لامتناہیت کی مختصر تاریخ: ایڈریان ولیم مور (ترجمہ: عاصم رضا)
نوٹ: ایڈریان ولیم مور (A. W. Moore) کانٹ ، وٹگنسٹائن، تاریخ ِ فلسفہ و ریاضی ، مابعد الطبیعیات اور الہیٰات میں گہری دلچسپی کے حامل اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے وابستہ فلسفہ کے پروفیسر ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے انگریزی مضمون (A-Brief-History-of-Infinity) کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کی مبتدیانہ سعی ہے ۔ پروفیسر ایڈریان کامذکورہ انگریزی مضمون 1995ء میں سائنٹیفک امریکن نامی مجلے میں شائع ہوا ۔
دو ہزار برس تک بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ریاضی دان لامتناہی کی افادیت کے بارے میں بے یقینی کا شکار رہے ۔ یونانیوں اور قرون وسطی کے مفکرین کے وضع کردہ بیشمار چیستانوں نے ان کو قائل کر رکھا تھا کہ لامتناہی پر غوروفکر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا تھا ۔ تبھی 1870ء میں ایک جرمن ریاضی دان جارج کانٹر نے بالائے متناہی ریاضی (transfinite-mathematics)کو متعارف کروایا یعنی علم ریاضی کی ایسی شاخ کو جس نے لامتناہی کے اٹھائے ہوئے تمام تر عقدوں کو بظاہر حل کر دیا تھا ۔ اپنی تحقیقات میں کانٹر نے دکھایا کہ لامتناہی اعداد وجود رکھتے تھے ، مختلف مقداروں میں ہوتے تھے اور ان کو لامتناہی مجموعوں (infinite-sets) کی حد کو ناپنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ تاہم کیا اس نے لامتناہیت سے متعلق ریاضیاتی معاملات کے بارے میں تمام تر شکوک کو واقعی رفع کر دیا ؟ آج کل کے بیشر افراد کے نزدیک اس نے ایسا کر دکھایاتاہم میں یہ نکتہ اٹھاؤں گا کہ دراصل اس نے اس شک کو شاید پھر سے محکم کر دیا ہے ۔
لامتناہیت سے ریاضی دانوں کا سامنا پہلے پہل پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوا جب پارمیندیس کے ایک شاگرد اور ایلیا کے شہری زینو نے ایکلیز اور کچھوے کا معروف چیستان وضع کیا ۔ اس پہیلی میں تیزرفتار نیم دیوتا (demigod) نے ایک سست رو کچھوے کو دوڑنے کے ایک مقابلہ کے لیے للکارا اور اسے آغاز میں خود سے پہلے دوڑ شروع کرنے کا موقع بھی دیا ۔ کچھوےکو جا لینے سے قبل ، ایکلیز کو لازما ًاس نقطہ آغاز تک پہنچنا ہے جہاں سے کچھوا قدرے آگے بڑھ چکا ہو گا ۔ اب ایکلیز کے لیے دونوں کے مابین اس نئے فاصلے کو عبور کرنا ناگزیر ہے تاہم جتنی دیر میں وہ ایسا کرتا ہے ، کچھوا مزید آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اور ایسا مسلسل ہوتا رہتا ہے (ad-infinitum)۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ ایکلیز کبھی بھی کچھوے سےآگے نہیں نکل پائے گا ۔ اس طرح زینو نے استدلا ل کیا کہ اس دوڑ کے لیے مختص کسی فاصلے کو عبور کر لینا بھی خارج از امکان ہے ۔ کیونکہ ایسا کرنے کے لیے پہلے نصف راستہ ، پھر تین چوتھا ئی اورپھر سات بٹا آٹھواں حصہ (seven-eights) طے کرنا لازمی ہو گا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔زینو نے اس سے نتیجہ نکالا کہ نہ صرف حرکت خارج از امکان ہے بلکہ لامتناہی کی تراکیب کو استدلال میں استعمال نہ کرنا ہی ہمارے لیے بہتر بھی ہے ۔
