فاؤسٹ (حصہ اول: آٹھواں باب)
اب سورج خوب چڑھ چکا تھا اور ریت گھڑی کی ریت سے معلوم ہوتا تھا کہ معاہدہ پر دستخط کیے ہوئے کم از کم تین گھنٹے ہوگئے ہوں گے۔
سورج کی ایک کرن کمرے کے وسط میں رکھی ہوئی بلوط کی میز پر پڑی اور فاؤسٹ کو منور کر دیا جو اس میز پر مردے کی طرح چت پڑا تھا ۔ ہاتھ سینے پر رکھے ہوئے تھے اور آنکھیں بندتھیں ۔
میفسٹو اسے کھڑ ادیکھ رہا تھا ۔
’’میرا، میرا ، اب یہ میرا ہے اور میں نے نور کی قوتوں سے بازی جیت لی‘‘۔
اس نے غرور سے اپنا سر بلند کیا اور بولا :- ’’شیطان کی طاقت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے !‘‘۔
بھٹی دھاڑ رہی تھی اور آگ خوفناکی سے بھڑک رہی تھی ۔ جلتے ہوئے سفید کوئلوں پر میفسٹو اچھل کر جا کھڑا ہوا اور شعلوں کے قریب اپنا منہ کر کے زور زور سے پھوکنے لگا ۔ شعلے چیخ چیخ کر اچھلنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے میفسٹو کو ڈھک لیا ۔ شعلے ناچتے رہے اور اپنا جہنمی نغمہ الاپتے رہے ۔ ان کے بیچ میں سے میفسٹو نے زور لگا کر کسی چیز کو باہر کھینچا اور آگ میں سے نکل کر کمرے میں بیچ میں اُسے کھینچ لایا ۔ یہ کسی چیز کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا جو لہراتا بل کھاتا اس کے پیچھے پیچھے اڑ رہا تھا ۔ اس پر رنگ برنگے شعلوں کی زبانیں دوڑ رہی تھیں اور بھڑک رہی تھیں ۔
اس سے اُس نے فاؤسٹ کو ڈھک دیا ۔ اس طرح کہ اِس کے کونے نیچے لٹکے رہے ۔ پھر اس نے اپنے لبادے میں سے ایک چھوٹا سا آئینہ نکالا اور اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا ۔ پھر فاؤسٹ کے چہرے پر سے آتشیں چادر ہٹائی ۔ فاؤسٹ کا بوڑھا سفید داڑھی والا چہرہ تھکا ہوا اور غم و اندوہ کی تصویر معلوم ہوتا تھا ۔ اس آئینہ کو اُس کے قریب ایک لمحہ کے لیے رکھا اور پھر چادر اُڑھا دی ، اس طرح کہ فاؤسٹ اس آتشیں چادر میں بالکل چھپ گیا ۔ میفسٹو نے آئینے میں غور سے دیکھا اور بدی سے ہنسا کیونکہ اس آئینہ میں فاؤسٹ کا چہرہ مقید تھا ۔ یہ چہرہ تذبذب اور پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے لب التجا میں کپکپاتے نظر آتے تھے ۔ اس آئینے کو میفسٹو نے اپنے لبادے میں سینے کے قریب رکھ لیا گویا یہ ایک جوہر تھا ، نہایت بیش قیمت ۔
اُس نے اپنے ہاتھ تین دفعہ اٹھائے اور نیچے کیے اور بڑی تیزی سے میز کے گرد چکر کاٹا ۔ جب وہ چلتا تھا تو شعلے بھڑک کر اونچے ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ساری میز ایک آگ کی دیوار میں محصور نظر آتی تھی جس میں سے آگ کی شاخیں نکل کر کمرے کے ہر کونے میں بل کھاتی اور مچلتی تھیں۔ معمل اب ایک بہت بڑی بھٹی بن گئی تھی جس میں کوئی چیز جلتی نہیں تھی ۔ شعلوں کے شیطانی شور میں جہنمی گیت کی تیز آواز سنائی دے رہی تھی ۔ آتشیں چادر ابھر رہی تھی اور دب رہی تھی گویا اس کے نیچے کوئی زبردست کشمکش ہو رہی تھی ۔
