آخرِ شب کا ہم سفر:اوہنری (ڈرامائی تشکیل: سلیم احمد)
(اوہنری کے ڈرامے The last leaf کے ترجمہ اور ڈرامائی تشکیل کا کام سلیم احمد نے ’’آخرِ شب کا ہم سفر‘‘ کے نام سے کیا تھا اور پروڈیوسر رضی اختر شوقؔ نے اسے ریڈیو پاکستان سے پیش کیا تھا۔ یہ ڈرامہ صوتی شکل میں جناب لطف اللہ خاں نے اپنے آواز خزانے میں محفوظ کر لیا تھا جسے ڈاکٹر خورشید عبداللہ نے بیگم لطف اللہ خاں کی عنایت اور اپنی محنت سے یوٹیوب پہ اہلِ ذوق کے لیے مہیا کر دیا ہے۔ اس ڈرامے کو تحریری شکل میں حسین احمد اور عاصم رضا نے ڈھالا ہے اور اب یہ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
ڈرامہ کا مختصر تعارف
کل ایکٹ : پانچ
ماحول : ہسپتال کے دو کمرے اور راہداری مع کھڑکی سے باہر ایک خزاں رسیدہ پیڑ
ڈرامہ میں بروئے کار آنے والے بنیادی تصورات
موت ، مایوسی ، رجائیت ، ایثار و قربانی، انسانیت سے محبت
کرداروں اور صداکاروں کے اسماء
نجمی (ایک نوجوان مریض لڑکی ) صداکار: پروین اختر
نجمی کی ماں (تیماردار) صداکار: فاطمہ خانم
آذر (ایک آرٹسٹ اور ایک مریض ) صداکار: ایس ۔ ایم ۔ سلیم
پروفیسر (آذر کے ساتھ والا مریض ) صداکار: عبدالقیوم
ڈاکٹر صداکار: حسن شہید مرزا
نرس صداکار : راحت سعید
پہلا ایکٹ
ماں: نجمی ! نجمی!
ماں: نجمی بیٹی ، یہ کیا کر رہی ہو ؟
نجمی : اِس پیڑ کے سارے پتے گر گئے ۔
ماں: یہ کیا کر رہی ہو؟
نجمی : امی! اِس پیڑ کے سارے پتے گر گئے ۔
ماں: (استعجابیہ لہجے میں ) ارے، تم کھڑکی سے باہر نظر جمائے اِس طرح پتے گن رہی تھی ۔
نجمی : (رقت بھرے لہجے میں ) وہ دیکھئے ، وہ ایک اور پتا گر گیا ۔ میں نے ابھی گنے ، تو پورے گیارہ تھے ۔
ماں : پت چھڑ میں تو پتے گرتے ہی رہتے ہیں ، بیٹی!
نجمی : امی ! جب میں ہسپتال میں آئی تھی ، تو اس کو کتنے دن ہو گئے ؟
ماں: آج تیسرا دن ہے بیٹی !
نجمی : امی ! اُس روز اِس پیڑ پر سو پتے تھے ۔ آج صرف نو (9) رہ گئے ۔
ماں: (حیرانی کے ساتھ) ارے، تم نے آتے ہی پتے گِن لیے تھے ؟
نجمی: امی ! آپ نے مجھے کھڑکی کے برابر لٹا دیا تھا ، میں اکیلی تھی ، اور کیا کرتی ؟ جب پتا ٹوٹ کر گرتا ہے نا! تو کتنا عجیب سا لگتا ہے ؟
نجمی : امی ! کیا یہ پتے بیمار بھی ہوتے ہیں ؟
ماں: تم نے دوا پی لی تھی نا نجمی ؟
نجمی : سِسٹر نے پلا دی تھی ۔
ماں: تمہارا بخار آج کم ہے ۔ میری بچی اب ٹھیک ہو جائے گی ۔
نجمی : وہ بالکل پیلے ہو گئے ہیں ، امی !
ماں: کون؟
نجمی : پتے! وہ دیکھئے ! بالکل پیلے ہیں ۔ جیسے آپ کہتی ہیں ناں! میری بچی پیلی پڑ گئی ہے۔ بالکل ایسے ہی لگتا ہے ۔
ماں: نجمی!
نجمی: امی ، امی ، وہ دیکھئے ! ایک اور گِر گیا ۔
ماں: تو گِر جانے دو بیٹی ! پتے گرنے سے کیا ہوتا ہے ؟
نجمی : اب صرف آٹھ رہ گئے ۔
نجمی: (حسرت بھرے لہجے میں ) یہ سب گِر جائیں گے ۔ سب گِر جائیں گے ۔
ماں: بیٹی ، تم ہر وقت پتوں کے بارے میں نہ سوچا کرو!
(ماں کھڑکی کو بند کرنے لگتی ہے )
نجمی : نہیں ! امی ، کھڑکی بند مت کیجئے !
ماں: تو پھر تم ہر وقت اُدھر دیکھتی کیوں ہو؟
نجمی : میں اب نہیں دیکھوں گی امی !
نجمی : امی ! شبِ برات میں کتنے دن ہیں ؟
ماں: ابھی تو بہت دن ہیں بیٹی !