لامتناہی سے احتیاط سے کام لینے والے ایک دوسرے ماہر ریاضیات یوڈکسوس (Eudoxus) نے مخصوص ہندسی تناظرات میں اس سے جان چھڑانے کی غرض سے ایک نام نہاد تکملی طریقہ (method-of-exhaustion) وضع کیا (نوٹ: چونکہ یہ تکملی احصاء کا یونانی پیشرو ہے لہذا تکملی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ) ۔(یوڈکسوس کے) کوئی سو برس بعد ارشمیدس نے ایک دائرے کا حتمی رقبہ معلوم کرنے کے لیے اسی طریقہ کار کو استعمال کیا ۔ اس نے یہ کام کیسے کیا ؟ میں زیرِ نظر تحریر میں اس کے اصل اشتقاقی طریقہ کار کی بجائے ایک بگڑی ہوئی صورت کو پیش کرتا ہوں۔ ارشمیدس کا اپنا طریقہ کار یہ تھا کہ ایک دائرے C کے اندر کندہ کیے ہوئے یکساں مقدار کی حامل ایک کثیر الاضلاع شکل (polygon) کے رقبہ کو معلوم کرنے کی غرض سے اس کلیہ کو فرض کر لیا جائے ۔ اس دلیل کی بگڑی صورت کے تحت ، اس کلیہ کو خود دائرے پر استعمال کیا جا سکتا ہے جو کہ بذات خود لامتناہی اور بے انتہا چھوٹے اضلاع پر مشتمل ایک کثیر الاضلاع شکل ہے ۔
ارشمیدس کی بگڑی ہوئی دلیل کسی حد تک وجدان کو متاثر کرتی ہے لیکن یہ ارشمیدس کو متاثر نہ کر پائے گی ۔ ہم بغیر کسی تجزیے کے لامتناہی کو اس طور بروئے کار نہیں لا سکتے کہ جیسے وہ محض کوئی غیرمعمولی بڑا عدد ہو ۔ زیرِ نظر نکتے کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ جتنے زیادہ اضلاع ہو ں گے ، اس قدر ہی کثیر الاضلاع شکل دائرے سے مشابہ ہو گی ۔تاہم یہ بھی درست ہے کہ زیادہ اضلاع والی کثیر الاضلاع شکل ایک گومڑ (bulge) کی صورت اختیار کرتے ہوئے دائرے کے قریب پہنچتی ہے(اس گومڑ والے دائرے کو C*کہہ لیجیئے )۔ موٹی بات یہ ہے کہ گومڑ والے دائرے (C*) کے برعکس ، اصلی دائرہ (C) کثیرالاضلاع شکل کی حد ہے یا (مذکورہ شکل )اس کی جانب کھنچی جا رہی ہے ۔
تاہم ا س موٹی بات کوکسی طور ذہن کی گرفت میں لانے کا کوئی طریقہ وضع کرنے میں دشواری کا سامنا ہے الا یہ کہ دائرے (C)کو لامتناہی اضلاع پر مبنی شکل (infinigon)فرض کرلیا جائے ۔ ارشمیدس نے ایک طریقہ فراہم کیا ۔ اس نے درج ذیل نکتہ کو ثابت کرکے دونوں دائروں (C) اور (C*) کے مابین اہم فرق کو اجاگر گیا : آپ خواہ کتنا ہی چھوٹا رقبہ فرض کر لیتے ہیں ، اسے ’ای‘ (E) کہہ لیتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا صحیح عدد(integer)’این‘ (n) موجود ہوتا ہے جو کثیر الاضلاع شکل (Pn) کے رقبہ کو اس دائرے (C) کے رقبہ کے تحت ’ای‘ (E)سے چھوٹا رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ تاہم گومڑ والے دائرے (C*) کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اس حقیقت کو کثیر الاضلاع والی شکل کے محیط پر بننے والے دائرے (circumscribed-polygons) کی خاطر ایک ملتے جلتے نتیجہ کے ساتھ باہم ملا کرنیز اس دلیل میں پوشیدہ منطق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اور لامتناہی کو چھیڑے بغیر ارشمیدس آخر کار یہ دکھانے کے قابل ہو گیا کہ ایک دائرے کا رقبہ(πr2) کے برابر ہوتا ہے ۔
اصلی اور امکانی لامتناہی
اگرچہ اس خاص مشق میں ارشمیدس نے کامیابی سے لامتناہی سے جان چھڑا لی تاہم فیثاغورث کے پیروکاروں کو ایک ایسے معاملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں لامتناہی سے فرار واقعی ناممکن تھا ۔ اس دریافت نے دو بنیادی کونیاتی عقائد کے باب میں ان کے اعتقاد کو پارہ پارہ کر دیا : تمام خیر پر محیط مینڈھ (Peras) اور تما م شر کو اپنے گھیرے میں لینے والا لامتناہی (Apeiron) (بے انتہا یا بے پایاں)۔ ان کا اصرار تھا کہ تمام تر خلقت کومتناہی مثبت اعداد (positive-integers) کے ذریعے سمجھا جا سکتا تھا اور بنیادی طور پر ان ہی سے خلق کی تشکیل ہوئی تھی ۔ یہ تحدید اس حقیقت کے کارن ممکن ہوئی تھی کہ ان کے نزدیک مینڈھ ہمیشہ سے لامتناہی کو مطیع کر رہی تھی ۔
