فاؤسٹ (حصہ اول: ساتواں باب)
شیطان غائب ہو چکا تھا اور فاؤسٹ اپنی کلائی پر خون کے قطرے کو دیکھ رہا تھا اور اس معاہدے کے الفاظ پر غور کر رہا تھا جس پر اس نے دستخط کیے تھے ۔
’’ہاں ! میں نے اپنا نام اور اپنا خون دیا ہے مگر رُوح نہیں دی ہے ۔ چوبیس گھنٹے! بہت کچھ کرنا ہے‘‘۔
دروازے پر زور سے کھٹ کھٹ ہوئی اور بہت سی آوازوں نے باہر سے فاؤسٹ کو بلایا ۔ یہ آوازیں التجا اور غم سے بھری ہوئی تھیں جنہیں سن کر فاؤسٹ کا دل بھر آیا ۔ وہ کمرے سے گزر کر کھڑکی کے پاس گیا ، اسے کھولا اور نیچے جھانک کر دیکھا ۔
جب فاؤسٹ جھانکا تو نیچے سے لوگوں نے اس کی طرف دیکھا ۔
’’فاؤسٹ ، ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہماری مدد کر‘‘۔
’’مصیبت زدہ لوگو ۔ ٹھہرو ، میں ابھی آیا‘‘۔
یہ کہہ کر فاؤسٹ نے دروازے کی چٹخنی پر ہاتھ رکھا مگر ذرا سی دیر کے لیے کسی فکر میں پڑ گیا ۔
’’میں اس طرح لوگوں کو بچاؤں گا …… ابلیس کا نام لے کر‘‘۔
اور دروازہ کھول کر وہ مجمع کے سامنے آیا جو اس کے دروازے تک سیڑھیاں طے کر کے پہنچ گیا تھا اور ایک عورت دوڑ کے آگے آئی اور فاؤسٹ کی ٹانگوں سے لپٹ کر پُر التجا نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
’’فاؤسٹ ! فاؤسٹ ! میرا شوہر ! بہت نیک آدمی ۔ دنیا بھر میں سب سے نیک آدمی ۔ وہ مر رہا ہے ۔ تو مقدس بزرگ ہے ۔ اُسے اچھا کر دے ، فاؤسٹ‘‘۔
’’اُسے میرے پاس لاؤ‘‘۔ فاؤسٹ نے کہا ۔
دو جوان آدمی اُسے ڈولی میں ڈال کر سیڑھیوں پر لائے اور اُسے فاؤسٹ کے قدموں میں لٹا دیا ۔ فاؤسٹ اُس پر جھکا ۔ اپنا ہاتھ اس کے دل پر رکھا اور اپنے دل میں کہا: – ’’ابلیس کے حکم سے اُٹھ‘‘۔
اثر حیرت انگیز تھا ۔ وہ شخص سیدھا اٹھ بیٹھا اور اپنے چاروں طرف تعجب سے دیکھنے لگا ۔ اُسے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بڑی گہری نیند سو رہا تھا اور کسی نے ایک دم سے زور سے گھنٹی بجا دی ۔ دیکھنے والے سکتے کے عالم میں رہ گئے اور پھر تعجب سے چیخنے لگے ۔ وفورِ مسّرت سے سب کے سب مل کر چیخے۔’’ معجزہ ! معجزہ!‘‘
ایک جوان عورت نے فاؤسٹ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور بڑی منّت سماجت سے بولی: – ’’اے فاؤسٹ ، خدا کے نیک بندے ۔ میری ماں ! اُسے بھی اچھا کر دے ۔ اسے بچا دے اور جب تک میں جیتی رہوں گی روزانہ تیرے لیے مسیح سے دعا مانگا کروں گی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی بیمار ماں کی طرف اشارہ کیا جو ایک چٹائی پر سیڑھیوں کے قریب پڑی تھی ۔
فاؤسٹ اتر کر اُس کے قریب گیا ۔ لوگ تعظیم سے اس کے لیے راستہ چھوڑنے لگے اور جب وہ قریب سے گذرتا تو اس کے چغے کا دامن چومتے تھے۔ وہ اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا ۔ مگر بے چین تھا ۔ کیونکہ اُسے ایک دم سے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی مخالف قوت اپنا اثر دکھا رہی ہے ۔ فاؤسٹ نے مریضہ کے چہرے کی طرف دیکھا اور خوف نے اسے گھیر لیا ۔ کیونکہ اس کے سامنے علامت تھی جو اس کی کوششوں کو رد کر رہی تھی۔ اس کے سینے پر مقدس صلیب رکھی تھی ۔
