روشن خیالی کیا ہے ؟ کے سوال کا ایک جواب: عمانویل کانٹ

 In ترجمہ
نوٹ: 1996ء میں جیمس شمت کی ادارت میں ’’ روشن خیالی کیا ہے؟ اٹھارویں صدی کے جوابات اور بیسویں صدی کے  سوالات‘‘ کے عنوان سے  شائع ہونے والی کتاب میں ’’ روشن خیالی‘‘ کےموضوع  پر لکھے جانے والے تمام تر اہم مضامین کو اکٹھا کر دیا گیا ۔ ابتدائی جرمن مضامین کا ازسرنو انگریزی  ترجمہ ہوا نیز حواشی لکھے گئے ۔ زیرِ نظر اردو ترجمہ اسی کتاب سے  مستعار ہے ۔ روشن خیالی کے باب میں ہونے والی کسی بھی   سنجیدہ علمی بحث نیز  تاریخ افکار میں روشن خیالی  پر ہونے والی نقد و نظر   کی تفہیم کے ضمن میں  عمانویل کانٹ کی زیرِ نظر تحریر   کو  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ہما ری ناقص معلومات کے مطابق کانٹ کے مذکورہ مضمون کا یہ دوسرا اردو ترجمہ ہے ۔ اس کا ایک ترجمہ حال ہی میں صابر علی صاحب نے کیا ہے جو لیگیسی بکس، لاہور نے شائع کیا۔

*****

تعارف (انگریز مترجم ،  جیمس شمت) :          1784ء میں لکھا جانے والا عمانویل کانٹ کا  مضمون ، ’’ روشن خیالی  (نروان) کیا ہے ؟ ‘‘ کے سوال  کا جواب دینے سے متعلق زولنر کی درخواست   پر قلمبند ہونے والے جوابات میں سے معروف ترین ہے ۔  کانٹ نے اپنے  مضمون کے  آخرمیں  ایک حاشیہ لکھا کہ یہ مضمون تیس ستمبر 1784ء کو موسیٰ ابن میندل کے جوابی مضمون میں اٹھائے جانے والے نکات سے بے خبری کے عالم میں تحریر ہوا   ۔ جب کانٹ اپنے جواب کو مکمل کر رہا تھا ، تو  موسیٰ ابن میند ل کا مضمون ’’ برلنش  موناشرفت ‘‘ (Berlinische   Monatsschrift)  نامی    مجلے  میں شائع ہو چکا تھا ۔  زیرِ نظر مضمون ، کانٹ کے پندرہ مقالات میں سے دوسرا تھا    جو اس نے   1784ء تا 1796ء کے عرصہ میں   ’’ برلنش  موناشرفت ‘‘ (Berlinische   Monatsschrift)   نامی مجلے کے لیے   لکھے ۔

روشن خیالی،   انسانیت کا خود اپنے آپ پر مسلط  کردہ   بچپنے   (self-incurred   immaturity) سے جان چھڑوانا  ہے [ 1 ] ۔   کسی دوسرے کی رہنمائی کے بغیر اپنی تفہیم  کو بروئے کار لانے کی اہلیت کا نہ ہونا ہی  بچپنا  ہے ۔ اس نااہلی کی بنیادیں اگر  سمجھ بوجھ میں کمی کی بجائے  ارادے سے محرومی  اورکسی دوسرے کی رہنمائی کے بغیر اپنے ارادے  کو بروئے کار نہ لا سکنے پر استوار ہوں تو  یہ (بچپنا ) ایک   ناپسندیدہ  شے ہے ۔      سوچنے کی ہمت کرو  !  اپنے ذاتی  فہم کو استعمال کرنے کی جرات کرو !  ۔ بس  یہی روشن خیالی کا   دستور العمل (ماٹو)ہے [ 2 ] ۔

کاہلی اور بزدلی  کی بدولت  انسانیت کا بیشتر حصہ ، ہنوز   بچپنے کی حالت میں      زندگی  بسر کرنے پہ خوش    ہے اور  اسی  سبب  دوسروں کے لیے خود کو  ان کا سرپرست  بنا لیناسہل ہے  حالانکہ  فطرت نے عرصہ دراز سے ان کو  دوسروں کی رہنمائی(naturaliter   majorennes) سے چھٹکارا   دلوا دیا ہے( یا  فطرت نے عرصہ دراز سے  بزرگوں کی پیروی سے ان کا پیچھا چھڑوا دیا ہے )۔  بچہ بننا  بے حد آسان ہے ۔ اگر میرے پاس سمجھ بوجھ عطا کرنے والی ایک کتاب ہے  ، مجھے اخلاقی تمیز دینے والا ایک پادری ہے ، میری غذا کا فیصلہ کرنے والا ایک طبیب ہے اور وغیرہ وغیرہ،   تو یقینا مجھے خود کو تکلیف میں مبتلا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ مجھے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اگر میں صرف ادائیگی کر سکتا ہوں ؛  میری جگہ ، دوسرے لوگ تکلیف دہ کام سر انجام دیں گے ۔وہ مربی افراد جنھوں نے  کمال مہربانی سے انسانیت کی بھول چوک کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ، اس امر  کا  خیال رکھتے ہیں کہ تمام تر سفید اقوام سمیت    انسانیت کا بیشتر حصہ   بلوغت کی شاہراہ کو نہ صرف دشوار  بلکہ بے حد خطرناک بھی تصور کرے۔ اپنے پالتو جانوروں کو   احمق بنا چکنے اور ایسے  پرامن جانوروں کو  چھکڑے  میں باندھ کے رکھنے والے چمڑے کے پیش بند [ 3 ]  سے چھٹکارا حاصل نہ کرلینے کی بابت نہایت   ہوشیار بندوبست کرنے کے بعد ہی،  وہ ان جانوروں کو   اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کے ضمن میں  درپیش  خطرات کی بابت  واقفیت دیتے ہیں۔ اب یہ خطرہ اس قدر بڑا نہیں ہے  کیونکہ یقیناً کچھ مرتبہ گرنے کے بعد وہ آخرکار  چلنا سیکھ ہی لیں گے ؛ تاہم  اس قسم کی ایک مثال  ان کو بزدل بنا دیتی ہے اور  آئندہ کی تمام کوششوں سےبالعموم   خوف زدہ کر دیتی ہے ۔

