فاؤسٹ (حصہ دوم: دسواں باب)
مارگریٹ کی پریشانیوں کے زمانے میں ، اِس طویل مدت میں اُسے فاؤسٹ کا نہ تو کوئی پیغام پہنچا اور نہ اُس کی کوئی خیر خبر ملی ۔ فاؤسٹ کو اس نے چند بار خواب میں دیکھا تھا — نور کا ایک مجسمہ جس میں سے محبت اور پیار کی کرنیں نکل رہی تھیں ۔ بعض اوقات اُس نے فاؤسٹ کی محبت آمیز سرگوشیاں سنی تھیں لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ بے حقیقت خواب ہیں جو خود اُس کے متخیلہ نے بنائے ہیں ۔ کئی دفعہ اُس نے اپنی تمام ذہنی قوتوں کو مجتمع کیا اور خلائے بسیط میں انہیں منتشر کیا تاکہ اُس کے محبوب تک پہنچ جائیں ۔ وہ سمجھتی تھی کہ اُس کی محبت اس قدر شدید ہے کہ فاؤسٹ ضرور کبھی کبھی اُس کے وجود کو اپنے نزدیک محسوس کرتا ہو گا ۔
اِس کا اُسے یقین تھا کہ فاؤسٹ ابھی زندہ ہے ، دل گواہی دیتا تھا ۔ لیکن اُس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا تھا کہ کسی بہت بڑے خطرےمیں گھرا ہوا ہے ۔ مگر فاؤسٹ نے اپنی روح کو اِس کی تلاش میں کبھی نہیں بھیجا تھا ۔ شاید مارگریٹ کا شبہ غلط نہ ہو ۔ فاؤسٹ مر نہ گیا ہو ۔ مگر نہیں ، یہ خیال کرنا دیوانہ پن ہے بلکہ گناہ ہے ۔ اُس کی روح میں ایک یقین تھا جسے سارے صدموں نے زائل نہیں کیا ، جو اتنا ہی واثق تھا جتنا کہ خدا کا یقین ۔ اور وہ یہ تھا کہ مرنے سے پہلے وہ اپنے محبوب کو ضرور دیکھے گی ۔
مارگریٹ کا خیال ٹھیک تھا ۔ فاوسٹ ابھی دنیا میں گھوم رہا تھا ۔ گو اُس نے اپنی محبوبہ کو کوئی پیغام نہیں پہنچایا تھا تاہم اُس کے خیالات میں وہ ضرور بسی ہوئی تھی ۔
ویلنٹین کی موت پر میفسٹو کے کہنے کے مطابق وہ روڈا سے فرار ہو گیا تھا مگر اِس خیال سے اُس کا دل بے چین تھا کہ اپنی محبوبہ کو اُس کے ہاتھوں کس درجہ رنج و غم کا شکار ہونا پڑا ۔ تکلیف دہ خیالات کا ایک دَور اُس پر گزرا اور نتیجے کے طور پر اُس نے ایک زبردست ارادہ کیا ۔ جوانی کا تحفہ خود اُس کے لیے اور اُن کے لیے بھی جن سے اُسے محبت تھی ، ایک عذاب ثابت ہوا ۔ مارگریٹ پہلی عورت تھی جس سے اُس نے بے لوث اور سچی محبت کی لیکن اُس کے لیے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا ۔ بس تو آئندہ پھر کبھی وہ اُسے نہ دیکھے گا ۔ فاؤسٹ کی قسمت کا منحوس ستارہ اُس کے مطلع حیات کو آئندہ کبھی مکدّر نہ کرے گا ۔
فاؤسٹ کو پوری طرح علم نہیں تھا کہ مارگریٹ پر مصیبتوں کے کیسے کیسے پہاڑ ٹوٹے ۔ وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ مارگریٹ کی زندگی اس نے برباد کر دی ، اس کا دل توڑ دیا اور ساری عمر کے لیے اس کا چین اور آرام غارت کر دیا ۔ اُس کے بھائی کے مر جانے کا اُسے یقین تھا ۔ ماں کو گرتے دیکھا تھا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ مر گئی ۔ سوچتا تھا کہ جب اُسے معلوم ہوا ہو گا کہ بیٹی پر کیا سانحہ گزر گیا تو ماں کا دل کیسا کیسا کٹتا ہو گا ۔ اُس نے چاہا تھا کہ اپنی محبوبہ پر اپنی محبت کے سارے خزانے لٹا دے مگر اس کے بدلے یہ کیا کہ سانپوں سے بھرا ایک بکس اُس کے حوالے کر دیا ۔ بس اب تو یہی کرنا چاہیے کہ مارگریٹ کی زندگی سے یکسر علیٰحدہ ہو جائے اور اُس کے خیال کو بھی اپنے دل سے اُکھاڑ پھینکے ۔