فاؤسٹ نے اپنا سارا زور صرف کر دیا کہ اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دے لیکن نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے اُسے ہٹا ہٹا دیا ۔ پھر وہ آگے بڑھا اور بولا :- ’’میں تجھے واسطہ دیتا ہوں …..‘‘۔
لیکن وہ نام تو کیا اُس کی ہوا تک لبوں پر نہ آسکی ۔ اس نے چاہا کہ رد کرنے والی طاقت کے مقابلے میں زبردستی اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ دے لیکن اس کی کلائی میں ایسا درد ہوا کہ وہ تلملا گیا ۔ جیسے کسی نے دہکتی تلوار کا وار کیا اور اس کا ہاتھ بے کار ہو کر لٹک گیا ۔ اس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا اور اس کی پیشانی پر پسینہ کے موٹے موٹے قطرے نمودار ہو گئے ۔ تنفس تیز ہو گیا اور ذہنی انتشار کی وجہ سے وہ لرزہ براندام تھا ۔ اپنی مخالف قوت – صلیب – سے مقابلہ کرنے کے لیے وہ پھر جھکا اور اپنے دشمن کو زیر کرنے کی اس نے ایک کوشش اور کی ۔ جس طرح اپنی جان بچانے کے لیے کوئی تیراک موجوں سے لڑتا ہے ، اس طرح فاؤسٹ بھی صلیب کی طرف سے نظریں پھیرے عورت کے سینے کے قریب ہونے کی کوشش کرتا رہا ۔
لیکن لڑکی نے ، جو اب دم توڑتی عورت کے سر کو سہارا دیے ہوئے تھی ، فاؤسٹ کی پریشانی کو دیکھ کر صلیب کو منہ کے سامنے کر دیا اور رو رو کر کہنے لگی ، ’’فاؤسٹ ! اِسے بچا ۔ مسیح کے صدقے میں‘‘۔
فاؤسٹ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا جیسے کسی نے زور سے اس کے منہ پر گھونسہ مارا ہو ۔ اس کا سانس گھٹ رہا تھا ۔ سر پیچھے کو پڑا ہوا ، ہاتھ آگے کو پھیلے ہوئے گویا کسی نامعلوم زبردست دشمن سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
خوف کی ایک سرگوشی چاروں طرف سنائی دی :- ’’وہ مقدس صلیب کا سامنا نہیں کر سکتا‘‘۔
فاؤسٹ اپنی سیڑھیوں پر گرتا پڑتا چڑھا ۔ وہ اُس زبردست قوت سے خائف ہو کر بھاگ رہا تھا جس کا مقابلہ کرنے کی اس نے کوشش کی تھی اور جس نے اسے پسپا کر دیا تھا ۔
غصے کا شور بلند ہونے لگا ۔ ایک شخص نے چیخ کر کہا :- وہ معجزہ دکھاتا ہے مگر شیطان اس کی مدد کرتا ہے ۔ سنگسار کرو اِسے‘‘۔
ہر طرف سے آواز اٹھی ۔ ’’ہاں ، اسے سنگسار کرو ۔ شیطان کے خادم کو سنگسار کرو‘‘۔
پتھر کی ایک کتل (اینٹ) ہوا میں سے بھنّاتی ہوئی آئی اور فاؤسٹ کے سر پر سے گزر کر دروازے میں زور سے لگی ۔ اِس کے بعد ہی پتھروں کی ایک بوچھاڑ آئی جیسے چڑیوں کا جھلِّڑ(غول) ہو ۔ ان میں سے کچھ تو دروازے میں لگے ، کچھ دیوار میں اور کچھ فاؤسٹ کے بھی لگے ۔ فاؤسٹ کے ڈھیلے ڈھالے چغے نے اسے ان پتھروں کی ضرب سے بڑی حد تک محفوظ رکھا مگر ایک کتل اُس کی پیشانی پر لگی اور لگی بھی اتنے زور سے کہ اُس کا سر چکرا گیا اور خون بہہ کر اُس کی آنکھوں میں آگیا ۔
فاؤسٹ پلٹ کر بھاگا ۔ دروازہ جلد سے جلد کھول کر اندر سے بند کر لیا اور چٹخنی چڑھا دی ۔ پتھروں کی بوچھاڑ دروازے پر پڑ رہی تھی اور غیظ و غضب کا شور بڑھتا جا رہا تھا ۔ ڈگمگاتے قدموں سے وہ اپنے معمل (لیبارٹری) میں داخل ہوا ۔ شکستِ تمنا و آرزوِ نارسیدہ سے اُس کا دل ڈوب رہا تھا ۔ مرنے والی عورت کے جسم پر جس نامعلوم قوت سے اسے سابقہ پڑا تھا اُس کے خیال سے وہ لرز رہا تھا ۔
تو یہ تھا نتیجہ اس کے سارے ایثار کا اور اس کے لیے اس نے اپنی غیرفانی روح کو خطرے میں ڈالا تھا ۔
