لامتناہیت اور ماورا: ایڈریان ولیم مور (ترجمہ: عاصم رضا)
نوٹ: ایڈریان ولیم مور (A. W. Moore) کانٹ ، وٹگنسٹائن، تاریخ ِ فلسفہ و ریاضی ، مابعد الطبیعیات اور الہیٰات میں گہری دلچسپی کے حامل اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے وابستہ فلسفہ کے پروفیسر ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر لامتناہی کے بارے میں اُن کے انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔
1883ء میں ایک لائق فائق جرمن ریاضی دان جارج کانٹر نے لامتناہی کے بارے میں پہلے منضبط ، مربوط ، اور ریاضیاتی نظریہ کو پیش کیا ۔ اس وقت تک ہونے والی تحقیقات کے برعکس یہ ایک غیرمعمولی ذہانت کا کام تھا اور چند شاندار نتائج کا حامل تھا۔ کانٹر نے دکھایا کہ لامتناہیت کی چند اقسام دوسروں سے بڑی ہیں نیز ہم ان متفرق لامتناہی جسامتوں کی پیمائش کے لیے ریاضیاتی آلات کو وضع کر سکتے ہیں اور ان کو مختلف حسابات میں استعمال بھی کر سکتے ہیں ۔ اس کو نہ صرف وجدان بلکہ اس زمانے تک (انسانیت کو ) حاصل ہونے والی ریاضیاتی دانش پر حملہ سمجھا گیا تھا ۔ میں اگلی سطور میں کانٹر کی تحقیق کے چند بنیادی خصائص کو بیان کرنے کی کوشش کروں گا بشمول اس کے سب سے اہم ترین نتیجے کے جو ’’کانٹر کے مسلم الثبوت دعویٰ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔ تاہم اس سے پہلے میں ایک مختصر تاریخی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے کام کو کیونکر روایت شکن سمجھا گیا تھا۔ آخر کار ، میرا مقصد یہ دکھانا ہے کہ درحقیقت (کانٹر کے کام کی ) یہ تفہیم غلط تھی ۔ میں اس نکتے پر بات کروں گا کہ کانٹر کی تحقیق نے (اس زمانے تک ) حاصل کردہ ریاضیاتی دانش پر چڑھائی کرنے کی بجائے درحقیقت اس کو تقویت بخشی ۔
لامتناہی کا مسلمہ تصور یہ ہے کہ وہ شے جو بے انت ، لامحدود، بے کنار اور بے پایاں ہے ۔ تاریخ ِ فکر کی ابتداء ہی سے لوگ الجھن ، تشکیک ، کشش اور دھیان کے ایک متجسس ملاپ کے ہمراہ لامتناہی کے ساتھ معاملہ کرتے آئے ہیں ۔ ایک جانب ، وہ تعجب کا شکار ہوئے ہیں کہ کیا ہم لامتناہی کو سمجھ سکتے ہیں : کیا فطری طور پر اس کے لیے لازم نہیں ہے کہ ہماری متناہی گرفت سے بچ نکلے ؟ دوسری جانب وہ اس کو یکسر نظر انداز کر دینے کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہے ہیں اگرچہ ایسا کر نہیں پائے ۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو نے ایک تفریق پیدا کرتے ہوئے اس گومگو کی حالت سے چھٹکارا پانے کا حل تجویز کیا۔ وہ اس پر یقین رکھتا تھا کہ صرف ایک ہی قسم کی لامتناہیت کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے اور دوسری قسم تو حقیقت کی ایک بنیادی اور معروف خوبی ہے ۔ اول الذکر کو اس نے ’واقعاتی‘ (یا اصلی) کا عنوان دیا ۔ موخر الذکر کو اس نے ’امکانی‘ کا عنوان دیا ۔ ’واقعاتی‘ لامتناہی وہ شے ہے جو زمانے میں کسی نقطہ پر وجود رکھتی ہے ۔ ’امکانی‘ لامتناہی وہ شے ہے جو زمانے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ چنانچہ لامتناہی اعتبار سے بڑی مادی شے ایک واقعاتی لامتناہی کی مثال ہو گی اگر ایسی کوئی شے وجود رکھتی تھی ۔ اس کا لامتناہی حجم بیک وقت وجود رکھتا ہو گا ۔ دوسری جانب ، متواتر ٹک ٹک کرنے والی گھڑی امکانی لامتناہی کی ایک مثال ہو گی ۔ اس کی لگاتار ٹک ٹک ہمیشہ ادھوری ہو گی : گھڑی خواہ کتنے ہی وقت سے چل رہی تھی ، اس کو مزید وقت کے لیے ہمیشہ چلتے رہنا ہو گا ۔ ارسطو نے سوچا کہ واقعاتی لامتناہی سے متعلق کوئی گہرا مسئلہ درپیش تھا خواہ وہ مربوط نہیں تھا ۔ تاہم اس کے خیال میں کسی بھی متواتر عمل میں امکانی لامتناہیاں اپنے آپ کو تسلیم کروانے کو وجود رکھتی تھیں جیسا کہ گنتی کا عمل یا کسی شے کو چھوٹے سے چھوٹے اجزاء میں تقسیم کرنے کا عمل یا خود زمانے کا دورانیہ ۔
ارسطو کی تفریق بے حد موثر ثابت ہوئی ۔ بعد ازاں لامتناہی کے بارے میں ہونے والی بحث کے لیے اس کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا مشکل ہے ۔ دو ہزار برس سے زائد عرصہ تک اس کو کم و بیش راسخ الاعتقادی (orthodoxy) کا درجہ حاصل رہا ۔ تاہم ارسطو کے برخلاف ، بعد کے مفکرین نے واقعاتی / امکانی کی تفریق میں کسی زیادہ تجریدی شے کے ضمن میں زمانے کے حوالے کو بطور استعارہ ہی سمجھا ۔ارسطو کے ہاں ملنے والے معانی کی نسبت ’زمانے میں‘ ایک مقام یا کسی جگہ ’’بیک وقت‘‘ موجود ہونے کو زیادہ وسیع معانی حاصل ہوئے ۔ آخرکار ، واقعاتی لامتناہی سے استثناکا مطلب ہی اس بنیادی تصور سے فرار بن ٹھہرا کہ لامتناہی اپنے طور پر ریاضیاتی مطالعہ کا ایک جائز موضوع ہو سکتا تھا ۔
بے شک کانٹر نے قطعیت کے ساتھ یہ کر دکھایا تھا کہ لامتناہی اپنے طور پر ریاضیاتی مطالعہ کا ایک جائز موضوع ہو سکتا ہے ۔ خاص طور پر ، کانٹر نے دکھایا کہ ہم لامتناہی اعتبار سے بڑے مجموعوں کو تسلیم کر سکتے ہیں جیسا کہ اعداد کا مجموعہ(1، 2، 3، 4، 5، 6 وغیرہ وغیرہ) نیز ایسے مجموعوں کے ریاضیاتی خصائص کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں ۔ اس حد تک کہ اس میں ایسے مجموعوں کے ارکان کو ایک ساتھ شامل کرتے ہوئے ، ان کی لامتناہیت کو کسی جگہ ’’بیک وقت‘‘ موجود ہونے کا تصور کر سکتے ہیں ۔
کانٹر کی تحقیق کا مرکزی نکتہ جسامت کے حساب سے مجموعوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا ہے ۔آپ ، ان کے ارکان کو گنتے ہوئے اکثر و بیشتر بتلا سکتے ہیں کہ دو مجموعوں کی جسامت یکساں ہے ۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ آپ ایک میٹنگ میں ہیں اور فرض کیجئے کہ آپ پہلے کمرے میں موجود مردوں کو گنتے ہیں ، بعد ازاں عورتوں کو اور نتیجہ نکلتا ہے کہ دونوں کی تعداد بارہ (کل چوبیس ) ہے ۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ کمرے میں موجود مردوں کے مجموعے کی تعداد عورتوں کے مجموعے کے برابر ہے ۔ تاہم بعض اوقات بغیر گنتی کیے ہوئے بھی آپ بتا سکتے ہیں کہ دونوں مجموعے یکساں جسامت کے ہیں ۔ پس ، فرض کیجئے کہ آپ ایک میٹنگ میں ہیں جہاں آپ اس بات سے ناواقف ہیں کہ کتنے لوگ حاضر ہیں تاہم آپ دیکھتے ہیں کہ مر و خواتین یکے بعد دیگرے ایک میز کے گرد براجمان ہیں ۔ پھر بھی آپ بتا سکتے ہیں کہ کمرے میں موجود مردوں اور عورتوں کےمجموعوں کی تعداد برابر ہے اگرچہ آپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ تعداد میں کتنے ہیں ۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب آپ گنتی نہ کر سکنے کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی بتا سکتے ہیں کہ دونوں مجموعوں کی تعداد یکساں ہے ۔ لہذا آپ جانتے ہیں کہ اب تک پیدا ہونے والے بڑی عمر کے جڑواں بچوں کا مجموعہ اور اب تک پیدا ہونے والے چھوٹی عمر کے جڑواں بچوں کا مجموعہ تعداد میں یکساں ہیں ۔ یہاں بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی ایک مجموعے کے ارکان اور دوسرے مجموعے کے ارکان کے مابین جوڑے بنانا ممکن ہے جیسا کہ یکے بعد دیگرے بیٹھنے والے مردوں اور عورتوں اور جڑواں بچوں کی مثال میں ہے تو دونوں مجموعے تعداد میں یکساں ہیں (یا یکساں جسامت کے ہیں ) ۔
کیا یہی اصول لامتناہی مجموعوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ؟ کانٹر کے مشاہدے میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا ۔ تاہم یہاں سے معاملات عجیب و غریب ہونے لگ پڑتے ہیں ۔ اعداد کے مجموعے (1، 2، 3، 4، 5، 6، وغیرہ وغیرہ ) کو ازسرنو دھیان میں لائیے ۔ اس مجموعے کے ارکان اورجفت اعداد کے مجموعے کے ارکان (2، 4، 6، 8، 10، 12 ، وغیرہ وغیرہ ) کے مابین جوڑے بنائے جا سکتے ہیں کہ ایک کا دو ، دو کا چار، تین کا چھ کے ساتھ جوڑا بنایا جا سکتا ہے اور یہ عمل چلتا رہے گا ۔ پس اگر ہم مذکورہ بالا اصول کو لامتناہی مجموعوں تک لے جاتے ہیں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ تمام (قدرتی ) اعداد کا مجموعہ تعداد میں جفت اعداد کے مجموعہ کے برابر ہے اگرچہ اول الذکر مجموعہ میں جفت اور طاق دونوں اعداد شامل ہوتے ہیں ۔
کچھ لوگ اس جواب کے ساتھ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں کہ لامتناہی مجموعوں کے معاملے میں تقابل ِ جسامت (comparison of size) کو بروئے کار لانے کا کچھ مطلب نہیں بنتا ہے ۔ تاہم یہ کانٹر کا ردعمل نہیں تھا ۔ اس نے اپنی جدوجہد میں ایسےنرالے قدم (anomaly)اٹھائے ۔ اس نے تسلیم کیا کہ زیرِبحث مجموعوں یعنی قدرتی اعداد اور جفت اعداد کے مجموعے بلاشبہ تعداد میں یکساں ہیں ۔ اور، اگرچہ یہ اشتیاق سے بھرپور ہے تاہم بےحد زیادہ آگہی کا محتاج نہیں ہے ۔ آخر کار، غالباً ہم دکھا سکتے ہیں کہ تمام لامتناہی مجموعے تعداد میں یکساں ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ خاص طور پر وجدان دشمن (counterintuitive) نہیں ہے : مجموعے یا تو متناہی ہوں گے اور اس صورت میں ایک اضافی سوال درپیش ہو گا کہ وہ کتنے بڑے ہیں ۔ یا پھر لامتناہی ہوں گے اور اس صورت میں کچھ اضافی نہیں ہو گا ۔ تاہم ذرا توقف کیجئے ! کانٹر کی شاندار دریافت یہ ہے(یہی وہ مقام ہے جہاں معاملہ واقعی بے حد دلچسپ ہو جاتا ہے ) کہ لامتناہی کے تحت بھی متفرق جسامت کا تعین ہوتا ہے ۔ بعض لامتناہی مجموعے دوسروں سے بڑے ہیں ۔ ہم جس قسم کے جوڑے بنانے کا سوچ رہے ہیں ، وہ ہمیشہ کے لیے دستیاب نہیں ہے خواہ دولامتناہی مجموعوں کا معاملہ درپیش ہو ۔
ایسا کیوں نہیں ہے ، یہ دیکھنے کےلیے دوبارہ سے اعداد پر توجہ کرتے ہیں ۔ نہ صرف وہ لامتناہی ہیں بلکہ ان کے مجموعے بھی لامتناہی ہیں ۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں :
جفت اعداد کا مجموعہ
مربعوں کا مجموعہ
ایک سو سے چھوٹے اعداد کا مجموعہ
ایک سو سے بڑے اعداد کا مجموعہ
تیرہ کے عدد سے ٹھیک ٹھیک تقسیم ہونے والے اعداد کا مجموعہ
ایسا مجموعہ جو چھ، سترہ اور دو سو تنتالیس کے اعداد پر مشتمل ہو
تاہم اعداد کے ایسے تمام مجموعوں اورانفرادی اعداد (individual numbers) کے مابین جوڑے بنانا ناممکن ہے ۔ اس بات کو دکھانے کی غرض سے کانٹر کے پاس ایک بصیرت افروز دلیل تھی کہ جب کبھی اعداد کے مجموعوں اور انفرادی اعداد کے درمیان جوڑے بنائے جاتے ہیں تو کم از کم ایک مجموعہ لازماً ایسا ہوتا ہے جس کا جوڑا نہیں بنتا : لہٰذا اعداد کے مجموعے تعداد میں انفرادی اعداد کی نسبت زیادہ ہیں ۔ کانٹر کی دلیل اس امر واقعہ کے ساتھ معاملہ کرتی ہے کہ ایسے جوڑوں کی موجودگی میں کچھ اعداد اسی مجموعے کا حصہ ہوں گے جس کے ساتھ ان کو جوڑا بنایا جائے گا اور کچھ حصہ نہیں ہوں گے ۔ مثال کے طور پر ذرا تصور میں لائیے کہ ایک ایسا جوڑا ہے جس میں مذکورہ بالا چھ مجموعوں اور پہلے چھ قدرتی اعداد کے بیچ درج ذیل نسبت قائم کی جاتی ہے :
1 —- جفت اعداد کا مجموعہ
2 —-مربعوں کا مجموعہ
3 —-ایک سو سے چھوٹے اعداد کا مجموعہ
4 – —ایک سو سے بڑے اعداد کا مجموعہ
5 —-تیرہ کے عدد سے ٹھیک ٹھیک تقسیم ہونے والے اعداد کا مجموعہ
6 —-ایسا مجموعہ جو چھ، سترہ اور دو سو تنتالیس کے اعداد پر مشتمل ہو
