زمین روئے گی:سرخ فام ہندی سرداروں کی تقاریر ۔ مترجم: قیصر شہزاد
کچھ عرصہ قبل ہمارے نابغہء روزگار دوست جناب عاصم بخشی صاحب نے سرخ ہندی {ریڈ انڈین} سردار چیف سیاٹل کی مشہور و معروف تقریر کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ اگرچہ اردو میں اس سے پہلے بھی اس کا ترجمہ کیا جاچکا تھا لیکن بخشی صاحب کے قلم سے نکلنے والا ترجمہ حسبِ توقع بے مثال تھا اور بہت پسند کیا گیا۔اگرچہ ہم ان کے معیار تک تو نہ پہنچ سکیں گے لیکن پھر بھی انہی سے تحریک پاکر سرخ ہندی سرداروں کی گوروں کو مخاطب کر کے کی گئی دیگر کئی تقاریر کا اردو ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اور اب بفضلِ خدا یہ ارادہ تکمیل کو پہنچ گیا۔
ان تقاریر کا مرکزی مسئلہ تو گوروں کی جانب سے مقامی زمینوں کے روز بروز بڑھتے مطالبات ہی ہے لیکن بات صرف زمین کی نہیں بلکہ اپنے رسم و رواج اور روایات کے مطابق زندگی گزار نے کے ختم ہوتے امکان کی ہے اور ان روایات میں سب سے بنیادی بات زمین اور اس پر بسنے والی ہر طرح کی حیات کے جانب رویے کی ہے ۔ ان روایات کے مطابق انسان باقی حیات کا مالک نہیں بلکہ ہر شے سے مل کر بننے والے ایک عظیم جال کا ایک حصہ ہے ۔
یہ تقریریں پڑھتے ہوئے عموماً ‘جنگلی’ ‘غیر مہذب’ سمجھے جانے والے ان ‘دقیانوسی ‘ لوگوں کی سادگی ، خالص پن، بے تکلفی محسوس ہونے کے علاوہ ان کے سوچنے سمجھنے کے انداز کی گونا گونی بھی نظر آئے گی ۔ لہذا یہاں ایک طرف ہمیں غاصبوں کے خلاف اور اپنے طرزِ حیات کی حفاظت کے لیے آخری سانس تک لڑنے کا اعلان کرنے والے بھی دکھائی دیں گے اور مزاحمت کے بےفائدہ ہونے کے احساس کے تحت گوروں کے سامنےسرجھکا دینے کا درس دینے والے بھی، گوروں کو اپنے آباو اجداد کے احسانات یاد دلانے والے بھی اور ان کی تہذیب کی برتری کا اعتراف کرنے والے بھی، اپنے مٹتےتمدن پر آہیں بھرنے والے بھی اور اسے نظامِ فطرت کا تقاضا سمجھ کر قبول کرلینے کی نصیحت کرنے والے بھی۔
لیکن آغاز ایک خواب کے ذکر سے کرتے ہیں ۔
ایک خواب:
” میرے باپ نے اپنے باپ سے سنا تھا کہ ان کے زمانے میں لاکوٹا قبیلے کے ایک سنیاسی کو خواب میں آنے والا زمانہ دکھایا گیا۔ یہ گوروں کی آمد سے بہت پہلے کی بات ہے۔ سنیاسی نے دیکھا کہ تمام چوپائےزمین کے اندر واپس جارہے ہیں او ر ایک عجیب وغریب نسل لاکوٹا قبیلے کے ارد گرد مکڑی کا جالاسا بُن رہی ہے۔پھر اس نے بتایا کہ یہ سب ہوچکنے کے بعد تم لوگوں کوبنجر زمین پر مٹی سے بنے چوکور سرمئی گھروں میں رہنا پڑے گا اور اگر تم ان گھروں کو چھوڑ کر باہر نکلے تو فاقوں سے مرجاؤ گے۔ کہتے ہیں کہ اس خواب کے کچھ دن بعد ہی وہ شخص دھرتی ماتا کی جانب لوٹ گیا۔ اور اس کی موت کا باعث یہی دکھ تھا۔ اب تم اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہو کہ اس کی مراد یہی مٹی کی چھت والے گھر تھے جن میں اب ہم رہتے ہیں، اور باقی باتیں بھی بالکل ٹھیک ثابت ہوئیں۔ بعض اوقات خواب بیداری سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں۔”
{ہیہاکا ساپا/ بلیک ایلک۔ لاکوٹا قبیلے کا سنیاسی۔ بلیک ایلک کو شہرت اس کے روحانی مشاہدات پر مبنی،معروف امریکی شاعر اور مصنف جان جی نائیہارڈٹ کی مرتب کردہ کتاب کے باعث حاصل ہوئی۔ }
تقریریں:
“ایک دن زمین روئے گی۔ وہ رو رو کر اپنی زندگی کی بھیک مانگے گی۔ وہ خون کے آنسو روئے گی۔ تب تمہارے سامنے دو ہی راستے بچیں گے، تم اس کی مدد کرو گے یا اسے مرتا چھوڑدو گے۔ اور اس کے مرتے ہی تم بھی ختم ہوجاؤگے۔ ” {جان ہالو ہارن، اوگلالا قبیلہ ، ۱۹۳۲}