پتھر اب اس کے معمل (لیبارٹری) کی کھڑکی پر برس رہے تھے ، یہاں تک کہ ان میں ایک شیشہ بھی سلامت نہیں رہا ۔
اُس نے اپنی زندگی کے آخری سال کا جوا کھیلا تھا اور اپنی آئندہ زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا ۔ اِس امید میں کہ روڈا کو وبا سے نجات دلا سکے گا اور وہ ہار گیا تھا ، اپنا سب کچھ ہار چکا تھا ۔ پھر اسے یاد آیا کہ جو معاہدہ اس نے کیا تھا اُسے ریت کے ختم ہو جانے سے پہلے فسق کر دینے کا اُسے اختیار تھا۔
اُس نے تکلیف و غم سے چیخ کر کہا ۔ ’’میرے لیے زندگی اب کیا حقیقت رکھتی ہے ۔ مجھے زندہ رہنے کی تمنّا نہیں ۔ میری آرزوئیں ختم ہوئیں ۔ میرا عقیدہ فنا ہو چکا ۔ علم کو میں نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ۔ اب ایسے فرائض بھی نہیں ہیں جنہیں میں انجام دوں ۔ ایثار و قربانی بھی بے اثر و بے سود ہے ۔ زندگی تو ایک عذاب ہے‘‘۔
ایک دم سے اُسے خیال آیا کہ اگر وہ اسی عرصہ میں مر جائے تو شیطان سے جو معاہدہ اس نے کیا ہے وہ ازخود فسق ہو جائے گا ۔
اپنے دل میں اس نے کہا ۔ ’’ہاں ، یہ ٹھیک ہے ۔ ایسا ہی ہو گا‘‘۔
اُس نے ایک بڑی سی الماری کھولی اور ایک سیاہ رنگ کی بوتل اس میں سے نکالی ۔ اس پر مردے کی کھوپڑی بنی ہوئی تھی جس کے اوپر قوس کی شکل میں یہ الفاظ لکھے تھے ، ’’پیو اور بھول جاؤ‘‘۔ اس میں سے تھوڑا سا عرق شیشے کے ایک اُتھلے پیالہ میں نکالا ۔ یہ عرق بے رنگ تھا اور اس میں ہلکی خوشگوار خوشبو تھی ۔ پیالے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر فاؤسٹ نے اپنے لبوں تک اٹھایا اور بولا: –
’’مجھے نجات دلا ، اے جامِ موت‘‘۔
جیسے ہی پیالے سے اُس کے لب چھوئے ، ایک سایہ سا تیرتا ہوا دیوار میں سے نکلا اور اس نے شکل اختیار کرنی شروع کی ۔ ایک ہاتھ نے اس کی کلائی پکڑ لی اور شیطان اس کے سامنے کھڑا تھا ۔
’’نہیں ۔ تو اس طرح مجھ سے بچ نہیں سکتا ۔ ریت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے مایوس انسان کے کپکپاتے ہاتھوں سے پیالہ لے لیا ۔
فاؤسٹ نے پوچھا ۔ ’’تو کیا انسان اپنی موت کے لیے کوئی وقت پسند نہیں کر سکتا‘‘۔
شیطان نے پیالہ ایک دفعہ پھر اٹھایا اور کہا ۔ ’’اِس کے اندر دیکھ‘‘۔
فاؤسٹ نے پیالے کے اندر دیکھا اور اُس میں اُسے وہی بے رنگ زہر نظر آیا ۔ مگر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ گدلا ہو گیا اور دودھیا ہو کر اس میں طرح طرح کے چمکدار رنگ نظر آنے لگے ۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس میں جان پڑ گئی ہے ۔ ایک ہی لمحے بعد گدلا پن چھٹ گیا اور اس کے پیشِ نظر ایک عجیب و غریب منظر تھا ۔ یہ منظر ایک خواب تھا جوانی اور زندگی کا ۔ ایک چہرہ اس میں سے اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا، یہ کسی نوجوان کا چہرہ تھا جو شباب کی گرمجوشی اور روح کی ترنگ کی کہانی سنا رہا تھا ۔ زندگی کے لطف اور اپنی قوتوں پر اعتماد کی غمازی کر رہا تھا ۔
جوانی نے فاؤسٹ کے دل پر ہمیشہ اثر کیا تھا مگر شباب کی ایسی شاندار تصویر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ چھلکتی ہوئی جوانی ، تڑپا دینے والا شباب ۔
