تصویریں ترجمانی کیسے کرتی ہیں؟ ماریک سوشنسکی (ترجمہ: طلحہ شہاب)
نوٹ: ماریک سوشنسکی (Marek Soszynski) برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی سے ایم فل میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ یان شیوزنک کے ساتھ ’’شطرنج میں کیسے سوچا جائے‘‘ نامی کتاب (رسل انٹرپرائزز 2002 ) کے مصنف ہیں۔ ان کا یہ مضمون فلاسفی ناؤ (Philosophy Now) نامی ویب سائٹ پر شائع ہوا جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ میں نے پچھلے برس افلاطون سے بیسویں صدی کے ماہر جمالیات آرتھر سی دانتو تک فن پاروں میں مسئلہ نمائندگی کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ اسی دوران اپنے موضوع سے متعلق مختلف مضامین کے تراجم کئے جن کا تعلق نمائندگی / ترجمانی (Representation) کے کلاسیکی اور جدید نظریات سے ہے۔ مندرجہ ذیل مضمون کا تعلق تصاویر یا بصری فنون کے ضمن میں پیدا ہونے والے اس سوال سے ہے کہ مماثلت (Resemblance) تصویری ترجمانی کو بیان کرنے کے لئے کس حد تک کارآمد ہے؟اس میں زیادہ توجہ ’’لسانیات فن‘‘ (Languages of Art) کے مصنف گڈمین (Goodman) اور رچرڈ والہائم (Richard Wollheim) کے نظریات پر مرکوز کی گئی ہے۔
تصاویر کس طرح ترجمانی کرتی ہیں ، وہ کیسے ممکن ہے؟ مثلاً ایک بلی کی تصویر، جو یقیناً ایک بلی کی ہی تصویر ہے، درحقیقت ایک بلی کو اپنا معروض (object) کیسےبناتی ہے؟ یا اس کو دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو بلی کی تصویر کے ہاتھوں اس کی ترجمانی یا عکاسی کیسے ہو پائے گی؟ اگر چشم زدن میں آپ کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ یقیناً ایک تصویر جس شے کی تصویری ترجمان ہے اس سے مماثلت (resemblance) رکھتی ہے، تو پھردوبارہ سے غور کیجئے۔ میں اس تصور کو مماثلت، انگریزی حروف تہجی کےایک بڑے حرف (R) کی رعایت سے (Resemblance) کا نام دوں گا۔ نظریہ مماثلت کے بقول ، مماثلت براہ راست تصویری ترجمانی کو بیان کرتی ہے۔
یہ تصور خاصا دشوار ہے۔ چند مختصر مثالوں کے پیش نظر، ہم اس بات سے انجان ہیں کہ مخصوص تاریخی کردار جیسا کہ جون بپٹسٹ (John the Baptist) کس شباہت کے حامل تھے (کیسے دکھائی دیتے تھے) ، لیکن پھر بھی ہم ان کو تصاویر کے اندر نہایت کامیابی سے پیش کر سکتے ہیں ؛ بعینہ ، تخیلاتی (imaginary) اور محال (impossible) اشیاء بھی موجود ہیں جن کی ماہیت ہی ایسی ہے کہ ان کی مماثلت /مشابہت ناممکن ہے۔ میں دیگر مثالیں بھی دے سکتا تھا تاہم اس کے برعکس میں مماثلت (Resemblance) کی بھی تھوڑی بہت طرف داری کرنے کا متمنی ہوں ؛ تفصیل میں نہیں – غالباً ایسا کرنا ناممکن ہے – بلکہ اس سے یکسر الٹ تصورات میں موجود دو چار غلط تصورات کی نشان دہی کر تے ہوئے ایسا کروں گا ۔