چنانچہ ہر ایک فرد کے لیے خود کو اس  بچپنے سے نکالنا دشوار ہے جو اس کے لیے لگ بھگ  فطرت بن چکا ہے ۔ وہ اس کا دلدادہ ہو چکا ہے اور فی الوقت  وہ  اپنی ذاتی عقل  کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہے  کیونکہ اس کوجدوجہد کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی گئی ہے ۔   اس کی قدرتی استعداد کے عقلی استعمال  (یا    بے جا  استعمال ) کے لیے قوانین و ضابطے  جیسے میکانکی آلات   ، ایک ابدی  بچپنے میں باندھ کر رکھنے والی بیڑیاں ہیں  ۔ ان کے چنگل سے نکلنے والے ہر شخص کو  ادنی ٰ ترین کھائی ایک غیریقینی چھلانگ لگا کر عبور کرنا ہو گی ، کیونکہ  وہ ایسی آزادانہ حرکت کا عادی نہیں ہے ۔ لہذا  چند ہی افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنے اذہان کے استعمال کی بدولت خود کو  اس بچپنے سے آزاد کروایا ہے ۔  اور اب تک استقلال کے ساتھ آگے   بڑھتے ہیں ۔

تاہم اس  کا امکان نسبتاً زیادہ ہے کہ  عوام الناس خود کو روشن خیال بنائے؛ بلاشبہ ، ان کو آزاد چھوڑ دینے کی صورت میں  ایسا ہونا قریب قریب یقینی ہے ۔ کیونکہ کچھ ایسے لوگ تو ہمیشہ مل جائیں گے جو دوسروں کے لیے سوچتے ہیں  حتی ٰ کہ  عوام الناس کے معروف سرپرستوں کے ہاں بھی  ۔نیز  جو اپنی گردنوں سے بچپنے کاطوق اتار پھینکنے  کے بعد   ،   جم غفیر میں انفرادی قدروقیمت کی عقلی تشخیص   اور اپنے   پیشے  (یا طرزِ حیات )  کے بارے میں ہر ایک فرد کی ذاتی    سوچ بچار کے مزاج کو ترویج دیں  گے ۔ یہ امکان قابل توجہ ہے  کہ   پہلے سے بیڑیوں میں جکڑی ہوئی عوام الناس،  روشن خیالی کی اہلیت نہ رکھنے والے چند سرپرستوں کے اکسانے پر  ایسے   حضرات  کو اسی بوجھ تلے رہنے پر مجبور کرے ۔چنانچہ    تعصبات کی پنیری لگانا نقصان دہ ہے  کیونکہ آخر کار    اس کا نتیجہ  ایسا کرنے والوں یا ان کی آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا    ۔ تاہم   عوا م   بتدریج ہی روشن خیالی کو پہنچ سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک انقلاب شاید آمرانہ  مطلق العنانیت اور ایک حریص یا متکبرانہ  استبداد  کو زوال سے آشنا کر دے   مگر  وہ کبھی بھی    ایک زاویہ نگاہ میں درست تبدیلی نہیں لا سکتی ۔ اس کی بجائے   ماضی کی مثل ا یک نیا تعصب،    گھامڑ (thoughtless)  عوام  کو  باندھنے والی بیڑیوں کا فریضہ انجام دے گا ۔

