فاؤسٹ (حصہ دوم: ساتواں باب)
ایک ہفتہ پہلے تک مارگریٹ کی زندگی یکسر معصوم و پُرمسرت تھی ۔ بچپن میں جب اُس کے باپ کا انتقال ہوا تھا جب سے اب تک اس کے گھر میں غم کی ہوا تک داخل نہ ہوئی تھی ۔ اتنا ضرور ہوا تھا کہ جب کسی لڑائی کے موقع پر اُس کا بھائی جدا ہوتا تو اسے صدمہ ہوتا لیکن اس کا بدلہ اُس بے انتہا خوشی سے ہو جاتا تھا جب وہ فتح مند واپس آتا تھا ۔
مارگریٹ کی مسرتیں سیدھی سادی ہوتی تھیں ، لیکن اُس کی زندگی ان سے چھلکتی رہتی تھی ۔ کیونکہ ذرا ذرا سی بات پر اُس کا دل خوشی سے دھڑکنے لگتا تھا ۔ پرندوں کی چہکار، پھولوں کی مہکار، صبح کی ٹھنڈی ہوا، تازہ ہوا کے خلاف دوڑنا ، معمولی سا تحفہ ، کوئی نیک کام یا چند محبت کے الفاظ اسے لبریزِ مسرت کر دیتے تھے ۔ اس کی دلچسپیوں کا کوئی شمار نہ تھا کیونکہ جتنی چیزیں اس کے گِرد ہوتی تھیں اُن سب سے وہ لطف اٹھاتی ۔ پڑوس کے بچوں کے ساتھ کھیلتی ، گاتی اور ناچتی ۔ اپنے بڑے بھائی کی عجیب و غریب کہانیوں اور ہنسی مذاق کی باتوں پر خوب ہنستی اور گھر کے کام کام میں دل لگا کر مصروف ہوتی ۔
پھر اُس کی زندگی میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا جس سے شروع شروع میں اُسے ڈر لگا ۔ لیکن اس نئی قوت نے جلد ہی اُسے جذب کر لیا اور زندگی اس کے لیے ایک ایسی دنیا بن گئی جس کی کوئی حد نہیں تھی ۔ گویا ایک لامحدود دنیا میں اُس نے اب پھر جنم لیا تھا ۔ پہلے تو گویا وہ زندگی میں چہکتی تھی اور پھُدکتی تھی اور اب بڑے بڑے پر لگائے آسمان میں اُڑ رہی تھی ۔
یکایک ، ایک ہی رات میں ، زندگی کے وہ سارے خوف و خطر اُس پر ٹوٹ پڑے جو اب تک یونہی گزر جایا کرتے تھے ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ موت کیا ہوتی ہے لیکن اُس رات کو اس کی ماں اور بھائی دونوں نے اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا ۔ اُس کے لیے یہ سانحے یوں اور بھی عذاب بن گئے کہ دونوں کی موت کا سبب وہ ہستی تھی جس نے اُس کی زندگی میں اس درجہ عجیب و غریب تبدیلی کی تھی ، اور جس کی روح اس کی اپنی روح میں گھل مل گئی تھی ۔
وہ اپنے اُسی گھر میں بیٹھی ہوئی تھی جو اُس کے گیتوں اور قہقہوں سے گونجتا رہتا تھا ، ماں کی محبت آمیز باتوں اور بھائی کے گرج دار ٹھٹھوں سے آباد رہتا تھا ۔ لیکن اب وہی گھر اُجاڑ اور بھیانک بن گیا تھا ۔ اُس کا دل سرد پڑ گیا تھا اور غم میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اُس نے اپنی ماں کی آخری دل شکن نظر دیکھی اور اپنے سسکتے بھائی کی نحیف حقارت آمیز ہنسی سُنی اور وہ کبھی نہ فراموش ہونے والے الفاظ جو آخری وقت اس کے منہ سے نکلے تھے ۔ کیا اُسے اپنے گناہوں کی سزا مل رہی تھی ؟ اسے یہ نامنصفانہ معلوم ہو رہا تھا کہ اُس کا اپنا وسیع القلب بھائی اور متقی و پرہیز گار ماں دونوں کے دونوں اس قدر غمناک موت مرے ، اور اُن کے آخری خیالات محض اس کے گناہ کی وجہ سے اس درجہ تکلیف دہ ہوئے ۔ لیکن اُسے سب سے زیادہ رنج اپنے عاشق کی فراری کا تھا ۔ اب صرف اُسی کا خیال تھا جس نے اُسے زندگی سے وابستہ کر رکھا تھا ۔ وہ اپنے عاشق پر غور کرنا نہیں چاہتی تھی ۔ محبت کے پہلے بوسہ میں اُس نے اپنی روح اور اپنا کُل اعتماد اُسے سونپ دیا تھا ۔ بس اب تو اُس کی محبت ہی تھی جو اُس کی زندگی میں کچھ اہمیت رکھتی تھی ۔
مارگریٹ سمجھ رہی تھی کہ اب وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچ گئی ہے ۔ کوئی انسان اس سے زیادہ کرب و صعب برداشت کر کے جیتا نہیں رہ سکتا ۔
وہ اپنے غموں میں گھِری بیٹھی تھی کہ دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ حکم دینے کی ایک کرخت آواز سنائی دی اور چار سپاہی گھر میں داخل ہوئے ۔ یہ کلیسا کے دستہ محافظ کے سپاہی تھے ۔ اُن کے پیچھے پیچھے ایک پادری لمبا سیاہ چغہ پہنے تھا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک لپٹا ہوا محضر (حکم نامہ ) تھا ۔ یہ ایک دراز قد دبلا سوکھا ہوا آدمی تھا ، لمبا سا چہرہ اور چھوٹی چھوٹی چمک دار آنکھیں تھیں ۔
مارگریٹ تھرتھر کانپتی کھڑی ہو گئی کیونکہ وہ محسوس کر رہی تھی کہ خوشی کی خبر اُسے کوئی نہیں سنائے گا ۔ اُس کے دوست اور کنبے رشتے والے سب کے سب اُسے یا تو نفرت سے دیکھنے لگے تھے یا برا بھلا کہنے لگے تھے ۔ نئے آنے والے اور اجنبی لوگ بھی ان سے کم اور کیا کہتے بلکہ شاید کچھ بُری خبریں ہی اور ساتھ لاتے ۔
پادری نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا:- ’’تو ہی مارگریٹ ہے ، ویلنٹین کی بہن ؟‘‘
مارگریٹ نے کہا، ’’جی ہاں‘‘۔ اُس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور چہرہ جامد تھا ۔
پادری نے محضر کھولا اور پھر کپکپاتی لڑکی کی طرف دیکھ کر مہین خشک آواز میں بولا:- ’’بڑے پادری صاحب نے آج صبح تیرے گناہوں کو جانچا اور بہت سے گواہوں کی سماعت کی ۔ انہوں نے اپنا فیصلہ یہ لکھا ہے ، ‘ حرام کاری کے گناہ کی پاداش میں اور جسم کی ناجائز بھوک سیر کرنے کے جرم میں تجھے سزا دی جاتی ہے کہ چوراہے پر چھ گھنٹے تک شکنجہ میں تجھے کھڑا رکھا جائے تاکہ بدکرداروں کو عبرت ہو اور خود تیری روح کو اِس سے فائدہ پہنچے‘ ۔ یہ تجھے آج ہی کرنا ہو گا‘‘۔
مارگریٹ نے جب یہ خبر سن لی تو اس کا کپکپانا جاتا رہا کیونکہ دل میں ڈر رہی تھی کہ کہیں یہ بری خبر فاؤسٹ کی ذات سے متعلق نہ ہو ۔