اِس خیال کو بھلانے کے لیے میفسٹو کی ہدایتوں کے مطابق وہ ایک سے ایک نئی دلچسپی میں منہمک ہوا ۔ بھیس بدل بدل کر ساری دنیا کا سفر کیا ۔ مشرق اور شمال کے دور سے دور ممالک میں پھرا اور یورپ کے تقریباً ہر شہر میں گھوما ۔ تاریخ کے گزرے ہوئے زمانوں میں سحر کے زور سے پہنچ گیا اور عیش و نشاط میں غرق ہو گیا کہ کسی طرح اُس غمگین صورت کی حسین لڑکی کی یاد دل سے محو ہو جائےجس کی زندگی کو اُس نے اس بری طرح برباد کیا تھا ۔ لیکن وہ اُس کے ذہن سے ایک لمحہ کے لیے بھی جدا نہ ہوتی تھی ۔
اس وقت فاؤسٹ ایک بہت بڑے غار میں کھڑا تھا ۔ میفسٹو کے ارضی مسکنوں میں سے ایک یہ بھی تھا جو اس قدر پوشیدہ اور اُجاڑ مقام تھا کہ انسان کا خیال بھی اُس کی طرف پرواز نہیں کرتا تھا ۔ جب سے دنیا بنی تھی سوائے فاؤسٹ کے کسی انسان نے اِس خطہ پر قدم نہیں رکھا تھا ۔ اُس کا چہرہ غم آلود اور سر جھکا ہوا تھا ۔
اُس کے پیچھے اُس کا عکسِ بدی میفسٹو کھڑا تھا ۔
میفسٹو نے تُند نظروں سے فاؤسٹ کی طرف دیکھا کہ اِس شخص کے دل سے خصائص خداوندی ابھی تک پوری طرح زائل نہیں ہوئے تھے ، بولا :ـ ’’ تو اب بھی مطمئن نہیں ہے فاؤسٹ۔ دولت، عورتیں ، عیش ، علم اور دنیا کی ساری طاقتوں پر تجھے اقتدار حاصل ہے ۔ لیکن تو اب بھی سوچ میں ہے ۔ اب بھی روڈا کی اُسی بے وقوف چھوکری کی دُھن سوار ہے‘‘۔
فاؤسٹ غصے سے پلٹ کر بولا:- ’’ تو نے مجھے دھوکہ دیا ۔ میرے گناہوں کی سزا مارگریٹ کو مل رہی ہے ۔ میں نے اُس کی آواز سنی ہے ۔ جب میں عشرتوں میں غرق ہو کر اُس کے خیال کو بھلانے کی کوشش کرتا ہوتا تھا تو اُس کی آواز خلا کو چیرتی ہوئی میرے کانوں تک آتی تھی اور میں اُس سے بچنے کے لیے اپنی روح کو چھپاتا تھا کیونکہ اُس کا جواب دینے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی ۔ کل رات کو وہ میرے خواب میں آئی اور اُس کے چہرے پر عجیب بیم و ہراس کے آثار تھے ۔ میرا ارادہ مرجھا گیا ۔ مجھے معلوم کرنا ہے کہ اُس پہ کیا بِیت رہی ہے‘‘۔
میفسٹو نے حقارت سے جواب دیا:- ’’ اور اگر اُس پر بری بیت رہی ہو گی تو کیا تیری وجہ سے؟ اُس نے اپنے کرتوتوں سے پادریوں کو اپنے پیچھے لگا یا جو اُسے اُس کی غلطیوں کی سزا دے رہے ہیں‘‘۔
’’اچھا! اُس کی زندگی میں ہمارا کچھ دخل ہی نہیں ؟ تو نے ہی تو وہ عرق بنایا تھا جو میں نے اُسے پلایا تھا‘‘۔
فاؤسٹ نے بڑے غصہ سے جواب دیا ۔ پھر ایک دم سے اُس نے اپنا سر پھیرا اور کان لگا کر سننے لگا ۔ ہاتھ کی جنبش سے میفسٹو کو خاموش رہنے کا حکم دے کر بولا، ’’ خاموش! میری محبوبہ مجھے پھر آواز دے رہی ہے‘‘۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا رہا ، لب سے لب جدا تھا اور آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ مارگریٹ کی آواز اُسے سنائی دے رہی تھی اور اِس آواز میں کرب و صعب کی دردناک التجا تھی :-
