فاؤسٹ (حصہ اول: نواں باب)
رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا لیکن اس باہر کی تاریکی نے محل کے اندرونی منظر کو اور بھی اجاگر کر دیا ، بالکل اسی طرح جس طرح سیاہ مخمل کے پس منظر پر نور آلود اوپل لرزتا نظر آتا ہے ۔
صحن چبوترے پر نازک نازک یونانی ستون نصب تھے جن پر سُبک محرابیں بنی ہوئی تھیں ۔ اِن میں جو رنگے ہوئے پردے لٹکے ہوئے تھے اِس وقت سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیے گیے تھے کیونکہ رات گرم تھی اور ہوا بند تھی ۔ خوشیاں منانے والے نیلےآسمان کے نیچے ناچ رہے تھے ۔ آسمان پر ستارے چمک رہے تھے اور نیچے نقرئی شمع دانوں میں اونچی اونچی شمعیں اپنی سرخ اور زرد زبانیں بلند کیے کھڑی تھیں ۔ برنز(کانسی) کے بڑے بڑے رومی چراغ محرابوں میں چاندی کی پتلی پتلی زنجیروں میں لٹکے ہوئے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے اور بَل کھا رہے تھے اور ان کے معطّر تیل کے جلنے سے خوشبوئیں فضا میں پھیل رہی تھیں ۔
محل کے ایک دُور کے کونے میں خوشبودار پانی کے فوارے چھوٹ رہے تھے ۔ یہ پانی چا ر کیوپڈ کے بُرنزی مجسموں کے منہ سے نکل رہا تھا ۔ دکھایا یہ گیا تھا کہ یہ چاروں ناچ رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں ۔ چاروں دھاریں ٹکرا کے پانی کا ایک حسین شامیانہ سا بناتی تھیں جیسے ایک بڑا سا بلّوریں جام اوندھا دیا گیا ہو ۔ نیچے سے اس پر سنہری روشنی پڑتی تھی ۔ جب پانی کا شامیانہ اتر کر نیچے گلابی مرمر کے حوض میں آتا تھا تو دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہزاروں پکھراج اس میں دمک رہے ہیں اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں ۔
صحن کے سامنے کے رخ فوارے کے بالمقابل ایک اونچا وسیع برآمدہ تھا ۔ اس پر پہنچنے کے لیے دو ڈھلواں چوڑے چوڑے زینے سنگ مرمر کے تھے جن میں سبز رنگ کی دھاریاں اور رگیں تھیں ۔
شہ نشیں کے بیچوں بیچ میں ایک چبوترہ تھا ۔ اس کے اوپر قیمتی ریشم کا شامیانہ تنا تھا ۔ آگے کا رخ کھلا ہوا تھا ۔ ہر طرف پیچ در پیچ قیمتی زرکار پردے آویزاں تھے ۔ اس چبوترے کے ریشمی گدیلوں پر پرما کی نواب بیگم کہنی ٹکائے کروٹ سے لیٹی ہوئی تھی ۔
شادی کی رسم ادا ہو کر ابھی تین گھنٹے ہوئے تھے اور اس کا شوہر اس کی طرف منہ اٹھائے اور ٹکٹکی لگائے اس کے قدموں میں بیٹھا تھا ۔ آنکھوں سے عشق و آرزو ٹپک رہی تھی ۔ یہ شخص فلورنس کا رہنے والا تھا ، خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا ۔ گیہواں رنگ ، مغلوب الجذبات ، سر اور مونچھوں کے بال سیاہ رنگ کے تھے جو آنکھوں کی سیاہ پتلیوں سے خاص مناسبت رکھتے تھے ۔ غالباً اس کی شہزوری اور شجاعت ، جنگ جوئی اور تلوار بازی کی شہرت ہی نے نواب زادی کا دل موہ لیا تھا ۔ کیونکہ اس عورت کے حسن کا شہرہ سارے اطالیہ میں تھا اور یورپ کے ہر حصے سے عشّاق آئے اور ناکامیاب و نامراد پھرے ۔