(ماں بیٹی سے پوچھتی ہے )
ماں : کیوں! میری بیٹی حلوہ کھائے گی ؟
نجمی: میں نے بہت دن سے کوئی میٹھی چیز نہیں کھائی ۔
ماں: ارے ، ارے ، ارے! میں اپنی بیٹی کو میٹھی چیز کھلاؤں گی ۔
ماں: لو! اب تم کروٹ بدل لو ، لیٹ جاؤ۔ میں تمہیں یہ چادر اُڑھا دوں گی ۔
(ماں بیٹی کو کروٹ کے بل لیٹنے میں مدد دیتی ہے اور چادر اُڑھا دیتی ہے )
نجمی : امی ! آج جائیے گا نہیں ۔
ماں : نہیں بیٹی نہیں ، میں تمہارے پاس بیٹھی ہوں ۔ اب تم آنکھیں بند کر لو۔
(اور ماں بستر کے پاس رکھے ایک بنچ یا کرسی پر بیٹھ جاتی ہے )
نجمی : (آواز دیتی ہے ) امی!
ماں: کیا ؟ بیٹی
نجمی : امی جب میں بہت چھوٹی تھی ۔ ابو ، مجھے گڑیا کہا کرتے تھے ۔ ہیں نا؟
ماں: ہاں، بالکل۔ میری بیٹی گڑیا جیسی تھی ۔ وہ تم سے بہت محبت کرتے تھے ۔
نجمی : جب میں بہت چھوٹی تھی امی ، تب نانی امی نے مجھے کہا تھا ۔
ماں: اچھا! نانی اماں نے کیا کہا تھا؟
نجمی : انہوں نے کہا تھا ۔ جنت میں ایک پیڑ ہے ۔ اس میں اتنے ہی پتے ہیں جتنے دنیا میں آدمی ۔ جب اس پیڑ میں نیا پتا نکلتا ہے تو نیا بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب اس پیڑ کا کوئی پتا گِر جاتا ہے تو ، تو ۔۔۔
نجمی: اُس پیڑ کے پتوں پر آدمیوں کے نام ہوتے ہیں ، جس نام کا پتا گِر جاتا ہے وہ آدمی مر جاتا ہے ۔
ماں: میں نے تمہیں منع کیا تھا نجمی کہ سوچو نہیں ۔ بس آنکھیں بند کر کے سو جاؤ!
نجمی : میں نہیں سوچتی امی ۔ میرا سر سوچتا ہے ۔
ماں: تم ابھی سوئی نہیں نجمی؟
نجمی : مجھے نیند نہیں آتی ۔
ماں: او ں ہوں ۔ آنکھیں بند کر کے لیٹ جاؤ ۔ آ جائے گی ۔
(اتنے میں ایک نرس کمرے میں داخل ہوتی ہے اور بستر کے پاس آ تی ہے )
نرس: (نجمی سے کہتی ہے ) منہ کھولو ! (اور تھرمامیٹر نجمی کے منہ میں رکھتی ہے )
ماں: (نرس سے دریافت کرتی ہے ) آج تو بخار کم ہے سِسٹر ؟
نرس: (ہنکارا بھرتی ہے )
ماں: (نرس سے دریافت کرتی ہے ) ڈاکٹر صاحب نہیں آئے؟
نرس: (ماں کو جواب دیتی ہے ) آ رہے ہیں ۔
(ماں یک لخت نجمی کی جانب لپکتی ہے )
ماں: ارے ، ارے ۔ تھرمامیٹر کیوں نکال رہی ہو بیٹی ؟
نجمی : (روتے ہوئے ) وہ ، وہ ۔۔۔ ایک اور پتا گر گیا ۔
ماں: (حیرت بھرے لہجے میں ) پتا گر گیا ، بیٹی!
نجمی : اِس پتے پر کس کا نام لکھا ہو گا ؟
ماں: اوہو ، تم پتوں کو گنتی ہی کیوں ہو؟
نجمی: امی ! جب یہ سب پتے گر جائیں گے تو میں مر جاؤں گی ۔
ماں: اوہ!
نجمی: میں مر جاؤں گی ۔
ماں: اوہو ! بیٹی ، یہ تو کیا کہہ رہی ہے ؟
ماں: (نرس کو مخاطب کر کے کہتی ہے ) اِسے نجانے کیا ہو گیا ہے سِسٹر؟ ہر وقت اُس پیڑ کی طرف دیکھتی رہتی ہے ۔ پتے گنتی رہتی ہے ۔
ماں: اِسے نجانے کیا وہم ہو گیا ہے سِسٹر ؟
نرس: میں یہ کھڑکی بند کیے دیتی ہوں ۔ نجمی ، بس اب تم ادھر نہیں دیکھو گی ۔
(نرس کھڑکی بند کرنے لگتی ہے )
نجمی: (نرس کو بند کرنے سے منع کرتی ہے ) نہیں ، نہیں سِسٹر نہیں ۔ نہیں ، نہیں
دوسرا ایکٹ
پروفیسر: ہاہاہا ہا ۔۔ بالکل وہی ، بالکل وہی ۔۔ ہاں ، ہوہوہوہو
آذر: کیا کہہ رہے ہو پروفیسر؟
پروفیسر: کہہ رہا ہوں ۔ بالکل وہی ، قبرستان
آذر: (خوف زدہ لہجے میں ) قبرستان!
پروفیسر : کیوں! ڈرتے ہو؟ رک کیوں گئے؟
آذر: قبرستان ڈرنے کی چیز ہے پروفیسر۔
پروفیسر: (ہنستے ہوئے ) ہاہاہا ۔۔ کتنا ہی ڈرو ، انسان کو قبرستان سے مفر نہیں !