’’میرے محبوب ۔ تیری مارگریٹ تجھے پکارتی ہے ، آ ۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے‘‘۔
فاؤسٹ نے چیخ کر کہا ، ’’تو کہاں ہے مارگریٹ؟‘‘ ۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا گو فاؤسٹ دیر تک کان لگائے سنتا رہا ۔ پھر جلدی سے میفسٹو کی طرف پلٹ کر بولا ، ’’مجھے دکھا ، و ہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے ؟‘‘۔
میفسٹو کی آنکھیں سُکڑ گئیں اور چہرے سے نارضامندی ظاہر ہو رہی تھی لیکن وہ تعظیماً جھکااور بولا،’’ تو نے حکم دیا ہے ۔ اچھا تو دیکھ اُس غار میں‘‘۔
جس غار میں یہ کھڑے تھے اُس کے پیچھے ایک اور چھوٹا غار تھا اور اُس کے تاریک دہانہ میں فاؤسٹ گھورتا رہا ۔ اس میں رفتہ رفتہ روشنی چمکنے لگی اور ایک منظر واضح ہوتا گیا ۔ یہ منظر اتنا صاف ہو گیا کہ اس میں انسان چلتے پھرتے نظر آنے لگے ، بالکل جیسے گوشت پوست کے انسان چل پھر رہے ہوں ۔
فاؤسٹ نے دیکھا کہ ایک نیچی سی چھت کا کمرہ ہے ۔ اس میں ایک لمبی میز بچھی ہے ۔ اس کے ایک طرف کئی آدمی کالے کالے چغے پہنے بیٹھے ہیں ۔ اُس کا دل دھک سا ہو گیا کیونکہ ان آدمیوں کے سامنے اُسے مارگریٹ اس طرح کھڑی نظر آئی کہ ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے اور سپاہیوں کا ایک دستہ اُس کی نگرانی کر رہا تھا ۔ مارگریٹ اس قدر بدل گئی تھی کہ فاؤسٹ اُس کی موجودہ ہیئت کذائی کو دیکھ کر کانپ اٹھا ۔ جب اُسے پہلے پہل دیکھا تو وہ ایک چونچال لڑکی تھی ، جنگلوں کی روح ، گیتوں قہقہوں اور مسرت سے لبریز ۔ چہرے سے معصومیت اور خوشی ٹپکتی تھی لیکن اب روشنی اور قہقہوں کے سارے آثار مٹ چکے تھے ۔ اب تو حالت یہ تھی کہ اُسے دیکھ کر ترس آتا تھا ۔ چہرہ پتھر کی طرح جامد اور خود مجسم غم و اندوہ بنی ہوئی تھی ۔ سیاہ لباس والوں میں سے ایک کھڑا ہوا ۔ فاؤسٹ کی طرف اس کی پیٹھ تھی ۔ اُس نے اپنے ہاتھ سر سے اونچے اٹھائے اور اُس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ایک سفید چھڑی تھی ۔ اُس کے ہاتھ ایک دم سے جھکے اور جھکتے ہی چھڑی ٹوٹ گئی ۔ فاؤسٹ نے دیکھا کہ مارگریٹ کے چہرے پر مُردنی چھا گئی اور لبوں سے معلوم ہوتا تھا کہ شدتِ غم سے وہ چیخ رہی ہے ۔ پھر یہ ساری شکلیں گڈمڈ ہونے لگیں اور دھوئیں کی طرح بَل کھا کر یہ منظر فاؤسٹ کی نظروں سے غائب ہو گیا ۔
فاؤسٹ نے ایک خوفناک چیخ ماری ۔
’’سفید چھڑی ! ارے یہ تو موت ہے ! میفسٹو، اُسے بچا ۔ بچانا پڑے گا تجھے ! اُسے میرے پاس لے آ ۔ ورنہ میری ابدی بددعا تیرے لیے ہے‘‘۔
میفسٹو بے رحی سے ہنس کر بولا ،’’ تیری بددعا! کیا میں منتقم کے الفاظ کو بے اثر کر سکتا ہوں ! اُس کے انتقام کی بجلیوں کو میں کیسے لَوٹا سکتا ہوں ! اُسے بچاؤں ؟ بھلا اُسے تباہ و برباد کرنے والا کون تھا، میں یا تو۔۔۔؟‘‘