اُس نے اپنے شوہر کی طرف خواب آلود نظروں سے دیکھا اور اس کے سر پر جو اس کی گود میں رکھا تھا محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی ۔ اس کا رنگ بھی گیہواں تھا مگر اس کے حسن میں کچھ عجیب جادو تھا ۔ اس میں کشش تھی مگر شاہانہ اجتناب کے ساتھ ۔ سر کے بال سیاہ اور لمبے تھے اور جب وہ متحرک ہوتی تھی تو ان میں عجیب قسم کی نیلی روشنی دوڑتی نظر آتی تھی ۔ چہرہ گول تھا ۔ رنگت زیتون کی سی مگر اس میں سرخی جھلکتی رہتی تھی ۔ لیکن دراصل اس کی آنکھیں ہی تھیں جو دیکھنے والوں کے دلوں کو بَرماتی(ریزہ ریزہ کرنا) تھیں ۔ کیونکہ ان آنکھوں میں راز بھرے تھے اور وہ رُوح جو ان میں سے جھانکتی تھی، بیک وقت بے چین بھی تھی اور منظم بھی ۔ جذبات سے لبریز بھی تھی اور خائف بھی ۔ مجمع میں کوئی مرد ایسا نہ تھا جسے اس فلورنطینی کی خوش نصیبی پر رشک نہ آ رہا ہو ، اور کوئی عورت ایسی نہ تھی جو نواب بیگم کے بے مثال حسن اور عشوہ و غمزہ پر حسد نہ کر رہی ہو ۔
لیکن اس کی مغرور اور متلّون رُوح بالآخر جھک کر رہی ۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ وہ محبت کے جال میں پھنسی ۔ وہ جو کتنی ہی دفعہ مردوں کے جذبات سے کھیل کر اپنا دل بہلا چکی تھی ۔ چپکے چپکے اپنے پھندے پھیلایا کرتی تھی اور اپنے شکاروں کو اُن میں ازخود پھنستا دیکھتی تھی ، اُن کی کشمکش کو کسی تجربہ کرنے والی کی نظر سے دیکھا کرتی تھی اور پھر نفرت سے اُن کی طرف سے منہ پھیر لیا کرتی تھی تاکہ کسی اور دلچسپ صید کو پھانسے ۔ وہ بھی آخرکار خود شکار ہو کر رہی ۔
اُس نے اپنے شوہر پر جھک کر آہستہ سے کہا ۔ ’’ پیارے! تم رقص کرنے والوں کی طرف نہیں دیکھتے ۔ میں نے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا کہ تم نے کسی ایسے منظر کو دیکھا ہو جسے میں نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے آراستہ کیا ہے‘‘۔
اُس نے ہاتھ کو احتراماً بوسہ دے کر کہا ۔ ’’ آنکھیں دل کی پیروی کر رہی ہیں ۔ تم نے میرا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لے لیا ۔ اسے اسی طرح خوش رکھو جس طرح میں تمہارے دل کو خوش رکھوں گا‘‘۔
نواب بیگم نے اظہارِ محبت کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا ، وہ ایسا ہی کرے گی اور یہ وعدہ خلوصِ قلب سے کیا گیا تھا ۔ مگر کس قدر جلد توڑ دینے کے لیے!