پادری نے پھر کہنا شروع کیا:- ’’پھر میری بچی ، کفارہ اور توبہ کے بعد وہ گناہ جو تو نے خدا کے کیے ہیں ، معاف ہو جائیں گے ۔ لیکن تجھ پر اور گناہوں کا بھی شبہ ہے ۔۔۔۔ انسان کے گناہ ۔ ان کا فیصلہ عدالتِ دیوانی کرے گی لیکن اگر تو ہمارے سوالات کا تشفی بخش جواب دیدے گی جو ہم تجھ سے اب پوچھیں گے تو تجھ پر آگے مقدمہ نہیں چلایا جائے گا : -تیرا عاشق کہاں ہے ۔۔۔ تیرے بھائی ویلنٹین کا قاتل؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم ‘‘ ۔ اور پھر چپکے سے دل ہی دل میں کہنے لگی ، ’’ کاش مجھے معلوم ہوتا‘‘۔
’’یہ کون شخص ہے ؟ اس کا کیا نام ہے ؟‘‘
مارگریٹ پھر کپکپانے لگی اور اس کی مٹھیاں زور سے بھنچ گئیں ۔ لیکن وہ خاموش رہی ۔
پادری نے دیر تک اس کی طرف گہری نظر سے دیکھا اور اُس کا چہرہ سخت پڑ گیا ۔
’’تیری خالہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ کوئی شہزادہ ہے ۔ کیا یہ سچ ہے ؟ بول !‘‘
مارگریٹ اب بھی خاموش رہی ، لیکن اس کے سانس کی رفتار بڑھ گئی اور آنکھوں کے خوف میں زیادتی ہو گئی ۔
’’بول !‘‘ ، پادری نے حکم دیا مگر وہ گونگی بنی رہی ۔
’’تیرے عاشق اور اُس کے ساتھی کا تعلق شیاطین اور ناپاک روحوں سے تھا نا؟ منہ سے بول ! جو کچھ تجھے معلوم ہے ، بتا دے ورنہ تیرے حق میں بہت برا ہو گا‘‘۔
مارگریٹ نے آہستہ آہستہ اِنکار میں اپنا سر ہلا دیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا ۔
پادری نے بے چینی سے سپاہیوں کی طرف پلٹ کر کہا:- ’’باندھ دو اِس کی مشکیں‘‘۔ اور مارگریٹ کی طرف دیکھ کر بولا :-’’ شکنجے میں کھڑے رہنے کے بعد شاید اللہ تعالیٰ کا رحم تیری زبان کھول دے گا‘‘۔
ایک سپاہی آگے بڑھا اور مارگریٹ کے ہاتھ پیچھے کھینچ کر چمڑے کے تسموں سے باندھنے لگا۔ دوسرے نےبڑھ کر اس کے پاؤں میں سے جوتیاں اُتار لیں ۔ پھر اِن سپاہیوں کے جمعدار (افسر) نے حکم دیا اور سب کے سب گھر سے باہر نکلے ۔ مارگریٹ بیچ میں تھی ۔ دو سپاہی آگے اور دو پیچھے ، اور ان کے برابر ذرا ہٹ کر پادری اپنی آستینوں میں ہاتھ ڈالے چل رہا تھا ۔
چوراہے کے بیچوں بیچ چھ گھنٹے تک مارگریٹ شکنجے میں کھڑی رہی اور جب سورج غروب ہو گیا تو خدامِ کلیسا آئے اور آ کر اُن زنجیروں کو کاٹا جن سے اُس کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے تھے ۔
چھ گھنٹے تک وہ اِسی حالت میں ایک چبوترے پر بھوکی پیاسی کھڑی رہی تھی تاکہ تماشائی اُسے اچھی طرح دیکھ سکیں ، اُسے منہ چڑائیں ، آوازے کسیں ، مذاق اڑائیں اور اگر جی جاہے تو اُس کے منہ پر تھوکیں ۔ شکنجے کے گرد لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی اور تماشائی چبوترے پر پلے پڑتے تھے ۔ دو سپاہی پہرے پر کھڑے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پہرہ بدلتا رہتا تھا ۔ یہ سپاہی بھیڑ کو روکے ہوئے تھے ورنہ لوگ مجرمہ پر ٹوٹ پڑتے اور اُس کے چیتھڑے اُڑا دیتے ۔ کبھی کبھی بھیڑ کم ہو جاتی تھی لیکن ہر وقت وہاں ایسے لوگ موجود ہوتے تھے جو مذاق اڑاتے اور بری بری باتیں کہتے ۔ اِن میں زیادہ تر شہر کی لڑکیاں شریک تھیں ۔ عمر رسیدہ لوگ اُسے کڑی نظروں سے دیکھتے اور اُسے بدی کا نمونہ سمجھ کر کہتے کہ خدا اس کی بدکرداری کی سزا دے رہا ہے ۔ نوجوان اُس کی غمناک آنکھوں کو دیکھ کر پسیج جاتے تھے ۔ لیکن ان میں سے کوئی کوئی مارگریٹ کی ہیئت کذائی پر فقرہ چُست کرتا اور اس پر اور سب مل کر قہقہہ لگاتے گویا بڑے موقع کی بات کہی ۔