’’تُو میفسٹو! ہر زمانے کی بدی کا محرک ! تو وہ غلاظت ہے جس سے چاروں طرف غلاظت پھیلتی ہے ۔تو نجس عطیات سے سرفراز کرتا ہے ۔ بس ایک آخری تحفہ میں تیرے ہاتھ سے اور لوں گا ۔ مارگریٹ کو بچانے کے لیے مجھے لے چل‘‘۔
’’کیا مجھے معلوم نہیں ہے فاؤسٹ کہ روڈا میں تیرے لیے کیا خطرہ ہے ؟ تو قاتل ہے ۔ روڈا میں تو نے خون بہایا ہے ۔ مقتول کے شہر پر انتقام کی روحیں قاتل کے انتظار میں منڈلا رہی ہیں ۔ روڈا میں تیری قسمت پر میری قوتیں اثرانداز نہیں ہو سکتیں‘‘۔
فاؤسٹ نے بے صبری سے چیخ کر کہا ، ’’ مجھے اُس کے پاس فوراً لے چل‘‘۔
میفسٹو کی بھنویں سکڑ کر آڑی ہو گئیں اور اُس نے دیدے چمکا کر کہا ، ’’ اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ پانی سر سے اونچا ہو چکا ۔ تیری امداد کا وقت نکل گیا ۔ تیری محبوبہ کے لیے تو چِتا چُنی جا رہی ہے‘‘۔
’’ابھی تک تو میرا غلام ہے ۔ تیار ہو جلدی ، ابھی ۔ میں تجھے حکم دیتا ہوں‘‘۔
میفسٹو نے سرِ تسلیم خم کیا ۔ چہرہ نفرت و حقارت سے بگڑا ہوا تھا ۔ غار کے دہانے پر آ کر بولا ، ’’میرے گھوڑے تیار ہیں‘‘۔
باہر میفسٹو کی جہنمی گاڑی تیار کھڑی تھی ۔ اس میں چار شب رنگ گھوڑے جُتے ہوئے تھے ۔ اُن کی آنکھیں دہک رہی تھیں ، بے صبری سے بار بار اپنا سر اچھالتے اور زمین پر سُم مارتے تو چنگاریاں جھڑنے لگتیں ۔
گاڑی میں دونوں سوار ہوئے اور اس تیز رفتاری سے آسمان میں اُڑے جیسے بجلی کوند رہی ہو ۔ لیکن فاؤسٹ یہی کہے جاتا تھا کہ ’’تیز چلو اور تیز چلو ۔ میں اپنی محبوبہ کو ایک دفعہ اور ضرور دیکھوں گا ۔ میں اُسے آگ سے ضرور بچاؤں گا‘‘۔
اِدھر تو یہ خلا کو چیرتے چلے آتے تھے اور اُدھر مارگریٹ کمرۂ عدالت سے نکل کر برف پر سے اُس مقام کی طرف لائی جا رہی تھی جہاں وہ جلائی جانے والی تھی ۔ یہ ایک نیچی سی پہاڑی تھی جس کی چوٹی پر ایک لوہے کی لاٹ گڑی ہوئی تھی اور اِس لاٹ کے چاروں طرف لکڑی کے بڑے بڑے گٹھے چُنے ہوئے تھے ۔
جب قید خانہ کی کوٹھڑی سے نکال کر مارگریٹ کو عدالتِ کلیسا کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ اپنے گردوپیش سے بے خبر تھی ۔ جب قید خانہ کے محافظ نے اُس کے بچے کا ذکر کیا تھا تو اُس کی یادداشت اُبھر آئی تھی اور اس کے ساتھ ہی غم کی چھریاں بھی اُس کے دل پر چلنے لگی تھیں ۔ اِس دردناک کیفیت کو اِس فریبِ دل نے گویا ازراہِ کرم زائل کر دیا کہ اُسے اپنا بچہ برف میں سے مل گیا تھا ۔ جب عدالت میں گئی تھی تو اُسے یہی خیال تھا کہ اپنے بچے کو گود لیے ہوئے ہے ۔
کالے کالے لباس پہنے سخت سخت چہرے والے آدمیوں نے اُس سے کئی سوالات کیے تھے جن میں سے ایک کو بھی وہ سمجھ نہ سکی تھی ۔ یہ لوگ اُسے پادری معلوم ہو رہے تھے ۔ بس تو میں انہی لوگوں سے کہوں گی کہ میرے ننھے فاؤسٹ کو بپتسمہ دے دیں ۔ یہیں ، یہ نام تو اُسے اپنی زبان سے نکالنا ہی نہیں چاہیے ورنہ انہیں معلوم ہو جائے گا ۔ اب وہ خائف نہیں تھی کیونکہ اب تو سپاہی اُسے گھیرے کھڑے تھے تاکہ اس کے بچے کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچے ۔
