طاقت کی حکمرانی: برٹرینڈ رسل (مترجم : انعام الرحمن میاں)
نوٹ: برٹرینڈ رسل کی کتاب ’’ایک بدلتی دنیا کی خاطر نئی امیدیں‘‘ (New-Hopes-for-a-Changing-World) تین حصوں پر مشتمل ہے: انسان اور فطرت ، انسان اور انسان ، انسان بہ نفسہ ۔ زیر نظر تراجم ، رسل کی اس کتا ب کے پہلے حصہ کے دوسرے باب ’’کشمکش کی تین اقسام‘‘(Three-Kinds-of-Conflicts) ، تیسرے باب ’’طبیعی فطرت پر غلبہ‘‘ (Mastery-over-Physical-Nature) اور آٹھویں باب ’’طاقت کی حکمرانی‘‘(The-Rule-of-Force)پر مشتمل ہیں ۔ زیرِ نظر ترجمہ پہلی دفعہ گورنمنٹ زمیندار کالج بھمبر روڈ گجرات کے میگزین ’’شاہین‘‘ 1997-98 اور 1998-99 میں شائع ہوا۔
باب ہشتم۔ طاقت کی حکمرانی (The-Rule-Of-Force)
انسانوں کے مابین تعاون دو طرفہ رضاکارانہ ہو سکتا ہے یا پھر ایک فریق برتر قوت کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ میں نے ایک دفعہ پہاڑی کوے کے جوڑے کو حالتِ قید میں دیکھا ۔ ان کے پالنے والے نے انہیں کچے گوشت کا ایک ٹکڑا دیا کہ وہ آپس میں تقسیم کر لیں ۔ نر کوے نے اسے پکڑ لیا اور مادہ کوے پر وحشیانہ ٹھونگے مارتا ، اگر وہ گوشت کے ٹکڑے کو حاصل کرنے کی معمولی سی بھی کوشش کرتی ۔ اپنی مادہ کو کچھ بھی کھانے کی اجازت دینے سے پہلے اس نے اتنا کھایا جتنا معدہ متحمل ہو سکتا تھا ، اس وقت تک تمام رسیلے ٹکڑے ختم ہو چکے تھے ۔ جانوروں کی بہت سی انواع میں ، نر اور مادہ میں ایسا ہی تعلق موجود ہے اور انیس سو اٹھارہ (1918ء ) تک انسانوں میں بھی اس کا وجود تھا ۔ ہمارے عہد کی سب سے زیادہ حیران کن بات خواتین کے سٹیٹس (Status) میں تبدیلی ہے جو دنیا کے اکثر حصوں میں بہت تیزی سے پھیلی ہے ۔ مہذب ممالک میں مرد اور عورت کے درمیان ایسا تعاون جو اس وقت موجود ہے ، وہ عورت کی طرف سے ، رضامندی کا رجحان رکھتا ہے لہٰذا طاقت کی حکمرانی کا نمونہ نہیں ہے ۔ یہ اس عمومی میلان کا حصہ ہے کہ طبعی طاقت کے ہر استعمال کو ریاست کے ہاتھوں میں مرتکز کر دیا جائے ۔ بنیادی طور پر مردوں کی عورتوں پر برتری ، مکمل طور پر برتر جسمانی قوت پر منحصر تھی جس نے مردوں کو اس قابل بنایا کہ کمزور ساتھی کی طرف سے کسی موثر چیلنج کے بغیر ، وہ دوسرے میدانوں میں بھی برتری کا دعویٰ کریں ۔ تاہم بتدریج یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ افراد کو اپنے پرائیویٹ تعلقات میں طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف ریاست کو ، قانون کے مطابق اس کا استعمال کرنا چاہیے ۔ خواتین کو مردوں سے نجات مل گئی اس تناسب سے ، کہ دونوں ریاست کے غلام بن گئے ۔ یہ روداد اتنی مجمل ہے کہ مکمل سچ نہیں ہو سکتی لیکن یہ سچائی کے ایسے خلاصے کے طور پر کام دے سکتی ہے جو ذرا سا خلافِ واقعہ ہے ۔
