پیاسے مرنے سے کیسے بچیں؟ محمد سلیم الرحمان (ترجمہ: اسد فاطمی)
یہ وقت ہے فرید پئارس کی کتاب پڑھنے کا
کہا جاتا ہے: ’’ مفت توانائی نامی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ ‘‘ کیا ہی زبردست جھوٹ ہے۔ زمین کو کروڑوں سالوں سے مفت توانائی مل رہی ہے، ایک ایسی نعمت جس نے یہاں زندہ رہنے کو ممکن بنایا۔ جب تک سورج اپنی جگہ پر ہے، ہمیں مفت توانائی کی کوئی کمی نہیں ہے، البتہ تاحال ہمیں بھاری پیمانے پر اس کو مسخر کرنا نہیں آ سکا۔
مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں کہ راست قامتی آدم (Homo Erectus) کب سے موجود ہیں۔ شاید دسیوں لاکھوں سالوں سے۔ سورج کی روشنی نے اسے بقا فراہم کیے رکھی، اور وہ اس بات سے آگاہ تک نہیں تھا۔ ہمارے لیے دو اور انعامات بھی ہیں۔ فطرت حد درجہ شفیق ہے۔ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں، جس کے بغیر ہم یکایک مر جائیں گے۔ دوسری نعمت پانی ہے، اس کے بغیر بھی ہم مر جائیں گے، دھیرے دھیرے اور کرب و اذیت کے ساتھ۔ ہم زراعت کے لیے بھی پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شدید قلت سے قحط پڑ سکتا ہے۔ ہمارا جسم زیادہ تر پانی سے بنا ہے۔
ہم فطرت کی شکر گزاری کیسے کریں؟ ہم پوری بے مروتی سے ہوا کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ہم اس پانی کو آلودہ کر رہے ہیں جو ہم پیتے ہیں اور فصلوں کی آبیاری میں استعمال کرتے ہیں۔ معاف کرنا دوستو! ہم سورج کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اتنے بڑے اور گرم سورج سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک گورے نے ایک مقامی امریکی سے زمین کا ٹکڑا خریدنا چاہا تو زمین والے نے کہا: ’’ کیا تم آسمان بھی خرید سکتے ہو؟ جبکہ تم نے آخری درخت تک کاٹ لیا ہے اور دریاؤں میں زہر ملا دیا ہے، تم کیا کھاؤ گے؟ اپنا روپیہ؟ ‘‘ یہ وہ بات ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔اور اپنے طرز نظر پر بھی، لیکن کیا ہمیں کچھ عقل مت ہے؟
اس وقت، پانی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ یہ بھی کیسا الٹ پھیر ہے، پانی کو سلگتے اور بھڑکتے ہوئے دیکھنا۔ میرے پاس ایک کتاب ہے، جس کا نام ہے، جب دریا سوکھ جائیں گے، فرید پئارس کی When the Rivers Run Dry کا رواں ترجمہ جو ثقلین شوکت نے کیا ہے۔ یہ تمام تر پانی کے بارے میں ہے جو مزید سے مزید قلیل اور آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسے مسئلے پر ایک باسمجھ اور بغور نظر ہے جس سے ہم سب کو سروکار ہے، اور ایسا مسئلہ کہ اگر اس سے ٹھیک سے نہ نمٹا گیا، تو یہ ناقابل تلافی تباہی کی شکل اختیار کر لے گا۔
ہم نے عام طور پر کبھی دھیان نہیں دیا کہ ہمارے کھانے اور پینے کی چیزوں کی پیداوار میں کس قدر پانی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، چاولوں کا ایک کلو اگانے کے لیے ہمیں دو سے پانچ ہزار لٹر تک پانی درکار ہو سکتا ہے۔ گندم کے ایک کلو کے لیے ایک ہزار لٹر چاہیے، آلوؤں کے ایک کلوکے لیے پانچ سو لٹر، ایک کلو چینی کے لیے تین ہزار لیٹر، خدایا، ایک کلو کافی کے لیے بیس ہزار لٹر (بیس ٹن)۔ ایسی شاہ خرچی بالکل ڈرا دینے والی ہے۔
پئارس کے مطابق، زیر زمین پانی کے ذخائر بہت بڑے ہیں، اور شاید ہوا کرتے تھے، لیکن ہمارا حرص یہ ہے کہ، ہم نے قریب قریب انہیں چوس ڈالا ہے۔ فطرت انہیں پھر سے لبریز کر سکتی ہے، بجا ہے، لیکن ایسا کرنے کے لیے کم سے کم ایک ہزار سال لگیں گے۔ ہم نے کچھ عشروں میں ہی اس قدرتی افراط کے ہزاروں
سالوں کو ضائع کر دیا ہے۔
