استاد شفقت علی خاں سے انٹرویو۔ علی عدنان (مترجم: کبیر علی)
بیسویں صدی کے عظیم ترین گائیکوں میں سے ایک کے صاحبزادے شفقت سلامت علی خاں آج پاکستان میں اپنی نسل کے اہم ترین گائیک ہیں۔ شفقت نے پہلی پرفارمنس سات سال کی عمر میں 1979ء میں پیش کی۔ اس کے بعد سے وہ ساری دنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں- کینیڈا، فرانس، جرمنی، بھارت، نیدرلینڈ، سپین، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، امریکہ اور بہت سے دیگر ممالک- اور بین الاقوامی طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے مصروف ترین پاکستانی گائیک ہیں۔1988ء اور 1996ء میں سمتھسونین انسٹی ٹیوٹ میں مظاہرہ فن پیش کر نے پر وہ جنوب ایشیائی موسیقی کے ایک اہم فنکار کے طور پہ سامنے آئے۔ نیویارک ٹائمز نے ان کے ایک مظاہرہ فن کو یوں بیان کیا: ’’بے حد پیچیدہ ، جس میں سُروں کے ساتھ ساتھ فضا میں لہریں بناتے ان کے ہاتھ ، انگلیوں کی ہم آہنگ حرکات کے ساتھ مل کر ایک خوشنما منظر بناتے ہیں‘‘۔ شفقت لَے کاری پہ گرفت، ایک وسیع ورثہء موسیقی، سٹیج پہ مقناطیسی موجودگی اور سامعین کے ساتھ جُڑ جانے کی صلاحیت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ فرائیڈے ٹائمز کے لیے خصوصی مصاحبے میں شفقت، علی عدنان سے اپنے والد، شام چوراسی گھرانے اور بہ طور موسیقار اپنی زندگی کے متعلق بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: آپ شام چوراسی گھرانے کے اہم ترین نمائندے ہیں۔ اس گھرانے کی تاریخ کیا ہے اور اس کی منفرد خصوصیات اور خوبیاں کیا ہیں؟
جواب: شام چوراسی گھرانہ سولھویں صدی میں دو بھائیوں سدھاکراور دیواکر نے قائم کیا۔ دونوں بھائی ’سُوریہ ونشی راجپوت‘ تھے اور ایک چھوٹے سے گاؤں میں کھیتی باڑی کرتے تھے جو بنیادی طور پہ راجہ شام کی ملکیت تھا۔ دونوں بھائی ایک صوفی بزرگ سید فیل علی سرمست کے شاگرد تھے جن کے ماننے والوں میں شہنشاہ اکبر بھی تھا۔ یہ بھائی کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے گایا کرتے تھے۔ سید سرمست شاہ ان کی گائیکی کے مداح تھے اور انھوں نے دونوں بھائیوں کو ان کے اوائل ِ نوجوانی ہی میں زراعت تج کر موسیقی اپنانے کا کہا۔ دونوں بھائیوں نے موسیقی کی ابتدائی تربیت اس بزرگ سے حاصل کی اور بعد ازاں سوامی ہری داس سے بھی تعلیم پائی۔ جب سید سرمست شاہ دونوں بھائی کی گائیکی سے مطمئن ہو گئے تو انھوں نے دونوں کو ایک خط کے ساتھ شہنشاہ اکبر کے پاس بھیجا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ اکبر انھیں اپنے دربار میں اپنا فن پیش کرنے کا موقع دے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں بھائیوں نے چوبیس گھنٹے تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس دورانیے میں اس زمانے کے سبھی معروف راگ پیش کیے گئے۔ اکبر اس مظاہرہ فن سے بہت خوش ہوا اور دونوں بھائیوں کو درباری گویے بننے کی دعوت دی۔ تِس پہ دونوں بھائیوں نے استدعا کی کہ اکبر ، راجہ شام سے چھینے گئے چوراسی گاؤں انعام کے طور پہ لوٹا دے ۔ اکبر نے موسیقاروں کی درخواست کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔ اکبر کے دربار میں دونوں بھائیوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے اسلامی ناموں یعنی میاں سورج خاں اور میاں چاند خاں کے طور پہ معروف ہوئے۔اُن کے اندازِ گائیکی نے جس گھرانے کی بنیاد رکھی اس گھرانے کو شام چوراسی کہا گیا؛شام راجہ شام کی وجہ سے اور چوراسی کا لفظ اس لیے کہ اس جوڑی کے گانے کی وجہ سے راجہ کے چوراسی گاؤں واپس مل گئے تھے۔