بنیادی طور پر سماجی تعاون تقریباً سراسر طاقت پر منحصر تھا ۔ حتیٰ کہ جنسی تعلقات پر بھی یہ اصول لاگو رہا ، جب تک جنگ میں اسیر کی گئی خواتین داشتائیں بنائی جاتی تھیں ۔ ہر کپتان کے لیے ایک دوشیزہ یا دو ۔۔۔ کامیابی پر نازاں بیویاں ، ڈیبورا کے گیت (Song-of-Deborah)میں کہتی ہیں ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ لڑکیوں کا تعاون رضاکارانہ نہیں ہوتا تھا ۔ جب تک بچے نوعمر ہوتے ، بچوں اور والدین کے تعلق کی بنیادی بھی مکمل طور پر طاقت پر ہوتی تھی ۔جب بچے بالغ ہو جاتے اور باپ ضعیف و نحیف ، تو صورت ِ حال اس کے برعکس ہو جاتی ۔ کچھ قبائل میں اپنے باپوں کو ہمسایہ آدم خوروں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا ، جس سے مصارف میں بچت ہوتی ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد باپوں نے اس وقت جب وہ زندگی کے عروج پر تھے ، ایسے ناخوشگوار انجام کو دور کرنے کے لیے اقدامات کئے ۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں فرزندانہ ملاطفت کو ملحوظ رکھا ، جبکہ بچے ابھی بے بساط و اختیار ہونے کی وجہ سے مطیع تھے ۔
کنفیوشس نے ، جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے اسے تمام نیکیوں کی بنیاد قرار دیا ۔ چوتھا حکم (Fourth-Commandment)، جب اسے تشکیل دیا گیا ، پہلے سے موجود طویل روایت کے تصور کو عملی شکل میں ظاہر کرتا ہے ۔ لیکن اس نے ضابطہ عمل کے اصلی سبب کو مکمل بھلا دیا ہے جو کہ ادھیڑ عمر میں کھائے جانے سے بچنا ہے ۔ چوتھا حکم اس طرح سے ہے کہ ، ’’تمہارے دن زمین پر طویل ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر ہمارا قیام طویل ہو سکتا ہے یعنی ہم آدم خوروں کے حوالے کئے جانے سے بچ سکتے ہیں ۔ فرزندانہ ملاطفت ایک اچھی مثال ہے جس میں برتری جو کہ بنیادی طور پر جسمانی قوت کی وجہ سے ہے ، مذہب کی توثیق حاصل کر لیتی ہے اور اس وجہ سے برتری قائم رہتی ہے جب برتر جسمانی قوت اگرچہ موجود نہ رہے ۔ کوئی بڑی وجہ نظر نہیں آتی کہ بچے اپنے والدین کا احترام کریں ۔ بہ نسبت والدین کے ، کہ وہ بچوں کا احترام کریں سوائے یہ کہ بچے نوعمر ہوں اور والدین بچوں سے زیادہ طاقتور ہوں ۔ یقیناً یہی چیز مردو عورت کے تعلقات میں واقع ہوئی ۔ خاوندوں کی اطاعت ، بیویوں کا فرض تھا نہ کہ خاوندوں کا کہ وہ بیویوں کی اطاعت کریں ۔ اس نظریے کی بنیاد صرف یہ تھی کہ اگر بیویوں کو اسے قبول کرنے پر مائل کیا جا سکے تو ان کے خاوند پریشانی سے بچ سکتے تھے ۔ مرد ، عورت کا نہیں ہے بلکہ عورت ، مرد کی ہے ؛ نہ ہی مرد، عورت کے لیے تخلیق کیا گیا بلکہ عورت، مرد کے لیے (I Corinthianx XI, 8.9) ۔ میں کسی کو بھی چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اس نظریے کی کوئی بنیاد لائے ، اس کے علاوہ کہ مردوں کے عضلات ، عورتوں سے زیادہ مضبوط ہیں ۔