صحن کا منظر اب اس قدر شاندار ہو گیا تھا کہ اُسے دیکھے سے نظر خیرہ ہوتی تھی ۔ یونان کا قدیم ناچ شروع ہو گیا تھا ۔ پچاس لڑکیاں قدیم یونان کا ڈھیلا لباس پہنے چکر کاٹ کاٹ کر طرح طرح کی خوشنما شکلیں بنا رہی تھیں ۔ اُن کے ہاتھوں میں طاؤس تھے جن کی سنگت پر یہ گا رہی تھیں اور ناچ رہی تھیں ۔ چاروں طرف اونچی اونچی دیواروں پر زرکار پردے آویزاں تھے اور ان دیواروں پر گدّے اور قالین بچھے ہوئے تھے جن پر مہمان بیٹھے تھے ۔ سب کی نظریں اِس جاں نواز منظر پر جمی ہوئی تھیں ۔
یکایک اِس میں بے ترتیبی سی ہوئی ۔ فوارے کے پاس جو بڑا طلائی دروازہ تھا ، زور سے کھلا اور اس میں جھنجھناہٹ سے سب کی نظریں اُدھر اُٹھ گئیں۔ دروازے کے باہر عجیب عجیب آوازیں سنائی دیں ۔ ایک سنہرے بالوں والا خادم لڑکا صحن میں سے دوڑتا ہوا آیا اور سبز مرمر کے زینے پر سے اچھلتا ہوا نواب بیگم کے پاس شہ نشیں پر پہنچا ۔ سامنے جا کر دوزانو ہوا اور سر جھکا دیا : –
’’کیا ہے؟‘‘ ۔ نواب بیگم نے تمکنت سے پوچھا ۔
’’اجنبی ! نووارد ! ناخواندہ مہمان ! مشرق کے باشندے !‘‘ ۔ لڑکے نے ہانپ کر کہا ۔ بھاگنے سے اس کا سانس پھول گیا تھا اور باہر جو کچھ اس نے دیکھا تھا ، اس سے متحیر تھا ۔
بیگم سنبھل کر اُٹھ بیٹھی اور سردمہری و تمکنت سے بولی ۔ ’’دروازہ کس نے کھولا ؟ جو مہمان مدعو کیے گئے تھے سب آ چکے ۔ اگر وہ ناخواندہ ہیں تو انہیں مجھ سے اجازت لینی چاہیے تھی ۔ جا، چھوکرے ! جب تک مجھے معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کون ہیں ، انہیں اندر آنے سے رُکوا دے‘‘۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات ختم کرے ، دروازے کے محافظ ایک طرف دھکیل دیے گئے اور اب ایک عظیم الشان منظر دکھائی دیا ۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ صحن کی روشنیاں ، چراغ اور شمعیں سب مدھم پڑ چکی تھیں ۔ ان کے شعلے مرجھا کر نیلی زبانیں بن گئے تھے کیونکہ نووارد اپنی روشنیاں ساتھ لائے تھے ۔ ان کے ساتھ جو لاؤ لشکر تھا اُس میں ایسی تیز روشنی کی شمعیں تھیں کہ یہاں کی روشنیاں اُن کے آگے ماند پڑ گئیں ۔ ہر شمع کا شعلہ بلند اور سفید روشنی کا تھا اور اس کی چمک دمک کے آگے کسی کی آنکھ نہ ٹھہرتی تھی ۔ یہ ہجوم ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رات کی سیاہ ہتھیلی میں کوئی روشن ہیرا پڑا دمک رہا ہے ۔
یہ جلوس آہستہ آہستہ دروازے میں سے گزرنا شروع ہوا اور مہمان اور ناچنے والے حیران ہو ہو کر پیچھے ہٹنے لگے ۔ وہ نواب بیگم کے شاندار مظاہر دیکھنے کے عادی تھے لیکن جب انہوں نے اِسے دیکھا تو اُوپر کا سانس اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ کیونکہ آج تک یہ تزک و احتشام انہوں نے دیکھا ہی نہ تھا ۔ یہ ایک خواب تھا نوروحُسن کا جو مشرق کی سمت سے نظر آیا ۔