’’خاموش رہو ، روحو ! ساکن رہو‘‘۔ میفسٹو نے حکم دیا ۔ ’’بس اتنا کافی ہے ‘‘۔ اور اسی وقت بالکل سکون ہو گیا گویا کچھ تھا ہی نہیں ۔
شعلے غائب ہو گئے ۔ گانے کی آواز معدوم ہو گئی ۔ چادر کا رنگ مٹیالا ہو گیا تھا اور اب اس میں کوئی جنبش نہ تھی ۔ اس پر سے معلوم ہوتاتھا کہ اس کے نیچے ایک بے حس و حرکت جسم پڑا ہے ۔
میفسٹو نے بڑی پھرتی سے ایک ہی جھٹکے میں چادر کھینچ لی اور حکم دیا :- ’’ اُٹھ، اُٹھ اور اپنی زندگی گزار‘‘۔
بوڑھا فاؤسٹ غائب ہو گیا تھا ۔ اس کی بجائے ایک بے مثل حسین نوجوان لیٹا تھا جس کا لباس سفید اور سنہرے ریشم کا تھا ۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اپنے چاروں طرف دیکھا ۔ اچھ ل کر فرش پر کھڑا ہو گیا اور وفورِ مسرت سے انگڑائی لینے لگا گویا بڑی لمبی نیند سے جاگا تھا ۔ وہ نہایت متناسب الاعضاء ، خوبصورت گاؤدم ٹانگیں ، پتلی کمر ، مضبوط اور ملائم گردن جس پر خوش نما بڑا سر اس انداز سے دکھائی دیتا تھا کہ گویا غرور و پندار اس میں سمایا ہوا ہے ۔ سر پہ سیاہ بالوں کے پیچ در پیچ کاکل تھے ۔ وضع قطع ایسی تھی کہ قوت و نزاکت اس میں سموئی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ لباس اطالوی طرز کا تھا ۔ پیروں میں سفید چست جامہ ، زیرِ قبا اور کمر کا پٹکا سنہرا تھا ۔ جوتا ، چغہ اور ٹوپی سب مل کر سونے کا ڈلا معلوم ہوتا تھا ۔ ٹوپی میں ایک سیا ہ پر لگا تھا ۔
اس کے چہرے پر راست بازی و معصومیت جھلکتی تھی ۔ تلخ تجربوں کی جھریاں اس پر نہیں تھیں ۔ مصائبِ دنیا کے خطوط سے چہرہ پاک تھا اور زندگی کی روشنی سے منور تھا ۔ اس کی سیاہ آنکھوں سے حوصلہ مندی اور بے خوفی ٹپکتی تھی ۔ اس کی شخصیت سے خود اعتمادی ، قوت و فراست مترشح ہوتی تھی ۔
میفسٹو اس کے پیچھے کھڑا دیکھ رہا تھا اور اپنے کارنامے کو طمانیت سے دیکھ رہا تھا ۔ یکایک ایک سایہ بھٹی میں سے نکلا اور اس کے قریب آیا ۔ یہ سایہ میفسٹو کے لاتعداد مظاہر میں سے ایک تھا ۔ اس نے آہستہ آہستہ شکل اختیار کرنی شروع کی اور میفسٹو کا وجود تحلیل ہوتا گیا یہاں تک کہ ایک نیا میفسٹو متشکل ہو گیا ۔ اِس نئے میفسٹو نے فاؤسٹ کو غور سے دیکھا اور بغیر پلٹے ہوئے اپنے پہلے دھندلے وجود کو اشارہ کیا جو متحرک ہو کر غائب ہو گیا ۔
میفسٹو نے اب ایسی شکل اختیار کر لی تھی جیسی کہ دنیا دار انسانوں کی ہوتی ہے ۔ وضع قطع ایسی تھی کہ فاؤسٹ کے لیے اس کی نئی زندگی میں نہایت مناسب ساتھی سمجھا جاتا تھا ۔