شام چوراسی دراصل دُھرپد (ہندو پاک کا قدیم اندازِ موسیقی) گائیکوں کا گھرانہ تھا۔ استاد سلامت علی خاں اور استاد نزاکت علی خاں نے شام چوراسی کی روایت میں خیال (کلاسیکی گائیکی کا جدید انداز)، ٹھمری (نیم کلاسیکی گائیکی کی ایک معروف رومانوی شکل)، دادرا ( نیم کلاسیکی موسیقی کی ایک شکل جو بالعموم سات اور آٹھ ماتروں میں گائی جاتی ہے) اور کافی (صوفیانہ شاعری کی گائیکی) کا اضافہ کیا۔
شام چوراسی کے گائیک اپنی گائیکی میں تینوں سپتکوں کا استعمال کرتے ہیں اور الاپ (راگ کا ابتدائی حصہ) کو پُرسکون اور بتدریج طریقے سے گانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ وہ راگ کی مبنی بر نظام اور سلسلے وار بڑھت پر بہت زور دیتے ہیں اور پیچیدگی کا اضافہ بتدریج اور درجہ بہ درجہ کرتے ہیں۔ وہ راگ گاتے ہوئے کسی بھی تان کو بہت کم دہراتے ہیں۔ وہ تان کی بہت سی اقسام کے ماہر ہیں۔سپاٹ تان، جس میں سُر بالترتیب لگتے ہیں، شام چوراسی کی خاصیت ہے۔اس گھرانے کے فنکار ، قدیم اور جدید بہت سی تالوں میں گاتے ہیں اور لَے اور تال کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
سوال: آپ کی رائے میں آپ کے والد استاد سلامت علی خاں کی شام چوراسی گھرانے کے لیے کیا خدمات ہیں؟
جواب: میں استاد سلامت علی خاں کو شام چوراسی گھرانے کا ایک نمائندہ نہیں سمجھتا۔ ان کی گائیکی کسی ایک گھرانے کی حدوں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ وہ سُر اور لَے پر بے مثل قدرت رکھتے تھے، راگ اور تال کے فہم میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ہے اور روح داری ( موسیقی کا روحانی عنصر) اور رُو داری ( موسیقی میں جمالیاتی خوبصورتی) میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کا گانا ساری دنیا کو متاثر کرتا تھا۔ وہ فرانس اور کینیڈا میں بھی ویسے ہی مشہور تھے جیسے وہ گجرات اور جلالپور جٹاں میں تھے۔ وہ ہر خطے، درجہء علم اور پس منظر رکھنے والے سامعین سے جُڑ جاتے تھے۔ ان کا گانا ہر کسی پر اثر کرتا تھا۔ ان کے گانے کو کسی ایک گھرانے سے مخصوص کر دینا بہت ناانصافی اور غیر مناسب بات ہو گی۔
سوال:استاد سلامت علی خاں کے اساتذہ کے بارے میں بحث چلتی رہتی ہے۔ یہ بات تو معروف ہے کہ انھوں نے اپنے والد استاد ولایت علی خاں اور اپنے چچا استاد نیاز حسین شامی سے سیکھا لیکن بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے استاد بڑے غلام علی خاں سے بھی تعلیم پائی۔ کیا انھوں نے واقعی استاد بڑے غلام علی خاں سے گنڈا ( وہ دھاگا جو استاد، شاگرد کی کلائی پہ باندھتا ہے) بندھوایا تھا؟