آذر: (ہنکارا بھرتا ہے )
پروفیسر: انسان ہے تو قبرستان ہے ۔ قبرستان ہے تو انسان ہے ۔
آذر: تمہیں یہ بیٹھے بٹھائے قبرستان کیوں یاد آنے لگا؟
پروفیسر: ہاہاہاہا ۔۔۔ وہ دیکھو ، اُن سفید پوش نرسوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے ، کفن پوش مردے قبروں سے نکل کر گھوم رہے ہوں ۔
آذر: پروفیسر! تمہارا تخیل بہت ہولناک ہے ۔
پروفیسر: (ہنکارا بھرتا ہے )
آذر: تمہیں ایسی تشبیہیں کیوں سوجھتی ہیں؟
پروفیسر: آذر! ہسپتال کی اِس بیمار فضامیں جو موت کی خوشبو سے مہکتی رہتی ہے ، اس میں تمہی بتاؤ ۔ مجھے اور کیا سوجھ سکتا ہے؟
آذر: (کراہتے ہوئے ہنکارا بھرتا ہے )
پروفیسر: تم تو آرٹسٹ ہو آذر۔ تمہارے لیے زندگی خام مواد ہے ۔ تجربہ تمہارے فن کے لیے موضوع ہے ۔
پروفیسر: آذر ، ہسپتال کی فضا پر تم کتنی اچھی تصویر بنا سکتے ہو؟
آذر: میں نے بنائی ہے ۔
پروفیسر: (نہایت مسرت و حیرت بھرے لہجے میں ) واقعی !
آذر: (کراہتے ہوئے) ہاں !
آذر: دِکھا سکتا ہوں ۔
پروفیسر: اوہ ۔ دکھاؤ !
پروفیسر: کیوں ! رک کیوں گئے ہو؟
آذر: پروفیسر! مذاق تو نہیں اڑاؤ گے ؟
پروفیسر: (استعجابیہ لہجے میں ) مذاق! کیوں؟
آذر: بس ، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ہمیشہ
(اکھڑتی سانس لیتا ہے )
آذر: میں ایک ناکام مصور ہوں نا!
پروفیسر: (حیرت بھرے لہجے میں ) لوگ تمہارا مذاق اڑاتے ہیں؟
آذر: ہاں ! پروفیسر، زندگی میں مجھے کسی کی تعریف نہیں ملی ۔
پروفیسر: ہنکارا بھرتا ہے ۔
آذر: میری لکیروں میں لوگوں کو معانی ، معلوم نہیں نظر کیوں نہیں آتے؟ میرے رنگ سب کو مصنوعی معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ، میری تصویروں میں زندگی نہیں ہے ۔ حقیقت سے دور ہیں ، بہت دور ہیں ۔
آذر: پروفیسر، میں ایک ایسی تصویر بنانا چاہتا ہوں جس پر ، جس پر لوگ ہنسیں نہیں ۔
پروفیسر: (ہنکارا بھرتا ہے ) آذر، میں آرٹ اور فلسفے کا ایک طالب علم ہوں ۔
آذر: کراہتے ہوئے ہنکارا بھرتا ہے ۔
پروفیسر: مجھے معلوم ہے بہت سے شاہکار اُن لوگوں نے بنائے ہیں جن کا ہمیشہ مذاق اڑایا گیا ہے ۔
پروفیسر: (آذر سے کہتاہے ) تم اپنی تصویر مجھے دکھاؤ!
آذر: (ہنکارا بھرتا ہے ) یہ دیکھو
پروفیسر: (حیرت بھرے لہجے میں ہنکارا بھرتا ہے ) اچھی ہے ! اچھی ہے !
آذر: (بچوں سی خوشی کے ساتھ پوچھتا ہے ) پسند آئی ؟ اچھی ہے ؟
پروفیسر: آذر، تم میں صلاحیت معلوم تو ہوتی ہے مگر ایک بات ہے۔ مثلاً ، اسی تصویر کو لو ۔
آذر: (متوجہ ہو کر ) ہاں
پروفیسر : کیا تم موت سے ڈرتے ہو؟
آذر: کیا؟ (خوف سے )
پروفیسر: تم نے یہ بیڈ نمبر 13 کی تصویر بنائی ہے ۔ ہیں ناں؟ وہ جو پچھلے جمعہ کو مر گیا تھا ۔
آذر: (نقاہت کے ساتھ) ہنکارا بھرتا ہے ۔
پروفیسر: اس کے چہرے پر موت کا کرب دکھانے میں تم بالکل ناکام رہے ہو آذر۔ ایسا لگتا ہے جیسے تم موت کے تصور سے ڈرتے ہو ۔
آذر: پروفیسر ! سب موت کے تصور سے ڈرتے ہیں ۔ کون نہیں ڈرتا ؟ (خوف زدہ لہجے میں دریافت کرتا ہے )
پروفیسر: ہاں ! مگر آرٹسٹ کو نہیں ڈرنا چاہیے ۔ موت ہو یا زندگی ، آرٹسٹ تو دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ وہ زندگی کے ہر تجربے کا رس نچوڑ لیتا ہے ۔ ہر تجربے کو گلے لگا لیتا ہے ۔
آذر: معلوم نہیں ۔ پروفیسر ، میں موت سے بہت ڈرتا ہوں ۔