تاہم فیثاغورث دریافت کر چکا تھا کہ ایک مثلث قائم الزاویہ میں وتر (hypotenuse) کا مربع دوسرے دونوں اضلاع کے مربعوں کے مجموعہ کے برابر ہے ۔ اس ہندسی مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے ،ایک مربع شکل کے وتر (diagonal) اور ہر ضلع کے مابین ایک اور دو کے جذر (√2) کی نسبت ہے( کیونکہ دو اکائیوں کے مربع کو آپس میں جمع کرنے سے دو کے جذر کا مربع حاصل ہوتا ہے) یعنی (12 + 12 = (√2)2 ) ۔ اگر مینڈھ کے بس میں ہوتا تو اس نسبت کو ’p‘ اور ’q‘ کی صورت میں بیان ہونا چاہیے کیونکہ ’p‘ اور ’q‘ دونوں مثبت اعداد ہیں ۔ مگر یہ ناممکن ہے ۔ د و مثبت عدد ’p‘ اور ’q‘ کو یوں فرض کر لیتے ہیں کہ ’p‘ اور ’q‘ کے مابین نسبت دو کے جذر کے برابر ہے یا ’p‘ کو ’q‘ سے تقسیم کرنے کا جواب دو کے جذر کے برابر ہے ۔ ہم فرض کر سکتے ہیں کہ ’p‘ اور ’q‘ کے مابین ایک کے عدد سے بڑا کوئی مشترک عدد (common-factor)نہیں(بوقت ضرورت ہم اسی مشترک عدد سے تقسیم کر سکتے تھے ) ۔ اب ’p‘ کا مربع ’q‘ کے مربع سے دگنا ہے (یعنی p2 > q2 )۔ چونکہ ’p‘ کا مربع جفت ہے ، سے مرادہوتی ہے کہ ’p‘ بذاتہ جفت ہے ۔ تاہم ، ایسے میں ’q‘ کو لازماً طاق ہونا چاہیے وگرنہ دونوں کے مابین دو کا عدد مشترک ہو گا ۔ تاہم فرض کیجیے : اگر ’p‘ جفت ہے تو ایک مثبت عدد ’r‘ ا یسا ہونا چاہیے جو ’p‘ کا بالکل نصف ہے ۔چنانچہ 2 (2r) برابر ہوتا ہے2 2q کے یا 2 2r برابر ہوتا ہے 2 q کے ۔ اس نکتے سے یہ بات مراد لی جاتی ہے کہ چونکہ’q‘ کا مربع یعنی ’’q2‘‘ جفت ہے لہذا ’’q‘‘ بذاتہ جفت ہے اور یہ نتیجہ اوپر دیے گئے ثبوت کے برخلاف ہے ۔
فیثاغورث کے پیروکاروں کے نزدیک ، یہ نتیجہ قیامت سے کم نہیں تھا ۔ روایت کے مطابق مخالفین کے سامنے اس دریافت کو آشکار کرنے پر ان میں سے ایک کو سمندر میں ڈبو دیا گیا تھا ۔ انہوں نے ایک ’’غیرنسبتی ‘‘ عدد(irrational-number) کو دریافت کر لیا تھا ۔ اسی دوران وہ مثبت اعداد کی حدود کو دیکھ چکے تھے نیز وہ اپنے بیچ لامتناہی کی موجودگی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ بلاشبہ ، ایک جدید ریاضی دان کہے گا کہ دو کا جذر (2√) ایک قسم کی ’’لامتناہی شے ‘‘ ہے ۔ نہ صرف اس کی اعشاری توسیع لامتناہی ہے بلکہ یہ توسیع کبھی بھی ایک متواتر اور متناہی طریقہ اختیار نہیں کرتی ہے۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو نے پہلے کی نسبت ایک زیادہ بڑے عمومی مسئلے کو شناخت کیا ۔ ایک جانب تو ہم لامتناہی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں ۔ دو کے جذر (2√) کے بارے میں ہماری تمام تر تفاصیل سے ہٹ کر ، زمانہ ایک ابدی تسلسل میں حرکت کرتا دکھائی دیتا ہے ، بے انتہا اعداد نظر آتے ہیں نیزمکا ن ، زمان اور مادے میں دائمی تقسیم سے گزرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے ۔ دوسری جانب ، ہم مختلف عوامل بشمول زینو کے چیستانوں کی بنیاد پر لامتناہی کا انکار کرنے پر مجبور ہیں ۔
اس تذبذب سے نکلنے کے لیے ارسطو کا پیش کردہ حل نہایت ماہرانہ (masterful) تھا ۔ اس نے لامتناہیت کی دو مختلف اقسام میں تفریق کی ۔ اصلی لامتناہی(actual)وہ ہے جس کی لامتناہیت (infinitude) زمانے میں کسی نقطہ پر وجود رکھتی ہے ۔ اس کے برعکس، امکانی لامتناہیت (potential-infinitude)وہ ہے جس کی لامتناہیت زمانے پر محیط ہے ۔ارسطو اس بات پر مصر تھا کہ لامتناہی پر ہونے والے تمام تر اعتراضات، اصلی لامتناہیت سے متعلقہ ہیں ۔ دوسری جانب ، امکانی لامتناہی حقیقت کی ایک بنیادی خوبی ہے ۔ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی غیرمختتم عمل بشمول گنتی ، مادے کی تقسیم اور خود زمانے کے بہاؤ میں اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے ۔ لامتناہیت کی دو اقسام کے مابین اس تفریق نے زینو کے چیستانوں کا ایک حل فراہم کر دیا ۔ مکان کے کسی مخصوص حصے کو عبور کرنے میں مکان کے ذیلی حصوں کی امکانی لامتناہیت کو عبور کرنا شامل نہیں ہوتا ہے کیونکہ مکان کو تقسیم کرنے کے عمل کا کوئی اختتا م نہیں ہو سکتا ۔ خوش قسمتی سے یہ نتیجہ بے ضرر ہے ۔