جواب: میں نے بھی اس بارے میں کہانیاں سن رکھی ہیں اور اس بحث سے آگاہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے والد استاد بڑے غلام علی خاں اور ان کی موسیقی کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب جب میں استاد بڑے غلام علی خاں کو سنتا ہوں تو کوئی نئی بات سیکھتا ہوں۔ وہ انھیں تمام زمانوں کے عظیم ترین گویوں میں شمار کرتے تھے اور اپنے استاد ہی کی طرح اُن کا احترام کرتے تھے۔ تاہم انھوں نے استاد بڑے غلام علی خاں سے گنڈا نہیں بندھوایا اور کبھی ان کے شاگرد نہیں بنے۔ میں استاد بڑے غلام علی خاں اور ان کے خاندان کا بہت احترام کرتا ہوں اور بہت مانتا ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی غلط بات پھیلے۔ استاد سلامت علی خاں ، استاد بڑے غلام علی خاں کے شاگرد نہیں تھے۔
استاد سلامت علی خاں کو موسیقی سے عشق تھا اور زیادہ سے زیادہ موسیقی سیکھنے کی نامختتم آرزو رکھتے تھے۔ وہ مرتے دم تک ایک نوجوان طالب علم کا سا جوش اور ولولہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار اور آرزو مند رہتے تھے اور اسی لیے انھوں نے اپنی گائیکی پہ بہت سے گویوں کا اثر تسلیم کیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انھوں نے موسیقی کی کانفرنسوں اور محفلوں میں بڑے موسیقاروں کو سن کر اور ان کے ساتھ گا کر موسیقی سیکھی ہے۔ وہ کئی عظیم اساتذہ کا احترام اپنے استاد ہی کی طرح کرتے تھے مگر انھوں نے کسی سے گنڈا نہیں بندھوایا۔ اُن کی گائیکی کسی فنکار سے نہیں ملتی تھی۔ان کا گانا منفرد تھا اور کچھ ایسا تھا کہ کسی ایک استاد کی تعلیم تک محدود نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ استاد بڑے غلام علی خاں یا کسی بھی دوسرے استاد کے انداز سے نہیں گاتے تھے؛ لیکن وہ بڑے باادب شخص تھے اور سینئر فنکاروں کی عزت کرنے اور اپنے گانے پر اُن کے اثر کو تسلیم کرنے کی اہمیت سمجھتے تھے۔
سوال: اپنے والد کی پسندیدہ یادوں کے بارے میں بتائیے؟
جواب: استاد سلامت علی خاں ایک عظیم گائیک ہی نہیں تھے بلکہ ایک بڑے انسان اور ایک عظیم باپ بھی تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بڑا فنکار بننے کے لیے پہلے بڑا انسان بننا پڑتا ہے۔ اس بات کی زندہ مثال وہ خود تھے۔ وہ شفیق، مہربان او ر محبت کرنے والے تھے۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ اپنے گرد موجود لوگوں پہ توجہ دیتے تھے،فیاض تھے۔ اُن کی حسِ مزاح بڑی اچھی تھی۔ دوسروں کو محظوظ کرنا انھیں پسند تھا۔ اُن کے اندر ایسا انکسار تھا جو اُن کے قد کے فنکاروں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
میں ان کا سب سے چھوٹا اور پیارا بچہ تھا۔ہم دونوں کبھی جدا نہیں ہوتے تھے۔جب 2001ء میں ان کی وفات ہوئی تو میرا ایک حصہ بھی مر گیا۔ اب جو باقی ہے وہ ایک اداس فنکار ہے جو اپنے والد کے ورثے کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