تاہم اس روشن خیالی کی خاطر آزادی سے بڑھ کر کچھ درکار نہیں ہے؛ اور بلاشبہ ، تمام اشیاء میں  سب سے کم بے ضرر  شکل  جس کو  شاید آزادی کہا جا سکتا ہے ، وہ یہ ہے :    تمام تر مسائل میں انسانی عقل کے عوامی استعمال کی اجازت ۔ تاہم  میں ہر جانب سے شوروغوغا سنتا ہوں  کہ ’’ بحث مت کرو!  ‘‘ [ 4 ] ۔ افسر کہتا ہے : ’’ بحث مت کرو مگر  آگے بڑھو! ‘‘ ۔   ٹیکس جمع کرنے والا کہتا ہے : ’’ بحث مت کرو مگر ادائیگی کرو! ‘‘ ۔  پادری کہتا ہے : ’’ بحث مت کرو مگر ایمان لاؤ! ‘‘   (دنیا میں صرف ایک  بادشاہ   کہتا ہے :  ’’ بحث کرو، جس قدر تم چاہتے ہو اور جس مرضی شے کے بارے میں چاہتے ہو  ، مگر فرمانبرداری کرو! ‘‘ [ 5 ] ) ۔ یہاں ہر جگہ آزادی پر پابندیاں عائد ہوتی  ہیں ۔ تاہم کون سی پابندیاں  روشن خیالی کی مزاحمت کرتی ہیں ؟ کیا شے مزاحمت  کی بجائے روشن خیالی کی ترویج کرتی ہے  ؟ میرا جواب ہے  :   عقل کے عوامی استعمال کو ہر وقت آزاد  رکھنا لازمی ہے  اور صرف یہ ہی وہ  واحد  شے  ہے جو افراد کے مابین روشن خیالی کو  پروان چڑھا سکتی ہے ؛   تاہم اس بات کا امکان ہےکہ  روشن خیالی کی ترقی کی راہ  میں رکاوٹ کھڑی کیے بغیر  بغیر  عقل کے عوامی استعمال    پرمحدود پیمانوں پر پابندیاں عائد  کی جائیں  ۔ تاہم میرے نزدیک  اپنی عقل کے عوامی استعمال  سے مراد   وہی استعمال ہےجو کسی شخص کو پڑھی لکھی دنیا  کے سامنے ایک عالم کی حیثیت سے متعارف کرواتا ہے ۔ میں نجی استعمال کی حیثیت سے  اس  شے کو متعین کرتا ہوں   جو کسی  شخص  کےاپنی عقل کو  اپنے تئیں  تفویض کردہ ایک خاص سماجی عہدے  یا دفتر کے ضمن میں بروئے کار آتی ہے  ۔ اب ایک خاص ضابطہ درکار ہے جو مختلف امور  میں  دولت ِ مشترکہ  کے مفاد  میں بروئے کارآئے نیز  جس کے ذریعےخاموشی کے ساتھ   دولت ِ مشترکہ کےچند ارکان کو ایک نظم کا پابند کرنا یقینی ہو جائے  تاکہ حکومت  مصنوعی یکسانیت کے ذریعے ان کو    عوامی مقاصد  کے حصول کی جانب لے چلے یا  پھر کم از کم ان کوعوامی مقاصد  کو درہم برہم کرنے   سے روک پائے ۔  اس مقام پر یقینا ً کسی کو بحث کرنے کی اجازت نہیں ہے  ؛ بلکہ اس کی بجائے  ہر ایک پر اطاعت کرنا لازم ہے ۔ مگر یہاں تک مشین کا یہ حصہ جو  اپنے آپ کو  بیک وقت ساری دولت ِ مشترکہ  حتی کہ ایک عالمی ( کاسموپولیٹن ) معاشرے کا ایک رکن سمجھتا ہے،   جو ایک عالم (سکالر)  کی حیثیت سے  اپنی تحریروں کے ذریعے عوام سے    مخصوص معنوں میں  خطاب کرتا ہے، وہ ان امور کو نقصان پہنچائے بغیر  خاص طورسے دلیل دے سکتا ہے جن میں وہ ایک غیر فعال رکن کی حیثیت سے مشغول رہتا ہے ۔ لہذا  اس کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی ہو گی  اگر  فرائض سرانجام دینے والے ایک افسر  اپنے حکام ِ بالا کی جانب سے دیے گئے حکم کی موزونیت یا افادیت کے بارے میں  بآواز بلند اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہے ؛ اس کو ہر حال میں تعمیل کرنی ہے ۔  تاہم ایک سکالر کی حیثیت سے اس کو   ملٹری سروس میں ناکامیوں پر تبصروں اور ان کو عوام الناس کے روبرو رکھنے سے روکنا جائز نہیں ہو سکتا ۔ شہری  خود پر عائد کردہ  ٹیکس  کو ادا کرنے سے انکار نہیں کر سکتا ہے ؛ حتی کہ ان نافذ کردہ ٹیکسوں  جن کو ادا کرنا چاہیے ، ان  کے خلاف  بے باک شکایت کو توہین سمجھتے ہوئے  سزا دی جاتی ہے  (جو عمومی بغاوت کی جانب  لے جا سکتی تھی )۔ تاہم  وہی فرد ، شہری کے فرض  کے برخلاف  عمل نہیں کرتا جب  وہ ایک سکالر کی حیثیت سے  ان ٹیکسوں کی ناموزونیت یا     ناانصافی پر عوام کے سامنے  اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔ بعینہ ، ایک پادری سوال و جواب کے درمیان اپنے شاگردوں  اور اجتماع کو   اس کلیسائی علامت کے مطابق درس  دینے پر مجبور ہے  جس کی وہ  خدمت کرتا ہے [ 6 ] ؛ کیونکہ اس کو اسی شرط پر تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم ایک سکالر  کی حیثیت سے  اس کو کامل آزادی حاصل ہے، بلکہ کام ہے کہ  عوام الناس کو  اس  علامت   کے نقائص   کے بارے میں محتاط  انداز میں پرکھے ہوئے  اور نیک نیتی پر مبنی اپنے خیالات نیز مذہبی اور آفاقی مسائل کی ایک بہتر ترتیب کی خاطر اپنے منصوبوں  سے متعلق آگاہی دے    ۔ اس میں کچھ ایسا نہیں ہے جو اس کے شعور پر بوجھ لاد سکتا تھا ۔ اپنے کلیسا کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے عہدے کے نتیجہ میں تدریس کے دوران  وہ ایسی شے کو پیش کرتا ہے جس کے بارے میں اس کو آزادانہ خودمختاری حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھا   ئے   بلکہ کسی دوسرے شخص کے  نام پر دوسروں  کے فرمان کی تشریح کرنے میں  مشغول رہتا  ہے ۔ وہ کہے گا : ہمارا کلیسا  فلاں فلاں شے سکھاتا ہے ؛  یہ اس کے متعلقہ دلائل ہیں ۔  پھر وہ اپنے اجتماع کی خاطر تمام تر عملی استعمالات کو  ان اصولوں سے اخذ کرتا  ہے جن  کی توثیق شاید  وہ خود مکمل  اعتماد کے ساتھ  نہ کر پائے لیکن ان کی تشریح کا بیڑا اٹھا سکتا ہے کیونکہ  اس بات کا کلی انکار ناممکن ہے کہ شاید وہ اصول برحق ہو  ، اور کم از کم  کسی بھی صورت  میں ، ان اصولوں  میں  کچھ ایسا نہیں ہے جو اصلِ  مذہب کے خلاف ہو ۔ اگراس نے ان میں اپنے ایمان کے برخلاف کوئی ایسی شے ڈھونڈ نکالی  تو وہ اپنے ضمیر کی رو سے  اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتا تھا ؛ اس کو استعفی دینا ہو گا ۔ لہذا  وہ استعمال جو ایک معین استاد  اپنے اجتماع کے سامنے اپنی عقل کا کرتا ہے ، وہ محض ایک نجی استعمال ہے کیونکہ یہ صرف ایک خانگی یا لے پالک اجتماع ہے خواہ کتنا ہی بڑا ہے ؛ اور اسی اعتبار سے وہ، ایک پادری کی حیثیت سے آزاد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہے  کیونکہ وہ  دوسروں کے احکامات  کو بجا لاتا ہے ۔ اس کے برعکس ،  ایک سکالر  کی حیثیت سے جو  اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی عوام یعنی دنیا سے مخاطب ہوتا ہے ، پادری اپنی عقل کے عوامی استعمال  میں خود کی عقل کو بروئے کار لانے اور  اپنی رائے دینے میں غیرمشروط آزادی    سے لطف اندوز ہوتا ہے   ۔ (روحانی معاملات میں ) عوام کے سرپرست کو بذاتہ  بچہ (معصوم)  ہونا چاہیے ، یہ  ایک  ایسی خرافات ہے جو بے ہودگیوں کو دوام بخشتی ہے ۔