وہ جوانی میں چُور ، طاقتور اور قدآور جوان تھا ۔ شخصیت ایسی تھی کہ جو اسے دیکھے عزت و احترام کرے ۔ لباس انتہائی فیشن ایبل تھا ۔ یہ چمکدار سیاہ ریشم کا تھا ۔ جس میں کہیں کہیں سرخ رنگ کی جھلک نظر آتی تھی ۔ چُست پاجامہ ، جوتے ، سینہ بند ، پٹکا اور ٹوپی ، سب کا رنگ سیاہ تھا ۔ کندھوں سے پیروں تک وہ ایک لمبا ڈھیلا ڈھالا سیاہ چمکدار چغہ تھا ۔ اس کا حاشیہ سرخ رنگ کا تھا اور وہ متحرک ہوتا تھا تو عجیب و غریب روشنیاں اس میں سے نکل کر دوڑتی تھیں ۔ ٹوپی سر پر خوب جمی ہوئی تھی اور اس میں پیچھے کو نکلا ہوا ایک غیرمعمولی لمبا سا سرخ رنگ کا پر لگا تھا ۔ جب میفسٹو تعظیماً جھکتا تھا تو یہ پر سیدھا کھڑا ہو جاتا تھا اور ہوا میں کوئی گز بھر لہراتا نظر آتا تھا ۔ یہ پر گویا برائی کا ایک سرخ پھول تھا جو بدی کی سیاہ جڑ سے اُگا تھا ۔ پہلو میں ایک مرصّع دستے کی قرولی تھی جو چغہ میں چھپی رہتی تھی ۔
آگے آ کر میفسٹو نے فاؤسٹ کے سامنے تعظیماً سر جھکایا اور بولا:- ’’میفسٹو ، آپ کی خدمت میں حاضر ہے‘‘۔
لیکن اس کی آنکھیں جو فاؤسٹ کی نظروں سے پوشیدہ تھیں ، تمسخر و تضحیک سے چھلک رہی تھیں ۔
فاؤسٹ تن کر سیدھا کھڑا ہوا اور مسکرا کر میفسٹو سے بولا ۔’’کیا تم میرا حکم مانو گے اور تمہارے ساتھ دنیا کی اور سب روحیں بھی میری تابع ہیں ، پورے ایک دن کے لیے؟‘‘
میفسٹو نے ریت گھڑی پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ۔ ’’جب تک کہ اس ریت کا آخری ذرہ نہ گر جائے ۔ بتا تو مجھ سے کیا کام لینا چاہتا ہے؟‘‘۔
’’کا م کا انتخاب کرنا بہت دشوار ہے ۔ میری بہت سی آرزوئیں ہیں ۔ اِس لمحے تک میں مُردہ تھا ۔ میں نے تو اب زندگی شروع کی ہے ۔ میری ساری زندگی ضائع ہوئی ۔ میرے پاس وافر علم ہے مگر مجھے اس کی مطلق ضرورت نہیں ۔ اب میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔ مجھے زندگی دے ۔ میں اس سب کچھ کا آرزومند ہوں جو دنیا دے سکتی ہو‘‘۔
’’خائف نہ ہو۔ میں ساری خواہشوں میں تیری خدمت کروں گا ۔ دیکھ!‘‘۔
میفسٹو نے جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ بھٹی کی طرف اٹھایا جس میں سے کُہر کی طرح دھندلی سی ایک شکل آہستہ آہستہ برآمد ہو رہی تھی ۔ یہ شکل رفتہ رفتہ جامد ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ فاؤسٹ کے سامنے ایک ایسی عریاں دوشیزہ کھڑی نظر آئی جسے دیکھنے سے نظر خیرہ ہوتی تھی ۔ دودھ جیسی سفید رنگ اور چمکدار سرخ بال تھے ۔ اس میں جان تھی کیونکہ اس کی رگوں میں خون دوڑ رہا تھا اور اس کے تنفس کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ اس کا چہرہ حسین و معصوم تھا مگر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ اور آنکھوں میں جو جذبہ جھلک رہا تھا ، اس سے آرزوئے ہم آغوشی ٹپک رہی ہے ۔
میفسٹو کی آنکھوں میں عجیب قسم کی چمک تھی ۔ اس نے فاؤسٹ کے چہرے کو بغور دیکھا اور اس کے چہرے پر بہیمانہ اطمینان چھا گیا اور آپ ہی آپ بولا ۔’’ پھر فتح ہوئی ، فرزیں(شطرنج کے وزیر) کی کیسی چال نکلی ہے ۔ بساط پر ایسی کوئی اور چال نہیں چلی گئی ۔ اب بازی میرے ہاتھ ہے ۔ تیرے ساتھ میں نے کتنی اور روحوں کو اپنے جال میں پھانس لیا ! اسپ بوڑھوں کے لیے ، رخ عورتوں اور فرزیں جوانوں کے لیے‘‘۔