وہ بڑے بڑے پُرشکوہ مکھنا(بہت بڑا) ہاتھی دروازے کے باہر کھڑے نظر آرہے تھے ۔ ان کے لمبے لمبے دانت سرخ رنگے ہوئے تھے ، ان کے سروں پر سونے کے منقش پرتے چڑھے ہوئے تھے ۔ ان دانتوں کے درمیان ان کی سونڈیں ہل رہی تھیں اور وہ رَہ رَہ کر چنگھاڑ رہے تھے ۔ اِن ہاتھیوں پر زرکار ریشمی جھُولیں پڑی تھیں ۔ مستکوں(ہاتھیوں کی پیشانیوں) پر مچھلی کے کھپروں کی طرح سونے کا ماہی پُشت تھا ۔ اس میں سے چاندی کی گھنٹیاں لٹکی ہوئی تھیں جو چلنے میں بجتی تھیں ۔ یہ ہاتھی جھومتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔
اِن عظیم الجثّہ حیوانوں کے پہلو بہ پہلو حبشیوں کی قطاریں تھیں ۔ اِن حبشیوں کے ہاتھ سینے پر صلیبی شکل میں رکھے تھے اور وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے تھے ۔ ہر قطار کے آگے ایک جانباز تھا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی ۔ یہ تلوار لمبی اور چوڑی تھی اور تیز سفید روشنی میں چمکتی تھی کہ اسے دیکھے سے خون آتا تھا ۔ بدن پر مشرقی وضع کی زرہ اور خود تھی ۔ سر سے پاؤں تک اپنے سردار کی قوت و سطوت کی تصویر بنا ہوا تھا ۔
مگر ان سب کی توجہ کا مرکز دو ہاتھیوں کے درمیان آویزاں تھا ۔ جب یہ ہاتھی صحن میں آ گئے تو اُن کے درمیان ایک جھولا نظر آیا ۔ جس میں مشرق کے ریشم و مخمل کے گدیلے لگے ہوئے تھے اور چھتری سونے کے پترے کی تھی جس میں رنگ برنگے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔
اِس جھولے میں ایک نوجوان بیٹھا تھا جس کا حسن اِس دنیا کی چیز نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ لباس نہایت بیش قیمت تھا جیسا کہ مشرق کے شہزادوں کا ہوتا ہے مگر اس کا رنگ اور ناک نقشہ یورپ والوں کا تھا ۔ اُس کا انداز نشست شاہانہ تھا ۔ سر پُروقار اور اونچا تھا اور طبیعت میں اجتناب کی کیفیت تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس میں سے ایک روشنی نکل رہی ہے جو اس کے چاروں طرف لرز رہی ہے ۔ اس سے اُس کے تزک و احتشام میں اور بھی اضافہ ہوتا تھا ۔
یہ جلوس روشنیوں میں چمکتا دمکتا آہستہ آہستہ صحن میں سے گزر کر شہ نشیں کے قریب پہنچ گیا اور مرمریں زینوں کے پاس آ کر ٹھہر گیا ۔ اب ہاتھیوں نے اپنی سُونڈیں سیدھی کر دیں اور پُرزور کرخت آواز میں چنگھاڑے گویا اس طرح سلامی دی ۔
بیگم اِس مداخلت کو دیکھ کر غصے میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی مگر اب اس کا غصہ کچھ تو خوف اور کچھ تحیر سے بدل گیا تھا ۔ اُس کا شوہر ہاتھ پکڑے اُس کے برابر کھڑا تھا لیکن وہ بھی اس سحر آفریں منظر میں گم ہو گیا تھا ۔ پُراسرار نووارد ، اس کا بیش قیمت لباس ، شاندار وضع قطع اور اُس کا پرشکوہ سازوسامان ، ان سب کے دیکھنے میں وہ کھو گیا تھا ۔ ملازم اور محافظ جو شہ نشیں کے گرد متعین تھے ، آ گے بڑھ کر ان مداخلت کرنے والوں کو روکنے لگے مگر انہیں گرفتار کر کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ۔