تاہم ایک کلیسائی مجلس    یا ایک مقدس جماعت کی مانند پادریوں کا ایک اجتماع (جیسا کہ جرمنوں کے ہاں وہ خود کو کہتے ہیں) [ 7 ]  اس بات کا جواز رکھتی ہے کہ اپنے ارکان  پر مسلسل نگرانی کی غرض سے   ایک  خاص غیر متبدل  علامت کے  تحت  حلف کے ذریعے   ایک دوسرے کو باندھ دے اور  پھر اس کےطفیل  ان کے متبعین  پر ، یہاں تک  کہ اس کو ابدی بنا دے ؟ میں کہتا ہوں کہ یہ  بالکل  ناممکن ہے ۔  نسل انسانی کے مستقبل کی تمام تر روشن خیالی کو ہمیشہ کے لیے مقفل کر دینے کی غرض سے ہونے والا  معاہدہ بالکل ہیچ ہےخواہ    اعلیٰ ترین  قوت ، سلطنت روما کی مقدس کونسل  (Imperial   Diets)   اور امن کے سنجیدہ ترین معاہدے اس کی توثیق کرتے ہوں ۔  ایک زمانہ خود کو پابند نہیں کر سکتا ،  لہذا  اپنے بعدآنے والے زمانے کو ایک ایسی صورت حال میں لا چھوڑنے کا گٹھ جوڑ کرتا ہے  جس  میں اس  زمانے کے لیے اپنے علم (خاص طور پر ناگزیر علم ) کو وسعت دینا، غلطیوں سے بچنا اور روشن خیالی کے ضمن میں عمومی ترقی کرنا    ناممکن ہو جائے  ۔ یہ انسانی فطرت کے خلاف ایک جرم ہو گا جس کی  بنیادی قسمت  کا دارومدار  اس ترقی پر منحصر ہوتا ہے ؛ اور آئندہ نسلوں کے پاس  غیر مستند اور غیرمعقول نتائج کی حامل  ایسی قراردادوں کو مسترد کرنے کا مکمل جواز ہو گا ۔  ہر شے کی ایک کسوٹی جس کولوگوں کے لیے ایک قانون بنایا جا سکتا ہے  ، اس سوال میں مذکور ہے : کیا لوگ خود اپنے آپ پر  ایسا کوئی قانون لاگو کر سکتے تھے ؟ کسی نسبتاً بہتر شے کی امید میں اب  ایک مخصوص مختصر دورانیہ کے لیے    ایک خاص  ضابطہ کو متعارف کروانا ممکن ہو جائے گا جیسا کہ یہ تھا ۔ اسی  اثناء  میں  تمام شہریوں  خاص طور پر پادریوں کو  سکالر ز کی حیثیت سے ان کی صلاحیتیوں کے ساتھ  آزاد چھوڑ دیا جائے گا     کہ موجودہ اداروں کی ناکامیوں پر اپنی تحریروں کے ذریعے تبصرے کریں ۔یہ عبوری ضابطہ اس وقت تک لاگو رہے گا جب تک ان اشیاء کی ماہیت سے متعلق معارف   اس قدر کھل کر سامنے نہیں آ جاتے اور اس قدر معتبر نہیں ہو جاتے کہ   اپنی  آوازوں  کو  مجتمع کرنے کی بدولت(خواہ  باہم متفق نہیں ہوتے )   وہ  ریاست کے سامنے ایک معاہدہ نہیں لے آئیں     تاکہ ان اجتماعات کو ایسا تحفظ فراہم کردیا جائے جنھوں نے عمیق معارف  پر مبنی  تصور ات کے  مطابق   ان کو  ایک اصلاح یافتہ  مذہبی تنظیم کی صورت میں وحدت عطا کر دی تھی ، ان لوگوں کے راستے کی رکاوٹ بنے بغیر جو قدیم طریقہ کار پر برقرار رہنا چاہتے  ہیں  ۔ تاہم فرد ِ واحد کی زندگی میں تو    ایک مستقل  مذہبی قانون کے تحت وحدت اختیار کر لینا  قطعی طور پر ممنوع ہے جس پر بھی کوئی بھی کھلم کھلا اعتراض  نہ کرے  نیز  اس کی بدولت  انسانیت کی ترقی کے ایک زمانے کا انکار  کر دے ، لہذا آئندہ نسلوں کے لیے اس کو بے وقعت حتی کہ ناپسندیدہ بنا دے ۔ بلاشبہ ، ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنی ذات  کی خاطران معاملات میں  روشن خیالی کو ملتوی کر دے جن کے بارے میں اس کو جاننا فرض ہے ، اور وہ بھی صرف ایک مختصر دورانیہ کے لیے ؛ تاہم اپنی ذات اوراس سے بھی بڑھ کر آئندہ نسلوں کی خاطرروشن خیالی کو ترک کرنے کا مطلب ہے کہ انسانیت کے الوہی حقوق  کی خلاف ورزی  و بے حرمتی کی جائے ۔ لوگ اپنے لیے جس شے کا فیصلہ نہیں کر پاتے تو اس بات کا امکان  نسبتاً  تھوڑا ہے کہ حاکم وقت   اس شے کو طے کر پائے  کیونکہ ا پنی ذات میں لوگوں کے مجموعی ارادے کو  جوڑ لینے کی بدولت اس کو قانون سازی کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ اگر وہ اس بات کو مدنظر رکھتا ہے کہ تمام تر درست  یا فرضی ترقیاں ، سماجی ترقیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوں تو وہ اپنی رعایا  کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی ارواح کی فلاح و بہبود کی خاطر ضروری اقدامات اٹھائیں ۔ وہ اس سے لاتعلق ہوتا ہے   اگرچہ اس امر کا خیال رکھنا اس  پر لازم ہے کہ کوئی شخص  کسی دوسرے کو  اپنی حالت  میں بہتری لانے کی خاطر  اپنی اہلیتوں کے تعین اور ان کو بروئے کار لانےسے زبردستی روکے  ۔   یہ شے اس کے  منصب شاہی کے خلاف ہے  اگر  وہ ان تحریرات  کو تلاش کرتے ہوئے اس امر میں مداخلت کرتا ہے   جن کی بدولت اس کی رعایا   حکومت کی نگاہوں سے بچ رہنے والی بصیرتوں کو ایک ترتیب دینے کی جستجو کرتی ہے ۔جب  وہ ایسا کرتا ہے تو  اپنے  منصب کے مطابق فعل سرانجام دیتا ہے جس کے تحت وہ اس (قول ) کا سامنا کرتا ہے کہ ’’ قیصر نحویوں سے بالا نہیں ہے ‘‘(Caesar   non   est   supra   Grammaticos)]8[۔ اور اس وقت  پہلے سے کہیں زیادہ یہ فعل سرانجام دیتا ہے جب  وہ اپنی  برتر قوت کو اس حد تک نیچے لے  جاتا ہے  کہ   اپنی ریاست میں   چند غاصبوں کے کلیسائی استبداد کی حمایت کرتے ہوئے  اپنی بقیہ رعایا  کے خلاف چلا جائے  ۔