لیکن لڑکیوں کی کشش کا کچھ اور ہی جذبہ تھا ۔ یہ سب بھیڑ کے بیچ میں تھیں اور مارگریٹ کی طرف انگلیاں اٹھا اٹھا کر طرح طرح کی باتیں جوش میں کہتی تھیں اور جب تک مارگریٹ شکنجے میں کھڑی رہی ، یہ سب بھی کھڑی رہیں اور طعنے تشنے(لعنت ملامت) دیتی رہیں ۔ ان میں ایک نے بڑی حقارت سے مسکرا کر کہا:- ’’کیوں مارگریٹ ، اب اِس تختے پر بیٹھنے کے بعد تیرا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ؟ میں سمجھتی ہوں کہ اِن زنجیروں کے لپٹنے میں وہ مزا تو تجھے نہیں آ رہا ہو گا جو تیرے عاشق کے لپٹنے میں آیا ہو گا‘‘۔ ایک اور بولی ، ’’اری معصوم مارگریٹ ! تو کیسی اچھی رہی کہ اپنی نیک چلنی کے باعث ہم سب سے اتنے بلند مرتبے پر پہنچ گئی !‘‘۔
لیکن یہ دل لگی بہت جلد بدمزہ ہو گئی کیونکہ جس لڑکی پر ان نشتروں کی بارش کی جا رہی تھی وہ اپنے اطراف و اکناف سے بالکل بے خبر تھی ۔ اُس کا چہرہ سفید اور مرجھایا ہوا تھا ۔ کوئی بہت گہرا جذبۂ غم اُس کے دل پر چھایا ہوا تھا ۔ اُس کے کان ساری بیرونی آوازوں کے لیے بہرے اور اُس کی آنکھیں کل بیرونی اشیاء کے لیے اندھی تھیں ۔ وہ انسانی ہستیاں جو اُس کی حمایت کر رہی تھیں ، ننھے ننھے بچے تھے ۔ وہ بچے بڑی دیر سے آخیر تک اُس کے شکنجے کے پاس کھڑے رہے ۔ ان میں سے ایک چیخیں مار مار کر رو رہا تھا اور دوسرا جو ذرا بڑا تھا ، برا بھلا کہنے والوں پر چیخ رہا تھا اور طعنے دینے والی لڑکیوں کو ڈانٹ رہا تھا ۔ لیکن مارگریٹ اپنے ننھے حمایتوں سے بھی اُسی قدر بے خبر تھی جتنی اُن سے جو اُس کی ذلّت پر خوشیاں منا رہے تھے ۔
جب سورج غروب ہوا تو اُس کی زنجیریں کاٹ دی گئیں اور ایک سپاہی نے اُسے پکڑ کر شکنجے میں سے نکال زمین پر اُتارا ۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ چبوترے پر سے خود اتر آئے ۔ کیونکہ کمزوری کی وجہ سے وہ بے دم ہو رہی تھی ۔ وہ خون جو زنجیروں کی جکڑ بند سے رُک گیا تھا ، اب پھر رواں ہوا اور اس سے اُسے سخت تکلیف ہو رہی تھی ۔ لڑکیوں اور جوان عورتوں کی ایک بھِیڑ اس کے گرد لگ گئی اور یہ سب کی سب مل کر اُسے گالیاں دے رہی تھیں ۔ جب تک وہ اِن میں نہیں گھِر گئی وہ اپنے گردوپیش سے بے خبر رہی ۔