میری پسندیدہ یادیں تو ان دنوں کی ہیں جب میں دورانِ سفر ان سے سیکھا کرتا تھا۔ وہ مختلف کھیلوں اور معموں کے ذریعے مجھے موسیقی سکھاتے تھے۔ لمبے ہوائی اسفار میں وہ مجھے راگ اور تال کی باریکیاں سمجھایا کرتے تھے۔ وہ مجھے کام بھی دیا کرتے تھے تاکہ میں ایک فنکار والی مہارتوں کو تشکیل دے سکوں۔مجھے سان فرانسسکو سے لندن کا ایک ہوائی سفر یاد ہے جس میں انھوں نے مجھے سے راگ اڈانہ میں ایسی بندش بنانے کا کہا جس میں جنگِ خیبر کا بیان ہو۔انھوں نے ایک پرانی ہندی بندش گا کر سنائی جس میں راون کے لنکا ڈھانے کا بیان تھا اور مجھے ہدایت کی کہ میں اس بندش کو دھیان میں رکھ کر اپنی بندش بناؤں۔ مجھے اس کام کی ہدایت دے کر وہ سو گئے اور میں بندش بنانے میں لگ گیا۔ میں نے اگلے دس گھنٹے بندش بنانے میں صرف کیے جو پانچ ماتروں میں تھی۔ الفاظ یہ تھے:
علی مولا، مولا علی مولا، مشکل کُشا
حیدر کرارؑ تم ہو علی مولا
خیبر کو کیا سَر علی مولا تو نے
علی نے پکارا جب اللہ اکبر
علی مولا، مولا علی مولا، مشکل کُشا
ہیتھرو اترنے سے ذرا قبل وہ جاگے اور فوراً مجھے سے کہا کہ جو بندش میں نے بنائی ہے وہ سناؤں۔ انھیں میرے بنائی ہوئی بندش بہت پسند آئی اور جب میں گا رہا تھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انھیں نے مجھے دعائیں دی اور خدا سے دعا کی کہ مجھ پر علی مولا کی نظرِ کرم ہو۔ میرے والد کی یادیں اسی قسم کی ہیں۔ ایک بیٹے کے پاس اس سے بہتر کون سی یادیں ہو سکتی ہیں؟ مجھے ان کی دعائیں اور سبق یاد ہیں، ان کی معصوم حسِ مزاح، ان کا نرم لمس اور سادہ شخصیت۔صرف گانا ہی نہیں میرے پاس استاد سلامت علی خاں کی اور بہت سی یادیں ہیں۔بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ استاد سلامت علی خاں سینما اور انگریزی فلموں کے بڑے شوقین تھے۔ مارلن برانڈو ان کے پسندیدہ اداکار تھے۔ وہ ان کی تمام فلمیں دیکھتے تھے اور اکثر ایک سے زائد بار۔ میں فلم دیکھنے ان کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ وہ خودداری، اخلاقیات اور سچائی ایسے مرکزی خیالوں پہ مبنی فلمیں دیکھا کرتے تھے اور بعد ازاں ان فلموں سے متعلق گفتگو کر نا پسند کرتے تھے۔
میرے پاس ابا کی ایک بھی بُری یاد نہیں ہے۔ ایک بھی نہیں۔
سوال: آپ کی والدہ ، رضیہ بیگم، بڑی باہمت اور بلند حوصلہ خاتون تھیں۔ آپ کے خیال میں انھوں نے استاد سلامت علی خاں کے فنی سفر میں کس طرح مدد کی؟
جواب: میری والدہ کے بغیر استاد سلامت علی خاں کا موسیقی کا سفر ہی نہ ہوتا۔ خاں صاحب نے اپنی زندگی میں جو جو کامیابیاں سمیٹیں وہ اُن کی بیگم کے بغیر ممکن ہی نہ تھیں۔ میری والدہ ذہین، سمجھدار، بردبار، معاملہ فہم اور مخلص تھیں۔ اُن کی مدد، رہنمائی اور دعاؤں کے بغیر شرافت، لطافت، سخاوت اور مَیں گویے نہ بن سکتے تھے۔ میری والدہ نے ایسی بہت سی چیزوں سے میرے والد کو بچائے رکھا جو انھیں تکلیف پہنچا سکتی تھیں یا ان کا دھیان ہٹا سکتی تھیں۔ انھوں نے خاں صاحب کو صرف اور صرف گانے پہ توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دی اور باقی سب معاملات کی ذمہ دار ی خود لیے رکھی۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی چیز اُن کے شوہر اور بیٹوں کے دھیان کو موسیقی سے نہ ہٹانے پائے۔
