فاؤسٹ (حصہ دوم: پہلا باب)
ایک اُونچے پہاڑ پر دنیا کے پوشیدہ مقامات میں سے ایک ، جہاں نہ تو دن ہوتا ہے اور نہ رات، جہاں کسی پرندے کی چہکار نہیں سنائی دیتی ، اور جہاں حشرات الارض میں سے کوئی رینگنے والا کیڑا نہیں ہوتا، بلکہ جہاں زمین خود لرزتی ہے ، کسی ناپاک اژدھے کی طرح بل کھاتی ہے اور طرح طرح کے ابخرات کے متعفّن بھپکے اس میں سے نکلتے ہیں ۔۔۔ یہاں میفسٹو کے ایک ارضی مسکن میں فاؤسٹ مقیم تھا ۔
خلا میں نکلی ہوئی ایک چٹان پر فاؤسٹ اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ گھٹنے پر کہنی اور ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹِکی تھی اور فضائے بسیط پر نظریں جمی تھیں ۔ چہرہ غمناک اور پہلے سے بھی زیادہ شکستہ اور افسردہ تھا ۔ اپنی بوڑھے جسم سے نجات پانے کے لیے اس نے اپنی غیرفانی رُوح کا سودا کیا تھا ۔ مگر موجودہ حالت اور بھی زیادہ غیرمطمئن و پریشان تھی ۔ گزشتہ سب تکلیفوں پر اب ناامیدی و مایوسی کی تکلیف مستزاد تھی ۔ کیونکہ زندگی کو وہ اپنی فوق الفطرت قوتوں کی وجہ سے اپنی آرزوؤں کے مطابق ڈھال تو سکتا تھا مگر مستقبل میں اس کے لیے زندگی کوئی امید نہیں رکھتی تھی ۔ نہ تو اس کے لیے زندگی کوئی حیرت زائی (تحیر) رکھتی تھی ، نہ امید و بیم ، نہ معلومات اور نہ محبت و اختیار ۔ یہ سب باتیں اس کے لیے خاک میں مل چکی تھیں ۔
شیطان اُسے کھڑا دیکھ رہا تھا ۔ پھر وہ بولا: – ’’ فاؤسٹ تو مطمئن کیوں نہیں ہے ؟ تو نے لوگوں کی خدمت کی اور سنگسار کیا گیا ! حسین سے حسین اور بڑی سے بڑی عورت سے تو اپنا دل بہلا چکا ۔ ازمنۂ قدیم کی حسین تریں عورتیں تیرے آغوش میں مچل چکیں ۔ بادشاہ سلیمان سے زیادہ تیرے پاس عقل و دولت ہے ۔ پھر بھی کوئی چیز تجھے مطمئن نہیں کرتی‘‘۔
فاؤسٹ نے افسردہ آواز میں جواب دیا :- ’’میں نے ایک فریب کے عوض تیرے ہاتھ اپنی روح بیچی ہے‘‘۔
’’کیا تو اور عورتوں کی خواہش رکھتا ہے جو ان سب سے بھی حسین تر ہوں ؟ ۔۔۔ کوئی حور ؟ کوئی پری ؟ جو بھی تو حکم کرے ، میں ماننے کو تیار ہوں‘‘۔
فاؤسٹ نہ تو ہِلا اور نہ کوئی جواب دیا۔ خلا پر نظریں گاڑے بیٹھا رہا ۔
’’کیا تو لوگوں کی قسمتوں پر اور بھی زیادہ اپنی طاقت کا مظاہرہ چاہتا ہے ؟ جو تو چاہے گا ہو جائے گا ، اگر کسی شہنشاہ کا تاج بھی مانگے تو تجھے مل سکتا ہے ۔ دیکھ!‘‘۔
اور میفسٹو کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا تاج دکھائی دیا جو جواہرات سے جگمگا رہا تھا ۔
’’کیا تو کسی عظیم الشان سلطنت کا بانی بننا چاہتا ہے ؟‘‘۔
لیکن فاؤسٹ نے جواب نہیں دیا اور نہ کوئی جنبش کی ۔
’’فاؤسٹ تو کیا تیرے دل میں کوئی آرزو باقی نہیں رہی ۔ ایک بھی ۔۔۔۔؟‘‘
فاؤسٹ نے اپنا غم زدہ چہرہ پھیرا اور شیطان کی طرف دیکھا ۔
’’صرف ایک آرزو ہے میری ، میفسٹو ۔ اور وہ آرزو ہمیشہ میرے ساتھ رہی ہے گو میں نے اپنی روح کے سب سے گہرے گوشے میں اسے مقید کر دیا تھا‘‘۔
میفسٹو نے پوچھا :- ’’ اور یہ آرزو کیا ہے؟‘‘ ۔ اس کی بھنویں خوفناک حد تک ترچھی ہو گئیں ۔
’’گھر! اور معصومیت !‘‘
’’معصومیت تجھے میسر نہیں ہو سکتی ۔ تیری روح میری ہے‘‘۔
فاؤسٹ نے مایوسی سے کہا :- ’’ میں اپنے گرد معصومیت چاہتا ہوں ۔ ننھے ننھے چونچال چہرے جن سے لالچ ، ہوس اور فریب نہ ٹپکتا ہو ۔ مجھے میرے وطن لے چل جہاں میں نے اپنے بچپن کے خوش گوار دن گذارے تھے‘‘۔
میفسٹو مخالفت و ناپسندیدگی سے بڑبڑایا ۔ ’’ وہاں خطرہ ہے ۔ میں اب تک فاؤسٹ کے عرفانی جزو کو پوری طرح غارت نہیں کر سکا‘‘۔
فاؤسٹ اٹھ کر میفسٹو کے روبرو آ کھڑا ہوا اور چیخ کر بولا :- ’’میری خواہش یہی ہے ۔ میں تجھے حکم دیتا ہوں ، مجھے میرے وطن لے چل اور جلدی لے چل‘‘۔