انتہا پسندانہ قوم پرستی کا پیش خیمہ۔ ترجمہ: اسامہ ثالث
[11 دسمبر 2019ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی شہریت کے حصول کے لیے ایک مذہبی شرط متعارف کروائی۔اہلِ علم و فکر کا کہنا ہے کہ یہ شرط بھارتی آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس کے فرقہ وارانہ مضمرات اب واقعات میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے بھارتی مکھ منتری نریندر مودی نے اپنے پچھلے اور موجودہ دورِ حکومت میں تسلسل سے مسلم دشمن اقدامات اٹھائے ہیں تاہم ان کے حالیہ عمل کے بعد بھارتی عوام اور بالخصوص مسلم جنتا کا جو ردِ عمل سامنے آیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں سے شروع ہونے والا احتجاج اب شہروں شہروں پھیل گیا ہے۔ ریاستی اداروں نے احتجاج کا جواب بے پناہ بربریت سے دیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 27 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کے ایک امریکی رسالے The Baffler نے مختلف اہلِ فکر سے چار مضامین لکھوائے ہیں۔ ان چاروں مضامین کا اردو ترجمہ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے کا دوسرا مضمون حاضرِ خدمت ہے۔ مدیر]
جب 13 اکتوبر کو بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گواہٹی میں دُولل چندرا پال کی سرکاری تحویل میں موت واقع ہوئی تو اس کے بیٹے اشوک پال نے اپنی جاتی یا برادری کی طرف رجوع کیا جس پر اسے سب سے زیادہ اعتماد تھا۔ اجرت پر مزدوری کرنے والا بنگالی ہندو دُولل 1965ء میں ریاست آسام کے ضلع سونت پور قصبہ ڈھکیاجولی میں پیدا ہوا۔ جسے 2017ء میں ریاستی حکومت نے مہاجر یا ’’غیر ملکی‘‘ قرار دیا تھا اور بعد ازاں گرفتار کر لیا تھا۔ دیوالی کے تہوار سے ایک ہفتہ قبل جب میں اس کے گھر کا دورہ کرنے گیا تو آل آسام بنگالی یوتھ فیڈریشن ، ایک سول سوسائٹی، کے ارکان اپنی قوت و حمایت کا مظاہرہ کرنے وہاں اکٹھے ہوگئے تھے۔ دُولل کی موت اس وقت ایک سیاسی مسئلہ بن گئی جب اس کے خاندان نے آخری رسومات کے لیے دو مہینوں تک میت لینے سے انکار کئے رکھا حتیٰ کہ آسامی حکومت نے اسے بھارتی شہری قرار دے دیا۔ وہ واضع طور پر یہ پیغام دے رہے تھے کہ: اگر واقعی دُولل غیرملکی بنگلہ دیشی تھا جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے تو اس کی میت بھی پڑوسی ملک کے پتے پر بھیجی جائے۔ دُولل پر خصوصی عدالت برائے غیرملکی باشندگان میں مقدمہ چلایا گیاتھا جو ریاست آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد پر نظر رکھنے کے لئے گزشتہ چند دہائیوں میں بننے والے اداروں میں سے ایک ہے۔ مرکزی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اجنبیوں اور بنگلہ دیشیوں کے متعلق یہاں اضطراب کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آسام متعدد علاقائی و قبائلی برادریوں کا وطن ہے جو تارکین وطن بنگالیوں کو مقامی ثقافت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ ان خدشات میں 1971ء کے بعد اچانک اضافہ ہوگیا جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کی جنگ سے فرار پاکر بہت سے بنگالی یہاں ہجرت کر آئے۔ کل آسام طلبہ یونین (All Assam Students Union) کی زیرقیادت تارکینِ وطن مخالف چھ سالہ طویل تحریک 1985 کے باعث آسام معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت صوبے میں 1971ء کے بعد سے داخل ہونے والے تمام افراد کو غیر قانونی قرار دےدیاگیا۔ اس معاہدے پر دستخط کے بعد ریاستی حکومت نے ٹریبیونل ایکٹ برائے تعین غیرقانونی تارکین وطن ( Illegal Migrants Determination of Tribunals Act ) عدالتیں بنائیں اور اس کے بعد آسام میں رہائشیوں کی شہریت کی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لئےخصوصی عدالت برائے غیرملکی باشندگان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ عدالتیں بالترتیب 1985ء اور 2006ء میں قائم ہوئیں جن کا کام نیم عدالتی انداز میں غیرقانونی تارکین وطن کی کھوج لگانا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہے۔ ہرچند کہ ان عدالتوں کی منسوخی سے پہلے تک غیرملکی مشتبہ فرد کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن خصوصی عدالت برائے غیرملکی باشندگان نے ثبوت کابار ملزم پر ڈال دیا۔ برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعلیٰ سربانندا سانوبال کی طرف سے دائر کردہ درخواست پرسپریم کورٹ کی جانب سے 2005ء میں (IMDT) کی منسوخی تک آسامی حکومت بیس برسوں میں محض(سرکاری ذرائع کےمطابق) 24021 افراد کو ہی غیرملکی ثابت کرسکی۔ خصوصی عدالت کے عمل میں آتے ہی صرف چودہ برسوں کے اندر یہ تعداد چار گناہ بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ فیصلے ’رائے‘ ہی سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ قانونی نفاذ کی طاقت رکھتے ہیں ۔ جو شخص بھی غیرملکی قراردیاجاتا ہے اس سے ووٹ سمیت حقوقِ شہریت چھین لئے جاتے ہیں اور ملک بدری تک اسے نظر بندی مراکز تک محدود کر دیاجاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے اب تک ایک لاکھ انتیس ہزار افراد غیرملکی قراد دیے جا چکے ہیں اور مزید مقدمے کے لیے پانچ لاکھ سے زائد افراد کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ چونکہ بھارت کی بنگلہ دیش کے ساتھ مہاجرین کو واپس کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے جو غیر ملکی قرار دیے گئے افراد کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے لہذٰا دُولل جیسے لوگ برسوں تک نظربندی مراکز میں سٹرتے رہتے ہیں۔ ہائیکورٹ کا حالیہ فیصلہ ایسے افراد کو جو کم از کم تین برسوں سے نظر بند ہیں ، ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتا ہے اس کے باوجود (سرکاری اعدادوشمار کے مطابق) اب بھی 988 افراد ضلعی جیلوں میں قید ہیں۔ وائس نیوز کی طرف سے اعدادوشمار پر مبنی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیرملکی قرار دیے جانے والوں میں سے زیاد تر افراد غریب، ناخواندہ، مسلمان اور بنگالی بولنے والے ہیں۔ دُولل کا کیس نہایت پسماندہ افراد کو ان عدالتوں میں پیش آنےوالے مصائب اور ان فیصلوں کی مطلق العنانی ہردو پر روشنی دالتا ہے۔ جب سے ان کےوالدین کو خصوصی عدالت برائے غیرملکی افراد کی طرف سے نوٹس آیا ہے دُولل کے بیٹے اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں؛ انہیں اس مقصد کے لئے اپنے مویشی بیچنے پڑے اور ساہوکاروں سے قرض لینا پڑا۔ اشوک نے مجھے بتایا کہ ’’ہمارے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے اور گزشتہ دوبرسوں سے میرےپاس کوئی مستقل روزگار نہیں ہے۔‘‘ ان کے خاندان کا اندازہ ہے کہ وہ تقریباً 1500 امریکی ڈالر مقدمے میں ضائع کرچکے ہیں۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو، دُولل کے بیٹے اجرت پر مزدوری کرکے ایک دن میں 3ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ ان کی ماں تو کسی طرح اپنی شہریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی تاہم ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے والد کا کیس سپریم کورٹ میں لے جاسکیں۔ اشوک نے مجھے بتایا کہ ’’درحقیقت میری امی کے پاس تو اتنے کاغذات بھی نہیں تھے جتنے میرے والد کے پاس ہیں‘‘۔