پھر اُس نے اپنے محبوب کا نام سنا ۔ اُس کا جسم کانپنے لگا اور دل میں اندیشہ پیدا ہوا ۔ ذہن میں اِس کا شائبہ سا آیا کہ اس طرح لوگوں کا اُس کے گرد جمع ہونے کا کیا مقصد تھا ۔ اتنے ہی میں ایک غضب آلود آواز اس کے کان میں آئی ،’’جواب نہیں دے گی تو؟ تیرے عاشق کا یہی نام ہے نا؟ اِسی کو تو نے آوازیں دی تھیں نا ؟ یہ فاؤسٹ وہی ہے نا جس نے تیرے بھائی ویلنٹین کو قتل کیا ہے ؟‘‘۔
مارگریٹ ایک دم سے چیخ کر بولی ، ’’نہیں ، نہیں ! وہ یہ نہیں کر سکتا تھا ۔ فاؤسٹ ، ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا‘‘۔
اب پھر اس کا حافظہ زائل ہو گیا اور اس پر سکتہ کا سا عالم طاری ہو گیا ۔
وہ لوگ جو اُسے گھیرے ہوئے تھے اور سوالات پوچھ رہے تھے ، اُس کی اِس خودفراموشی کو ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سمجھے کہ دیکھو کیسی دیدہ دلیر اور چالا ک ہے کہ اپنے جرم پر نادم تک نہیں ہوتی اور اِسی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح ویلنٹین کے قاتل کا پتہ نہ چلنے پائے۔
بالآخر اُس کے منصفوں نے چپکے چپکے آپس میں مشورہ کیا ۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’ اِس فاؤسٹ کا پتہ ہم اِس سے کچھ نہ چلا سکے ۔ اس پر جو الزامات تھے وہ پایۂ ثبوت کو پہنچ گئے ۔ بس ہمیں اپنا فیصلہ سنا دینا چاہیے‘‘۔
سب نے بہ اتفاقِ رائے فیصلہ سنایا ، ’’چِتا! قاتلہ کو چِتا میں جھونک دیا جائے‘‘۔
ایک دبلا لمبا سا پادری جو بیچ میں بیٹھا ہوا تھا، کھڑا ہوا اور میز پر سے موت کی سفید چھڑی اٹھائی ، سر سے اونچی کی اور بہ آوازِ بلند بولا:- ’’مارگریٹ! اِس مقدس عدالت نے تیرے مقدمے کو میزانِ عدل میں تولا اور تجھے مجر م پایا ۔ تیرے ساتھ کسی قسم کی نرمی برتی نہیں جا سکتی کیونکہ تجھ سے جو معلومات ہم حاصل کرنا چاہتے تھے تو نے اُسے اخفا کیا ۔ اپنے بچے کو مار ڈالنے کے جرم میں تجھے ہم موت کا حکم سناتے ہیں اور وہ اِس طرح کہ تو آگ میں جلائی جائے ۔ اِس عدالت سے چِتا تک تجھے شہر کے باہر لے جایا جائے گا ۔ خدا کا رحم تجھ پر نازل ہو اور اِس سے پہلے کہ تیری روح تن سے جدا ہو ، تیرا ضدی دل اُس کے رحم و کرم سے پگھل جائے‘‘۔
بچے کا ذکر آتے ہی مارگریٹ کے سلب شدہ ہوش و حواس پھر عود کر آئے ۔ فیصلہ سنانے والے منصف کی خوفناک صورت کو اُس نے دیکھا اور سفید چھڑی کو اُس کے ہاتھوں میں ٹوٹتے سنا ۔ گمشدہ بچے کا خیال ، خود اس پر جو وحشیانہ الزام لگایا گیا اور پایۂ ثبوت کو پہنچایا گیا ، اپنے محبوب کی یاد جسے آئندہ کبھی دیکھنا نصیب نہ ہو گا اور پھر وہ خوفناک سزا جو عدالت سے باہر نکلنے کے بعد اُسے ملنے والی تھی ، اِ سب باتوں کے دھیان سے اُس کی ایک دردناک چیخ نکل گئی ۔ یہی انتہائی صدمہ اور تکلیف کی چیخ تھی جو خلا کے رازوں کو چیرتی چلی گئی اور فاؤسٹ جو میفسٹو کے ساتھ اُس غار میں کھڑا تھا ، اُس کی روح میں یہ چیخ تحلیل ہو گئی اور وہ خوف سے کانپنے لگا ۔