اصلی اور امکانی لامتناہیت میں ارسطو کی تقسیم کو ایک زمانے تک روایت کا درجہ حاصل رہا ۔ بلا شبہ ، عام طور پر محققین نے زمانے سے متعلق اس کے بیان کو کسی عمیق اورقدرے زیادہ تجریدی شے کے بارے میں بطور استعارہ تعبیر کیا ۔ ’’زمان‘‘ میں موجودگی یا ’’ایک ہی آن میں کامل ‘‘ موجودگی نے نہایت وسیع معنی اختیار کر لیے ۔ اصلی لامتناہیت سے اختلاف اس بنیادی تصور پر ہی اعتراض اٹھانا تھا کہ کسی شے کے پاس ایسی خوبی ہو سکتی تھی جو تمام تر متناہی پیمائش سے آگے نکل جائے ۔ نیز اس بات کا انکار کرنا مقصود تھا کہ فی نفسہ لامتناہی کوئی قابل مطالعہ شے تھی ۔
کوئی دو ہزار برس بعد اصلی اور امکانی لامتناہی دونوں نے ریاضی دانوں کو علم الاحصاء کے وضع کرنے کے دوران دوبارہ مصروف کار کیا ۔ سترہویں صدی کے اخیر میں اسحاق نیوٹن اور لائبنز کا علم الاحصاء پر ابتدائی کام یونانیوں کے جانچ پڑتال کے کڑے معیارات پر پورا نہیں اترتا تھا ۔ کیونکہ ریاضی دانوں نے تنقید کی چھلنی سے گزارے بغیر ، پیمائش کے لیے لاانتہا چھوٹی مقداروں یعنی صغاریوں (infinitesimals)کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا ۔ بعض اوقات ان لامتناہی چھوٹی مقداروں کو صفر کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔ مثال کے طور پر ، کسی دوسرے عدد میں ان کو جمع کرنے سے اصل عدد کی مقدار میں کوئی ردوبدل نہیں ہوتا تھا ۔ دیگر اوقات میں صفر سے مختلف تصور کرتے ہوئے ان کو تقسیم کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ ( سترھویں صدی کی آخری دہائیوں کے معروف فرانسیسی ریاضی دان ) فرانسس انتھونی ڈی ایل ہوپیٹل (L’Hopital) نے لکھا : ’’اس بات کا امکان ہے کہ ایک قوس کو بیحد چھوٹے اور لامتناہی اجزاء کی ایک کلیت سمجھ لیا جائے یاپھر لامتناہی اضلاع پر مبنی ایک کثیر الاضلاع شکل فرض کر لیا جائے ‘‘۔ انیسویں صدی میں فرانسیسی ریاضی دان آگسٹائن لوئس کاشی (Cauchy) اور جرمن ریاضی دان کارل وئیرسٹراس (Weierstrass) تکملی طریقہ (method-of-exhaustion) کو ازسر نو زندگی بخشتے ہیں اور علم الاحصاء(calculus) کو ایک محفوظ بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
لامتناہی اور یکساں برابر گنتی (The-Infinite-and-Equinumerosity)
کاشی اور ویئرسٹراس کی تحقیقات کے نتیجے میں بیشتر ریاضی دانوں کو زینو کے چیستانوں سے قدرے کم خطرہ محسوس ہونا شروع ہوا ۔اس کی بجائے اب یکساں برابر گنتی (equinumerosity)سے متعلق قرون وسطی میں جنم لینے والے چیستانوں کے ایک خاندان میں زیادہ دلچسپی لی جانے لگی تھی ۔ ایسے چیستاں بنیادی طور پر اس اصول سے اخذ ہوتے ہیں کہ اگر دو مجموعوں(sets) کے ارکان کے مابین جوڑے بنا لینا ممکن ہے تو دونوں مجموعوں کے ارکان کی تعداد لازماً یکساں ہونی چاہیے ۔ مثال کے طور پر، یک زوجیت پر مبنی معاشرے میں شوہروں اور بیویوں کی تعداد لازماً یکساں ہونی چاہیے ۔ یہ اصول مسلمہ دکھائی دیتا ہے ۔ تاہم ، لامتناہی مجموعوں پر اطلاق کیا جائے تو یہ اصول ایک ایسے بنیادی تصور کی نفی محسوس ہوتا ہے جس کو سب سے پہلے اقلیدس نے وضع کیا تھا یعنی مجموعہ اپنے ارکان سے ہمیشہ بڑا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ، اس حقیقت کے باوجود کہ مثبت اعداد میں طاق اعداد بھی شامل ہوتےہیں ، مثبت اعداد اور جفت اعداد کے جوڑے بنانا ممکن ہے : ایک کا دو کے ساتھ، دو کا چار کے ساتھ ، تین کا چھ کے ساتھ اور وغیرہ وغیرہ ۔