فرزندانہ ملاطفت کے سلسلے میں جو مثال دی گئی ہے ، وہ دوسرے بہت سے سماجی تعلقات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جب ایک جنگجو اقلیت ، ایک پرامن اکثریت پر فتح پاتی ہے تو ابتداء میں یہ اقلیت صرف برتر قوت پر انحصار کرتی ہے ، پھر یہ موروثی اشرافیہ بن جاتی ہے اور اپنی برتری کو دوام دینے کے لیے دیومالا گھڑ لیتی ہے ۔ بعض اوقات وہ سورج کے بیٹے ہوتے ہیں ۔ اور بعض اوقات دوسرے دیوتاؤں کے ، ان کا خون اعلی ہوتا ہے ، ان میں عزت و احترام کی ایسی حس ہوتی ہے جو بازاریوں میں نہیں ہوتی ، ان کی عقل و دانش اعلیٰ ہوتی ہے اور وہ ان تمام معاملات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو تمام انسانوں کی فہم سے ماوراء ہیں ۔ سب سے بڑھ کر ان میں عزت و احترام کا ایسا شعور موجود ہوتا ہے جو تقاضا کرتا ہے کہ وہ فوراً کسی کو بھی قتل کر دیں جو ان کی بے عزتی کرے ۔ اسے بہت بڑی نیکی خیال کیا جاتا ہے ۔ غیرمعمولی بات یہ ہے کہ فاتح اشرافیہ اس میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ ان کی رعایا ان نظریات کو قبول کر لے ۔ ہر سادہ دیہاتی اپنے ہیٹ کو جاگیر کے مالک سے مس کرنے کا عادی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ دور دراز کچھ مقامات ہیں جہاں اب بھی ایسا ہوتا ہے جیسے ادھیڑ عمر باپ ، اپنے بیٹے کو فرزندانہ ملاطفت کی تعلیم دے کر ، جبکہ بیٹا نوعمر ہوتا ہے ، خود کو محفوظ کرتا ہے ۔ اسی طرح سے اشرافیہ ، جو کمزور ہو چکی ہوتی ہے اور کھلی جنگ میں ادنی ٰ لوگوں کو شکست نہیں دے سکتی ۔ مذہبی تعظیم و تکریم کے ذرائع سے جو کہ اشرافیہ اپنے اچھے دنوں میں ذہن نشین کرا چکی ہوتی ہے ، قوت و طاقت اور دولت کی حامل رہتی ہے ۔ خاص طور پر بادشاہ اس طریقے پر اکثر و بیشتر کامیاب رہے ۔ بادشاہوں نے الوہی حق کے ذریعے حکومت کی ۔ انہیں الوہی حق حاصل تھا کیونکہ وہ اپنے اسلاف کے بیٹے تھے ۔ لیکن اگر آپ ماضی بعید میں جائیں تو آپ کو ایسے آباء ملیں گے جنہیں صرف قوت و طاقت کا حق حاصل تھا اور انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر تخت پر قبضہ کیا ۔ یہ حیران کن امر ہے کہ الوہی حق کے مستعمل ہونے میں بہت کم عرصہ لگا ۔ چارلس اول نے الوہی حق کے ذریعے حکومت کی کیونکہ ہنری ہفتم نے بوسورتھ (Bosworth) کی جنگ جیت لی تھی ۔ سماجی امتیاز کی مبنی بر عسکریت حیثیت کو وہ لوگ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ، جو عدم مساوات سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ آپ ، آج کے دور میں ہندوستان میں ایسے لوگ پائیں گے جو اس برطانوی گستاخی و سرکشی سے جو کہ انگریزوں نے اس ملک میں کی اور جس کی بنیاد مکمل طور پر عسکری فتح تھی ۔ بہت زود رنج ہیں لیکن اکثر اوقات یہی لوگ ذات پات کے نظام کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کرتے اگرچہ اس کی اصل بھی ، بہت عرصہ پہلے آریائی فاتحوں کی برتری میں ہے ۔ طویل عرصہ تک قائم عدم مساوات ، مذہبی ہالہ کا تقدس اوڑھ لیتی ہے لیکن انگریزوں کا ہندوستان میں قیام اتنی صدیوں پر محیط نہیں تھا جو ایسے ہی انجام پر منتج ہوتا ۔