تصویری ترجمانی پر لکھنے والے دو سب سے اہم اور جدید مصنفین میں نیلسن گڈمین (Nelson Goodman) اور رچرڈ والہائم (Richard Wollheim) شامل ہیں۔ دونوں نے اس موضوع پر مفصل تحریریں لکھی ہیں اور دونوں ہی صرف رد کرنے کی نیت کے ساتھ ہی مماثلت (Resemblance) پر لکھنے کو پر تولتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا ہمارے لیے ان سے معاملہ کرنا لازمی ہے۔ ہم گڈمین سے شروعات کریں گے۔ اپنی کتاب ’’لسانیات فن‘‘ (Languages of Art) کے آغاز ہی میں وہ مماثلت کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ترجمانی و مماثلت کے مابین پائی جانے والی مختلف منطقی نسبتیں ہی خصوصی طور پر اس کا نشانہ بنتی ہیں ۔ جب کہ مماثلت متناسب (symmetrical) اور معکوس (reflexive) نسبتوں کی حامل ہوتی ہے جب کہ ترجمانی بالعموم ان نسبتوں کی حامل نہیں ہوتی ۔پس ،ایک آدمی خود اپنے آپ سے مماثلت رکھتا ہے لیکن بالعموم خود اپنا ترجمان نہیں ہوتا۔مماثلت کے ہاتھوں ترجمانی کو بیان کرنے والے نقطہ نظر کے حامیوں کے واسطے یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے ، بلی اور بلی کی تصویر دونوں ہی ایک دوسرے سے یکساں مماثل ہوں گے ؛ بایں ہمہ ، بلی کی ترجمانی تصویر کے ہاتھوں ہوتی ہے نہ کہ اس کے بالکل الٹ۔
مماثلت (resemblance) کی تعریف ہی گڈمین کی پیش کردہ دلیل کا ایک ناقص نکتہ ہے۔ اس شعبے کے بیشتر لکھاریوں کی مانند ، وہ مماثلت کی کتابی تعریف سے زیادہ بیان نہیں کرتا کہ ’’مشترکہ خصوصیات رکھنے والی اشیاء کے درمیان متوازن نسبت کا نام مماثلت ہے‘‘ ۔ لیکن کیا عام آدمی کی حیثیت سے ہم ، درحقیقت ، اسی شے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جب ہم ایک بلی کی تصویر کے متعلق بات کرتے ہیں کہ تصویر، جانور سے مماثل ہے؟ راب فان گیرون (Rob Van Gerwen) اپنی کتاب ’’آرٹ اور تجربہ‘‘ (Art and Experience) کے اندر ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دکھاتا ہے۔ وہ منسوب کردہ مماثلت (attributed resemblance) کے مسئلے پر بات کرتا ہے اور کسی معروض (object) سے حاصل کردہ یک رخے مقصد کی جانب اشارہ کرتا ہے جو بنیادی اور معیاری صورت حال ہے کہ اشیاء کے مابین توازن کے بجائے تسلسل موجود ہے جیسا کہ ایک لڑکے کو اُس کے دادا جان کی شبیہ کہا جائے یا پھر ، بلاشبہ ، کسی تصویر کو تصویر کشی کے لئے بیٹھنے والے سے مماثل قرار دیا جائے۔
ہمارے لئے فان گیرون (Van Gerwen) کے حق میں اپنی مثالیں نقل کرنا قدرے آسان ہے۔ ملکہ اور ایک سکے کی مثال لیجئے جو اس کے سر کو ظاہر کرتا ہے۔ سکہ ملکہ سے مماثلت رکھتا ہے، اس قول کی عمومیت اور ملکہ سکے سے مماثلت رکھتی ہے، ان دونوں اقوال کے نرالے پن کا موازنہ کیجئے۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس قسم کا موازنہ فان گیرون کے ہاں موجود تصور کی طرف داری کرتا ہے جو کسی بنیاد سے اخذ کردہ تصور برائے یک رخا مقصد سے متعلق ہے۔