فاؤسٹ اور میفسٹو ایک پہاڑی پر کھڑے تھے جو روڈا کے قریب تھی ۔ اِس سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک اور پہاڑی تھی جس کی طرف یہ دونوں نظریں جمائے ہوئے تھے ۔ اُس پہاڑی کی چوٹی پر وہ لوہے کی لاٹ صاف دکھائی دے رہی تھی جس کے چاروں طرف لکڑیوں کے گٹھے چُنے ہوئے تھے ۔
فاؤسٹ نے کہا ،’’ میں وقت پر آ گیا ۔ دیکھ ، لوگوں کی بھِیڑ پہاڑی پر ابھی آدھے راستے تک پہنچی ہے ۔ میری محبوبہ ، ابھی دکھائی نہیں دیتی ۔ مجھے اُس پہاڑی پر لے چل ۔ پھر میں اُسے بچا لوں گا‘‘۔
میفسٹو نے اُس کی طرف تمسخر سے دیکھ کر کہا ،’’ اس مقام پر میری قوت ختم ہو جاتی ہے ۔ روڈا میری طاقت سے باہر ہے ۔ اگر تو اِسے بچانا چاہتا ہے تو اپنے ہی بل بوتے اور اپنی ہی ذمہ داری پر بچا‘‘۔
یہ الفاظ گھونسے کی طرح فاؤسٹ کے دل پر لگے ۔ ایک لمحہ کے لیے اُس کے ہوش و حواس جاتے رہے ۔ منہ کھولے بس میفسٹو کی طرف دیکھتا رہا ۔ جب اِس کا احساس ہوا کہ میفسٹو نے کس طرح اُسے دھوکا دیا اور فریب میں مبتلا کیا تو غضب ناک ہو کر میفسٹو سے بولا،’’ دنیا کے دل کو چبانے والے زہریلے کیڑے ، کاش تو مجھے شباب کا لالچ دے کر اِس عذاب میں مبتلا نہ کرتا ۔ لعنت ہو اِس شباب پر ، ہزار لعنت‘‘۔
جلدی سے پلٹ کر اُس نے اِدھراُدھر دیکھا کہ اِس پہاڑی سے اترنے کا کون سا راستہ ہو سکتا ہے جو سامنے والی پہاڑی سے قریب ترین بھی ہو ۔ پھر وہ کودا اور بڑی بڑی چھلانگیں مارتا نیچے اُتر کر میدان میں سرپٹ بھاگا جا رہا تھا جیسے کسی ڈراؤنی بلا سے کوئی ڈر کر بے تحاشہ بھاگ رہا ہو ۔
میفسٹو اُسے دیکھتا رہا اور پھر ایک بھیانک قہقہہ لگایا ۔ پہاڑی کی چوٹی پر اب کچھ لوگ نظر آنے لگے تھے اور فاؤسٹ بھی پہاڑی کے قریب پہنچ گیا تھا ۔ میفسٹو نے ایک مختصر سا جلوس دیکھا جس کے بیچ میں ایک عورت پشیمانوں کا لمبا سفید کرتا پہنے چل رہی تھی ۔ یہ جلوس برف پوش پہاڑی پر چڑھ رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ یہ مختصر جلوس بھیڑ میں مدغم ہو گیا اور اتنے ہی میں پہاڑی پر بڑی تیزی سے فاؤسٹ نے چڑھنا شروع کیا ۔
میفسٹو نے ایک فتح مندانہ نظر فاؤسٹ پر ڈالی اور اپنے چغہ میں سے ایک چھوٹا سا آئینہ نکالا ۔ یہ آئینہ وہی تھا جو ایک دفعہ پہلے بھی ، اس نے فاوسٹ کے کمرۂ مطالعہ میں نکالا تھا ۔ اِس آئینے کو اُس نے دیکھنا شروع کیا ۔ بوڑھے فاؤسٹ کا چہرہ اُس میں نظر آ رہا تھا جو بڑٰی منت سماجت سے التجا کر رہا تھا ۔ میفسٹو اُس کی طرف دیکھ کر اس طرح ہنسا جیسے کوئی منہ چڑائے ، پھر اِس آئینے کو اس طرح اُوپر اٹھایا کہ بوڑھے فاؤسٹ کا منہ سامنے والی پہاڑی کی طرف رہے اور اپنے ہاتھ کو زور سے جھٹکا دے کر فاؤسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کرخت لہجے میں بولا: – ’’تو نے شباب کو عذاب بتایا ۔۔۔۔ اس عذاب کو میں تجھ سے دور کر دوں گا ۔ کم از کم اِس عذاب سے تو تجھے نجات دلا ہی دوں ۔۔۔ تو نے خود ہی اس کی خواہش کی ہے‘‘۔