پہلی تقریر:
“جسے تم پیار سے حاصل کرسکتے ہو وہ تم جنگ کر کے کیوں لینا چاہتے ہو؟ تم آخرکیوں ہماری بربادی کے درپے ہو؟ ہم تو تمہیں خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جنگ سے تمہیں آخر حاصل ہی کیا ہوگا؟ ہم غیر مسلح ہیں اور تمہیں جو چاہو دینے پر تیار ہیں بشرطیکہ تم دوست بن کر آؤ۔
میں اتنا سادہ نہیں کہ مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ اچھا گوشت کھانا، آرام سے سونا، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے زندگی بسر کرنا انگریزوں کے ہمراہ ہنسی خوشی رہنا ، ان کا دوست بننا، ان سے تانبے اور کلہاڑیوں کا تبادلہ کرنا ان سے بھاگنے سے کہیں بہتر ہے۔
لے جاؤ اپنی بندوقیں اور تلواریں۔تمہارے سارے حسد کی جڑ یہی ہیں۔ورنہ تم خود بھی اسی طرح مارے جاؤگے۔ ”
{پوہاٹان، واہنسوناکوہ کی ۱۶۰۹ کی یہ تقریر کیپٹن جان اسمتھ نے نقل کی تھی۔}
دوسری تقریر:
“ہم خوب جانتے ہیں کہ ہماری زمینیں اب پہلے سے زیادہ قیمتی ہونے لگی ہیں۔گورے سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی قدروقیمت سے واقف نہیں۔ایسا بالکل نہیں۔ ہاں ہمیں احساس ہے کہ زمین ہمیشہ کے لیے ہے جبکہ اس کے بدلے ملنے والی تھوڑی بہت چیزیں جلد ختم اور فنا ہوجانے والی ہیں۔ ہم تو ان زمینوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے جنہیں ہم نے فروخت نہیں کیا ۔ آپ کے لوگ روز بروز ان پر قابض ہورہے ہیں اور شکار کے جانورو ں کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ہم پُر زور استدعا کریں گے کہ آپ ان لوگوں کو ہٹائیں۔
معاہدوں کے موقعے پر ہماری روایت تحفے میں جانوروں کی کھالیں دینے کی ہے۔ ہم شرمسار ہیں کہ اس مرتبہ اپنے بھائیوں کو بہت تھوڑی کھالیں پیش کررہے ہیں لیکن آپ کے گھوڑوں اور مویشیوں نے وہ سبزہ چر لیا ہے جو ہمارے ہرنوں کی خوراک ہوا کرتا تھا اس لیے وہ کم یاب ہوگئے ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ ہمارا یہ عذر آپ قبول کریں گے۔اگرہم کچھ اور لاسکتے تو ضرور پیش کرتے، لیکن ہم واقعتا ًغریب لوگ ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ ان تحفوں کی کم تعداد پر نہ جائیں اور جتنی کھالیں بھی ہم فراہم کرسکے ، ہماری جانب سے احترام کی علامت کے طور پر قبول کریں۔”
{کناساتیگو، ۱۷۴۲۔ کنا ساتیگو کے سامعین میں بینجمن فرینکلن بھی موجود تھا}
تیسری تقریر:
“ہمارے آباءو اجداد ، ڈیلاوئیر،کہاں گئے؟
ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ گورے پہاڑعبور کرنا پسند نہ کریں گے اور ہم ان سے محفوظ رہیں گے۔ اب یہ امید ختم ہوچکی ہے۔ وہ لوگ پہاڑوں کو عبور کرکے چیروکی زمینوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ بالآخر ہمارے اور ہمارے آباو اجداد کے تصرف میں رہنے والے سارے ملک کا مطالبہ کیا جائے گا اور اصل باشندے، جو کبھی اس قدر عظیم اور ناقابلِ مزاحمت ہوا کرتے تھے کہیں دور دراز کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ پھر ایک دن انہیں انہی لالچ کے مارے مہمانوں کے جھنڈے پھر سے دکھائی دیں گے۔ یہ {مجوزہ} معاہدے ان بوڑھوں کے لیے تو ٹھیک ہیں جو نہ شکار کے قابل ہیں نہ جنگ کے۔ میرے پاس میرے نوجوان سپاہی موجود ہیں۔ ہم اپنی زمینیں واپس لیں گے۔ میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا!”