برصغیر کی نہایت سنگین صورت حال کا حوالہ دینے سے قبل ہم کچھ اس بارے بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں جو وسطی ایشیا کی کچھ جگہوں پر ہوا۔ سوویت عہد میں، اس کا بیشتر حصہ کپاس کی پٹی میں بدل دیا گیا تھا۔ ادھر کپاس تھی یا پھر کچھ نہیں۔ اس نے کچھ عرصہ تو فائدہ دیا لیکن پھر بات بگڑنے لگی۔ 1960ء کی دہائی میں بحیرۂ ارال کا رقبہ بلجیم اور نیدرلینڈز کے برابر تھا۔ اس کے نیلے پانی مچھلیوں سے معمور تھے۔ اور کیاہی نظارہ ہوا کرتا تھا، جا کر دیکھنے کے لائق۔ اب یہ انتہائی کھارے پانی کے تین بڑے جوہڑوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا نواحاتی علاقہ قراقلپاکستان، ہولناک غربت میں گھرا ہوا ہے۔ اربوں روبل کی سرمایہ کاری یہاں کچھ نہیں بدل پائی۔یہاں آزادی ایک بے معنی لفظ بن چکا ہے۔ لوگ بقا کے لیے جس قدر روزی پر گزارا کرتے ہیں، وہ افریقہ کے کسی کچے قصبے سے بہتر نہیں ہے۔یہ بے ضمیری اور بدانتظامی کا ایک نمونہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کا منظر بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ پڑوس میں اس مہیب حقیقت کی آگاہی نسبتاً زیادہ ہے۔ہم بدترتیبی کی فضا میں تیرنے پر مطمئن ہیں۔ مسئلہ تہہ دار اورتہرا ہے۔پانی کے متجاوز استعمال اور ضیاع کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے گہرے سے گہرا بور کھودنا پڑے گا۔پانی میں آرسینک (سنکھیا) کی موجودگی بنگلہ دیش، بہار اور اترپردیش میں تباہ کن گل کھلا رہی ہے۔ فلورائیڈ کے سراغ کا بھی خطرے میں اپنا حصہ ہے۔ پھر ایسے کارخانے ہیں جو اپنے فضلات دریا میں بہاتے ہیں۔ ان کارخانوں کے مالک ایسے مجرم ہیں جن کو کبھی سزا نہیں ملے گی۔ اس پر طرّہ یہ کہ زمین سیم اور آب زدگی کے ہاتھوں کسی کام کی نہیں رہی۔ پاکستان میں، سمندر پانچ لاکھ ہیکٹر اراضی کو ہڑپ کر چکا ہے۔
پئارس بڑے ڈیموں یا نہروں کے عظیم جالوں یا دریاؤں کو سدھارنے کی احمقانہ مساعی جیسے میگا منصوبوں کا حامی نہیں ہے۔ یہ منصوبے کاغذی خاکوں پر متاثر کن لگتے ہیں، لیکن ان کی افادیت محدود اور عارضی ہوتی ہے۔ اس نے تین منصوبوں کا تذکرہ کیا ہے جو بظاہر بڑے طمطراق والے اور بوالعجب ہیں۔ سوویت عہد میں، سائبیریا میں وسطی ایشیا کی آب پاشی کے لیے، دریائے اوب اور یےنیسی کا رخ شمالاً سے جنوباً موڑنے کے منصوبے کی خاکہ کشی کی گئی۔ یہ معلوم نہیں کہ منصوبہ کارآمد رہا یا نہیں۔ متحدہ سوویت روس کے سقوط کے بعد، روسیوں نے وسطی ایشیا کے نئے آزاد شدہ ممالک میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔
ایک ایسی دیوہیکل سکیم چین کے پاس بھی ہے کہ تبت سے دریا کا رخ شمالی صوبوں کی جانب موڑ لیا جائے۔ایک مہنگا سودا جو بالکل بھی وارے میں نہیں ہے۔بھارت بھی اس کے موازنے میں ایک منصوبے کے ساتھ خیال بازی کر رہا ہے کہ جنوب بعید کی آبیاری کے لیے شمال کے تمام دریاؤں کو باہم مربوط کیا جائے۔ اسے ان بھارتیوں نے بھی کچھ زیادہ ہی خوداعتمادانہ قرار دیا ہے جنہیں اس کے لیے ضروری مہارتیں حاصل ہیں۔
تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پئارس نے متعدد قوی اور سادہ تجاویز پیش کی ہیں۔ بارش کا پانی ایسی چیز ہے جو ہمیں مفت ملتی ہے، اور اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر مقطر شکل میں ملتا ہے۔ اس کو محفوظ بنایا جائے۔ ہمیں اسے محفوظ بنانے اور جس قدر ہو سکے زیر زمین جذب ہونے دینے کی مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ بارش کا پانی ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب خطیر منفعتیں بخش سکتا ہے۔ بھارت میں بہت سے لوگ ایسا کر رہے ہیں اور اس کے جاذب نتائج پا رہے ہیں۔
ایک اور چیز جو ہم کر سکتے ہیں وہ ہے آبپاشی کے بہتر طریقے اختیار کرنا۔بہتر اثر کی خاطر کم پانی استعمال کریں۔ ڈرپ ایریگیشن ایک نیک خیال ہے۔ پئارس نے چاولوں کی ایک نئی جنس کا تذکرہ کیا ہے جو کہ دلدلی میدانوں میں اگائی جا سکتی ہے، جو کماحقہٗ پانی کے خطیر استعمال سے بچاتی ہے۔ لیجیے یہ وہ کتاب ہے جو بتاتی ہے کہ دنیا کے توہمات سے بچ نکلنے کے پرانے طریقے ابھی بھی کارآمد ہیں۔ اور خدارا آبادی کے دھماکے دار پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام کیجیے۔
ڈیم بنانا خانے پری کے عارضی اقدامات ہیں۔ تربیلا رسوبی تہہ سے بھر گیا ہے، یہ ناکارہ ہو سکتا ہے۔ ڈیم انسانوں کی طرح فانی ہیں۔ بارشیں غیر فانی ہیں۔ کبھی کبھار یہ ہم تک نہیں پہنچتیں۔ اس کے باوجود، وہ ایک نعمت ہیں۔ ڈیموں پر یا ان کے خواب پر جوئے بازی مت کیجیے۔ اس کتاب کو پڑھیے۔
ماخذ: دی نیوز