قرون وسطی کے ماہرین نے اس طرح کی بےشمار مثالیں پیش کیں جن میں سے بعض ہندسی مثالیں تھیں ۔ تیرھویں صدی میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ریاضی دان جان ڈن سکوٹس کو ہم مرکز دائروں (concentric-circles) کے ایک سوال نے الجھن میں ڈال دیا : چھوٹے دائرے کے گھیرے (circumference) میں آنے والے تمام نقاط اور بڑے دائرے کے نسبتاً بڑے گھیرے میں پائے جانے والے تمام نقاط کے مابین جوڑےبنائے جا سکتے ہیں ۔ بعینہ یہی کچھ دو دائروی شکلوں (spheres) پر لاگو ہوتا ہے ۔ کوئی ساڑھے تین سو برسوں کے بعد ، گلیگلیو نے مربع اعداد (squared-integers) کی بجائے جفت اعداد کو استعمال کرتے ہوئے جوڑے بنانے کی ایک مثال کو موضوع بنایا ۔ خاص اور قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں مثبت اعداد میں سے بڑے ٹکڑوں کو فرض کیا جاتا ہے ،ان اعداد میں سے مربع اعداد کا تناسب صفر کی جانب کھنچتا ہے ۔ تاہم پھر بھی جوڑے بننے کا عمل لامتناہی طور پر آگے کو بڑھتا ہے ۔
ان دشواریوں کے پیش نظر ، لامتناہی مجموعوں سے کلی اجتناب کرنا خاصا پرکشش ہے ۔ عام طور پر یہ بات دل کو کھینچتی ہے کہ ارسطو کی مثل انکار کر دیا جائے کہ لامتناہی اشیاء کو بیک وقت اکٹھا کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم آخر کار ، کانٹر نے اس ارسطاطالیسی زاویہ نگاہ پر سوال اٹھائے ۔اعلیٰ ذہانت کے حامل کام میں ، اس نے ان چیستانوں کی جانب پیش قدمی کی نیز اصلی لامتناہی کے بارے میں ایک مربوط ، منظم اور قطعی نظریے کو وضع کیا جو شکوک سے بھری نگاہوں کا سامنا کرنے کو تیار تھا ۔ کانٹر نے ’جوڑے بنانے‘ کے اصول اور اس کے معکوس کو قبول کیا یعنی کوئی سے دو مجموعے یکساں برابر نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ ان کے ارکان کے جوڑے بنائے جائیں ۔ نتیجے میں اس نے قبو ل کیا کہ مثبت اور جفت اعداد کی تعداد یکساں ہے (ایسا ہی معاملہ چیستانوں کی دوسری مثالوں کا ہے )۔
آئیے ،مکالمہ اور اس معاملے کے معاصر ریاضیاتی طریقہ کار کی تفہیم کی غرض سے اس مقدمہ کو دیکھتے ہیں ۔ اگر اس اصول سے مراد لیا جاتا ہے کہ مجموعہ اپنے ارکان سے بڑا نہیں ہے تو ایسے ہی سہی ۔ درحقیقت ، لامتناہی کی تعریف کرنے کی غرض سے ہم اس تصور کو استعمال کرتے ہیں ، کم از کم مجموعوں (sets) پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے کہ ایک مجموعہ لامتناہی ہے اگر وہ اپنے ارکان میں سے کسی ایک سے بڑا نہیں ہے ۔ زیادہ واضح انداز میں کہیں تو ایک مجموعہ لامتناہی ہے اگر اس مجموعہ کے ارکان کی تعداد ، اس کے مناسب ذیلی مجموعوں (proper-subsets) میں سے کسی ایک کے ارکان کی تعداد کے برابر ہو ۔
ایک دفعہ اشیاء کی وضاحت اس انداز میں ہو چکنے کے بعد ایک ہی تصفیہ طلب سوال (open-question) رہ جاتا ہے کہ کیا تمام لامتناہی مجموعے گنتی میں یکساں برابر(equinumerous) ہیں ۔ کانٹر کی تحقیقات کے بیشتر آثار اس امر کو دکھانے میں صرف ہوئے ہیں کہ وہ یکساں نہیں ہیں بلکہ متفرق لامتناہی مقداریں موجود ہیں ۔ یہ نتیجہ کانٹر کے مسلم الثبوت دعوی (theorem) سے پھوٹتا ہے : کوئی مجموعہ اور خاص طور پر لامتناہی مجموعہ اپنے ذیلی مجموعوں کے برابر ارکان کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔ کیوں نہیں ؟ کیونکہ اگر ایک مجموعہ ہو گا تو اس کے ارکان اور اس کے ذیلی مجموعوں کے جوڑے بنانا ممکن ہوگا ۔ بعض ارکان کے ان ذیلی مجموعوں سے جوڑے بن جائیں گے جن میں وہ خود پائے جاتے ہیں اور دوسروں کے ایسے جوڑے نہیں بن پائیں گے ۔ چنانچہ ان ارکان کے مجموعہ کا کیا بنے گا جو اپنے جوڑی دار مجموعہ میں خود اپنا وجود نہیں رکھتے ؟ تناقض کے بغیر کسی رکن کا اس ذیلی مجموعے کے ساتھ جوڑا نہیں بن سکتا تھا ۔