پھر ایک کا عدد اس مجموعے سے تعلق نہیں رکھتا جس کے ساتھ اس کو جوڑا گیا ہے کیونکہ یہ بذاتہ جفت نہیں ہے ۔ اس کے برعکس تین کا عدد اس مجموعے سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ اس کو جوڑا گیا ہے کیونکہ یہ بذاتہ سو کے عدد سے چھوٹا ہے ۔ بعینہ چھ کا عدد اس مجموعے سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ اس کو جوڑا گیا ہے کیونکہ یہ اس مجموعے کے تین ارکان میں سے ایک ہے ۔ آئیے، مجموعے سے جڑنے اور ان کا حصہ نہ ہونے والے اعداد کو ’’خارج کردہ‘‘ (excluded)اور حصہ بننے والے اعداد کو ’’مشمولہ‘‘ (included) کہتے ہیں ۔ چنانچہ ایک ، چار، اور پانچ خارج کردہ اعداد ہیں تاہم تین اور چھ دونوں ہی مشمولہ اعداد ہیں ۔ اب خارج کردہ اعداد پر مشتمل ایک مجموعہ بنتا ہے ۔ اور یہ وہی مجموعہ ہے جس کو کسی عدد کے ساتھ نہیں جوڑا گیا ہے : یہ وہی مجموعہ ہے جس کا جوڑا نہ بنانا لازم ہے ۔ کیوں؟ خیر، فرض کیجئے کہ اس کا جوڑا آٹھ سو اکیس کے عدد کے ساتھ بنایا جا رہا ہے۔ بالفاظ ِ دگر ، فرض کیجئے کہ پہلے بنائے جانے والی فہرست کی طرح ہم درج ذیل جوڑا تلاش کرلیتے ہیں :
821—– خارج کردہ اعداد کا مجموعہ
تبھی ایک تضاد جنم لیتا ہے کہ آیا آٹھ سو اکیس کا عدد بذاتہ خارج کردہ عدد ہے یا نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو یہ اس مجموعہ سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ اس کا جوڑا بنتا ہے (خارج کردہ اعداد کا مجموعہ ) لہٰذا یہ ایک مشمولہ عدد ہے ۔ دوسری جانب ، اگر یہ مشمولہ عدد ہے تو یہ اس مجموعہ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا جس کے ساتھ اس کا جوڑا بنتا ہے (خارج کردہ اعداد کا مجموعہ ) لہٰذا یہ ایک خارج کردہ عدد ہے ۔ آٹھ سو اکیس مشمولہ عدد ہے یا خارج کردہ ، اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے ۔
لہٰذا ہمارے لیے اس بات کو تسلیم کرنا لازم ہے کہ اعداد کے مجموعے تعداد میں انفرادی اعداد سے نسبتاً زیادہ ہیں ۔ اور ایک اہم شرط کے ساتھ ہم اس جانب دوبارہ متوجہ ہوں گے کہ در حقیقت ، اس دلیل کو کسی بھی شے پر لاگو کیا جا سکتا ہے : کیلوں کی نسبت کیلوں کے مجموعے ، ستاروں کی نسبت ستاروں کے مجموعے ، مکان کے نقاط کی نسبت مکان کے نقاط کے مجموعے ، کیلوں کے مجموعوں کی نسبت کیلوں کے مجموعوں کے مجموعے زیادہ ہیں ۔ میں نے جس اہم شرط کی جانب دوبارہ توجہ کرنے کا کہا تھا تو وہ یہ ہے کہ عام طور پر کسی نوع کی انفرادی اشیاء کے نسبت ان اشیاء پر مشتمل مجموعے ہمیشہ زیادہ ہیں ۔ یہی کانٹر کا مسلم الثبوت دعوی ہے ۔
تاہم مجموعوں کے مجموعے (set-of-sets)کا کیا ہوا ؟ کیا وہ بھی مجموعوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں ؟ یقیناً یہ ناممکن ہے۔کُلی حیثیت سے مجموعوں کی نسبت کسی شے کے مجموعوں کی تعداد کیسے زیادہ ہو سکتی ہے ؟