دو حبشی دوڑ کر آگے بڑھے ۔ ایک اِس زینے سے چڑھا اور دوسرا اُس سے اور جو تحفے تحائف لائے تھی ، بیگم کے قدموں میں ڈال دیے۔ ایک حبشی قالین اور غالیچے ، شال اور دوشالے لیے ہوئے تھا ۔ ان پر سونے چاندی کا عجیب و غریب کام بنا ہوا تھا اور اس قدر خوبصورت کہ کاریگری کی تعریف نہیں کی جا سکتی تھی ۔ دوسرا ایک ہاتھی دانت کا صندوقچہ لیے ہوئے تھا جس کے کونے اور حاشیے پر سونا جڑا ہوا تھا ۔ تعظیماً جھک کر اس نے اس صندوقچے کو کھول دیا ۔ قیمتی جواہرات اور نادر زیورات سے یہ لبالب بھرا ہوا تھا ۔
بیگم نے انتہائی کوشش کر کے اپنے آپ کو سنبھالا ۔ اُس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی چڑیا پر سانپ کا جادو چل گیا ہو ۔ وہ مشرقی شہزادے کی آنکھوں پر جم کر رہ گئی تھیں ۔ اس کے لیے یہ شہزادہ آرزوؤں کا مرکز تھا ، اس کے خواب کی تعبیر تھا ، وہ تھا جس کے لیے اس کی روح تڑپ رہی تھی ۔۔۔ رومان ، محبت ، قوت ، اسرار ۔ بیگم بولی مگر اُس کی آواز کانپ رہی تھی اور اس کے الفاظ مدھم اور رُک رُک کر اس کے منہ سے ادا ہوئے :-
’’تم کون ہو اور یہاں کیا چاہتے ہو ؟ مجھ سے تم کیا چاہتے ہو؟‘‘۔
فاؤسٹ کیوں کہ وہی یہ شاہزادہ تھا، نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس کی آنکھوں نے الفاظ سے زیادہ تیز اور مؤثر زبان میں جواب دے دیا ۔ اُس نے دُور دُور مشہور پرما کی بیگم کے حسن کا شہرہ سنا تھا ، اور میفسٹو نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ یورپ کی حسین ترین عورت تیری ہو گی ۔ بیگم تو اس کی توقعات سے کہیں زیادہ خوبصورت نکلی ۔ محبت کی زنجیروں نے دونوں کو جکڑ لیا تھا ۔
چبوترے کے پیچھے سے ایک شکل بیگم کے قریب آئی ۔ یہ ایک شہزور ہستی تھی ۔ سیاہ لباس، کالا لمبا سا چغہ ، آڑی بھنویں ، سیاہ مقنع (نقاب ) میں ایک لمبا سرخ پر لہراتا ہوا ۔ کسی نے اسے داخل ہوتے نہیں دیکھا اور نہ کسی کو معلوم کہ وہ کہاں سے آیا ۔ بیگم کے سامنے وہ ادب سے جھکا اور خاکساری سے بولا :-
’’ دنیا کی بے مثل حسینہ کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے میرا آقا آپ کے لیے اپنی سلطنت کے خزانے لایا ہے‘‘۔
اُس نے اِن الفاظ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور برابر فاؤسٹ کی طرف دیکھے گئی ۔ اُس کی پتلیاں پھیلی ہوئی تھیں اور لب سے لب جدا تھا گویا سکتہ میں تھے ۔ فاؤسٹ اس کی ٹکٹکی کا جواب دے رہا تھا اور اس میں اس کی جوانی کا شعلہ اور جذبات کا طوفان شامل تھا ۔
وہ اپنے جھولتے ہوئے ریشمی تخت سے اُٹھا اور کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔ اس وقت وہ جوانی ، طاقت اور نزاکت کا مجسمہ معلوم ہو رہا تھا ۔ چہرہ سے بے خوفی اور معصومیت کا اظہار ہو رہا تھا ۔ معلوم ہوتا تھا کہ چالاکی اور فریب اُ س کے پاس ہو کر نہیں گزرا تھا ۔ طینت(طبیعت) میں جوانی کا تخیل اور ہمدردیاں شامل تھیں ۔