اسی دلیل کو ایک تصویر میں ازسرنو پیش کیا جا سکتا ہے(نوٹ: اصل مضمون میں کانٹر کے دعوی کو سمجھانے کی غرض سے ایک جدول نما تصویر دی گئی ہے جس کو ہوبہو شامل کر دیا گیا ہے ) ۔
آسانی کی غرض سے ، میں مثبت اعداد کے مجموعہ پر توجہ دوں گا ۔ میں اس بات کو درج کرتےہوئے کہ ہرنیا مثبت عدد اس مجموعے سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں ،اس کے کسی ذیلی مجموعے کو ’ہاں‘ (yes)اور ’نہیں‘ (no)کے ایک لامحدود سلسلے کے ذریعے پیش کر سکتا ہوں ۔ مثال کے طور پر ،(نہیں ، ہاں ، نہیں ، ہاں ، نہیں ۔ ۔ ۔ ۔) کو (1، 2، 3، 4، ۔۔۔) کے ساتھ جوڑا بناتے ہوئے ، جفت اعداد کے مجموعے کو ایک سلسلے کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ بعینہہم طاق اعداد (ہاں ، نہیں ، ہاں ، نہیں ، ہاں )، مفرد اعداد (نہیں ، ہاں ، ہاں ، نہیں ، ہاں ۔۔۔۔) اور مربع اعداد (ہاں ، نہیں ، نہیں ، ہاں ، نہیں ۔۔۔۔) کے مجموعوں کے ساتھ یہی کام کر سکتے ہیں ۔ ایسے میں عام طور پر منفرد مثبت اعداد کو ملنے والے متفرق ذیلی مجموعوں کو ’ہاں ‘ اور ’نہیں ‘ کے لامتناہی مربع کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں (جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے )۔
اس بات کو دکھانے کے لیے کہ ذیلی مجموعوں کی اس فہرست میں کم از کم ایک ذیلی مجموعہ موجود نہیں ہے تو ہم ’’مربع کے وتر ‘‘ (والی قطار) میں ہر ’ہاں‘ کو ایک ’نہیں‘ اور ’نہیں‘ کو ’ہاں‘ کے ساتھ تبدیل کر کے ایک نیا ذیلی مجموعہ ترتیب دے سکتے ہیں ۔ تصویر میں پیش کردہ معاملے کے تحت ہم (ہاں ، ہاں ، نہیں ، نہیں ۔۔۔ ) لکھ دیتے ہیں ۔ کون سے نتائج سوال میں ذیلی مجموعے کو ظاہر کرتے ہیں ؟ اپنی تشکیل میں یہ پہلے مذکورہ ذیلی مجموعے سے اس معنی میں مختلف ہوتا ہے کہ ’ایک‘ کا عدد اس ذیلی مجموعے سے تعلق رکھتا ہے یا پھر اس معنی میں کہ ’دو‘ کا عدد اس سے تعلق رکھتا ہے یا اس معنی میں کہ ’تین‘ کا عدد اس سے تعلق رکھتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ یہاں ایک خوشگوار تاریخی عقدہ ہے : جس طرح وتر کے مطالعہ نے فیثاغورث کے پیروکاروں کو مثبت اعداد کی گرفت سے باہر موجود ایک لامتناہیت کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا تھا ، ایسی ہی بات کانٹر کے ضمن میں ایک مختلف انداز سے درست تھی ۔
بعد ازاں کانٹر نے لامتناہی وصفی اعداد (infinite-cardinal)وضع کیے یعنی ایسے اعداد جو لامتناہی مجموعے کی مقدار کی پیمائش کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں ۔ اس نے ان اعداد کی خاطر ایک قسم کا حساب (arithmetic) بھی ایجاد کیا ۔ اپنی اصطلاحوں کی تعریف متعین کرتے ہوئے ، اس نے کھوج لگائی کہ اس وقت کیا ہوتا ہے جب ایک لامتناہی وصفی عدد کو دوسرے میں جمع اور ضرب کیا جاتا ہے ، جب اس کوکسی طاقت (power) تک اٹھایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اس کی تحقیق اعلیٰ درجے کی ریاضیاتی مہارت کی عکاس تھی ۔ تاہم اس کی اپنی اصطلاحوں میں بھی دشواریاں برقرار تھیں ۔ مسئلہ تسلسل (continuum-problem) غالبا ان دشواریوں کی بہترین مثال ہے ۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ، مثبت اعداد کا مجموعہset-of-positive-integers)) ، مثبت اعداد کے مجموعوں کے مجموعے (set-of-sets-of-positive-integers) سے نسبتاً چھوٹا ہے ، ۔ تاہم کتنا چھوٹا؟ خاص طور پر ، کیا درمیانی مقدار کے کوئی مجموعے موجود ہیں ؟
