شہری کوروشن خیال بنانے کی غرض سے کیا کرنا چاہیے ؟ جان کارل ویلہم محسن
نوٹ: 1996ء میں جیمس شمت کی ادارت میں ’’ روشن خیالی کیا ہے؟ اٹھارویں صدی کے جوابات اور بیسویں صدی کے سوالات‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں ’’ روشن خیالی‘‘ کےموضوع پر لکھے جانے والے تمام تر اہم مضامین کو اکٹھا کیا گیا ۔ ابتدائی جرمن مضامین کا ازسرنو انگریزی ترجمہ ہوا نیز حواشی لکھے گئے ۔ زیرِ نظر اردو ترجمہ اسی کتاب سے مستعار ہے ۔ مزید براں ، انگریز مترجم کے دیے گئے حواشی کو بھی اردو زبان میں ڈھالا گیا ہے ۔ ہماری ناقص معلومات کی حد تک زیرِ نظر تحریر کارل ویلہم محسن کے اس مضمون کا پہلا اردو ترجمہ ہے ۔
تعارف( از جیمس شمت) : جان کارل ویلہم محسن (1722 – 1795) اپنے زمانے کے نہایت معزز اطباء میں سے ایک تھا ۔ برلن میں پیدا ہونے والے جان کارل نے جرمن شہر ، حالہ (Halle) اور یے نا (Jena) میں تعلیم حاصل کی اور 1742ء میں برلن واپس لوٹ گیا ۔ اور 1778ء میں عظیم فریڈرک (Frederick the Great) کا ذاتی طبیب مقرر ہوا ۔ اس کو تاریخ ِ سائنس سے شغف ہوا۔ وہ کئی علمی تنظیموں کا رکن تھا ، جن میں بدھ وار برلن سوسائٹی (Berlin Wednesday Society) نامی تنظیم بھی شامل ہے جو روشن خیالی کے حمایتیوں (Friends of Enlightenment) کے تحت ایک خفیہ تنظیم تھی اور جس نے اس سوال ، ’’ روشن خیالی کیا ہے ؟ ‘‘ کی بحث میں اہم کردار کیا تھا ۔ زیرِ نظر ترجمہ میں محسن نےروشن خیالی کی ماہیت سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں جنھوں نے (بعد ازاں ) بدھ وار سوسائٹی کے ہاں شدید بحث کو جنم دیا ۔
*****
ہمارا مقصد اپنے آپ اور ساتھی شہریوں کو آگہی دینا ہے ۔ برلن جیسے بڑے شہر (کے باسیوں) کو آگاہ کرنے میں اپنی دشواریاں ہیں ، تاہم ایک دفعہ اگر ان پر قابو پا لیا جائے تو روشنی نہ صرف صوبوں میں بلکہ تمام سرزمین میں پھیل جائے گی ، اورہم کتنے خوش بخت ہوں گے اگر یہاں سے پھوٹنے والی روشنی کی چند کرنیں ، کچھ عرصہ کے اندر ہی ہمارے آبائی دیس جرمنی کے تمام کونوں میں پھیل جاتی ہیں ۔
اس مقصد کے حصول کی خاطر آئیے ، تجویز دیتے ہیں کہ ،
- اس کو ٹھیک ٹھیک متعین کیا جائے :روشن خیالی کیا ہے ؟
- ہماری قوم (یا کم از کم ہمارے مخاطبین) کے تعصبات اور اخلاقیات کے باب میں طرزِ فکر اور جہتِ تفہیم، خامیوں اور کمزوریوں کو متعین کرتے ہیں ۔
- سب سے پہلے ہم مہلک ترین تعصبات اور کوتاہیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں نیز ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں ، اور ان صداقتوں کی نشوونما اور اشاعت کرتے ہیں جن سے عمومی واقفیت سب سے زیادہ ضروری ہے ۔
- اس امر کی چھان بین کرنا بھی مفید ثابت ہو گا کہ روشن خیالی کے ضمن میں اب تک ہمارے عوام نے کیونکر بہت زیادہ ترقی حاصل نہیں کی، باوجود اس بات کے کہ دوسرے علاقوں کی نسبت ہمارے ہاں خیال ، تحریر اور اشاعت کی آزادی کو چالیس برسوں سے زائد عرصہ ہو چکا ہے [1] ۔ اور ہماری نوجوان نسل کی تعلیم بھی بتدریج بہتر ہو چکی ہے ۔
