قانون گزیدہ   و بےخانما – تحریر: محسن عالم بھٹ ۔ ترجمہ: اسامہ ثالث

 In ترجمہ

[11 دسمبر 2019ء کو ہندوستانی پارلیمنٹ نے  ہندوستان کی شہریت کے حصول کے لیے ایک مذہبی شرط متعارف کروائی۔اہلِ علم و فکر کا کہنا ہے کہ یہ شرط بھارتی آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس کے فرقہ وارانہ مضمرات اب واقعات میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے بھارتی مکھ منتری نریندر مودی نے اپنے پچھلے اور موجودہ دورِ حکومت میں تسلسل سے مسلم دشمن اقدامات اٹھائے ہیں تاہم ان کے حالیہ عمل کے بعد بھارتی عوام اور بالخصوص مسلم جنتا کا جو ردِ عمل سامنے آیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں سے شروع ہونے والا احتجاج اب شہروں شہروں پھیل گیا ہے۔ ریاستی اداروں نے احتجاج کا جواب بے پناہ بربریت سے دیا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 27 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں بائیں بازو کے ایک امریکی رسالے The Baffler نے  مختلف اہلِ فکر سے چار مضامین لکھوائے ہیں۔  ان چاروں مضامین کا اردو ترجمہ جائزہ کے صفحات پہ پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے کا تیسرا مضمون حاضرِ خدمت ہے۔ مدیر]

11 دسمبر 2019ء کو بھارتی  پارلیمنٹ نے       برائے   شہریت ایک مذہبی  شرط     متعارف کروانے کے لیے  بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔  ترمیمی  قانون   برائے شہریت  2019  [Citizenship        (Amendment)        Act]  پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے تمام غیر مصدقہ مہاجرین  کو شہریت دینے  کا راستہ فراہم کرتا ہے بشرطیکہ وہ مسلمان  نہ  ہوں۔  یہ ترمیم بھارتی آئین کی سب سے اہم  قدر ”مساوات”  کی  خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ آرٹیکل  14 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ریاست ایسے کوئی  قوانین  پاس نہیں کر سکتی جو  لوگوں کے مابین  نا معقول، غیر عقلی یا  ظالمانہ  امتیاز کو جنم دے، چاہے ان کی شہریت کوئی بھی ہو۔ ترمیمی   قانون  برائے شہریت صریحاَ ان  شرائط پر پورا نہیں اترتا ۔ یہ ایکٹ ان شرائط سے بھی متصادم    ہے جو      بی جے پی انتظامیہ اسکے  جواز کے طور پہ  پیش    کر رہی ہے۔ مکھ منتری  نریندر مودی کا اعلانیہ عزم تو یہ   ہے کہ   خطے میں مظلوم اقلیتوں کی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ اگر یہی  معاملہ ہے تو قانون سازی کے عمل کو محدود کرتے ہوئے   ہمسایہ ممالک  جیسے  میانمار،  سری لنکا اور چین   جہاں بالترتیب  روہنگیا مسلمان، تامل ہندو اور  تبتی  بودھوں  کو  زبردست ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے(اور وہ  تاریخی طور پر ہندوستان میں پناہ بھی  مانگ چکے ہیں)کو اس  قانون سے خارج کرنے کی کوئی  واضح   دلیل موجود نہیں ہے۔  مزید یکہ اس قانون کے مخاطب  ممالک میں کئی مسلمان فرقے بھی تو  ظلم کا شکار ہیں –      مثلاَ پاکستان میں احمدی اور افغانستان میں ہزارہ  –    لیکن انھیں  اس کے تحت پناہ نہیں دی جائے گی۔

بہرحال! اس بات  کا کوئی معقول جواز نہیں ہے کہ ایسے نازک موقع   پر، مذہبی  بنیادوں پر ہونے والے ظلم کے ساتھ،    کئی  دوسری وجوہات کی بناء پر ہونے والے مظالم کی نسبت   ، امتیازی سلوک برتا جائے۔   ان تمام  صورتوں میں اس قانون    کو قانونی مسائل  سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن  یہ مسائل بھی  حکومت اور اس کے حامیوں کو یہ دعوی کرنے سے باز نہیں رکھ   سکے کہ  یہ قانون تو  مہاجرین کے تحفظ کے لیے ہے۔جہاں تک  بات ہے الگ کردہ  مسلمانوں کی تو  وہ غیر قانونی  مہاجرین سمجھے جائیں گے ۔ برصغیر پاک و ہند  میں    شہریوں کو مختلف نظریاتی دھڑوں  جیسا کہ   ہندو بمقابلہ مسلمان ، مہاجر بمقابلہ  پناہ گزین     میں تقسیم کرنے کی کوششوں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں ماضی میں تقسیم ہند تک پھیلی ہوئی ہیں۔  اس ثنویت   کا  غالباً سب سے  نتیجہ خیز    اظہار    شمالی ریاست آسام    میں حقِ   شہریت پر ہونےوالے مباحث   میں دیکھنے کو ملا۔