وہ اپنے چاروں طرف حیران ہو کر دیکھ رہی تھی ۔ چیخنے والی لڑکیوں کی بھِیڑ ، شکنجہ ، اُس کا محافظ سپاہی ، چھوٹا سا لڑکا جو اُس کے قریب کھڑا رو رہا تھا اور اُس کے ہاتھ کو کھینچ رہا تھا ، ان سب کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی ۔ پھر ایک دم سے اُسے اپنی زبوں حالی کا احساس ہوا ۔ سارے دن میں اب پہلی دفعہ اُس کے رخساروں پر سُرخی آئی ۔ پھر ذلّت اور شرمندگی کی رَو اُس کے جسم میں دوڑ گئی ۔ اُس نے نظریں نیچی کیں اور اپنے ننگے پیروں کو دیکھا اور پھر خوف زدہ ہو کر اس مجمع کو دیکھا جو اپسے گھیرے کھڑا تھا ۔
اُس کی آنکھوں میں ایک وحشیانہ چمک تھی جیسے اُس شکار کی آنکھوں میں ہوتی ہے جس کے تعاقب میں شکاری ہو ۔ گھبرا کر وہ غضبناکی سے بھِیڑ میں بے تحاشہ گھُس گئی اور دوسری طرف نکل گئی ۔ لیکن سپاہیوں کے روکتے روکتے کئی لڑکیوں نے اُس پر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ پھر بازار میں سے اِس طرح بھاگی جیسے شکاری کتے اُس کا پیچھا کر رہے ہوں اور جلدی ہی اُن سب کو پیچھے چھوڑ اس واحد جائے امان کا رُخ کیا جو اُس کا آخری ٹھکانہ تھا ۔ غمناک اور اُجاڑ ، جس میں بیم و ہراس پہرہ دے رہے تھے اور ان سب سے زیادہ اس کے جملہ عیش و نشاط کا مزار—– وہی جو کبھی اُس کا گھر تھا۔
جب وہ اپنے گھر پہنچی تو درد سے بُری طرف ہانپ رہی تھی اور اس کی حالت سنبھلتے سنبھلتے کافی وقت گزر گیا ۔ وہ تھوڑی دیر تک آرام لیتی رہی اور اس کا ذہن گذشتہ واقعات کی یاد سے گڈمڈ ہو رہا تھا ۔ پھر اٹھ بیٹھی اور خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھنے لگی ۔ جس چیز پر بھی نظر پڑتی تھی اُس سے کوئی نہ کوئی دلدوز یاد وابستہ ہوتی تھی ۔ ایک کمرے میں سے دوسرے میں گئی ۔ الماریاں کھولیں اور اُن تمام چیزوں کو چھُوا جو اُس کی ماں کے استعمال میں رہتی تھیں ۔ کوئی کوئی چیز ایسی ملی جس میں کشیدہ کاری یا سُوئی کا کام ادھورا رہ گیا تھا ۔ اس کے بھائی کی بڑی سی تلوار اب ایک دروازے کے پیچھے رکھی تھی ، اوراُس کے موٹے چمڑے کا سینہ بند تلوار کے اُوپر ایک کھونٹی پر لٹکا ہوا تھا ۔
اس کے چہرے پر پھر زردی کھِنڈ گئی تھی اور بے حس و حرکت تھا ۔ آنکھیں خشک پڑی تھیں ۔ اب اُس کمرے میں داخل ہوئی جس میں رہتے سہتے تھے اور جس کی کھڑکی میں سے بازار نظر آتا تھا ۔ کھڑکی کے پاس ہی اُس کی ماں کی کرسی اُسی طرح رکھی تھی اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی ابھی اُٹھ کر باورچی خانے گئی ہے ۔ اس کے پاس جا کر مارگریٹ نے محبت سے اِس کرسی پر ہاتھ پھیرا ۔ پھر ایک دم سے اس کرسی کے آگے دوزانو ہو گئی اور ہاتھ بڑھا کر اُس سے اس طرح بغل گیر ہونے لگی جیسے کوئی اس پر بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے اور وہ اس کی طرف غم آمیز نظروں سے اس طرح دیکھ رہا ہے گویا وہ سمجھ رہا ہے اور معاف کر رہا ہے ۔
سبکیوں سے وہ لرزنے لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ اُس کی ایک چیخ نکلی اور یہ چیخ تنہائی اور دہشت کی تھی ، ’’اماں ! اماں !‘‘۔