(آپ ) متفق نہیں ہوئے؟ اگر اس کے برعکس آپ اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ ملکہ سکے سے مماثلت رکھتی ہے، توپھر آپ نے ، جائز مگرغالباً غیر معمولی طور پر ، سکے کو بنیادی حیثیت دی ہے ۔مماثل الیہ (resemblee) یعنی جس چیز سےمماثلت دی جارہی تھی اب وہ (resembler) یعنی خود مماثلت کی حامل بن گئی ہے۔ اور اسی طرح مماثلت (resemblance) ایک تسلسل کے تحت ترتیب وار sequentially) ) قائم کی جاتی ہے۔ ہمیں مسٹر پوٹر (Mr. Pooter) کے مزاح پر مبنی جارج اور ویڈن گروسمتھ (George and Weedon Grossmith) کے تخلیق کردہ ناول ’’ناچیز کی ڈائری‘‘ (The Diary of Nobody) میں مذکور اس عمدہ نکتے کو نہیں بھلانا چاہیے کہ ’’اصل کے بغیر کوئی نقل نہیں ہو سکتی‘‘۔ اسی قسم کا ایک موقف تصویروں اور اشیاء کے مابین مفروضہ مماثلت سے متعلق بھی اپنایا جا سکتا ہے کہ (resemblee) یعنی وہ شے جس سے مماثلت دی جائے، اس کے بغیر مماثلت (resemblance) وجود میں نہیں آ سکتی۔ اس طرح بظاہر دکھائی دینے والی مماثلتی نسبت منہدم ہو جاتی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم گڈمین پر اپنی گفتگو کا اختتام کریں ، میں صرف لسانیات فن (Languages of Art) کے آغاز ہی میں موجود ایک قابل ذکر پیراگراف کا ذکرلازمی سمجھتا ہوں: ’’کانسٹیبل (Constable) کی تخلیق کردہ مارلبورو قلعے (Marlborough Castle) کی پینٹنگ ،قلعے سے زیادہ کسی بھی تصویر سے مماثلت رکھتی ہے، تاہم یہ کسی بھی تصویر، یہاں تک کہ قریب ترین نقل، کی بجائے قلعے کی ترجمانی کرتی ہے‘‘ ۔ ایک دوسری جگہ پر وہ دعوی کرتا ہے کہ ’’پیرس کا ایک پوسٹ کارڈ شہر سے اس قدر غیر متشابہہ ہے جتنا ہو سکتا ہے‘‘ ۔ یہ سب ان گھڑ یعنی خام مال ہے لیکن درحقیقت ، ایک سیاق و سباق /تناظر کے بغیر اشیاء کے مابین درجاتِ مماثلت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں گڈمین اپنا سیاق و سباق دے رہا ہے کہ کسی ’تصویری مشابہت‘ کی بجائے سب سے زیادہ لائق توجہ عناصر، پوسٹ کارڈ اور شہر، پینٹنگ اور قلعے کا جسمانی حجم اور اسی قبیل کے دیگر اجزاء ہیں۔ وہ (گڈمین) اگر چاہے تو اس سیاق و سباق کوقبول کر سکتا ہے، لیکن یہ راستے سے بھٹکا ہوا معلوم ہوتا ہے، جیسے وہ اپنی مرضی سے تصویروں کی ماہیت کو غلط سمجھ رہا ہو تاوقتیکہ وہ مماثلت (resemblance) پر بحث کر رہا ہے۔
والہائم کا جمالیات پر بنیادی کام ’’فن اور اس کے معروضات‘‘ (Art and it’s Objects) ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اس نے جگہ جگہ بصری ترجمانی (pictorial representation) سے متعلق لکھا ہے۔ یہاں میں صرف اس کی مماثلت (Resemblance) پر کی گئی تنقید کا ذکر کروں گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ نظریہ مماثلت (Resemblance) کے مطابق ایک تصویر کسی شے کی ترجمانی اس سے مماثلت کی بنیاد پر کرتی ہے۔ لیکن والہائم کہتا ہے کہ یہ اس مدعے کو الٹ کر دیتا ہے چونکہ یہ تصویر نہیں بلکہ اس میں موجود معروض (object) ہے جس کا کسی غیر حاضر سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تصویر میں موجود معروض (تصویر کا موضوع یا تصویر بنوانے والا) پہلے سے پہچانا جا چکا ہے۔ اس کی کسی اور شے سے مماثلت تلاش کرنے کی مزید ضرورت نہیں:
’’یہ سچ ہےکہ بعض اوقات ہم ایک تصویر پر یوں پکار اٹھتے ہیں ’’فلاں کی طرح جوں کا توں،لیکن کیسے!‘‘، لیکن یہ مثال، جیسا کہ شروع میں دکھائی دیتا ہے، میری دلیل کے خلاف نہیں ہے۔ اس بابت اگر ہم اس ’’فلاں‘‘ کو کھول کر بیان کرنے کی کوشش کریں جس کے ساتھ ہم، اس طرح کے معاملات میں، مماثلت کی توثیق کرتے ہیں تو ہم ممکنہ طور پر خود کو ’’یہ صورت عین فلاں کی طرح ہے‘‘ کی بہ نسبت ’’یہ شخص عین فلاں کی طرح ہے‘‘ کے بہت نزدیک پائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں، مماثلث کا منسوب کیا جانا ترجمانی کی زبان میں روپذیر ہوتا ہے اور لہذا اس (زبان) کو بیان کرنے کے لیے اس (نسبت) کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ (فن اور اس کے معروضات)
ہم اسکی حقیقی اہمیت پر والہائم کے ساتھ بحث کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارا سامنا کسی ایسے شخص کے ساتھ ہو جو ایک تصویر کے متعلق، اس پر جسکی یہ ترجمانی کرتی ہے یا آیا یہ ترجمانی کرتی بھی ہے، ہم سے اختلاف رکھتا ہو تو ہم اس شخص کو کیسے آمادہ کر سکتے ہیں؟ ہم کہہ سکتے ہیں ’’خاکے کو دیکھو یا سر کی بناوٹ کو دیکھو۔‘‘
اب جبکہ ’سر‘ اور غالبا ’خاکہ‘ ہنوز ترجمانی کی واضح زبان کے اندر ہیں تو ہمیں ایسی اصطلاحات کی ضرورت اور مناسبت کے مابین فرق کرنا چاہیے۔ اگر لفظ ’سر‘ ہماری نگاہ سے رہ جائے، ایسا تب ہو سکتا ہے اگر ہم اجنبی زبان بولنے کی مشقت کر رہے ہوں، تو ہم اسکی بجائے ’دھبہ‘ یا ’پچکا ہوا دائرہ‘ کہ سکتے ہیں۔ کیا یہ اصطلاحات ترجمانی کی زبان میں سے ہیں؟ اور اگر ہم انکا استعمال کر سکتے ہیں تو پھر کیا والہائم فقط غلط نہیں؟ ہم واضح طور پر ایک سر کی نہیں بلکہ ایک پچکے ہوے دائرے کی شناخت کر رہے ہیں۔
اولاً، اگر ’پچکا ہوا دائرہ‘ نامنظور ہے تو پھرعدم ترجمانی کرنے والی اصطلاحات کے ذریعے کینوس (Canvas) کی سطح کے متعلق بات کرنا شاید ہی ممکن ہو اور ترجمانی کے خلاف بولنے والے کے پاس بحرحال کہنے کو کچھ نہیں ہو گا۔ تاہم، اگر ’’پچکا ہوا دائرہ‘‘ منظور ہے، جیسا کہ یقینا ہونا ضروری ہے، تو دراصل کچھ ایسا موجود ہے جو ہم کسی شخص کو کہ سکیں جسے وہ مماثلت دکھائی نہیں دیتی جو ہم دیکھتے ہیں، مثال کے طور پر، ’’کیا وہ پچکا ہوا دائرہ فلاں کی طرح دکھائی دیتا ہے؟‘‘ ضروری نہیں کہ گفتگو کو ترجمانی کی عام زبان سے متعصب کیا جائے۔ ’سر‘ اور ’خاکہ‘ وغیرہ وغیرہ مناسبت یا اظہار کے دستور کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن مماثلت کی حمایت میں گفتگو کرنے والے کے لیے یہ اصطلاحات ناقابل اعتراض نہیں ہیں۔