میری والدہ کا یقین تھا کہ ایک فنکار کو آگے بڑھنے کے لیے سکون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ میرے والد کو زندگی میں یہ دونوں چیزیں حاصل رہیں۔ میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ انھوں نے میرے والد کے لیے کیا کیا۔ جب میری نانی کی وفات ہوئی تو میری والدہ کو رات گئے اس کی خبر ملی۔ انھوں نے اس وقت یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی۔ صبح انھوں نے پورے دن کا کھانا تیار کیا اور جب ریاض اور ناشتہ ہو چکا تب انھوں نے میرے والد کو اپنی والدہ کی وفات کی اطلاع دی۔ ابا نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے رات کو ہی یہ اطلاع کیوں نہ دی اور اُسی وقت اپنی والدہ کے گھر کیوں نہ روانہ ہوئیں۔ انھوں نے جواب دیا،” میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ کی نیند متاثر ہو اور میں چاہتی تھی کہ آپ سکون سے ریاض کر لیں‘‘۔ایسی تھیں میری والدہ۔
سوال: آپ کی دادی کے پکائے کھانوں کی دھوم سارے ہندوستان میں تھی اور انھوں نے اپنی بہوؤں کو بھی کھانا پکانے کی تربیت دی تھی۔ کیا آپ کی والدہ نے بھی آپ کی بیگم کو کھانا پکانا سکھایا؟
جواب: میری والدہ نے کھانا پکانا میری دادی سے سیکھا جو اپنے کھانوں کی وجہ سے ہندو پاک میں جانی جاتی تھیں۔ اگر میرے والد بیسویں صدی کے عظیم ترین گویوں میں سے ایک تھے تو یقیناً میری دادی اپنے زمانے کی بہترین باورچنوں میں سے ایک تھیں۔ بھارت سے جو بھی گلوکار لاہور دورے پہ آتے وہ اُن کے کھانوں کے بھی ویسے ہی شوقین ہوتے جیسے وہ میرے ابا کے گانے کے شائق تھے۔ جہاں تک میری بیگم کی طباخی کا سوال ہے تو میں ذرا عقلمندی سے کام لوں گا اور اتنا ہی کہوں گا کہ وہ بہت اچھا پکاتی ہیں ۔ مجھے گھر میں سکون چاہیئے۔
سوال: آپ کے والد نے کس طرح آپ کو تعلیم دی؟
جواب: میری تعلیم گھر سے زیادہ اسٹیج پر ہوئی ہے۔ سلیم گیلانی ، جو اُ س وقت ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے، کو شروع سے ہی میرے فنی سفر میں دلچسپی تھی۔ انھوں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ اسٹیج پر بٹھائیں اور دورانِ پرفارمنس مجھے تعلیم دیں۔ ابا نے ان کی بات پلے سے باندھ لی اور میں ابھی ایک نوخیز لڑکا ہی تھا کہ اُن کے ساتھ سنگت کرنے لگا۔ پہلے پہل تو میں بہت تھوڑا گاتا تھا لیکن جیسے جیسے میرے علم اور اعتماد میں اضافہ ہوا تو ابا کی پرفارمنس میں میں بھی شامل ہونے لگا۔ میں نے اپنے والد کو سُن کر اور ان کے ساتھ گا کر سیکھا۔ میرا ماننا ہے کہ میری بڑی زبردست تعلیم ہوئی ہے جو روایتی طرزِ تعلیم سے زیادہ موثر اور دلچسپ تھی۔
سوال: آپ بھارت اور پاکستان دونوں جگہ باقاعدگی سے گا رہے ہیں۔ دونوں جگہوں پہ ہندوستانی سنگیت کی ریاضت، تعلیم اور پرفارمنس میں کیا فرق ہے؟
جواب: دونوں ملکوں کی موسیقی ایک جیسی ہے۔ دونوں جگہ تھیوری ایک ہی ہے۔ البتہ دونوں ممالک کے مختلف حصوں میں پیشکش کے بعض امتیازات ہیں۔ ہر شہر کے سامعین کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ بعض زیادہ علم دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ فنکار کے ساتھ تعامل کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بعض لوگ جذباتی وفور والی پرفارمنس پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ قواعد اور تکنیک پہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ پس فنکاروں کو اسی حساب سے اپنی پیشکش میں کچھ تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں تاہم بنیاد ایک ہی رہتی ہے۔ ایک فنکار آگرہ اور کلکتہ میں مختلف طریقے سے گائے گا کیوں کہ دونوں شہروں کے سامعین کا مزاج مختلف ہے حالانکہ دونوں بھارتی شہر ہیں۔ ہندو پاک کی تفریق موسیقی میں نہیں چلتی۔ بھارت اور پاکستان میں موسیقی کی ریاضت، تعلیم اور پرفارمنس میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہیں۔
سوال: آپ پرفارمنس کے لیے کس طرح تیار ہوتے ہیں؟
جواب: کسی ایک پرفارمنس کے لیے تیار ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی بھی فنکار کو اسٹیج پہ اپنا فن پیش کرنے کی منزل تک پہنچنے کے لیے برسوں کی ریاضت کرنی پڑتی ہے لیکن جب وہ تیار ہو گیا تو پھر الگ الگ پرفارمنس کے لیے اسے تیار ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی بھی وقت گا سکتا ہے۔
سوال: وہ کون سے عناصر ہیں جن کی مدد سے ایک پرفارمنس شاندار بنتی ہے مثلاً سامعین، موڈ، ساتھی فنکار ؟
جواب: بہت سی چیزیں درکار ہوتی ہیں تبھی جا کر ایک فنکار اپنا بہترین فن پیش کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو فنکار اچھے موڈ میں ہو۔ وہ اپنے ساتھی فنکاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ سامعین محبت کرنے والے اور موسیقی کے شائق ہوں۔ اگر سامعین علم والے ہوں تو بڑی اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ گرم جوش اور محبت کرنے والے ہوں۔ فنکار اور سامعین کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ ساؤنڈ سسٹم اچھا ہو۔ اور آخری بات یہ کہ اسٹیج اچھی طرح سجا ہوا ہو۔ خوبصورتی سے سجے اسٹیج پر گانا مجھے اچھا لگتا ہے۔
سوال: شام چوراسی نایاب اور پیچیدہ تالوں مثلا اصول فاختہ، فرودست اور اِکوائی میں گانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ دوسرے گھرانوں کے فنکار صرف مقبول تالوں مثلاً تین تال، ایک تالہ اور جھپتال ہی میں گاتے ہیں۔
جواب:اصول فاختہ، نصرک، فرودست، دھمار، تلواڑا اور اِکوائی بہت ہی پیچیدہ اور نایاب تال ہیں۔ ہم تو سارا وقت انھی تالوں میں گاتے ہیں۔ یہ تال اپنی ساخت کی وجہ سے فنکار کے لیے چیلنج پیدا کرتے ہیں۔ ان نایاب تالوں میں بہت کم بندشیں بنائی گئی ہیں۔ سامعین کے لیے بھی ان تالوں کا سمجھنا مشکل ہے۔ ان تالوں میں گائے جانے والے گانوں کو سن کر لَے کے ساتھ چلنا اور سَم، تالی اور خالی کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہے۔ میرے والد مشکل پسند تھے ، لہذا انھوں نے بہت سی پیچیدہ اور نایاب تالوں میں گایا ہے۔ وہ سامعین کو اپنے ساتھ شامل کر لیتے تھے اور نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ سامعین کو اسٹیج پر تالوں کے نقشے اور تقسیم سمجھا کے اٹھتے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ دوسرے گھرانوں کے باصلاحیت گانے والے بھی ان تالوں کا علم اور فہم رکھتے ہیں۔ شاید وہ ذاتی پسند ناپسند کے باعث انھیں استعمال نہیں کرتے یا ممکن ہے کہ وہ چیزوں کو سامعین کے لیے زیادہ آسان بنانا چاہتے ہوں۔