اگر پوچھا جائے کہ ’’ کیا ہم اس وقت  ایک روشن خیال زمانے میں جیتے ہیں ؟ ‘‘ تو  اس کا جواب ہے  کہ   ’’ نہیں ، تاہم ہم  روشن خیالی کے زمانے میں جیتے ہیں ‘‘ ۔  موجودہ صورت حال میں انسان ہنوز اس   اہلیت  کو حاصل کرنے سے بہت زیادہ دور  ہے یا اس صورت حال سے بہت  پیچھے ہے  جب  وہ  مذہبی معاملات میں کسی دوسرے کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل کو  اعتماد کے ساتھ مناسب انداز میں استعمال کر پائے    ۔ تاہم  ہمارے پاس  اشارے موجود ہیں کہ ابھی افراد کو اس مقام  پر   لے جانے والی آزادانہ تحقیقات کرنے کا موقع مل رہا ہے اور عمومی روشن خیالی یا خود پر عائد کردہ اس بچپنے  سے چھٹکارا حاصل کرنے  کی راہ میں درپیش رکاوٹیں پہلے کی نسبت کم ہو رہی ہیں ۔ اس حوالے سےموجودہ دور  ، روشن خیالی کا  زمانہ یا فریڈرک کی صدی ہے [ 9 ] ۔