{سردارتسی او گانسینی/ ڈریگنگ کے نو ، چیروکی قبیلے کا جنگجو سردار، ۱۷۸۶ }
چوتھی تقریر:
“میں مانتا ہوں کہ گوروں میں بہت سےبھلے مانس بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان کے بدقماشوں کے مقابل ایسوں کی تعداد کچھ بھی نہیں۔ اور زیادہ طاقتور بدقماش ہی رہے ہوں گے کیونکہ حکمرانی ایسے لوگوں ہی کی ہے۔ وہ جو جی میں آئے کرتے ہیں، اپنے سے مختلف رنگ کے لوگوں کو اپنا غلام بنالیتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسی روحِ عظیم کی مخلوق ہیں جس نے خود انہیں پیدا کیا ہے۔ جسے وہ غلامی کی زنجیر نہ پہناسکیں اسے مارڈالتے ہیں۔ ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ۔ یہ لوگ ہم سرخ ہندیوں کی طرح نہیں جو صرف جنگ کے دوران دشمنی کرتے ہوں اور امن کے زمانے میں دوست بن جاتے ہوں۔ کسی ہندی سے بات کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے “دوست” اور “بھائی ” کہہ کر پکاریں گے لیکن ساتھ ہی ، اسی لمحے، اسے ماربھی ڈالیں گے۔{ عیسائی بن جانے والے سرخ ہندیوں سے}ایک دن آئے گاکہ تمہاراحشر بھی ایسا ہی ہوگا
یاد رکھنا کہ آج میں نے تمہیں ایسے دوستوں سے ہوشیار رہنے کا انتباہ کردیا ہے۔میں ان کی لمبی لمبی تلواریں دیکھ چکا ہوں
ان لوگوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔”
{پاچھگانٹ شیلیاس-ڈیلاوئیرقبیلہ، ۱۷۸۶}
پانچویں تقریر:
“تمہارے جرگوں کے لیے مکان تعمیر کیے جاتے ہیں، سرخ فام ہندی اپنے جرگے کھلی فضا میں منعقد کرتے ہیں۔ میرا تعلق شاونی قبیلے سے ہے۔ میرے آباء و اجداد سپاہ گر تھے میں بھی سپاہ گر ہوں۔ اپنا وجود مجھے انہی سے ملا ہے۔ اپنے قبیلے سے میں کچھ نہیں لیتا۔ میں جوکچھ بھی ہو ں اپنے بل بوتے پر ہوں۔ جب میں اس روحِ عظیم کا خیال دل میں لاتا ہوں جس کی ہم سب پر حکمرانی ہے تو خواہش کرتا ہوں کہ اپنے لوگوں کو میں اپنے تصورات کے مطابق طاقتور بنا سکتا۔ میں گورنر ہیریسن سے یہ نہیں کہوں گا کہ معاہدے کو چاک کردے۔ ہاں یہ ضرور کہوں گا کہ بھائی تم اپنے ملک واپس جاسکتے ہو۔”
ہم ہندیوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی زمینیں سب کی مشترکہ ملکیت سمجھنے دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ تم انہیں اس سے روکنا چاہتے ہو۔ تم قبائل کو الگ الگ کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہو۔ ہندی قبائل کے درمیان یہ امتیاز قائم کرکے اور ہر قبیلے کو ایک خاص قطعہء زمین دے کر ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہو۔ تم کبھی ہندیوں کو گوروں کے ساتھ ایسا کرتے نہیں دیکھو گے۔ تم انہیں مسلسل کھدیڑتے جارہے ہو۔ بالآخر تم انہیں جھیل تک سرکا دوگے جہاں نہ وہ رہ سکیں گے نہ کچھ کام کاج کرسکیں گے۔
ٹپیکینو پر رہائش پذیر ہونے کے بعد سے ہم نے تمام امتیازت کو ختم کرنے، اور شریر سَرپنچوں کے خاتمے کی کوشش کی ۔ امریکیوں کو زمین فروخت کرنے والے وہی تھے۔ بھائی، اس زمین کو فروخت کرنےاور اس کے بدلے چیزیں دینے والے چند لوگ ہی تھے۔ لیکن آئندہ ایسا کرنے والے کو ہم ضرور سزاد یں گے۔اور اگر تم لوگ زمین خریدنے سے باز نہ آئے تو قبائل کے درمیان جنگ بھڑک اٹھے گی اور میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نتائج گوروں کے لیے کیا ہوں گے۔
بھائی میری خواہش ہے کہ تم سرخ ہندیوں پر رحم کھاؤ اور میری درخواست پر عمل کرو۔ اگر تم نے زمین پر قبضہ نہ چھوڑا اور ہماری موجودہ آبادی کی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی تو بہت مشکل پیدا ہوجائے گی اور ہمارے درمیان بہت سے مسائل جنم لیں گے۔
اس برائی کو روکنے کا راستہ، واحد راستہ یہی ہے کہ تمام سرخ ہندی اکٹھے ہوکر زمین پر مشترکہ حق کا دعوی کریں۔اب بھی بالکل ویسے ہی ہونا چاہیے جیسے پہلے تھا۔زمین کبھی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ سب پر اس کا یکساں حق سمجھا جاتا تھا۔ کسی قبیلے کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ، جب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے ہاتھ بھی زمین فروخت نہیں کرسکتا تو اجنبیوں کے ہاتھ کیسے فروخت کرسکتا ہے۔ تم کہتے ہو ہم زمین بیچ دیں کیا خیال ہے فضا ، سمندر بھی نہ فروخت کردیئے جائیں؟کیایہ سب روحِ عظیم نے اپنے بچوں کے استعمال کی خاطر پیدا نہیں کیا؟