پروفیسر: (مسکراتے ہوئے ہنکارا بھرتا ہے )
آذر: بہت ڈر لگتا ہے مجھے ۔ جب میں بہت چھوٹا تھا پروفیسر! میرے ماں باپ مر گئے ۔ میں نے بڑے دکھ اٹھائے پروفیسر ۔ جب میں کسی قابل ہوا ، شادی کر لی لیکن ایک ہی سال کے بعد میری بیوی مر گئی ۔ اس کی ایک نشانی ، ایک معصوم بچی میرے پاس رہ گئی ۔
پروفیسر: (ہنکارا بھرتا ہے )
آذر: (سِسکتے ہوئے) سات آٹھ برس میں نے اُسے پالا لیکن موت نے اُسے بھی مجھ سے چھین لیا ۔
آذر: (سِسکتے ہوئے) میں بہت اکیلا ہوں پروفیسر ۔ کوئی بھی میرا ہم سفر نہیں ہے پروفیسر ۔ موت اور تنہائی کا زہر میری رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے ۔ لیکن پھر بھی موت سے ڈر لگتا ہے مجھے، بہت ڈر لگتا ہے پروفیسر۔
(اتنے میں نرس آتی ہے )
نرس : (جھلا کر ) اُف ہو ، ارے تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے تم سے کہا تھا کہ چپ چاپ اپنے بستر پر لیٹے رہو ۔ تمہیں بہت تیز بخار ہے ۔
آذر: سِسٹر ! میں پروفیسر سے باتیں کر رہا تھا ۔ باتیں کرنے سے بخار اتر جاتا ہے ۔
نرس: پروفیسر پلیز ، آپ انہیں آرام کرنے دیں ۔
پروفیسر: ارے ، میں کیا کرتا ہوں سِسٹر۔ میں تو بستر پر لیٹا لیٹا آپ کے قدموں کی چاپ گنتا رہتا ہوں ۔ لیکن یہ ایک آرٹسٹ ہیں ۔ انہوں نے ایک تصویر بنائی ہے ۔ میں ان کی تصویر پر دیکھنے سے انکار کر کے اِن کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھا ۔
نرس: (ہنکارا بھرتے ہوئے) تصویر!
نرس: (آذر سے مخاطب ہوتی ہے ) تم اِس کام سے تھکتے نہیں ۔
آذر: (نرس کو جواب دیتا ہے ) میں مرنے سے پہلے صرف ایک شاہکار تصویر بنانا چاہتا ہوں ۔ ایسا شاہکار جس کی مجھے حسرت ہے ۔
آذر: (تھکی ہوئی ہنسی کے ساتھ کہتا ہے ) یہ تو میری زندگی ہے سِسٹر ۔
نرس: اوں ہوں ۔
(ہاتھ سے پکڑ کے اٹھانے کی کوشش کرتی ہے )
نرس: چلو، اٹھو ۔ زندگی ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں نہیں ہوتی ۔ زندگی بہت بڑی چیز ہے ۔
آذر: (حیرت سے دریافت کرتا ہے ) سِسٹر تمہارے سینے میں دل ہے ؟
(پروفیسر درمیان میں بول پڑتا ہے )
پروفیسر: کیا؟ ارے بھائی ، یہ تو دلوں کو بدلنے والی ہیں آذر۔ اِن کے لیے دل کیا چیز ہے ، اِک مشین ہی تو ہے ۔
نرس: (نرس کندھے اچکا کر بولتی ہے ) تم لوگ کیسی باتیں کرتے ہو ۔
نرس: (آذر کا ہاتھ پکڑ کے کہتی ہے ) چپ چاپ لیٹ جاؤ ۔ دیکھو ، ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو خفا ہوں گے ۔
آذر: (ہاتھ چھڑاتے ہوئے) سِسٹر! یہ تصویر میں ۔۔۔
نرس : نہیں ۔ یہ تصویر میں ڈاکٹر کو دکھاؤں گی ۔ جب تک وہ تمہیں ڈانٹیں گے نہیں ، تم اِن باتوں سے باز نہیں آؤ گے۔
آذر: سِسٹر نہیں ۔
تیسرا ایکٹ
(ڈاکٹر نجمی کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور بستر کے پاس کھڑا ہے)
ڈاکٹر: (نجمی کی ماں سے دریافت کرتا ہے ) رات اِس کی طبیعت کیسی رہی ؟
نجمی کی ماں: بخار بہت تیز تھا ڈاکٹر صاحب !
ڈاکٹر: لیکن کل شام تو اتر گیا تھا نا ۔ تو پھر رات کو کیوں ہو گیا ؟
نجمی کی ماں: اِسے وہم ہو گیا ہے ڈاکٹر ۔ عجیب عجیب باتیں کرتی ہے ۔
ڈاکٹر: کیسی باتیں؟
نجمی کی ماں: بخار میں رات بھر بڑبڑاتی رہی ۔ پتے گِر گئے ہیں ، پتے گِر گئے ہیں ۔
ڈاکٹر: (حیرت سے ) پتے!