ایک شہزادہ جو خود کو یہ کہنے کے قابل تصور نہیں کرتا کہ وہ مذہبی امور سے متعلق  افراد کو  کچھ بھی تجویز کرنے کو اپنا فرض  جانے  تاہم  اس شعبہ میں لوگوں کو کلی آزادی کی اجازت دیتا ہے  نیز ’’ روادار ‘‘ جیسے  حقیر عنوان کو مسترد کرتا ہے ، بذاتہ روشن خیال ہے اور احسان مند دنیا  کی جانب سے عزت افزائی کا حق دار ہےاور آئندہ نسلوں کی جانب سے اس پہلے آدمی کی حیثیت سے تحسین کا اہل ہے جس نے  ریاست کے باب میں،انسانیت کو بچپنے سے نجات دلائی اور ان کو ہر ایمانی معاملے میں  اپنی عقل کو استعمال کرنے کی خاطر کھلی آزادی بخشی ۔ اس کے زیرِسایہ  مذہبی   افراد  اپنے اپنے دفتری فرائض  کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے،     سکالرز  کی حیثیت سے  اپنے فیصلوں اور بصیرتوں (جن میں  معروف علامت سے تھوڑا بہت  اختلاف  بھی ہے ) کو پوری آزادی کے ساتھ  لوگوں کے سامنے جانچ پڑتال کی غرض سے  پیش  کرتے ہیں  ۔کوئی عہدہ نہ رکھنے والے مذہبی افراد نسبتاً زیادہ آزادی کے حامل ہیں ۔ حریت پر مبنی ایسا مزاج وہاں زیادہ پھیلتا ہے جہاں اس کے لیے کسی حکومت کے ہاتھوں ظاہری رکاوٹوں کا سامنا یقینی ہو جاتا ہے ، جو اپنی    غلط تفہیم کی مرتکب ہوتی ہے  ۔کسی  حکومت کی خاطر یہ ایک روشن مثال ہے کہ اجتماعی امن اور وحدت کو اس آزادی سے بہت ہی کم خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ اگر کوئی اپنی مرضی سےان کو بیڑیاں ڈال کر نہ  رکھنا چاہتا ہو ،  تو افراد  آہستہ آہستہ   ظلم و جبر سے اپنا دامن چھڑوا لیتے ہیں ۔

چونکہ  سائنس اور آرٹ کے ضمن میں ہمارے حکمران  کو  اپنی عوام کے نگہبان کا کردار ادا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے  ، لہذا میں نے انسانیت کے خودپر  عائد کردہ بچپنے  سے چھٹکارا پانے کی خاطر خصوصی طور سے  مذہبی معاملات  کو روشن خیالی کا  اہم جزو  قرار دیا ہے   نیز  اس قسم کا بچپنا   مہلک ترین اور نہایت ذلت آمیز ہے  ۔ تاہم  ایسی روشن خیالی کو ترجیح دینے والے  ایک سربراہ ِ مملکت کا طرز ِ فکر اس سے بھی کہیں آگے بڑھ جاتا ہے  اور وہ  اپنی قانون سازی میں یہاں تک دیکھتا ہے کہ   رعایا کو  اس امر کی اجازت دینے کے حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ اپنی عقل کا عوامی استعمال کریں نیز    اس قانون سازی کو بہتر بنانے  اور پہلے سے موجود قوانین  پر   کھلم کھلا تنقید  سے متعلق اپنے خیالات کو دنیا کے سامنے رکھیں ۔  ہمارے پاس اس کی ایک روشن مثال ہے  جس کے مطابق  ابھی تک کوئی بادشاہ ہمارے شاہ سے آگے نہیں بڑھ پایا  ہے ۔