ہم گوروں پر کیونکر اعتماد کرسکتے ہیں؟جب میسحؑ زمین پر اتارے گئے تو تم لوگوں نے انہیں قتل کردیااور صلیب پر ان کے جسم میں کیلیں ٹھونک دیں۔ تم نے سمجھ لیا کہ وہ مر گئے، حالانکہ تم غلطی پرتھے۔ تم میں سے کچھ کویکر ہیں جن پر تم ہنستے اور جن کی عبادت کا تم مذاق اڑاتے ہو۔ میں نے تمہیں جوکچھ بھی بتایا ہے وہ سب سچ ہے۔ روحِ عظیم نے یہ سب باتیں مجھے الہام کی ہیں۔
آج پیکو {قبیلے کے لوگ} کہاں ہیں؟ ناراگانسیت ، موہیکان ، پوکانیت اور ہماری قوم کے دیگر طاقتور قبائل کیا ہوئے؟یہ سب گورے کی حرص اور ظلم کے باعث صفحہء ہستی سے بالکل اسی طرح مٹ گئے جیسے گرما کے سورج کے سامنے برف پگھل جاتی ہے۔ کیااب اپنی نسل کے شایانِ شان جدوجہد کیے بغیر مٹ جانے کی باری ہماری ہے؟ کیا ہم روحِ عظیم کی عطاکردہ زمین اور گھروں سے یوں ہی، بغیر کسی مزاحمت کے دست بردار ہوجائیں گے؟ پرکھو ں کی قبریں اور ہر وہ شے جسے ہم قابلِ قدر اور مقدس گردانتے آئے ہیں، ان کے حوالے کردیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے ساتھ یک آواز ہوکر کہیں گے: “کبھی نہیں! کبھی نہیں!”۔
چوکتا اور چکاسکا قبیلے والو! امن کے دھوکے اور جھوٹی امیدوں سے باہر نکل آؤ۔ جاگ جاؤ۔ کیا ہمارے آباؤ اجداد کی قبروں پر ہل چلا کر انہیں کھیتیوں میں تبدیل کردیا جائے گا؟”
{۱۸۱۰ میں تیکومسیہ نے گورنر ڈبلیو ایچ ہیریسن کے سامنے ۱۸۰۵ سے ۱۸۰۶ کے دوران ہونے والی زمینو ں کی خریدو فروخت پر شدید احتجاج کیا۔ اس موقعے پر اس نے گورنر کے مکان کے اندر داخل ہونے سے انکار کردیاکیونکہ گورنر اور دیگر افراد نشے کی حالت میں تھے}
چھٹی تقریر:
“بھائیو، ہم نے اپنے عظیم باپ {امریکی صدر} کی گفتگو سنی؛نہایت رحمدلی کی گفتگو تھی۔ وہ اپنے سرخ فام بچوں سے بھی پیار جتلاتا ہے۔ ۔۔
گورا جب پہلے پہل وسیع و عریض پانیوں کے پار سے یہاں پہنچا تو وہ نہایت منحنی اور کمزور ساتھا۔ اپنے بڑے سے جہاز پر مسلسل بیٹھے رہنے کے باعث اس کی ٹانگیں شل ہوچکی تھیں ۔ وہ صرف چپہ بھر زمین کی بھیک مانگتا تھا۔ جب وہ ساحلوں پر پہنچا تو سرخ فام ہندیوں نے اسے زمین دی اور اسے آرام پہنچانے کے لیے الاو روشن کیے۔ پر ہندیوں کی آگ سے خود کو گرما لینے اور ان کے دلیے سے اپنا پیٹ بھرلینے کے بعد وہ ایک دم بہت قد آور ہوگیا، نہ تو پہاڑی چوٹیا ں اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں نہ میدان اور نہ ہی وادیاں۔ مشرق ومغر ب کے سمندر اس کی دسترس میں آگئے۔ پھر وہ ہمار ا عظیم باپ بن گیا۔ اسے اپنے سرخ فام بچوں سے پیار تھا۔ اسی لیے وہ ہم سے کہنےلگا: “تم لوگ کچھ پیچھے کی طرف چلے جاؤ اور وہاں اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈو، کہیں غلطی سے میں تمہیں روند نہ ڈالوں”۔
ایک پاؤ ں سے اس نے سرخ فام ہندیوں کو “اوکُونی{جنوبی کیرولینا}” سے پرے کھدیڑا اور دوسرے پاؤں سے اس نے ہمارے پرکھوں کی قبریں روند ڈالیں۔
ایک مرتبہ وہ یوں گویا ہوا: ” مزید آگے چلے جاؤ۔ اوکونی اور اوکملگی{جارجیا} سے بھی پرے نکل جاؤ۔ وہاں بڑی خوبصورت جگہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہوجائیں گی۔ ” اب وہ کہتا ہے :’جس زمین پر تم رہائش پذیر ہو، وہ تمہاری نہیں۔اب تم مسی سیپی سے بھی آگے نکل جاؤ، وہاں تمہیں بہتیرا شکا ر مل جائے گا۔ جب تک گھاس اگتی اور دریا بہتے رہیں گے تمہیں وہاں سے کوئی نہیں نکالے گا۔ ”
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمار ا عظیم باپ وہاں بھی نہ آن پہنچے گا؟ وہ اپنے سرخ فام بچوں سے پیار کرتا ہے اور اس کی زبان دوغلی نہیں۔
بھائیو۔ میں اپنے عظیم باپ کی متعد د تقاریر سن چکا ہوں۔ ان کی ابتداء و انتہا یہی رہی ہے: تھوڑے پرے ہٹ جاو، تم لوگ مجھ سے کچھ زیادہ ہی قریب ہو۔
بس۔، میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ ”