اس نے اپنے دل میں کہا ۔ ’’یہ کیا ہے جو میں اس موت کے پیالے میں دیکھتا ہوں‘‘۔
’’موت نہیں ، فاؤسٹ ۔ بلکہ زندگی ، جو تجھے جوانی کے حسین تصور سے موہ رہی ہے‘‘ ۔ شیطان نے اس کے کان میں کہا ۔
’’تو کون ہے جو زندگی کا ذکر کر رہا ہے؟‘‘۔
’’تو کیا سمجھ رہا ہے کہ میں کون ہوں ؟ میری بہت سی شکلیں ہیں ، لیکن تو مجھے خوب جانتا ہے ۔ اے فاؤسٹ ! میں میفسٹو ہوں‘‘۔
’’تو مجھے یہ حسین خواب دکھا کر میرا ہاتھ کیوں روکتا ہے؟ مجھے آئندہ زندہ رہنے کی کوئی تمنا نہیں ہے‘‘۔
’’بے بس فاؤسٹ ، تو موت کی آرزو کیوں کرتا ہے ۔ تو جس نے کہ ابھی زندہ رہنا بھی شروع نہیں کیا‘‘۔
’’مجھے زندگی سے نفرت ہے‘‘۔ بے کس معلّم نےدردواذیت سے چیخ کر کہا ۔
’’پیالے میں پھر دیکھ‘‘۔ میفسٹو نے کان میں کہا ۔
فاؤسٹ نے دیکھا ، جوانی کی تصویر مٹ چکی تھی ۔ بلبلے تیزی سے اُٹھ رہے تھے اور عرق ابلتا معلوم ہوتا تھا ۔ اس کا جوش جاتا رہا ۔ روشنی کے نقطے اور تاریکی کے دھبے اس کی سطح پر متحرک نظر آئے ۔ ان سب سے آہستہ آہستہ ایک تصویر بنی ۔ خوفناک ، بھیانک ، اس کے سامنے چند ٹوٹی ہوئی ہڈیا ں پڑی تھیں ۔ ایک کھوپڑی تھی جس میں کیڑے کلبلا رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کھوپڑی کے جو مدھم خدوخال نظر آرہے تھے ، وہ خود فاؤسٹ ہی کے تھے ۔
میفسٹو نے سانپ کے پھنکارے کی طرح پوچھا ۔ ’’کیوں ، فاؤسٹ ۔ تو کیا تو موت ہی کو پسند کرتا ہے ؟‘‘۔
فاوسٹ نے پیالے کو زمین پر دے مارا اور اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کر کرب و صعب(درد) سے چیخنے لگا :-
’’میں نے زندگی کو بہت دیکھا ہے ۔ مجھے اس سے نفرت ہے‘‘۔
’’نہیں فاؤسٹ‘‘۔ میفسٹو نے کہا ۔ ’’تو نے صرف کتابوں کو دیکھا ہے ، عیش نہیں دیکھا ۔ عیش ہی صرف زندگی ہے‘‘۔
’’میرے لیے عیش کس کام کا ۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں ۔ وقت نے میری کمر دوہری کر دی ۔ عیش کی اب میری عمر کہاں‘‘۔
’’میں تجھے جوانی دوں گا ۔ سب تحفوں سے بڑا تحفہ ۔ دیکھ! لے لے جوانی‘‘۔ یہ کہہ کر میفسٹو نے اُس زہر کی طرف اشارہ کیا جسے فاؤسٹ نے فرش پر پھینک دیا تھا اور جو بہہ کر یکجا ہو گیا تھا ۔
اس کی سطح پر اس نے پھر ایک نوجوان کی صورت دیکھی ، چونکا دینے والا شباب چمکدار آنکھیں اور غرور سے سر تنا ہوا ۔
میفسٹو نے اپنے ہاتھوں کے گھیرے میں فاوسٹ کے شانوں کو لے کر کہا :- ’’تو نے اپنی صورت کو دیکھا ۔ اگر تو صرف اِس خیال کو دل نشیں کر لے تو تُو ایسا ہی ہو جائے گا فاؤسٹ‘‘۔
فاؤسٹ کے منہ سے ایک لمبی چیخ نکلی جس میں امید و تکلف ، آرزو ، مایوسی اور خواہش کچھ عجیب طرح سے ملی ہوئی تھیں ۔
وہ میفسٹو کی طرف پلتا ۔ اس کے ہاتھ التجا میں پھیلے ہوئے تھے ۔ چہرہ زرد اور رحم طلب تھا ۔
جذبات سے گھٹی ہوئی آواز میں اس نے کہا ۔ ’’مجھے جوانی دیدے‘‘۔
ذہنی کشمکش سے بے دم ہو کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اورشیطان کے چہرے کو نہیں دیکھا کہ اس پر کیا بات پیدا ہوئی ، حالانکہ اس کا چہرہ فاؤسٹ سے اتنا ہی قریب تھا جتنے خود اس کے الفاظ ۔
آنکھیں بھڑک رہی تھیں اور چہرے پر بے رحمی چھائی ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے دل میں کہا ۔ ’’آخر پھانس ہی لیا میں نے تجھے‘‘۔