معروف ہے کہ ہمارے عظیم بادشاہ نے جرمن ادب [2] پر اپنے مضمون میں خامیوں ، ان کی وجوہات اور تدارک کے طریقہ ہائے کار کی نشاندہی کرنے میں خاصی زحمت گوارا فرمائی ہے ۔ کچھ مواقع پر انہوں نے روشن خیالی کے نہ ہونے کا الزام ، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں دی جانے والی ناقص تعلیم کو دیا ہے جس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے [3]۔
تاہم ، چونکہ وہ ہمارے نقص ِ زبان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ وہ درست ترین ، حیات پرور اور شاندار تصورات [4] کو بیان کرنے کی اہل نہیں ہے ، ہمیں اپنی کاوشوں کو شاید اس رُخ پر لگانا چاہیے کہ
- ہماری زبان میں بہتری لائی جائے نیز تحقیق کی جائے کہ یہ الزامات کس حد تک درست ہیں ۔
بلاشبہ ، اس سے انکار نہیں ہے کہ ہمارے بادشاہ نے جرمن ادب کی توضیح کے مقابلے میں ہماری قوم کی آگہی کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے ۔ تاہم دکھائی دیتا ہے کہ اس حوالے سے ان کو شدید تحفظات لاحق ہیں ۔
جرمن ادب پر مضمون کی اشاعت سے قبل ، اکادمی نے 1778ء میں ایک سوال پر انعام مقرر کیا تھا : ’’ کیا عام انسانیت کے لیے نئی خطاؤں میں گرفتار ہو کر یا روایتی غلطیوں کو دہراتے ہوئے دھوکا کھانا مفید ہے ؟‘‘ [5] ۔ اثبات و نفی کے حق میں جواب دینے والوں کے درمیان انعامی رقم کی برابر تقسیم سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ روشن خیال رائل اکادمی کوئی حتمی فیصلہ کر کے کسی بھی فرد کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی ۔ 1780ء کے شاہی مضمون (De la literature allemande) میں جو اکادمی کے اٹھائے ہوئے سوال کے فوری بعد سامنے آیا ، دیکھا جا سکتا ہے کہ بادشاہ سلامت ، دلیل کے اسلوب اور تنظیم کو تمام شعبوں اور علوم تک پھیلا دینے [6] نیز اس حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود کہ مکالمات کی نسبت ، مذہبی اجتماعات میں تعلیم یافتہ پادری اپنےخطبات اور لوگوں کے اذہان پر اپنے اثرورسوخ کے ذریعے تھوڑے سے وقت ہی میں سینکڑوں افراد کو آگاہی عطا کر سکتے ہیں اور بے شمار خطاؤں کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں ، انہوں نے ایسے معاملات کو یکسر چھوڑ دیا اور یہ کہتے ہوئے اپنی جان چھڑائی کہ وہ ، ’’ الہٰیا ت کے ضمن میں مودبانہ خاموشی سے کام لیں گے کیونکہ بقول شخصے، یہ ایک مقدس علم ہے جس کے الوہی دائرے میں عامی کو شاید دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ‘‘ [ 7 ] ۔
یہاں سے ایک نکتہ جنم لیتا ہے :
- کیا انعام حاصل کرنے والے دونوں مخالف مضامین نیز تعریف کے لائق قرار پانے والے دیگر مضامین کا باریک بینی سے جائزہ نہیں لینا چاہیے [8] اوران سب مضامین کو جمع نہیں کیا جانا چاہیے تاکہ دونوں اطراف کے دلائل کا تقابل کیا جا سکے نیز دیکھا جائے کہ ہماری کاوشیں نہ صرف عوام الناس بلکہ ریاست اور حکومت کے لیے مفید ہیں یا مضر ۔
ہم اپنی اپنی ذاتی سمجھ بوجھ کے مطابق یقیناً اس آخری تجویز کی بابت فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم مقدس فریضہ سمجھتے ہوئے ، رازداری کے ساتھ ، نیک نیت محب وطن افراد کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ۔ ہمیں کسی آگسٹس اور میچاناسا ( Maecenas ) کی سرپرستی حاصل نہیں ہے جس کو اپنے تبصروں سے ناراض کردینے کا خوف لاحق ہو اور ہم ، بادشاہ (فریڈرک) کے مضمون میں مذکور خاندان ِ ایسٹ (house of Este) ، میڈیچی (Medici)، فرانسس اول اور لوئی چہار دہم( Louis XIV) ، [9]سے عطا ہونے والے انعامات کے منتظر نہیں ہیں ، اور نہ ہی ہمارا فیصلہ کسی انعام یا شرف کی بھوک کے سبب ہو سکتا ہے کیونکہ ہم گمنام رہتے ہیں اور ہمارے لیے سب سے بڑا شرف اور واحد انعام ، داخلی یقین ہے کہ ہم کسی دوسرے مقصد کی بجائے اپنے ساتھی شہریوں کی فلاح و بہبود کی غرض سے اس امر کی نشرواشاعت کر سکتے ہیں ۔