{ اسپیکلڈ اسنیک، کریک قبیلے کا بوڑھا سردار۱۸۲۹ میں صدر اینڈریو جیکسن کی سرخ ہندیوں کو مسی سیپی سے آگے چلے جانے کی ہدایت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے۔}
ساتویں تقریر:
“درختوں کے اس جھنڈمیں شکار کھیلتے اور اس ندی میں مچھلیا ں پکڑتے مجھے ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اس زمین پر میں نے برس ہا برس پرستش کی ہے۔ شکار کی تلاش میں ہمارے آباو اجداد اس سبزہ زار کے طول و عرض کو طے کرتے تھے ۔ یہ ورثہ ہمیں انہی سے عطا ہوا۔ مجھ سے بڑھ کر اپنے دیس سے پیار کسے ہوگا؟ اسے چھوڑنے پر تم سب سے زیادہ دکھ مجھے ہے۔ لیکن وہ وقت آیا چاہتا ہے حب جنگل کے سرخ فام باسیوں کو اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ڈوبتے سورج کے پاس کہیں نیا ٹھکانہ ڈھونڈنا ہوگا۔ مشرق سے آنے والے ریت کے ذرو ں کی مانند لاتعداد گورے، ہمیں روند کر ہماری زمینوں پر قابض ہوجائیں گے۔وہ ہر طرف جھگیاں لگا کر نئے گاؤں بسائیں گے اور ان کی سلطنت ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک پھیلی ہوگی۔
اپنے لڑکپن میں میں سبزہ زاروں میں ارنے بھینسوں کا تعاقب اور گوزنوں کا شکار کرتا رہا، اب یہ سارے جانور کیا ہوئے؟ زمانے ہوئے وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکے۔ گوروں کی بُو پاتے ہی وہ سب ڈر کر بھاگ گئے۔ اب ہرن اور فیل مرغ جائیں گے اور ان کے ساتھ بیابان زادے۔
گوروں کی جارحیت کے سامنے مزاحمت کرنا بے فائدہ ہے۔جنگ برائی ہے جس سے ہماری تباہی کے سوا کچھ نہ نکلے گا۔ اس لیے آئیے اپنی تقدیر کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیں اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیں ورنہ ہم روحِ عظیم کو ناراض کربیٹھیں گے اوراپنی بربادی کا باعث بنیں گے۔ ہماری نسل کے مٹ جانے کا وقت آن پہنچا ۔ دنیا کو یہ بتانے کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچے گا کہ کبھی ہم بھی موجود تھے۔ لیکن اتنا میں ضرور جانتا ہوں، میرے اندر موجود رہبر نے مجھے روحِ عظیم کی منشاء بتادی ہے۔ وہ مجھے بتاتا ہے کہ اچھے سرخ فام انعام پائیں گےاور بروں کو سزا ملے گی ۔دوستو سیاہ عقاب کی {انگریزوں سے لڑائی کا داعی ایک سرخ فام قائد} باتوں پر کان مت دھرناکہ وہ تمہیں گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ اپنے ہاتھو ں کو انسانی خون سے آلودہ نہ کرو، کہ یہ شیطانی کام ہےاور اس سے تمہاری اپنی تباہی کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔ ”
{سیناچوائن، پوٹا واٹومی قبیلے کا سردار، ۱۸۳۰}
آٹھویں تقریر:
“گوروں کو ہمارے بزرگوں نے پہلی بار ستر سردیاں پہلے دیکھا تھا۔ جب وہ پہلے پہل آیا تو ہم بہت خوش تھے۔ ہم نے سوچا کہ وہ روشنیوں کے دیس سے آیا ہے لیکن حقیقت کھلی تو معلوم ہوا کہ وہ توشام کے دھندلکے کی مانند آتا ہے، صبح کے جھٹ پٹے کی طرح نہیں۔اس کی آمدروزِ گزشتہ جیسی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے مستقبل پر تاریکی چھا جاتی ہے۔ جس طرح میرے گھوڑے چُرا کر ان کی دونوں جانب وہ اپنے نام کا داغ کردیتا ہے ، ااس کے ماتھے کو “رہزنی” اور “جھوٹ “کے الفاظ سے داغ دیناچاہیے۔ اگر آسمانوں کے مالک نے اس کے دھتکارے ہوئے ہونے کی کوئی نشانی اس کے جسم پر ثبت کررکھی ہوتی تو ہم بھی اس پراپنے دروازے بند کردیتے۔نہیں، اس کی کمزوری کے عالم میں ہم نے اسے ٹھکرایا نہیں۔ اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اسے کھلایا پلایا، اس کی قدر کی۔ ہاں، ہم نے اس سے دوستی کر لی اور اپنے یہاں کے گھاٹ اور گھاٹیوں کی سیر کرائی۔ اس نے کیا کیا؟ ہماری ہڈیوں سے قبریں بھر دیں۔ اس کے گھوڑوں، گائے بکریوں، مردو ں عورتوں سے سڑاند اٹھتی ہے۔ کیا اس کے سانسوں اور مسوڑھوں سے بدبو نہیں آتی ؟ اس کے جبڑے دانتوں سے عاری ہوجا ئیں تو وہ انہیں مصنوعی دانتوں سے سجا لیتاہے۔ کیا اسے ذرا بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی؟ بالکل نہیں، اس کا توراستہ ہی تخریب وانہدام ہے۔ جس روحِ عظیم نے ہمیں یہ دیس عطا کیا ، اس کی بنائی ہوئی ہر خوبصورت اور صاف چیز کو یہ آلودہ کردیتا ہے۔
