پاکستان: ایک مؤرخ کی نگاہ سے۔ آرنلڈ جے ٹائن بی (ترجمہ: عاصم رضا)

 In ترجمہ

نوٹ: 1955ء میں (Crescent-and-Green) کے عنوان سے مرتب ہونے والی ایک کتاب میں ، بیسیویں صدی کے مشہور مؤرخ آرنلڈ جے ٹائن بی  کے ایک مضمون (Pakistan-as-an-Historian-see-her) کو بھی شامل کیا گیا ۔ زیرِ نظر تحریر ، اسی مضمون کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔  ہماری معلومات کے مطابق ، اس سے پہلے  ٹائن بی کے اس مضمون کا کوئی اردو ترجمہ دستیاب نہیں ہے ۔

 

جب میں پاکستان  پر نگاہ ڈالتا ہوں تو  مجھے اس میں معاصر دنیا کا  ایک ممتاز وصف نظر آتا  ہے ۔ پاکستان  ،  تصادم اور مزاحمت کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے  اور انہی قوتوں نے معاصر دنیا کو  تشکیل دیا ہے ۔

آج  ساری دنیا ہی    ان مختلف  نسلوں ، تہذیبوں اور مذاہب  کے  اچانک  دوبدو ہو نے کی بدولت پیدا ہونے والی پیچیدگیوں  سے دوچارہے   جو ماضی میں ایک دوسرے سے جداگانہ رہتے تھے۔  ٹیکنالوجی کی بدولت ‘ فاصلے ختم ہونے ‘ کے نتیجے میں ، یک لخت ہی ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ قربت میں زندگی  گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ، اس سے پہلے کہ ہمیں   ایک دوسرے کو جاننے ، سمجھنے  اور اپنے رویوں کو ہمسایوں کے رویوں کے مطابق ڈھالنے کا وقت مل  پاتا ۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے  اور اس کو کچھ عرصہ تک لازماً باقی رہنا ہے  کیونکہ انسانی نفسیات  کے خود کو  اس نئی مادی صورت حال سے ہم آہنگ کرپانے سے قبل ہی  ،  ٹیکنالوجی    نے  کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ہم سب کے مابین    مادی  فاصلوں کو پاٹ  دیا ہے ، ۔ نفسیات، اپنی ہی  ایک رفتار کی حامل ہوتی ہے  نیز  ایک بکری یا خچر کی رفتار کی مثل ، سست روی  سے  کبھی تیز روی  میں تبدیل نہیں ہو سکتی ۔

اس وقت میں ، جدید دنیا کی صورت حال اور مسائل کو چھوٹے پیمانے پر پاکستان میں دیکھتا ہوں ۔ پاکستان ، تصادم کے نتیجے میں وجود میں آیا ، وہ تصادم جو ہندومت پر اسلام کے اثرات کے نتیجے میں نمودار ہوا ہے ۔ قریب ہزار برس ہوئے کہ اسلام نے  ہندوستان میں  خود کو ایک کلی حیثیت سے قائم کرنے کا آغاز کیا ۔ اور بارہ سو برس سے زیادہ ہوئے کہ اس نے سندھ و ملتان میں پہلی دفعہ قدم رکھے ۔ اس کے باوجود ، نفسیات کی خود ہم آہنگی   کی رفتار اس قدر سست ہے کہ  سن 1947ء میں  برصغیر ہندوپاک کی مسلم آبادی نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین  اشتراک ہنوذ اس قدر نہیں ہے  جو دونوں جماعتوں کو  ایک حکومت کے تحت  جوڑ کر رکھ پائے ؛ اب ماضی کی  برطانوی  سلطنتِ ہند  کے افراد مکمل خودمختاری لینے والے تھے ۔

مجھے یقین ہے کہ  بلاشبہ خام اور ضرورت سے زیادہ  سادہ الفاظ میں ، یہ اس احساس کا بیان ہے جس کی بدولت پاکستان بطور ریاست وجود میں آیا ۔ اب  چونکہ پاکستان ایک زندہ و جاوید ہستی  ہے  تو اس کے اغراض و مقاصد کیا  ہیں ؟

پاکستان اس بات پر ہی قائم ہے کہ ایک مشترک مذہب کے ذریعے   جغرافیائی  فاصلوں  اور لسانی تفریقات کو  پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا جائے ۔ اگر  یہاں ، سیاسی اطاعت کا فیصلہ نسل یا زبان   کی بنیاد  پرہو گا تو پاکستان فی الفور ٹکڑوں میں بٹ جائے گا ۔   خوش قسمتی سے  ، ان اختلافات کے مقابلے میں جو پاکستان کی سالمیت کے لیے تباہ کن ہو سکتے تھے ،  مذہب اسلام سے   وفاداری میں اشتراک نے خود کو پاکستانی مسلمانوں کے مابین ایک   مضبوط  تر روحانی قوت   کی حیثیت سے ثابت کیا ہے  ۔