نجمی کی ماں: ہاں، ڈاکٹر صاحب۔ یہ جو کھڑکی کے پاس درخت ہے نا ، اس کے پتے گر رہے ہیں ۔ وہ کہتی ہے ، جب وہ آئی تھی اس درخت پر سو پتے تھے ۔ اب صرف پانچ پتے رہ گئے ہیں ۔ پھر جب یہ بھی گر جائیں گے تو ۔۔۔تو ۔۔۔ ڈاکٹر صاحب اُسے وہم ہو گیا ہے ۔
ڈاکٹر: (حیرت سے ) کیسا وہم؟
نجمی کی ماں: وہ کہتی ہے ، جب سب پتے گر جائیں گے تو میں مر جاؤں گی ۔
ڈاکٹر: ہنکارا بھرتا ہے ۔
ڈاکٹر: آپ اس لڑکی کی ۔۔۔؟
نجمی کی ماں: ماں ہوں !
ڈاکٹر: آپ کے شوہر کہاں ہیں؟
نجمی کی ماں: (سِسکتے ہوئے) وہ، وہ ، اُن کا انتقال ہو گیا ہے ڈاکٹر صاحب !
ڈاکٹر: اُس وقت یہ لڑکی کتنی بڑی تھی ؟
نجمی کی ماں: یہ چند مہینے کی بات ہے ۔
ڈاکٹر: اس نے اپنے باپ کی موت کا بہت اثر لیا ہے ۔
نجمی کی ماں: جی ہاں ۔ یہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی ، مجھ سے بھی زیادہ ۔
ڈاکٹر: اس کی بیماری کا یہی سبب ہے ۔ اس میں زندگی کی خواہش کم ہو گئی ہے ۔
نجمی کی ماں: تو پھر ۔۔۔ تو پھر ڈاکٹر صاحب؟
ڈاکٹر: نہیں ، گھبرانے کی بات نہیں ۔ لیکن اس کے دل سے اِس وہم کو نکالنے کی کوشش کیجئے ۔
نجمی کی ماں: مگر، مگر کیسے ڈاکٹر صاحب؟
ڈاکٹر: ہم اس کا بستر یہاں سے دوسری جگہ پر رکھ دیں گے ۔
نجمی کی ماں: کوئی فائدہ نہیں ہو گا ڈاکٹر صاحب ۔
ڈاکٹر: (حیرت سے ) کیوں؟
نجمی کی ماں: کل سِسٹر نے کھڑکی بند کر دی تھی ڈاکٹر صاحب اور اِسے منع کر دیا تھا کہ اُدھر نہ دیکھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی ۔ وہ چلانے لگی کہ پتے گر گئے ہیں ۔ سب پتے گر رہے ہیں ۔ تب میں نے کھڑکی کھول کر دکھائی ۔ اس نے دیکھا لیا کہ پتے موجود ہیں ، تب اسے اطمینان ہوا ڈاکٹر صاحب۔
(اسی اثناء میں نجمی اپنی ماں کو آواز دیتی ہے )
نجمی : امی ! امی !
نجمی کی ماں: ہاں بیٹی ! بیٹی ، آنکھیں کھولو ! دیکھو ڈاکٹرصاحب آئے ہیں ۔
ڈاکٹر: (آگے بڑھ کے نجمی کو آواز دیتا ہے ) نجمی !
نجمی : (ماں سے پوچھتی ہے ) پتے، اب کتنے رہ گئے ہیں امی ؟
نجمی کی ماں: ابھی تو بہت سے پتے ہیں بیٹی ۔
نجمی : گِن کر بتائیے ۔ پانچ ہیں ناں؟
نجمی کی ماں: اوہو ! دیکھو تو سہی ! لو، خود گِن لو ۔
نجمی : ہاں ، ہاں ۔ پورے پانچ ہیں ۔
نجمی : امی ! میں ابھی نہیں مروں گی ۔ میں ابھی نہیں مروں گی ۔۔۔ وہ ، وہ دیکھئے ۔ ایک پتا اور گر گیا ۔
ڈاکٹر: نجمی ! نجمی !
نجمی : (ہذیانی انداز میں ) میں مر جاؤں گی ، میں مر جاؤں گی ڈاکٹر صاحب ۔ میں مر جاؤں گی ۔
ڈاکٹر: (نجمی کی ماں سے مخاطب ہوتا ہے ) اِسے لٹا دیجئے ۔
نجمی کی ماں: (نجمی سے کہتی ہے ) آہ ۔۔ لیٹ جاؤ بیٹی ۔ لیٹ جاؤ۔
نجمی: امی ! ہمارے ابو مر گئے ۔ میں بھی مر جاؤں گی ۔
نجمی کی ماں : نہیں ، نہیں ۔
نجمی کی ماں: (روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کرتی ہے ) ڈاکٹر صاحب ، خدا کے لیے کچھ کیجئے ۔
ڈاکٹر: (نجمی کی ماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتا ہے ) دراصل ، یہ دماغی بخار کی ایک کیفیت ہے ۔ میں ابھی انجکشن لگا دیتا ہوں ۔
نجمی : چار۔ ایک ، دو ، تین ، چار
نجمی کی ماں: ڈاکٹر صاحب!
ڈاکٹر صاحب: (نجمی کی ماں سے ) آپ کسی بھی طرح اس کے دماغ سے یہ خیال نکالنے کی کوشش کیجئے ۔ اِس خیال کا دماغ میں رہنا بہت خطرناک ہے ۔
نجمی کی ماں: (پریشانی کے عالم میں ) ڈاکٹر صاحب ! ڈاکٹر صاحب ،اِسے کچھ ہو گیا تو !
ڈاکٹر: (حوصلہ دیتے ہوئے ) گھبرائیے نہیں ، اللہ مالک ہے ۔
چوتھا ایکٹ
آذر: پروفیسر!