اس کے بنائے قوانین کی بدولت ہمیں کبھی گھاس کا ایک تنکا، درخت، بطخ، ہنس یا مچھلی تک نہیں ملی۔ وہ بار بار آتا ہے۔ تم لوگ جانتے ہوکہ جب تک وہ زندہ ہے آتا رہے گا اور ہم سے مزید چھینتا رہے گا اورباقی رہ جانے والی ہر چیز کو گندہ کرتا جائے گا۔
گورا اپنے جلو میں یہی بربادی ، ہم پر اور باقی رہ جانے والے لوگوں پر یہی لعنت مسلط کرتا ہے۔یہ ، ہماری بربادی کی وجہ، خود اپنا سانپ ہے، وہی سانپ جس نے اس کی ماں کو اس کے وطن میں دھوکا دے کر اس سے کچھ چرایا تھا۔ وہ اپنی کہانی سناتا ہے کہ انسان کو دھتکار دیا گیا تھا۔ پھر ہم نے بھی اسے کیوں ہمیشہ کے لیےدھتکار نہ دیا؟ وہ کہتا ہے کہ اس کی نجات کی خاطر ایک کنواری کا بچہ مصلوب کردیا گیا تھا۔ کاش اس بچے کے ساتھ سب گورے بھی مرگئے ہوتے تو ہم بھی آج محفوظ ہوتے اور ہمارا دیس ہمارے پاس ہی رہتا۔”
{ سردار شارلٹ نے ۱۸۷۶ میں اپنی قوم سے گوروں کے متعلق خطاب کیاتھا جب وہ انہیں ان کے آبائی وطن، مونٹینا، سے نکالنا چاہتے تھے۔ }
نویں تقریر:
“دیکھو میرے بھائیو بہار آگئی ، زمین سورج سے بغل گیر ہو چکی اور جلد ہی ہم اس پیار کے پھل دیکھ لیں گے۔ ایک ایک بیج جاگ چکا ہے اور ایک ایک جانور بھی ۔ ہماری ہستی بھی اسی پُراسرار طاقت کی مرہونِ منت ہے اسی لیے اس زمین پر رہنے کا حق ہم اپنے سب پڑوسیوں کو دیتے ہیں خواہ وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں ۔
مگراب، اے لوگو! ہمارا پالا ایک مختلف نسل سے پڑا ہے۔ جب ہمارے پُرکھوں نے انہیں پہلے پہل دیکھا تو یہ لوگ بہت کمزور اور منحنی سے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی طاقت اور جبر کی کوئی حد نہیں۔حیرت ہے کہ ان لوگوں کو زمین کاشت کرنے کا دماغ بالکل نہیں لیکن چیزوں کی ملکیت کی محبت ان میں ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے بے شمار قوانین بنارکھے جنہیں دولتمند جب چاہیں توڑ سکتے ہیں لیکن مفلس کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ ان کا مذہب ایسا ہے جس میں غریب تو عبادت کرتے ہیں لیکن امیر نہیں کرتے۔ بلکہ یہ لوگ غریبوں سے عشر لے کر دولتمندوں اور حکمرانوں کو دیتے ہیں۔وہ ہماری اس دھرتی ماتا کے مالک ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور پڑوسیوں کو اس سے دور رکھنے کے لیے باڑیں لگاتے پھرتے ہیں، اور اپنی عمارتوں اور فضلے سے اس کا چہرہ بگاڑتے ہیں۔ وہ اسے بے موسمی فصل پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور جب وہ بانجھ ہوجائے تو اس کی کوکھ پھر سے ہری کرنے کے لیے اسے طرح طرح کی دوائیں دیتے ہیں۔ یہ سب اس کی بے حرمتی کے مترادف ہے ۔ یہ قوم ایک ایسی سیلابی ریلے کی مانند ہے جو کناروں کو توڑ کر راستے میں آنے والی ہر شے کو فنا کرتا جاتا ہے۔ ہم او ر یہ لوگ کبھی ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔ سات سال قبل ہم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے انہوں نے ارنے بھینسو ں سے معمور علاقہ ہمیشہ کے لیے ہمیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ہمیں اس سے بھی محروم کردینے کی دھمکیا ں دی جارہی ہیں ۔ میرے بھائیو !کیا ہم سرِتسلیم خم کردیں گے؟ یا انہیں جواب دیں گے کہ میرےآباء و اجداد کی زمین پر قابض ہونے سے پہلے تم کو ہمیں ختم کرنا ہوگا؟”
{سیوُ قبیلے کےجنگجو سردار ، یاتانکا توتانکا/ سیٹنگ بُل،نے ۱۸۷۷ میں دریائے پاوڈر کے مقام پر منعقد مجلس سے خطاب کیا۔ ۱۸۶۹ سے ۱۸۷۶ تک وہ مسلسل لڑتا رہا ۔ مذکورہ بالا مقام پر واقع سیاہ پہاڑ وں میں سونا دریافت ہونے کے بعد اس کے قبیلے کو وہ علاقہ چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا۔ اسی حکم پر صلاح مشورے کے لیے دریائے پاوڈر پر ایک قبائلی اجتماع منعقد کیا گیا تھا۔ سوانح نگاروں کے مطابق سیٹنگ بُل ، جسے اپنی دھرتی سے بے انتہا محبت تھی، کہا کرتا تھا کہ صحت مند پاؤں دھرتی کی دھڑکن تک سن سکتے ہیں، اسی لیے وہ صبح سویرے جاگ کر شبنم پر چہل قدمی سے اپنے پاؤں دھونے کا عادی تھا۔ }
دسویں تقریر:
“ہائے ہائے، افسوس، ہائے!