کانٹر کا مفروضہ برائے تسلسل (Cantor’s-Continuum-Hypothesis)
کانٹر کا اپنا پیش کردہ مفروضہ اور اس کا مشہور ’’مفروضہ برائے تسلسل ‘‘ یہ تھا کہ(درمیانی مقدار کے مجموعے ) وجود نہیں رکھتے ۔ تاہم وہ کامیابی سے اس تصور کو ثابت یا رد نہیں کر پایا ۔ بعد ازاں ہونے والی تحقیقات سے ظاہر ہو چکا ہے کہ صورت حال اس کے تصور سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ جدید ریاضی کے تمام مسلمہ طریقہ ہائے کار کو بروئے کار لاتے ہوئے اس معاملے کا تصفیہ نہیں ہو سکا ہے ۔ یہ مسئلہ کانٹر کے تصور کی قطعیت (determinacy) کے بارے میں فلسفیانہ سوالات اٹھاتا ہے ۔ مفروضہ برائے تسلسل کے درست ہونے کا سوال پوچھنا شاید اس بات کو دریافت کرنے کے برابر ہو کہ کیا ہیملٹ بائیں ہاتھ سے کام کرتا تھا؟ ہو سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کی غرض سے دستیاب معلومات ناکافی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو ہمیں ازسرنو سوچنا چاہیے کہ کانٹر کی تحقیق اصلی لامتناہی کو کیسے مسخر کرتی ہے ۔
تمام مجموعوں پر مشتمل مجموعے سے متعلق سوالات کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ کانٹر کے مسلم الثبوت دعوی کے تحت ، اس مجموعے کو مجموعوں کے مجموعے پر مبنی مجموعہ (set-of-sets-of-sets) کے مقابلے میں لازماً بہت زیادہ چھوٹا ہونا چاہیے ۔ تاہم ٹھہریے ! مجموعوں کے مجموعے بذا ت خود مجموعے ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مجموعوں کے مجموعے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے کسی موزوں ذیلی مجموعے سے نسبتاً چھوٹا ہو۔ تاہم یہ ناممکن ہے ۔ مجموعہ ، مقدار میں اپنے جزو کے برابر ہو سکتا ہے لیکن اس سے چھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ کانٹر نے اس پھندے سے کیسے جان چھڑائی ؟ حیرت انگیز استقلال کے ساتھ اس نے مجموعوں کے مجموعے کی موجودگی سے انکار کیا ۔ اس کی دلیل اس درج ذیل صورت میں پوشیدہ ہے کہ مجموعے کیسے ہوتے ہیں۔ ایسی اشیاء موجود ہیں جو بذاتہ مجموعے نہیں ہیں اور تبھی ان اشیاء پر مبنی مجموعے موجود ہیں اور پھر ان تمام اشیاء پر مبنی مجموعے موجود ہیں اور یہ سلسلہ لگاتار چلتا رہتا ہے ۔ ہر مجموعہ کسی دوسرے مجموعے سے وابستہ ہے لیکن کوئی ایسا مجموعہ کبھی نہیں ملتا ہے جس سے دیگر تمام مجموعے تعلق رکھتے ہوں ۔
ہو سکتا تھا کہ کانٹر کا استدلال کسی طور بے جواز دکھائی دے ۔ تاہم اسی نوع کی دلیل جیسا کہ 1901ء میں برٹرینڈ رسل نے اپنے یادگار چیستاں کے ذریعے منکشف کی ، درکار ہے ۔ یہ چیستاں ان مجموعوں پر مبنی مجموعے سے متعلقہ ہے جو اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں ۔ اس مجموعے کو ’R‘ کہہ لیجئے ۔ مثال کے طورپر ، چوہوں کا مجموعہ ، اس مجموعے ’R‘ کا ایک رکن ہے اور یہ خود سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ یہ ایک مجموعہ ہے نہ کہ ایک چوہا ہے ۔ رسل کا چیستاں کہتا ہے کہ کیا ’R‘ خود اپنے آپ سے وابستہ ہے کہ اپنا ہی رکن ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تعریف کے اعتبار سے یہ اپنے آپ سے وابستہ نہیں ہے ۔ اگر ایسا نہیں کرتا ہے تو یہ ’R‘ کا رکن بننے کی شرط پر پورا اترتا ہے لہذا اس سے وابستہ ہے ۔ بہرطور ، ’R‘ سے متعلقہ کوئی شے تو مشتبہ ہے ۔ کانٹر کی رائے ، جس کے مطابق کوئی مجموعہ خود اپنے آپ سے تعلق نہیں رکھتا ہے ، میں مجموعہ ’R‘ اگر وجود رکھتا تو تمام مجموعوں کا مجموعہ ہو گا ۔ یہی دلیل کانٹر کی مذکورہ صورت کو نسبتاً زیادہ معقول دکھاتی ہے اور اسی کے تحت مجموعہ ’R‘ کا انکار ہوتا ہے ۔