پروفیسر: ہنکارہ بھرتا ہے ۔
آذر: تم آج چلے جاؤ گے ؟
پروفیسر: ہاں آذر! مجھے ڈسچارج کر دیا گیا ہے ۔
آذر: تمہارے جانے کے بعد میں اور بھی تنہا ہو جاؤں گا ۔
پروفیسر: ہاہاہا ۔۔۔ تنہائی تو انسان کا مقدر ہے آذر ۔ تم یہاں ہسپتال میں تنہا رہو گے ۔
آذر: آہ ، آہ۔
پروفیسر: مگر باہر اِس بھری پُری دنیا میں تنہائی کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔
آذر: مگر پھر بھی ، وہاں انسان اپنے آپ کو دھوکا تو دے سکتا ہے ۔
پروفیسر: (ہنکارابھرتا ہے ) آذر ، تم آرٹسٹ ہو کر دھوکے کی بات کرتے ہو ۔ آرٹ خود ایک دھوکا سا ہے مگر آرٹسٹ کا کام ہر دھوکے کا پردہ چاک کر دینا ہے ۔ اور تم نے اپنی تصویر کا کیا کیا ؟
آذر: کیوں؟
پروفیسر: تم وہ تصویر مجھے دے سکتے ہو؟
آذر: کیا کرو گے تم اُس کا ؟
پروفیسر: کچھ نہیں ۔ میں نے سوچا ، تمہاری ایک نشانی لیتا چلوں ۔
آذر: پروفیسر، تمہاری دلجوئی کا بہت شکریہ ۔
پروفیسر: کہاں ہے وہ تصویر؟
آذر: یہ رہی !
پروفیسر: (تصویر کو دیکھتے ہی افسوس کے ساتھ ) ارے ، یہ تم نے کیا کیا آذر؟ یہ سیاہ کیوں کر دیا ؟
آذر: آرٹ کے ناکام نمونے بقول تمہارے بدمذاقی پھیلاتے ہیں نا ۔
پروفیسر: آذر! ایک بات تم سے کہوں ؟
آذر: کیا؟
پروفیسر: مجھے یقین ہے ، تم اِس دنیا میں اپنا ایک شاہکار ضرور چھوڑ جاؤ گے ۔
آذر: (آہستہ سے ہنس کر ) میرے سہارے کے لیے ایک دھوکا دینا چاہتے ہو پروفیسر؟
پروفیسر: نہیں ! مجھے یقین ہے آذر ۔
آذر: پروفیسر! مجھ میں اب رہا کیا ہے ؟ نجانے کتنی سانسیں باقی ہیں جن کی تعداد پوری کر رہا ہوں ۔ یوں سمجھو ، آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے ۔ صبح ہونے والی ہے ۔
پروفیسر: آذر، تم ابھی زندہ رہو گے ۔
آذر: کون جانتا ہے ؟ کون جانتا ہے ؟ مجھے امید نہیں ۔
پروفیسر: میں نے تم سے کہا ہے کہ موت کے خوف پر قابو پانے کی کوشش کرو آذر۔
آذر: پروفیسر ، پتا نہیں ۔ معلوم نہیں مجھے موت کا خوف ہے یا زندگی کا یا دونوں کا ؟
(اتنے میں ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوتا ہے اور آتے ہی پروفیسر سے مخاطب ہوتا ہے )
ڈاکٹر: ہیلو پروفیسر !
پروفیسر: گڈ مارننگ ، ڈاکٹر !
ڈاکٹر: آج تمہیں ڈسچارج کر دیا جائے گا ۔
پروفیسر: (کھلکھلاتے ہوئے ) جی ہاں ، جی ہاں ۔ ایک بیماری سے اچھا ہو گیا ۔ دوسری بیماری میں مبتلا ہونے جا رہا ہوں ۔
ڈاکٹر: (حیرانی سے ) دوسری بیماری؟
پروفیسر: ڈاکٹر! زندگی ایک ایسی بیماری ہے جس سے مرنے کے بعد ہی پیچھا چھوٹتا ہے ۔
(اسی دوران ڈاکٹر آذر کے بیڈ کے پاس پہنچ جاتا ہے )
ڈاکٹر: تمہارا کیا حال ہے آذر؟
آذر: میرا حال آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے ؟
ڈاکٹر: تم نے بے احتیاطی سے اپنے مرض کو بہت بڑھا لیا ہے ۔ تم ایسے مریض بے احتیاطی برداشت نہیں کر سکتے۔
(پروفیسر درمیان میں بولتا ہے )
پروفیسر: یہ آرٹسٹ ہیں ڈاکٹر! آپ انہیں تصویریں بنانے سے کیسے روک سکتے ہیں ؟
ڈاکٹر: کیا کچھ عرصے کے لیے بھی نہیں ؟
پروفیسر: (ہنکارا بھرتے ہوئے) یہ تو ہو سکتا ہے ۔ کیوں آذر؟
آذر: ہاہاہا ۔
ڈاکٹر: تم نے جواب نہیں دیا ، آذر۔
آذر: معلوم نہیں ، ڈاکٹر میں کتنا جیوں گا؟ سوچتا ہوں شاید مرنے سے پہلے ایک تصویر ایسی بنا سکوں جس کے بعد ہمیشہ زندہ رہوں ۔
ڈاکٹر: یہ کتنی عجیب دنیا ہے ۔ ہر آدمی اپنے خیال میں کیسے نقش بنا لیتا ہے ۔ اِسی وارڈ میں ایک غریب لڑکی آئی ۔ اس کے دماغ میں ایک خیال بیٹھ گیا ہے کہ اُس کی کھڑکی کے قریب جو پیڑ ہے ، جب اُس کے سارے پتے گر جائیں گے تو وہ مر جائے گی ۔
آذر: آپ نجمی کی بات کر رہے ہیں ؟
ڈاکٹر: ہاں ۔ آپ نے اُسے دیکھا ہے ؟
آذر: تین دن سے برابر دیکھ رہا ہوں ۔
آذر: ڈاکٹر!