فاؤسٹ حسین دوشیزہ کی طرف بڑھا لیکن پیچھے سے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا گیا اور وہ ٹھہر گیا ۔ میفسٹو اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ آنکھیں خوفناک اور حقارت آمیز تھیں ۔ اس کے ایک اشارے پر وہ حسین شکل غائب ہو گئی ۔ فاؤسٹ مسکراتا ہوا پلٹااور بولا:-
’’آہ ! میفسٹو ! فریبِ نظر ! مجھے حکم دینا پڑے گا کہ ایسی اور شکلیں تو مجھے نہ دکھائے ۔ دنیا کی صرف وہی چیزیں مجھے دکھا جن کا حقیقی وجود نہ ہو ، زندگی کی چیزیں‘‘۔
میفسٹو نے طنز سے جواب دیا ۔ ’’فریبِ نظر کیا ہوتا ہے اور حقیقت کسے کہتے ہیں ؟ انسان کہاں ختم ہوتا ہے اور خواب کہاں شروع ہوتا ہے؟‘‘
’’مجھے التباس اور فلسفہ کی ضرورت نہیں ہے میفسٹو ۔ ان کا تعلق پرانے فاؤسٹ سے تھا ۔ آج تو میں حقیقی دنیا کو دیکھنا چاہتا ہوں – وسیع خارجی دنیا‘‘۔
اس کا جواب میفسٹو نے اس طرح دیا کہ بڑی پھرتی سے اپنا چغہ کھول کر پھیلا دیا اور بڑی خوشنمائی سے احتراماً جھک کر فاؤسٹ سے کہا۔’’آپ نے حکم دیا ہے ۔ آئیے ، میرے چغہ پر کھڑے ہو جائیے‘‘۔
فاؤسٹ نے استعجاب سے اس کی طرف دیکھا اور اس کے چغے پر جا کھڑا ہوا ۔ میفسٹو بھی اس کے برابر میں کھڑا ہو گیا اور فاؤسٹ کی کمر میں اپنا ہاتھ مضبوطی سے ڈال کر بولا:۔ ’’میں آپ کو ساری دنیا دکھاؤں گا ‘‘۔
فاؤسٹ نے پُراشتیاق نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور بولا :- ’’مجھے صرف دنیا کا عیش دکھانا‘‘۔
’’جیسی آپ کی مرضی ہو ۔ آئیے‘‘۔
اُس نے فاؤسٹ کی کمر مضبوطی سے پکڑ لی اور نظر جما کر اور پیشانی پر بَل ڈال کر کھڑکی کی جانب دیکھا ۔ پوری کی پوری کھڑکی دیوار میں سے علیٰحدہ ہو کر باہر کے رخ نیچے سڑک پر جا پڑی ۔اُن کے پیروں تلے چُغہ لرزا اور پھر زمین سے اونچا ہو گیا گویا اس پر کوئی بوجھ ہی نہیں تھا ۔ تھوڑی سی دیر تک میز کے اوپر معلق رہا اور ساکت ہو گیا گویا عقل رکھتا ہے اور منتظر ہے کہ اس کے مالک ذرا جھک جائیں تو آگے بڑھے ۔ پھر جھکولا(جھولا) کھا کر اس نے گویا چلنے کا ارادہ کیا اور تیزی سے کھڑکی میں سے نکل کر ہوا میں تیرنے لگا ۔
جب وہ باہر نکل آئے تو وہ اونچے ہوتے گئے اور جب گرجا کے قریب سے گزرے تو میفسٹو نے اپنا منہ پھیر لیا اور تیزی سے چکر کاٹ کر آگے بڑھ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں روڈا سے کئی میل نکل گئے ۔
ہوا ان سے ٹکڑا ٹکڑا چیخ رہی تھی مگر فاؤسٹ نے دیکھا کہ تیز ہوا کے فراٹوں سے نہ تو اس کا سانس گھٹ رہا ہے اور نہ آنکھیں جھپک رہی تھیں ۔ پیروں تلے جو چغہ تھا، پتلا تھا لیکن جامد محسوس ہو رہا تھا ۔ اس پر سے جھک کر وہ اپنے نیچے سب کچھ دیکھ سکتا تھا ۔ منظر بڑی تیزی سے اس کی نظروں کے سامنے بدل رہا تھا ۔