تاہم  پرچھائیوں سے  فی نفسہ خوف زدہ نہ ہونے والا روشن خیال   اور عوامی امن کی ضمانت دینے کی خاطر ایک بڑی اورمنظم فوج کا مالک بادشاہ ہی وہ بات کہہ سکتا ہے جس کی جرات ایک جمہوریہ نہیں کر سکتی  :  بحث کرو ، جس قدر تم کرنا چاہو اور جس شے کے بارے میں کرنا چاہو ، صرف  اطاعت کرو !اس موقع پر انسانی معاملات میں ایک عجیب اور غیرمتوقع رجحان دکھائی دیتا ہے  یعنی عام طور سے جب اس کو وسیع تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو اس کا ہر جزو  کم و بیش  متناقض ہوتا ہے ۔  شہری آزادی کا ایک اعلیٰ درجہ  افراد کی روحانی  آزادی کے لیے مفید دکھائی دیتا ہے اور پھر بھی یہ اپنے سامنے ناقابل عبور رکاوٹیں  کھڑی کر لیتاہے ؛ اس کے برعکس شہری آزادی کا ادنیٰ درجہ  روحانی آزادی  کے مکمل پھیلاؤ کا امکان پیدا کرتا ہے۔   جب اس سخت خول میں فطرت  اپنے نازپروردہ بیج   جس کو آزاد سوچ کی جانب میلان اور اس کو بطور طرز زندگی  قبول کرنا کہتے ہیں ، کی  پرورش  کر چکتی ہے    تو پھر یہی شے  لوگوں کے کردار میں حصہ ڈالتی ہے   (جو اس  کے کارن پہلے سے کہیں زیادہ آزادی سے عمل کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں )   ۔ یہاں تک کہ آخرکار ، یہی شے حکومت  کے اصولوں پر کام کرتی ہے   جو اس کو   انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کی غرض   سے اپنے  لیے مفید پاتے ہیں،     جو اپنے شرف کے مطابق [ 10 ]   مشین سے زائد ہے [ 11 ]  ۔

حواشی

 1۔       کانٹ کی مکمل  بحث کا مرکزی فقرہ ’’ خود اپنے آپ پر مسلط کردہ بچپنا ‘‘ (  selbstverschuldeten   Unmündigkeit ) ہے ۔ جیسا کہ کانٹ نے اپنی کتاب ’’ بشریات ‘‘ (Anthropology) میں بیان کیا ، ’’ بچپنا ‘‘ (Unmündigkeit) نہ صرف ’’ چھوٹی عمر ‘‘ (minority   of   age) (minderjährigkeit) اور ’’ قانونی یا سماجی  عدم بلوغت/ کم سنی ‘‘ (legal   or   civil   immaturity) دونوں کے معنی  دیتا ہے ۔ قانونی اعتبار سے نابالغ    افراد میں   ’’ بلوغت کی قدرتی عمر ‘‘ کے حامل  بچوں اورکسی بھی عمر کی  عورتوں  کا شمار  ہوتا  ہے ، اور قانونی معاملات میں ’’ ولی ‘‘ (curator: Kurator) ، ’’ مختار ‘‘ (proxy: Stellvertreter)، یا ’’ سرپرست ‘‘ (guardian: Vormund)کے ذریعے ان کی نمائندگی  لازم ہے ۔ (ان تمام تر عہدوں کی بنیادیں رومی قانون میں ہیں اور کرسٹیان وولف کی کتاب ’’ Grundsatze   des   Nature   und   Volckerrechts ‘‘   میں ان کی تفصیلی تعریفات  موجود تھیں  ۔ کانٹ کے ہاں ایسی اصطلاحات کا استعمال ارنسٹ فرڈیننڈ  کلین کی یاد دلاتا ہے جس نے (کانٹ سے ) چند مہینے قبل ’’ برلنش موناشرفت ‘‘ میں  ’’ پریس  کی آزادی ‘‘   پرایک مضمون لکھا جس میں اس نے ایسے بادشاہوں اور شہزادوں کو فریڈرک دی گریٹ کی پیروی میں اظہار رائے کی آزادی دینے کا کہا  ، جنھوں نے خوردسال بچوں (unmündigen Kinder) کے سرپرست بننے کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ سملر (Semler) اور سپالڈنگ (Spalding) جیسے روشن خیال  ماہرین ِ الہٰیات   نے  پادریوں پر اپنی تنقید میں ’’ بچپنا ‘‘ (Unmündigkeit) کے لفظ کو برتا ، جو اپنےپیروکاروں کو ’’ بچپنے ‘‘   کی حالت میں رکھتے تھے ۔ ’’ Verschuldeten ‘‘ کا لفظ ، گناہ  اور الزام کے معانی کا حامل  ہے  لہذا ’’ selbstverschuldeten ‘‘ کا لفظ  خود پر اپنے ہاتھوں مسلط کردہ تقصیر کے معانی دیتا ہے ۔

 2۔       لاطینی فقرہ ’’ Sapere aude! ‘‘ (جاننے کی جرات کرو!)  ، ہوریس کی کتاب Epistle  سےلی گئی ہے  (یعنی  پہلی کتاب کے دوسرے جزو بعنوان ’’ ہومر: حقیقی فلسفہ کا استاد ‘‘ کا چالیسویں ٹکڑے  سے ۔ اردو مترجم) ۔  فرینکو ونٹوری (Franco   Venturi)  اس فقرے کی  تاریخ ڈھونڈتے ہوئے لکھتا ہے کہ 1736ء میں اس کو برلن میں  ’’ سوسائٹی برائے دوستانِ صداقت ‘‘ (Society   of   the   Friends   of   Truth)  نامی ایک تنظیم کے استعمال کردہ میڈل  پر کندہ کیا گیا ۔ یہ تنظیم پادریوں ، ماہرین ِ قانون اور سول سرونٹس  پر مشتمل تھی جنھوں نے خود کو صداقت کی اشاعت  کے لیے بالعموم اور لائبنز –وولف کے فلسفے کی تبلیغ کے لیے بالخصوص وقف کر رکھا تھا ۔ مذکورہ فقرہ  اٹھارویں صدی میں بکثرت استعمال  ہوا ؛ مثال کے طور پر کانٹ کے دوست جوہان جارج ہامن (Johann   Georg   Hamann) نے 1759ء کے لگ بھگ  کانٹ کے نام  ایک خط میں استعمال کیا ۔