مذہب اسلام سے وفاداری میں اشتراک  ، بدیہی طور پر  ایک قوت ہے جو پاکستان کی بیشتر آبادی کو  باہم جوڑے رکھتی ہے ؛ تاہم  اب میں  ایک  نزاعی معاملے کو چھیڑنے کی جرات کرنے لگا ہوں ۔ مجھے کہنا چاہیے کہ اگر پاکستان کبھی بھی   تنگ نظر اور متعصب ریاست بنے گا تو   بہت زیادہ تباہی برپا ہو گی کیونکہ پھر شاید مذہب اسلام  ہی  ان نسلی اور لسانی تفاوتوں سے کہیں  بڑھ کر  تباہ کن   قوت بن جائے  جنھیں اسلام ابھرنے نہیں دیتا  ۔ پہلی بات یہ کہ پاکستانی  اسلام ،  وحدانی نہیں ہے ؛ اس میں اہل تشیع ، اہل سنت اور قادیانوں کی نمائندگی ہوتی ہے  اور اسی وجہ سے مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ  دوسرے اسلامی ممالک   کے برعکس ، پاکستان کو کبھی بھی  کسی خاص  فرقے کے ساتھ  نتھی نہیں کیا جا سکتا ۔  دوسری بات یہ کہ  پاکستان  بےشمار قیمتی  اقلتیوں  بالخصوص ہندو اور سکھ  برادری پر بھی مشتمل ہے ۔ اکثریتی آبادی اور کئی اقلیتی برادریوں پر نہ صرف  ساجھے شہری  بلکہ دوست   بن کر ایک دوسرے کے ساتھ  رہنے کی ذمہ داری  عائد ہوتی ہے   ۔ اگر وہ ایسا  کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو  وہ   نہ صرف خود  بلکہ مجموعی انسانیت کے لیے،  ایک پہل کار روحانی کام  کے ایک حصہ کو سر انجام  دے رہے ہوں گے ۔

مزید براں ، پاکستان اچھے تعلقات کے بغیر نہیں رہ سکتا ، نہ صرف  شہریوں کے مابین بلکہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی ۔ جبکہ پاکستان میں ہندو اور سکھ   اقلیت میں ہیں تو   جمہوریہ بھارت میں بھی  مسلمانوں کی ایک اقلیت موجود ہے ۔ اگر معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں  تو سرحد کے دونوں پار رہنے والی اقلیتیں  ، یرغمال بننے کی بجائے سفارت کار اور ترجمان ہو ں گے  تاکہ جمہوریہ بھارت اور پاکستان کو  اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے میں مدد دی جائے ۔ پاکستان اور جمہوریہ بھارت ناقابل تبدیل جغرافیے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ  بندھے ہوئے  ہیں ؛ کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا کہ جمہوریہ بھارت کے دونوں جانب پاکستان  کے حصے واقع ہیں  جب کہ دوسری جانب  مشرقی پاکستان ، وادی سندھ سے جمہوریہ بھارت کےجثہ برابر مسافت پر واقع ہے ۔ بلاشبہ ، پاکستان اپنے مغرب میں واقع اسلامی ممالک سےبھی جڑا ہوا  ہے ۔ افعانستان کے ساتھ اپنی سرحد  کے حوالے سے ، برطانیہ نے پاکستان کو پہاڑی علاقے کے  پٹھان باشندوں کا ایسا مسئلہ ورثے میں سونپا ہے جو ہنوز حل طلب ہے ۔ یہ مسئلہ جو بنیادی طور پر غالباً  معاشی  ہے، نہ کہ فوجی؛  پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ مسائل میں سے ہے ۔ میرا گمان ہے کہ اس سرحدی علاقے کے پہاڑی باشندے ، اس وقت سماجی ترقی کے اسی مرحلے میں ہیں جس میں  سکاٹ لینڈ کے پہاڑی باشندے  1753ء  کے آس پاس  تھے ۔  اس  زمانے  میں سکاٹ لینڈ کے پہاڑی باشندے بھی تیز رفتار سماجی تبدیلیوں  کا سامنا کرنے والے  تھے ۔  غالباً  پہاڑی علاقے کے پٹھانوں کی قسمت میں بھی یہی تبدیلیاں رقم ہیں ۔

جب میں پاکستان اور اس کے ہمسایوں کے موجودہ سیاسی نقشہ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اسی خطے کے قدیم سیاسی نقشے یادآ جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان    دونوں ، پہلی اور دوسری عیسوی صدی کی کشن سلطنت اور دوسری صدی قبل مسیح کی باختر سلطنت کے علاقوں پر مشتمل ہیں ۔ کوہ ِ ہندوکش کے زیریں علاقے میں محصور اس   ملک  کو سمندر کا واحد راستہ ،  دریائے سندھ کے اختتام پر ملتا  ہے ۔ میرا گمان ہے کہ کراچی   آٹھ کروڑ کی آبادی ، جو تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے ، پر مشتمل ایک ملک کے دارلحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع معاشی علاقہ سے منسلک  بندرگاہ کی حیثیت سے ایک عظیم مستقبل کا حامل ہے ۔

غالباً آبادی کا یہ مسئلہ   ایک سنجیدہ رخ اختیار کرلے گا  جس  سے پاکستان کو اپنی تاریخ کے آئندہ ابواب میں  نبردآزما ہونا ہے ۔ میر ا گمان ہے کہ  مشرقی پاکستان میں پہلے ہی آبادی کا دباؤ تشویش ناک ہے   اور مغربی پاکستان میں بھی  پانی کی مسلسل دستیابی   اور آبپاشی  کے  امکانات لامحدود نہیں ہیں ۔ یہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا پوری دنیا کو سامنا ہے اور عالمی تعاون کے بغیر ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی امید نہیں رکھ سکتے  ہیں ۔

 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search