میفسٹو نے پوچھا : – ’’کون سا ملک دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔
’’پہلے مجھے دیکھ لینے دے ۔ پھر بتاؤں گا‘‘۔
بغیر کسی حکم کے چُغہ نے اپنا رنگ بدل دیا اور جنوب مشرق کی سمت میں روانہ ہوا ۔ کئی علاقوں پر سے اسی طرح وہ گزرتے رہے ۔ دریا، پہاڑ ، کوہستان ، تالاب اور جنگل بھاگے چلے جا رہے تھے ۔ اِنہیں فاؤسٹ دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پیڈوا کی جامعہ کے زاویہ علمی میں بیٹھا دنیا کی بڑی سی گیند گھومتی دیکھ رہا ہے ۔
میفسٹو نے کہا :- ’’ اگر کسی ملک کو قریب سے دیکھنا چاہو تو کہہ دینا ۔ چغہ وہیں ٹھہر جائے گا اور اگر وہاں اترنا چاہو گے تو اتر سکو گے‘‘۔
کوہ الپس کی اونچی برف پوش چوٹیوں پر سے وہ گذرے اور فاؤسٹ نے اپنے نیچے جھیلیں دیکھیں جو نیلم کی طرح چمک رہی تھیں ۔ جب بحرِ روم پر سے گزرتے تو فاؤسٹ کے کہنے کے مطابق وہ ذرا نیچے اتر آئے اور چغے کی رفتار بھی بہت کم ہو گئی ۔ نیچے بادبانی جہاز تیر رہے تھے ۔
میفسٹو نے کہا :- ’’ہسپانیہ کے عظیم الشان جہازوں کی ابتداء انہی سے ہو گی اور ان کی تباہی بھی دور نہیں ہے‘‘۔
سمندر پر سے وہ گزر گئے ۔ کوہِ اطلس کو عبور کر کے ریت کے وسیع صحرا پر اڑنے لگے ۔ گرم سورج کی دھوپ میں یہ صحرا سلگ رہا تھا اور اس کی ریت کی چمک سے نظر خیرہ ہوتی تھی ۔ اس کے بعد جنگل اور گھنے بنوں پر سے ہوتے ہوئے ساحل پر آئے جہاں ذرا سا توقف کیا ۔
میفسٹو نے بتایا:-۔ ’’یہ حبش ہے جہاں کے باشندوں کی قسمتیں عنقریب اُن سفید چمڑی والوں کی قسمتوں سے مل جائیں گی جو سمندر پار نو یافتہ ملکوں میں رہتے ہیں ۔ سفید قوموں نے میری خدمت بہت کی ہے، اور قوموں کے مقابلے میں میرے احکام ماننے کے لیے یہ لوگ بہت آمادہ رہتے ہیں‘‘۔
فاؤسٹ نے اشتیاق ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ وہ ملک جو حال میں معلوم ہوئے ہیں ! ہاں میں نے ان کا ذکر سنا ہے ۔ میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ مجھے وہاں لے چلو میفسٹو‘‘۔
اب وہ پھر جادو کی سی تیزرفتاری سے روانہ ہوئے ۔ سمندر پرسے گزرے ، سورج کو دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا ، ہوا کے جھکّڑوں اور طوفانوں میں سے گذر گئے ۔ فطرت کے خوفناک مظاہر سے مامون و مصُون(محفوظ) رہے ۔ علاوہ ا س وقت کے جب بادل آ جاتے تھے ، فاؤسٹ سب کچھ دیکھتا جا رہا تھا ۔ سمندر کا لامتناہی سینہ ابھر رہا تھا اور دب رہا تھا اور اس کا رنگ بدل رہا تھا ۔ ابھی پرسکون و خاموش ، ابھی منتشر و پُرخروش ، جیسے کسی نے بِلو دیا ۔ پانی کے اونچے اونچے فوارے چھوٹتے تھے اور پہاڑ جس میں موجیں اٹھتی تھیں ۔ بڑی بڑی وھیل مچھلیاں پانی میں کھیل رہی تھیں اور ان کے سروں میں سے پانی کی اونچی اونچی دھاریں نکل رہی تھیں ۔ مگر فاؤسٹ کے لیے یہ سمندر ایک اُجاڑ منظر پیش کر رہا تھا کیونکہ اس پر نہ تو جہاز تھا اور نہ انسان۔