 3۔       ’’ leading   strings   of   the   cart ‘‘ کا فقرہ ، دراصل کانٹ کے استعمال کردہ لفظ ’’ gängelwagen ‘‘ کا ترجمہ کرنے کی کاوش ہے یعنی آج کل بچوں کو ادھر سے ادھر لے جانے والی  گاڑی (واکر) سے مشابہ ایک چھوٹی  اور  بے پیندے کی   پہیہ گاڑی تاکہ  گرنے کے خطرے سے محفوظ رہ کر بچے حرکت کر پائیں ۔کانٹ کے مضمون کا فرانسیسی مترجم Jean Mondot   نشاندہی کرتا ہے کہ کانٹ ، لیسنگ ، وی لینڈ (Wieland) اور ابن میندل نے انسانیت کے  بچپنے کی خاطر  ’’ gängelwagen ‘‘   کے لفظ کو  بطور  استعارہ استعمال کیا ہے ۔ ممکن ہے کہ روسو (Rousseau) نے اس استعارے سے ممکنہ تحریک لی ہو : (تعلیم کے موضوع پر ) اپنی کتاب بعنوان ’’ Emile ‘‘ میں وہ لکھتا ہے کہ ایملی  کو ’’ پیش بند ‘‘   سے باندھ کر نہیں رکھا جائے گا۔

 4۔       یہاں ’’ räsoniert nichte ‘‘   کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے  دو معانی ہیں یعنی  ’’ استدلال ‘‘ اور ’’ طنز ‘‘ (quibbling) ۔

 5۔       اس مضمون کے اخیر میں  یہ بات کھل جاتی ہے کہ (einziger   Herr) سے فریڈرک دی گریٹ مراد ہے ۔

 6۔       کانٹ کے مضمون سے ایک مہینہ قبل اس  بات پر گرما گرم بحث ہوئی تھی کہ ’’ Symbolic   Books ‘‘      یعنی بنیادی اصولوں یا عقیدے کی بابت  حلف  برداری  کے لیے لوتھرکے پیروکار پادریوں کی موجودگی لازمی ہے  ۔ ابن میندل نے اپنی   کتاب  ’’ یروشلم ‘‘ میں ایسے حلف ناموں کی  مخالفت کی تھی  اور ’’ برلنش موناشرفت ‘‘ کے  جنوری 1784ء کے شمارے میں     اپنی دلیل پر ہونے والی تنقید کا جواب دیا تھا۔

 7۔       جرمن اصلاح یافتہ چرچ نےکلیسائی مجلس   کی ایک ذیلی شاخ کے لیے ’’ Classis ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔

 8 ۔      اس لاطینی فقرے کا انگریزی ترجمہ یہ ہے : Caesar   is   not   above   the   grammarians

 9۔       1740ء تا 1786ء تک پروشیا کے بادشاہ فریڈرک دی گریٹ کا حوالہ ہے ۔

 10۔     میں نے آج ہی بوشنگ کی ہفتہ وار خبروں میں اس مہینے کے ’’ برلنش موناشرفت ‘‘ کا  ایک اشتہار (نوٹس) پڑھا جس میں  مذکورہ سوال کے بارے میں جناب ابن میندل  کے تحریر کردہ جواب کا ذکر تھا ۔ مجھ تک مذکورہ شمارہ نہیں پہنچا ہے ، بصورتِ دیگر میں زیرِ نظر مضمون کو روک لیتا ، اس کو  اب ایک ایسی کاوش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے  کہ  کیسے اتفاقی امر کے باعث فکری اشتراک  واقع ہو سکتا ہے ۔  11۔     جولیاں اوفرے   (Julien   Offray   La   Mettrie) کی کتاب ’’ انسان بطور مشین ‘‘ (L’Homme machine)(مطبوعہ 1747) کی جانب اشارہ ہے ، اس کتاب  میں پیش کردہ مادیت پرستی اور الحاد پرستی  نے لائیڈن (Leyden)  شہر میں اس قدر مخالفت کو جنم دیا کہ فریڈرک دی گریٹ کی دعوت پر اس نے برلن میں رہائش اختیار کر لی جہاں وہ 1751ء میں اپنی وفات تک رائل اکادمی کا  ایک  رکن  تھا ۔ (دھیان رہے ) جولیاں کے لیے ایسے ہی حالات  1745ء میں اس کی کتاب ’’ جانداروں کی قدرتی تاریخ ‘‘ (Histoire   naturelle   de   l’ame)کی اشاعت  کے بعد پیرس میں  پیدا ہو ئے جن کے باعث اس کو پیرس سے لائیڈن منتقل ہونا پڑا ۔

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search