تصویر کشی کے دیگر لکھاریوں کی طرح والہائم بھی دوسرے پہلو میں بھٹک جاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر نوعیت کی شے کی ترجمانی کی جا سکتی ہے، تجریدیت میں جیسا کہ پیالہ نما (Cuboid) شے سے لے کر پیچیدہ احوال تک جیسا کہ طوفان کے نتائج۔
یہاں ہمیں یہ حیرانی ہو سکتی ہے کہ آیا ترجمانی کے تصور کو بہت زیادہ کام میں لایا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنی فکر کو جمالیات پر مقید کرتے ہیں تب بھی یہ تصورات کے ایک سلسلے پر محیط ہے۔ پس بعض اوقات وضاحت اور درستی کی خاطر ہمیں اسکی بجائے علامتیت (Symbolisation) کے تصور کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک تصویر دل کی ترجمانی کرسکتی ہے جو محبت کی علامت ہے۔ اس بات کا دعوی کرنا مبہم ہو گا کہ تصویر واضح طور پر محبت کی تصویر کشی کرتی ہے۔ لیکن کیا والہائم نے بھی اپنے تصور، ’بصری ترجمانی‘ کو کن چیزوں پر محیط ہونا چاہیے، کی وسعت میں اس ہی قسم کی غلطی نہیں کی؟ ہم اس بات پر تعجب کا شکار ہو سکتے ہیں کہ آیا ایک طوفان کے نتائج کی تصویر کسی قسم کی علامتیت یا دوسرے درجے کی ترجمانی کو شامل نہیں کرتی۔ تصویر معروضات دکھائے گی جیسا کہ ایک سمندر کا منظر، کشتی کا ٹوٹا ہوا سامان اور وغیرہ وغیرہ۔ یہ کافی مبہم ہے کہ ان معروضات کی تصویر کشی ازخود کس طرح کی گئی ہے، اس بات کا دعوی کیے بغیر کہ جن احوال میں وہ شریک تھے ان کی عکاسی بھی واضح طور پر ہوئی ہے۔
ایسی ہی ایک غلطی کا ارتکاب مضحکہ تصویروں (Caricatures) کے معاملے میں بھی ہوتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ ایک مضحکہ تصویر بالکل بھی اپنے نشانے کی طرح نظر نہ آئے۔ تب بھی کچھ مفکرین اس ہی بات کا دعوی کرنا چاہیں گے کہ مضحکہ تصویر نے اپنے نشانے کی ترجمانی واضح طور پر کی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ ’ترجمانی‘ پر بوجھ بڑھانے کی یہ ایک اور مثال ہے۔ مثال کے طور پر، تجزئیے کے آغاز میں ایک مضحکہ تصویر میں ایک موٹی آنکھوں والے آدمی کی ترجمانی کی گئی ہے۔ وہ ترجمانی پھر کس طرح سے اپنے نشانے کی مضحکہ تصویر ہے، یہ ایک علیحدہ سوال ہے اور بدقسمتی سے یہاں میری وسعت سے پرے ہے۔ ترجمانی کا تصور اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اسکا حساب پیش کرنا پیچیدہ اور درحقیقت ناممکن ہو گیا ہے۔ بصری ترجمانی کی گفتگو جو کہ مماثلت کی مخالفت کرتی ہے ، جیسا کہ گڈ مین اور والہائم کی ہیں، کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ایک طرف یہ ترجمانی کو جتنا وسیع پیمانے پر لے جا سکتے ہیں لے جاتے ہیں اور دوسری طرف یہ مماثلت کو جتنا ممکن ہے محدود کرتے ہیں۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ بصری ترجمانی کی وضاحت کا امر مماثلت کے ذمے نہیں۔