ٹربیونل کے علاوہ آسامی حکومت نے شہریوں کے قومی کھاتے (National Register of Citizens ) کو بھی جانچنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ غیر قانونی یا ’’مشکوک‘‘ ووٹروں کے کاغذات کا جائزہ لے کر ان کا صفایا کیا جا سکے۔ یہ لمبا چوڑا پروسث جو ایک عرصے سے تاخیر کا شکار ہوتا چلا آ رہا تھا بالآخر 31 اگست کو پایہ تکمیل کو پہنچا اس کی بدولت آسام میں تین کروڑ تیس لاکھ درخواست دہندگان میں سے 19 لاکھ افراد فہرست سے نکال باہرکئے گئے۔ اس کے باوجود بی جے پی کے زیر حکومت آسامی ریاست اور آسامی طلبہ یونین نے اس فہرست کو ناکافی سمجھا اور دونوں نے اسے مسترد کردیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ غیر قانونی اجنبی باشندوں کی ایک بڑی تعداد ، خاص طور پر مسلم اکثریتی سرحدی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اضلاع سے ، غلطی سے اس فہرست میں شامل رہ گئی ہے۔ دونوں گروہوں نے اس عمل کو دہرانے کے لئے قانونی راستہ اختیار کیا۔ یہاں تک کہ وزیرداخلہ امیت شاہ نے ملک گیر این آر سی کا اعلان کر دیا جس میں لامحالہ ریاست آسام بھی شامل ہوگی۔ تادمِ تحریر موجودہ محدود این آر سی ہنوز با ضابطہ طور پر منسوخ نہیں ہوا۔ ہمیں آسام میں ترمیمی بل برائے شہریت(سی اے بی) کے منصوبے پر عمل درآمد کو اس وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بل جو 12 دسمبر کو قانون بن گیا مسلم اکثریتی ہمسایہ ممالک – پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان – کے غیر مسلم مہاجرین کو، جو 31 دسمبر 2014ء سے قبل بھارت میں آئے، از خود شہریت کا پروانہ عطا کرتا ہے۔ ان مہاجروں کو یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ’’مذہبی ظلم و ستم‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں ، اگرچہ امیت شاہ کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ ہو رہے ہیں ۔ اگرچہ بظاہر تو یہ حربہ مسلمانوں کے حقوق کی قیمت پر مودی کے مقامی ہندو ووٹروں کو مطمئن کرنے کی واضح طور پر فرقہ وارا نہ کوشش لگتا ہے۔ تاہم یہ دوہرا رویہ مہاجروں کے متعلق آسامیوں کی پرانی شکایات کو نظر انداز کرتا ہے۔ بہر کیف معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، حتیٰ کہ ہندوؤں کے لئے بھی ۔ ’’شہریت حاصل کرنے کے لئے بنگالی ہندوؤں کو پہلے تو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ بنگلہ دیش سے سرحد پار کرکے آئے ہیں‘‘۔ ضلع موری گان کے رہائشی شیمل سرکار نے مجھے اکتوبر میں بتایا کہ ’’کون ایسا کہے گا اور کیوں؟ جبکہ برسوں سے ہماری نسلیں یہاں رہ رہی ہیں‘‘ ۔
ترمیمی قانون برائے شہریت [Citizenship (Amendment) Act] کی منظوری ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سبب بنی۔ تاہم، اس آگ کا آغاز آسام سے ہی ہُوا۔ چار دن، 9 سے 12 دسمبر تک ، پورے شہر میں شدید احتجاج پھوٹ پڑے؛ ہر سو سے پچاس میٹر کے فاصلے پر ہجوم تشکیل پاکر سڑک روک دیتے اور قبل اس کے کہ پولیس اہلکار انہیں منتشر کرتے دوسرے افراد پر مشتمل گروہ تشکیل پا جاتا۔ آج کی تاریخ تک کم از کم پانچ افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں اور اخباری اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زائد افراد گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ قریباً سارے کا سارا تشدد ریاست کی طرف سے ہُوا۔