ہمیشہ جنگ ہی غلامی کی بنیاد رہی ہے ۔ ایک غلام یا تو جنگ میں اسیر کیا گیا شخص ہوتا ہے ، یا وہ کسی اسیر کی نسل سے ہوتا ہے ۔ امریکہ میں نیگرو غلام تھے صرف اس وجہ سے کہ سفید لوگ ، اسلحہ استعمال کرنے میں افریقیوں سے برتر تھے ۔ دوسری سماجی ناہمواریوں کی طرح ، غلامی کو بھی جب تک یہ قائم رہی ، مذہبی توثیق حاصل تھی ۔ اسکی معقولیت کی توضیح ، حام کی لعنت (Curse-of-Ham)سے کی گئی ۔ اگرچہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نیگرو ، رسمی طور پر آزا د ہیں لیکن سماجی کلنک و رسوائی قائم ہے ۔ ایک سفید مرد کی نیگرو عورت کی عصمت دری کی نسبت ، ایک نیگرو مرد کا سفید عورت کو بے آبرو کرنا ، زیادہ بدکاری کیوں ہے ؟ اس کی بنیادی وجہ جنگ میں سفید لوگوں کی برتری ہے ۔ میں ایسے کسی بھی شخص کو چیلنج کرتا ہوں جو اس کے علاوہ کوئی بھی دوسری وجہ تلاش کر سکے ۔
اگرچہ طاقت کی حکمرانی کوئی ایسی چیز نہیں ، جس کی تعریف و توصیف کی جائے اور کسی کو بھی خوش ہونا چاہیے ۔ اگر اس کی جگہ کوئی نرم و لطیف اور کم ظالمانہ چیز لے لے ۔ تاہم سماجی اداروں کی ترقی میں اس کا ایک مفید کردار ہے ۔ حکومت ایک مشکل فن ہے ۔ اور سوائے طاقت کی اطاعت کے ذریعے ، حکومت کی اطاعت مشکل ہے ۔ طاقت سے مسلط کی گئی حکومتوں نے ، گروہوں کی تشکیل میں ایسا کردار ادا کیا ہے جو بہت ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ انگریزوں کی اکثریت آج اپنی حکومت کی اس لیے اطاعت کرتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا بدل خوفناک نراجیت اور انتشار ہے لیکن ایسے طویل ادوار گزرے ہیں جن کے دوران ، لوگوں نے نراجیت اور انتشار کو ترجیح دی اگر وہ اسے حاصل کر سکتے تھے۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں نے ایک دوسرے کو جڑوں سے اکھاڑ دیا ۔ انجام کے طور پر بادشاہ ، فاتح کی حیثیت سے نمودار ہوا ۔ لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ وہ اطاعت کے لیے مجبور کر سکتا تھا ۔ اور اس طرح سے بادشاہت نے ، لوگوں کی طرف سے اتحاد اور قانون کی اطاعت کی عادت حاصل کر لی ۔ وقت گزرنے پر جب بادشاہی طاقت کو دبایا گیا تو ایسا نراجیت کے احیاء کی صورت میں نہیں ہوا بلکہ حکومتوں کی نئی اقسام کے ذریعے سے ۔ تاہم شک کیا جا سکتا ہے کہ ایک واحد مستحکم حکومت ، سارے ملک پر مشتمل ، کبھی قائم ہوئی ہو سوائے یہ کہ شاہی طاقت کے مرحلے سے گزرا جائے ۔
بادشاہی طاقت سے جمہوریت کی طرف تبدیلی ، جو کہ انگلینڈ میں چارلس اول کے عہد سے لیکر ملکہ وکٹوریہ کے عہد تک ہوئی ، ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی دوسری بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ جہاں کہیں سماجی اکائی ہے وہاں حکومت ناگزیر ہے اور یہ حکومت کی طاقت و جبر ہے جو متعلقہ گروہ کو ربط و اتحاد عطا کرتی ہے ۔ لیکن جب ایک دفعہ ، گروہ تشکیل پا گیا ، ایسا کسی بھی طریقے سے ہوا ہو ، تو گروہ کی ساخت میں کسی تبدیلی کے بغیر ، حکومت کی ہیئت و صورت بدلی جا سکتی ہے ۔ اکثر و بیشتر سب سے مشکل مرحلہ ایک واحد حکومتی گروہ کی تشکیل ہے اور مآل کار، حکومت کی ہیئت و صورت میں تبدیلیاں بہت آسان ہو تی ہیں ۔ نراجیت پسندانہ جذبات کو دبائے بغیر ، کسی بھی حکومتی گروہ کی تشکیل نہیں ہو سکتی اور جذبات کی تحدید بہت آسانی سے ہو جاتی ہے اگر گروہ کے صرف کمزور ارکان کو دبانا مقصود ہو جبکہ مضبوط ارکان اپنے نراجیت پسندانہ جذبات کو ، حکومتی طاقت کے استعمال کی صورت میں تبدیل ہوا پاتے ہیں ۔جب پاپا اونگھ رہے ہوں ، وکٹوریہ عہد کے بچے شور نہیں مچاتے تھے ۔ لیکن پاپا جب چاہتا ، شور کر سکتا تھا ۔ پاپا کا ان بچوں کو سرزنش کرنے کا جذبہ ، جو اس کے آرام میں خلل ڈالتے تھے ، نراجی حملہ ہوتا اگر خاندانی گروہ قائم نہ ہوا ہوتا لیکن جب سے یہ قائم ہوا ہے ڈسپلن کے لیے ایک مناسب والدینی طرز عمل ہے ۔ اس طرح سے لڑائی کے نمونوں کی زیادہ مداخلت کے بغیر سماجی گروہوں کی تشکیل ہو سکی ۔ کمزوروں کے استثناء کے ساتھ ، لڑائی کے ایسے نمونے گروہ کی تشکیل سے پہلے موجود تھے ۔ مثال کے طور پر قتل کو لیجئے ۔ جہاں کہیں کسی خطے میں فاتح اشرافیہ حکومت کرتی ہے تو اسے ایک عمومی قاعدے کے طور پر لیا جاتا ہے کہ سماجی اعتبار سے کمتروں کو ، سماجی لحاظ سے برتر لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے یا حتی کہ ایک دوسرے کو بھی ، لیکن جب کوئی سماجی اعتبار سے برتر ، کسی کمتر و ادنی ٰ کو قتل کرے تو یہ ایک ٹھیک اور صحیح عمل ہو گا ۔ حقیقت میں اگر برتر لوگ بہت زیادہ بے صبرے نہ ہوں تو وہ ایسا قانونی ذرائع سے کر سکتے ہیں ۔ خالصتاً ، رضاکارانہ تعاون پر مبنی ، نئے گروہوں کی تشکیل کی کوششیں عام طور پر ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ ایسے گروہوں کے لیے کوئی بھی حکومت تشکیل دی جائے ، وہ روایتی احترام کی حامل نہیں ہوتی اور اسے اتنی طاقت نہیں دی جاتی کہ وہ جبری احترام حاصل کر سکے ۔
موجودہ عہد میں ، اس اصول کا سب سے اہم اطلاق عالمی حکومت (ورلڈ گورنمنٹ) پر ہوتا ہے ۔ جنگ کی روک تھام کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ کرہ ارض پر محیط ایک واحد حکومت قائم ہو لیکن ایک وفاقی حکومت[1] جو باہمی رضامندی سے بنائی گئی ہو جیسا کہ انجمن اقوام اور اقوام متحدہ کی تشکیل کی گئی ، یقینا ً کمزور رہی ہو گی کیونکہ اسے تشکیل دینے والی قومیں محسوس کریں گی ، جیسا کہ نوابوں نے قرون ِ وسطیٰ میں محسوس کیا تھا کہ نراجیت ، خود مختاری کے کھونے سے بہتر ہے ۔ اور جیسا کہ قرون ِ وسطیٰ میں نراجیت کی جگہ منظم حکومت کے آنے کا انحصار شاہی طاقت کی فتح پر تھا۔ اسی طرح سے بین الاقوامی تعلقات میں ، نراجیت کی بجائے نظم و ضبط کا آنا ، اگر یہ آ جاتا ہے ، ایک قوم یا قوموں کے اتحاد کی برتر قوت کے ذریعے ہو گا اور جب ایسی حکومت واحدہ تشکیل پا جائے گی ، تبھی یہ ممکن ہو گا کہ بین الاقوامی جمہوری حکومت کا ارتقاء شروع ہو ۔ یہ نظریہ جس پر میں پچھلے تیس برس سے قائم ہوں ، تمام آزاد خیال لوگوں اور کسی بھی قوم کے تمام قوم پرستوں کی طرف سے بھی شدید مخالفت و مجادلہ کا حامل ہے۔ بلاشبہ میں متفق ہوں ، یہ بہت بہتر ہو گا کہ رضامندی پر مبنی ایک بین الاقوامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن میں مکمل طور پر قائل ہوں کہ قومی خودمختاری کی محبت اتنی مضبوط ہے کہ ایسی حکومت موثر اختیار نہیں رکھ سکے گی ۔ جب ایک قوم یا قوموں کے گردہ کی عسکری برتری پر مبنی ، تمام دنیا کے لیے حکومت واحدہ ، ایک صدی یا اس کے لگ بھگ عرصہ تک اقتدار میں رہے گی تو یہ اس درجے تک احترام حاصل کرنا شروع کر دے گی جس سے ممکن ہو جائے گا کہ وہ طاقت کی بجائے، قانون اور جذبات پر اپنے اختیار کی بنیاد رکھے ۔ اور جب ایسا ہو جائے گا تو بین الاقوامی حکومت جمہوری ہو سکتی ہے ۔ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک خوشگوار امکان ہے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ انسان کی نراجی تحاریک (جذبات) اتنی مضبوط ہیں کہ وہ پہلے مرحلے پر سوائے برتر طاقت کے کسی اور چیز کے تابع ہونے کے قابل نہیں ہو سکتا ۔ ایسا نہیں بھی ہو گا اگر انسان تعقل پسند یا نفرت اور خوف کا کم شکار ہوں لیکن جب تک موجودہ قسم کا قومی جذبہ موجود ہے ، حقیقی ، طاقتور بین الاقوامی حکومت کے قیام کی کوشش ، ناقابل مدافعت پراپیگنڈے کا سامنا کرے گی ۔ ’’کیا آپ آزاد انسان کی طرح مرنے کی نسبت غلاموں کی طرح جینا پسند کریں گے ؟‘‘ ، قومی خود مختاری کے علمبردار سوال کریں گے ۔ ہر قوم میں جہاں مرنے کی بجائے، بحیثیت آزاد انسان جینے کی اچھی امید ہو گی ، اس جذباتی سوال کا جواب ایک عمومی شور کی صورت میں آزادی کے لیے مرنے کی حمایت میں دیا جائے گا ۔ میں نہیں کہوں گا کہ بین الاقوامی نراجیت کے خاتمے کے لیے بہتر انتظام و بندوبست کی امید نہیں ہے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی امید نہیں کی جا سکتی ، جب تک افراد کی موجودہ حالت میں بہت زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ یہ ضروری ہو گا کہ افراد، دوسرے افراد کے لیے عداوت اور خوف کے کم جذبات رکھیں اور تحفظ کی زیادہ امید ۔ جہاں تک کہ ان کی اپنی زندگیوں کا تعلق ہے اور بہت واضح احساس کہ جدید تکنیک نے جو دنیا پیدا کی ہے ، اس میں عالمگیر تعاون ناگزیر ہے اگر بنی نوع انسان کو بقا مقصود ہے ۔ کیا ایک چیتا ، اپنے دھبے تبدیل کر سکتا ہے ؟ مجھے یقین ہے وہ کر سکتا ہے ، اگر نہیں کر سکتا تو خوفناک آفات اس پر نازل ہونا چاہئیں ۔
[1] (مترجم) یہاں مصنف کی مراد نیم وفاق (Confederation) ہے کیونکہ ایسا ریاستی اتحاد ، مقتدر قوت (Sovereignty) نہیں رکھتا ۔ جبکہ وفاق (Federation) میں مرکز مقتدر قوت کا حامل ہوتا ہے ۔