پھر اُس کی آنکھیں دہکنے لگیں اور ان میں شعلے بھڑکتے نظر آئے گویا جہنم کا سانس انہیں ہوا دے رہا تھا ۔ چہرہ خباثت سے مسخ ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ پھر اُس نے اپنی بھیانک مسکراہٹ سے آئینہ میں دیکھا اور چیخ کر بولا ، ’’جیسا تو تھا ، ویسا ہی ہو جا‘‘۔ اِتنا کہا اور شیطانی جذبے سے اُس آئینے کو نیچے پتھروں پر دے مارا ۔
فاؤسٹ لوگوں کے مجمع سے کوئی سو گز کے فاصلے پر تھا ۔ اپنی مارگریٹ کو لوہے کی لاٹ سے بندھا ہوا دیکھ سکتا تھا ۔ یہ دیکھ کر اُس کی روح کانپ گئی کہ ایک جلاد نے مشعلیں روشن کیں اور اپنے ماتحتوں کو دیں ۔ صدمہ سے دل پاش پاش ہو رہا تھا ۔ وہ آگے بڑھا لیکن اب امید بندھ گئی تھی کہ وقت پر پہنچ جائے گا ۔ اِس پر اُس نے غور ہی نہیں کیا کہ جب وہاں پہنچ جائے گا تو کیا کرے گا ۔ غرض صرف یہ تھی کہ اپنی محبوبہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے معافی کا خواستگار ہو ۔
پھر ایک دم سے گویا اُس پر بجلی گر پڑی ۔ اُس کی ٹانگوں نے جواب دے دیا ۔ اور تھوڑی دیر تک گرا ہوا اپنی بے بسی و بے چارگی پر حیران ہوتا رہا ۔ اُٹھا، قدم لڑکھڑائے ، بمشکل سنبھلا ۔ ہاتھوں پر نظر پڑی تو سوکھے اور مرجھائے ہوئے ۔ خود بخود چہرے پر ہاتھ پہنچ گئے ۔ اب خوفناک حقیقت اُس پر کھل گئی ۔
وہ شباب جسے اُس نے عذاب بتایا تھا اور جس کی اِس وقت سب سے زیادہ ضرورت تھی ، اُس سے چھن گیا تھا ۔ اب وہ پھر وہی بوڑھا کمزور فاؤسٹ تھا ، سفید لٹیں اور لمبی سفید داڑھی ۔ طاقت اُس میں نام کو نہ تھی ، صرف ارادے کی قوت تھی جس سے اس عورت تک پہنچنا چاہتا تھا جس کی جسمانی اور روحانی ہلاکت کا باعث بنا تھا ۔ بڑی مشکل سے لرزتا کانپتا وہ آگے بڑھا اور شدید اذیت و تکلیف سے مجمع میں داخل ہوا ۔ لوگوں نے اِس بڈھے کے لیے راستہ چھوڑ دیا لیکن آگے سپاہیوں نے اُس کا راستہ روک دیا ۔ سپاہیوں کے گھیرے میں اُس نے مارگریٹ کو دیکھا کہ لوہے کی لاٹ سے کس کر بندھی ہوئی ہے ۔ اُس کے خوبصورت بال کھلے ہوئے کمر تک لٹکے ہوئے تھے ۔ اعضاء میں وہی اگلا سا لڑکپن تھا جیسا اُس وقت تھا جب وادی میں فاؤسٹ نے اُسی اپنی آغوش میں لے کر سینے سے لگایا تھا اور اُسے اپنی ملکہ بنایا تھا ۔ مارگریٹ کے چہرے کا خون سُت گیا تھا اور آنکھیں بند تھیں ۔ اُس کے لب آہستہ آہستہ ہِل رہے تھے گویا کسی ایسی ہستی سے کچھ کہہ رہی ہے جسے اور سب نہیں دیکھ سکتے ۔
فاؤسٹ نے بڑی تکلیف سے اس منظر کو دیکھا۔ پھر سپاہیوں کے گھیرے میں سے اپنا سر نکال کر باریک کپکپاتی آواز میں کہا،’’ مارگریٹ! مارگریٹ ! میری پیاری مارگریٹ!‘‘۔
اُس کی آنکھیں ایک دم سے کھل گئیں گویا وہ نیند سے چونک پڑی تھی ۔ اِس آواز نے اس کے احساس کو ٹہوکا دیا اور اُس کی یادداشت کے ساز کو چھیڑ دیا ۔ لیکن اُسے صرف ایک بوڑھا کھڑا دکھائی دیا جس کی لمبی سی سفید داڑھی تھی ۔ یہ بڈھا سپاہیوں کے گھیرے میں سے اُس کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ مارگریٹ نے اپنے دل میں کہا ،’’ بے چارا رحمدل بڈھا‘‘۔ اُس کی آنکھوں میں ترس کیسا جھلک رہا تھا ۔ دنیا میں کس قدر غمگین ہے ۔ اس کے بعد جو سزا اُسے دی جا رہی تھی اُس کا سہم اُس پر چھا گیا ۔
اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دعا مانگنے لگی ۔ اُس نے دعا مانگی کہ اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں ۔ جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے یا نہ ملے ، اس کی اجازت مل جائے کہ اپنی ماں اور بھائی سے مل لے ۔ اپنے بچے کو ایک بار پھر گود میں لے سکے ۔ اور ہاں ، اتنی رعایت اور کی جائے کہ فاؤسٹ کے لبوں پر معافی اور محبت کا صرف ایک بوسہ ثبت کر سکے ۔
پھر شدتِ خوف کی سنسنی سارے بدن میں دوڑ گئی ۔ لکڑیوں میں آگ دے دی گئی تھی اور آگ کے شعلے گھیرا بنائے اس کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے ۔ خوفناک تپش بڑھتی جا رہی تھی ۔ بھیانک سینک (تپش) پہلے تو لُو کے تھپیڑوں کی طرح اس کے جسم پر لگی اور پھر اُسے نوچنے اور کھانے لگی ۔ اُس نے ایک چیخ ماری ۔
اس کے بعد اُسے کچھ یونہی سا معلوم ہوا کہ کسی نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔ کوئی شعلوں کو چیرتا ہوا اُس کے پاس آیا تھا ۔ کسی کے رو رو کر التجا کرنے کی آواز اُسے سنائی دی :-’’ معاف کر دو ۔ مجھے معاف کر دو‘‘۔
اِس آواز کو سن کر اُس نے آنکھیں کھولیں ۔ اُسی بڈھے نے اپنے بازوؤں میں اُسے لے رکھا تھا ۔ اُس کی رحم بھری نظریں مارگریٹ کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں ۔
بڈھے نے چیخ کر آواز دی ،’’ مارگریٹ !‘‘۔
اس پر ایک شعلہ جھپٹا ۔ یہ اندرونی شعلہ تھا ، پہنچاننے ، سمجھنے اور محبت کا شعلہ ۔ اور اِس شعلے نے ایک لمحے کے لیے اُن بھوکے بیرونی شعلوں کو مسترد کر دیا جنہیں انسان کے ہاتھوں نے بھڑکایا تھا ۔ یہ وہ شعلہ تھا جو زندگی کے مرکزوں کے گرد اچھل رہا تھا ، جسے روح ہوا دے رہی تھی اور اِس میں ایک جلا کر بھسم کر دینے والا جذبہ تڑپ رہا تھا ۔ زندگی کا ٹمٹماتا دِیا بجھنے ہی والا تھا کہ گزشتہ ایک سال کی اُجڑی ہوئی زندگی میں اُس کی جو دِلی مراد تھی وہ اس وقت ایک لمحے میں بر آئی ۔ عقیدہ کی تجدید ، مسرت و سکون ، محبو ب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کھوئی ہو ئی محبت کو اُس نے حاصل کر لیا جو بے کراں اور ابدی ہوتی ہے ۔
بڑی کوشش سے اُس نے سِسک سِسک کر کہا،’’ پیارے! میرے فاؤسٹ ۔۔۔۔۔ جانتی تھی کہ تم آؤ گے ضرور ۔۔۔ نشاط ۔۔۔ تمہارے ساتھ مرنا بھی ۔۔۔۔ نشاط انگیز ہے ۔ اللہ بڑا مہربان ہے‘‘۔
اِتنا کہہ کر اُس کا سر فاؤسٹ کی طرف ڈھلک گیا ۔
فاؤسٹ نے اپنی آخری سانس میں بدقّت تمام کہا، ’’ مارگریٹ ! روشنی کے ستارے ! تو نے مجھے بچا لیا ۔ پیاری! ۔۔ محبت ! ابدی محبت!‘‘
اُن دونوں کے لب ملے ۔ یہ ان کی ابدی محبت کی مہر تھی جسے کوئی انسانی آگ جلا نہیں سکتی تھی ۔
پھر شعلوں نے انہیں لپیٹ لیا اور آسمان کی جانب ایک نوری چادر بن کر گاتے ہوئے اٹھے گویا موت اور محبت کی شادی کی مبارک باد گا رہے تھے ۔