میفسٹو نے اس کے خیالات معلوم کر لیے ۔ جبھی تو اُس نے کہا :-’’فاؤسٹ ، ایک دن ایسا آئے گاکہ اس سمندر کی سطح پر نشاناتِ راہ قائم کیے جائیں گے ۔ بڑے بڑے راستے بنیں گے اور چھوٹے راستے نکالے جائیں گے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح تمہاری سیکسنی میں سڑکیں ہیں ۔ بڑے بڑے جہاز جن کا سان گمان بھی تمہیں نہیں ہو سکتا، اس طرح آئیں جائیں گے جس طرح ہوا میں پرندے اڑتے ہیں ۔ کئی جہاز پرانی دنیا سے راستہ بھٹک کر سمندر سے لڑتے لڑاتے اِن نئی دنیاؤں میں پہنچے مگر صرف ایک ہی یہاں سے واپس جا سکا ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ باقیوں کا کیا حشر ہوا ، سوائے میرے‘‘۔ اور جب یہ کہہ کر اس نے کنکھیوں سے فاؤسٹ کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر تمسخر کے آثار تھے ۔
جب دوبارہ زمین نظر آئی تو فاؤسٹ کو ایسا معلوم ہوا کہ کافی طویل عرصہ ہو گیا ۔ پھر اسے کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے اس طرح پھیلے ہوئے نظر آئے جیسے ستارے بکھرے پڑے ہوں ۔ اس کے بعد ہی وہ نئے براعظم پر اڑ رہے تھے ۔ یہ ملک گرم اور شاداب تھا ۔ اس میں بڑے بڑے جنگل کھڑے جھوم رہے تھے اور سرسبز کوہستانوں سے لدا مسکراتا نظر آتا تھا ۔
میفسٹو نے اسے دیکھ کر کہا ۔’’ اس ملک کو دریافت کیے ہوئے مشکل سے سفید فام قوموں کو ایک پشت گذری ہو گی مگر اس تھوڑے ہی سے عرصے میں انہوں نے میرے نام کو کافی فروغ دیا ہے ۔ کیونکہ میں حاکم ہوں ، اس دنیا کا حاکم ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے حقارت سے ایک قہقہ لگایا ۔ پھر احتراماً فاؤسٹ کے آگے اپنا سر ذرا سا جھکا کر بولا ۔ ’’اب کدھر! کیا تم نے اپنے عشرت کدہ کے لیے کسی مقام کو منتخب کر لیا ؟ کیا ان ملکوں میں چلو گے جہاں ابدی برف کا تسلّط ہے ؟ یا ان پوشیدہ مقامات کو چلنا چاہتے ہو جہاں آج تک انسان نے قدم نہیں رکھا ؟ یا تم چاہتے ہو کہ میں اپنے چغے کو حکم دوں کہ مشرق میں ہمیں لے چلے ۔ چین یا کسی اور ملک کو جس کا ذکر تم نے پڑھا ہو یا سنا ہو اور اپنی آنکھوں سے اسے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو‘‘۔
’’نہیں ، میفسٹو ! مجھے تنہائی کی جستجو نہیں ہے اور نہ میں اِسے پسند کرتا ہوں کہ ایسے اجنبی لوگوں میں پھروں جو عجیب عجیب زبانیں بولتے ہیں ۔ گھڑیاں تیزی سے گزر رہی ہیں ۔ میرا وقت بہت کم ہے ۔ مجھے میرے ہم جنسوں میں لے چلو جہاں میں نے اپنی طالب علمی کا زمانہ گزارا تھا ، اور یہی وہ زمانہ ہے جسے میں یاد کرتا ہوں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے‘‘۔
میفسٹو نے کہا ۔ ’’اچھا تو پھر اطالیہ چلو‘‘۔
چغے نے چکر کاٹا اور پھر فرّاٹے بھرنے لگا ۔ برق رفتاری سے ہوا چیخ رہی تھی ۔ سمندر پر سے اِس تیزی سے گزرے کہ فاؤسٹ کو صرف ایک مسلسل چمک نظر آ رہی تھی اور بس ۔