حواشی:
1۔ فریڈرک عظیم (1712 – 1786) نے 1740ء میں تختِ پروشیا سنبھالنے کے بعد سنسرشپ کے احکامات کو بالعموم نرم کرتے ہوئے حکومت کا آغاز کیا ۔ سنسرشپ سے متعلق فریڈرک کے نقطہ نظر پر بحث کے لیے محسن کے ساتھی ارنسٹ فرڈیننڈ کلین کا مضمون بعنوان ’’ آزادی رائے اور پریس ‘‘ دیکھیے جو 1784ء میں شائع ہوا ۔
2۔ فریڈرک کا مضمون (De La Litterature Allemande) 1780ء میں شائع ہوا ۔
3۔ فریڈرک نے اپنے مضمون کا ایک حصہ جرمن سکولز اور یونیورسٹیوں پر بحث میں صرف کیا ۔
4۔ محسن یہاں فریڈرک کے اس دعویٰ کا حوالہ دیتا ہے کہ جرمن زبان ’’ واضح ، مضبوط اور روشن ترین افکار‘‘ (les pensees les plus justes, les plus fortes, les plus brillantes)کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتی تھی ۔
5۔ فریڈرک نے سوال اٹھایا جس کو وہ 177ء میں اکادمی کے سامنے ’’ اینٹی میکاولی ‘‘ کے اٹھارویں باب میں پہلے ہی زیرِ بحث لا چکا تھا ۔ انعام کو فریڈرک ڈی کا سٹیلان کے مثبت اور بیکر کے منفی جواب کے مابین تقسیم کیا گیا ۔
6۔ مختلف علمی شعبوں میں مناسب ز بان اور دلائل کی پیش کش سے متعلق فریڈرک کی تفصیلی بحث کا حوالہ ۔
7۔ انگریز مترجم جیمس شمت نے فریڈرک کے مضمون سے اقتباس نقل کیا ہے ۔
8۔ دو انعام یافتہ مضامین کے علاوہ ، تین دوسرے مضامین نے مذکورہ سوال کا جواب نفی اور چھ مضامین نے مثبت میں جواب دیا ۔ وہ بھی اکادمی کی روداد میں شامل ہوئے ، تاہم ان میں سے تین کو بالآخر شائع کیا گیا ۔
9۔ گائیوس میچاناسا (Caius Maecenas) ایک رومی سیاست دان تھا جس نے بادشا ہ آگسٹس کے مشیر اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہورس (Horace)، ورجل (Virgil)اور پروپرشس (Propertius) کے مربی و سرپرست کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے ، لہذا اس کا نام بطور محافظِ فن (جرمن میں Mazene) اور سرپرستی فن (جرمن میں Mazenaten)کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا۔ ایسٹ (Este)ایک معزز خاندان تھا جو نشاۃ ثانیہ کے دوران شمالی اطالیہ کے شہر فیرارا(Ferrara) اور میڈونا (Medona) میں فنون کا سرپرست تھا ؛ میڈیچی (Medici) نے یہی کردار فلورنس میں ادا کیا ۔ فرانسس اول (1515 ء تا 1547ء تک بادشاہِ فرانس ) ر یبیلے (Rabelais)، میرو(Marot) اور بوڈے (Bude) کا سرپرست اور کالج ڈے فرانس (College de France) کا بانی تھا ، جب کہ 1643ء تا 1715ء تک حکمرانی کرنے والالوئس چہار دہم (Louis XIV) مولیئر (Moliere)، رےسین (Racine)، فرانسیسی شاعر فونٹین (La Fontaine)، اور فرانسیسی مصور برن (Le Brun) و دیگر کا سرپرست تھا ۔ جرمنی میں ایسے سرپرستوں کی عدم موجودگی کے بارے فریڈرک کی بحث کے لیے اس کا مضمون (De La Litterature Allemande) دیکھیے ۔