جب بوڑھےیہ دیکھتے ہیں کہ کہ اب وہ پہلے کی طرح نہ تو توانا رہے ہیں اور نہ ہی آزاد تو ان کے منہ سے یہی الفاظ برآمد ہوتے ہیں۔ اورآج ہمارے پاس بھی اسی طرح اظہارِ افسوس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہر شے کا ایک وقت مقرر ہے۔ ذرا ایک لمحہ سوچو خود ہم نے کتنے لاتعداد حیوانوں کے قبائل تباہ کیے ہیں۔ آج پڑنے والی برف پر ذرا نظر ڈالو۔کل یہ پانی بن کر ختم ہوچکی ہوگی۔ خشک پتوں کی چرچراہٹ تو سنو۔ چند ماہ قبل یہ سرسبز اور زندگی سے بھرپور ہوا کرتے تھے۔ ہم بھی اسی زندگی کا حصہ ہیں اور لگتا ہے کہ ہمارا وقت بھی آگیا۔
لیکن یہ بھی دیکھو کہ ایک قوم کا زوال کیونکر کسی اور قوم کے لیے نئی زندگی کا پیغام بن جاتا ہے۔ یہ عجیب وغریب گورے—ذرا ان کے بارے میں غور کرو۔ انہیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا گیا ہے۔ان کے اَن تھک دماغ اورہمہ وقت مصروف ہاتھ اپنی نسل کے لیے حیرت انگیز چیزیں تیار کرتے ہیں ۔ جن چیزوں کو ہم بے کار گردانتے ہیں ، اس کی نظر میں وہ کسی خزانے سے کم نہیں ۔ مگروہ اس قدر عظیم اور بارآور ہے کہ ضرور اس میں کوئی خوبی اور اس کے فلسفے میں سچائی ہوگی۔ دوستو میں تم سے بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جوشیلے دلائل اورانتقامی جذبات کے جھانسے میں مت آنا۔ یہ سب نوجوانوں کی باتیں ہیں اور ہم اب جوان نہیں رہے ۔ بوڑھےہو چکے ہیں۔ ہمیں اچھے طریقے سے سوچنا اور بڑے بوڑھو ں کی طرح رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔ ”
{لاکوٹا قبیلے کے سردار گلیشکا ، جوانی میں گوروں کے خلاف کئی جنگوں میں حصہ لیا لیکن ادھیڑ عمری میں کسی بھی طرح کی مزاحمت کے بے فائدہ ہونے کا دل سے قائل ہونے کے باعث کئی امن معاہدوں کا حصہ بنا۔ جنگجو سرداروں نے اسے غدار قرار دیا لیکن چارلس ایسٹ مین کے بقول ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں وہ اپنے قوم کو زیادہ سے زیادہ حقوق دلوانے کی نیت سے امن کی سرگرمیوں کا حصہ رہا۔ }
گیارھویں تقریر:
“اے عظیم باپ ! آپ سے ملنے میں نے ایک لمبا سفر طے کیا اور بالآخر آپ سے میری ملاقات ہو ہی گئی۔ میرا دل خوشی سے سرشارہے۔ آپ کے الفاظ ایک کان سے تو ضرورسنے لیکن وہ دوسرے کان سے باہر نہیں نکلیں گے ؛میں انہیں اپنی قوم تک بلا کم و کاست پہنچا ؤں گا۔
عظیم باپ اگر اس وقت میں یہاں موجود ہوں اورآپ لوگوں ،آپ کی رہائش گاہوں، جھیل میں تیرتی آپ کی بڑی بڑی کشتیوں اور روحِ عظیم کی پیدا کی ہوئی اور اس کی جانب سے تمہیں عطاکی گئی اپنی سمجھ سے بڑھ کر کئی عالی شان چیزیں دیکھ پایا ہوں تو اس کے لیے میں اپنے باپ { میجر بنجمن او فالون} کا مقروض ہوں جس نے مجھے یہاں بلایا اور جس کے پروں تلے میں بحفاظت یہاں پہنچا۔لیکن ایک عظیم باپ اور بھی ہے جس کا میں بے حد مقروض ہوں، اور وہ ہم سب کا باپ ، روحِ عظیم ہے۔ روحِ عظیم نے ہم سب کو پیدا کیا، اس نے میری جلد کو سرخ اور تمہاری جلد کو سفید بنایا ۔ اسی نے ہمیں اس زمین پر بسایا اور چاہا کہ ہم ایک دوسرے سے مختلف اندازمیں زندگی بسر کریں۔ اس نے سفید فام لوگوں کو کھیتی باڑی پر لگایااور گھریلو جانوروں کے گوشت سے پیٹ بھرنا سکھایا۔ لیکن ہم سرخ فاموں کو اس نے جنگلوں اور میدانوں میں گھومنا پھرنا ، اور جنگلی جانوروں کو اپنی خوراک بنانا اور ان کی کھالوں سے جسم ڈھانپنا سکھایا۔ یہ بھی اسی کی قضا تھی کہ ہم جنگوں پر نکلیں، کھوپڑیاں جمع کریں، اپنے دشمنوں سے گھوڑے چھینیں اور ان پر فتح پائیں، اپنے ہاں امن قائم کریں اور ایک دوسرے کی بھلائی کی کوشش کریں۔