مظاہروں کے محرکات پیچیدہ رہے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ،85-1979ء کے مظاہروں کے برعکس ،اس بار سماجی ردِ عمل زیادہ تر بے رہنما اور بے ساختہ رہا ہے۔ ’’لوگ خود ہی گروہوں کی شکل میں نکل پڑے‘‘، آسام کے سابق پولیس ڈائریکٹر ہیراکرشنا ڈیکا نے مجھے بتایا ’’ شدید مایوسی اور غصہ پھوٹ کر ہرطرف بکھر گیا۔ لوگ کرفیو کو توڑتے ہوئے نکل پڑے‘‘۔
کچھ غصہ تو بہت حد تک موقع پرست مرکزی حکومت پر ظاہر ہوتا ہے ، جس نے ایک پرانی ، جائز مقامی شکایت کو فرقہ وارا نہ بنا ڈالا ہے۔’’ہم مودی اور امیت شاہ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہماری رگوں میں بیر لیشٹ بور فوقان کا خون گردش کررہا ہے‘‘۔ میں نے ایک احتجاجی کو یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا جس نے آتش زنی کرتے ہوئے گواہٹی کی ایک اہم شاہراہ کو بلاک کیا ہوا تھا۔ بورفوقان مملکتِ آہوم کا سپہ سالار تھا جس نے 1671ء میں مغل الحاق کے خلاف سرائے گھاٹ کی مشہور جنگ لڑی تھی۔ بی جے پی کو عصرِ حاضر کے حملہ آور کے طور پر دیکھا گیا ۔ لیکن یہ احتجاج مکمل طور پر سیکولر نہیں تھا۔ ہندو قوم پرست بی جے پی کا سیاسی قبلہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ایک ایسی تحریک کو فرقہ وارانہ بنانے کے لئے گرم عمل تھا جو پہلے ہی لسانی اکثریت پسند تھی۔ زیریں (لوئر)آسام میں بنگالی سے متاثرہ(لہجے والی) آسامی بھاشا بولنے والے مسلمانوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ آسام میں’’مقامی‘‘ مسلمان موجود ہیں جو آسام کے بالائی اضلاع میں مقیم ہیں جن میں سے اکثر اپنا شجرہ نصب مغلوں سے ملاتے ہیں۔ لیکن دائیں بازو کے ہندو سرائے گھاٹ کی جنگ کو بھی مسلمانوں کی یورش کے خلاف فتح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی سرحد سے متصل ضلع دھوبری(زیریں آسام) کی رہائشی دانشور پروین سلطانہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے لیکن یہاں کے لوگوں نے اس اندازِ فکر کی مخالفت کی ہے۔ ’’تقریباً دس دنوں سے، انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کوئی اطلاع نہیں مل رہی۔ لیکن جو بات ہم سن رہے ہیں وہ یہ ہے کہ آسام کے بالائی اضلاع میں بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلمان مہاجر مزدوروں کو نہ صرف پولیس بلکہ احتجاجیوں کی طرف سے بھی نشانہ بنایا گیا ہے‘‘۔ سلطانہ نے مجھے بتایا کہ ’’انتہا پسندانہ قوم پرستی کے ایسے واقعات مظاہروں سے پہلے سے ہو رہے ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کو سماجی آشیر باد حاصل ہے‘‘۔ بالائی آسام کے ضلع تنسوکیا(Tinsukia) کی بابت ویب سائیٹ سکرول (Scroll) نے لکھا ہے کہ ، ترمیمی قانون کے احتجاجیوں نے بنگالی کاروبار کو نشانہ بنایا اور ایک مقامی شخص کو جلا کر مار ڈالا۔