یہ ایک تناقض (paradox) ہے ۔ یہ برطانوی فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل کے نام پر مشہور ہونے والے رسل کے تناقض (Russell’s-paradox) سے قریب ہے جو اس نے بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت کیا ۔ رسل کا تناقض اس حقیقت کے ساتھ وابستہ ہے کہ اگرچہ عام طور پر ایک مجموعہ اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے تاہم بعض مجموعے ایسا ہی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ، کیلوں کا مجموعہ ایسا نہیں ہوتا ہے : یہ ایک کیلا نہیں ہے بلکہ ایک مجموعہ ہے ۔ تاہم زیرِ نظر مضمون میں استعمال ہونے والی اشیاء کا مجموعہ ایسا ہی کرتے ہوئے دکھائی دے گا : جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ۔ رسل کا تناقض اول الذکر قسم کے مجموعوں سے تعلق رکھتا ہے : مجموعوں پر مشتمل ایک مجموعہ جو اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے ۔ کیا وہ مجموعہ اپنے آپ سے تعلق رکھتا ہے ؟ جیسے آٹھ سو اکیس کا عدد مشمولہ ہے یا خارج کردہ عدد ، کے سوال کی مانند اس کا بھی کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے ۔
کانٹر ایسے تناقضات کے بارے میں جانکاری رکھتا تھا ۔ تاہم وہ بے پرواہ تھا ۔ اس نے مجموعوں کے حوالے سے ایک قوی اور نسبتاً بدیہی تصور وضع کیا جس کے تحت تناقضات جنم ہی نہیں لیتے ہیں ۔ اس تصور کے مطابق ایک مجموعے کے ارکان کے لیے لازم ہے کہ اس مجموعے سے ’’پہلے‘‘ وجود رکھیں : مجموعہ کو وجود ان (ارکان ) کے طفیل ہے ۔ لہٰذا پہلے کیلے موجود ہیں تبھی کیلوں کا مجموعہ ہے ۔نسبتاً زیادہ وسیع تناظر میں کہیں تو پہلے وہ اشیاء وجود رکھتی ہیں جو بذاتہ مجموعہ نہیں ہیں (کیلے ، ستارے وغیرہ وغیرہ ) اور بعد ازاں ان اشیاء کے مجموعے وجود رکھتے ہیں۔ پھر ان اشیاء کے مجموعے آتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ لہٰذا ، اس تصور کے تحت کوئی مجموعہ اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے کیونکہ ایک مجموعہ اپنے آپ سے ’’پہلے‘‘ موجود نہیں ہو سکتا ہے ۔ (اگر ہم زیرِ نظر مضمون میں بیان ہونے والے اشیاء کے مجموعہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہم کو اس بارے میں زیادہ واضح ہونے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہمارے ذہن میں ’’اشیاء‘‘ سے کیا مراد ہے اور ان میں سے ایک کو ’’بیان کرنے‘‘ کا کیا مطلب ہے ۔ ایک دفعہ ہم ایسا کر لیتے ہیں تو ہم ایسے کسی مجموعہ کو جان لینے کے قابل ہو جائیں گے تاہم یہ اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہو گا ) ۔ مزید براں ، ہر ایک مجموعہ کے بعد نئے مجموعے آتے ہیں جن سے یہ تعلق رکھتا ہے اور وہ اس کے وجود میں آنے کے وقت موجود نہیں تھے ۔ لہٰذا ، تمام مجموعوں پر مشتمل ایک مجموعہ وجود نہیں رکھتا ہے ۔
ایسا کرنا رسل کے تناقض کو ناکام بنا دیتا ہے کیونکہ مجموعوں پر مشتمل مجموعہ جو اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے ، جیسی کوئی شے وجود رکھتی تھی تو وہ تمام مجموعوں پر مشتمل ایک مجموعہ ہو گا (کیونکہ کوئی مجموعہ اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے) ۔ تاہم اس تصور کے مطابق ایسی کوئی شے نہیں ہے ۔ لہٰذا ،مجموعہ اپنے آپ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں ، جیسے سوال کے جنم لینے کا کوئی امکان ہی نہیں بچتا ہے ۔