سوال:شام چوراسی کے فنکار طبلہ نواز کے ساتھ مسابقانہ مکالمے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہترین طبلہ نوازوں کو بھی امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ کے پسندیدہ طبلہ نواز کون ہیں؟
جواب: طبلہ نواز کے ساتھ سوال جواب کے لیے فنکار کو لَے پر بہت عبور ہونا چاہیے۔ گانے والے بالعموم لَے کاری کی بہ نسبت راگ داری پہ زیادہ دھیان دیتے ہیں اور لہذا طبلہ نواز کے ساتھ مسابقانہ مکالمے کے قابل نہیں ہوتے۔ میرے والد لَے کاری کو بھی راگ داری جتنا ہی اہم سمجھتے تھے اور دونوں کے ماہر تھے۔ وہ طبلہ نواز کو اپنی پرفارمنس میں شرکت پر مجبور کر دیتے تھے۔ طبلہ نوازوں کے ساتھ ان کے اسٹیج پر ہونے والے معرکے یادگار پرفارمنسز پہ منتج ہوئے ہیں۔ میرے والد کے پسندیدہ طبلہ نواز استاد میاں شوکت حسین خاں اور استاد احمد جان تھرکوا تھے۔ اتفاق سے میرے پسندیدہ طبلہ نواز بھی یہی ہیں۔ اس وقت بھارت میں کئی عظیم طبلہ نواز موجود ہیں۔ ذاکر حسین، سواپن چودھری، آنندو چیٹرجی ۔ یہ سب ماہر طبلہ نواز ہیں۔ میرا خیال ہے کہ غلام عباس بھی بڑا اچھا بجاتا ہے۔ راشد مصطفیٰ بہت اچھا ہے۔ طافو اور اس کا بیٹا بَلو خاں اپنا ہی انداز رکھتے ہیں۔ ہارون سموئیل، کاشف علی دانی اور شبیر حسین بڑے با صلاحیت نوجوان طبلہ نواز ہیں۔ طبلہ نواز ی کا فن بھارت اور پاکستان دونوں جگہ پھل پھول رہا ہے۔
سوال: استاد سلامت علی خاں مشہور فنکاروں کی برسیوں پہ باقاعدگی سے گایا کرتے تھے۔ لائل پور میں استاد فتح علی خاں قوال کی برسی پہ اُن کا گانا خاصے کی چیز ہوا کرتا تھا۔ اُن برسیوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب: وہ برسیاں موسیقی کی عظیم الشان محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ اس طرح کی محفلوں میں شرکت کے لیے فنکار پورے ملک سے سفر کر کے پہنچتے تھے۔ ان برسیوں میں گانے کے لیے وہ سارا سال تیاری کیا کرتے تھے۔ لائل پور میں استاد فتح علی خاں اور ویام شالا میں بھائی لعل محمد کی برسی فنکاروں کے لیے سب سے زیادہ مسابقت بھری محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ سال کے دوران کئی دوسری برسیاں بھی منائی جاتی تھیں۔ ان محفلوں میں فنکار اپنا دل نکال کے رکھ دیتے تھے۔ سامعین ان برسیوں میں شرکت کے لیے جوق در جوق پہنچتے تھے۔ بدقسمتی سے یہ روایت پچھلے کچھ عشروں سے ختم ہو گئی ہے۔ اسے دوبارہ بحال ہونا چاہیے۔ فنکارکو اپنی ریاضت دکھانے کے لیے مواقع کی ضرورت ہوتی ہے اور سامعین کا بھی حق ہے کہ فنکاروں کو اپنے فن کی معراج پہ سنیں۔
سوال:آپ کے والد خواتین کو موسیقی سکھانے کے قائل نہیں تھے۔ پھر آپ کی بہن رفعت سلطانہ کس طرح گانے لگیں؟
جواب: صرف میرے والد ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان فنکار اپنی خواتین رشتے داروں کو موسیقی سکھانے کے خلاف تھے۔ بدقسمتی سے خواتین کا گانا ہمارے ملک میں قابلِ عزت پیشہ نہیں سمجھا جاتا۔ اسی باعث فنکار اپنی بیٹیوں کو گانا سکھانے سے جھجکتے ہیں۔ رفعت کو گانا گانے کی اجازت اس لیے دی گئی کیونکہ وہ پاکستان کے بجائے امریکہ میں رہتی ہیں۔ انھوں نے پاکستان میں رہتے ہوئے کبھی بھی عوامی طور پہ گانا نہیں گایا۔ میں نے اس موضوع پہ کافی سوچ بچار کی ہے اور اس روایت کو بدلنا چاہتا ہوں۔ وہ خواتین جو گانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ،مثلا روشن آرا بیگم اور نور جہاں ،انھیں گانے کے لیے تعلیم اور حوصلہ افزائی ملنی چاہیے ۔