تاہم تمام مقامی لوگ ترمیمی قانون برائے شہریت کے خلاف نہیں ہیں۔ وادی باراک، ایک علاقہ جہاں بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آنے والے ہندوؤں کی اکثریت ہے ،میں اس قانون کی خوشی میں آتشبازی کی گئی۔ آسام ہندو بنگالی ایسوسی ایشن کے باسودیب شرما نے کہا کہ ہندو بنگالیوں کو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے کہ انہیں بنگلہ دیش میں مذہبی ظلم و ستم کا سامنا ہے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ ’’نئے بل کے تحت ان لوگوں کو بھی شہریت ملے گی جو نظر بندی کیمپوں میں رہ چکے ہیں یا جن کا نام شہری فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔‘‘ شرما اس بات سے متفق ہیں کہ شمال مشرقی ریاستوں کو ہندو بنگالیوں کی رہائش کا بوجھ برداشت نہیں کرنا چاہئے۔’’ یہ بات خوش آئندہ ہے کہ قبائلی ریاستوں کو اپنی ثقافت اور زبان کے تحفظ کے لئے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ بنگالی کہیں اور جاکر آباد ہوسکتے ہیں‘‘۔ان کا مزید کہنا تھا ’’اب جبکہ دفعہ 370 ختم کی جاچکی ہے تو کشمیر بھی ہمارے لیے کھل گیا ہے‘‘۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین گزشتہ چند دہائیوں کے دوران وادی باراک میں کئی اشتعال انگیز فسادات ہوئے اور یہ ریاست کا حساس ترین مقام ہے۔ عام طور پر علاقے کے بنگالی ہندو بی جے پی کے لئے منافع بخش ووٹر ثابت ہوتے ہیں۔ چونکہ اکثر مقامی اور قبائلی برادری مذہبی بنیادوں پر ووٹ نہیں ڈالتی لہذا ان کا قبلہ و کعبہ ہمیشہ برسرِاقتدار جماعت ہی ہوتی ہے، کیونکہ ترقیاتی اور فلاحی کاموں کے لئے ان کا قریباً سارا انحصار مرکزی حکومت پر ہوتا ہے ۔
نئے این آر سی پروسث میں – جب ایک بار یہ کھاتہ تسلیم کر لیا گیا – ریاست کی طرف سے قائم کردہ دو سو ٹربیونلز میں سے کسی کے سامنے لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنا ہوگی۔ وہاں دیا گیا انصاف ، جو پہلے ہی بے ڈھنگا اور ناپائدار ہے ، اب ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد یقینی طور پر مزید جارحانہ ہو جائے گا۔ ” اس سے قبل ،امتزاج میں ہندو بنگالیوں کے ساتھ کچھ توازن تھا‘‘۔ آسام ہائی کورٹ میں شہریت کے متعدد مقدمات لڑنے والے وکیل امان ودود نے مجھے مزید بتایا کہ” اب جبکہ معاملہ صرف مسلمانوں کا رہ گیا ہے، حکومت ان (ٹربیونلز)پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ ان سب کو غیر ملکی قرار دے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے بدنام زمانہ نظر بندی مراکز اب’’ صرف مسلمانوں کے لئے خاص ہو کر رہ جائیں گے۔‘‘ آسام کے چھ مراکز – جن کا حال ہی میں مودی نے اپنی روایتی بےایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکار کردیا – بنیادی طور پر ضلعی جیلوں کے ممنوعہ علاقے ہیں۔ ان پر انسانی حقوق پرکام کرنےوالے سماجی کارکنوں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اداروں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ سابقہ زیرتحویل افراد نے ان جیلوں میں بےجابھیڑ،تنگ کمروں، غیر معیاری غذا اور طبی و دماغی صحت کی ناکافی سہولیات کی شکایت کی ہے۔ حراست میں لی گئی ایک خاتون کے بیٹے نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ یہاں غذا اتنی غیرمعیاری ہے کہ میری والدہ ’’سالن میں سے آلو نکال کر اسے دھو کر کھاتی ہیں‘‘۔ وزارت داخلہ گولپارہ ضلع میں تین ہزار افراد کےلیے ایک بڑا حراستی مرکز تعمیر کر رہی ہے – جس کے اندر سکول، ہسپتال، طعام خانہ اور تفریح گاہ شامل ہوں گے ۔