رفتار کچھ دھیمی ہوئی اور جب خشکی قریب آتی دکھائی دی تو فاؤسٹ کی بے صبری کچھ کم ہوئی ۔
جب اس پر سے گذرے تو میفسٹو نے کہا ۔ ’’یہ اِنگلستان ہے ۔ ذرا سا جزیرہ ہے مگر ایک دن ساری دنیا پر حکومت کرے گا اور بہت عرصے تک حکومت کرے گا‘‘۔
اب وہ آہستہ آہستہ اڑ رہے تھے اور فاؤسٹ شہر، گاؤں اور قریوں کو پہچانتا جا رہا تھا ۔ فرانس پر سے وہ پھر تیز ہو گئے ۔ جرمنی اور اپنے محبوب سیکسنی پر سے ہوتے ہوئے ایلپس کو عبور کیا اور پھر سوئزرلینڈ میں آگئے اور اس کے بعد وہ اطالیہ کی فضاؤں میں اڑ رہے تھے ۔
دن ختم ہو رہا تھا اور ایک شاندار شہر میں انہیں روشنی کے نقطے نقطے سے نظر آ رہے تھے ۔
ان کے گرد ہوا کا جو شور تھا ملتوی ہو گیا ۔ چغہ کی رفتار ختم ہو گئی اور وہ ٹھہر گیا ۔ ہلکی گرم ہوا کے جھونکے آنے لگے اور ان سے چغہ پھڑپھڑانے لگا ۔
فاؤسٹ نے چغہ پر سے جھک کر دیکھا اور میفسٹو نے تمسخر آمیزنظر سے اس کی طرف دیکھا ۔ ایک دم سے آتش بازی کا سیلاب سا اٹھا ۔ سونے کے فوارے چھوٹنے لگے ، چمکدار رنگوں کے ستارے ، نارنجی شعلے اور سانپ کی طرح بَل کھاتی شکلیں نظر آئیں ۔
فاؤسٹ نے کہا ۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑی خوشی منائی جا رہی ہے ۔ اس کے ذرا قریب چلیں تاکہ اچھی طرح دیکھیں‘‘۔
چغہ تیزی سے نیچے اترا مگر ہموار رہا ، یہا ں تک کہ نیچے بِھیڑ میں اسے لوگ چلتے پھرتے اور ناچتے نظر آنے لگے ۔ جس جگہ آتش بازی چھوٹ رہی تھی ، وہاں فاؤسٹ کی نظر جم کر رہ گئی ۔ ناچ بڑھ رہا تھا اور تھوڑے تھوڑے وقفوں سے موسیقی اور سب کے مل کر گانے کی مدھم آواز بھی آ رہی تھی ۔
میفسٹو اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان میں وہ ریت گھڑی تھی جو فاؤسٹ کے معمل میں رکھی رہتی تھی۔ آدھی سے زیادہ ریت گر چکی تھی ۔ بدی سے ہنس کر اس نے ریت گھڑی ہوا میں اچھال دی اور وہ غائب ہو گئی ۔
نیچے جو منظر پیشِ نظر تھا ، فاؤسٹ اس میں منہمک تھا ۔ سامنے ایک عالیشان محل تھا جس کے احاطے میں یہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں ۔
اُس نے میفسٹو کی طرف مڑ کر دیکھا اور پوچھا ۔ ’’یہ خوش عیشیاں کس تقریب میں منائی جا رہی ہیں‘‘۔
شیطان نے جھک کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا: – ’’پرما کی نواب بیگم کی آج شادی ہوئی ہے جو اطالیہ کی حسین ترین اور سب سے زیادہ مغرور عورت ہے‘‘۔
فاؤسٹ نے چونک کر کہا ۔ ’’پرما کی نواب بیگم ! بھلا کوئی ایسا بھی ہے جس نے اُس کا ذکر نہ سنا ہو ! وہ تو سارے یورپ میں اپنے حسن کی شہرت رکھتی ہے ۔ میں اِس حسین ہیلن کو دیکھوں گا‘‘۔
میفسٹو او ر قریب ہو گیا اور فاؤسٹ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ پھر اپنا منہ فاؤسٹ کے کان سے لگا کر آہستہ اور صاف بولا :- ’’یہ تیری ہو گی —- آج رات کو‘‘۔