سوال: آپ کو نورجہاں کی گائیکی میں کون سی بات پسند ہے؟
جواب: ان کے گانے میں کوئی ایسی خوبیاں ہیں جو مجھے پسند ہیں۔ وہ اپنے میدان میں بہترین تھیں۔ ا ن کی پِچ بہت عمدہ تھی۔ ان کی لفظوں کی ادائی شاندار تھی۔ وہ اپنی آواز کو بہت اچھے طریقے سے اٹھاتی تھیں اور پُر احساس انداز سے گاتی تھیں۔ ان کے گانے سے میرے والد صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ جایا کرتے تھے۔
سوال: آپ کے خیال میں آج ہندوستانی سنگیت کے بہترین فنکار کون ہیں؟
آج بھارت اور پاکستان دونوں جگہ بہت سے با صلاحیت گویے موجود ہیں۔ استاد راشد خاں، پنڈت اجے چکرورتی اور استاد مشکور علی خاں بہت اچھے ہیں۔ مجھے ان کا گانا بہت پسند ہے۔ بڑے فتح علی خاں، فتح علی خاں حیدرآبادی اور حامد علی خاں عظیم فنکار ہیں۔ پاکستان میں آج روشن مستقبل کے حامل کئی باصلاحیت فنکار موجود ہیں۔ چاند خاں اور سورج خاں، انعام علی خاں اور نایاب علی خاں، شجاعت علی خاں اور مسلم شگن کے امکانات بہت روشن ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں اچھے فنکار پیدا ہوتے رہیں گے۔ ہمارے فنکار اپنا علم اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے پوری لگن سے سکھا رہے ہیں۔
سوال: آپ خود کن فنکاروں کو سنتے ہیں؟
جواب: میں بہت سے گلوکاروں کو سنتا ہوں، سینئر جونئیر ہر طرح کے۔ مگر میرے پسندیدہ فنکاروں میں استاد امانت علی خاں و استاد فتح علی خاں، استاد امیر خاں، پنڈت بھیم سین جوشی، ڈی۔وی پلوسکر، استاد غلام حسن شگن، پنڈت جسراج، روشن آرا بیگم اور استاد سلامت علی خاں و استاد نزاکت علی خاں شامل ہیں۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے شام چوراسی کے گانے میں کچھ اضافہ کیا ہے؟
جواب: نہیں۔ میں نے کوئی اضافہ نہیں کیا۔ استاد سلامت علی خاں کے بعد شام چوراسی گھرانے کے گانے میں کسی چیز کا اضافہ ممکن نہیں۔ انھوں نے کتاب کا آخری باب رقم کر دیا ہے۔
سوال:موسیقی کی دنیا میں شفقت سلامت علی خاں کا ورثہ کیا ہو گا؟
جواب: میرا خیال ہے کہ میری خدمات تعلیم کے میدان میں رہی ہیں۔ میں ساری دنیا میں مختلف اداروں میں سکھاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک سرگرم، مہربان اور مخلص استاد ہوں۔ میں حقدار طلبا میں علم بانٹنے پہ یقین رکھتا ہوں۔ میرے بعض شاگرد، فنکاروں کی اولاد ہیں مگر اکثر نہیں بھی ہیں۔ میں آرٹ گیلریوں، گھروں اور سکولوں میں موسیقی کی ورک شاپس کرتا رہتا ہوں۔ میں تعلیم کے روایتی اور جدید دونوں طریقے استعمال کرتا ہوں۔ میں اپنے شاگردوں کو سکھانے کے لیے بڑی محنت کرتا ہوں۔ مجھے اپنے قابل شاگردوں سے محبت ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرا ورثہ خوب تربیت یافتہ گلوکار ہوں گے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔
ماخذ: فرائیڈے ٹائمز