ترمیمی قانون برائے شہریت کی شدید مخالفت کے بالکل برعکس، آسامی عوام میں ان سفاک عدالتوں اور حراستی مراکز کو لیکر کوئی قابل ذکر بحث نہیں ہوئی۔ این آر سی پروسث میں مختلف شناختی دستاویزات میں لوگوں کے ناموں کے ہجوں میں معمولی اختلاف، درماندہ خواتین – جن کے پاس نا تو کوئی جمن پرچی ہے اور نا ہی کوئی تعلیمی سند جس کے ذریعے وہ اپنے والدین سے تعلق ثابت کر سکیں – کی بابت گاؤں پنچائیت کا سرٹیفکیٹ قبول کرنے سے انکار کرنا ، یہ ایسی بے ضابطگیاں ہیں جن پر آسامی لوگ لاعلم یا بے حس بنے رہے۔ ( شہریت ثابت کرنے کے دشوار عمل سے بچانے کے لئے کھاتے میں ’’اصلی باشندوں“ پر مشتمل ایک خصوصی زمرہ وضع کیا گیا جس میں قبائلی اور آسامی برادریوں کو ’’مقامی‘‘ قرار دے کر اس عمل سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ تاہم پھر بھی بہت سے آسامیوں نے شہری فہرست سے اپنے نام خارج پائے)۔
ابھی گزشتہ سال سے ہی ’’ترقی پسندوں“ نے ضلعی جیلوں میں غیر معینہ مدت تک کی نظر بندی کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ظالمانہ قرار دینا شروع کیا۔ اب ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اعلان شدہ غیرملکیوں کو نوکری کے اجازت نامے دینے کے حق میں ہیں، یہ خیال سب سے پہلے مصنف سنجوئے ہزاریکا نے پیش کیا تھا۔ آسام کے معروف دانشوروں میں سے ایک، ہیرین گوہن، سابقہ دنگے میں آسامی قوم پرستی کے شدید مانعاتی دھارے کے ناقد رہے ہیں۔ اگرچہ وہ غیر ملکیوں کی آمد سے پریشان ہیں لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ غیر ملکیوں کے ٹربیونلز کے ذریعہ نظر بندی کا عمل توقع سے زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے مجھے بتایا ’’ مختصر وقت میں کسی کو غیرملکی قراد دے دینا غیر منصفانہ روش ہے ۔اس عمل پر نظر ثانی ہونی چاہیے‘‘۔
سانووال نے 20 دسمبر کو اعلان کیا کہ ترمیمی قانون برائے شہریت کی بدولت کوئی ایک بھی بنگلہ دیشی فرد آسام نہیں آئے گا۔ جامعہ گواہٹی مین شماریات کے سابقہ پروفیسر عبدالمان ،جنہوں نے آسام میں گزشتہ عشرے کے دوران غیر نامیاتی طور پر مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کے اسطورے کا پردہ فاش کیا ہے ، کا خیال ہے کہ بنگلہ دیشی معیشت میں بہتری آنے کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ہجرت کے اعداد و شمار میں کمی آئی ہے۔ پھر بھی، انہیں خدشہ ہے کہ دوسری طرف کے رہنما جذبات کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کے لئے اس قانون کا استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’وہاں کے فسادی عناصر لوگوں کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کرنے کے لئے اسے استعمال کر سکتے ہیں، نتیجتاً پورے برصغیر کا امن متاثر ہو گا‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ اس امکان سے آسامی شناخت اور ثقافت کو خطرہ لاحق ہے۔
چاہے موجودہ بی جے پی کی مدت میں ایسا نہ ہو سکے، لیکن ہندو راشٹرا ( صرف ہندوؤں کی سرزمین) کے لئے میدان تیار ہو چکا ہے جس میں غیر بھارتی ہندوؤں کو ہمیشہ کے لئے شکر گزار ووٹ بینک کی حیثیت سے جگہ دی جائے گی-جیسا کہ ان کی حیثیت اب آسام ، تری پورہ ، اور مغربی بنگال میں ہے ۔ اُس وقت، مسلمان شاید ہمیشہ کے لیے نظر بند کر دیے جائیں گے یا نوکری کے اجازت نامے تھامے دوسرے درجے کے شہری بن کے رہ جائیں گے۔ جب کبھی وہ دن آئے گا ، بھارتیہ جنتا پارٹی این آر سی اور غیر ملکیوں کے واسطے خصوصی عدالتیں تیار کرنے کے لیے آسام کی احسان مند ہو گی،وہ حربے جنہوں نے یہ سب کچھ کرنے میں ، چاہے غیر دانستگی میں ہی، مدد کی ہے۔
اس سلسلے کا پہلا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
بہت عمدا تحریر ہے ۔۔ حس حساحساب سے تمام بات سمجھای گی ہے لکھت کار کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپکی اگلی تحرتحریر کا انتضار ہے