بعینہ انفرادی مجموعوں کی نسبت مجموعوں پر مشتمل مجموعوں کے زیادہ ہونے کا تناقض سے بچاؤ ہو جاتا ہے ۔ کانٹر کا مسلم الثبوت دعویٰ صرف اس وقت نافذ ہوتا ہے جب مجموعوں کی جسامت کا تقابل کیا جا رہا ہو : یہی وہ اہم شرط ہے جس کا میں نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا تھا ۔ پس ، اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیلوں کی نسبت کیلوں کے مجموعوں زیادہ ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ کیلوں کے مجموعوں پر مشتمل مجموعہ جسامت میں کیلوں کے مجموعہ سے بڑا ہے ۔ اس کے برعکس ، ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مجموعوں کی نسبت مجموعوں پر مشتمل مجموعے زیادہ ہیں ۔ اس کا مطلب ہو گا کہ مجموعوں کے مجموعے پر مشتمل مجموعہ جسامت میں مجموعوں پر مشتمل مجموعہ سے بڑا ہو گا ۔ تاہم کانٹر کے بیان کردہ تصور کے مطابق یہ بات بے معنی ہے ۔ مجموعوں کے مجموعے پر مشتمل مجموعہ اور مجموعوں پر مشتمل مجموعہ دونوں ہی وجود نہیں رکھتے ہیں ۔ لہٰذا ، ان دونوں مجموعوں میں سے کون دوسرے کی نسبت زیادہ بڑا ہے ، اس سوال کے جنم لینے کا کبھی امکان نہیں بنتا ہے ۔
یہاں استعمال ہونے والا مجموعوں کا تصور نسبتا ً بدیہی ہے جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں ۔ تاہم کیا یہ حیرت انگیز طور پر ارسطاطالیسی تصور سے مشابہ نہیں ہے ؟ ایک زمانی استعارہ اس کے ساتھ پیوست ہے ۔ مجموعوں کو ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارکان کے ’بعد‘ وجود کچھ یوں حاصل کر رہے ہیں کہ ’ہمیشہ‘ بہت سوں کو ابھی آنا ہے (ھل من مزید) ۔ کسی ایک کی انفرادی لامتناہیت کے برعکس ان کی اجتماعی لامتناہیت (نوع کے اعتبار سے ) امکانی ہے ، نہ کہ واقعاتی : اس کا وجود ’زمانے پر‘ پھیلا ہوا ہے الاّ یہ کہ ’زمانے میں‘ کسی مقام پر واقع ہوا ہو ۔ مزید براں ، یہی امکانی لامتناہیت ہے جس کا اس نام سے پکارے جانے کا دعوی غالبا ً جائز ہے ۔ ان تصورات کو دھیان میں لائیے جن کو میں نے لامتناہی کے معروف تصور کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا تھا : بے انت ، لامحدود بے کنار اور بے پایاں ۔ یہی تصورات کسی ایک کی بجائے مجموعوں کے کُل سلسلہ پر بہتر انداز سے نافذ ہوتے ہیں ۔ یہ کانٹر کی اسی کامیابی کا نتیجہ ہے کہ اس نے انفرادی مجموعوں کو کڑی ریاضیاتی چھان پھٹک سے گزارا ۔ مثال کے طور پر اس نے دکھایا کہ اعداد کا مجموعہ محدود جسامت کا حامل ہے ۔ کیونکہ اس کے ارکان کی تعداد اعداد کے مجموعوں پر مشتمل مجموعہ کے برابر نہیں ہوتی ۔ اس نے یہ بھی دکھایا (اگرچہ میں اس کی تفاصیل میں نہیں گیا ) کہ اس کی جسامت کو ایک واضح ریاضیاتی قدر دی جا سکتی ہے ۔ لہٰذا ، کیا یہی وہ مفہوم ہے جس کے تحت اس نے ثابت کیا کہ اعداد کا مجموعہ ’’حقیقی‘‘ متناہی ہے نیز ’’حقیقی‘‘ لامتناہی یکسر ہی مختلف قسم کی کوئی شے ہے ؟ کیا اخیر میں اس کے کام نے ارسطاطالیسی روایت کو تقویت نہیں پہنچائی کہ ’حقیقی‘ لامتناہیت کبھی بھی واقعاتی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو لازماً امکانی ہونا چاہیے ؟
اس بات کا امکان ہے کہ آپ درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر آپ اعتراض کریں : اعداد کے مجموعہ کو ’حقیقی‘ متناہی کہنا نہ صرف مسلمہ ریاضیاتی اصطلاحات سے ہٹنے کے متراوف ہو گا بلکہ میری تجویز کے برعکس یہ بیشتر افراد کے اقوال سے بھی دور ہو گا ۔ اور میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ۔ اگر ان اصطلاحوں کو استعمال کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہوں تو بیشر لوگ کہیں گے کہ اعداد کا مجموعہ لامتناہی ہے ۔ تاہم دوبارہ سے بیشتر لوگ کانٹر کی تحقیق سے ناواقف ہیں ۔ بلاشبہ وہ کہیں گے کہ ایک لامتناہی مجموعے کا دوسرے سے بڑا ہونا ناممکن ہے ۔ میرا نکتہ دوسرے لوگوں کی بات کے موافق نہیں ہے ۔ یہ اس شے کے بارے میں نکتہ ہے کہ وہ اپنی ہی بات کو کیسے سمجھیں گے اور کسی مقصد کی خاطر کیسے ان کی تفہیم کانٹر کے نتائج سے ملنے والے صدمہ کو برداشت کرنے کے قابل ہے ۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہے ۔ یقیناً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض لامتناہی مجموعے دوسروں کی نسبت بڑے ہیں جیسا کہ آج کل ریاضی عام طور سے استعمال میں لاتی ہے ۔ تاہم ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اعداد کا مجموعہ متناہی ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی دلیل ہو گی ۔ اس معاملے کی خاطر ، ہم ڈرائنگ بورڈ (ورق ) کی جانب لوٹ سکتے تھے نیز غالباً اس بنیاد پر اعداد کے مجموعہ سے ہی انکار کر سکتے تھے کہ لامتناہی کثیر اشیاء کو ایک مجموعہ میں یکجا کر لینے کا بنیادی تصور ہی لامتناہی کے ایک ’واقعاتی لامتناہیت دوست‘ تصور کی حمایت کرنے کے مترادف ہے ۔ جلد یا بدیر ، کانٹر کے پیش کردہ تصور کی بدولت ہم انہی سطور پر کچھ کہنے جار ہے ہیں : کم از کم ہم یہ کہنے جا رہے ہیں کہ مجموعوں پر مشتمل مجموعہ کوئی شے نہیں ہے ۔ کیوں نہ پہلے ہی کہہ دیا جائے؟
ان تبصروں میں سے کسی ایک کا مقصد بھی اس شے پر دھاوا بولنا نہیں ہے جو ریاضی دان کہتے یا کرتےہیں ۔ میں صرف نسبتاً زیادہ احتیاط سے کام لینے کی تلقین کر رہا ہوں جب ان کے قول و فعل کی تعبیر کرنے کی بات ہوتی ہے اور خاص طور پر جب لامتناہی کے روایتی تصورات پر ان کے قول و فعل کے اثرات کو دیکھنے کی بات ہوتی ہے ۔ کانٹر کے اظہار کے مطابق ، ارسطو اتنا بھی غلط نہیں تھا ۔