تاہم کیا یہ صورت حیرت انگیز طور پر ارسطاطالیسی نہیں ہے ؟ زمانے کے استعارے کا جائزہ لیجیے ۔ مجموعے اپنے ارکان کے ’بعد‘ اس طور پر وجود حاصل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیشہ بہت سے ابھی باقی ہیں ۔ کسی ایک کی لامتناہیت کی بجائے ان کی اجتماعی لامتناہیت ، اصلی کی بجائے امکانی ہے ۔ مزید براں ، کیا یہی اجتماعی لامتناہیت نہیں ہے جو عنوان کی سب سے زیادہ دعویدار ہے ؟ لوگ عام طور پر لامتناہی کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ جو بے انت ، لا انتہا ، ناقابل مشاہدہ اور بے پایاں ہے ۔ بعضے قبول کریں گے کہ لامتناہی مجموعے کی تکنیکی تعریف ، اس تصور کے ضمن سے ان کے وجدانی ادراک کو بیان کرتی ہے ۔ تاہم کانٹر کی پیش کردہ صورت کے تحت ،دوام (endlessness)، بے انتہا (unlimitedness) ، مشاہدہ میں نہ آ سکنے کی خوبی (unsurveyability)اور بے پایانی (immeasurability) ، درجات میں مخصوص مجموعوں میں سے کسی ایک کی بجائےکُل درجات پر لاگو ہوتی ہیں ۔
تبھی کانٹر نے بعض طریقوں سے دکھایا کہ مثال کے طور پر ، مثبت اعداد کا مجموعہ ’’حقیقی ‘‘ متناہی ہے اور ’’حقیقی ‘‘ لامتناہی وہ ہے جو اس سے ماورا ہے ۔ (کانٹر خود ان اصطلاحوں میں بات کرنے کو ناپسند نہیں کرتا تھا )۔ ستم ظریفی ہے کہ اس کی تحقیق ارسطاطالیسی روایت کو قابل ذکر مواد مہیا کرتی نظر آتی ہے کہ ’’حقیقی ‘‘ لامتناہیت کبھی بھی اصلی نہیں ہو سکتی ۔
بعض اہل ِ علم نے میری تجویز پر اعتراض اٹھایا ہے کہ کانٹر کے نزدیک مثبت اعداد کا مجموعہ ’’حقیقی ‘‘ متناہی ہے ۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ مذکورہ بیان نہ صرف معیاری ریاضیاتی اصطلاحات سے بعید ہے بلکہ میری تجویز ، بیشتر لوگوں کی رائے سے الٹ بھی ہے ۔
ہاں ، یقیناً بیشتر لوگ کہیں گے کہ مثبت اعداد کا مجموعہ ’’حقیقی ‘‘ لامتناہی ہے ۔ تاہم ، بہت سے لوگ کانٹر کے نتائج سے آگاہ بھی تو نہیں ہیں ۔ وہ اس سے بھی انکار کریں گے کہ ایک لامتناہی مجموعہ دوسرے کی نسبت زیادہ بڑا ہو سکتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بیشر لوگ کیا کہیں گے بلکہ اس کی بجائے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی اصطلاحوں کا ادراک کیسے کرتے ہیں اور کسی خاص مقصد کے پیش ِ نظر ، کیسے ان کی تفہیم کانٹر کے نتائج کے جھٹکے کو برداشت کرنے کی بہترین صلا حیت کی حامل ہے ۔ ہم پر کوئی مجبوری نہیں ہے ۔ ہم کہہ سکتے تھے کہ بعض لامتناہی مجموعے دوسروں کی نسبت بڑے ہیں ۔ ہم کہہ سکتے تھے کہ مثبت اعداد کا مجموعہ متناہی ہے ۔ ہم ان دونوں میں سے کسی ایک کو بیان کرنے سے خود کو روک سکتے ہیں ور مثبت اعداد کے مجموعے کے وجود سے ہی انکار کر سکتے ہیں ۔
اگر مخصوص معیاری ریاضیاتی نتائج کو پیش کرنا ہی مطلوب ہے تو میں معیاری ریاضیاتی اصطلاحات کی بجائے کسی دوسری شے کے استعمال کی حمایت نہیں کروں گا ۔ تاہم میں ریاضی دانوں اور دیگر سائنس دانوں پر زور ڈالوں گا کہ وہ لامتناہیت کے روایتی تصور پر کانٹر کے نتائج کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے معمول سے زیادہ احتیاط سے کام لیں ۔ دکھائی دیتا ہے کہ سچی لامتناہیت ہماری گرفت سے بہت پرے رہتی ہے ۔