ڈاکٹر: (ہنکارا بھرتا ہے )
آذر: اب اُس پیڑ پر کتنے پتے باقی ہیں ؟
ڈاکٹر: صرف ایک !
آذر: (نہایت آہستگی سے ) صرف ایک !
(پروفیسر درمیان میں ڈاکٹر سے پوچھتا ہے )
پروفیسر: اُس بچی کی حالت کیسی ہے اب ڈاکٹر ؟
ڈاکٹر: بہت خراب ہے ۔
آذر: بہت خراب ہے !
ڈاکٹر: ہر گرتے ہوئے پتے کے ساتھ وہ نڈھال ہو تی جاتی ہے ۔ اور اب اُس کی جان ایک چھوٹے سے پتے میں اٹکی ہوئی ہے ۔
آذر: اب اس کی جان صرف ایک چھوٹے سے پتے میں اٹکی ہوئی ہے !
(آرٹسٹ آذر کے ذہن میں ڈاکٹر کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں ۔ اب اس کی جان ایک چھوٹے سے پتے میں اٹکی ہوئی ہے )
پروفیسر: (آذر سے کہتا ہے ) تم اچھے ہو جاؤ تو اس سے ملنے ضرور جانا
پانچواں ایکٹ
(نجمی اپنی ماں کو پکارتی ہے )
نجمی : امی ! امی ! امی !
نجمی کی ماں : نجمی ! کیا ہے بیٹی !
نجمی : آپ نے کھڑکی کیوں بند کر دی ہے ؟
نجمی کی ماں: بیٹی ! باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے ۔
نجمی : (پریشان ہو کر ) پھر اُس کا کیا ہو گا امی ؟
نجمی کی ماں: کس کا بیٹی؟
نجمی : اِس بارش اور طوفان میں وہ گر جائے گا امی !
نجمی کی ماں: نجمی !
نجمی : ہاں ! وہ گر جائے گا ۔۔۔ میں مر جاؤں گی ۔
نجمی کی ماں: (درد بھرے لہجے میں ) نہیں ، بیٹی نہیں ۔ ایسا نہ کہہ ! ایسا مت سوچ نجمی !
نجمی : کھڑکی کھول دیجئے ، امی ! کھڑکی کھول دیجئے !
نجمی کی ماں : تو سو جا ، بیٹی ۔ تو سو جا ۔ آنکھیں بند کر لے ۔
نجمی : میں آنکھیں بند کر لوں گی امی ، تو پھر کبھی نہ جاگوں گی امی ۔
نجمی کی ماں: (پریشان ہو کر ) یہ تو کیسی باتیں کر رہی ہیں نجمی !
نجمی : امی ! امی ! ایک بات بتائیے ۔
نجمی کی ماں: کیا بات نجمی؟
نجمی : کیا وہ پتا گرا۔۔۔؟
(اتنے میں باہر سے گرج دار طوفان کی آواز آتی ہے )
(اس اثناء میں نجمی کی آنکھیں ایک دم بند ہو جاتی ہیں )
نجمی کی ماں : اوہ ۔ اوہ (اونچی آواز میں نرس کو پکارتی ہے ) سِسٹر ، سِسٹر ، سِسٹر
نرس : (اندر آکر نجمی کی ماں سے پوچھتی ہے ) کیا ہوا؟
نجمی کی ماں: میری بچی کو دیکھئے ۔ اس نے آنکھیں کیوں بند کر لیں ہیں ؟ بولئے سِسٹر ، بولیے ۔
نرس: (حوصلہ دیتے ہوئے ) گھبراؤ نہیں ، گھبراؤ نہیں ۔ یہ بے ہوش ہو گئی ہے ۔
(باہر سے پھر تیز بارش اور گرج دار طوفان کی آواز آتی ہے )
نجمی کی ماں : (بیتا بی سے ) بیٹی ، نجمی ! آنکھیں کھولو بیٹی ، آنکھیں کھولو نا۔
نجمی کی ماں: دیکھو صبح ہو گئی ہے ۔ دیکھو میں نے کھڑکی کھول دی ہے ۔
(کھڑکی کھول دیتی ہے )
(نجمی آنکھیں کھول کر پوچھتی ہے )
نجمی: وہ گرا نہیں ؟
نجمی کی ماں : نہیں ! نہیں ۔۔ وہ دیکھو ، وہ دیکھو ، وہ موجود ہے اور اب وہ اتنا خشک بھی نہیں رہا ۔ رات کی بارش نے اُسے ہرا کر دیا ہے بیٹی ۔ اب وہ نہیں گرے گا ۔
نجمی : (حیرانی سے ) وہ نہیں گرے گا ۔ کیوں امی ؟
نجمی کی ماں: ہاں ، وہ اب نہیں گرے گا ۔ وہ ہرا ہو گیا ہے ۔
نجمی : مجھے اوپر اٹھائیے ، اٹھائیے ۔ میں اُسے خوب اچھی طرح دیکھنا چاہتی ہوں ۔
(نجمی کی ماں اس کو بستر کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھانے لگتی ہے)
نجمی کی ماں: ہاں ، ہاں ، ہاں ۔ بیٹی لو ۔ اُٹھ کر بیٹھ جاؤ۔ شاباش ۔ میں تمہارے لیے تکیہ لگا دیتی ہوں ۔ لو، خوب اچھی طرح دیکھ لو ۔
نجمی : (خوشی سے آہیں بھرتے ہوئے ) ہائے ، کتنا اچھا لگ رہا ہے ۔
نجمی کی ماں: (کھلکھلا کر ہنستی ہے )
نجمی : (لگاتار کھلکھلاتے ہوئے ماں سے کہتی ہے ) امی ! امی ! اب میں نہیں مروں گی ، اب میں نہیں مروں گی ۔ اب میں اچھی ہو جاؤں گی ۔
نجمی : رات کو ایک آدمی میرے پاس آیا تھا ۔
نجمی کی ماں: کون؟
نجمی : ابو
نجمی کی ماں: (حیرت سے ) تمہارے ابو!