پیچھے جو حبشی کھڑے تھے ، انہیں اشارہ کیا ۔ وہ کائی کی طرح پھٹ گئے اور ان میں سے ایک آہستہ آہستہ آگے بڑھا ۔ اس کے ہاتھوں میں ایک بڑا سا کنول کا پھول تھا جو خالص سونے کا بنا ہوا تھا ۔ اِسے اٹھائے وہ نہایت احتیاط و احترام سے چل رہا تھا ۔ وہ فاؤسٹ کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا ۔ فاؤسٹ نے ایک اور اشارہ کیا اور وہ حبشی پلٹ کر آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر چڑھنے لگا ۔ اِس کنول میں سے روشنی کی مدھم شعاعیں نکل رہی تھی جن سے حبشی کا چہرہ گلابی روشنی میں نہا رہا تھا ۔ یہ روشنی قدم قدم پر گھٹتی بڑھتی رہتی تھی ۔ اس کے پیچھے پیچھے فاؤسٹ چل رہا تھا ۔ جب نواب بیگم کے قریب یہ غلام پہنچ گیا تو ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا تاکہ فاؤسٹ آگے آ جائے ۔
فاؤسٹ نواب بیگم کو پُرشوق نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ اُس نے حبشی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُس نے طلائی کنول اس کے ہاتھ میں احتیاط سے دے دیا ۔ اِسے لے کر فاؤسٹ نے اپنے ہاتھ کی ایک حسین گردش کے ساتھ یہ کنول بیگم کی خدمت میں پیش کیا ۔ فاؤسٹ نے پھر آغازِ سخن کیا ۔ آواز میں کچھ تحکم اور کچھ استدعا تھی : –
’’ ایک تحفہ ، حسین ترین تحفہ ، تحفہ جو صرف آپ کے لائق ہے‘‘۔
بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ اس کنول کی پنکھڑیاں باہر کے رُخ پر کھل گئیں اور ایک بیش قیمت جوہر پارہ نظر آیا جس کی چمک سے چکاچوند پیدا ہوتی تھی ۔ یہ ایک خون کے رنگ کا یاقوت تھا جو مٹھی کے برابر تھا ۔ شکل میں بیضوی تھا ۔ اس کے داسے (کنارے)کچھ اس طرح بنائے گئے تھے اور اندرونی آگ سے کچھ اس طرح دمکتا تھا کہ خون کے رنگ کا شعلہ اس میں سے نکلتا معلوم ہوتا تھا اور یہ شعلہ اس طرح گھٹتا بڑھتا تھا جیسے جہنم کے شیاطین اسے اپنے سانس سے سلگا رہے ہوں ۔
یہ پتھر اس دنیا کی چیز معلوم نہیں ہوتا تھا کیونکہ اِسے دیکھنے والے سب سرگشتہ و حیران تھے ۔ فلورنطینی شوہر ، ملازمین ، بیگم کے حاضرباش سب عارضی طور پر اندھے ہو گئے تھے ، گویا کسی دھماکے سے پیچھے جا گرے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں چھپائے ہوئے تھے یا اپنے بازوؤں میں سر چھپا رکھے تھے یہاں تک کہ اُن کی بصارت اور اُن کا احساس دوبارہ عود کر آیا ۔
بدی کے اِس رنگین جوہرپارے کو ایک دم سے دیکھ کر نواب بیگم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوا اور نہ وہ جھجکی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خود اُس کی فطرت میں کوئی ایسا ہی جزو تھا جو اس جوہر کی صدائے فریب پر لبیک کہہ رہا تھا ۔ اُس کا شوہر جسمانی طور پر سرنگوں ہو گیا تھا مگر نواب بیگم روحانی طور پر نگوں سار(مطیع) ہو چکی تھی ۔
فاؤسٹ نے کنول کی پنکھڑیاں بند کر دیں اور بیگم کی طرف ہاتھ پھیلا دیے ۔ اُس نے فاؤسٹ کی طرف اپنی لمچوئی(میچی ہوئی ) آنکھوں سے اس طرح دیکھا کہ اس سے آرزو ، پرستش اور سُپردگی ٹپک رہی تھی ۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی فاؤسٹ کی طرف بڑھی اور ایک آہ کھینچ کر اس کی آغوش میں جذب ہو گئی ۔
