‘ (formation) یا ’’ تعلیم ‘‘ (education)۔ راقم (انگریز مترجم) نے ’’ کلچر‘‘ (Kultur) کے  ساتھ تقابل کو محفوظ رکھنے کے لیے آخرالذکر کا انتخاب کیا ہے ، تاہم  قاری کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ انگریزی  لفظ کی بجائے جرمن اصطلاح وسیع تر معانی کی حامل ہے  یعنی ’’ تعلیم و تربیت‘‘ (bildung) کے حامل سے مراد تعلیم یافتہ  اور  تہذیب یافتہ    ہے جس کی امتیازی خوبی ’’ مخصوص ‘‘   پرورش  ہے ۔

2۔        ابن میندل نے پروٹسٹنٹ فرقہ کے جرمن ماہرِ الٰہیات  جوہان جوشم   سپالڈنگ (Johann   Joachim   Spalding)جو کہ بدھ وار سوسائٹی کا رکن تھا ، کی ایک کتاب    میں استعمال ہونے والی ترکیب  ’’ قسمتِ انسان ‘‘ پر تصرف کیا ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ 1748ء میں شائع ہوئی ۔سپالڈنگ کے استعمال کردہ تصور پر  ابن میندل   کی جامع بحث ،  اس کے ایک مضمون بعنوان  ’’ Orakel,   die   Bestimmung   des   Menschen   betreffende ‘‘  میں  ہے جس کو اس نے 1763ء میں اپنے دوست تھامس ایبٹ (Thomas   Abbt)  کی کتاب ’’ Zweifel   uber   die   Bestimmung   des   Menschen ‘‘ کے ساتھ شائع کیا ۔ اس ایڈیشن کے حواشی میں ، ابن میندل نے جرمن لفظ ’’ bestimmung ‘‘  میں موجود ابہام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ  یہ لفظ ’’ عزم ‘‘ (determination) ( یعنی ’’ فاعل  سے وابستہ  کئی   صفات میں سے ایک کا تقرر ‘‘ ) اور ’’ منزل ‘‘ (destination) (یعنی  ایک مقصد کا تعین جس کے  حصول کے لیے کوئی شے ذریعہ بنتی ہے ) ، دونوں پر دلالت کرتا ہے ۔ ابن میندل نے تجویز دی کہ مذکورہ لفظ کو ’’ عزم ‘‘ کے لیے خاص کر دینا چاہیے ، جب کہ  ’’ منزل ‘‘ کے مفہوم کو جرمن لفظ ’’ Beruf ‘‘ (بمعنی ’’ طرز حیات ‘‘ (vocation) اور ’’ باطنی پکار ‘‘ (calling)(   کے ذریعے بہتر انداز میں ادا کیا جاتا ہے ۔

3۔        ابن میندل نے 27 نومبر 1784ء کوAugust   v.   Hennings کو خط لکھا جس میں اس نے ’’ روشن خیالی ‘‘ ( Aufklarung)  اور ’’ کلچر ‘‘ (Kultur) کے مابین امتیازات کو   نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان کیا :  ’’ روشن خیالی ‘‘ ( Aufklarung) محض نظری ، علم ، اور تعصب کےخاتمہ  سے وابستہ ہوتی ہے ؛ ’’ کلچر ‘‘ کا تعلق  افعال کی خلاقیات ، سماجیت اور آرٹ کے ساتھ ہوتا ہے ۔

 4۔       ابن میندل ،  فرد کی ’’ لابدی ‘‘ قسمت اور ’’ غیرلابدی ‘‘ یا  ’’ عارضی ‘‘ قسمتوں کے مابین  امتیازات کو کرسٹیان وولف کی وجودیات سے اخذ کرتا ہے ۔ جیسا کہ ابن میندل نے Hennings کے نام اپنے خط میں بیان کیا ، ’’ فرد کی لابدی قسمت کا تعلق   ’’ وجود ‘‘ (Daseyn)  اور  غیر لابدی قسمت کا تعلق ’’ ترقی ‘‘   (Besserseyn)سے ہے ‘‘ ۔

 5۔       ابن میندل نے ایک دوسرے مضمون میں  اس نکتے کومزید کھولا تھا ، ’’ Soll   man   der   einreissenden   Schwamerey   durch   Satyre   oder   durch   aussere   Verbindung   entgegenarbeiten? ‘‘ ۔ یہ مضمون فروری 1785ء کو ’’ برلنش موناشرفت ‘‘ میں شائع ہوا ۔ یہاں اس نےنکتہ اٹھایا  ، ’’ انسانیت کی فلاح کے لیے اس بناوٹی روشن خیالی (Afteraufklarung)سے بڑھ کر کسی شے کی مخالفت نہیں ہوتی   ، جہاں ہر کوئی دقیانوسی دانش بگھارتا ہے جس سے روح ایک عرصہ پہلے  ہی نکل چکی ہے ؛ جہاں ہر کوئی تعصبات کا تمسخر اڑاتا ہے ، بغیر ان میں  سے درست و غلط کی تمیز کیے ‘‘ ۔

6۔       ابن میندل کی تحریرات کے تنقیدی ایڈیشن کے حواشی میں  ، الیگزینڈر آلٹ مان (Alexander Altmann) تجویز دیتے ہیں کہ ابن میندل شاید  تالمود کے حصہ چہارم(IV. 6)  بعنوان (tractate Yadayim)  (اردو ترجمہ میں ’’ ربیوں کے اقوال، امثال اور روایات ‘‘ )  کا حوالہ دے رہا تھا : ’’ درجاتِ غلاظت اور عزت میں موافقت ہوتی ہے ‘‘ ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search