نجمی : ہاں امی ۔ انہوں نے کہا ، نجمی بیٹا تم اپنی امی کے پاس رہو ۔
نجمی کی ماں : (ہنستے ہوئے ) آج تمہارے چہرے پر ماشاء اللہ زردی کی بجائے سرخی آ گئی ہے ۔
نجمی کی ماں: (نجمی سے پوچھتی ہے ) دیکھے گی میری بیٹی ؟
نجمی : دکھائیے امی !
نجمی کی ماں: (آئینہ دیتے ہوئے ) لو، یہ دیکھو ! تم تمہارا چہرہ بھی اس پتے کی طرح تروتازہ ہو گیا ہے ۔
نجمی : امی ! مجھے لپٹا لیجئے ۔ امی ! مجھے پیار کیجئے
نجمی کی ماں: ہاں میری بیٹی ، میری بیٹی نجمی ! (نجمی اس دوران کھلکھلا رہی ہے )
(نجمی کی ماں اسے پیار کرتی ہے )
نجمی کی ماں: اچھا، اب تم ذرا لیٹو ۔ میں تمہارے ناشتے کے لیے سِسٹر سے کہہ آؤں ۔
(نجمی کی ماں کمرے سے باہر کو جاتی ہے اور نرس کو آواز دیتی ہے )
نجمی کی ماں: سِسٹر ! سِسٹر!
(نرس سامنے آتی ہے )
نرس: کیسی ہے آپ کی بچی ؟
نجمی کی ماں : بہت اچھی ہے سِسٹر! اٹھ کر بیٹھ گئی ہے ۔
نرس : اچھا!
نجمی کی ماں: اب وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔
نرس: بالکل ٹھیک ہو جائے گی ۔ لیکن !
نجمی کی ماں: کیا ہوا سسٹر؟
نرس: وہ جو ہمارے وارڈ میں مصور تھا ناں ؟
نجمی کی ماں: ہاں ، ہاں ، کیا ہوا اُسے؟
نرس: آج صبح سے پہلے وہ اس پیڑ کے نیچے گرا ہوا پایا گیا ۔ وہ بالکل بھیگا ہوا تھا ، جیسے رات بھر بارش میں رہا ہو ۔
نجمی کی ماں: وہ کیوں ؟
نرس: اُس کے ہاتھ رنگوں میں بھرے ہوئے تھے ۔
نجمی کی ماں: پھر؟
نرس: تیز بخار اور بے ہوشی کی حالت میں اُسے آکسیجن ٹینٹ میں بھیج دیا گیا ۔
نجمی کی ماں: اب کیسا ہے وہ؟
نرس: کیسا ہے ؟ اس کی حالت تو پہلے ہی بہت خراب تھی ۔ رات بھر اتنے شدید طوفان میں سردی اور بارش کھانے کے بعد کیا ہوتا ؟ و ہ مر گیا ۔
نجمی کی ماں: (حیرت و افسوس کے ساتھ ) مر گیا!
نرس: ہاں ! ابھی چند منٹ پہلے
نجمی کی ماں: مگر وہ رات بھر ایسی بارش میں کیا کرتا رہا سِسٹر؟
نرس: جو ساری زندگی نہ کر سکا تھا ۔ جس کی اُسے حسرت تھی ۔
نجمی کی ماں: وہ کیا ؟
نرس: کل رات اس نے اپنا شاہکار بنا لیا ۔ اپنا ایک شاہکار!
نجمی کی ماں: شاہکار؟
نرس: ہاں ! وہ اس پیڑ پر جہاں صبح کی پہلی کرن پھوٹ رہی ہے ۔وہ اس کا بنایا ہوا شاہکار ہی تو ہے ۔
نجمی کی ماں: اوہ ، میرے خدایا ! سِسٹر ، وہ پتا! جس نے میری بچی کو نئی زندگی دی ۔
نجمی کی ماں: آہ ۔ اوہ
نرس: ہاں ! اور اس مصور کو بھی ، اسے موت سے ڈر لگتا تھا ۔
(ختم شد)