بنگلہ دیش کی 1971ء میں علیحدگی کی جنگ کے دوران  پاکستانی فوج  کی  طرف سے بڑے پیمانے پر  روا رکھے  گئے       مظالم  نے  لاکھوں ہندوؤں اور مسلمانوں کو  بھارت میں  پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ بہت سے لوگوں نے سرحد سے ملحق ریاست آسام جانے میں عافیت جانی ، جہاں پہلے ہی 1900ء کی دہائی سے  بنگالیوں کی ایک قابل ذکر آبادی موجود تھی۔  بڑے پیمانے پر  ہجرت نے مقامی آسامیوں میں یہ اضطراب بڑھایا کہ بنگالی مہاجر  ان کے  آبائی وطن پر غالب آ جائیں گے اور انہیں اقلیت میں بدل دیں گے۔ طلباء کی قیادت میں چھ برسوں تک   عوامی مظاہرے ہوتے رہے جن کا      مطالبہ تھا کہ حکومت  غیر قانونی تارکین وطن  کی نشاندہی کر کے ان کو واپس بھیجے  ۔  1985ء میں دباؤ میں آکر بھارتی حکومت نے  آسام معاہدہ کے نام سے ایک    راضی نامہ منظور کیا۔  وفاقی میثاق  کا  مرکزی مدعا وہی تھا جسے (آسام) معاہدے  کی رو سے   ”بدیسیوں کا مسئلہ” کہا جاتا تھا۔ آسامیوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایسے تمام غیر دستاویزی مہاجرین   جو بنگلہ دیش کی پاکستان سے اعلانِ آزادی سے   ایک روز قبل یعنی     24 مارچ 1971ء تک  ریاست آسام میں  داخل ہوئے ان کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ جواباَ،  وزیراعظم راجیو گاندھی نے وعدہ کیا کہ وفاقی  حکومت 1971ء کے بعد ملک میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرے گی۔