میرے عظیم باپ۔ تم لوگوں کے کئی اچھے قائدین نے، جنہیں مشنری کہاجاتا ہے، اپنے کچھ لوگ ہمارے ہاں بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاکہ وہ ہمارے عادات واطوار کو بدل سکیں اور ہمیں سفید فام لوگوں کی مانند کام کرنا اور زندگی بسر کرنا سکھائیں۔تم لوگوں کو اپنے وطن سے اپنی قوم سے اور اپنے طرزِ زندگی سے محبت ہے اور تم اپنے لوگوں کو بہادر سمجھتے ہو۔ لیکن ، عظیم باپ ، میں بھی تو تم لوگو ں جیسا ہی ہوں، اپنے دیس ، اپنے لوگوں، اپنےطور طریقوں سے پیار کرتا ہوں۔ مجھے بھی اپنے لوگ بہادر لگتے ہیں۔اس لیے ، عظیم باپ ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور اپنے دیس میں زندگی سے لطف اندوز ہونے دو ۔
میں تمہارے لوگوں کےساتھ جانوروں کی کھالوں کا تبادلہ کروں گا۔ میری عمر کافی زیادہ ہوچکی ہے اور میں کام کاج کے بغیر ایک لمبی زندگی گزار چکا ہوں، مجھے امید ہے کہ تم اس کے بغیر ہی مجھے مرنے دو گے۔ بھینسیں ،ہرن اور دوسرے جنگلی جانور ہمارے پاس بہتیرے ہیں، گھوڑوں کی بھی ہمیں کوئی کمی نہیں۔ ہماری ضرورت کی ہر شے ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس زمین بھی بہت ہے، بشرطیکہ تم اپنے لوگوں کو اس سے دور رکھو۔
ایک زمانہ تھا جب ہم سفید فاموں سے واقف نہ تھے، تب ہماری ضروریات اب کی نسبت بہت کم اور ہمارے قابو میں تھیں۔تب ایسی کوئی شے نہ تھی جو ہم حاصل نہ کرسکتے ہوں۔ شکار کو اس قدر برباد کرنے والے سفید فام لوگوں سے واسطہ پڑنے سے قبل صورت حال یہ تھی کہ ہم آرام و سکون سے سوتے اور اٹھنے پر اپنے خیموں کے نزدیک ہی ہمیں شکار مل جاتا۔ لیکن اب ہم ان جانوروں کو ان کی کھالوں کی خاطر مار رہے ہیں اور ان کا گوشت بھیڑیوں کو کھلارہے ہیں ، جب کہ ہمارے بچے ان کی ہڈیوں پرروتے جھگڑتے ہیں۔
میرے عظیم باپ ، لیجئے، میں آپ کی خدمت میں ایک پائپ پیش کررہا ہوں ، بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے ساتھ پُر امن تعلقات رکھنے والے سفید فاموں کو پیش کرتے آئے ہیں۔ اس میں بھر ا تمباکو وہی ہے جو سفید فام لوگوں کے آنے سے قبل ہم استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ خوشگوار ذائقہ رکھتا اور ہمارے وطن کے دوردراز حصوں میں خود رو بوٹی کی طرح اگتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ چیزیں آپ کی نظر میں زیادہ قدروقیمت نہیں رکھتیں، لیکن پھر بھی ہم چاہیں گے کہ آپ انہیں قبول کریں اور محفوظ کرکے اپنے ہاں کسی واضح مقام پر رکھ دیں تاکہ جب ہم نہ رہیں اور ہماری ہڈیوں {قبروں }پر گھاس اُگ آئے اور اگر ہمارے بچے اس جگہ آئیں جس طرح آج ہم آئے ہیں تو وہ دیکھ سکیں اور خوش خوش اپنے آباو اجداد کی یادگاروں کو پہچان سکیں اور گزرے زمانے پر غور وفکر کرسکیں۔
{۱۸۸۲ میں صدرِ امریکا جیمز منرو سے ملاقات کے موقع پر سردار شاری تارِش کی تقریر }
مآخذ :
اسپاٹڈ ٹیل کی تقریر کا متن درجِ ذیل کتاب سے لیا گیا:
Charles Eastman (Ohiyesa), INDIAN HEROES AND GREAT CHIEFTINS, Boston: Little Brown &Company, 1939
دیگر تمام تقاریر کا مصدر :
Frederick W. Turner III, THE PORTABLE NORTH AMERICAN INDIAN READER, New York: Penguin, 1974