فاؤسٹ نے کہا : – ’’پیاری ! تیرے حسن کا شہرہ دوردراز ملکوں میں مجھ تک پہنچا ۔ میں نے سنا مگر اس پر یقین کرنے کی جرات نہیں کی ۔ دنیا بھر میں تیرا ثانی نہیں ہے ۔ محبت کا واسطہ دے کر میں تجھے حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ آہ‘‘
بیگم نے سرگوشی کے لہجے میں کہا:-’’ میں نے تیرے خواب دیکھے ہیں اور اپنی نیند میں تیری آواز سنی ہے ۔ جذبہ ، قوت اور جوانی کی آواز۔ میں صرف تیرے لیے پیدا ہوئی تھی ۔ میں تیری ہوں ، اے میرے آقا ۔ بالکل تیری ہوں ، ہمیشہ لے چل مجھے‘‘۔
انہوں نے گرم جوشی سے ایک دوسرے کو بوسہ دیا ۔پھر پلٹ کر فاؤسٹ اپنے انعام کو اٹھائے تیزی سے زینے پر سے اُترا ۔ ایک لمحہ میں ہاتھی بھی پلٹ گئے اور دونوں مل کر کر اس طرح چنگھاڑے گویا نعرۂ فتح بلند کر رہے تھے ۔ انہوں نے صحن طے کیا ۔ پھر دروازہ کھلنے کی جھنکار سنائی دی اور خوف زدہ مہمان اِدھر اُدھر دَبکے دبکائے باہر نکلے اور شہ نشیں کی طرف بڑھے ۔
جو لوگ شہ نشیں پر تھے اُن میں بھی آہستہ آہستہ ہلچل مچی ، گویا وہ نیند سے چونک رہے تھے ۔ فلورنطینی نوشہ (دولہا) اٹھ کر بیٹھ گیا اور چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا ۔ یہاں تک کہ کچھ یاد کر کے اُس کے چہرے پر سرخی آئی ۔ وہ اُچھل کر سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ خالی چبوترے کی طرف افسوس سے دیکھا اور سامنے میفسٹو کھڑا نظر آیا جو اُسے تمسخر و حقارت سے دیکھ رہا تھا ۔
ایک ایسی چیخ مار کر جس میں تکلیف ، غصہ ، مظلومیت اور خونِ محبت سب ہی شامل تھے ، مجروح شوہر نے اپنی نوکدار تلوار کھینچی اور اس شخص پر جھپٹ پڑا جو کھڑا اس کا مذاق اڑا رہا تھا کیونکہ اس کے دل نے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جو تیری زندگی ویران کرنے کا باعث ہے ۔ تلوار سونت کر چیتے کی طرح اس نے جست لگائی ۔ تلوار ٹھیک اپنے نشانے پر لگی اور دل میں قبضے تک اتر کر آرپار ہو گئی ۔
میفسٹو ایک دھماکے کے ساتھ گرا اور اسی کے ساتھ مدھم روشنیوں کے شعلے ایک دم سے بھڑک اٹھے ۔
ایک لمحے کے لیے ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔ پھر مجمع میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ مردہ جسم میں سے ایک اور شکل اُبھر رہی تھی جو بتدریج صورت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ وہ جھول کر سیدھی کھڑی ہو گئی اور متشکل ہو جانے کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ میفسٹو مجسم کھڑا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح گرنے سے پہلے وہ کھڑا تھا اور اس کا پہلا جسم اس کے قدموں میں مردہ پڑا تھا ۔ ایک جھٹکا دے کر اس نے مردہ جسم میں سے تلوار کھینچی اور نہایت اطمینان سے بغیر کسی گھبراہٹ کے فاصلہ کا اندازہ کر کے سانپ کی طرح بل کھا کرفلورنطینی کے دل میں تلوار اتار دی ۔
وہ چیخ مار کر گر پڑا ۔
پھر سب روشنیاں گُل ہو گئیں ۔اور محل اور صحن میں زور کی آندھی چلنے لگی ۔