مشتبہ غیر ملکیوں کا پتہ لگانے اور انہیں قید کرنے کے لیے اس معاہدے نے وسیع  پیمانے پر  سرحدی    پولیس ، بدیسیوں کی خصوصی  عدالتوں اور حراستی مراکز پر مشتمل افسر شاہی بالا دستی کو جنم دیا ۔بھارتی الیکشن کمیشن   نے 1997ء میں  ہزاروں افراد کو بغیر کسی سماعت کے “مشکوک” ووٹروں کے کھاتے میں ڈال دیا۔ حکومت نے انھیں   اوربہت سے  دیگر  افراد کو،    جن کی نشاندہی    سرحدی علاقوں کی پولیس نے  کی،  بدیسیوں کی خصوصی عدالتوں  کے رحم و کرم پر  چھوڑ دیا  جو  عدالتی   قواعد   اور شواہد کے ساتھ  مکر و فریب اور دغا بازی  کی وجہ سے بدنام ہیں۔  حراستی مراکز –   جو زیادہ تر  قیدیوں کے زندانوں میں مخصوص کیے گئے  علاقوں  پر مشتمل ہوتے ہیں –  ایک قانونی خلا میں کام کر رہے ہیں۔  زیر حراست افراد کو اکثر اوقات  قانونی امداد  لینے، کسی سے ملاقات کرنے اور پیرول پر رہائی ملنے  جیسے بنیادی حقوق سے   محروم  رکھا   جاتا ہے۔   ماضی قریب تک یہ صورتحال تھی کہ   انہیں دائمی قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔   سماجی  حقوق  کے کارکن ہرش مانڈر کی طرف سے مئی 2019ء میں  دائر کردہ مفادِ عامہ کی  درخواست  کی سماعت  کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے، مخصوص اوقات  میں   پولیس کے سامنے پیش ہوتے رہنے کی شرط پر   ،حراستی مراکز میں  قید کی    زیادہ سے زیادہ مدت   تین برس مقرر کر دی  ۔   اس سارے پروسث نے آبادیاتی تناسب کے تبدیل ہونے کے خوف کو ہلکا  کرنے میں بہت تھوڑی مدد کی۔  سن 2000ء  میں  آسام کے ممتاز سماجی کارکنوں نے غیر ملکیوں کی شناخت اور ملک بدری کے موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی کے لیے  سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ایک انوکھا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے  ثبوت کا بار –  یعنی دستاویزی ثبوت مہیا کرنے کا ذمہ    – حکومت کے بجائے  فرد   پر ڈال دیا ۔  اس حقیقت  کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے  کہ ریاست میں باقی  ملک کی طرح    شہریوں کی اکثریت   غریب،  بے  زمین، خانہ بدوش اور ان پڑھ ہے  جس کے پاس کسی قسم کے سرکاری دستاویزات نہیں  ہیں۔   قانون  گزیدگی  کا یہ عمل  پے در پے  تبدیلیوں کے بعد 2013ء کو  متحرک ہوا جب عدالتِ عظمیٰ نے   آسامی شہریوں کی  جامع  فہرست مرتب کرنے کا حکم دیا۔  عدالت کا تقاضا تھا کہ ریاست کے تمام باسی  اپنے  دستاویزات  عدالت کے زیرنگرانی کام کرنے والے افسر شاہی ادارے میں جمع کروائیں۔  آسامی شہریوں کے قومی کھاتے  (National         Register        of        Citizens )    کی یہ فہرست سرزمین آسام سے تعلق رکھنے والے جائز  لوگوں   پر مشتمل  ایک مقدس  صحیفے کے طور پر دیکھی گئی۔ اس طرح عدالت ہر خاص  و عام کو  اس شبے سے دیکھنی لگی کہ وہ  غیر ملکی ہے۔   اب ریاست میں ہر کوئی اجنبی ٹھہرا تاوقتیکہ  اس کی شناخت ثابت نہ ہو جائے۔ درجنوں آتما  ہتیاؤں     ، متعدد خاندانوں  کے  معاشی  دیوالیے ،   اور سرکاری خزانے سے 170 ملین ڈالر خرچ کرنے کے بعد    اگست 2019ء میں تقریبا 20 لاکھ افراد آسامی شہریوں کے قومی کھاتے سے خارج   ہوگئے  اور اپنے بےخانما ہونے کی کیفیت پر  کفِ افسوس ملتے رہے۔ ان میں،  بشمول ہندو مسلمان، ریاست کے کچھ غریب ترین لوگ بھی شامل ہیں۔

بھارتی حکومت نے اس پروسث کو بھارتی شہریوں کے قومی کھاتے (National         Register        of        Indian        Citizens کی صورت میں  ملک گیر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا   ہے۔  بی جے پی نے  بھارتی شہریوں کے قومی کھاتے کو     تمام دراندازوں    کی شناخت    کے لیے  زبردست حکمت  عملی  قرار دیا   ہے(مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ  اس کے لیے  غلیظ  ہندی لفظ ”گھس بیٹھیا” استعمال کرتے ہیں)۔  آسام کی طرح یہاں بھی اس بات کا پور ا پورا امکان ہے کہ  بےشمار ہندو بھی  اس پروسث کے نتیجے میں  شہری فہرست سے  نکل جائیں گے  جبکہ ان   کے ذریعے  بی جے پی  اپنا  ووٹ بنک  مستحکم کرنا چاہتی ہے  ۔   ترمیمی قانون  برائے شہریت اس مسئلے کا ایک  سادہ حل پیش کرتا ہے۔  یہ قانون 2015 ء تک بھارت  آنے والے  ایسے تمام ہندوؤں کو –اس مفروضے    پر کہ وہ دوسرے ممالک سے مذہبی ظلم و ستم  کے باعث  بھاگ رہے ہیں –  شہریت فراہم کرنے کا  وعدہ کرتا ہے جو آسامی شہریوں کے قومی کھاتے  نیز  بھارتی شہریوں کے قومی کھاتے میں شامل نہیں ہوسکے ۔ امیت شاہ جو   اپنی لطافت   کے لیے معروف نہیں ہیں،  نے  23 اپریل کو بی جے پی کی پریس کانفرنس  کے موقع پر کہا  : ” پہلے ترمیمی  قانون  برائے شہریت کا نفاذ ہو گا۔ تمام مہاجرین کو حقِ شہریت ملے گا۔  اس کے بعد شہریوں کے قومی کھاتے کا نفاذ ہوگا۔    لہذا مہاجرین کو پریشان نہیں ہونا چاہئے، لیکن گھس بیٹھیوں  کو پریشان ہونا چاہئے۔”

ہندوؤں کے ساتھ مہاجرین اور مسلمانوں کے ساتھ گھس بیٹھیوں   کے لقب کا واضح     انسلاک  ابھی تک پسِ  منظر میں تھا۔ حتیٰ کہ آسام میں سماجی کارکن  مسلسل یہ خدشات ظاہر کرتے رہے ہیں کہ افسر شاہی تسلط     نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔   ترمیمی قانون    برائے شہریت کی وجہ سے تو صورتحال اور بھی زیادہ ابتر ہوگئی ہے۔  بنیادی طور پر ترمیمی قانون    برائے شہریت ہندوؤں کے لیے  مہاجرین اور مسلمانوں کے لئے غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت  متعین کرتا ہے۔  ‘بھارت   ہندوؤں کی فطری سرزمین ہے’ کی صراحت کرتے ہوئے یہ قانون اسرائیل کے  قانونِ واپسی کا عکس    ہے۔    یہ وہی  نقشہ ہے جس کا ہندو قوم پرستوں نے  ایک عرصے سے ”ہندو راشٹر” کے روپ  میں خواب دیکھ رہا ہے جس میں ہندو  کسی بھی دوسری  قوم کی  بہ نسبت زیادہ حقوق رکھتے  ہیں۔

اگر حکومت این آر آئی سی کے مکمل انعقاد میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو تمام ہندوستانیوں کو دستاویزی ثبوتوں کی بھول بھلیاں میں جھونک دیا جائے گا  اور وہ شتر بے مہار طاقت کے رحم و کرم پر ہوں گے  ۔  یہ قانون ریاست کو بھارتی  شہریوں کی  جامع فہرست   پر مشتمل آبادی کا قومی کھاتہ  بنانے کی اجازت دیتا ہے اور پھر مقامی  انتظامیہ  کو شہریوں کو غیر ملکیوں سے چھانٹی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس ترمیم کا  ہندوؤں کو   اصلی بھارتی باشندے سمجھنا   اور مسلمانوں کو لازمی طور پر اجنبی تصور کرنا ہی یہ  طے کر رہا ہے کہ اس صوابدید کو کس طرح بروئے کار لایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ، ہندوستان کے قانونِ شہریت کا  غیر لبرل پلٹاؤ – جو بظاہر ہندو پناہ گیروں کو  مسلم  مہاجرین سے الگ کرتا ہے – اپنا رخ داخلی سمت  موڑ لے گا۔     عام مسلمان شہریوں کو  سخت  دستاویزی معیاروں پر جانچا جائے گا۔ حراست کی دھمکی    پر وہ متعدد دفعہ شہریت ثابت کرنے کے  عمل سے گزارے جا سکتے ہیں۔  اس سے بھارت کے  پسماندہ  باشندوں –  جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں –    کا قومی تشخص ہمیشہ کے لیے مجروح ہوجائے گا۔

بھارتی آئین  – یا کم  از کم اس کی  موجودہ شکل  – کے تناظر میں یہ ترمیم ناقص  اور   متضاد ہے۔ آئینی  وفاداری   ،ہرچند کہ،  ایک متحرک نصب العین   ہے مگر یہ سیاست کی زائیدہ    ہے جو  قانونی انصاف اور  ادارہ جاتی امتیاز ہر دو کی تشکیل کرتی ہے۔ ہرچند کہ  ترمیمی  قانون  برائے شہریت  کے خلاف  59 درخواستیں سپریم کورٹ میں پہلے ہی دائر کی جاچکی ہیں۔ صرف وقت ہی بتائے گا کہ جس اضطراب  نے  سیاسی اور قانونی نظریات کے پس منظر کی تشکیل کی ہے وہ    عدالتی ردعمل کا تعین بھی کرپاتا ہے یا نہیں۔

 

اس سلسلے کا پہلا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اس سلسلے کا دوسرا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

Recommended Posts

Leave a Comment

Jaeza

We're not around right now. But you can send us an email and we'll get back to you, asap.

Start typing and press Enter to search